Post by zarbehaq on Nov 30, 2015 13:50:07 GMT
Scans:
Fath-ul-Baari Bi Sharah Sahih al Bukhari lil Hafidh Ibn-e-Hajr Asqalani
Mirqat al Mafatih Sharah Mishkat al Masabih - Imam Mulla Ali Qari al hanafi al harawi
And
Imam of Lughat Ali bin Muhammad Al-Syed Shareef al Jarjani - Mojamul Ta'reefat
Imam al Lugha - Syed Muhammad Murtadha al Zubaidi - Tajul-Uroos
Imam of Hanafiya - Badr-ud-Deen Aiyni - Umdatul Qari bi Sharah Sahih al Bukhari
More Scans will be added Soon In ShaAllah wa Talaul Aziz
Wallaho Tala Alamo Wa Rasuluhu
Unicode for Copy Pasting:
Fath-ul-Baari Bi Sharah Sahih al Bukhari lil Hafidh Ibn-e-Hajr Asqalani
Mirqat al Mafatih Sharah Mishkat al Masabih - Imam Mulla Ali Qari al hanafi al harawi
And
Imam of Lughat Ali bin Muhammad Al-Syed Shareef al Jarjani - Mojamul Ta'reefat
Imam al Lugha - Syed Muhammad Murtadha al Zubaidi - Tajul-Uroos
Imam of Hanafiya - Badr-ud-Deen Aiyni - Umdatul Qari bi Sharah Sahih al Bukhari
More Scans will be added Soon In ShaAllah wa Talaul Aziz
Wallaho Tala Alamo Wa Rasuluhu
Unicode for Copy Pasting:
ردِ بلیغ ۔ دیوبندی مولانا اظہر الیاس (ان پیج میں الیاس اظہر لکھا گیا ہے غلطی سے) کے رسالے نماز جنازہ کے بعد دعا کا حکم اور "بدعت"کے موضوع پر گمراہ تحریر کا مکمل رد
یہ بیان اسلیئے ضروری تھا کہ اظہر الیاس اور ان کے ہم خیال لوگوں نے "بدعت" کی غلط تشریح و توضیح میں اسقدر غلو کررکھا ہے کہ بہت سے وہ کام جو سنت کے دائرے میں آتے ہیں ان پر بھی بدعت کا فتویٰ لگا کر ناجائز قراردے دیئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بندہء مومن کا سرمایہ حیات اور ایمان کا زیور اتباع سنت میں ہے لیکن یہ بات بھی کسی ظلم عظیم سے کم نہیں کہ کسی فعل مسلمین (جودلائل سے ماخوذ ہو) کو بدعت و ناجائز کہہ کر اس کو ٹھکرا دیا جائے۔ گویا یہ ایک جرات رندانہ ہے جو شرع شریف کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔
کسی فعل مسلمین کو بدعت شنیعہ و ناجائز کہنا، ایک حکم اللہ و رسول جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم پر لگا نا ہےاور ایک حکم مسلمانوں پر۔ اللہ ور سول پر تو یہ حکم کہ ان کے نزدیک یہ فعل ناروا ہے انہوں نے اس سے منع فرمادیا ہے۔ اور مسلمانوں پر یہ کہ وہ اس کے باعث گنہگار ومستحق عذاب و ناراضی رب الارباب ہیں۔ ہر خدا ترس مسلمان جس کے دل میں اللہ و رسول کی کامل عزت وعظمت اور کلمہء اسلام کی پوری توقیر و وقعت اور اپنے بھائیوں کی سچی خیرخواہی و محبت ہے کبھی ایسے حکم پر جرات روا نہ رکھے گا جب تک دلیل شرعی واضح سے ثبوت کافی و وافی نہ مل جائے۔
قال اللہ تعالیٰ: ام تقولون علی اللہ مالاتعلمون (البقرۃ)۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے: یا تم ایسی بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں۔
بدعت کی لغوی و اصطلاحی تعریف؛۔
البدعۃ کل شئی علم علیٰ غیر مثال سبق۔ "بدعت وہ کام ہے جو بغیر گزری ہوئی مثال کے کیا جائے"۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ جلد ۱ ص ۳۳۷،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
اسی طرح منجد میں ہے:
"بغیر نمونہ کے بنائی چیز"۔ (ص ۴۹)۔
بدعت یعنی مادہ "ب د ع" اپنے لغوی معنی کے لحاظ سے قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے۔رب تعالیٰ فرماتا ہے؛
بدیع السمٰوٰت والارض ۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۱۷)۔ "نیا پیدا کرنے والاآسمانوں اور زمین کا"۔
قل ما کنت بدعاً من الرُسُلِ ۔ (سورۃ الاحقاف: ۹)۔ "تم فرماؤ میں کوئی انوکھا رسول نہیں"۔
ان دونوں آیات میں بدعت اپنی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی "نیا" اور "انوکھا"۔
بدعت کی اصطلاحی تعریف:۔
البدعۃ ھی الفعلۃ المخالفۃ للسنۃ سمیت البدعۃ لان قائلھا ابتدعھا من غیر مقال امام۔
"بدعت فقط وہ کام ہے جو سنت کے مخالف ہو اور اسکو بدعت اس لیئے کہتے ہیں کہ اس کا قائل امام کے قول کے بغیر اس کو اختراع کرتا ہے۔" (تعریفات ص ۳۳،قدیمی کتبخانہ کراچی)
علامہ جرجانی ایک دوسری تعریف بھی بیان کرتے ہیں کہ؛۔
"البدعۃ ھی الامر المحدث الذی لم یکن علیہ الصحابہ والتابعون ولم یکن مما اقتضاہ الدلیل الشرعی"۔ یعنی ۔ "بدعت وہ نیا کام ہے جس کو نہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کیا ہو نہ تابعین کرام رحمہہم اللہ تعالیٰ نے اور نہ ہی وہ دلیل شرعی کا مقتضی ہو۔"۔(ایضاً)۔
علامہ بدرالدین عینی (رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ) شارح بخاری علیہ الرحمہ اس کی اصطلاحی و شرعی تعریف کرتے ہیں:۔
"البدعۃ فی الاصل احداث امرلم یکن فی زمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم البدعۃ علی نوعین ان کانت مما یندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی بدعۃ حسنۃ وان کانت مما یندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی بدعۃ مستقبحۃ"۔
ترجمہ:۔ "بدعت اصل میں اس نئے کام کے ایجاد کرنے کا نام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں نہ ہو پھر بدعت دوقسم پر ہے اگرتو وہ کسی مستحسن کے تحت آجائے تو یہ بدعت حسنہ ہے ۔ اور اگر یہ شرع کے مستقبحات کے تحت داخل ہو تو یہ بدعتِ مستقبحہ ہے۔" (عمدۃ القاری ج ۴ ص ۳۱۸)۔
ملا علی قاری (علیہ رحمۃ الباری) فرماتے ہیں؛۔
"المعنی من احدٰث فی الاسلام رایالم یکن من الکتاب والسنۃ سند ظاھر وخفی ملفوظ او مستنبط فھو مردود علیہ"۔ یعنی ۔ "مطلب یہ ہے کہ جوکوئی دین میں ایسی رائے نکالے جس کے لیئے کتاب و سنت سے نہ ظاہری سند ہو اور نہ ہی مخفی وہ ملفوظ ہو یا مستنبط، تو وہ مردود ہے۔" (مرقاۃ ج ۱ ص ۳۳۴)۔
امام ابن حجر عسقلانی (رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں؛۔
"البدعۃ ۔۔تطلق فی الشرع فی مقابل السنۃ"۔"شریعت میں بدعت کا اطلاق اس کام پر ہوتا ہے جو سنت کے مقابل ہو۔" (فتح الباری شرح صحیح البخاری ج ۴ ص ۳۱۸،قدیمی کتب خانہ )
ان اجلہ علماء وائمہ دین کے تصریحات سے واضح ہوا کہ ہروہ کام جو ہے تو نیا مگر وہ قرآن و سنت کے مخالف و مقابل نہ ہو تو شرعی اعتبار سے بدعت حسنہ کے زمرہ میں داخل ہوکر قابلِ عمل اور جائز ہوگا۔ ہاں! اگر وہ قرآن و سنت کے مخالف ہو اور دیگر کسی دلیل ِ شرعی کا مقتضیٰ بھی نہ ہو تو اب یقیناً وہ متروک و مردود اور ناقابل عمل قرار پائے گا۔
مذکورہ تحقیق کی روشنی میں ہمیں متخصص اظہر صاحب سے یہ پوچھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ آپ کا یہ قول کہ :۔
"اس دعا کا ثبوت قرآن کریم ، احادیث مبارکہ اور فقہ کی معتبر کتابوں میں کہیں نہیں ملتاِ جب اس دعا کا ثبوت ہی نہیں تو یہ دعا نہ سنت ہوگی اور نہ مستحب کہلائے گی بلکہ بدعت اور ناجائز ہوگی۔"
آپ نے جو مطلقاً ناجائز وبدعت قرار دے دیاِ یہ بتائیے کہ یہ دعا کرنا قرآن کی کس آیت کے مخالف ہے یا کس حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل ہے یا دیگر کس دلیلِ شرعی کی غیرمقتضیٰ ہے؟
جب یہ شرع شریف کے مخالف نہیں تو بدعت و ناجائز کیسے ٹھہری؟؟؟؟۔ پہلے ہم نے بدعت کی دو اقسام بطور لغت و اصطلاح کے بیان کیں اب بطور اصطلاح و شرع کے اس کی تقسیم و اقسام بیان کی جاتی ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ کون کونسے کام نئے ہونے کے باوجود جائز ہیں اور کون کونسے نئے کام ناجائز۔
بدعت کی باعتبار اصطلاح کے پہلی تقسیم؛۔
امام بدر الدین عینی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
"ثم البدعۃ علیٰ نوعین ان کانت مما یندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی بدعۃ حسنۃ و ان کانت مما یندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی بدعۃ مستقبحۃ"۔ (عمدۃ القاری ج۱۱ ص ۱۷۸)۔ ترجمہ۔ "پھر بدعت کی دو قسمیں ہیں اگر تو وہ (نیا) کام شریعت کے کسی مستحسن (اچھے) کام کے تحت درج ہو تو اسے بدعت ِ حسنہ کہیں گے اور اگر وہ کسی ایسے کام کے تحت درج ہو کہ جو شریعت میں قبیح تھا تو اس کو بدعت ِ مستقبحہ کہیں گے۔"
حافظ ابن حجر عسقلانی (رحمتہ اللہ علیہ) کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
آپ فرماتے ہیں؛۔ "والتحقیق انھا ان کانت مما یندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی مستقبحۃ والافھی من قسم المباح وقد تنقسم الیٰ الاحکام الخمسۃ۔" ترجمہ۔"تحقیق یہ ہے کہ اگر تو وہ (نیا) کام شریعت کے کسی حسن کام کے تحت داخل ہو تو وہ بدعۃ حسنہ ہوگی، اور اگر وہ شریعت میں کسی قبیح کے تحت داخل ہو تو وہ بدعت مستقبحہ کہلائے گی۔" (فتح الباری ج ۴ ص ۳۱۸ قديمي کتب خانه)۔
مولانا احمد علی سہارنپوری کے نزدیک بدعت کی وضاحت:۔
محشئی بخاری مولوی احمد علی سہارنپوری نے بھی تقریباً بعینہ امام عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ کے الفاظ نقل کرکے اس بات کی وضاحت کردی کہ بدعت دو قسم پر ہے۔"بدعت حسنہ " اور بدعتِ مستقبحہ"۔ (دیکھیئے بخاری شریف ج۱ ص۲۶۹ حاشيه ۶)۔
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کیمیائے سعادت میں فرماتے ہیں؛۔
"این ہمہ گرچہ بدعت ست واز صحابہ وتابعین نقل نہ کردہ اند لیکن نہ ہرچیز بدعت بود شاید کہ بسیاری بدعت نیکو پس بدعت مذموم آں بود کہ برمخالفت سنت بود۔" ترجمہ ۔ " یہ سب امور اگرچہ نوپید ہیں اور صحابہ کرام اور تابعین کرام سے منقول نہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ ہر نئی بات ناجائز ہو کیونکہ بہت ساری نئی باتیں اچھی ہیں، چنانچہ مذموم بدعت وہ ہوگی جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہو۔" (بحوالہ فتاویٰ رضویہ ج ۲۶ ص ۵۳۳)۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
امام بیہقی وغیرہ علماء حضرت امام شافعی سے روایت کرتے ہیں کہ :۔
"المحدثات من الامور ضربان احدھما احدث مما یکالف کتابا اوسنۃ او اثرا او اجماعا فھذہ بدعۃ ضلالۃ والثانی ما احدث من الخیر ولا خلاف فیہ لواحد من ھذہ وھی غیر مذمومۃ۔" ترجمہ ۔ "نوپید باتیں دوقسم کی ہیں، ایک وہ ہیں کہ قرآن یا حدیث یا آثار یا اجماع کے خلاف نکالی جائیں تو یہ بدعت وگمراہی ہیںدوسری وہ اچھی بات کہ احداث کی جائے میں اور اس میں ان چیزوں کا خلاف نہ ہو تو وہ بری نہیں ۔" (فتاویٰ رضویہ ج ۲۴ ص ۵۳۲بحواله القول المفيد للشوکاني)۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کی ایک اور وضاحت؛۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب احیاء العلوم میں فرماتے ہیں؛۔
"البدعۃ قسمان بدعۃ مذمومۃ ما تصادم السنۃ القدیمۃ۔" یعنی " بدعت دو قسم پر ہے، بدعتِ مذمومہ وہ ہے جو سنت قدیمہ کے مقابلے میں ہو۔"
امام نووی (رحمتہ اللہ علیہ ) کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛۔
"ھی منقسمۃ الیٰ حسنۃ وقبیحۃ"۔ ترجمہ۔ "بدعت(دواقسام یعنی) حسنہ وقبیحہ کی طرف تقسیم ہوتی ہے۔" (تہذیب الاسماء واللغات بحوالہ شرح صحیح مسلم جلد ۲ص ۵۵۵)۔
امام ابن اثیر (رحمتہ اللہ علیہ) کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
"البدعۃ بدعتان بدعۃ ھدی وبدعۃ ضلال"۔ یعنی ۔ " بدعت کی دو قسمیں، ایک وہ بدعت جو ہدایت والی ہے اور دوسری وہ جو گمراہی ہے۔" (النہایہ فی غریب الاحدیث والاثر ج ۱ ص ۱۰۶)۔
امام زرقانی (رحمتہ اللہ علیہ) کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
امام زرقانی شرح مؤطا امام مالک رحمتہ اللہ علیہ میں فرماتے ہیں؛۔
"انما البدعۃ الممنوعۃ خلاف السنۃ"۔ یعنی ۔ " بدعت ممنوعہ فقط وہ ہے کہ جو سنت کے مخالف ہو۔" (ج ۱ ص۳۳۴ مطبوعه قاهره)۔
امام زرقانی رحمتہ اللہ علیہ نے کلمہ حصر "انما" کو استعمال کرکے گویا اس کی دوسری قسم (بدعت حسنہ) کی طرف اشارہ کردیا کہ وہ نیا کام جو سنت کے مخالف نہ ہو وہ ممنوع نہیں مطلب جائز ہے۔
علامہ سید یوسف ہاشم رفاعی (رحمتہ اللہ علیہ) کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
آپ اپنی کتاب (ادلۃ اھل السنۃ والجماعۃ) میں فرماتے ہیں؛۔
"بدعت دو قسم کی ہے ، ایک بدعت محمودہ اور دوسری بدعتِ مذمومہ ، جو سنت کے مطابق ہو وہ بدعت محمودہ ہے اورجو سنت کے خلاف ہو وہ بدعتِ مذمومہ ہے۔" (بحوالہ رسائل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص ۳۰۷)۔
نتیجہء کلام؛۔
ان تمام مقتدیان ملت و علماء دین کی وضاحتوں سے ثابت ہوا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں؛۔
(اول) ۔ بدعت ء حسنہ۔ یہ وہ بدعت ہے کہ جو قرآن و سنت کے مخالف نہ ہونے کی وجہ سے اچھی اور قابلِ عمل ہے۔ اس کے لیئے یہ الفاظ بھی استعمال کیئے جاتے ہیں : محمودہ ، ہدی وغیرہ۔
(دوم) ۔ بدعتء سیئہ: یہ وہ بدعت ہے کہ جو قرآن و سنت اور دیگر شرعی دلائل کے مخالف و مقابل ہونے کی وجہ سے مردود اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس کے لیئے اور الفاظ بھی مستعمل ہوتے ہیں۔ مثلاً مستقبحہ ، ضلالہ، ممنوعہ، مذمومہ، قبیحہ وغیرہ۔
بدعت کی بااعتبارِ اصطلاح کے دوسری تقسیم؛۔
اس سے قبل ہم نے ان ائمہ کی تصریحات پیش کیں جنہوں نے بدعت کو فقط دو اقسام کی طرف تقسیم کیا ہے۔ اب ہم کچھ اُن آئمہ کے اقوال بھی ذکر کرتے ہیں جنہوں نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں جو درج ذیل ہیں؛۔
۱۔ بدعت ِ واجبہ : یعنی وہ نیا کام جس کا کرنا واجب ہے۔(۲)۔بدعت ء محرمہ؛۔ یعنی وہ کام کہ جس کا بجا لانا حرام ہے۔ (۳) ۔ بدعت ِمندوبہ : یعنی وہ نیاکام جس کے کرنے پہ ثواب اور نہ کرنے پہ گناہ نہیں ہے۔(۴) ۔ بدعت ِ مکروہ : وہ نیا کام جس کا کرنا مکروہ ہے۔ (۵)۔ بدعت ِ مباحہ : وہ نیا کام جس کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں بندے کو اختیار ہو۔
شیخ عزالدین بن عبدالسلام (رحمتہ اللہ علیہ ) اور شیخ امام ملا علی القاری (رحمتہ اللہ علیہ) کے نزدیک بدعت کی وضاحت:۔
حضرت شیخ ملا علی قاری مرقات شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں؛۔
"قال الشیخ عزالدین بن عبدالسلم فی آخرکتاب القواعد: البدعۃ اما واجبۃ کتعلیم النحو لفھم کلام اللہ و رسولہ وکتدوین اصول الفقہ، والکلام فی الجرح والتعدیل، واما محرمۃ کمذھب الجبریۃ والقدریۃ والمرجیۃ والمجسحۃ والرد علی ھولاء من البدع الواجبہ لان حفظ الشریعۃ من ھذہ البدع فرض، کفایۃ ، واما مندوبۃ کاحداث الربط والمدارس وکل احسان لم یعھد فی الصدر الاول وکالتراویح ای بالجماعۃ العامۃ ، والکلام فی دقائق الصوفیۃ، واما مکروھۃ کزخرفۃ المساجد وتزویق المصاحف یعنی عند الشافعیۃ واما عند الحنفیۃ فمباح ، وامامباحۃ کالمصافحۃ عقیب الصبح والعصر ای عند الشافعیہ ایضا والا فعند الحنفیۃ مکروہ والتوسع فی لزائذ الماکل والمشارب والمساکن وتوسیع الاکمام"۔
"شیخ عز الدین بن عبدالسلام نے کتاب (القواعد) کے آخر میں فرمایا کہ: بدعت یا تو واجب ہوتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو سمجھنے کے لیئے علم نحو کا سیکھنا، اور اصولِ فقہ اور جرح و تعدیل کے بارے کلام (یعنی علم اسماء الرجال) کا مدون کرنا۔ یا (پھر) محرمہ ہوگی، جیسے جبریہ وقدریہ ومرجیئہ اور مجسمہ (وغیرہ) کا مذہب۔ ان تمام کا ردکرنا بدعتِ واجبہ ہے کیونکہ اس بدعت محرمہ سے شریعت کو محفوظ رکھنا فرض کفایہ ہے۔ یا (پھر) مندوبہ ہوگی، جیسے سرائے اور مدارس کا قیام اور ہر وہ نیکی جو صدرِ اول میں معھود (موجود) نہ تھی جیسے تراویح کا جماعت ء عامہ سے ادا کرنا اور صوفیہ کے وقائق میں کلام کرنا۔ یا وہ مکروہ ہوگی، جیسے شافعیہ کے نزدیک مساجد ومصاحف کی نقش نگاری، لیکن احناف کے نزدیک یہ مباح ہے۔ یا وہ مباحہ ہوگی، جیسے شافعیہ کے نزدیک نمازِ فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا، مگر احناف کے نزدیک مکروہ ہے اور ماکولات و مشروبات، رہائش گاہوں اور آستینوں میں توسیع کرنا۔" (مرقات ج۱ ص ۳۳۸/۳۳۹،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)۔
امام نووی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ کی طرح امام نووی نے بھی کتاب القواعد کے حوالے سے مذکور بدعت کی پانچوں اقسام ذکر فرمائی ہیں۔ دیکھیئے تہذیب الاسماء واللغات، بحوالہ شرح صحیح مسلم ج ۲ص۵۵۴و۵۵۵)۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ امام ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے جس کے آخر میں آپ فرماتے ہیں کہ (قد تنقسم الی الاحکام الخمسۃ) یعنی (کبھی اس بدعت کو احکام خمسہ کی طرف بھی تقسیم کیا جاتا ہے)۔ (بحوالہ فتح الباری جلد ۴ ص ۳۱۸،قدیمی کتب خانہ)۔ احکام خمسہ سے بدعت کی اقسام ِخمسہ ہی مراد ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن حجر ہیثمی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
حضرت شیخ الاسلام ابن حجر ہیثمی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا بدعت مباحہ کے لیئے اجتماع جائز ہے؟ تو آپ نے فرمایا (ہاں)۔ پھر آپ نے بھی اس کے بعد حضرت عز بن عبدالسلام کے حوالے سے بدعت کی پانچ اقسام کا ذکر فرمایا۔ (بحوالہ فتاویٰ حدیثیہ ص ۲۰۳،قدیمی کتب خانہ)۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) بدعت کی وضاحت فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ؛۔
"بدانکہ ہرچہ پیدا شدہ بعدز پیغمر علیہ السلام بدعت است واز انچہ موافق اصول وقواعد سنت اوست وقیاس کردہ شدہ است برآن رابدعت حسنہ گویند وانچہ مخالف آں باشد بدعت وضلالت خوانندو"کل بدعۃ ضلالۃ" محمول برایں ست"۔
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ :۔
جان لو کہ ہر وہ چیز جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا (ایجاد) ہوگی وہ بدعت کہلائے گی(پھر اگر) وہ سنت کے اصول وقواعد کے موافق ہو، (یاپھر) اس کو قیاس کیا گیا ہو تو اس کو بدعت ء حسنہ کہیں گے اور وہ جو ان کے مخالف ہو اس کو بدعت اور گمراہی کہیں گے اور "کل بدعۃ ضلالۃ" (والی حدیث) اسی پر محمول ہے۔" پھر اس کے بعد حضرت شیخ محقق نے بدعت کی وہی پانچ اقسام بیان کیں (دیکھیئے اشعۃ اللمعات جلد ۱ ص ۱۳۵ مکتبہ رشیدیہ)۔
علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ نے تو بدعت کی وضاحت میں باب ہی یہ قائم کیا:۔
مطلب: البدعۃ خمسۃ اقسام۔ یعنی اس بات کی وضاحت کہ بدعت پانچ قسم پر ہے۔ رد المحتار جلد ۲ ص ۳۵۶ مکتبه رشيديه
محشئی مشکوٰۃ کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
محشئی مشکوٰۃ نے بھی حدیث نبوی (کل بدعۃ ضلالۃ) پر حواشی کرتے ہوئے امام عزبن عبدالسلام کے حوالے سے بدعت کی یہی پانچ اقسام ذکر کی ہیں۔ (دیکھیئے مشکوٰۃ ص ۲۷ حاشيه ۷)۔
رئیس المفسرین حضرت علامہ محمود آلوسی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بدعت کی وضاحت؛۔
حضرت علامہ امام سید محمود آلوسی بغداری (رحمتہ اللہ علیہ) سورۃ الحدید کی آیت نمبر ۴۷ کی تفسیر میں فرماتے ہیں؛۔
ولیس فی الایۃ ما یدل علی ذم البدعۃ مطلقا۔ یعنی ۔" اس آیت میں ایسی کوئی چیز نہیں جو مطلقاً بدعت کے مذموم ہونے پر دلالت کرے۔"
اس کے بعد آپ بھی بدعت کی اقسام ء خمسہ کا ذکر نتیجتاً فرماتے ہیں:
فعلم ان قولہ صلی اللہ علیہ وسلم (کل بدعۃ ضلالۃ) من العام المخصوص۔ ترجمہ۔ "پس معلوم ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان (کل بدعۃ ضلالۃ) (ہربدعت گمراہی ہے) عام خص عنہ البعض ہے"۔ (رو ح المعانی جلد ۱۴ جز ۲۷ ص ۲۹۴ مطبوعه مکتبه حقانيه ، وعربي سکينز)۔
حاصل کلام؛۔ ہم نے پہلےانیس علمائے دین و ملت کے اقوال پیش کیئے جس میں بنیادی طور پر پہلے دو اقسام کو پیش کیا گیا پھر علمائے دین و ملت نے پانچ اقسام پر مشتمل بدعت کی تعریفات فرمائیں ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف اتنے بڑے بڑے فقہاء و محدثین و مفسرین وغیرہ کا جم غفیر ہے کہ جو اتنی احتیاط سے دین کی تشریحات کرگئے کہ قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے انہیں اور ان کی عبارات کو بطور ِ سند اور حوالے کے پیش کیاجاتارہے گا۔وہ تو مطلقاً بدعت کو حرام وناجائز نہ کہیں بلکہ اس کی تقسیم و توضیح اس انداز سے فرمائیں کہ اب کسی قسم کا خلجان باقی نہ رہے۔
اور دوسری طرف چند ایک وہ لوگ بھی ہیں کہ جن کو بدعت و شرک کا دائمی مرض لاحق ہوچکا ہے، جن کی ہر سانس وہربات میں اس موذی مرض کے جراثیم پائے جاتے ہیں جو آنکھیں بند کرکے مطلقاً ہرکام پہ بدعت کا فتویٰ لگا دیتے ہیں۔ جیسے کہ دیوبندیوں کے مولانا اظہر الیاس نے (نمازِ جنازہ کے بعد دعا کا حکم) میں لکھا کہ:۔
"یہ کوئی ضروری نہیں کہ بدعت بظاہر برا کام ہی ہو تب ہی بدعت ہوگی بلکہ اگر بالفرض نماز بھی ہو مگروہ کسی خاص کیفیت اور خاص وقت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو تو وہ بھی بدعت ہوگا"۔ (ص ۱۱ و ۱۲)۔
یعنی یہ بھی کتنی جہالت بھری بات ان مولوی اظہر الیاس دیوبندی صاحب نے تحریر کی حالانکہ عبادت کے لیئے نوافل کے لیئے ذکر اذکار کے لیئے شریعت نے قطعاً کوئی بھی قید نہیں لگائی لیکن یہ مولوی صاحب اپنی ڈیڑھ اینٹ کی دیوبندی مسجد کے عقیدے کو بچانے کے لیئے گمراہی کی حدتک بغض میں مبتلا ہیں۔اس خائن دیوبندی مولوی کی اس غلط گمراہ کتاب کے رد میں حضرت مولانا ابو السعید سجاد علی فیضی (مذظلہ العالی) کی تصنیف (الحجج القاطعہ فی رد البراھین الواضحہ معروف بہ منکرین ِ دعا بعد از نمازِ جنازہ کا ردِ بلیغ) پڑھیںجس میں انہوں نے تمام تر دیوبندی گمراہ تشریحات کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہ آرٹیکل اسی کتاب سے اخذ کیا جارہا ہے۔ شکریہ