Post by zarbehaq on Jul 21, 2015 0:28:46 GMT
امام ابی الفرج عبدالرحمٰن بن علی بن الجوزی رحمتہ اللہ علیہ اور عقائدِ مجسمی
مجسمی کون؟
جو اللہ کے لئے جسم کی تشبیہہ کا کسی بھی طرح سے قائل ہو
تفصیلات و ترجمہ صفحات ۵۱۴ تا ۵۲۰ از تلبيس ابليس
ترجمه؛ "(امام جوزی لکھتے ہیں) مجسمہ فرقہ کے اقوال میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ٹٹول کے چھوسکتے ہیں تو ان سے کہا جائے کہ پھر اس سے لازم آتا ہے کہ اس سے معانقہ بھی کیا جائے۔ مجسمہ نے کہا کہ وہ جسم ایک فضا ہے (یعنی خالی جیسے آسمان و زمین کے درمیان نظر آتا ہے) (نوٹ: ایسا ہی عقیدہ غیرمقلد وہابیوں کا ہے) اور جمعی اجسام اسی کے درمیاں میں۔ بیان ابن سمعان بن عمران کہتا تھا کہ اس کا معبود بالکل نور ہے۔ اور وہ ایک مرد کی صورت پر ہے۔ اور وہ اپنے سب اعضاء کا مالک ہے سوائے چہرے کے ۔ (ںوٹ: ایسا ہی موجودہ مجسمیوں کا بھی عقیدہ ہے) اس شخص کو خالد بن عبداللہ نے قتل کردیا۔ مغیرہ بن سعد العجلی کہتا تھا کہ اس کا معبود نور کا ایک مرد ہے۔ جس کے سر پر نور کا تاج ہے۔ اور اس کے اعضاء ہیں۔ اور اسکے قلب سے حکمت اسطرح جوش مارتی ہے جیسے چشمہ سے اس بات کا بھی قائل تھا کہ محمد بن عبداللہ بن الحسن بن الحسن امام ہیں۔ زراہ بن اعین کوفی کہا کرتا تھا کہ ازل میں بارہ تعالیٰ کو علم و قدرت وحیات کی صفتیں نہ تھیں۔ پھر اس نے اپنے لیئے یہ صفتیں پیدا کرلیں۔ داؤد الحواری نے کہا کہ وہ جسم ہے ، اس میں گوشت وخون ہے اور اسکے جوارح و اعضاء ہیں اور منہ سے سینہ تک جوف ودر(خول) ہے اور باقی ٹھوس ہے۔
منجملہ ان لوگوں کے جو حواس پر ٹھہر گئے کچھ لوگ ہیں جن کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر بذات خود اس سے ملا ہوا بیٹھا ہے (نوٹ: یہی آجکے سلفیوں کا بھی دھرم ہے) ۔ پھر جب وہاں سے اترتا ہے تو عرش کو چھوڑ کر اتر آتا ہےاور متحرک ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے اسکی ذات کو ایک محدود متناہی قرار دیا اور یہ لازم کیا کہ وہ ناپ میں آسکتا ہے اور اس کی مقدار محدود ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کہ اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے۔" ان لوگوں نے کہا کہ اترنا اسی کے حق میں کہتے ہیں جو اوپر چڑھا ہو۔ اور انہوں نے اترنے کو محسوس چیز پر رکھا جس سے اجسام کا وصف بیان کیا جاتا ہے۔ یہ قومِ مشبہ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات کو محسوس کے موافق قرار دیتے ہیں۔ ہم نے ان کا اکثر کلام اپنی کتاب "منہاج الوصول الیٰ علم الاصول" میں ذکر کیا ہے۔" (اختتام)۔
نوٹ: آپ نے ملاحظہ کیا کہ اللہ کے لیئے تجسیم کا شرک ، رخ جہت وغیرہ کا یہ قولِ بد ابن تیمیہ کا بھی تھا، اور اسکے بھگتوں یعنی موجودہ (وہابی، سلفی، اہلحدیث) کا بھی یہی قول ہے۔ اس لیئے خوارج کا یہ فرقہ آج بھی اپنے عقائدے کے حساب سے پچھلے تمام گمراہ فرقوں کی بھرپور نمائندگی کررہا ہے۔ اللہ بھٹکے ہوؤں کو ہدایت دے آمین۔