Post by Admin on Jan 3, 2016 12:50:02 GMT
Unicode: Urdu
ردِ شہابِ ثاقب بر وہابی خائب سے ایک باب
امام الوہابیہ اسمٰعیل دہلوی کا عامۃ المسلمین سے لے کر اللہ تعالیٰ تک سب کو ابوجہل کہنا
ان کو اپنا وکیل اور سفارشی سمجھنا بھی ان کا کفر وشرک تھا۔ سو جوکوئی کسی سے یہ معاملہ کرے گو کہ اس کو اللہ کا بندہ و مخلوق ہی سمجھے سو ابوجہل اور وہ شرک میں برابر ہے۔ (بحوالہ تفویۃ الایمان ص۸)۔
مسلمانو! غور کرو، اس امام الوہابیہ نے تمام امت۔ سارے علماء دین اولیاء صالحین۔ ائمہ ومجتہدین ، صحابہ و تابعین کو بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ خود رب العالمین جل وجلالہ تک کو کیا ابوجہل کے برابر مشرک نہیں کہا؟ کہا اور ضرور کہا۔ اب ملاحظہ کریں؛۔
مصنف(شہابِ ثاقب) کے نزدیک علامہ تفتازانی کافر ومشرک قرار پائے کیونکہ؛۔
شرح عقائد میں لکھا ہے؛۔
بالجملۃ العلم لغیب امر تفردبہ اللہ تعالیٰ لاسبیل الیہ للعباد الاباعلام منہ او الھام بطریق المعجزۃ او الکرامۃ
ترجمہ؛۔ حاصل کلام یہ ہے کہ علم غیب ایسا امر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ منفرد ہے بندوں کو اس کی طرف راہ نہیں مگر اسی کے علم دینے یا الہام کرنے سے بطریقہء معجزہ یا کرامت کے۔ (حوالہ۔شرح العقائد ۲۴۰)۔
مصنف کے نزدیک حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کافر و مشرک؛۔ کیونکہ؛۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رحمتہ اللہ علیہ) مدارج النبوت میں فرماتے ہیں؛۔
ہرچہ دردنیا ست از زمان آدم تا آوان نفحہ اولےٰ بروے (صلی اللہ علیہ وسلم) منکشف ساختند تاہمہ احوال رااز اول تا آخر معلوم گردد یاران خود رانیز از بعضے ازاں احوال خبرداد۔ (اسی میں لکھا ہے) ۔ وھو بکل شی علیم ووے صلی اللہ علیہ وسلم داناست برہمہ چیز از شیونات ذاتِ الٰہی واحکام وصفات ِ حق واسماافعال وآثار وبجمیع علوم ظاہروباطن اول و آخر احاطہ نمودہ ومصدوق وفوق کل ذی علم علیم شدہ۔ (حوالہ؛۔ مدارج النبوت مطبوعہ ناصری ص ۱۶۵ ج ۱) و(از خطبہ مدارج النبوت ص ۳)۔
ترجمہ؛۔ یعنی آدم علیہ السلام کے زمانے سے پہلے صور تک جوکچھ دنیا میں ہے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہرفرمادیا۔ یہاں تک کہ تمام احوال اول سے آخر تک کا حضور کو معلوم ہوا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو ان میں سے بعض کی خبر دی۔ (۲)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہرچیز کے جاننے والے اور شیوناتِ ذاتِ الٰہی اور احکام وصفات حق اور اسما افعال و اثار اور تمام علومِ ظاہر وباطن اول سے آخر تک اور ان پر فوق کل ذی علم علیم صادق آگاہ۔ یعنی وہ ہرعلم والے سے اوپر جاننے والے ہیں۔
مصنف کے نزدیک علامہ احمد صاوی کافر ومشرک ۔ کیونکہ۔
عارف باللہ حضرت شیخ احمد صاوی تفسیر صاوی میں فرماتے ہیں؛۔
والذی یجب الایمان بہ ان رسول اللہ لم منتقل من الدنیا حتے اعلمہ اللہ بجمیع المغیبات اللتی تحصل فی الدنیا والاخرۃ۔
ترجمہ؛۔ اور وہ بات جس پر ایمان لانا واجب ہے کہ اللہ کے رسول دنیا سے تشریف نہیں لے گئے۔ یہاں تک کہ انہیں تمام وہ غیوب جو دنیا و آخرت میں حاصل ہوں گے اللہ تعالےٰ نے تعلیم فرما دیئے۔ (بحوالہ۔ تفسیر صاوی ، مصر، ص ۹۷ ج ۲)۔
مصنف کے نزدیک علامہ قسطلانی اور علامہ زرقانی کافر ومشرک ۔ کیونکہ۔
علامہ قسطلانی مواہب اللدنیہ میں اور علامہ زرقانی اسکی شرح میں فرماتے ہیں؛۔
فکل ماورد عنہ علیہ الصلوٰۃ والسلام من الانباء المنئبۃ عن الغیوب لیس ھوالامن اعلام اللہ لہ بہ، لتکون تلک الغیوب (اعلاما علی ثبوت نبوۃ ودلائل ، ای علامات (علی صدق رسالتہ) وقد تواترت الاخبار واتضقت معانیھاعلی اطلاعہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الغیب ۔ (زرقانی ، مصری، ص ۱۹۹ ج ۷)۔
ترجمہ:۔ پس تمام وہ باتیں جو غیب کی خبروں پر مشتمل ہیں اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہوئیں تو وہ انہیں اللہ ہی کے علم دینے سے ہیں تاکہ یہ غیوب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ثبوتِ نبوت اور صدقِ رسالت پر نشانیاں اور علامتیں ہوجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غیب پر مطلع ہونے پر احادیث متوتر اور ان کے معانی متفق ہوچکے ہیں۔
علامہ قسطلانی (رحمتہ اللہ علیہ) مواہب میں لکھتے ہیں؛۔
وقد اشتھر وانتشر امرہ علیہ الصلوٰۃ والسلام بین اصحابہ بالاطلاع علی الغیوب فاما اصحابہ المومنون فانھم جازمون باطلاعہ علی الغیب۔ (بحوالہ۔ مشکوٰۃ شریف ص ۶۹۔اور ۔ از ۔ زرقانی ص ۲۰۰ ج ۷)۔
ترجمہ؛۔ اور صحابہ کرام میں مشہور ومعروف تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیبوں کا علم ہے۔ (یعنی وہ غیوب پر مطلع ہیں)۔ صحابہ کرام یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب پر مطلع ہیں۔
ان عبارات سے واضح ہوگیا کہ علم ِ غیب انبیا کرام کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے بطریق معجزہ ، اور اولیا کو الہام سے بطریق کرامت حاصل ہوتا ہےاور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ دنیا میں سیدنا آدم علیہ السلام کے وقت سے پہلے صور تک ہوگا از اول تا آخر تمام حالات روشن ہوگئے اور وہ ہرشئے کے جاننے والے ہیں اور تمام اول وآخر ظاہروباطن کے علوم ان کے احاطہ علمی میں ہیں اور اس بات پر ایمان لانا واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں منتقل ہونے سے قبل ہی وہ تمام غیوب جو دنیا و آخرت میں حاصل ہونے والے تھے تعلیم فرمادیئے ۔ تو جن غیبوں کی خبریں آپ سے وارد ہیں وہ اللہ ہی کی تعلیم سے ہیں تاکہ یہ غیوب حضور کے ثبوتِ نبوت اور صدقِ رسالت پر نشانیاں اور علامتیں ہوجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غیب پر مطلع ہونے پر احادیثِ متواتر ہیں اور ان کے معانی متفق ہیں ۔ یہی عقیدہ علما دین اور آئمہ مجتہدین کا ہے اور صحابہ کرام بھی اسی عقیدہ پر جزم کرتے تھے کہ اور ان میں یہی بات مشہور تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غیب پر مطلع ہیں۔ تو یہ عقیدہ ساری امت کا قرار پایا اب باقی رہے خود سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ نے بھی اس کا اقرار ان الفاظ میں فرمایا۔
(حدیث) فعلمت مافی السمٰوت والارض ۔۔۔فتجلی لی کل شی معرفت ۔ ترجمہ۔ اور میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے(مشکوٰۃ شریف ص ۶۹)۔مجھے ہرچیز روشن ہوگئی تو میں نے پہچان لیا ۔ (از مشکوٰۃ ص ۷۲)۔
(حدیث) فعلمت علم الاولین والاخرین (وفی روایۃ) فعلمت ماکان وماسیکون۔ ترجمہ۔ مجھے اولین وآخرین کا علم دیا۔ میں نے ماکان ومایکون کو جان لیا۔ (جو ہوا اور جوہورہا ہے اور جو ہونے والا ہے) سب کو جان لیا۔ (ازتفسیر روح البیان ص ۲۴ ج ۶)۔
ان احادیث سے ثابت ہوگیا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے جان لیا اور مجھ پر ہرشے روشن ہوگئی اور مجھے اولین و آخرین کا علم سکھادیا گیا اور میں نے جان لیا جو ہوچکا اور جو ہورہا ہے اور جو ہونے والا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غیوب پر مطلع ہونا ان احادیث سے بصراحت ثابت ہوگیا۔ اب دیکھئے کہ ان کا عطا فرمانے والا رب العالمین ہی فرماتا ہے۔
وما ھو علی الغیب بضنین ۔ ترجمہ۔ اور یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں ۔
مصنف کے نزدیک علامہ بغوی (رحمتہ اللہ علیہ) اور علامہ خازن (رحمتہ اللہ علیہ ) بھی کافر و مشرک کیونکہ۔
امام محی السنۃ علامہ بغوی (رحمتہ اللہ علیہ) اپنی تفسیر معالم التنزیل میں اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں۔
یقول انہ یاتیہ علم الغیب فلا یبخل بہ علیکم بل یعلمکم ویخبرکم بہ ولا یکتمہ (تفسیر معالم التنزیل وتفسیر خازن مصری ص ۱۸۰ ج ۷)۔
ترجمہ؛۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم آتا ہے وہ تمہیں بتانے میں بخل نہیں فرماتے بلککہ تم کو بھی اس کا علم دیتے ہیں اوراس کو چھپاتے نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور علامہ خازن تفسیر لباب التاویل میں آیت کریمہ علمہ البیان کے تحت میں فرماتے ہیں؛۔
اراد بالانسان محمدًا صلی اللہ علیہ وسلم (علمہ البیان) یعنی بینا ماکان ومایکون لانہ کان یبین عن الاولین۔۔۔۔۔۔والاخرین وعن یوم الدین۔ (ترجمہ) ۔ انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور انہیں ماکان ومایکون کا بیان تعلیم کیا اسی لیئے تو وہ اولین و آخرین اور روزِ قیامت کی خبریں دیتے ہیں۔ (تفسیر خازن مصری ص ۲، ج ۷)۔
ان آیات اور ان کی تفاسیر (جو کسی بریلوی نے نہیں کیں) سے ثابت ہوگیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ماکان ومایکون) پر مطلع فرمادیا اسی لیئے تو وہ اولین وآخرین اور روزِ قیامت کا بیان کرتے ہیں اور وہ تم پر بخل نہیں کرتے بلکہ تمہیں بھی سکھاتے اور خبر دیتے ہیں اور اس کو چھپاتے نہیں۔
بالجملہ انبیا اور خصوصاً سرکارِ دوعالم سید کائنات وموجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی تعلیم وعطا سے غیوب پر مطلع ہونا ایسا اعتقادی مسئلہ ہے جو نہ صرف علمادین بلکہ صحابہ وتابعین کی تصریحات سے بلکہ صریح قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اب دیکھیں کہ امام الوہابیہ اسماعیل دہلوی اس اعتقادی مسئلہ کے بالمقابل لکھتا ہے؛۔
غیب کی باتیں اللہ ہی جانتا ہے۔ رسول کو کیا خبر؟ (تفویۃ الایمان ص ۶۶)۔ اور۔ کسی انبیا اولیاا مام یا شہیدوں کی جناب میں ہرگز یہ عقیدہ نہ رکھے کہ وہ غیب کی بات جانتے ہیں۔ بلکہ حضرت پیغمبر کی جناب میں بھی یہ عقیدہ نہ رکھے(تفویۃ الایمان ص ۳۰)۔ اور۔ پھر خواہ یو ں سمجھے کہ یہ بات ان کو اپنی ذات سے ہے خواہ اللہ کے دینے سے غرض اس عقیدہ سے ہرطرح شرک ثابت ہوتا ہے۔ (تفویۃ الایمان ص ۱۰)۔
مجددِ مذہبِ وہابیت مولوی رشید احمد گنگوہی صاف طور پر لکھتےہیں؛۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ کو علم ِ غیب تھا صریح شرک ہے (فتاوی رشیدیہ ص ۱۰ ج۲)۔
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کا معتقد ہے۔ ساداتِ حنفیہ کے نزدیک قطعاً مشرک و کافر ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص ۳۶ج ۳)۔اور۔ انبیا علیہم السلام غیب پر مطلع نہیں (مسئلہ علم غیب ص ۲)۔
مسلمانو! غور کرو اس امام الوہابیہ اور مجدد فرقہ دیوبندیہ نے علما دین صحابہ و تابعین کو بلکہ خود رسول الانبیا والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ خود رب العالمین جل جلالہ کو بھی کیا کافر ومشرک نہیں کہا؟۔حاصل کلام یہ ہے کہ جب مصنف کے اکابر تمام امت کے علما اور اکابرِ اہل حق کی تضلیل وتفسیق میں اس قدر بلیغ کوشش کرچکے اور انہیں کافرومشرک بتان میں اپنی عمر صرف کرچکے اور انبیا کرام علیہم السلام کی جناب بلکہ خود باری تعالیٰ کی شان میں ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کرچکے تو مصنف کو نیچریوں، رافضیوں، قادیانیوں، چکڑالویوں ، غیرمقلدوں کی اکابر اہل حق کی تضلیل وتکفیر کرنا کس طرح یاد آتی اور وہ ان کے کفری وشرکی فتووں کو کب نظرمیں لاتا کہ ایسی تضلیل وتکفیر تو نہ اس کے نزدیک کوئی جرم ہے نہ قابلِ شکایت بات ہے بلکہ یہ تو اس کا مذہب و عقیدہ ہے۔
اختتامی کلمات؛۔ کتاب ردِ شہابِ ثاقب برردِ وہابی خائب ۔ تالیف ۔ حضرت علامہ محقق الحق والدین مولانا محمد اجمل شاہ صاھب مفتئی ہند سنبھل۔ قدس سرہ۔ یہ کتاب معرفت ڈاٹ کام پر اور ہمارے مکاشفہ کی لائبریری سکیشز میں آسانی سے دستیاب ہے۔ ضرور مطالعہ کریں۔ان عقائد پر کبھی اسلامی دنیا نے اعتراض نہیں کیئے کیونکہ وہ سب اسلام کو سمجھتے تھے لیکن اسماعیل دہلوی اور اس کی باقیات نے جب سے دین کو سکھانے کا ٹھیکہ اپنے ذمہ لیا ہے تب ہی سے تکفیریت ، فرقہ پرستی، تقسیم ، اور عقائد سے متعلق صرف اور صرف جھوٹ ہی لوگوں کو سکھایا گیا ہے تاکہ ان کی ڈیڑھ اینٹ کی مذہبی دکانداری چلتی رہے۔ ایک طرف انگریز آقائوں کے اشارے پر امت کو تقسیم کرتے رہیں اور دوسری طرف چہروں پر جھوٹی تقویٰ سجا کر مسلمان کو اسقدر اسلام سے بے گانہ کردیں کہ ان کو سمجھ ہی نہ پڑسکے کہ کون صحیح اور کون غلط ہے۔ اور اسی کام میں یہ شیاطین کامیاب رہے ہیں ، سب دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے وجودِ نامسعود وناپاک سے پہلے امت میں مکمل اتحاد تھا اور ان ٹاپکس پر سرے سے کوئی بات ہی نہ ہوتی تھی کیونکہ جیسا کہ ہم نے کہا یہ اعتراض ہی بدعات ہیں اور انہوں نے ہی یہ بدعت شروع کی تاکہ عوام کے دماغوں میں شکوک پیدا کردیئے جائیں اورہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نے ان کو یہ سب دین سمجھ کر کرنے دیا اور خود علم حاصل کرنے کی بجائے ان دکاندار مولویوں کی باتوں کو ہی دین سمجھ بیٹھے ، حالانکہ حدیث نے ان ہی جیسوں کو علمائے سُو قرار دیا ہے۔ اللہ تمام مسلمانوں کے ان کے فتنے سے نجات دلائے آمین۔
امام الوہابیہ اسمٰعیل دہلوی کا عامۃ المسلمین سے لے کر اللہ تعالیٰ تک سب کو ابوجہل کہنا
ان کو اپنا وکیل اور سفارشی سمجھنا بھی ان کا کفر وشرک تھا۔ سو جوکوئی کسی سے یہ معاملہ کرے گو کہ اس کو اللہ کا بندہ و مخلوق ہی سمجھے سو ابوجہل اور وہ شرک میں برابر ہے۔ (بحوالہ تفویۃ الایمان ص۸)۔
مسلمانو! غور کرو، اس امام الوہابیہ نے تمام امت۔ سارے علماء دین اولیاء صالحین۔ ائمہ ومجتہدین ، صحابہ و تابعین کو بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ خود رب العالمین جل وجلالہ تک کو کیا ابوجہل کے برابر مشرک نہیں کہا؟ کہا اور ضرور کہا۔ اب ملاحظہ کریں؛۔
مصنف(شہابِ ثاقب) کے نزدیک علامہ تفتازانی کافر ومشرک قرار پائے کیونکہ؛۔
شرح عقائد میں لکھا ہے؛۔
بالجملۃ العلم لغیب امر تفردبہ اللہ تعالیٰ لاسبیل الیہ للعباد الاباعلام منہ او الھام بطریق المعجزۃ او الکرامۃ
ترجمہ؛۔ حاصل کلام یہ ہے کہ علم غیب ایسا امر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ منفرد ہے بندوں کو اس کی طرف راہ نہیں مگر اسی کے علم دینے یا الہام کرنے سے بطریقہء معجزہ یا کرامت کے۔ (حوالہ۔شرح العقائد ۲۴۰)۔
مصنف کے نزدیک حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کافر و مشرک؛۔ کیونکہ؛۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رحمتہ اللہ علیہ) مدارج النبوت میں فرماتے ہیں؛۔
ہرچہ دردنیا ست از زمان آدم تا آوان نفحہ اولےٰ بروے (صلی اللہ علیہ وسلم) منکشف ساختند تاہمہ احوال رااز اول تا آخر معلوم گردد یاران خود رانیز از بعضے ازاں احوال خبرداد۔ (اسی میں لکھا ہے) ۔ وھو بکل شی علیم ووے صلی اللہ علیہ وسلم داناست برہمہ چیز از شیونات ذاتِ الٰہی واحکام وصفات ِ حق واسماافعال وآثار وبجمیع علوم ظاہروباطن اول و آخر احاطہ نمودہ ومصدوق وفوق کل ذی علم علیم شدہ۔ (حوالہ؛۔ مدارج النبوت مطبوعہ ناصری ص ۱۶۵ ج ۱) و(از خطبہ مدارج النبوت ص ۳)۔
ترجمہ؛۔ یعنی آدم علیہ السلام کے زمانے سے پہلے صور تک جوکچھ دنیا میں ہے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہرفرمادیا۔ یہاں تک کہ تمام احوال اول سے آخر تک کا حضور کو معلوم ہوا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو ان میں سے بعض کی خبر دی۔ (۲)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہرچیز کے جاننے والے اور شیوناتِ ذاتِ الٰہی اور احکام وصفات حق اور اسما افعال و اثار اور تمام علومِ ظاہر وباطن اول سے آخر تک اور ان پر فوق کل ذی علم علیم صادق آگاہ۔ یعنی وہ ہرعلم والے سے اوپر جاننے والے ہیں۔
مصنف کے نزدیک علامہ احمد صاوی کافر ومشرک ۔ کیونکہ۔
عارف باللہ حضرت شیخ احمد صاوی تفسیر صاوی میں فرماتے ہیں؛۔
والذی یجب الایمان بہ ان رسول اللہ لم منتقل من الدنیا حتے اعلمہ اللہ بجمیع المغیبات اللتی تحصل فی الدنیا والاخرۃ۔
ترجمہ؛۔ اور وہ بات جس پر ایمان لانا واجب ہے کہ اللہ کے رسول دنیا سے تشریف نہیں لے گئے۔ یہاں تک کہ انہیں تمام وہ غیوب جو دنیا و آخرت میں حاصل ہوں گے اللہ تعالےٰ نے تعلیم فرما دیئے۔ (بحوالہ۔ تفسیر صاوی ، مصر، ص ۹۷ ج ۲)۔
مصنف کے نزدیک علامہ قسطلانی اور علامہ زرقانی کافر ومشرک ۔ کیونکہ۔
علامہ قسطلانی مواہب اللدنیہ میں اور علامہ زرقانی اسکی شرح میں فرماتے ہیں؛۔
فکل ماورد عنہ علیہ الصلوٰۃ والسلام من الانباء المنئبۃ عن الغیوب لیس ھوالامن اعلام اللہ لہ بہ، لتکون تلک الغیوب (اعلاما علی ثبوت نبوۃ ودلائل ، ای علامات (علی صدق رسالتہ) وقد تواترت الاخبار واتضقت معانیھاعلی اطلاعہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الغیب ۔ (زرقانی ، مصری، ص ۱۹۹ ج ۷)۔
ترجمہ:۔ پس تمام وہ باتیں جو غیب کی خبروں پر مشتمل ہیں اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہوئیں تو وہ انہیں اللہ ہی کے علم دینے سے ہیں تاکہ یہ غیوب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ثبوتِ نبوت اور صدقِ رسالت پر نشانیاں اور علامتیں ہوجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غیب پر مطلع ہونے پر احادیث متوتر اور ان کے معانی متفق ہوچکے ہیں۔
علامہ قسطلانی (رحمتہ اللہ علیہ) مواہب میں لکھتے ہیں؛۔
وقد اشتھر وانتشر امرہ علیہ الصلوٰۃ والسلام بین اصحابہ بالاطلاع علی الغیوب فاما اصحابہ المومنون فانھم جازمون باطلاعہ علی الغیب۔ (بحوالہ۔ مشکوٰۃ شریف ص ۶۹۔اور ۔ از ۔ زرقانی ص ۲۰۰ ج ۷)۔
ترجمہ؛۔ اور صحابہ کرام میں مشہور ومعروف تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیبوں کا علم ہے۔ (یعنی وہ غیوب پر مطلع ہیں)۔ صحابہ کرام یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب پر مطلع ہیں۔
ان عبارات سے واضح ہوگیا کہ علم ِ غیب انبیا کرام کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے بطریق معجزہ ، اور اولیا کو الہام سے بطریق کرامت حاصل ہوتا ہےاور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ دنیا میں سیدنا آدم علیہ السلام کے وقت سے پہلے صور تک ہوگا از اول تا آخر تمام حالات روشن ہوگئے اور وہ ہرشئے کے جاننے والے ہیں اور تمام اول وآخر ظاہروباطن کے علوم ان کے احاطہ علمی میں ہیں اور اس بات پر ایمان لانا واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں منتقل ہونے سے قبل ہی وہ تمام غیوب جو دنیا و آخرت میں حاصل ہونے والے تھے تعلیم فرمادیئے ۔ تو جن غیبوں کی خبریں آپ سے وارد ہیں وہ اللہ ہی کی تعلیم سے ہیں تاکہ یہ غیوب حضور کے ثبوتِ نبوت اور صدقِ رسالت پر نشانیاں اور علامتیں ہوجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غیب پر مطلع ہونے پر احادیثِ متواتر ہیں اور ان کے معانی متفق ہیں ۔ یہی عقیدہ علما دین اور آئمہ مجتہدین کا ہے اور صحابہ کرام بھی اسی عقیدہ پر جزم کرتے تھے کہ اور ان میں یہی بات مشہور تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غیب پر مطلع ہیں۔ تو یہ عقیدہ ساری امت کا قرار پایا اب باقی رہے خود سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ نے بھی اس کا اقرار ان الفاظ میں فرمایا۔
(حدیث) فعلمت مافی السمٰوت والارض ۔۔۔فتجلی لی کل شی معرفت ۔ ترجمہ۔ اور میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے(مشکوٰۃ شریف ص ۶۹)۔مجھے ہرچیز روشن ہوگئی تو میں نے پہچان لیا ۔ (از مشکوٰۃ ص ۷۲)۔
(حدیث) فعلمت علم الاولین والاخرین (وفی روایۃ) فعلمت ماکان وماسیکون۔ ترجمہ۔ مجھے اولین وآخرین کا علم دیا۔ میں نے ماکان ومایکون کو جان لیا۔ (جو ہوا اور جوہورہا ہے اور جو ہونے والا ہے) سب کو جان لیا۔ (ازتفسیر روح البیان ص ۲۴ ج ۶)۔
ان احادیث سے ثابت ہوگیا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے جان لیا اور مجھ پر ہرشے روشن ہوگئی اور مجھے اولین و آخرین کا علم سکھادیا گیا اور میں نے جان لیا جو ہوچکا اور جو ہورہا ہے اور جو ہونے والا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غیوب پر مطلع ہونا ان احادیث سے بصراحت ثابت ہوگیا۔ اب دیکھئے کہ ان کا عطا فرمانے والا رب العالمین ہی فرماتا ہے۔
وما ھو علی الغیب بضنین ۔ ترجمہ۔ اور یہ نبی غیب کے بتانے میں بخیل نہیں ۔
مصنف کے نزدیک علامہ بغوی (رحمتہ اللہ علیہ) اور علامہ خازن (رحمتہ اللہ علیہ ) بھی کافر و مشرک کیونکہ۔
امام محی السنۃ علامہ بغوی (رحمتہ اللہ علیہ) اپنی تفسیر معالم التنزیل میں اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں۔
یقول انہ یاتیہ علم الغیب فلا یبخل بہ علیکم بل یعلمکم ویخبرکم بہ ولا یکتمہ (تفسیر معالم التنزیل وتفسیر خازن مصری ص ۱۸۰ ج ۷)۔
ترجمہ؛۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم آتا ہے وہ تمہیں بتانے میں بخل نہیں فرماتے بلککہ تم کو بھی اس کا علم دیتے ہیں اوراس کو چھپاتے نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور علامہ خازن تفسیر لباب التاویل میں آیت کریمہ علمہ البیان کے تحت میں فرماتے ہیں؛۔
اراد بالانسان محمدًا صلی اللہ علیہ وسلم (علمہ البیان) یعنی بینا ماکان ومایکون لانہ کان یبین عن الاولین۔۔۔۔۔۔والاخرین وعن یوم الدین۔ (ترجمہ) ۔ انسان سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور انہیں ماکان ومایکون کا بیان تعلیم کیا اسی لیئے تو وہ اولین و آخرین اور روزِ قیامت کی خبریں دیتے ہیں۔ (تفسیر خازن مصری ص ۲، ج ۷)۔
ان آیات اور ان کی تفاسیر (جو کسی بریلوی نے نہیں کیں) سے ثابت ہوگیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ماکان ومایکون) پر مطلع فرمادیا اسی لیئے تو وہ اولین وآخرین اور روزِ قیامت کا بیان کرتے ہیں اور وہ تم پر بخل نہیں کرتے بلکہ تمہیں بھی سکھاتے اور خبر دیتے ہیں اور اس کو چھپاتے نہیں۔
بالجملہ انبیا اور خصوصاً سرکارِ دوعالم سید کائنات وموجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی تعلیم وعطا سے غیوب پر مطلع ہونا ایسا اعتقادی مسئلہ ہے جو نہ صرف علمادین بلکہ صحابہ وتابعین کی تصریحات سے بلکہ صریح قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اب دیکھیں کہ امام الوہابیہ اسماعیل دہلوی اس اعتقادی مسئلہ کے بالمقابل لکھتا ہے؛۔
غیب کی باتیں اللہ ہی جانتا ہے۔ رسول کو کیا خبر؟ (تفویۃ الایمان ص ۶۶)۔ اور۔ کسی انبیا اولیاا مام یا شہیدوں کی جناب میں ہرگز یہ عقیدہ نہ رکھے کہ وہ غیب کی بات جانتے ہیں۔ بلکہ حضرت پیغمبر کی جناب میں بھی یہ عقیدہ نہ رکھے(تفویۃ الایمان ص ۳۰)۔ اور۔ پھر خواہ یو ں سمجھے کہ یہ بات ان کو اپنی ذات سے ہے خواہ اللہ کے دینے سے غرض اس عقیدہ سے ہرطرح شرک ثابت ہوتا ہے۔ (تفویۃ الایمان ص ۱۰)۔
مجددِ مذہبِ وہابیت مولوی رشید احمد گنگوہی صاف طور پر لکھتےہیں؛۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ کو علم ِ غیب تھا صریح شرک ہے (فتاوی رشیدیہ ص ۱۰ ج۲)۔
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کا معتقد ہے۔ ساداتِ حنفیہ کے نزدیک قطعاً مشرک و کافر ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص ۳۶ج ۳)۔اور۔ انبیا علیہم السلام غیب پر مطلع نہیں (مسئلہ علم غیب ص ۲)۔
مسلمانو! غور کرو اس امام الوہابیہ اور مجدد فرقہ دیوبندیہ نے علما دین صحابہ و تابعین کو بلکہ خود رسول الانبیا والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ خود رب العالمین جل جلالہ کو بھی کیا کافر ومشرک نہیں کہا؟۔حاصل کلام یہ ہے کہ جب مصنف کے اکابر تمام امت کے علما اور اکابرِ اہل حق کی تضلیل وتفسیق میں اس قدر بلیغ کوشش کرچکے اور انہیں کافرومشرک بتان میں اپنی عمر صرف کرچکے اور انبیا کرام علیہم السلام کی جناب بلکہ خود باری تعالیٰ کی شان میں ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کرچکے تو مصنف کو نیچریوں، رافضیوں، قادیانیوں، چکڑالویوں ، غیرمقلدوں کی اکابر اہل حق کی تضلیل وتکفیر کرنا کس طرح یاد آتی اور وہ ان کے کفری وشرکی فتووں کو کب نظرمیں لاتا کہ ایسی تضلیل وتکفیر تو نہ اس کے نزدیک کوئی جرم ہے نہ قابلِ شکایت بات ہے بلکہ یہ تو اس کا مذہب و عقیدہ ہے۔
اختتامی کلمات؛۔ کتاب ردِ شہابِ ثاقب برردِ وہابی خائب ۔ تالیف ۔ حضرت علامہ محقق الحق والدین مولانا محمد اجمل شاہ صاھب مفتئی ہند سنبھل۔ قدس سرہ۔ یہ کتاب معرفت ڈاٹ کام پر اور ہمارے مکاشفہ کی لائبریری سکیشز میں آسانی سے دستیاب ہے۔ ضرور مطالعہ کریں۔ان عقائد پر کبھی اسلامی دنیا نے اعتراض نہیں کیئے کیونکہ وہ سب اسلام کو سمجھتے تھے لیکن اسماعیل دہلوی اور اس کی باقیات نے جب سے دین کو سکھانے کا ٹھیکہ اپنے ذمہ لیا ہے تب ہی سے تکفیریت ، فرقہ پرستی، تقسیم ، اور عقائد سے متعلق صرف اور صرف جھوٹ ہی لوگوں کو سکھایا گیا ہے تاکہ ان کی ڈیڑھ اینٹ کی مذہبی دکانداری چلتی رہے۔ ایک طرف انگریز آقائوں کے اشارے پر امت کو تقسیم کرتے رہیں اور دوسری طرف چہروں پر جھوٹی تقویٰ سجا کر مسلمان کو اسقدر اسلام سے بے گانہ کردیں کہ ان کو سمجھ ہی نہ پڑسکے کہ کون صحیح اور کون غلط ہے۔ اور اسی کام میں یہ شیاطین کامیاب رہے ہیں ، سب دیکھ سکتے ہیں کہ ان کے وجودِ نامسعود وناپاک سے پہلے امت میں مکمل اتحاد تھا اور ان ٹاپکس پر سرے سے کوئی بات ہی نہ ہوتی تھی کیونکہ جیسا کہ ہم نے کہا یہ اعتراض ہی بدعات ہیں اور انہوں نے ہی یہ بدعت شروع کی تاکہ عوام کے دماغوں میں شکوک پیدا کردیئے جائیں اورہماری غلطی یہ ہے کہ ہم نے ان کو یہ سب دین سمجھ کر کرنے دیا اور خود علم حاصل کرنے کی بجائے ان دکاندار مولویوں کی باتوں کو ہی دین سمجھ بیٹھے ، حالانکہ حدیث نے ان ہی جیسوں کو علمائے سُو قرار دیا ہے۔ اللہ تمام مسلمانوں کے ان کے فتنے سے نجات دلائے آمین۔