سوال: کیا یزید اس حدیث کے تناظر میں لایا جاسکتا ہے جس میں رسول کریم علیہ السلام نے قسطنطنیہ کے جہاد میں شریک ہونے والوں کی مغفرت کی بشارت دی تھی؟
قسطنطنیہ پر پہلا حملہ؛۔
قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر سے متعلق البدایۃ والنہاٰیۃ ج ۷ ص ۱۷۹ میں ہے۔ ترجمہ؛
۳۲ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے روم پر حملہ کیا، معرکے سر کرتے رہے یہاں تک کہ قسطنطنیہ کے تنگ نالے تک پہنچ گئے۔
التاریخ الکامل ج ۳ ص ۲۵ میں لکھا ہے۔
ثم دخلت سنۃ اثنین وثلاثین ۔ قیل فی ھذہ السنتہ غزا معاویۃ بن ابی سفیان مطیق القسطنطنیۃ معہ زوجۃ عاتکہ بنت قرظۃ وقیل فاختۃ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ پر پہلی مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حملہ کیا، اس جنگ میں یزید کے شریک ہونے کا کہیں ذکر نہیں ملتا ، البدایۃ والنہایۃ ج ۹ ص ۷۶ کے مطابق یزید ۲۶ھ میں پیدا ہوا اور ۳۲ ھ میں وہ چھ سال کا بچہ تھا۔
قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ؛۔
دوسری مرتبہ ۴۳ میں مسلمانوں نے حضرت بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ملک روم پر حملہ کیا اور روم میں دور تک نکل گئے یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچے۔ البدایۃ والنہاٰۃ ج ۸ ص ۲۷ میں ہے۔
سنۃ ثلاث و اربعین فیھا غزا بسر بن ارطاۃ بلاد الروم فتوغل فیھا حتی بلغ مدینۃ قسطنطنیۃ۔
علامہ ابن خلدون جیسے نقاد مورخ نے بھی اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ تاریخ ابن خلدون ج ۳ ص ۹ میں ہے۔ ثم دخل یسر بن ارطاۃ ارضھم سنۃ ثلاث و اربعین ومشی بھا وبلغ القسطنطنیۃ۔
ترجمہ:۔ پھر بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ ۴۳ ھ میں اہل روم کی سرزمین میں داخل ہوئے مسلسل چلتے رہے تاآنکہ قسطنطنیہ پہنچ گئے۔
قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ؛۔
قسطنطنیہ پرتیسرا حملہ ۴۴ھ یا ۴۶ ھ میں ہوا ۔ التاریخ الکامل ۴۴ھ کے واقعات میں ہے۔ ثم دخلت سنۃ اربع و اربعین : فی ھذہ السنۃ دخل المسلمون مع عبدالرحمٰن ابن خالد بن ولید بلاد الروم وشتوابھا وغزا یسر بن ارطاۃ ففی البحر۔
۴۴ھ مسلمان حضرت عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ روم میں داخل ہوئے اور موسم سرما وہیں گزارے اور یسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ سمندر کے ذریعے جنگ کئے (التاریخ الکامل ج ۳ ص ۲۹۸)۔
اسی کتاب میں ۴۶ھ کے واقعات کے تحت ہے۔۔ ترجمہ؛۔
۴۶ھ میں حضرت مالک بن عبداللہ رضی اللہ عنہ مملکت روم میں رہے اور کہا گیا بلکہ حضرت عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہما رہے اور اسی سال آپ حمص واپس ہوئے اور وصال فرما گئے۔ (التاریخ الکامل ج ۳ ص ۳۰۹)۔
قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ کرنے والے تیسرے لشکر کے امیر حضرت عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس حملہ کا ذکر کتب تاریخ کے علاوہ صحاح ستہ کی معتبر کتاب سنن ابو داود شریف ج ۱ کتاب الجہاد ص ۳۴۰ حدیث نمبر ۲۱۵۱ میں ہے کہ مسلمانوں نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا اور اس جنگ میں حضرت عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سپہ سالار تھے۔
ایسے ہی ۳۲ ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں حملہ کرنے والا پہلا لشکر قرار پاتا ہے اور یہی لشکر بخاری شریف کی حدیثِ پاک میں وارد مغفرت کی بشارت کا مستحق ہے۔
سنن ابوداود شریف کی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکر کے سپہ سالار حضرت عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھے جن کا وصال ۴۶ھ یا ۴۷ ھ میں ہوا۔ جیسا کہ تاریخ الکامل ۴۶ھ کے واقعات میں مذکور ہے۔ (تاریخ الکامل ج ۳ ص ۳۰۹) (البدایۃ والنہاٰیۃ ج ۸ ص ۳۴) میں بھی آپ کے وصال کا سن ۴۶ھ مذکور ہے۔
البتہ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں آپ کا وصال ۴۷ ھ بتلایا گیا ہے۔ (باب العین)۔
سنن ابوداود شریف صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے اس کو بہرطور کتب تاریخ پر ترجیح حاصل ہے۔ اس سے لازمی طور پر معلوم ہوا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن خالد رضی اللہ عنہما کی سرکردگی میں ۴۶ یا ۴۷ ھ سے پہلے قسطنطنیہ پر حملہ ہوا کیونکہ معتبرومستند کتب تاریخ و کتبِ رجال سے ثابت ہوچکا۔
لہٰذا ۔ ۳۲ھ ، ۴۳ ھ ، ۴۴ ھ یا ۴۶ ھ ۔ ان تینوں حملوں میں سے کسی حملہ میں یزید کی شرکت ثابت نہیں ۔
لہٰذا وہ لوگ جو یزید کو معاذاللہ اپنا امیر سمجھتے ہیں وہ انتہائی شدید گمراہی اور لاعلمی کا شکار ہیں اور یا پھر اپنے باطنی بغض کے ہاتھوں سچائی کو چھپاتے ہیں۔ جس حدیث میں رسول کریم علیہ السلام نے جنت کی بشارت دی تھی وہ حدیث کسی صورت یزید ملعون کا احاطہ نہیں کرتی۔ یزید تو قسطنطنیہ پر کہیں ۸ ویں یا ۹ویں بار میں شریک ہوا تھا اور وہ بھی بحالت مجبوری جیسا کہ ہم نے اپنے ایک آرٹیکل میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
اللہ گم کردہ راہوں کے مسافروں کو راہ ہدایت عطا فرمائے آمین۔