ایک اعتراض اور اس کا جواب
بعض حدیثوں میں مذکور ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا فرمایا ہے: اول ما خلق اللہ العقل۔ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے اول قلم کو پیدا فرمایا گیا۔ چنانچہ ترمذی شریف میں مذکور ہے: ان اول ما خلق اللہ القلم۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے پہلے قلم کو پیدا فرمایا۔ مذکورۃ الصدر حدیث (حدیثِ جابر) سے اگر نبی کریم ﷺ کا اول الخلق ہونا ثابت ہوتا ہے تو ان احادیث کی باہم تطبیق کیسے ہوگی؟ اس اشتباہ کا معقول جواب اکابرینِ ملت سے پیشِ خدمت ہے:
حدیث: اول ما خلق اللہ القلم: اللہ تعالیٰ نے پہلے قلم کو پیدا فرمایا۔ پھر قلم کو حکم دیا اکتب قالَ ما اکتُبُ قال اُکُتُبُ ماکانَ وما ھوَ کائن الی الابد۔ یعنی لکھ! قلم نے عرض کیا الہٰ العالمین! کیا لکھوں؟ حکم ہوا۔ تقدیر لکھ۔ تو قلم نے جو کچھ ہوچکا تھا اور جوکچھ ابد تک ہونے والا تھا سب لکھ دیا۔
اس حدیث سے بھی حضورﷺ ہی کا اول الخلق ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر قلم کی تخلیق سے پہلے کوئی دیگر مخلوق موجود نہ تھی تو قلم نے (مَاکَان جو ہوچکا تھا) کیا لکھا اور (ماکانَ) سے شانِ الٰہی مراد نہیں لے سکتے، ورنہ خدا کا حادث اور محدود ہونا ثابت ہوگا۔ جو قطعاً محال ہے تو لامحالہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماکان صرف نورِ محمدیﷺ ہی تھا، جس کا ذکر ِ خیر اور نعت و منقبت سب سے اول قلم نے لکھی۔
اول ما خلق اللہ العقل: اس حدیث کو محدثین اور محققین کے نزدیک حسن قبول کا مقام حاصل نہیں۔ چنانچہ شیخ محقق محدث دہلویؒ مدارج النبوت 2/2 میں فرماتے ہیں۔
بدانکہ اول مخلوقات و واسطہ صدور کائنات وواسطہ خلق عالم و آدم نورِ محمد است چنانچہ درحدیث صحیح وارد شد است اول ما خلق اللہ نوری و حدیث اول ما خلق العقل نزدِ محدثین و محققین بصحت نرسیدہ۔
یعنی جان لو کہ پہلی مخلوق، کائنات کے ظہور کا واسطہ اور تمام عالم اور حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا کرنے کا سبب نورِ محمدی ﷺ ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں مذکور ہے اول ما خلق اللہ نوری اور جس حدیث میں سب سے اول عقل کے پیدا ہونے کا ذکر ہے اس حدیث کو محققین اور محدثین کے ہاں درجہ قبولیت حاصل نہیں اور ان کو اس کی صحت میں کلام ہے۔
البتہ شیخ المشائخ حضرت علی الخواصی رحمتہ اللہ علیہ (جو اپنے وقت کے جلیل الشان اولیاء امت میں شمار ہوتے ہیں) نے ان ہردو حدیثوں کا مصداق حضورﷺ ہی کی ذاتِ گرامی قرار دیا ہے۔ معناھما واحد لان حقیقۃ صلی اللہ علیہ وسلم یعبر عنھا بالعقل الاول۔ یعنی ہردو حدیثوں کے معنی ایک ہی ہیں کیونکہ حقیقتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا التحیۃ والتسلیم) کو عقلِ اول سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
مرقات ج۱ میں لکھا ہے:
قال ابن حجر اختلف الروایات فی اول المخلوقات وحاصلھا کما بینتہ فی شرح شمائل الترمذی ان اولھا النور الذی خلق منہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ثم الماء ثم العرش۔
علامہ ابن حجر نے کہا ہے کہ پہلی مخلوق کے متعلق روایات مختلف ہیں اور ان کا خلاصہ و حاصل یہ ہے جیسا کہ میں نے شرح شمائل ترمذی میں مفصل بیان کیا ہے کہ سب سے اول نبی کریم ﷺ کا نور مخلوق ہوا۔ پھر پانی پھر عرش پھر قلم۔
زرقانیؒ ۱، ۴۸
علامہ زرقانی فرماتے ہیں کہ نورمحمدی ﷺ کے اول الخلق ہونے میں کسی عالم اور محدث کو اختلاف نہیں۔ اختلاف اس میں ہے کہ ہل القلم اول المخلوقات بعد النور المحمدی، یعنی نور محمدیﷺ کے بعد اول الخلق کا منصب جلیل قلم کو حاصل ہے؟
علامہ موصوف ایک جامع تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ (اللہ تعالیٰ نے جب مخلوقات کو پیدا کرنا چاہا تو سب سے اول نورِ محمدیﷺ کو پیدا فرمایا، پھر پانی کی تخلیق ہوئی پھر عرش پھر قلم کو پیدا فرمایا)۔ بان اولیۃ القلم بالنسبۃ الی ماعد النور المحمدی والما والعرش
محققین ومحدثین کے مندرجہ بالا روشن بیانات سے یہ امر بضاحت ثابت ہوگیا کہ مخلوقات میں اول الخلق ہونے کا منصب رفیع صرف نورِ محمدی کو حاصل ہے۔ وما ذٰلک علی اللہ بعزیز
حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور حدیثیں بھی اس مضمون میں وارد ہیں۔
زرقانی ۳، ۱۶۴ (رواہ ابن سعد وغیرہ)
کنت اول النبین فی الخلق (لخلق نورہ قبلھم) واٰخرھم فی البعث باعتبار الزمان۔ (میں پیدائش میں سب انبیا علیھم السلام سے پہلے ہوں) کیونکہ ٓپ کا نور سب سے پہلے پیدا ہوا اور زمانہ کے اعتبار سے سب نبیوں کے آخر میں مبعوث ہوا ہوں)۔
الابریز شریف صفحہ ۲۶۶۔ ان اول ما خلق اللہ تعالیٰ نور سیدنا محمد ﷺ۔ بیشک جو شئے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا فرمائی وہ ہمارے آقا و مولا محمد پاک ﷺ کا نور تھا۔
تفسیر نیشاپوری ۸،۵۵
وانا اولا لمسلمین عند الایجاد لامر کن کما قال اول ما خلق اللہ نوری
امر کن کے ایجاد کے وقت میں خدا کو تسلیم کرنے والوں میں سب سے اول ہوں۔ جیسا خود رسالتمآب ﷺ نے فرمایا۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا فرمایا۔
مرقات میں لکھا ہے:
وروی اول ما خلق اللہ نوری۔ اور روایت کیا گیا ہے کہ خداوند کریم نے سب سے اول میرا نور پیدا فرمایا والاول الحقیقی ھونورِمحمدی علی مابینتہ فی المورد للمولد۔ اول اور حقیقی نورِ محمد ﷺ کا ہے جیسا کہ میں نے اپنی کتاب المورد المولد میں بیان کیا۔
مدارج النبوۃ
درحدیثِ صحیح وارد شدہ اول ما خلق اللہ نوری۔ صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ سب سے اول خداوندِ عالم نے نبی پاک صاحبِ لولاک کا نور پیدا فرمایا۔
علامہ زرقانی فرماتے ہیں؛ کہ حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے، انہ صلی اللہ علیہ وسلم کان کوکباً دریاً وان العالم کلہ خلق منہ (زرقانی 1/37)۔ بیشک سرکارِ دوعالم ﷺ تابندہ و درخشندہ ستارہ تھے اور تمام کائنات آپ ﷺ کے نور سے پیدا کی گئی۔
ان روایات سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ سید دوعالم ﷺ کا نورِ پاک اول مخلوق ہے اور خداوندِ قدوس کے نور سے ہے اور تمام کائنات آپ کے نور کا پرتو و عکس ہے۔
ہم اہلسنت وجماعت اسی لیئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ ﷺ اللہ کے نور بھی ہیں اور ہمارے پاس بشر کے روپ میں جسمانی حیثیت سے تشریف لائے۔ اس کی تصدیق یہ روایات بھی کرتی ہیں ملاحظہ فرمائیں؛
سحر کا کیف و سرور میں ڈوبا ہوا نورانی وقت ہے۔ آقائے نامدارﷺ محرابِ عبادت میں رازونیا کی محفل سجائے بیٹھے ہیں اور اللہ نورالسمٰوٰت والارض کی بارگاہ اقدس سے اپنے کان اپنی آنکھ اپنے دل اپنے ہر ہر عضو، بلکہ ہر ہر بال مبارک میں نور طلب فرمارہےہیں۔ اور آخر میں بطور خلاصہ فرماتے ہیں: فاجعل لی نوراً یا واعظم لی نوراً یا واجعلنی نوراً یعنی اے محبوبِ حقیقی! میرے نور کو بڑھا، بلکہ مجھے نور ہی نوربنادے۔
مسلم شریف کی حدیث ہے، رئیس المفسرین عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے ایک بار کاشانہء نبوت میں رات بسر کرنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا کہ سرورِ عالم ﷺ بسترِ استراحت سے اٹھے مسواک استعمال کی، وضو کیا اور پھر نوافل میں مشغول ہوگئے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو زبان مبارک پہ یہ دعائیہ الفاظ جاری تھی
اللھم اجعل فی قلبی نوراً واجعل فی لسانی نوراً واجعل فی سمعی نوراً واجعل فی بصری نوراً واجعل خلفی نوراً وامامی نوراً واجعل من فوقی نوراً ومن تحتی نوراً اللھم اعظم لی نوراً۔
اے اللہ میرے دل میں نور کردے، میری زبان پرنور کردے اور میرے کانوں میں نور کردے اور میری آنکھوں میں نور کردے اور میرے پیچھے نور کردے اور میرے آگے نور کردے اور میرے اوپر نور کردے اور میرے نیچے نور کردے۔ اے اللہ! میرے لیئے نور زیادہ کردے۔
بخاری شریف کی روایت میں واعظم فی نوراً کی جگہ واجعل لی نوراً آیا ہے۔اور مسلم شریف کی ایک روایت میں واجعلنی نوراً آیا ہے یعنی اے نورالسمٰوٰت والارض مجھے نور ہی نور بنادے۔
بعض روایات میں یہ الفاظ بھی منقول ہیں؛
فی لحمی ودمی وشعری وعظامی ولسانی و قبری نوراً۔ یعنی۔ میرے گوشت، میرے خون، میرے بالوں، میری ہڈیوں اور میری قبر کو نور بنادے۔
شرح شفاء ملا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری ۱، ۲۱۵ میں فرماتے ہیں
ھو صلی اللہ علیہ وسلم بقلبہ وقالبہ نور یستنار منہ الانوار//۔ ۔/ویصتضاء منہ الاسرار وقد ورداللھم اجعلنی نوراً وقد سماہ اللہ تعالیٰ نوراً
نبی کریم ﷺ کا دل اور بدن تمام نور ہے سارے نور (سورج، چاند، ستارے وغیرہ) آپ کے نور سے مستیز اور روشن ہیں اور دلوں کے راز
آپ سے چمک اور روشنی پاتے ہیں۔