|
Post by Admin on Feb 19, 2017 18:30:32 GMT
2017 Scans Latest: You can find all new work in 2017 from our scans library section folder 2017
وسیلہ نبی و صالحین کو و زیارتِ قبر نبی کے جانے کو (بدعت، غیراللہ کی مدد) کا نام کس نے امتِ مسلمہ میں سب سے پہلے دے کر تفریق ڈالی اسکا جواب (بریلویوں) سے نہیں بلکہ سلف الصالح (امام تقی الدین بن عبدالکافی السبکی الشافعی) رحمتہ اللہ علیہ سے جانیئے (ترجمہ اردو/ پشتو)
ترجمہ؛ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنانا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور شفاعت چاہنا جائز ہی نہیں بلکہ امر مستحسن ہے۔ اس کا جائز اور مستحسن ہونا ہردیندار کے لیئے ایک بدیہی امر ہے جو انبیائے کرام ورسل عظام علیھم السلام اور سلف الصالحین و علمائے کرام سے ثابت ہے اور کسی مذہب والے نے اسکا انکار نہیں کیا اور نہ کسی زمانہ میں ان امور کی برائی کی بات کہی گئی ہے۔ حتیٰ کہ ابن تیمیہ نے ان امور کا انکار شروع کردیا اور ایسی باتیں کہیں جن سے ایک بھولا بھالا مسلمان دھوکے میں پڑ جائے اور ایک ایسی نئی بات کہنی شروع کردی جو ابتک کسی نے نہ کہی تھی اور اس ابوجعفر منصور اور امام مالک رحمتہ اللہ علیہ والی مشہور حکایت پر بھی جرح و قدح شروع کردی جس کو ہم تفصیل سے نقل کرچکے ہیں اور اسکی صحت کو واضح کرچکے ہیں کہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے خلیفہ منصور سے کہا تھا
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شفاعت کی درخواست کر
ہم نے اس کتاب میں شفاعت کی بحث اسلئے کی ہے کہ ابن تیمیہ نے زیارتِ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کے ساتھ شفاعت اور استعانت کا بھی انکار کیا ہے۔ ابن تیمیہ کے اس موقف کے باطل ہونے کے لیئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسطرح کی بات اس سے پہلے کسی عالم نے نہیں کی تھی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بہت سی باتیں لکھی ہیں ہم نے بہتر راستہ یہی سمجھا ہے کہ ان کی باتوں کے رد و ابطال سے قطع نظر کرتے ہوئے اصل مسئلہ کا ثبوت اور دلائل واضح کردیں۔
جن علمائے کرام نے امت کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا ہے ان کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ دین کے مسائل اسطرح بیان کردیں کہ لوگوں کی سمجھ میں آجائیں اور قابل قبول بن جائیں لیکن ابن تیمیہ کی باتیں اس کے بالعکس ہیں۔
میں (امام سبکی لکھتے ہیں) کہتا ہوں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل ہرحال میں جائز ہے۔ نبی کریم علیہ السلام کی ولادت سے قبل بھی اور بعد از ولادت بھی۔ حضور کی ظاہری حیات میں بھی اور بعد از وصال بھی، دنیا میں بھی اور حشر کے میدان، اور جنت میں بھی
ترجمہ پشتو؛
نبي کريم عليه السلام نه وسيله سازول (جوړول) او حضور عليه السلام نه مدد او شفاعت غوښتل تش جائز هم نه دے بلکه امر مستحسن (بهتر عمل) دے. دَ دې جائز او مستحسن کيدل هر ديندار له پاره يو لازمي امر دے چي کم دَ انبيائے کرامو وسولانو (عليهم السلام) او سلف الصالحين وعلمائے کرام نه ثابت دے او يو مذهب والا هم ترانکار نه دے کړے او نه ورته چا په هيڅ زمانه کښي دے امور (کارونو) ترحقله بد خبره کړي ده. تر هغے چي ابن تيميه (اول ځل) دَ دې څيز انکار شروع کړو او داسي خبرے يے شروع کړل چي دَ څه نا يو عام معصول مسلمان په شکوک او دهوکه کښي پريوځي او يو داسي نوے خبره ئے وئيل شروع کړه چي کمه چا هم تر اوسه پورے نه وا کړے، او په دے ابوجعفر منصور او امام مالک رحمته الله عليه والاؤ مشهور حديث باندے هم جرح وقدح شروع کړو چه دَ څه په حقله مونږ اول تفصيل نقل کړے دے. او دَ دے صحت هم واضحه کړو چۍ امام مالک رحمته الله عليه خليفه منصور ته وئيلې وؤ
حضور پاک صلي الله عليه وسلم نه دَ شفاعت درخواست وکړه
مونږ په دے کتاب کښي دَ شفاعت بحث په دے وجه کړے دے چي ابن تيميه دَ نبي عليه السلام قبر مبارک زيارت کولو انکار سره سره دَ شفاعت او استعانت هم انکار کړے دے. ابن تيميه دا موقف باطل کيدو له پاره هم دا کافي ثبوت دے چي دې شانے خبرے اول هيڅ عالم نه دې کړې (نوټ ترجمه کونکے: يعني ابن تيميه دا بدعت شروع کړے وؤ). په دې سلسله کښي هغه ډير څه خبرے کړې دې مونږ بهتر لاره دا وګنړله چه دَ هغه دَ فضول خبرو رد او ابطال کولو په ځائے اصل مسئله دَ ثبوت او دلائل نه واضحه کړو
کم علمائے کرامو دَ دې امت دَ اصلاح بيړا وچتولے ده دَ هغوي طريقه کار داسي پاتے شوے دے چي دَ دين مسائل دغه شان بيان کړے شې چه دَ خلقو په فکر (سوچ سمجهدارے) کښي راشې او قابل قبول جوړ شې، خو دَ ابن تيميه خبرے دے نه برعکس دې
ځه (يعنې امام سبکې صاحب فرمائې) وئيم چي دَ نبي کريم عليه السلام نه توسل هرحال کښي جائز دې نبي عليه السلام دَ ولادت نه وړاندے او بعد از ولادت هم، نبې عليه السلام حياتِ ظاهرې کښې هم او بعد از وصال هم، په دنيا کښي هم او دَ حشر په ميدان کښي هم او په جنت کښي هم۔
حوالہ؛ شِفاء السقام فی زیارۃ خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم ۔ للامام ناصر السنۃ شیخ الاسلام المجتہد تقی الدین علی بن عبدالکافی بن علی السبکی الشافعی (رح) ولد سنۃ ۶۸۳ھ، وتوفی سنۃ ۷۵۶ھ۔ ص ۳۵۷/۳۵۸ بدارالکتب العلميۀ بيروت لبنان
|
|
|
Post by Admin on Mar 5, 2017 20:01:19 GMT
|
|
|
Post by Admin on Mar 26, 2017 1:44:05 GMT
2017 Fresh Updates:
سپیشل پوسٹ؛
مختصر تفصیلِ سکینز؛ یہ ایک قدیم کتاب ہے اسکی تاریخ چھپائی 1336ء ہے اور لاھورمیں چھپی ہے۔ جو کہ دیوبند کے ایک مولانا صاحب کے بیعت کے قصے پر مشتمل ہےاور نام ہے (فتویٰ جوازِ یا شیخ عبدالقادرجیلانی شیئاً للہ) یعنی اے شیخ عبدالقادر جیلانی میری امداد فرمائیے اللہ کے واسطے۔
پہلے صفحے پر انہوں نے اپنی سلسلہ قادریہ نقشبندیہ مجددیہ فاروقیہ میں بیعت کا احوال ذکر کیا ہے (جو آپ سکین نمبر 1) میں پڑھ اور دیکھ سکتے ہیں۔ پھر جب ان کو بیعت کرنے کے بعد مولوی غلام علی دہلوی (دیوبندی) صاحب کی طرف سے ان کو ارشاد ہوا کہ یہ وظیفہ پڑھنا بطور قادری آپ کا معمول ہونا چاہیئے۔ جس پر انہوں نے لکھا ہے کیا لکھا ہےَ وہ تو آپ سکین میں پڑھ ہی رہے ہیں یہاں بھی لکھے دیتے ہین اور چند اہم پوائنٹس ملاحظہ کریں
اول؛ شاہ رووف احمد احمد علیہ الرحمتہ نے حضرت قطب الاقطاب غوث الاوتاد شاہ غلام علی دہلوی۔۔۔۔۔۔۔۔(غور فرمائیں غوث کا لفظ انہوں نے خود غیراللہ کے لیئے استعمال کیا ہے مگر اگر آپ اور ہم استعمال کریں گےتو ہم انہیں دیوبندیوں کے ہاتھوں (بریلوی) کہلاتے ہیں)۔
دوم: بوقت بیعت مرشد نے تعلیم فرمایا: یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئاً للہ کے پڑھنے کو بھی متعین وقت وعدہ فرمایا کرتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ اگرچہ خداء و استمداد مشروع ہے اور یہ وظیفہ اس قاعدہ سے بھی پڑھنا جائز ہے لیکن فی الواقع اسکو نداء و استمداد سے کچھ تعلق نہیں بلکہ مطلق ان کلمات میں باذ اللہ تعالےٰ تاثیر ہے کہ اگر کوئی باجازتِ کامل پڑھے تو انشاء اللہ تعالےٰ فائدہ ہو۔ (یعنی)۔ منکروں کے منہ سے (بریلوی) عقائد پر ایمان کے باوجود ان کو دیوبندیوں نے (کافر مشرک بدعتی یا بریلوی) کا نام تو نہیں دیا لیکن باقی کی ساری امت کو یہ لوگ کیا کیا کہتے ہیں وہ محتاج بیان نہیں
سوم؛ لکھا ہے۔ احقر حضرت پیر دستگیر رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت سراپا برکت سے واپس آیا (نوٹ) غور فرمائیں دستگیر اگر ہم کہیں تو ہم (بریلوی بدعتی) اگر دیوبند کے اپنے علماء کہیں تو جائز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے بعض عزیز و اقارب کو کہ جنکے نزدیک یا شیخ الخ پڑھنا کفر و شرک ہے اس وظیفہ کا حال معلوم ہوا تو مجھ پر طعن و تعرض شروع کئے۔ ہرچند میں نے ان سے عرض کیا کہ ہمارا عقیدہ اس وظیفہ کی نسبت ایسا نہیں ہے کہ جس سے معاذ اللہ کفر و شرک لازم آئے اور یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ حضرت شیخ کو متصرف مستقل و حاضر و ناظر سمجھے اگرچہ عقل سلیم اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ جو شخص خدا و رسول پر ایمان رکھتا ہو وہ کسی ولی یا نبی کو عیاذاً باللہ بالاستقلال ہم صفاتِ قادر مطلق سمجھتا ہوگا۔ ھذا بہتان عظیم۔ لیکن النادر کالمعدوم کسی جاہل اور احمق کا ایسا عقیدہ ہو بھی تو وہ کفر و شرک ہے نعوذ باللہ من ذالک
نوت: اب یہاں ان کی سیاسی زبان کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ان کے نزدیک اگرچہ مرشد حاضر و ناظر نہیں مگر اسکو حاضر و ناظر جان کر وظیفہ پڑھنا درست ہے؟۔۔ کیا ذہانت اور کیا تاویلات نکالنے کا انداز ہے واہ سبحان اللہ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کونسا مسلمان ہے جو ولی یا نبی یا پیر کو (متصرف مستقل) سمجھ کر پکارتا ہے؟ تو پھر دیگر پکارنے کی وجہ سے (کافر مشرک بدعتی یا بریلوی صوفی) مگر خود کریں تو سب ٹھیک؟۔ اور کونسا صوفی ہے جو اپنے پیر کو اللہ کے برابر قادر سمجھ کر پکارتا ہے؟۔ یہ تو حال ہے ان کے مستند علماء کے ذہنوں کی گھٹی ہوئی سوچوں کا۔
قصہ مختصر
صفحہ 4 اور 5 پر موصوف نے اسکی بابت لوگوں سے تنگ آکر اپنے پیرومرشد مولوی رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں شاہ غلام علی دہلوی وغیرہ کا ارشاد بھیج دیا اور استفتاء کیا کہ آپ کیا فرماتے ہیں اسکے بارے میں تو انہوں نے کیا لکھا وہ سکین میں ملاحظہ کریں یہاں مختصراً ہم لکھ دیتے ہیں
چہارم؛ (دیوبندیوں کے مولانا لکھتے ہیں جواب میں اپنے نئے بیعت شدہ مولوی صاحب یعنی حسن کو)۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو کچھ اُن حضرات کا ارشاد ہے وہ سب صحیح اور درست ہے۔ جو نادان اس حالت پر تکفیر کسی کی کرے وہ سبب ناواقفیت کے کہ معنے کلام کے نہیں سمجھا پہلے بھی حجرت مجدد علیہ الرحمہ کی ایسی ہی کم فہمی کے سبب تکفیر ہوئی تھی مگر حاشا وکلا وہ بری ہیں کفر و فسق سے۔۔۔۔۔۔ چند لائنوں کے بعد لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خاندانِ عالیشان سے معلوم ہوئی (یعنی تصنیفِ فتویٰ)۔ بندہ بھی اس خاندان میں منسلک ہے (یعنی صوفی ہونے کا اقرار)۔۔۔۔ اس میں کوئی کلمہ ء کفر کا معاذ اللہ نہیں اور جو کلام کسی کے نزدیک موہم ہے وہ بندے کے نزدیک محل درست رکھتی ہے اس کتاب کو بندہ بھی رکھنا چاہتا ہے قیمت سے مطلع فرمادیں ارسال کروں۔۔۔۔۔۔۔۔ چند لائن بعد مزید لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور حضرات کا کلام بالکل پاک عیب سے ہے کتاب عمدہ لکھی ہے۔
اور
پنجم؛ آخری تین لائیوں میں اسی صفحہ 5 اور سکین نمبر 2 میں لکھا ہے۔ ۔۔۔۔ جناب مولانا صاحب کے اس جواب کو پڑھکر میری اپنی بھی تسلی ہوگئی اور معترضین کی جانب سے بھی بعد ازاں کچھ نہ سنا البتہ یا شیخ کے انکار میں غلو و مبالغہ اس شدت و درجہ کو پہونچا ۔۔۔۔۔۔۔
یعنی خود وہابیہ دیوبندیہ کے اکابرین نے (یا شیخ) کہنے کو جائز کہا ہے تو آج اگر مسلمان (یارسول اللہ مدد) اور (یا غوث الاعظم دستگیر) کہتے ہیں تو ان کو انہیں دیوبندیوں کی طرف سے یہ سننا پڑتا ہے کہ (یہ تو بریلوی ہے، یہ توبدعتی ہے) اور (غوث صرف اللہ کی ذات ہے جو کوئی غیراللہ کو دستگیر کہے وہ بدعتی ہے)۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر اپنے اکابرین کا وہی عمل درست اور قابل عمل ثواب ہے۔ اس کو کہتے ہیں ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ یعنی دیوبند اپنے بزرگ اسلاف کا رستہ چھوڑ چکی ہے اور شاہ اسماعیل کے وہابی دھرم کی اندھی تقلید کو حنفیت کی آڑ میں چھپا کر اپنی اپنی نوکریاں کررہی ہے۔ جو کام یہ دوسروں کو کرنے پر بدعتی کہتے ہیں وہی کام ان کے اپنے گھر کے بڑوں سے ثبوت اور فتوؤں کے ساتھ دیئے ہوئےہیں۔
اور ہاں یہ فتویٰ آپ کے ہی رشید گنگوہی کا ہے جو عقیدہ کچھ رکھتا ہے اور یہاں کچھ لکھتا ہے۔ بلکہ اس کے علاوہ مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری، مولانا لطف اللہ صاحب علی گڑھی، مولانا احمد حسن صاھب کانپوری مولانا نعیم صاحب لکھنوی مولانا محمد عین القضاۃ صاحب حیدرآبادی اور مولانا محمد مسعود صاحب جیسے مشہور مستند دیوبندی علماء کے فتوے اور اجازات پر مشتمل ہے۔
اب یا تو دیوبند بتادے کہ یہ سب کے سب (بریلوی) تھے یا (کافر مشرک بدعتی) اور اگر یہ آپ نہ ثابت کرسکیں تو پھر اسکا واضح مطلب ہے دیوبند آجتک گمراہی کی تعلیمات لوگوں میں پھیلاتی رہی ہے اور امت کو تفریق میں ڈالے رکھی ہے
|
|
|
Post by Admin on Apr 6, 2017 18:12:34 GMT
|
|
Please contact me ,
Guest
|
Post by Please contact me , on May 7, 2020 14:59:22 GMT
Salam, please contaxt me on Whatsapp +1 416-409 4369 or email hraza@laurentian.ca . we made this sunni Website www.islamictreasure.com/. And need to improve things here and write more articles. Need to discuss about how to improve our articles and scanns with you brothers. InshaHAllah Syed raza- Fidai saifi naqshbandi
|
|