السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اسلامی بھائیو
اللہ کے علاوہ کسی کو بھی مدد کے لئے پکارنا یہ شرک ہے. اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے
إن الذين تدعون من دون الله عباد أمثالكم فادعوهم فليستجيبوا لكم إن كنتم صادقين ألهم أرجل يمشون بها أم لهم أيد يبطشون بها أم لهم أعين يبصرون بها أم لهم آذان يسمعون بها قل ادعوا شركاءكم ثم كيدون فلا تنظرون إن وليي الله الذي نزل الكتاب وهو يتولى الصالحين
ذرا غور کرو اللہ تم پر رحم فرمائے... فاعتبروا يا اولى الابصار
اور جان لو کہ اولیاء اور بزرگ تو کجا نبی اور رسول بھی خود اپنے نفع یا نقصان کے مالک بھی نہیں ہیں.تو دوسروں. کسی کے نفع اور نقصان کے مالک کیسے ہو سکتے ہیں.
قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ) الأعراف/188
اور وہ روایات جو آپ پیش کرتے ہیں جنگوں وغیرہ کے تعلق سے کہ صحابہ کرام نبی پاک کو دور دراز علاقوں سے مدد کے لئے پکا کرتے تھے. یہ سب روایات ضعیف اور موضوع ہیں. اللہ تمام مسلمانوں کو حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے... آمین
وعلیکم السلام برادر عبداللہ مقصود فیضی صاحب
غور فرمائیں:
پہلی گزارش یہ کہ قرآن کی آیت کو مس کوٹ مت کریں اس کا شان نزول دیکھنا ضروری ہوتا ہے اسکا درست ترجمہ پہلے دیکھ لیں
بیشک اللہ کو چھوڑ کر تم جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہاری طرح بندے ہیں تو تم ان کو پکارو اور پھر چاہیے کہ وہ تمہاری پکار کا جواب دیں اگر تم سچے ہو (الاعراف 194 195)۔
تدعون لفظ عبادت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ جبکہ وسیلہ بنانا اور کسی کو اللہ کی عطا سے مددگار سمجھنا عین قرآن شریف کا حکم ہے۔ اور ظاہر ہے کہ قرآن کی کوئی بھی آیت دوسری سے متصادم نہیں ہوسکتی ورنہ ان آیات کا کیا کریں گے جس میں صاف صاف فرمایا گیا ہے۔ ابتغوا الیہ الوسیلۃ بالاحسان ۔ یا یہ کہ سورۃ النساء کی آیت 64 جس میں نبی سے توبہ کی سفارش کروانے کا حکم آیا ہے۔ یا وہ کہ جس میں فرمایا گیا ہے کہ تمہارے مددگار اللہ اسکے رسول جبریل امین تمام ایمان والے اور پھر فرشتے ہیں۔
دوسرے بات یہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ اور جان لو کہ اولیاء اور بزرگ تو کجا نبی اور رسول بھی خود اپنے نفع یا نقصان کے مالک نیں ہیں تو دوسروں کسی کے نفع و نقصان کے مالک کیسے ہوسکتے ہیں۔ اور پھر آپ نے الاعراف ہی کی 188 ویں آیت دی ہے
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر ِ ٻ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ ڔ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ
اسکا بھی درست ترجمہ ملاحظہ کرلیں
آپ کہیے کہ میں اپنے نفس کے لیے کسی نفع اور ضرر کا مالک نہیں ہوں مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں (از خود) غیب کو جانتا تو میں (ازخود) خیر کثیر جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو صرف ایمان والوں کو (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والا اور (اخروی ثواب کی) بشارت دینے والا ہوں
تو جو اوپر آپ نے لکھا کہ اولیاء یا بزرگ یہ تو آپ نے اپنی مرضی کی من مانی تشریح ڈال دی جو نا تو 1300 سال کے اسلام میں کسی سلف نے کی نہ صحابی نے کی نہ ہی اسکا حکم قرآن نے دیا آپ یہ بتائیں حضرت یہ جہاں سے رٹا کاپی پیسٹ کررہے ہیں کبھی ان پر خود بھی غور فرمانے کی زحمت کرلیا کریں وہ آپ کو متن سے ہٹا کر آیات سے اپنے مطلب کی بات سمجھا کر بنیادی عقائدِ اسلام سے بے بہرہ کر رہے ہیں
تفسیر ملاحظہ فرمائیں سلف کی کہ آپ کے وہابی دیوبندی تفسیرات سلف کے بالکل الٹ بتاتی ہیں جیسے کہ لکھا ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : " آپ کہیے کہ میں اپنے نفس کے لیے کسی نفع اور ضرر کا مالک نہیں ہوں مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں (از خود) غیب کو جانتا تو میں (ازخود) خیر کثیر جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو صرف ایمان والوں کو (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والا اور (اخروی ثواب کی) بشارت دینے والا ہوں "
شیخ اسماعیل دہلوی کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخرت میں نفع رسانی پر انکار
اس آیت سے بعض لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تنقیص کرتے ہیں اور آپ کی شفاعت کی نفی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب آپ کو اپنے لیے نفع اور ضرر کا اختیار نہیں ہے تو دوسروں کو نفع کب پہنچا سکتے ہیں اور اس کی تائید میں ایک حدیث سے بھی استشہاد کرتے ہیں۔
شیخ اسماعیل دہلوی متوفی 1246 ھ لکھتے ہیں :
مشکوۃ کے باب الخلافت والامارت میں لکھا ہے کہ بخاری اور مسلم نے ذکر کیا کہ نقل کیا ابوہریرہ نے کہ جب اتری یہ آیت کہ ڈرا دے تو اپنی برادری کو جو ناتا رکھتے ہیں تجھ سے تو پکارا پیغمبر نے اپنے ناتے والوں کو، پھر اکٹھا کرکے پکارا اور جدا جدا بھی۔ سو فرمایا اے اولاد کعب بن لوی کی بچاو تم اپنی جانوں کو آگ سے کیونکہ بیشک میں نہیں اختیار رکھتا تمہارا اللہ کے یہاں کچھ، یا یوں فرمایا کہ بیشک میں نہیں کام آنے کا تمہارے اللہ کے یہاں کچھ، اور اے اولاد مرہ بن کعب، اے اولاد عبد الشمس کی بچاؤ تم اپنی جانوں کو اگ سے کیونکہ بیشک میں نہ کام آؤں گا، تمہارے اللہ کے یہاں کچھ، اور اے اولاد عبد مناف کی بچاؤ تم اپنی جان کو آگ سے کیونکہ بیشک میں نہ کام آؤں گا تمہارے اللہ کے یہاں کچھ، اور اے فاطمہ بچاو تم اپنی جان کو آگ سے، مان گلے مجھ سے جتنا چاہے میرا مال نہ کام آؤں گا میں تیرے اللہ کے یہاں کچھ، ف یعنی جو لوگ کسی بزرگ کے قرابتی ہوتے ہیں ان کو اس کی حمایت پر بھروسہ ہوتا ہے اور اس پر مغرور ہو کر اللہ کا خوف کم رکھتے ہیں۔ سو اس لیے اللہ صاحب نے اپنے پیغمبر کو فرمایا کہ اپنے قرابتویوں کو ڈرا دیوے۔ سو انہوں نے سب کو اپنی بیٹی تک کو کھول کر سنا دیا کہ قرابت کا حق ادا کرنا اسی چیز میں ہوسکتا ہے کہ اپنے اختیار میں ہو، سو یہ میرا مال موجود ہے اس میں مجھ کو کچھ بخل نہیں اور اللہ کے یہاں کا معاملہ میرے اختیار سے باہر ہے وہاں میں کسی کی حمایت نہیں کرسکتا، اور کسی کا وکیل نہیں بن سکتا، سو وہاں کا معاملہ ہر کوئی اپنا اپنا درست کرلے اور دوزخ سے بچنے کی ہر کوئی تدبیر کرے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فقط قرابت کسی بزرگ کی اللہ کے یہاں کچھ کام نہیں آتی جب تک کچھ معاملہ اللہ ہی سے صاف نہ کرے تو کچھ کام نہیں نکلتا۔ (تقویت الایمان کلاں ص 29، مطبوعہ مطبع علیمی لاہور)
شیخ اسماعیل دہلوی کی تقریر کا رد اور ابطال
شیخ اسماعیل دہلوی کی یہ تقریر حسب ذیل وجوہ سے باطل ہے :
1 ۔ شیخ اسماعیل دہلوی نے اس حدیث کا حوالہ غلط دیا ہے یہ حدیث مشکوۃ کے باب الخلافت و الارمات میں نہیں، باب الانذار و التحذیر کی فصل ثانی میں ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے مطبوعہ نسخوں میں ص 460 پر ہے اور بیروت کی طبع شدہ مشکوۃ رقم الحدیث : 5373 ہے۔ صحیح البخاری میں رقم الحدیث : 2753 ہے اور صحیح مسلم میں الایمان، 348 (204) 491 ہے۔ ترمذی میں قم الحدیث : 3192 ۔ سنن النسائی میں رقم الحدیث : 3644 ۔ السنن الکبری للنسائی میں قم الحدیث : 11377 اور مسند احمد میں، ج 6، ص 187 پر ہے۔
2 ۔ مشکوۃ میں اس حدیث کو امام مسلم کی روایت سے ذکر کیا ہے اور حضرت فاطمہ (رض) کو آگ کے عذاب سے ڈرانے کے بعد یہ جملہ ہے البتہ میرا تمہارے ساتھ رحم کا تعلق ہے میں عنقریب صلہ رحم کروں گا۔
غیر ان لکم رحما سابلہا ببلالہا شیخ اسماعیل دہلوی نے حدیث کے اس جملہ کو چھوڑ دیا، حالانکہ مشکوۃ میں مسلم کے حوالے سے یہ جملہ موجود ہے جہاں سے انہوں نے اس حدیث کو شروع کیا ہے۔
3 ۔ ملا علی قاری متوفی 1014 ھ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دینا چاہے تو میں تم سے اللہ کے عذاب کو بالکل دور نہیں کرسکتا، اور یہ قرآن مجید کی اس آیت سے مقتبس ہے۔ " قل فمن یملک لکم من اللہ شیئا ان اراد بکم ضرا او اراد بکم نفعا : آپ کہیے کہ اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے یا کوئی نفع پہنچانا چاہے تو اللہ کے مقابلہ میں کون ہے جو کسی چیز کا اختیار رکھتا ہو " (الفتح : 11) ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا " قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ما شاء اللہ : آپ کہئے کہ میں اپنے نفس کے لیے کسی نفع اور ضرر کا مالک نہیں ہوں، مگر جو اللہ چاہے ' (الاعراف :188) ۔ اور اس میں توحید کی بیان ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرچند کہ مومنین کو اپنی شفاعت سے نفع پہنچائیں گے کیونکہ آپ شفاعت کریں گے اور آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی لیکن آپ نے یہاں مطلقاً نفع رسانی سے منع فرمایا تاکہ انہیں عذاب سے ڈرائیں کہ وہ صرف شفاعت پر تکیہ نہ کرلیں اور ان کو آخرت کے لیے کوشش کی ترگیب دیں اور فرمایا میرا تمہارے ساتھ رحم کا تعلق ہے۔ میں عنقریب صلہ رحم کروں گا، میں یعنی میں اپنے قرابت داروں کے ساتھ قرابت کی وجہ سے نیکی اور احسان کروں گا۔ (المرقات ج 10، ص 105، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان، 1390 ھ)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی 1052 ھ لکھتے ہیں :
اس کا معنی یہ ہے کہ چونکہ مجھ پر تمہارے رحم اور قرابت کا حق ہے میں اس کی تری سے اس کو تر کروں گا اور صلہ اور احسان کا پانی چھڑکوں گا۔ اس حدیث میں بہت زیادہ مبالغہ کے ساتھ ڈرایا گیا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت اس امت کے گنہگاروں کے لیے بھی ہوگی چہ جائیکہ اپنے اقرباء اور خویشان کے لیے، اور احادیث سے ان کے حق میں شفاعت ثابت ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی بےنیازی کا خوف باقی ہے۔ (اشعۃ اللمعات ج 4، ص 371، 372، مطبوعہ مطبع تیج کمار لکھنؤ)
اہل بیت اور اپنے دیگر قرابت داروں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخرت میں نفع پہنچانا
امام احمد بن حنبل متوفی 241 ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابو سعید خدری (رض) نہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس منبر پر فرما رہے تھے : ان لوگوں کا کیا حال ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرابت آپ کی قوم کو نفع نہیں پہنچائے گی، بیشک میری قرابت دنیا اور آخرت میں مجھ سے ملی ہوئی ہے۔ اور اے لوگو ! جب تم حوض پر آؤ گے تو میں حوض پر تمہارا پیشوا ہوں گا۔ (الحدیث) ۔ (مسند احمد ج 3، س 18، دار الفکر طبع قدیم، اس حدیث کی سند حسن ہے، مسند احمد ج 10، رقم الحدیث : 11081)
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے میں اپنی امت میں سے اپنے اہل بیت کی شفاعت کروں گا، پھر جو ان سے زیادہ قریب ہوں، اور پھر جو ان سے قریب ہوں، پھر انصار کی شفاعت کروں گا، پھر ان کی جو مجھ پر ایمان لائے اور انہوں نے میری اتباع کی، پھر اہل یمن کی، پھر باقی عرب کی، پھر اعاجم کی۔ (المعجم الکبیر ج 12، رقم الحدیث : 13550 ۔ الکامل لابن عدی ج 2، س 790 ۔ کنز العمال رقم الحدیث : 34145 ۔ مجمع الزوائد ج 10، ص 381، 380 ۔ الفردوس بماثور الخطاب، رقم الھدیث : 29، اس حدیث کی سند میں حفص بن ابی داود متروک ہے اور لیث بن سلیم ضعیف ہے، اللآلی المصنوعہ ج 2، ص 374)
حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے رب عزوجل سے سوال کیا کہ میرے اہل بیت میں سے کسی کو دوزخ میں داخل نہ فرمائے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عطا فرما دیا۔ (الفردوس بماثور الخطاب 3403، کنز العمال، رقم الحدیث : 34149)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ (رض) سے فرمایا بیشک اللہ عز وجل نے فرمایا کہ وہ نہ تمہیں عذاب دے گا اور نہ تمہاری اولاد کو۔ (المعجم الکبیر ج 11، رقم الحدیث : 11685، حافظ الہیثمی نے کہا ہے کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ سے میرے رب نے میرے اہل بیت کے متعلق یہ وعدہ کیا ہے کہ ان میں سے جس نے توحید کا قارار کیا۔ میں ان کو عذاب نہیں دوں گا۔ (المستدرک ج 3، ص 150، حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، الکامل لابن عدی، ج 5، ص 1704، کنز العمال رقم الحدیث : 34156)
زید بن اسلام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت علی (رض) سے سرگوشی کی، پھر حضرت علی نے صفہ میں عقیل، حضرت حسین اور حضرت عباس سے حضرت ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر سے کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ پھر حضرت علی نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ہر سب (نکاح) اور نسب قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا سوا میرے سبب اور نسب کے۔ (المستدرک ج 3، س 142 ۔ المجعم الکبیر ج 3، رقم الحدیث : 2633، 2634، 2635 ۔ مصنف عبدالرزاق رقم الحیدث : 10354 ۔ السنن الکبری ج 7، ص 114 ۔ المطالب العالیہ، رقم الحدیث : 4258، ج 4، ص 271 ۔ 272 ۔ الجامع الصغیر رقم الحدیث : 6309)
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میں اپنی امت میں سے جس عورت کے ساتھ بھی نکاح کروں اور میں اپنی امت میں سے جس شخص کو بھی نکاح کار شتہ دوں میرے ساتھ جنت میں ہی رہے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عطا کردیا۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : 5758 ۔ مجمع الزوائد ج 10، ص 17 ۔ المستدرک ج 3، ص 137 ۔ المطالب العالیہ رقم الحدیث : 4018 ۔ کنز العمال رقم الحدیث : 34147 ۔ اسی سے متقارب روایت حضرت عبداللہ بن عمرو سے بھی مروی المعجم الاوسط ج 4، رقم الحدیث : 3856)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے یہ سوال کیا میں جس کو بھی نکاح کا رشتہ دوں اور جس سے بھی نکاح کروں وہ اہل جتن سے ہوں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عطا کردیا۔ (کنز العمال رقم الحدیث : 34148)
حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے بھی میرے اہل بیت کے ساتھ کوئی نیکی کی تو میں قیامت کے دن اس کا بدلہ دوں گا۔ (کامل ابن عدی ج 5، ص 1884 ۔ کنز العمال رقم الحدیث : 34152)
حضرت عثمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے عبد المطلب کی اولاد میں سے کسی کے ساتھ بھی کوئی نیکی کی اور اس نے اس کو دنیا میں اس کا صلہ نہیں دیا تو کل جب وہ مجھ سے ملاقات کرے گا تو مجھ پر اس نیکی کا صلہ دینا واجب ہے۔ (المعجم الاوسط ج 2، رقم الحدیث : 1469 ۔ مجمع الزوائد ج 9، ص 173 ۔ کنز العمال رقم الحدیث : 34153)
حضرت عباس بن عبد المطلب (رض) بیان کیا کرتے تھے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ نے ابو طالب کو کوئی نفع پہنچایا وہ آ کی مدافعت کرتا تھا، اور آپ کی وجہ سے غضب ناک ہوتا تھا۔ آپ نے فرمایا ہاں ! اب وہ ٹخنوں تک آگ میں ہے اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3883، 6208، 6572 ۔ صحیح مسلم ایمان 357، (209) 500 ۔ مسن داحمد ج 1، ص 206، رقم الحدیث : 1763 ۔ جامع الاصول رقم الحدیث : 6833)
نفع رسانی کی بظاہر نفی کی روایات کی توجیہ
موخر الذکر پانچ حدیثوں کے علاوہ باقی مذکور الصدر تمام احادیث کو علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی نے بھی بیان کیا ہے (رسائل ابن عابدین ج 1، ص 405) ان احادیث کے ذکر کے بعد تحریر فرماتے ہیں :
ہم نے جو یہ احادیث ذکر کی ہیں ان کے یہ بات معارض نہیں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی ایک کو بھی اللہ سے مطلقاً نفع یا نقصان پہنچانے کے مالک نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس بات کا مالک بنائے گا کہ آپ اپنے اقارب کو نفع پہنچائیں بلکہ آپ شفاعت عامہ اور شفاعت خاصہ کے ذریعہ تمام امت کو نفع پہنچائیں گے، سو آپ صرف اسی چیز کے مالک ہوں گے جس کو آپ کا مولی عزوجل مالک کرے گا، اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو یہ فرمایا ہے : میں تم کو اللہ کے عذاب سے بالکل مستغنی نہیں کروں گا، اس کا معنی یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ مجھے یہ عزت اور مقام نہیں دے گا یا جب تک مجھے منصب شفاعت نہیں دے یا جب تک میری وجہ سے مغفرت کرنے کا مرتبہ مجھے نہیں دے گا، اس وقت تک میں تم کو اللہ کے عذاب سے نہیں چھڑاؤں گا۔ اور چونکہ یہ مقام اللہ کے عذاب سے ڈرانے کا تھا اور نیک اعمال پر برانگیختہ کرنے کا تھا اس لیے آپ نے یہ قیود ذکر نہیں فرمائیں۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنے رحم کے حق کی طرف اشارہ بھی فرمایا کہ میرا تمہارے ساتھ رحم کا تعلق ہے اور میں عنقریب اس کی تراوٹ تمہیں پہنچاؤں گا، یعنی تم کو نفع پہنچاوں گا اور یہ ان احادیث میں تطبیق کا بہت عمدہ طریقہ ہے، نیز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : قیامت کے دن میرے اولیاء، متقی ہوں گے (الادب المفرد) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرا ولی اللہ ہے اور صالح مومنین ہیں۔ (صحیح مسلم الایمان : 366 (215) 508 ۔ مسند احمد ج 4، ص 203 ۔ مسند ابو عوانہ ج 1، رقم الحدیث : 96) سو یہ احادیث آپ کے رحم اور اقارب کو نفع پہنچانے کے خلاف نہیں ہیں، اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : جس شخص نے اپنے عمل میں دیر کردی تو اس کا نسب اس پر سبقت نہیں کرے گا (صحیح مسلم الذکر 38 (2699) 6726 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 4946 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 225 ۔ کنز العمال رقم الحدیث : 28847)
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے عمل کو موخر کردیا، اس کا نسب اس کو بلند درجات تک پہنچانے میں جلدی نہیں کرے گا۔ اس لیے یہ حدیث نجات کے منافی نہیں ہے، خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا باب بہت وسیع ہے، اور یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حدود کی پامالی پر بہت غیور ہے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے عبد ہیں اور وہ صرف اسی چیز کے مالک ہیں جس کا آپ کے مولی نے آپ کو مالک بنادیا ہے اور آپ کی وہی خواہش پوری ہوتی ہے جس کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ (رسائل ابن عابدین ج 1، ص 6 ۔ 7، مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور، 1396 ھ)
اس پر دلیل کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نفع اور ضرر کی نفی ذاتی نفع اور ضرر پر محمول ہے
عباس بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر (رض) حجر اسود کو بوسہ دے رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے کہ بیشک مجھے علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 1597، 1610 ۔ صحیح مسلم الحج 248 (1270) 3014 ۔ سنن ابو داود، رقم الحدیث : 1873 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 861 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 2937 ۔ الموطا رقم الحدیث : 835 ۔ مسند احمد ج 1، ص 16، طبع قدیم، رقم الحدیث : 99 طبع جدید دار الفکر، جامع الاصول ج 3، رقم الحدیث : 1439)
اس حدیث میں حضرت عمر نے حجر اسود کے نفع اور نقصان پہنچانے کی نفی کی ہے لیکن چونکہ بعض دلائل سے حجر اسود کا نفع اور نقصان پہنچانا ثابت ہے، اس لیے جمہور علماء نے بشمول علماء دیوبند اس حدیث میں بالذات کی قید لگائی ہے یعنی تو بالذات نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، لیکن اللہ کی عطا سے نفع بھی پہنچاتا ہے اور نقصان بھی۔
شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی 1369 ھ لکھتے ہیں : حجر اسود بذاتہ نفع اور نقصان نہیں پہنچاتا۔ (فتح الملہم، ج 3، ص 322، مطبوعہ مکتبہ الحجاز کراچی)
شیخ خلیل احمد سہارنپوری متوفی 1346 ھ لکھتے ہیں : حضرت عمر کی مراد یہ تھی کہ حجر اسود بذاتہ نفع اور نقصان نہیں پہنچاتا۔ (بذل المجہود ج 3، ص 140، طبع ملتان)
علامہ عینی نے لکھا ہے کہ حجر اسود بغیر اذن الٰہی کے نفع اور نقصان نہیں پہنچاتا (عمدۃ القاری ج 9، ص 240) علامہ باجی نے لکھا ہے کہ حجر اسود بالذات نفع اور نقصان نہیں پہنچاتا۔ (المنتقی ج 2، س 287) علامہ قسطلانی نے لکھا ہے کہ حجر اسود بالذات نفع اور نقصان نہیں پہنچاتا۔ (ارشاد الساری ج 3، ص 156) ملا علی قاری نے بھی لکھا ہے کہ حجر اسود بالذات نفع اور نقصان نہیں پہنچاتا۔ (مرقات ج 5، ص 325) اور علماء دیوبند میں سے شیخ عثمانی نے (فتح الملہم ج 3، ص 322) اور شیخ خلیل احمد نے (بذل المجہود ج 3، ص 40) میں لکھا ہے کہ حجر اسود بالذات نفع اور نقصان نہیں پہنچاتا، حضرت عمر نے جو حجر اسود کو مخاطبت کر کے فرمایا تاھ کہ تو ایک پتھر ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ تو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتا، اس میں حضرت عمر (رض) کی مراد بیان کرتے ہوئے متقدمین علماء اسلام اور خصوصاً علماء دیوبند سب ہی نے بالذات کی قید لگائی ہے کہ حضرت اسود بالذات نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتا، جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں جو نفع رکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حق میں حج کی گواہی دے گا وہ یہ نفع ضرور پہنچائے گا۔ اسی اسلوب پر کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں ہے : قل لا املک لنفسی نفعا ولا ضرا الا ماشاء اللہ (اعراف : 188) آپ کہیے کہ میں اپنے نفس کے لیے کسی نفع اور ضرر کا مالک نہیں ہوں مگر اللہ تعالیٰ جو چاہے۔ علماء اہل سنت یہاں بھی بالذات کی قید لگاتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذاتہ نفع اور ضرر نہیں پہنچاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آپ میں نفع رکھا ہے وہ نفع آپ پہنچاتے ہیں کہ آپ کا کلمہ پڑھنے، آپ کی تبلیغ اور آپ کی شفاعت سے ارب ہا انسانوں کو نفع پہنچے گا اور وہ سب آپ کی وجہ سے جنت میں جائیں گے۔ یہ کوئی کم نفع ہے ؟ لیکن بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بالذات کی قید لگانا اور ذاتی اور عطائی اختیارات کی تقسیم خالص مشرکانہ عقیدہ ہے اور یہ قید خانہ زاد اور سینہ زاد ہے۔ قرآن مجید نے آپ کی ذات سے مطلقا نفع رسانی کی نفی کردی ہے اور ذاتی اور عطائی کی تقسیم اہل بدعت کی ایجاد اور اختراع ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ ایک پتھر (حجر اسود) کی نفع رسانی ثابت کرنے کے لیے حضرت عمر کے قول لاتنفع میں بالذات کی قید لگا لیں تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نفع رسانی ثابت کرنے کے لیے قل لا املک لنفسی میں بالذات کی قید لگائیں تو مجرم قرار پائیں ! یہ کہاں کا انصاف ہے ؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس نفع رسانی سے کون انکار کرسکتا ہے کہ انسان محمد رسول اللہ کہے تو جنت کا مستحق ہوجاتا ہے بلکہ اس وقت تک کوئی شخص جنت کا مستحق نہیں ہوگا جب تک وہ محمد رسول اللہ نہیں کہے گا، اللہ اکبر ! جن کے نام کی نفع رسانی کا یہ عالم ہے ان کی ذات کی نفع رسانی کا کیا عالم ہوگا ! اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نفع رسانی کا انکار کرتا ہے وہ آپ کا نام نہ لے اور ہمیں جنت میں جا کر دکھلا دے۔ !
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نفع رسانی میں افراط، تفریط اور اعتدال پر مبنی نظریات
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نفع رسانی میں افراط پر مبنی یہ عقیدہ ہے
خدا جس کو پکڑے چھڑا لے محمد
محمد کا پکڑا چھڑا کوئی نہیں سکتا
الاعراف :143 کی تفسیر میں ہم نے اس شعر کے رد اور ابطال پر دلائل قائم کیے ہیں۔
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نفع رسانی میں تفریط پر مبنی یہ عبارات ہیں :
شیخ محمد عبدالوہاب نجدی متوفی 1206 ھ لکھتے ہیں : وعرفت ان اقرارہم بتوحید الربوبیۃ لم یدخلہم فی الاسلام وان قصدہہم الملائکۃ والانبیاء یریدون شفاعتہم والترقب الی اللہ بذلک ھوالذی احل دمائہم واموالہم :
اور تم جان چکے ہو کہ ان لوگوں کا توحید ربوبیت کا اقرار کرنا ان کو اسلام میں داخل نہیں کرتا، اور ان لوگوں کا انبیاء اور ملائکہ کی شفاعت کا قصد کرنا اور ان سے اللہ کا قرب حاصل کرنا یہی وہ چیز ہے، جس نے ان کی جانوں اور مالوں کو مباح کردیا ہے (یعنی ان کو قتل کرنا اور ان کا مال لوٹنا جائز ہے) ۔ (کشف الشبہات ص 9، مطبوعہ المکتبہ السلفیہ، بالمدینۃ المنورہ، 1389 ھ)
شیخ اسماعیل دہلوی متوفی 1246 ھ لکھتے ہیں : پیغمبر خدا کے وقت میں کافر بھی اپنے بتوں کو اللہ کے برابر نہیں جانتے تھے بلکہ اسی کا مخلوق اور اسی کا بندہ سمجھتے تھے اور ان کو اس کے مقابل کی طاقت ثابت نہیں کرتے تھے، مگر یہی پکارنا اور منتیں ماننی اور نذر و نیاز کرنی اور ان کو اپنا وکیل اور سفارشی سمجھنا یہی ان کا کفر و شرک تھا سو جو کوئی کسی سے یہ معاملہ کرے گو کہ اس کو اللہ کا مخلوق اور بندہ ہی سمجھے سو ابوجہل اور وہ شرک میں برابر ہے۔ (تقویت الایمان کلاں ص 6، مطبوعہ مطبع علیمی لاہور)
مخلوق کی نذر اور منت ماننی ہمارے نزدیک ناجائز اور حرام ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کو جب کہ مستقل سامع اعتقاد نہ کرے جیسا کہ ان کو بندہ سمجھنے سے ظاہر ہوتا ہے تو ان کو پکارنا اور ان سے مدد طلب کرنا بھی جائز ہے اور عہد صحابہ اور تابعین میں یا محمداہ کہنے کا رواج تھا۔ (کامل ابن اثیر ج 4، ص 246، البدایہ ج 6، ص 324، فتاوی رشیدیہ کامل ص 68)
یہ دونوں چیزیں غیر نزاعی ہیں، ہمارا اعتراض اس پر ہے کہ انہوں نے انبیاء (علیہم السلام) کو وکیل اور سفارشی سمجھنے پر بھی شرک کا فتوی دیا ہے اور اس کو ابوجہل کے برابر شرک قرار دیا ہے اور مسئلہ شفاعت میں اس سے بڑھ کر تفریط کیا ہوگی !
اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نفع رسانی میں توازن اور اعتدال پر مبنی نظریہ وہ ہے جس کو اس مقام پر اہل سنت کے مفسرین نے بیان فرمایا ہے۔
علامہ محمد بن یوسف ابو الحیان اندلسی المتوفی 754 ھ لکھتے ہیں : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ میں ان ہی امور پر قادر ہوں جن پر اللہ عزوجل نے مجھے قدرت دی ہے، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام تصرفات اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت کے تابع ہیں۔ (البحر المحیط ج 5، ص 241 ۔ عنایۃ القاضی ج 5، ص 243 ۔ زاد المسیر ج 3، س 299 ۔ الجامع لاحکام القرآن جز 7، ص 301)
امام رازی کی تفسیر کا خلاسہ یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے غیر سے علم محیط اور قدرت کاملہ کی نفی کی گئی ہے۔ (تفسیر کبیر ج 5، ص 425، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1415 ھ)
علامہ بیضاوی متوفی 686 ھ نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بطور اظہار عبودیت یہ کہلوایا گیا ہے۔ (انوار التنزیل علی ھامش عنایۃ القاضی ج 4، ص 243، مطبوعہ بیروت)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں :
اور مراد یہ ہے کہ میں اپنے نفس کے لیے نع اور ضرر کا کسی وقت بھی مالک نہیں ہوں مگر جس وقت اللہ تعالیٰ سبحانہ چاہتا ہے تو مجھے اس پر قادر فرماتا ہے اور اس وقت میں اس کی مشیت سے اس کا مالک ہوتا ہوں، اور یہ استثناء متصل ہے، شیخ ابراہیم کو رانی نے کہا یہ آیت د اس پر دلیل ہے کہ بندہ کی قدرت اللہ تعالیٰ کے اذن اور اس کی مشیت سے موثر ہوتی ہے۔ (روح المعانی ج 9، ص 136، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
علم غیب کی تحقیق
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آپ کہیے اگر میں (ازخود) غیب کو جانتا تو میں (ازخود) خیر کثیر کو جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ (الاعراف : 188)
اس آیت سے بطاہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب کی نفی ہوتی ہے، لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چونکہ غیب کی بیشمار خبریں دی ہیں جیسا کہ ہم نے قیامت کی بتائی ہوئی نشانیوں کے سلسلہ میں غیب کی خبروں پر مشتمل بکثرت احادیث بیان کی ہیں اور انشاء اللہ ابھی مزید احادیث بیان کریں گے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات کا بھی ذکر کریں گے جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب دیا جانا واضح ہوتا ہے اس لیے اس آیت میں علم غیب کی نفی از خود غیب جاننے کی نفی پر محمول ہے اور ہم اس کی تائید میں مفسرین کرام کے اقوال بھی نقل کریں گے، سو پہلے ہمغیب کا لغوی اور اصطلاح معنی بیان کریں گے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے علم غیب کے ثبوت میں قرآن مجید کی آیات کو ذکر کریں گے، پھر اس سلسلہ میں احادیث کا ذکر کریں گے اور آخر میں اس آیت کی توجیہ میں مفسرین کے اقوال ذکر کریں گے، فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق۔
غیب کا لغوی معنی
علامہ مجد الدین مبارک بن محمد بن الاثیر الجزری المتوفی 606 ھ لکھتے ہیں :
احادیث میں علم بالغیب اور ایمان بالغیب کا بکثرت ذکر ہے اور ہر وہ چیز جو آنکھوں سے غائب ہو وہ غیب ہے عام ازیں کہ وہ دل میں حاصل ہو یا نہ ہو۔ امام احمد روایت کرتے ہیں کہ المغیبۃ (وہ عورت جس کا شوہر غائب ہو) کو مہلت دو حتی کہ وہ اپنے بکھرے ہوئے پراگندہ بالوں کو سنوار لے اور موے زہار صاف کرلے۔ (مسند احمد، ج 3، ص 289) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک مغیب عورت کسی شخص کے پاس کچھ خریدنے گئی اس نے اس سے چھیڑ چھاڑ کی تو اس عورت نے کہا تم پر افسوس ہے میں مغیب ہوں (یعنی میرا شوہر غائب ہے) تو اس شخص نے اس کو چھوڑ دیا۔ (مسند احمد ج 1، ص 269) نیز حضرت ام الدرداء (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کے لیے ظہر غیب (اس کے غیاب) میں دعا کرتا ہے تو اس دعا کے ساتھ جو فرشتہ موکل ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ آمین ! (صحیح مسلم الذکر 87 (2732) 6800 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 1534 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 2895)
حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں : جب لاقات ہو تو اس کو سلام کرے، جب اس کو چھینک آئے تو اس کو جواب دے (یرحمک اللہ کہے) جب وہ بیمار ہو تو عیادت کرے، جب وہ دعوت دے تو اس کو قبول کرے، جب وہ فوت ہو تو اس کے جنازہ پر جائے، اس کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور غیب میں (اس کی غیر حاضر میں) اس کی خیر خواہی کرے۔ (سنن دارمی رقم الحدیث : 2633) سنن ترمذی میں ہے : جب وہ حاضر ہو یا غائب ہو تو اس کی خیر خواہی کرے۔ (رقم الحدیث : 2746) (النہایہ ج 3، ص 358 ۔ 357، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ مع زیادات)
علامہ محمد بن مکرم بن منظور افریقی متوفی 711 ھ لکھتے ہیں :
الگیب کا معنی ہے : ہر وہ چیز جو تم سے غائب ہو، امام ابو اسحاق نے یومنون بالغیب کی تفسیر میں کہا وہ ہر اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو ان سے غائب ہے اور اس کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد جی اٹھنا، جنت اور دوزخ، اور جو چیز ان سے غائب ہے اور اس کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے وہ غیب ہے، نیز غیب اس کو کہتے ہیں جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو، خواہ وہ دل میں ہو، کہا جاتا ہے کہ میں نے وراء غیب سے آواز سنی یعنی اس جگہ سے سنی جس کو میں نہیں دیکھ رہا۔ (لسان العرب ج 1، ص 654، مطبوعہ ایران، 1405 ھ)
علامہ محمد طاہر پٹنی متوفی 986 ھ لکھتے ہیں :
ہر وہ چیز جو آنکھوں سے غائب ہو وہ غیب ہے عام ازیں کہ وہ دل میں ہو یا نہ ہو۔ (مجمع بحار الانوار ج 4، ص 82، مطبوعہ مکتبہ دار الایمان، المدینہ المنورہ، 1415 ھ)
غیب کا اصطلاحی معنی
قاضی ناصر الدین عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی 686 ھ لکھتے ہیں : غیب سے مراد وہ مخفی امر ہے جس کا نہ حواس (خمسہ) ادراک کرسکیں اور نہ ہی اس کی بداہت عقل تقاضا کرے اور اس کی دو قسمیں ہیں ایک وہ قسم ہے جس کے علم کی کوئی دلیل (ذریعہ) نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : " وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمہا الا ھو : اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، ان کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا " (الانعام :59)
اور دوسری قسم وہ ہے جس کے علم کے حصول کا کوئی ذریعہ ہو (خواہ عقلی دلیل سے اس کا علم ہو خواہ خبر سے) جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات اور قیامت اور اس کے احوال کا علم۔ (انوار التنزیل مع الکازرونی ج 1، ص 114، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1416 ھ)
علامہ محی الدین شیخ زادہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
غیب کی دوسری قسم میں جو قاضی بیضاوی نے کہا ہے کہ جس کے علم پر کوئی دلیل ہو اس سے مراد عام ہے وہ دلیل عقلی ہو یا نقلی ہو، کیونکہ اللہ عزوجل اور اس کی صفات پر عقلی دلائل قائم ہیں (اور ان کو عقل سے جانا جاسکتا ہے) اور قیامت اور اس کے احوال پر دلائل نقلیہ قائم ہیں (اور ان کو قرآن اور احادیث سے جانا جاسکتا ہے) اور یہ دونوں قسمیں غیب ہیں، اور غیب کی اس دوسری قسم کو انسان ان دلائل سے جان سکتا ہے، اور وہ غیب جس کا علم اللہ سبحانہ کے ساتھ مختص ہے وہ غیب کی قسم اول ہے اور سورة الانعام کی اس آیت کریمہ میں وہی مراد ہے۔ (حاشیہ شیخ زادہ علی تفسیر البیضاوی ج 1، ص 89، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں :
الغیب وہ چیز ہے جو نہ حواس کے تحت واقع ہو اور نہ بداہت عقول اس کا تقاضا کریں اور اس کا علم صرف انبیاء (علیہم السلام) کی خبر سے ہوتا ہے۔ (المفردات ج 2، ص 475، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، 1418 ھ)
علامہ احمد شہاب الدین خفاجی متوفی 1069 ھ لکھتے ہ
گیب کا معنی ہے جو چیز آنکھوں سے پوشیدہ ہو، اسی طرح جو چیز حواس سے اور انسان سے غائب ہو اس پر بھی غیب کا اطلاق ہوتا ہے، اور غیب لوگوں کے اعتبار سے ہے اللہ کے اعتبار سے کوئی چیز غیب نہیں ہے، کیونکہ رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے غائب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے عالم الغیب والشہادۃ اس کا معنی ہے جو چیز تم سے غائب ہے اور جس کا تم مشاہدہ کرتے ہو اللہ ان سب کا عالم ہے، اور یومنون بالغیب میں غیب کا معنی ہے جن چیزوں کا حواس سے ادراک نہ ہوسکے اور جن کا بداہت عقل تقاضا نہ کرے، اور ان کا علم صرف رسل (علیہم السلام) کے خبر دینے سے ہوتا ہے۔ (نسیم الریاض ج 3، ص 150، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم غیب دیے جانے کے متعلق قرآن مجید کی آیات
وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء : اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ تم کو غیب پر مطلع کردے لیکن (غیب پر مطلع کرنے کے لیے) اللہ چن لیتا ہے جسے چاہے اور وہ اللہ کے رسول ہیں (آل عمران :179)
ذالک من انباء الغیب نوحیہ الیک : یہ غیب کی بعض خبریں ہیں جن کی ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں (آل عمران : 44)
علم الغیب فلا یظہر علی گیبہ احدا الا من ارتضی من رسول : (اللہ) عالم الغیب ہے سو وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں فرماتا ماسوا ان کے جن سے وہ راضی ہے اور وہ اس کے (سب) رسول ہیں (الجن : 26 ۔ 27)
مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی 1394 ھ لکھتے ہیں :
حق تعالیٰ خود بذریعہ وحی اپنے انبیاء کو جو امر غیبیہ بتاتے ہیں وہ حقیقتاً علم غیب نہیں بلکہ غیب کی خبریں ہیں جو انبیاء کو دی گئی ہیں جس کو خود قرآن کریم نے کئی جگہ انباء الغیب کے لفظ سے تعبیر فرمایا۔ (معارف القرآن ج 2، ص 248، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی، 1414 ھ)
ہمارے نزدیک یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو جو غیب کی خبریں بتلائی گئیں ہیں اس سے ان کو علم غیب حاصل نہیں ہوا، کیونکہ شرح عقائد اور دیگر علم کلام کی کتابوں میں مذکور ہے کہ علم کے تین اسباب ہیں، خبر صادق، حواس سلیمہ اور عقل، اور وحی بھی خبر صادق ہے تو جب انبیاء (علیہم السلام) کو اللہ نے غیب کی خبریں دیں تو ان کو علم غیب حاصل ہوگیا۔ اس لیے صحیح یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو وحی سے علم غیب حاصل ہوتا ہے لیکن یہ علم محیط یا علم ذاتی نہیں ہے۔
آل عمران : 179 کی تفسیر میں شیخ محمو حسن دیوبندی متوفی 1339 ھ لکھتے ہیں :
خلاصہ یہ ہے کہ عام لوگوں کو بلا واسطہ کسی یقینی غیب کی اطلاع نہیں دی جاتی، انبیاء (علیہم السلام) کو دی جاتی ہے مگر جس قدر خدا چاہے۔
شیخ اشرف علی تھانوی متوفی 1362 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اور اس آیت سے کسی کو شبہ نہ ہو کہ جو علم غیب خصائص باری تعالیٰ سے ہے اس میں رسل کی شرکت ہوگئی کیونکہ خواص باری تعالیٰ سے دو امر ہیں اس علم کا ذاتی ہونا اور اس علم کا محیط ہونا۔ یہاں ذاتی اس لیے نہیں ہے کہ وحی سے ہے اور محیط اس لیے نہیں کہ بعض امور خاص مراد ہیں۔ (بیان القرآن ج 1، ص 150، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور، کراچی)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب کے متعلق احادیث
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی 544 ھ لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس قدر غیوب پر مطلع فرمایا گیا تھا اس باب میں احادیث کا ایک سمندر ہے جس کی گہرائی کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا اور آپ کا یہ معجزہ ان معجزات میں سے ہے جو ہم کو یقینی طور پر معلوم ہیں، کیونکہ وہ احادیث معنیً متواتر ہیں اور ان کے راوی بہت زیادہ ہیں اور ان احادیث کے معانی غیب کی اطلاع پر متفق ہیں اور وہ درج ذیل ہیں : (الشفاء ج 11، ص 249، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)
1 ۔ حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں تشریف فرما ہوئے اور قیامت تک جو امور پیش ہونے والے تھے آپ نے ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑا اور وہ سب امور بیان کردیے جس نے ان کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے ان کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا، اور میرے ان اصحاب کو ان کا علم ہے، ان میں سے کئی ایسی چیزیں واقع ہوئیں جن کو میں بھول چکا تھا جب میں نے ان کو دیکھا تو وہ یاد آگئیں، جیسے کوئی شخص غائب ہوجائے تو اس کا چہرہ دیکھ کر اس کو یاد آجاتا ہے کہ اس نے اس کو دیکھا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6604 ۔ صحیح مسلم الجنۃ 23 (2891) 7130 ۔ سنن ابوداود رقم الحدیث : 4240 ۔ مسند احمد ج 5، ص 385، جامع الاصول، ج 11، رقم الحدیث : 8882)
2 ۔ حضرت ابو زید عمرو بن اخطب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو صبح کی نماز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہوئے، پھر آپ نے ہمیں خطبہ دیا حتی کہ ظہر آگئی، آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی، پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتی کہ عصر آگئی، پھر آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم کو خطبہ دیا حتی کہ سورج غروب ہوگیا، پھر آپ نے ہمیں ماکان ومایکون (جو ہوچکا ہے اور جو ہونے والا ہے) کی خبریں دیں، پس ہم میں سے زیادہ عالم وہ تھا جو سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔ (صحیح مسلم الجنہ : 26 (2892) 7134 ۔ مسند احمد ج 3، ص 315 ۔ مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : 1029 ۔ البدایہ والنہایہ ج 6، ص 192 ۔ جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8885 ۔ الاحاد والمثانی ج 4، رقم الحدیث : 2183 ۔ دلائل النبوۃ للبیہقی ج 6، ص 313)
3 ۔ حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں تشریف فرما ہوئے اور آپ نے ہمیں مخلوق کی ابتداء سے خبریں دینی شروع کیں، حتی کہ اہل جنت اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوگئے اور اہل دوزخ اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوگئے، جس نے اس کو یاد رکھا اس نے یاد رکھا اور جس نے اس کو بھلا دیا اس نے بھلا دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3192 ۔ امام احمد نے اس حدیث کو حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت کیا ہے، مسند احمد ج 14، رقم الحدیث : 18140، طبع دار الحدیث، قاہرہ)
امام ترمذی نے کہا اس باب میں حضرت حذیفہ، حضرت ابومریم، حضرت زید بن اخطب اور حضرت مغیرہ بن شعبہ سے احادیث مروی ہیں انہوں نے ذکر کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو قیامت تک تمام ہونے والے امور بیان کردیے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2198) ۔ (مسند احمد ج 5، ص 153 ۔ مسند احمد رقم الحدیث : 21258 ۔ مطبوعہ قاہرہ۔ المعجم الکبیر رقم الحدیث : 1647 ۔ مسند البزار رقم الحدیث : 147 ۔ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 265 ۔ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے راوی صحیح ہیں۔ (مجمع الزوائد ج 8، ص 264 ۔ مسند ابویعلی، رقم الحدیث : 5109)
ائمہ حدیث نے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب کو ان کے دشمنوں پر غلبہ کی خبر دی اور مکہ مکرمہ، بیت المقدس، یمن، شام اور عراق کی فتوحات کی خبریں دیں اور امن کی خبر دی اور یہ کل خیبر حضرت علی کے ہاتھوں سے فتح ہوگا، اور آپ کی امت پر دنیا کی جو فتوحات کی جائیں گی اور وہ قیصر و کسری کے خزانے تقسیم کریں گے، اور ان کے درمیان جو فتنے پیدا ہوں گے، اور امت میں جو اختلاف پیدا ہوگا اور وہ پچھلی امتوں کے طریقے پر چلیں گے، اور کسری اور قیصر کی حکومتیں ختم ہوجائیں گی اور پھر ان کی حکومت قائم نہیں ہوگی اور یہ کہ روئے زمین کو آپ کے لیے لپیٹ دیا گیا ہے اور آپ نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا ہے اور یہ کہ آپ کی امت کا ایک گروہ قیامت تک حق پر قائم رہے گا اور آپ نے بنو امیہ اور حضرت معاویہ کی حکومت کی خبر دی اور اہل بیت کی آزمائش اور حضرت علی (رض) کی شہادت کی خبر دی اور حضرت عثمان (رض) کی شہادت کی خبر دی، حضرت معاویہ اور حضرت علی کی لڑائی کی خبر دی، حضرت عمار کی شہادت کی خبر دی، اپ کے اہل بیت میں سب سے پہلے حضرت سیدنا فاظمہ زہراء (رض) کی وفات کی خبر دی، اور یہ کہ آپ کے بعد صرف تیس سال تک خلافت رہے گی، اور پھر بادشاہت ہوجائے گی۔ تیس دجالوں کے خروج کی خبر دی، قریش کے ہاتھوں امت کی ہلاکت کی خبر دی۔ قدریہ اور رافضیہ کے ظہور کی خبر دی، ابناء فارس کے دین حاصل کرنے کی خبر دی، اپنی گمشدہ اونٹنی کی خبر دی، جنگ بدر میں کافر کس جگہ گر کر مریں گے یہ خبر دی، حضرت حسن کے صلح کرانے کی خبر دی، حضرت سعد کی حیات کے متعلق خبر دی اور یہ خبر دی کہ آپ کی ازواج میں سے جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہوں گے وہ آپ سے سب سے پہلے واصل ہوگی، حضرت زید بن صوحان کے ہاتھ کے متعلق پیش گوئی کی، سراقہ کے لیے سونے کے کنگنوں کی خبر دی اور بہت باتوں کی خبر دی، اب ہم ان تمام امور کے متعلق تفصیلاً احادیث بیان کر رہے ہیں۔
5 ۔ حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل نے تمام روئے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا ہے، سو میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا، اور میری امت کی حکومت عنقریب وہاں تک پہنچے گی جہاں تک کی زمین میرے لیے سکیڑ دی گئی تھی اور مجھے سرخ اور سفید دو خزانے دیے گئے ہیں۔ (الحدیث)
(دلائل النبوت للبیہقی، ج 6، ص 227، صحیح مسلم الفتن 19 (2889) 7125، 7126 ۔ سنن ابوداود رقم الحدیث : 4252 ۔ سنن ترمذی رقم الحدیث : 2183 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3952)
6 ۔ سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے دوات پکڑی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے پیچھے گئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا اے معاویہ ! اگر تم کو کسی علاقہ کا والی بنادیا جائے تو اللہ سے ڈرنا اور عدل کرنا، حضرت معاویہ نے کہا مجھے اس وقت سے یہ یقین تھا کہ مجھے کسی منصب کا والی بنایا جائے گا اور اس کی وجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد تھا۔ (مسند احمد ج 4، ص 101 ۔ دلائل النبوت ج 6 ص 446 ۔ البدایہ والنہایہ ج 8، ص 123)
7 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خلافت مدینہ میں ہوگی اور ملوکیت شام میں۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 4888 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 447)
8 ۔ حضرت حرام (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے گھر آئے انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کا سر سہلایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو گئے، پھر ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ آپ نے فرمایا مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو سمندر کے راستے جہاد کریں گے۔ حضرت ام حرام نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے ان میں سے کردے آپ نے ان کے لیے دعا کی، پھر سو گئے۔ پھر آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں، فرمایا مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔ (بخاری کی روایت میں ہے : میری امت کا جو پہلا لشکر قیصر کے شہر میں جہاد کرے گا وہ بخشا ہوا ہے۔ رقم الحدیث : 2924) ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے ان میں سے کردے۔ آپ نے فرمایا تم پہلے لشکر میں سے ہو۔ حضرت ام حرام بنت ملحان حضرت معاویہ کے زمانے میں سمندر کے راستہ جہاد میں گئیں وہ اپنی سواری سے گرگئیں، ان کو سمندر سے نکالا گیا تو جان بحق ہوچکی تھیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2788 ۔ صیح مسلم الجہاد 160 (1912) 4851 ۔ سنن ابوداود، رقم الحدیث : 2491 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 1652 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 3171 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 451 ۔ 452)
9 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کی ہلاکت قریش کے لڑکوں کے ہاتھوں ہوگی، حضرت ابوہریرہ نے کہا اگر تم چاہو تو میں بنو فلاں، اور بنو فلاں کا نام لوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3604 ۔ 3605 ۔ صحیح مسلم الفتن 74 (2917) 7192 ۔ دلائل النبوۃ ج 6، ص 464 ۔ 465)
10 ۔ حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا جس نے فاقہ کی شکایت کی، پھر دوسرا شخص آیا جس نے راستہ میں ڈاکوؤں کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا اے عدی ! کیا تم نے الیحیرہ دیکھا ہے، میں نے کہا میں اس کو دیکھا تو نہیں لیکن مجھے اس کی خبر دی گئی ہے، آپ نے فرمایا اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم اپنے دل میں کہا پھر اس شہر کے ڈاکو کہاں چلے جائیں گے جنہوں نے شہروں میں فتنہ اور فساد کی آگ بھڑکا دی ہے۔ (پھر فرمایا) اور اگر تمہاری زدنگی دراز ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ایک شخص مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر نکلے گا اور اس کو لینے والے کو ڈھونڈے گا اور اسے کوئی شخص نہیں ملے گا جو اس کو قبول کرلے، اور تم میں سے ضرور ایک شخص قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا جو ترجمہ کرے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تمہاری طرف کوئی رسول نہیں بھیجا تھا جس نے تم کو تبلیغ کی ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تم کو مال نہیں دیا تھا جو تم سے زائد تھا ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! پھر وہ اپنی دائیں طرف دیکھے گا تو صرف جہنم نظر آئے گا اور بائیں طرف دیکھے گا تو صرف جہنم نظر آئے گا۔ حضرت دی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آگ سے بو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے (کے صدقہ) سے، اور جس کو کھجور کا ٹکڑا نہ ملے تو وہ کوئی نیک بات کہہ دے، حضرت عدی کہتے ہیں کہ میں نے ایک مسافرہ کو دیکھا جس نے الیحیرۃ سے سفر کرکے خانہ کعبہ کا فواف کیا اور اس کو اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں تھا، اور میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو کھولا اور اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم ضرور وہ نشانی دیکھ لو گے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی تھی کہ ایک آدمی مٹھی بھر (سونا یا چاندی) لے کر نکلے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3595 ۔ دلائل انبوۃ ج 6، ص 323)
11 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسریٰ فوت ہوگیا اور اس کے بعد کوئی کسری نہیں ہے اور جب قیصر ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تم ضرور ان کے خزانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کروگے۔ (صحیح مسلم الفتن 75 (2918) 7194 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2223 ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث : 3027 ۔ صحیح ابن حبان ج 15، رقم الحدیث : 6689 ۔ مسند احمد ج 3، رقم الحدیث : 7272، طبع جدید۔ مسند الشافعی ج 2، ص 186، مسند الحمیدی رقم الحدیث : 1094 ۔ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 20814 ۔ السنن الکبری للبیہقی ج 9، ص 177)
12 ۔ حسن بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) کے پاس کسری کی پوستین لائی گئی اور ان کے سامنے رکھ دی گئی، اور قوم میں حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم بھی تھے، حضرت عمر نے کسریٰ بن ہرمز کے کنگن، حضرت سراقہ بن مالک کو دیے، انہوں نے ان کو اپنے ہاتھوں میں پہن لیا جو ان کے کندھوں تک ہپنچ گئے۔ جب حضرت عمر نے حضرت سراقہ کے ہاتھوں میں کنگن دیکھے تو فرمایا الحمد للہ ! امام شافعی نے کہا حضرت عمر نے حضرت سراقہ کو یہ کنگن اس لیے پہنائے تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سراقہ کی کلائیوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا، گویا کہ تمہارے ہاتھ کسریٰ کے کنگن پہنے ہوئے ہیں، امام شافعی نے کہا جب حضرت عمر نے کسریٰ کے کنگن حضرت سراقہ کو پہنائے تو کہا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے کسریٰ بن ہرمز سے کنگن چھین کر سراقہ بن جعشم کو پہنا دیے جو بنو مدلج کا ایک اعرابی ہے۔ (دلائل النبوۃ ج 6، ص 325 ۔ 326)
13:۔ حضرت انس اور ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ عزوجل نے دنیا کو میرے یلے اٹھا لیا اور میں دنیا کی طرف اور قیامت تک دنیا میں جو کچھ ہونے والا ہے اس کو اس طرح دیکھ رہا ہوں جیسے اپنے ان ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھ رہا ہوں، جو اللہ عزوجل کے حکم سے روشن ہیں، اس نے اپنے نبی کے لیے ان کو روشن کیا، جس طرح پہلے نبیوں کے لیے روشن کیا تھا۔ (حلیۃ الاولیاء ج 6، ص 101 ۔ الجامع الکبیر رقم الحدیث : 4849 ۔ کنز العمال رقم الھدیث : 31810، 31979، حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے، اس میں سعید بن سنان رھاوی ضعیف راوی ہے، مجمع الزوائد ج 8، ص 282)
14 ۔ حضرت عبداللہ بن حوالہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے آپ سے سامان کی کمی، غربت اور افلاس کی شکایت کی آپ نے فرمایا تمہیں خوش خبری ہو کیونکہ مجھے تم پر اشیاء کی قلت کی بہ نسبت اشیاء کی کثرت کا زیادہ خوف ہے، بہ خدا دین تم میں رہے گا حتی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے سرزمین فارس، سرزمین روم اور سرزمین حمیر فتح کردے گا۔ (الحدیث) (دلائل النبوت ج 6، س 327)
15 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اپ پر سورة جمعہ نازل ہوئی جب آپ نے یہ آیت پڑھی : " واخرین منہم لما یلحقوا بہم : اور وہ نبی ان میں سے دوسروں کو بھی (کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا باطن صاف کرتے ہین) جو ابھی ان سے لاحق نہیں ہوئے "۔ تو ایک شخص نے پوچھا : یارسول اللہ ! یہ لوگ کون ہیں ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو جواب نہیں دیا، حتی کہ اس نے دو یا تین مرتبہ سوال کیا اور ہم میں حضرت سلمان فارسی (رض) بھی تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان فارسی پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا اگر ایمان ثریا (ستارے) کے پاس بھی ہو تو ان کی طرف کے لوگ اس کو حاصل کرلیں گے (صحیح البخاری رقم الحدیث : 4897 ۔ صحیح مسلم فضائل الصحابہ 230 (2546) 6379 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 3317)
16 ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنو اسرائیل کا ملکی نظام ان کے نبی چلاتے تھے، جب ایک نبی فوت ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور عنقریب خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے، صحابہ نے پوچھا پھر آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ فرمایا پہلے کی بیعت سے وفا کرو، پھر پہلے کی، اور ان کے حقوق ادا کرو، کیونکہ اللہ عزوجل ان سے سوال کرے گا کہ انہوں نے عوام کے ساتھ کس طرح معاملہ کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3455 ۔ صحیح مسلم الامار 44 (1842) 4691 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 2871)
حضرت سفینہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ جس کو چاہے گا ملک دے دے گا۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 4646 ۔ مسند احمد ج 5، ص 44 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 431)
حضرت ابوبکر کی خلافت دو سال چار ماہ رہی (دس دن کم تھے) حضرت عمر کی خلافت دس سال چھ ماہ چار دن رہی، حضرت عثمان کی خلافت بارہ دن کم بارہ سال رہی اور حضرت علی کی خلافت دو یا تین ماہ کم پانچ سال رہی۔ (دلائل النبوت ج 6، ص 341 ۔ 342، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
18 ۔ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے اپنے مرض الموت میں فرمایا میرے لیے ابوبکر کو اور اپنے بھائی کو بلاؤ کیونکہ مجھے یہ خوف ہے کہ کوئی (خلافت کی) تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہے گا کہ میں (خلافت کے) زیادہ لائق ہوں اور اللہ اور مومنین ابوبکر کے غیر انکار کردیں گے۔ (صحیح مسلم فضائل الصحابہ 11، (2387) 6064 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1465 ۔ مسند احمد ج 6، ص 228 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 343)
19 ۔ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد پہار پر چڑھے (ایک راوی کا خیال ہے کہ حضرت انس نے حراء پہاڑ کہا تھا) اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) تھے۔ وہ پہاڑ لرزنے لگا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اے پہاڑ ! ) ساکن ہوجا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3675، 3686، 3699 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 3717 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 4651 ۔ مسند احمد ج 5، ص 346، 331 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 350)
20 ۔ حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : " یا ایہا الذین امنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی : اے ایمان والو ! نبی کی آواز کے اوپر اپنی آوازوں کو بلند کرو " (الحجرات :2) ۔ تو حضرت ثابت بن قیس (رض) اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور کہا میں : اہل دوزخ سے ہوں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں حاضر نہیں ہوئے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد بن معاذ سے ان کے متعلق پوچھا اور فرمایا اے ابو عمرو ! ثابت کا کیا حال ہے ؟ کیا وہ بیمار ہے ؟ حضرت سعد نے کہا وہ میر پڑوسی ہے اور مجھے اس کی بیماری کا کوئی علم نہیں، پھر حضرت سعد نے ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دریافت کرنے کا ذکر کیا، حضرت ثابت نے کہا یہ آیت نازل ہوچکی ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے میری آواز سب سے اونچی ہے، پس میں اہل دوزخ سے ہوں، حضرت سعد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کا ذکر کیا آپ نے فرمایا بلکہ وہ اہل جنت میں سے ہے، امام مسلم کی ایک روایت میں ہے (رقم الحدیث : 310) کہ جب حضرت ثابت ہمارے درمیان چلتے تھے تو ہم یقین کرتے تھے کہ یہ جنتی ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 4846 ۔ صحیح مسلم الایمان، 187 (119) 307)
حضرت ثابت مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ (دلائل النبوۃ ج 6، ص 355، المستدرک ج 3، ص 234، مجمع الزوائد ج 9، ص 322)
21 ۔ حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے یہ بیان کیا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک دن میں سویا ہوا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے ہیں، میں ان سے گھبرا گیا اور مجھ کو وہ ناگوار لگے پھر مجھے اجازت دی گئی کہ میں ان کو پھونک سے اڑا دوں، سو میں نے پھونک مار کر ان کو اڑا دیا۔ عبیداللہ نے کہا ان میں سے ایک عنسی تھا جس کو فیروز نے یمن میں قتل کیا اور دوسرا مسیلمہ تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 7034 ۔ صحیح مسلم الرویا 22 (2274) 5826 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2299 ۔ صحیح ابن حبان ج 15، رقم الحدیث : 6654 ۔ مسند احمد ج 1، ص 263، طبع قدیم۔ مسند احمد ج 3، رقم الحدیث : 8256، طبع جدید)
22 ۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان اس سے مایوس ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں نمازی اس کی عبادت کریں لیکن وہ ان میں اختلاف اور نزاع پیدا کرنے کے لیے مایوس نہیں ہے۔ (صحیح مسلم المنافقین 65 (2812) 6970 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 1944 ۔ مسند احمد ج 3، ص 3131)
23:۔ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی صاحبزادی سیدتنا فاطمہ (رض) کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی وہ رونے لگیں، پھر دوبارہ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں، حضرت عائشہ نے حضرت فاطمہ سے پوچھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا سرگوشی کی تھی جس پر آپ روئیں اور پھر سرگوشی کی تو آپ ہنسیں، حضرت فاطمہ نے فرمایا آپ نے مجھ سے سرگوشی کرکے مجھے اپنی وفات کی خبر دی تو میں روئی پھر سرگوشی کرکے یہ خبر دی کہ اپ کے اہل میں سے سب سے پہلے میں آپ کے ساتھ لاحق ہوں گی تو پھر میں ہنسی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3625، صحیح مسلم فضائل صحابہ، 98) 2450٭ 6196 ۔ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 8367 ۔ مسند احمد ج 6، ص 282، الطبقات الکبری ج 2، ص 247 ۔ دلائل النبوت، ج 6، ص 365)
24 ۔ حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن الحارث کی ملاقات کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جاتے اور آپ نے ان کا نام الشہیدۃ رکھا تھا، وہ قرآن کی حافظہ تھیں، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ بدر کے لیے تشریف لے گئے تو انہوں نے کہا آپ مجھے اجاز دیں تو میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماروں کی تیمار داری کروں، شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت عطا فرمائے، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تم کو شہادت عطا فرمائے گا اور آپ ان کو الشہیدہ کہتے تھے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر کی خواتین کی امامت کیا کریں، ان کو مال غنیمت میں سے ایک باندی اور ایک غلام ملا تھا، جن کو انہوں نے مدبر کردیا تھا (یعنی ان سے کہہ دیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو) حضرت عمر کے دور خلافت میں ان دونوں نے حضرت ام ورقہ کو قتل کردیا اور دونوں بھاگ گئے۔ حضرت عمر (رض) کے حکم سے ان کو پکڑ لیا گیا اور ان دونوں کو سولی پر لتکایا، مدینہ میں ان کو سب سے پہلی سولی دی گئی تھی، حضرت عمر (رض) نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا تھا، آپ فرماتے تھے چلو الشہیدہ کی زیارت کے لیے چلیں۔ (مسند احمد ج 6، ص 405، طبع قدیم احمد شاکر نے اس کی ایک سند کو ضعیف اور دوسری سند کو صحیح کہا ہے۔ مسند احمد ج 18، رقم الحدیث : 27157، 27158، طبع دار الحدیث قاہرہ، حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی۔ المستدرک ج 1، ص 161، رقم الحدیث : 592 ۔ صحیح ابن خزیمہ، ج 3، ص 89، رقم الحدیث : 1676 ۔ سنن کبری للبیہقی ج 3، ص 130 ۔ دلائل النبوۃ ج 6، ص 381 ۔ الاصابہ رقم الحدیث : 12298 ۔ الستیعاب رقم الحدیث 3686 ۔ اسد الغابہ رقم، 7226 ۔ کتاب الشقات ج 3، ص 463)
25:۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے گھر میں وضو کیا اور سوچا آج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہوں گا، آپ مسجد میں نہیں تھے، میں آپ کی تلاش میں نکلا، آپ اریس نامی کنویں کی منڈیر پر کنویں میں ٹانگیں لٹکائے ہوئے بیٹھے تھے، میں اس کے دروازہ پر چلا گیا اور میں نے سوچا کہ میں آج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دربان بنوں گا، تھوڑی دیر بعد کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا : کون ہے، آنے والے نے کہا ابوبکر ! میں نے کہا ٹھریں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے لیے اجازت طلب کی آپ نے فرمایا ان کو اجازت دے دو ، اور ان کو جنت کی بشارت دو ، حضرت ابوبکر آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دائیں جانب منڈیر پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت عمر نے دروازے پر دستک دی، میں نے کہا ٹھہریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے لیے اجازت طلب کی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کو اجازت دے دو ، اور جنت کی بشارت دو ان مصائب اور فتنوں کے ساتھ جو ان کو لاحق ہوں گے۔ (ملخصاً ) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3693 ۔ صحیح مسلم فضائل الصحابتہ، 29 (2403) 6097 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 3710 ۔ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 6912 ۔ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 20402 ۔ مسند احمد ج 7، رقم الحدیث : 19662)
26:۔ حضرت مرہ بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتنوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ عنقریب واقع ہونے والے ہیں، اس وقت ایک شخص کپڑے سے اپنے آپ کو ڈھانپے ہوئے گزرا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ شخص اس وقت ہدایت پر ہوگا، میں نے کھڑے ہو کر دیکھا تو وہ حضرت عثمان بن عفان (رض) تھے، میں نے پھر آپ کی طرف رخ کرکے پوچھا یہ ؟ آپ نے فرمایا ہاں !۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3724 ۔ صحیح ابن حبان رق الحدیث : 6914 ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 12، ص 40 ۔ المعجم الکبیر ج 20، ص 752 ۔ مسند احمد ج 7، رقم الحدیث : 20374)
27:۔ حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتنوں کا ذکر کیا۔ پھر آپ نے حضرت عثمان بن عفان کے متعلق فرمایا کہ یہ شخص فتنوں میں مظلوماً قتل کیا جائے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3728، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1414 ھ)
28:۔ ابو سہلہ بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں میں حضرت عثمان غنی (رض) اپنے گھر میں محصور تھے۔ انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا اور میں اس پر صابر ہوں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 3731 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 113 ۔ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 6918 ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 12، ص 44 ۔ مسند احمد ج 1، رقم الحدیث : 407، طبع جدید)
29:۔ حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار بن یاسر کے متعلق فرمایا جس وقت وہ خندق کھود رہے تھے آپ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا اے ابن سمیہ افسوس ہے ! تم ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ (صحیح مسلم الفتن 170 (2915) 7187 ۔ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 8048 ۔ دلائل النبوۃ ج 6، ص 420)
30 ۔ فضالہ بن ابی فضالہ (رض) عہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد حضرت ابوفضالہ (رض) کے ساتھ حضرت علی (رض) کی عیادت کے لیے گیا، میرے والد نے کہا کاش آپ کی جگہ مجھے اجل آجاتی ! حضرت علی (رض) نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ میں اس وقت تک نہیں مروں گا حتی کہ مجھے امیر بنادیا جائے اور میری یہ داڑھی خون سے رنگین ہوجائے یعنی میں شہید ہوجاؤں، حضرت علی شہید کردیے گئے اور حضرت ابوفضالہ حضرت علی کی طرف سے لڑتے ہوئے جنگ صفین میں شہید ہوئے۔ (مسند احمد ج 1، ص 102، طبع قدیم، احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مسند احمد ج 1، رقم الحدیث : 802، بع دار الحدیث قاہرہ، المستدرک، ج 3، ص 113 ۔ الطبقات الکبری ج 3، ص 34 ۔ مجمع الزوائد ج 9، ص 136 ۔ 137 ۔ دلائل النبوت ج 6، ص 438)
31:۔ حضرت ابو بکرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر بیٹھھے ہوئے تھے اور حسن بن علی (رض) آپ کے پہلو میں تھے آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی ان کی طرف متوجہ ہوتے، آپ نے فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے، امید ہے کہ اللہ اس کے سبب سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح فرما دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2704، مشکوۃ رقم الحدیث : 6144 ۔ مسند احمد ج 5، ص 49)
32:۔ عمار بن ابی عار بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہیں اور آپ دوپہر کے وقت ایک شیشی اٹھائے ہوئے ہیں جس میں خون بھرا ہوا ہے، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں یہ کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ حسین اور ان کے اصحاب کا خون ہے میں آج دن سے لے کر اب تک یہ خون جمع کرتا رہا ہوں۔ ہم نے وہ دن یاد رکھا پھر معلوم ہوا کہ حضرت حسین (رض) کو اسی دن شہید کیا گیا تھا۔ (مسند احمد ج 1، ص 242، 283 ۔ شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مسند احمد ج 2، رقم الحدیث : 2165، ج 3، رقم الحدیث : 2553، طبع دار الحدیث : قاہرہ، المعجم الکبیر ج 12، رقم الحدیث : 12837، ج 2، رقم الحدیث : 2822) حافظ الہیثمی نے کہا امام احمد کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ج 9، ص 194 ۔ البدایہ والنہایہ ج 6، ص 231 ۔ المستدرک ج 2، ص 314 ۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)
33:۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو کسی کام سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا، انہوں نے آپ کے پاس ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو وہ لوٹ آئے۔ حضرت عباس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا میں نے اپنے بیٹے کو آپ کے پاس کسی کام سے بھیجا تھا وہ آپ کے پاس ایک شخص کو دیکھ کر لوٹ آئے اور بات نہ کرسکے، آپ نے فرمایا کیا تم کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا، وہ شخص جبریل (علیہ السلام) تھے اور (حضرت ابن عباس) اس وقت تک فوت نہیں ہوں گے جب تک کہ نابینا نہ ہوجائیں اور ان کو علم دیا جائے گا۔ (مسند احمد رقم الحدیث : 2679، 2848، طبع جدید۔ المعجم الکبیر رقم الحدیث : 10584، 12836 ۔ حافظ الہیثمی نے کہا ہے کہ مسند احمد کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ج 6، ص 276)
34:۔ حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب تم مصر کو فتح کروگے اور یہ وہ زمین ہے جس میں قیراط کا ذکر کیا جاتا ہے تم وہاں کے رہنے والوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا کیونکہ ان کا ذمہ اور رحم ہے۔ (ذمہ سے مراد حرمت اور حق ہے اور رحم سے مراد یہ ہے کہ حضرت ہاجر، حضرت اسماعیل کی والدہ مصری تھیں) ۔ (صحیح مسلم فضائل الصحابہ، 227 (2543) 6375 ۔ مسند احمد ج 6، ص 173)
35:۔ حضرت ابو واقد لیثی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حنین کی طرف گئے تو مشرکین کے ایک درخت کے پاس سے گزرے جس کو ذات انواط کہا جاتا تھا، جس پر وہ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ مسلمانوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارے لیے بھی ایک ایسا ذات انواط بنا دیجئے جیسا ان کے لیے ذات انواط ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سبحان اللہ ! یہ تو ایسا ہے جیسا موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے کہا تھا ہمارے لیے بھی ایسا خدا بنادیں جیسے ان کے خدا ہیں، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں پر سوار ہوگے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2187 ۔ صحیح ابن حبان ج 15، رقم الحدیث : 6702 ۔ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : 20763 ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 15، ص 101 ۔ المعجم الکبیر ج 3، رقم الحدیث : 3291، 3290)
36:۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ ہر سو سال کے سر پر (صدی کی انتہا یا ابتداء پر) اس امت کے لیے اس شخص کو مبعوث کرے گا جو ان کے لیے ان کے دین کی تجدید کرے گا۔ (یعنی بدعات کو مٹائے گا اور جن احکام پر مسلمانوں نے عمل کرنا چھوڑ دیا تھا ان پر عمل کروائے گا) ۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 4291 ۔ جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8881)
37:۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آخری زندگی میں ایک رات میں عشاء کی نماز پڑھائی اور جب سلام پھیرلیا تو فرمایا مجھے بتاؤ یہ کون سی رات ہے کیونکہ اس کے ایک سو سال بعد ان لوگوں میں سے کوئی زندہ نہیں رہے گا جو روئے زمین پر اب زندہ ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 601 ۔ صحیح مسلم فضائل الصحابہ، رقم الحدیث : 217 (2537) 6361 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 4348 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2258 ۔ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 5871)
38:۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل خیبر میں سے ایک یہودیہ نے ایک بھنی ہوئی بکری میں زہر ملایا پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش کی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بکری کا ایک دست لیا اور اس میں سے کھایا اور آپ کے اصحاب میں سے ایک جماعت نے بھی اس میں سے کھایا، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے کہا اپنے ہاتھ روک لو، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودیہ کو بلوایا اور فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ کو کس نے خبر دی ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے دست کی طرف اشارہ کیا مجھے اس نے خبر دی ہے۔ اس نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا تم نے کس لیے ایسا کیا تھا ؟ اس نے کہا میں نے سوچا اگر یہ نبی ہیں تو ان کو اس زہر سے نقصان نہیں ہوگا اور اگر یہ نبی نہیں ہیں تو ہماری خلاصی ہوجائے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو معاف کردیا اور اس کو سزا نہیں دی، اور آپ کے بعض اصحاب جنہوں نے اس بکری کا گوشت کھایا تھا وہ فوت ہوگئے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بکری سے کھائے ہوئے گوشت کی وجہ سے پیٹھ کے اوپر گردن کے نیچے فصد لگوائی۔ بنوبیاضہ کے آزاد شدہ غلام نے یہ فصد لگائی تھی۔ (سنن دارمی رقم الحدیث : 68 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 4510 ۔ الادب المفرد، رقم الحدیث : 243 ۔ جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8887)
39:۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بکری تحفہ میں پیش کی گئی جو زہر آلود تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہاں جتنے یہودی ہیں ان سب کو جمع کرو، یہودیوں کو جمع کیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرتا ہوں ؟ کیا تم مجھ سے سچ بولوگے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اے ابو القاسم ! تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمای تمہارا باپ کون ہے ؟ انہوں نے کہا ! ہمارا باپ فلاں ہے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے۔ تب یہودیوں نے کہا آپ نے سچ کہا اور نیک کام کیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرتا ہوں کیا تم مجھے سچ سچ بتا دوگے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! اے ابو القاسم، اور اگر ہم نے جھوٹ بھی بولا تو آپ کو ہمارے جھوٹ کا علم ہوجائے گا جیسا کہ آپ کو ہمارے باپ کے متعلق علم ہوگیا۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل دوزخ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا ہم اس میں تھوڑی دیر رہیں گے، پھر ہمارے بعد تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے ! تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم دوزخ میں دفع ہوجاؤ، بہ خدا ہم تمہارے بعد اس میں کبھی بھی نہیں جائیں گے، پھر آپ نے فرمایا اگر میں تم سے کسی چیز کے متعلق سوال کروں تو کیا تم سچ سچ بتاؤگے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا ؟ انہوں نے کہا ہاں ! آپ نے پوچھا تم کو اس کام پر کس چیز نے برانگیختہ کیا ؟ انہوں نے کہا ہم نے یہ ارادہ کیا تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہم کو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہم کو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو ضرر نہیں دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 5777 ۔ مسند احمد ج 2، ص 451 ۔ سنن دارمی رقم الحدیث : 69 ۔ جامع الاصول، ج 11، رقم الحدیث : 8886)
40:۔ انصار کے ایک آدمی سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے، آپ قبر کھودنے والے کو وصیت فرما رہے تھے کہ پیروں کی جانب سے قبر کو کشادہ کرو، اور سر کی جانب سے قبر کو کشادہ کرو، جب آپ واپس ہوئے تو ایک عورت کی طرف سے دعوت دینے والا آیا، آپ نے اس کی دعوت کو قبول کرلیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے، پس کھانا لایا گیا، آپ نے اپنا ہاتھ رکھا، پھر قوم نے اپنا ہاتھ رکھا، سب نے کھایا، ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھا آپ اپنے منہ میں ایک لقمہ چبا رہے تھے، آپ نے فرمایا مجھے یہ علم ہوا کہ یہ اس بکری کا گوشت ہے جس کو اس کے مالک کی مرضی کے بغیر لیا گیا ہے، پھر اس عورت کو بلایا گیا اس نے کہا یارسول اللہ ! میں نے کسی کو نقیع (بکریاں فروخت کرنے کی جگہ، منڈی) کی طرف بھیجا تھا، تاکہ میرے لیے بکری خرید لی جائے، تو بکری نہیں ملی، میں اپنے پڑوسی کو پیغام بھیجا جس نے ایک بکری خریدی تھی کہ وہ بکری مجھے قیمت کے عوض بھیج دے تو وہ پڑوسی نہیں ملا، میں نے اس کی بیوی کو پیغام بھیجا تو اس نے وہ بکری مجھے بھیج دی، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کھانا قیدیوں کو کھلا دو ۔ (سنن ابو داود، رقم الحدیث : 3332 ۔ مسند احمد ج 5، ص 293 ۔ جامع الاصول ج 11، رقم الحدیث : 8889 ۔ مشکوۃ رقم الحدیث : 5942)
41:۔ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ (جنگ بدر کے دن) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور آپ نے زمین پر ہاتھ رکھا اور کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور زمین پر ہاتھ رکھا اور کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور زمین پر ہاتھ رکھا۔ پھر حضرت انس (رض) نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے جس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ رکھا تھا کوئی شخص اس سے بالکل متجاوز نہیں ہوا (اسی جگہ گر کر مرا) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ان کو گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔ مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے کل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں کفار بدر کے گرنے کی جگہیں بتا رہے تھے اور فرما رہے تھے، کل فلاں یہاں گرے گا۔ انشاء اللہ۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 2681 ۔ صحیح مسلم المنافقین : 75 (2872) 7088 ۔ سنن نسائی رقم الحدیث : 2073 ۔ مسند احمد ج 3، ص 219 ۔ 258 ۔ مشکوۃ رقم الحدیث : 5938)
42:۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم ایک سفر سے تشریف لائے اس وقت بڑے زور سے آندھی چلی لگتا تھا کہ سوار دفن ہوجائیں گے، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک منافق کی موت کی وجہ سے یہ آندھی بھیجی گئی ہے، جب ہم مدینہ پہنچے تو ایک بہت بڑا منافق مرچکا تھا۔ (صحیح مسلم المنافقین : 15 (2782) 6908 ۔ مسند احمد ج 3، ص 315 ۔ مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : 1029 ۔ جامع الاصول ج 11 ۔ رقم الحدیث : 8885)
43:۔ حضرت ابوموسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ چیزوں کے متعلق سوال کیا گیا جن کو آپ نے ناپسند کیا، جب بکثرت سوال کیے گئے تو آپ غضب ناک ہوئے پھر آپ نے لوگوں سے کہا تم جو چاہتے ہو مجھ سے سوال کرو، ایک شخص نے کہا میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہارا باپ سالم ہے شیبہ کا آزاد کردہ غلام، جب حضرت عمر نے آپ کے چہرے پر غضب کے آثار دیکھے تو عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اللہ عزوجل سے توبہ کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 92، 7291)
44:۔ حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ خیبر کے دن فرمایا کل میں یہ جھنڈا ضرور اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، وہ تمام رات مسلمانوں نے اس بےچینی میں گزاری کہ آپ کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں، صبح کو تمام مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب کو اس جھنڈے کے عطا کیے جانے کی امید تھی، آپ نے پوچھا علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، پھر حضرت علی کو مسلمانوں نے بلایا، وہ لائے گئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا کی، وہ تندرست ہوگئے گویا کہ ان کی آنکھوں میں کبھی تکلیف ہی نہ تھی، آپ نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے لیے دعا کی، وہ تندرست ہوگئے گویا کہ ان کی آنکھوں میں کبھی تکلیف ہی نہ تھی، آپ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا، حضرت علی نے کہا یارسول اللہ ! میں ان سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں گا حتی کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) نہ ہوجائیں، آپ نے فرمایا اطمینان سے جانا، حتی کہ تم ان کے علاقہ میں پہنچ جاؤ، پھر ان کو اسلام کی دعوت دینا، اور ان کو یہ بتانا کہ ان پر اللہ کا کیا حق واجب ہے، اللہ کی قسم ! اللہ تمہارے سبب سے کسی ایک شخص کو ہدایت دے دے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3701، 3009 ۔ صحیح مسلم فضائل الصحابہ، 34 (2406) 6160 ۔ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 8403 ۔ جامع الاصول ج 8، رقم الحدیث : 6495)
45:۔ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں میری اس بیماری میں عیادت کی جس کی وجہ سے میں موت کے کنارے پہنچ گیا تھا، میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے کتنی تکلیف ہے ! میں مال دار ہوں اور میری صرف ایک بیٹی ہے کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ! میں نے کہا کیا نصف مال صدقہ کردوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں، پھر آپ نے فرمایا تہائی مال صدقہ کرو، تہائی مال بہت ہے، اگر تم اپنے وارثوں کو خوشحال چھوڑو تو وہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو فقراء چھوڑو اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں، اور تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو خرچ بھی کروگے تم کو اس میں اجر دیا جائے گا حتی کہ تم جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے اس پر بھی اجر ملے گا، میں نے عرض کیا : یارسولا للہ ! کیا میں اپنے احباب کے پیچھے رہ جاؤں گا۔ (یعنی حج کے بعد ان کے ساتھ مدینہ نہ جا سکوں گا ؟ ) آپ نے فرمایا تم ہرگز پیچھے نہیں رہوگے، تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو بھی کروگے، تمہارے درجے اس سے زیادہ اور بلند ہوں گے اور شاید کہ تم بعد میں زندہ رہو اور تم سے ایک قوم کو فائدہ اور دوسری کو نقصان ہو، اے اللہ ! میرے اصحاب کی ہجرت کو قائم رکھ اور ان کو ان کی ایڑیوں پر نہ لوٹا، لیکن سعد بن خولہ پر افسوس ہے، حضرت سعد نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر اس لیے افسوس کیا کہ وہ مکہ میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ (حضرت سعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد تک زندہ رہے انہوں نے ایران کو فتح کیا جس سے مسلمانوں کو نفع اور مجوسیوں کو نقصان ہوا) ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 4409 ۔ صحیح مسلم الوصیۃ 5 (1628) 4131 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 2864 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2123 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2708 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث :3226 ۔ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 6453 ۔ مسند احمد ج 1، ص 179، 175، ج 3، ص 32 ۔ 365)
46:۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ تم اس قوم سے جنگ نہ کرو جو بالوں والے چمڑے کی جوتیاں پہنیں گے اور حتی کہ تم ترکوں سے قتال نہ کرو، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی اور ناک چپٹی ہوگی اور ان کے چہرے ہتھوڑوں سے کو ٹی ہوئی ڈھالوں کی مانند ہوں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3578 ۔ صحیح مسلم الفتن 62 (2912) 7177 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 4304 ۔ سنن ترمذی رقم الحدیث : 2222 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 4096 ۔ مسند احمد ج 2، ص 239 ۔ مسند حمیدی رقم الحدیث : 1100 ۔ جامع الاصول ج 10، رقم الحدیث : 7870)
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم یہود سے قتال کروگے اور تم ان پر مسلط ہوجاؤگے، حتی کہ ایک پتھر یہ کہے گا کہ اے مسلمان ! میرے پیچھے ایک یہودی ہے۔ اس کو قتل کردو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3593 ۔ صحیح مسلم الفتن 79 (2922) 7202 ۔ مسند احمد ج 2، ص 417)
47:۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ کیا کہ اگر میں اس غزوہ کو پا لوں تو میں اس میں اپنی جان اور مال کو خرچ کروں اگر میں اس میں شہید ہوگیا تو میں سب سے افضل شہید ہوں گا اور اگر میں لوٹ آیا تو میں جہنم سے آزاد ہوں گا۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : 3174، 3173، مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت)
48:۔ حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے گئے اور اہل احد پر نماز جنازہ پڑھی، پھر آپ منبر کی طرف مڑ گئے، (یعنی مسجد کی طرف تشریف لے گئے) آپ نے فرمایا میں تمہارا پیش روہوں، اور میں تم پر گواہ ہوں، اور بیشک اللہ کی قسم ! میں اب بھی اپنے حوض کی طرف ضرور دیکھ رہا ہوں، اور بیشک مجھے تمام روئے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں، اور بیشک اللہ کی قسم ! مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ میرے بعد تم (سب) مشرک ہوجاؤگے البتہ مجھے یہ خوف ہے کہ میرے بعد تم دنیا میں رغبت کروگے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 1344 ۔ صحیح مسلم الفتن 30 (2296) 5864 ۔ سنن ابوداود رقم الحدیث : 3223، 3224 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 1954)
49:۔ حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر کے دن اہل جاہلیت کا فدیہ چار سو (درہم) مقرر کیا، اور حضرت عباس نے یہ دعوی کیا کہ ان کے پاس بالکل مال نہیں ہے، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چھا تو وہ مال کہاں ہے جو تم نے اور ام الفضل نے مل کر دفن کیا تھا اور تم نے کہا تھا کہ اگر میں اس مہم میں کام آگیا تو یہ مال میرے ان بیٹوں کا ہے : الفضل، عبداللہ اور قثم۔ حضرت عباس نے کہا اللہ کی قسم ! مجھے اب یقین ہوگیا کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں، اس بات کا میرے اور ام الفضل کے سوا کسی کو علم نہیں تھا۔ (سبل الہدی والرشاد ج 4، ص 49، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1414 ھ)
50:۔ امام ابن سعد، عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت کرتے ہیں کہ جب جنگ بدر کے دن نوفل کو قید کیا گیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا اپنی جان کے فدیہ میں وہ نیزہ دو جو جدہ میں ہے، انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ کے بعد میرے علاوہ کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ میرے پاس جدہ میں نیزہ ہے۔ (سبل الہدی والرشاد ج 4، ص 69)
51:۔ عاصم بن زید السکونی بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذ (رض) کو جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یمن کی طرف بھیجا، ان کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی باہر نکلے، آپ ان کو وصیت فرما رہے تھے، حضرت معاذ سوار تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب آپ نصیحت سے فارغ ہوئے تو فرمایا اے معاذ ! امید ہے کہ اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہیں کروگے اور شاید کہ تم میری مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدائی کے خیال سے حضرت معاذ رونے لگے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے معاذ مت روؤ کیونکہ (آواز سے) رونا شیطان کا کام ہے۔ (مسند احمد ج 5، ص 235، شیخ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، مسند احمد ج 16، رقم الحدیث : 21953 ۔ دلائل النبوت للبیہقی ج 5، ص 404 ۔ 405) ۔۔ )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بالخصوص قیامت کے احوال کی جو خبریں دی ہیں، ان کے متعلق ہم نے متعدد کتب حدیث کے حوالہ جات سے پچیس احادیث بیان کی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم ماکان ومایکون کے متعلق ہم نے متعدد کتب حدیث کے حوالہ جان سے دس احادیث بیان کی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منجملہ غیب کی جو خبریں دی ہیں اس کے متعلق ہم نے متعدد کتب حدیث سے اکیاون احادیث بیان کی ہیں، سو آپ کے علم غیب کے متعلق یہ کل چھیاسی احادیث ہیں اور ہر ہر حدیث متعدد کتب حدیث کے حوالوں سے مزین ہے۔ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم غیب سے متعلق تمام احادیث کا احاطہ اور احصاء نہیں کیا اور طوالت کی وجہ سے بیشمار احادیث کو ترک کردیا، اس سے قارئین کو یہ اندازہ ہوجائے گا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے جو علم غیب عطا فرمایا تھا، وہ علم کا ایسا عظیم سمندر ہے جس کا تصور بھی ہم لوگ نہیں کرسکتے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہلوانے کی توجیہ کہ اگر میں غیب کو جانتا تو خیر کثیر جمع کرلیتا
علامہ علی بن محمد خازن متوفی 725 ھ لکھتے ہیں :
اگر تم یہ اعتراض کرو کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بکثرت واقعات کی خبر دی ہے اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عظیم معجزوں میں سے ہے تو ان احادیث اور آیت کریمہ " لو کنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر " (الاعراف : 188) میں کیسے تطبیق ہوگی، تو میں کہوں گا کہ ہوسکتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بطور تواضع اور ادب یہ کلمات کہلوائے ہوں اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے مطلع اور قادر کیے بغیر میں غیب کو نہیں جانتا، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب پر مطلع کرنے سے پہلے یہ کلمات کہلوائے ہوں، پھر جب اللہ نے آپ کو مطلع کردیا تو آپ نے غیب کی خبریں دیں، جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے : عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول۔ (الجن : 26 ۔ 27)
یا اس آیت میں کفار کے سوال کا جواب ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سارے مغیبات پر مطلع فرمایا تو آپ نے ان کی خبریں دی اور یہ آپ کا معجزہ ہوگیا اور آپ کی نبوت کی صحت پر دلیل۔ (لباب التاویل للخازن ج 2، ص 167، مطبوعہ پشاور)
علامہ سلیمان جمل متوفی 1204 ھ اور علامہ آلوسی متوفی 1270 ھ نے بھی ان جوابات کو ذکر کیا ہے۔ علامہ سلیمان نے ان جوابات کو اختیار کیا ہے اور علامہ آلوسی نے ان جوابات میں تامل کی دعوت دی ہے۔ (حاشیۃ الجمل علی الجلالین ج 2، ص 217، روح المعانی ج 9، ص 137)
علامہ آلوسی کا مختار جواب یہ ہے کہ اس آیت میں علم غیب کے استمرار کی نفی ہے یعنی اگر میں ہمیشہ غیب کو جانتا ہوتا تو خیر کثیر کو جمع کرلیتا۔ (روح المعانی ج 9، ص 137، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
علامہ خفاجی متوفی 1069 ھ نے یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر علم کی نفی کرائی گئی ہے اور جن احادیث میں علم کا ثبوت ہے وہ اللہ کے بتانے سے ہے۔ (نسیم الریاض ج 3، ص 150، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی 1367 ھ لکھتے ہیں :
یہ کلام براہ ادب و تواضع ہے، معنی یہ ہیں کہ میں اپنی ذات سے غیب نہیں جانتا جو جانتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور اس کی اطلاع سے (خازن) حضرت مترجم (اعلی حضرت) قدس سرہ نے فرمایا بھلائی جمع کرنا اور برائی نہ پہنچنا اسی کے اختیار میں ہوسکتا ہے، جو ذاتی قدرت رکھے اور ذاتی قدرت وہی درکھے گا جس کا علم بھی ذاتی ہو، کیونکہ جس کی ایک صفت ذاتی ہے تو اس کے تمام صفات ذات، تو معنی یہ ہوئے کہ اگر مجھے غیب کا علم ذاتی ہوتا، تو قدرت بھی ذاتی ہوتی اور میں بھلائی جمع کرلیتا اور برائی نہ پہنچنے دیتا، بھلائی سے مراد راحتیں اور کامیابیاں اور دشمنوں پر غلبہ ہے اور برائیوں سے مراد تنگی اور تکلیف اور دشمنوں کا غالب آنا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھلائی سے مراد سرکشوں کا مطیع اور نافرمانوں کا فرمانبردار اور کافروں کا مومن کرلینا ہو، اور برائی سے بدبخت لوگوں کا باوجود دعوت کے محروم رہ جانا، تو حاصل کلام یہ ہوگا کہ اگر میں نفع اور ضرر کا ذاتی اختیار رکھتا تو اے منافقین و کافرین تمہیں سب کو مومن کر ڈالتا اور تمہاری کفری حالت دیکھنے کی تکلیف مجھے نہ پہنچتی۔ (خزائن العرفان علی حاشیۃ کنزل الایمان ص 282، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور)
علماء دیوبند نے بھی اس سے ملتی جلتی اس آیت کی تفسیر کی ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب کہنے اور آپ کی طرف علم غیب کی نسبت کرنے میں علماء دیوبند کا نظریہ
مفتی محمد شفیع دیوبندی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اس کا اعلان کردیں کہ میں اپنے نفس کے لیے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں، دوسروں کے نفع نقصان کا تو کیا ذکر ہے۔
اسی طرح یہ بھی اعلان کردیں کہ میں عالم الغیب نہیں ہوں کہ ہر چیز کا علم ہونا میرے لیے ضروری ہو، اور اگر مجھے علم غیب ہوتا تو میں ہر نفع کی چیز کو ضرور حاصل کرلیا کرتا اور کوئی نفع میرے ہاتھ سے فوت نہ ہوتا۔ اور ہر نقصان کی چیز سے ہمیشہ محفوظ ہی ہوتا تو میں ہر نفع کی چیز کو ضرور حاصل کرلیا کرتا اور کوئی نفع میرے ہاتھ سے فوت نہ ہوتا۔ اور ہر نقصان کی چیز سے ہمیشہ محفوظ ہی رہتا اور کبھی کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں نہیں ہیں، بہت سے کام ایسے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حاصل کرنا چاہا مگر حاصل نہیں ہوئے اور بہت سی تکلیفیں اور مضرتیں ایسی ہیں جن سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچنے کا ارادہ کیا مگر وہ مضرت و تکلیف پہنچ گئی۔ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر آپ صحابہ کرام کے ساتھ احرام باندھ کر عمرہ کا ارادہ کرکے حدود حرم تک پہنچ گئے مگر حرم میں داخلہ اور عمرہ کی ادائیگی اس وقت نہ ہوسکی سب کو احرام کھول کر واپس ہونا پڑا۔
اسی طرح غزوہ احد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زخم پہنچا اور مسلمانوں کو عارضی شکست ہوئی، اسی طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں معروف و مشہور ہیں۔
اور شاید ایسے واقعات کے ظاہر کرنے کا مقصد ہی یہ ہو کہ لوگوں پر عملاً یہ بات واضح کردی جائے کہ انبیاء (علیہم السلام) اگرچہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول اور افضل خلائق ہیں مگر پھر بھی وہ خدائی علم وقدرت کے مالک نہیں تاکہ لوگ اس غلط فہمی کے شکار نہ ہوجائیں جس میں عیسائی اور نصرانی مبتلا ہوگئے کہ اپنے رسول کو خدائی صفات کا مالک سمجھ بیٹھے اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوگئے۔
اس آیت نے بھی یہ واضح کردیا کہ انبیاء (علیہم السلام) نہ قادر مطلق ہوتے ہیں نہ عالم الغیب بلکہ ان کو علم وقدرت کا اتنا ہی حصہ حاصل ہوتا ہے جتنا من جانب اللہ ان کو دے دیا جائے۔
ہاں اس میں شک و شبہ نہیں کہ جو حصہ علم کا ان کو عطا ہوتا ہے وہ ساری مخلوقات سے بڑھا ہوا ہوتا ہے خصوصاً ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اولین و آخرین کا علم عطا فرمایا گیا تھا۔ یعنی تمام انبیاء (علیہم السلام) کو جتنا علم دیا گیا تھا وہ سب اور اس سے بھی زیادہ آپ کو عطا فرمایا گیا تھا۔ اور اسی عطا شدہ علم کے مطابق آپ نے ہزاروں غیب کی باتوں کی خبریں دیں جن کی سچائی کا ہر عام و خاص نے مشاہدہ کیا۔ اس کی وجہ سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہزاروں لاکھوں غیب کی چیزوں کا علم عطا کیا گیا تھا، مگر اس کو اصطلاح قرآن میں علم غیب نہیں کہ سکتے ہیں اور اس کی وجہ سے رسول کو عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا۔ (معارف القرآن ج 4، ص 147 ۔ 148، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی، 1993 ء)
اس کی مزید وضاحت اس تفسیر سے ہوتی ہے جو شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی 1369 ھ نے النمل : 65 میں سپرد قلم کی ہے۔
ہاں بعض بندوں کو بعض غیوب پر باختیار خود مطلع کردیتا ہے جس کی وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص کو حق تعالیٰ نے غیب پر مطلع فرمایا یا غیب کی خبر دے دی، لیکن اتنی بات کی وجہ سے قرآن وسنت نے کسی جگہ ایسے شخص پر عالم الغیب یا فالن یعلم الغیب کا اطلاق نہیں کیا۔ بلکہ احادیث میں اس پر انکار کیا گیا ہے کیونکہ بظاہر یہ الفاظ اختصاص علم الغیب بذات الباری کے خلاف موہم ہوتے ہیں، اس لیے علماء محققین اجازت نہیں دیتے کہ اس طرح کے الفاظ کسی بندہ پر اطلاق کیے جائیں۔ گو لغۃً صحیح ہوں (الی قولہ) واضح رہے کہ علم غیب سے ہماری مراد محض، ظنون و تخمینات نہیں اور نہ وہ علم جو قرائن و دلائل سے حاصل کیا جائے بلکہ جس کے لیے کوئی دلیل و قرینہ نہ ہو وہ ماد ہے۔ اور الاعراف : 188 کی تفسیر کے آخر میں لکھتے ہیں : بہرحال اس آیت میں کھول کر بتلا دیا کہ اختیار مستقل یا علم محیط نبوت کے لواز میں سے نہیں جیسا کہ بعض جہلاء سمجھتے ہیں۔ ہاں شرعیات کا علم جو انبیاء (علیہم السلام) کے منصب سے منتعلق ہے کامل ہونا چاہیے، اور تکوینات کا علم خدا تعالیٰ جس کو جس قدر مناسب جانے عطا فرماتا ہے۔ اس نوع میں ہمارے حضور تمام اولین و آخرین سے فائق ہیں۔ آپ کو اتنے بیشمار علوم و معارف حق تعالیٰ نے مرحمت فرمائے ہیں جن کا احساء کسی مخلوق کی طاقت میں نہیں۔
ہمارے نزدیک بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باوجود عالم ماکان ومایکون ہونے کے عالم الغیب کہنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح مطلقاً یوں نہیں کہنا چاہیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کا علم دیا گیا یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب پر مطلع کیا گیا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب کہنے اور آپ کی طرف علم غیب کی نسبت کرنے میں اعلی حضرت کا نظریہ
اعلی حضرت امام احمد رضا متوفی 1340 ھ لکھتے ہیں :
علم غیب عطا ہونا اور لفظ عالم الغیب کا اطلاق اور بعض اجلہ اکابر کے کلام میں اگرچہ بندہ مومن کی نسبت صریح لفظ یعلم الغیب وارد ہے کما فی مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح للملا علی القاری بلکہ خود حدیث سیدنا عبداللہ بن عباس (رض) میں سیدنا خضر (علیہ السلام) کی نسبت ارشاد ہے کان یعلم علم الغیب مگر ہماری تحقیق میں لفظ عالم الغیب کا اطلاق حضرت عزت عز جلالہ کے ساتھ خاص ہے کہ اس سے عرفاً علم بالذات متبادر ہے۔ کشاف میں ہے المراد بہ الخفی الذی لاینفذ فیہ ابتداء الا علم اللطیف الخبیر و لہذا لا یجوز ان یطلق فیقال فلان یعلم الغیب (غیب سے مراد وہ پوشیدہ چیز ہے جس میں ابتدا صرف اللہ تعالیٰ کا علم نافذ ہوتا ہے۔ اس لیے مطلقاً یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ فلاں شخص غیب کو جانتا ہے)
اور اس سے انکار معنی لازم نہیں آتا۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قطعاً بیشمار غیوب و ماکان ومایکون کے عالم ہیں مگر الم الغیب صرف اللہ عزوجل کو کہا جائے گا، جس طرح حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قطعاً عزت و جلالت والے ہیں تمام عالم میں ان کے برابر کوئی عزیز و جلیل نہ ہے نہ ہوسکتا ہے مگر محمد عزوجل کہنا جائز نہیں بلکہ اللہ عزوجل و محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ غرض صدق و صورت معنی کو جواز اطلاق لفظ لازم نہیں نہ منع اطلاق لفظ کو نفی صحت معنی، امام ابن المنیر اسکندری کتاب الانتصاف میں فرماتے ہیں کم من معتقد لایطلق القول بہ خشیۃ ایھام غیرہ مما لا یجوز اعتقادہ فلا ربط بین الاعتقاد و الاطلاق (کتنے عقائد ایسے ہیں جن کا مطلقاً قول نہیں کیا جاتا۔ مبادا ان کے غیر کا وہم کیا جائے جن کا اعتقاد جائز نہیں ہے، اس لیے کسی چیز کا اعتقاد رکھنے اور اس کا اطلاق کرنے میں کوئی تلازم نہیں ہے) یہ سب اس صورت میں ہے کہ مقید بقید اطلاق اطلاق کیا جائے یا بلا قید علی الاطلاق مثلا عالم الغیب یا عالم الغیب علی الاطلاق اور اگر ایسا نہ ہو بلکہ بالواسطہ یا باالعطا کی تصریح کردی جائے تو وہ محذور نہیں کہ ایمان زائل اور مراد حاصل۔ علامہ سید شریف قدس سرہ حواشی کشاف میں فرماتے ہیں وانما لم یجز الاطلاق فی غیر تعالیٰ لانہ یتبادر منہ تعلق علم بہ ابتداء فیکون منا قضا واما اذا قید وقیل اعلمہ اللہ تعالیٰ الغیب او اطلعہ علیہ فلا محذور فیہ (اللہ تعالیٰ کے غیر کے لیے علم غیب کا اطلاق کرنا اس لیے جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے متبادر یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ علم کا تعلق ابتداءً ہے، تو یہ قرآن مجید کے خلاف ہوجائے گا لیکن جب اس کو مقید کیا جائے اور یوں کہا جائے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے غیب کی خبر دی ہے یا اس کو غیب پر مطلع فرمایا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے) ۔ (فتاوی رضویہ ج 9، ص 81، مطبوعہ دار العلوم امجدیہ، کراچی)
نیز اعلی حضرت امام احمد رضا فرماتے ہیں :
علم مافی الغد (کل کا علم) کے بارے میں ام المومنین کا قول ہے کہ جو یہ کہے کہ حضور کو علم مافی الغد تھا (کل کا علم تھا) وہ جھوٹا ہے۔ اس سے مطلق علم کا انکار نکالنا محض جہالت ہے علم جب کہ مطلق بولاجائے خصوصاً جب کہ غیب کی خبر کی طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے۔ اس کی تصریح حاشیہ کشاف پر میر سید شریف (رح) نے کردی ہے اور یہ یقیناً حق ہے کہ کوئی شخص کسی مخلوق کے لیے ایک ذرہ کا بھی علم ذاتی مانے یقیناً کافر ہے۔ (ملفوظات ج 3، ص 34، مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی، کراچی)
اعلی حضرت فاضل بریلوی اور شیخ شبیر احمد عثمانی دونوں نے ہی یہ تصریح کی ہے کہ علوم اولین و آخرین کے حامل ہونے اور بکثرت غیوب پر مطلع ہونے کے باوجود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب کہنا اور آپ کی طرف علم غیب کی نسبت کرنا ہرچند کہ ازروئے لغت اور معنی صحیح ہے لیکن اصطلاحاً صحیح نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : " وہ (اللہ ہی) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کی بیوی بنائی تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے، پھر مرد نے جب اسے ڈھانپ لیا تو اسے خفیف سا حمل ہوگیا، وہ اس کے ساتھ چل پھر رہی تھی، پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے اللہ سے دعا کی جو ان کا پروردگار ہے کہ اگر تو نے ہمیں صحیح وسالم بیٹا دیا تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے۔ پس جب اللہ نے انہیں صحیح وسالم بیٹا دے دیا تو انہوں نے اس کی عطا میں اس کے شریک ٹھیرا لیے، سو اللہ اس سے بلند ہے جس میں وہ شرک کرتے ہیں "۔
ان روایات کی تحقیقی جن میں مذکور ہے کہ حضرت آدم اور حوا نے اپنے بیٹے کا نام عبدالحارث رکھا
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی 279 ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب حوا حاملہ ہوگیں تو ان کے پاس ابلیس گیا، حوا کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا، ابلیس نے ان سے کہا تم اس کا نام عبدالحارث رکھ دو ، انہوں نے اس کا نام عبدالحارث رکھ دیا پھر وہ بچہ زندہ رہا، یہ کام شیطان کے وسوسہ سے تھا۔ امام عبدالرزاق نے قتادہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے نام رکھنے میں شرک کیا تھا عبادت میں شرک نہیں کیا تھا۔ (تفسیر امام عبدالرزاق رقم الحدیث : 968 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 3088 ۔ مسند احمد ج 7، رقم الحدیث : 20137 ۔ المستدرک ج 2، ص 545 ۔ الدر المنثور ج 3، ص 263)
امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صرف عمر بن ابراہیم از قتادہ کی سند سے مروی ہے۔ اور اس کی روایت لائق احتجاج نہیں ہے۔
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :
امام احمد نے کہا ہے اس نے قتادہ سے منکر احادیث روایت کی ہیں۔ امام ابن عدی نے کہا اس نے قتادہ سے ایسی احادیث روایت کیں ہیں جن میں اس کی کوئی موافقت نہیں کرتا۔ امام ابن حبان نے اس کا ضعفاء میں شمار کیا اور کہا جب یہ قتادہ سے روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔ (تہذیب التہذیب ج 7، ص 359 ۔ رقم الحدیث : 5040 ۔ تہذیب الکمال رقم الحدیث : 4200 ۔ لسان المیزان ج 3، رقم الحدیث : 1959)
حافظ عماد الدین اسماعیل بن کثیر متوفی 774 ھ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں :
یہ روایت اہل کتاب کے آثار سے ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث صحیح ہے کہ جب اہل کتاب تم سے حدیث بیان کریں تو تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب کرو اور اہل کتاب کی روایات کی تین قسمیں ہیں، بعض وہ ہیں جن کا صحیح ہونا ہمیں کتاب اور سنت سے معلوم ہے۔ بعض وہ ہیں جن کا کذب ہمیں کتاب اور سنت سے معلوم ہے۔ (مثلاً حضرت عیسیٰ کو یہود کا سولی پر لٹکانا) اور بعض وہ ہیں جن کا صدق یا کذب متعین نہیں ہے۔ اور اس روایت کا کذب ہمیں معلوم ہے کیونکہ اگر دونوں میاں بیوی سے مراد حضرت آدم اور حوا ہوں تو لازم آئے گا کہ وہ دونوں مشرک ہوں کیونکہ اس سے اگلی آیت میں ہے پس جب اللہ نے انہیں صحیح وسالم بیٹا دے دیا تو انہوں نے اس کی عطا میں شریک ٹھہرا لیے اور حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں اور معصوم ہیں ان کا شرک کرنا عادۃً محال ہے، اور امام عبدالرزاق کی روایت کلبی سے ہے اور اس کا حال سب کو معلوم ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج 3، ص 265، مطبوعہ دار الاندلس بیروت، 1385 ھ)
امام ابن جریر متوفی 310 ھ اور امام ابن ابی حاتم متوفی 327 ھ نے اپنی اپنی سندوں سے روایت کیا ہے :
سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت آدم اور حوا کو زمین پر اتارا گیا تو حضرت آدم کی طبیعت میں شہوت ڈال دی گی اور انہوں نے حضرت حوا سے عمل زوجیت کیا، جس کے نتیجہ میں وہ حاملہ ہوگئیں اور ان کے پیٹ میں بچہ حرکت کرنے لگا اور وہ سوچتی تھیں کہ یہ کیا چیز ہے ؟ ان کے پاس ابلیس گیا اور کہنے لگا تم نے زمین پر اونٹنی، گائے، بکری، دنبہ اور بھیڑ کو دیکھا ہے ؟ ہوسکتا ہے تمہارے پیٹ سے ایسی ہی کوئی چیز نکلے، حضرت حوا یہ سن کر گھبرا گئیں، اس نے کہا میری بات مان لو، اس کا نام عبد الحارث رکھو تو پھر تمہارے مشابہ بچہ پیدا ہوگا۔ حواء نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ حضرت آدم نے فرمایا یہ وہ شخص ہے جس نے ہم کو جنت سے نکلوایا تھا، وہ بچہ مرگیا، حضرت حوا دوبارہ حاملہ ہوئیں ابلیس پھر ان کے پاس گیا اور کہا میری بات مان لو اس کا نام عبدالحارث رکھو، اور ابلیس کا نام فرشتوں میں حارث تھا، اس نے کہا ورنہ کوئی اونٹنی یا گائے یا بکری یا بھیڑ پیدا ہوگی یا تمہارے مشابہ بچہ ہوا تو میں اس کو مار دوں گا جیسے میں نے پہلے بچہ کو مار دیا تھا۔ حواء نے اس واقعہ کا حضرت آدم سے ذکر کیا انہوں نے گویا اس پر ناگواری ظاہر نہیں کی، تو حواء نے اس بچہ کا نام عبد الحارث رکھ دیا۔ سعید بن جبیر نے ان آیات کا مصداق حضرت آدم اور حوا کو قرار دیا ہے۔ (جامع البیان جز 9، ص 193، تفسیر امام ابن ابی حاتم ج 5، ص 1632 ۔ الدر المنثور ج 3، ص 624)
یہ روایت بھی باطل ہے۔ کیونکہ حضرت آدم نے اگر اپنے بیٹے کا نام عبدالحارث بہ طور علم رکھا تھا اور اس کے لفظی معنی کا لحاظ نہیں کیا تھا تو پھر یہ نام رکھنا شرک نہ ہوا کیونکہ اسماء اعلام میں الفاظ کے معانی اصلیہ کا اعتبار نہیں ہوتا۔ پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کو ان آیات کا مصداق قرار دینا صحیح نہ ہوا اور اگر حضرت آدم نے اپنے بیٹے کا نام عبدالحارث بہ طور صفت رکھا تھا تو پھر یہ شرک ہے اور حضرت آدم (علیہ السلام) نبی معصوم ہیں ان سے شرک کیسے متصور ہوسکتا ہے یہ کیوں کر متصور ہوسکتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اپنے بیٹے کو ابلیس کا بندہ قرار دیں۔
جعلا لہ شرکاء (انہوں نے اللہ کے شریک بنا لیے) کی توجیہات
اب پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ہے تو دونوں نے اللہ سے دعا کی نیز دوسری روایت میں ہے جب اللہ نے انہیں صحیح وسالم بیٹا دے دیا تو انہوں نے اس کی عطا میں شریک ٹھہرا لیے یہ دعا کرنے والے اور شریک ٹھہرانے والے کون تھے ؟ مفسرین کرام
نے ان آیات کی حسب ذیل توجیہات کی ہیں :
1 ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا جہل اور ان کا شرک بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تم میں سے ہر شخص کو پیدا کیا ہے، اور اسی کی جنس سے اس کی بیوی بنائی اور جب شوہر نے اپنے بیوی سے عمل زوجیت کرلیا اور وہ حاملہ ہوگئی تو دونوں میاں اور بیوی نے اللہ سے دعا کی، جو ان کا رب ہے کہ اگر تو نے ہمیں صحیح وسالم بیٹا دیا تو ہم تیرے شکر گزاروں میں سے ہوجائیں گے اور جب اللہ ت عالیٰ نے انہیں صحیح وسالم بیٹا دے دیا تو وہ اللہ کی دی ہوئی نعمت میں شرک کرنے لگے۔ دہریے کہوتے ہیں کہ بچہ کا اس طرح پیدا ہونا انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ ستارہ پرست کہتے ہیں کہ یہ ستاروں کی چال اور ان کی تاثیر سے پیدا ہوا اور بت پرست یہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے بتوں اور دیوی دیوتاؤں کی دین ہے۔ اور یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ فطرت ہو یا ستارے، بت ہوں یا دیوی اور دیوتا، سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے اسی نے اولاد کو بھی پیدا کیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے میں اسی نے بیٹا دیا، حضرت زکریا جب بڑھاپے میں اولاد سے ناامید ہوچکے تھے تو انہوں نے اسی کو پکارا اور اسی سے دعا کرنے کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کی بوڑھی اور بانجھ بیوی کو فرزند عطا کیا۔ سو اولاد کی طلب کے لیے اسی کے آستانہ پر سر جھکانا چاہیے اور اولاد پانے کے بعد اسی کا شکر ادا کرنا چاہیے، البتہ اولاد کی طلب کے لیے نیک لوگوں اور بزرگوں سے دعا کرانا جائز ہے اور ان کے وسیلہ سے دعا مانگنا بھی جائز ہے۔
طلب اولاد کے لیے اگر نذر ماننی ہو تو اللہ کی عبادت مقصودہ کی نذر مانی جائے، نذر عبادت ہے اس لیے کسی ولی یا بزرگ کی نذر ماننا جائز نہیں ہے، اگر کسی بزرگ کی دعا سے اولاد ہو یا ان کے وسیلہ کے ساتھ دعا کرنے سے اولاد ہو، تب بھی اللہ کا شکر ادا کرے اور یوں کہے کہ فلاں بزگ کے وسیلہ سے یا ان کی دعا سے اولاد ہوئی، اور اگر عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کے عطا کرنے سے اولاد ہوئی ہے اور فلاں بزرگ وسیلہ ہیں، اور یوں کہے کہ فلاں بزرگ نے اولاد عطا کی ہے تو یہ سبب کی طرف نسبت ہونے کی وجہ سے شرک نہیں ہے لیکن افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ اس مجازی نسبت کا ذکر کرنے کی بجائے حقیقی نسبت کا ذکر کرے اور اللہ تعالیٰ ہی کا شکر ادا کرے جس نے اس بزرگ کی دعا قبول فرمائی اور جائز حد اس بزرگ کی بھی تعطیم کرے کیونکہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جو شخص لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 4811 ۔ سنن الترمذی، رقم الحدیث : 1961 ۔ مسند احمد ج 2، ص 258 ۔ مشکوۃ رقم الحدیث : 3025 ۔ مجمع الزوائد ج 5، ص 217)
2:۔ اس آیت میں ان قریش سے خطاب ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں تھے، اور وہ قصی کی اولاد تھے، اور اس آیت سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تم کو ایک نفس یعنی قصی سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کی بیوی عربیہ قرشیہ بنائی تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کے موافق ان کو صحیح وسالم بیٹا عطا فرمادیا تو ان دونوں میاں بیوی نے اس کی دی ہوئی نعمت میں اللہ تعالیٰ کے شریک گھڑ لیے اور انہوں نے اپنے چار بیٹوں کے یہ نام رکھے۔ عبد مناف، عبدالعزی، عبد قصی اور عبداللات اور اس کے بعد ان کے متبعین کے متعلق فرمایا سو اللہ اس سے بلند ہے جس میں وہ شرک کرتے ہیں۔
3:۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ آیات حضرت آدم اور حواء کے متعلق ہیں تو یہ آیتیں مشرکین کے رد میں نازل ہوئی ہیں اور اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہاں ہمزہ استفہام کا مقس ہے یعنی اجعلالہ شرکاء اور ان آیتوں کا معنی اس طرح ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حواء کی دعا کے موافق ان کو صحیح وسالم بیٹا عطا کردیا تو کیا انہوں نے اللہ کے شریک گھڑ لیے تھے ؟ تو اے مشرکو ! تم کیوں اللہ کے لیے شریک گھڑتے ہو ؟ اور اللہ اس چیز سے بلند ہے جس میں یہ مشرک اللہ کے لیے شریک بناتے ہیں۔
4 ۔ اس صورت میں دوسرا جواب یہ ہے کہ یہاں جعلا کا فاعل اولادھما ہے اور مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ کو اس کا قائم مقام کردیا جو جعلا میں ضمیر فاعل ہے اور معنی اس طرح ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حواء کی دعاء کے موافق ان کو صحیح وسالم بیٹا دیا تو ان کی اولاد نے اللہ کی ہوئی نعمت میں شرک گھڑ لیے۔
5 ۔ قتادہ نے حسن سے روایت کیا ہے کہ یہ آیتیں یہود اور نصاریٰ سے متعلق ہیں یعنی جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی دعا کے موافق صحیح سالم بیٹا دے دیا تو انہوں نے اس اولاد کو یہود و نصاریٰ بنادیا اور یوں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا۔ (جامع البیان جز 9، ص 197، زاد المسیر ج 3، ص 303)
6 ۔ حوا ہر مرتبہ ایک مزکر اور یک مونث دو بچے جنتی تھیں اور جعلا کا فاعل یہ دو بچے ہیں۔ یعنی جب ان کی دعا سے حضرت حوا کے دو صحیح وسالم بچے ہوگے تو ان بچوں نے برے ہو کر اللہ کے شریک بنا لیے یا پھر ان کی اولاد در اولاد نے۔ (زاد المسیر ج 3، ص 303، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت، 1407 ھ)
غلط طریقہ سے نام لینے اور نام بگاڑنے کی مذمت
بعض تفاسیر کے مطابق ان آیتوں میں شرک فی التسمیہ (نام رکھنے میں شرک) کی مذمت فرمائی ہے۔ یعنی عبدالحارث، عبدالعزی، عبداللات وغیرہ نام رکھنا شرک ہیں۔ اور عبداللہ اور عبدالرحمن ایسے نام رکھنے چاہئیں۔ ہمارے زمانہ میں نام کے سلسلہ میں بہت فروگزاشت پائی جاتی ہے بعض لوگ اپنے بچے کا نام عبدالرحمن یا عبدالخالق رکھتے ہیں اور لوگ اس کو رحمن صاحب خالق صاحب کہتے ہیں۔ کسی کا نام عبدالغفور ہوتا ہے اس کو لوگ غفورا، غفورا کہتے ہیں۔ کسی کا نام انعام الٰہی ہوتا ہے اور اور لوگ اس کو الٰہی صاحب کہتے ہیں یہ پڑھے لکھے لوگوں کا حال ہے اور پنجاب میں جو ان پڑھ لوگ ہیں وہ غلام محمد کو گا ما اور غلام رسول کو سولا کہتے ہیں اور جس کا نام کنیز فاطمہ ہو اس کو پھتو کہتے ہیں۔ یہ نام تو صحیح اور مستحب ہیں لیکن ان ناموں کو غلط طریقہ سے پکارنے والے سخت بےادبی اور گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے : " ولا تنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان ومن لم یتب فاولئک الم الظلمون : اور ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ بلاؤ کیسا برا نام ہے ایمان کے بعد فاسق کہلانا، اور جو لوگ توبہ نہ کریں سو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہیں " (الحجرات :11)
بچوں کا نام رکھنے کی تحقیق
دوسری بڑی خرابی نام رکھنے کے سلسلہ میں ہے لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ نام رکھنے میں انفرادیت ہو اور ان کو یہ شوق ہوتا ہے کہ ان کے بچے کا نا نیا اور اچھوتا ہو۔ خواہ اس کا مطلب، معنی کچھ نہ ہو۔ اس کی ایک عام مثال یہ ہے کہ لوگ شرجیل نام رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ مہمل لفظ ہے اصل لفظ شرحبیل ہے۔ اسی طرح بچی کا نام ثوبیہ رکھتے ہیں یہ بھی مہمل لفظ ہے اصل لفظ ثوبیہ ہے۔ بہترین نام عبداللہ اور امۃ اللہ ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ نام رکھنے کے سلسلہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو ہدایات دیں ان پر مشتمل احادیث کو یہاں بیان کردیں۔
پسندیدہ اور ناپسندیدہ ناموں کے متعلق احادیث
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے نزدیک تمہارے سب سے پسنیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔ (صحیح مسلم الآداب 2 (2132) 5483 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2841 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3728)
حضرت زینب بنت ابی سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرا نام برہ (نیکو کار) رکھا گیا تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اپنی پاکیزگری اور بڑائی مت بیان کرو، اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ تم میں سے کون نیکو کار ہے۔ صحابہ نے پوچھا ہم ان کا کیا نام رکھیں ؟ آپ نے فرمایا اس کا نام زینب رکھو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6192 ۔ صحیح مسلم الاداب 19 (2142) 5504 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3732)
جن اسماء سے صاحب اسم کی پاکیزگی اور بڑائی ظاہر ہوتی ہو ایسے نام رکھنا ناپسندیدہ اور مکروہ ہیں، جیسے آج کل لوگ نام رکھتے ہیں شمس الزمان، شمس الہدی، اعظم خان، اکبر خان وغیرہ۔ علامہ شامی نے لکھا ہے کہ شمس الدین اور محی الدین نام رکھنا ممنوع ہے اس میں خود ستائی کے علاوہ جھوٹ بھی ہے۔ علامہ قرطبی مالکی نے بھی ایسے ناموں کو ممنوع لکھا ہے اور علامہ نووی شافعی نے مکروہ لکھا ہے۔ (رد المحتار ج 5، ص 268)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر کی بیٹی کا نام عاصیہ (گنہ کرنے والی) تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔ (صحیح مسلم الاداب، 15 (2139) 5500 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 4952 ۔ سنن الترمزی رقم الحدیث : 2847 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3733)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برے نام کو تبدیل کردیتے تھے۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث : 2848، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
شریح بن ھانی اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ وفد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے قوم سے سنا کہ وہ ان کی نیت ابوالحکم کے ساتھ ان کو پکارتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بلا کر فرمایا بیشک اللہ ہی حکم ہے اور اسی کی طرف مقدمات پیش کیے جاتے ہیں تم نے اپنی کنیت ابوالحکم کیوں رکھی ہے ؟ انہوں نے کہا میری قوم کا جب کسی معاملہ میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ان کے درمیان حکم دیتا ہوں (فیصلہ کرتا ہوں) تو میرے حکم پر دونوں فریق راضی ہوجاتے ہیں (سو اس لیے میری کنیت ابو الحکم۔ یعنی حکم دینے والا) ۔ آپ نے فرمایا یہ اچھا نہیں ہے، تمہارے بیٹے ہیں، شرح نے کہا میرے تین بیٹے ہیں۔ شریح، مسلم اور عبداللہ۔ آپ نے پوچھا ان میں سے بڑا کون ہے ؟ میں نے کہا شریح، آپ نے فرمایا پس تم ابو شریح (شریح والا) ہو۔ (سنن ابو داود رقم الحدیث : 4955 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 5378)
اللہ کے اسماء صفات کی طرف اب کی اضافت کرکے کنیت رکھنا ممنوع ہے تاکہ یہ وہم نہ ہو کہ یہ شخص اللہ کی صفت والا ہے جیسے کوئی شخص ابو الغفور، ابو الرحیم یا ابو الاعلیٰ کنیت رکھ لے۔
عبدالنبی نام رکھنے کا شرعی حکم
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے میرا عبد، (بندہ) اور میری بندی، تم سب اللہ کے عبد ہو اور تمہاری عورتیں اللہ کی بندی ہیں۔ لیکن تم کو کہنا چاہیے میرا غلام اور میری باندی یا میرا نوکر اور میری نوکرانی۔ (صحیح مسلم الفاظ الادب، 13 (2249 13 (2249) 2765 ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث :2552 ۔ سنن کبری للنسائی رقم الحدیث : 10070 ۔ مسند احمد ج 2، ص 444)
کسی شخص کا اپنے مملوک کو میرا عبد کہنا خلاف اولیٰ یا مکروہ تنزیہی ہے، حرام نہیں ہے۔ کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس کا مملوک اللہ کا عبد ہے اور اس کی عبادت کرتا ہے، اب اگر اس کا مالک بھی اس کو اپنا عبد کہے تو اس میں شرک کی مشابہت کا خدشہ ہے، لہذا اس سے احتراز کے لیے اولیٰ ہے کہ اس کو میرا نوکر اور میرا خادم کہے، اور یہ حرام اس لیے نہیں ہے کہ قرآن مجید میں مالک کی طرف عبد کی اضافت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : " وانکحوا الایامی منکم والصلحین من عبادکم وامئکم : اور تم اپنے بےنکاح (آزاد) مردوں اور عورتوں کا اپنے نیک عباد (غلاموں) اور باندیوں سے نکاح کردو "
اسی طرح احادیث میں بھی عبد کی اضافت مسلمان کی طرف کی گئی ہے۔
" عن ابی ہریرہ ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال لیس علی المسلم فی عبدہ ولا فی فرسہ صدقۃ : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان کے بعد اور اس کے گھوڑے میں زکوۃ نہیں ہے " (صحیح البخاری رقم الحدیث : 1463 ۔ صحیح مسلم زکوۃ 8 (982) 2237 ۔ سنن ابو داود رقم الحدیث : 1594 ۔ سنن الترمزی 9 رقم الحدیث : 628 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 2467 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1812)
علامہ ابن بطال نے کہا کہ اس آیت کی رو سے کسی شخص کا اپنے غلام کو میرا عبد کہنا جائز ہے اور احادیث میں ممانعت تغلیظ کے لیے ہے تحریم کے لیے نہیں، اور یہ مکروہ اس لیے ہے کہ یہ لفظ مشترک ہے کیونکہ اس کا غلام بہرحال اللہ کا عبد ہے اب اگر وہ اسے میرا عبد کہے تو اس سے اس غلام کا مشترک ہونا لازم آگیا۔ (عمدۃ القاری ج 13، ص 110، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، 1348 ھ)
بعض لوگوں کا نام عبدالنبی اور عبدالرسول رکھا جاتا ہے۔
شیخ اشرف علی تھانوی نے کفر اور شرک کی باتوں کا بیان، اس عنوان کے تحت لکھا ہے۔ علی بخش، حسین بخش، عبدالنبی وغیرہ نام رکھنا۔ (بہشتی زیور، ج 1، ص 35، مطبوعہ ناشران قرآن لمیٹڈ، لاہور)
ظاہر ہے کہ یہ دین میں غلو اور زیادتی ہے۔ عبدالنبی اور عبدالرسول نام رکھنا سورة نور کی اس آیت کے تحت جائز ہے اور احادیث میں جو ممانعت وارد ہے، اس کی وجہ سے خلاف اولیٰ یا مکروہ تنزیہی ہے۔ ہمارے نزدیک مختار یہی ہے کہ عبدالنبی، عبدالرسول اور عبدالمصطفیٰ نام رکھنا، ہرچند کہ جائز ہے لیکن چونکہ احادیث میں اس کی ممانعت ہے، اس لیے خلاف اولیٰ یا مکروہ تنزیہی ہے، اس لیے افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ ان کے بجائے غلام نبی، غلام رسول اور غلام مصطفیٰ نام رکھے جائیں۔
علامہ ابن اثیر جزری متوفی 606 ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث میں ہے کوئی شخص اپنے مملوک کو میرا عبد نہ کہے بلکہ میرا نوکر یا خادم کہے۔ یہ ممانعت اس لیے کی گئی ہے تاکہ مالک سے تکبر اور بڑائی کی نفی کی جائے اور مالک کی طرف غلام کی عبودیت کی نسبت کی نفی کی جائے اس کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وہی تمام بندوں کا رب ہے۔ (النہایہ ج 3، ص 155، ص مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، مجمع بحار الانوار ج 3 ص 512، مطبوعہ مکتبہ دار الایمان المدینہ المنورہ، 1415 ھ)
علامہ عبدالروؤف مناوی شافعی متوفی 1021 ھ لکھتے ہیں : اجلاء الشافعیہ میں سے علامہ ازرعی نے کہا فتاوی میں مذکور ہے کہ ایک انسان کا نام عبدالنبی رکھا گیا میں نے اس میں توقف کیا۔ پھر میرا اس طرف میلان ہوا کہ یہ نام حرام نہیں ہے، جب اس کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت سے مشرف ہونے کا ارادہ کیا جائے اور لفظ عبد سے خادم کے معنی کا ارادہ کیا جائے اور اس نام کی ممانعت کی بھی گنجائش ہے جب جاہلوں کے عقیدہ شرکیہ کا خدشہ ہو یا کوئی شخص لفظ عبد سے حقیقت عبودیت کا ارادہ کرے، علامہ دمیری نے یہ کہا ہے کہ عبدالنبی نام رکھنے کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ جب اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طر نسبت کرنے کا قصد کیا جائے تو جائز ہے اور اکثر علماء کا میلان اس نام رکھنے کی ممانعت کی طرف ہے، کیونکہ اس میں اللہ کا شریک بنانے کا خدشہ ہے اور حقیقت عبودیت کے اعتقاد کا خطرہ ہے۔ جس طرح عبدالدار نام رکھنا منع ہے اور اسی قیاس پر عبدالکعبہ نام رکھنا حرام ہے۔ (فیض القدیر ج 1، ص 321 ۔ 322 ۔ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 1418 ھ)
شیخ محمد حنفی لکھتے ہیں :
عبد النبی نام رکھنے کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ یہ حرام ہے، کیونکہ اس سے یہ وہم ہوگا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پیدا کیا ہے۔ اور اس دلیل کو مسترد کردیا گیا ہے کیونکہ جو شخص بھی عبدالنبی کا لفظ سنتا ہے وہ اس سے خادم کا معنی سمجھتا ہے مخلوق کا معنی نہیں سمجھتا۔ ہاں اولیٰ یہ ہے کہ یہ نام نہ رکھا جائے تاکہ یہ وہم نہ ہو۔ (حاشیہ فیض القدیر علی ھامش السراج المنیر ج 1، ص 51، المطبوعہ المطبعہ الخیریہ، 3104 ھ)
علامہ شامی لکھتے ہیں : فقہاء نے عبد فلاں نام رکھنے سے منع کیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبدالنبی نام رکھنا ممنوع ہے، علامہ مناوی نے علامہ دمیری (شافعی) سے نقل کیا ہے کہ ایک قول جواز کا ہے جبکہ اس نسبت سے مشرف ہونا مقصود ہو، اور اکثر فقہاء نے اس خدشہ سے منع کیا ہے کہ کوئی حقیقت عبودیت کا اعتقاد کرے، جیسے عبدالدار نام رکھنا جائز نہیں ہے۔ (رد المحتار ج 5 ص 368، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1407 ھ)
اعلی حضرت متوفی 1340 ھ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے برسر منبر خطبہ میں فرمایا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا میں آپ کا عبد اور خادم تھا۔ (النور والضیاء ص 24، مطبوعہ پروگریسو بکس لاہور)
حضرت عمر (رض) کا یہ ارشاد خلاف اولیٰ نہیں ہے۔ کیونکہ آپ نے عبد کے ساتھ خادم کے لفظ کا ذکر فرمایا ہے جس سے عبد بمعنی مخلوق کا وہم پیدا نہیں ہوتا۔
قیامت کے دن انسان کو اس کے باپ کے نام کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا یا ماں کے نام کی طرف ؟
قیامت کے دن انسان کو اس کے باپ کے نام کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا۔ امام بخاری نے کتاب الاداب میں ایک باب کا یہ عنوان قائم کیا ہے لوگوں کے آباء کے نام سے پکارا جائے گا اور اس باب کے تحت یہ حدیث ذکر کی ہے۔
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین اور آخرین کو جمع فرمائے گا اور ہر عہد شکن کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا پھر کہا جائے گا یہ فلاں بن فلاں کی عہد شکنی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 6177 ۔ صحیح مسلم جہاد 9 (1735) 4448)
حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک تم قیامت کے دن اپنے ناموں سے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤگے تو اپنے اچھے نام رکھو۔ (سنن ابو داود رقم الھدیث : 4948 ۔ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 5818 ۔ سنن دارمی رقم الحدیث : 2694 ۔ مسند احمد ج 5، ص 194، طبع قدیم، اس کی سند صحیح ہے۔ مسند احمد ج 16، رقم الحدیث : 21859، مطبوعہ دار الحدیث قاہرہ۔ موارد الظمآن رقم الحدیث : 1944 ۔ سنن کبری للبیہقی ج 9، ص 306 ۔ مشکوۃ، رقم الحدیث : 4767)
بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کی ماں کے نام کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے :
سعید بن عبداللہ اودی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ (رض) کے پاس گیا اس وقت وہ نزع کی کیفیت میں تھے۔ انہوں نے کہا جب میں مرجاؤں تو میرے ساتھ اس طرح عمل کرنا جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مردوں کے ساتھ عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تمہارے بھائیوں میں سے کوئی شخص فوت ہوجائے تو تم اس کی قبر کی مٹی ہموار کرنے کے بعد اس کی قبر کے سرہانے کھرے ہوجانا پھر کہنا اے فلاں بن فلانہ، کیونکہ وہ تمہاری بات سنے گا اور جواب نہیں دے سکے گا۔ پھر کہنا اے فلاں بن فلانہ تو پھر وہ سیدھا ہو کر بیٹھ جائے گا۔ پھر کہنا اے فلاں بن فلانہ تو وہ کہے گا اللہ تم پر رحم کرے ہم کو ہدایت دو ، لیکن تم کو اس کے کلام کو شعور نہیں ہوگا۔ پھر اس سے یہ کہنا کہ یاد کرو جب تم دنیا سے گئے تھے تو ان لا الہ الا اللہ وان محمد عبدہ ورسولہ کی شہادت دیتے تھے اور تم اللہ کو رب مان کر، اور اسلام کو دین مان کر، اور (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی مان کر اور قرآن کو امام مان کر راضی تھے۔ پھر منکر اور نکیر میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر یہ کہے گا یہاں سے چلو ہم اس شخص کے نہیں بیٹھتے جس کو جواب تلقین کردیا گیا ہے۔ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! اگر ہم کو اس کی ماں کا نام یاد نہ ہو تو ؟ آپ نے فرمای پھر پکارنے والا اس کو حواء کی طرف منسوب کرے اور کہے یا فلاں بن حواء : (المعجم الکبیر ج 8، رقم الحدیث : 7979 ۔ تہذیب تاریخ دمشق ج 6، ص 424، مجمع الزوائد ج 2، ص 324، کنزالعمال رقم الحدیث : 42406، 42934)
اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری بحث اس میں ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے باپ کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا اور اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ دفن کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر اس شخص کو اس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے لہذا یہ حدیث ہمارے خلاف نہیں ہے۔
اس موضوع پر حسب ذیل احادیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا پردہ رکھتے ہوئے قیامت کے دن ان کو ان کے ناموں سے پکارے گا۔ (المعجم الکبیر ج 11، رقم الحدیث : 11242 ۔ البدور السافرہ ص 335 ۔ الدر المنثور ج 8، ص 53)
حافظ سیوطی نے البدور السافرہ میں یہ حدیث اسی طرح ذکر کی ہے لیکن الدر المنثور میں امام طبرانی اور امام ابن مردویہ کے حوالوں سے اس طرح ذکر کی ہے : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں کا پردہ رکھتے ہوئے ان کو ان کی ماؤں کی طرف منسوب کر کے پکارے گا۔ لیکن امام طبرانی کی روایت میں ماؤں کا ذکر نہیں ہے۔ حافظ الہیثمی نے کہا ہے اس حدیث کا ایک راوی اسحاق بن بشر ابوحذیفہ متروک ہے (مجمع الزوائد ج 10، ص 359) حافط محمد بن احمد ذہبی متوفی 748 ھ اس کے متعلق لکھتے ہیں : امام ابن حبان نے کہا اس کی احادیث کو اظہار تعجب کے سوا لکھنا جائز نہیں ہے۔ امام دار قطنی نے کہا یہ کذاب متروک ہے۔ علی بن مدینی نے بھی اس کو کذاب قرار دیا، یہ شخص 260 ھ میں بخاری میں فوت ہوگیا تھا۔ (میزان الاعتدال ج 1، ص 335، رقم 740، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1416 ھ)
امام ابن عدی، اسحاق بن ابراہیم الطبری کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ عزوجل کی طرف سے لوگوں پر ستر کرتے ہوئے ان کو ان کی ماؤں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا۔ امام ابن عدی نے کہا یہ حدیث اس سند کے ساتھ منکر ہے۔ (الکام فی ضعفاء الرجال ج 1، ص 335، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
علامہ شمس الدین ذہبی اسحاق بن ابراہیم الطبری کے متعلق لکھتے ہیں امام ابن عدی اور امام دارقطنی نے اس کو منکر الحدیث قرار دیا اور امام ابن حبان نے کہا یہ ثقات سے موضوعات کو روایت کرتا ہے، اس کی احادیث کو اظہار تعجب کے سوا روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ امام ابن حبان نے اس کی متعدد باطل روایتوں کی مثال ذکر کی ہے، حافظ ذہبی نے اس روایت کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا ہے۔ یہ منکر ہے۔ (میزان الاعتدال ج 1، ص 327، رقم : 719، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
علامہ بدر الدین محمد بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
امام بخاری کی صحیح حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قیام کے دن لوگوں کو صرف ان کی ماؤں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا تاکہ ان کے آباء پر پردہ رہے۔ نیز اس حدیث سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اشیاء پر حکم ان کے ظاہر کے اعتبار سے لگایا جاتا ہے۔ (عمدۃ القاری ج 22، ص 201، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر، 1348 ھ)
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :
علامہ بن ابطال نے کہا ہے کہ اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں کو صرف ان کی ماؤں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا تاکہ ان کے (اصل) آباء پر پردہ رہے۔ (علامہ عسقلانی فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ یہ وہ حدیث ہے جس کو امام طبرانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے اور اس کی سند بہت ضعیف ہے اور امام ابن عدی نے اس کی مثل حضرت انس سے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ منکر ہے۔ علامہ ابن بطال نے کہا کسی شخص کی پہچان اور شناخت کے لیے اس کو اس کے باپ کی طرف منسوب کرنا بہت زیادہ واضح ہے۔ اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چیزوں کے ظاہر پر حکم لگانا جائز ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی شخص کی اس کے اسی باپ کی طرف نسبت کی جائے گی جو دنیا میں اس کا باپ مشہور تھا نہ کہ اس کے حقیقی باپ کی طرف اور یہی قول معتمد ہے۔ (فتح الباری ج 10، ص 563، مطبوعہ لاہور، 1401 ھ)
بچوں کا نام محمد رکھنے کی فضیلت
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرا نام رکھو اور میری کنیت نہ رکھو، کیونکہ میں ہی قاسم ہوں اور تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 6196 ۔ صحیح مسلم الاداب 5 (2131) 5487 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3728)
حضرت ابو وہب جشمی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انبیاء کے نام رکھو۔ اور تمام اسماء میں اللہ کو محبوب عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں اور حارث اور ہمام تمام ناموں میں سچے ہیں۔ اور سب سے قبیح نام حرب (جنگ) اور مرہ (کڑوہ) ہے۔ (سنن ابوداود رقم الھدیث : 4950 ۔ سنن النسائی رقم الحدیث : 3568)
حارث کے صادق ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حارث کا معنی ہے کسب اور کام کرنے والا اور ہر انسان کوئی نہ کوئی کام کرتا ہے۔ سو یہ نام اپنے معنی کے مطابق ہے اور ہمام کا معنی ہے ارادہ کرنے والا اور ہر انسان کسی نہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے۔
علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :
علامہ مناوی نے کہا ہے کہ عبداللہ نام رکھنا مطلقاً افضل ہے، اس کے بعد عبدالرحمن ہے، اس کے بعد محمد نام رکھنا افضل ہے، پھر احمد نام رکھنا، پھر ابراہیم نام رکھنا۔ ایک اور جگہ یہ ہے کہ عبداللہ اور عبدالرحمن کے ساتھ ان کی مثل دوسرے نام لاحق ہیں مثلاً عبدالرحیم اور عبدالمالک وغیرہ۔ اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ محمد اور احمد نام، اللہ تعالیٰ کو تمام ناموں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی کو وہی نام رکھا ہے جو اس کو تمام ناموں میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور اس نے اس کا نام محمد یا احمد رکھا تو وہ شخص اور اس کا بچہ دونوں جنت میں ہوں گے۔ اس حدیث کو امام ابن عساکر نے حضرت ابوامامہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ حافظ سیوطی نے کہا ہے اس باب میں یہ سب سے عمدہ حدیث ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (رد المحتار ج 5، ص 268، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1407 ھ)
" محمد " نام رکھنے کے متعلق متعدد احادیث وارد ہیں ان میں سے بعض کی اسانید ضعیف ہیں لیکن چونکہ فضائل میں احادیث ضعیفہ کا اعتبار ہوتا ہے اس لیے ہم وہ احادیث بیان کر رہے ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کے ہاں تین بیٹے ہوئے اور اس نے کسی کا نام محمد نہیں رکھا اس نے جہالت کا کام کیا۔ (الکامل لابن عدی ج 6، ص 2107 ۔ المعجم الکبیر ج 11 ۔ رقم الحدیث : 11077 ۔ مجمع الزوائد ج 8، ص 49 ۔ کنز العمال رقم الحدیث : 45204 ۔ مسند الحارث ص 199 ۔ 200)
حافظ سیوطی نے کہا ہے کہ اس کی سند میں موسیٰ ، لیث سے متفرد ہے اور وہ ضعیف ہے لیکن اس کا ضعف وضع تک نہیں پہنچا۔ امام مسلم، امام ابو داود، امام ترمزی، امام ابن ماجہ اور امام طبرانہ نے اس سے احادیث کو روایت کیا ہے، اور امام ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے۔ یہ حدیث مسند الحارث میں بھی ہے اور یہ مقبول کی قسم میں داخل ہے۔ (اللآلی المصنوعہ ج 1، ص 93، 94، مطبوعہ دار الکتب العلملیہ بیروت، 1417 ھ)
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے تین بیٹے ہوں اور وہ کسی کا نام محمد نہ رکھے تو یہ بےوفائی کے کاموں میں سے ہے اور جب تم اس کا نام محمد رکھو تو نہ اس کو برا کہو (گالی دو ) اور نہ اس پر سختی کرو، نہ اس پر ناک چڑھاؤ اور نہ اس کو مارو، اس کی قدر منزلت اور تعطیم و تکریم کرو اور اس کی قسم پوری کرو۔ (الکامل لابن عدی، ج 3، ص 890)
امام ابن عدی متوفی 365 ھ نے اس حدیث کو منکر قرار دیا ہے۔ حافظ سیوطی لکھتے ہیں اس حدیث کی تقویت اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو امام دیلمی متوفی 509 ھ نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے چار بیٹے ہوں اور وہ میرا نام کسی کا نہ رکھے اس نے مجھ سے بےوفائی کی۔ (الفردوس بماثور الخطاب ج 3، رقم الحدیث : 5981) ۔ نیز امام بکیر نے اپنی سند کے ساتھ مرفوعاً روایت کیا ہے : جب تم کسی کا نام محمد رکھو تو اس نام کی تعظیم کے سبب سے اس کی تعظیم اور توقیر کرو اور اس کی تکریم کرو، اس کی تذلیل اور تحقیر نہ کرو اور اس پر سختی نہ کرو۔ (الجوامع رقم الھدیث : 2010 ۔ اللآلی المصنوعہ ج 1، ص 94، مطبوعہ بیروت، 1417 ھ)
حضرت ابو رافع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم کسی کا نام محمد رکھو تو نہ اس کو مارو نہ محروم کرو۔ امام دیلمی کی روایت میں یہ اضافہ ہے (نام) محمد میں برکت رکھی گئی ہے اور جس گھر میں محمد ہو، اور جس مجلس میں محمد ہو۔ (مسند البزار رقم الحدیث : 1359 ۔ مجمع الزوائد، ج 8، ص 48 ۔ الفردوس بماثور الخطاب رقم الحدیث : 1354 ۔ کنز العمال رقم الحدیث : 45197، 45220 (اس حدیث کی سند ضعیف ہے)
امام فراوی اپنی سند کے ساتھ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا اے محمد ! کھڑے ہوں اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوجائیں تو ہر وہ شخص جس کا نام محمد ہوگا وہ کھڑا ہوجائے گا اور یہ گمان کرے گا کہ یہ اس کو نداء کی گئی ہے تو نام محمد کی کرامت کی وہ سے ان کو منع نہیں کیا جائے گا۔ (تنزیہ الشریعہ مطبوعہ القاہرہ)
حافظ سیوطی لکھتے ہیں : اس حدیث کی سند معضل (منقطع) ہے اور اس کی سند سے کئی راوی ساقط ہیں۔ (اللآلی المصنوعہ ج 1، ص 97، مطبوعہ بیروت)
حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور اس نے میری محبت کی وجہ سے اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کی وجہ سے اس کا نام محمد رکھا تو وہ شخص اور اس کا بچہ دونوں جنت میں ہوں گے۔ (تنزیہ الشریعہ ج 1، ص 198، جامع الاحادیث الکبیر رقم الحدیث : 23255 ۔ کنز العمال رقم الحدیث : 45223)
حافظ سیوطی نے لکھا ہے کہ اس باب میں جنتی احادیث وارد ہیں یہ ان سب میں عمدہ حدیث ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ (اللآلی المصنوعہ ج 1، ص 97، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)