Post by zarbehaq on Jan 10, 2016 13:49:52 GMT
کیا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے جہنّم میں اپنا سایہ دیکها تها ؟؟؟ ( معاذ اللہ )
فریق مخالف اپنے مسلکی تعصّب میں صحیح ابن خزیمہ کی حدیث سے اسدلال کرتے ہوئے لکهتا ہے
صحيح ابن خزيمة (حدیث نمبر 892 )
ثم عرضت علي النار، بيني وبينكم حتى رأيت ظلي وظلكم،
ترجمہ : پهر مجهے جہنم دکهائی گئی میرے اور تمہارے درمیان حتی کے میں نے اپنا سایہ اور تمہارا سایہ دیکها.
(سلفی حاشیہ نگار نے اس عبارت پر بغل بجاتے ہوئے اپنی جہالت کا واضح ثبوت دیا ہے )
الجواب
(1)
فریق مخالف کی علمی قابلیت پر حیرت ہوتی کہ جہاں لفظ "ظل" نظر آیا فوراََ اس کا معنی جسم کے تاریک سایہ کے سمجهہ لیتے ہیں. ایسی بغض سے بهری ہوئی ذہنیت سے بعید نہی کہ وہ حدیث مبارک پڑهہ کر اللہ تعالی کے لئے بهی جسمانی تاریک سایہ ثابت کردیں. ( معاذ اللہ )
( صحيح البخاري حدیث نمبر 660 )
سبعة يظلهم الله في ظله، يوم لا ظل إلا ظله
ترجمہ :سات طرح کے آدمی ہوں گے جن کو اللہ اس دن (قیامت کے دن ) اپنے سایہ میں جگہ دے گا.جس دن اس کے ( اللہ کے ) سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا.
؟؟؟؟؟
(2)
لغت عربی میں "ظل" کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور "جسم" وہ "شخص" کے معنی میں بهی استعمال ہوا ہے
منتہی الارب ( 3/78) میں لفظ ظل کے تحت یہ معنی بهی ہیں
راحت ،ارجمندی ،اول جوانی ، شخص
اسی طرح تاج الغت میں ظل کے ماتحت کئی معنی ہیں
عزت ، غلبہ ، پردہ ، شخص
اقرب الموارد (2/731 ) میں ہے
ہرچیز شخص اور بدن کو بهی ظل کہتے ہیں
مجمع بحارالانوار (2/333,334) میں علامہ شیخ محمد طاہر پٹنی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں
یعنی ان کے ظلال سے ان کے اشخاص یعنی اجسام مراد ہیں.
3)
یہاں "ظلي وظلكم" محاورتاََ استعمال ہوا ہے مطلب میں نے اپنے آپ کو اور تمہیں بهی دیکها ہے
4)
اگر اس حدیث سے رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا سایہ ثابت ہوا تو یا مسجد نبوی میں ہوگا یا جہنم میں (معاذ اللہ )
اور یہ نا ممکنات میں سے ہے کیوں کی حدیث میں یہ واقع عین فجر کے وقت کا ہے اور وقت فجر سایہ ہونا ممکن نہی.
دوم سایہ ہمیشہ روشنی میں ہوتاہے اور دوزخ کی آگ دنیاوی آگ کی طرح روشن نہیں بلکہ وہ "سیاہ اور تاریک ہے
سنن ابن ماجه (حدیث نمبر 4320 )
حضرت ابو هریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا "دوزخ کی آگ ہزار سال بهڑکائی گئی یہاں تک کہ سُرخ ہوگئی پهر ہزار سال بهڑکائی گئی یہاں تک کہ سیاہ ہوگئی پس اب وہ "سیاہ و تاریک" ہے.
( صحیح لغیرہ )
اس روایت کی تائید امام ما لک رحمتہ اللہ علیہ کے موطا سے.
موطا امام مالک – باب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ جَهَنَّمَ (حدیث نمبر 3648 )
ابو سہیل بن مالک رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو هریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا اپنی ( دنیاوی ) آگ کی طرح تم اسے ( جہنم کو ) سُرخ سمجهتے ہو ؟؟؟ وہ قار سے زیادہ سیاہ ہے اور قار "تارکول" کو کہتے ہیں.
( اسنادہ صحیح رجّال کلهم ثقات)
گهٹا ٹوپ اندهیرے میں سایہ بننا نا ممکنات میں سے ہے.
خلاصہ کلام : صحيح ابن خزيمة کی روایت کے آخری حصے سے ثابت ہوتا ہے کی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے یہ مثال دعوت و تبلیغ کے لئے محاورتاً دیا تها.
نوٹ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افضل البشر ہونے کے ساتهہ نورانی خصائص کے بهی حامل ہیں اور سلف کا ایک طبقہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے لئے سایہ تسلیم نہی کرتے ہیں. اور یہ ایک فضائل کے باب میں سے ایک ظنی عقیدہ ہے. یہ ضروریات دین میں سے نہی ہے اور نہ ہی اس کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے.
Courtesy: Admin Br Abu Nasar Meer
فریق مخالف اپنے مسلکی تعصّب میں صحیح ابن خزیمہ کی حدیث سے اسدلال کرتے ہوئے لکهتا ہے
صحيح ابن خزيمة (حدیث نمبر 892 )
ثم عرضت علي النار، بيني وبينكم حتى رأيت ظلي وظلكم،
ترجمہ : پهر مجهے جہنم دکهائی گئی میرے اور تمہارے درمیان حتی کے میں نے اپنا سایہ اور تمہارا سایہ دیکها.
(سلفی حاشیہ نگار نے اس عبارت پر بغل بجاتے ہوئے اپنی جہالت کا واضح ثبوت دیا ہے )
الجواب
(1)
فریق مخالف کی علمی قابلیت پر حیرت ہوتی کہ جہاں لفظ "ظل" نظر آیا فوراََ اس کا معنی جسم کے تاریک سایہ کے سمجهہ لیتے ہیں. ایسی بغض سے بهری ہوئی ذہنیت سے بعید نہی کہ وہ حدیث مبارک پڑهہ کر اللہ تعالی کے لئے بهی جسمانی تاریک سایہ ثابت کردیں. ( معاذ اللہ )
( صحيح البخاري حدیث نمبر 660 )
سبعة يظلهم الله في ظله، يوم لا ظل إلا ظله
ترجمہ :سات طرح کے آدمی ہوں گے جن کو اللہ اس دن (قیامت کے دن ) اپنے سایہ میں جگہ دے گا.جس دن اس کے ( اللہ کے ) سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا.
؟؟؟؟؟
(2)
لغت عربی میں "ظل" کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور "جسم" وہ "شخص" کے معنی میں بهی استعمال ہوا ہے
منتہی الارب ( 3/78) میں لفظ ظل کے تحت یہ معنی بهی ہیں
راحت ،ارجمندی ،اول جوانی ، شخص
اسی طرح تاج الغت میں ظل کے ماتحت کئی معنی ہیں
عزت ، غلبہ ، پردہ ، شخص
اقرب الموارد (2/731 ) میں ہے
ہرچیز شخص اور بدن کو بهی ظل کہتے ہیں
مجمع بحارالانوار (2/333,334) میں علامہ شیخ محمد طاہر پٹنی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں
یعنی ان کے ظلال سے ان کے اشخاص یعنی اجسام مراد ہیں.
3)
یہاں "ظلي وظلكم" محاورتاََ استعمال ہوا ہے مطلب میں نے اپنے آپ کو اور تمہیں بهی دیکها ہے
4)
اگر اس حدیث سے رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا سایہ ثابت ہوا تو یا مسجد نبوی میں ہوگا یا جہنم میں (معاذ اللہ )
اور یہ نا ممکنات میں سے ہے کیوں کی حدیث میں یہ واقع عین فجر کے وقت کا ہے اور وقت فجر سایہ ہونا ممکن نہی.
دوم سایہ ہمیشہ روشنی میں ہوتاہے اور دوزخ کی آگ دنیاوی آگ کی طرح روشن نہیں بلکہ وہ "سیاہ اور تاریک ہے
سنن ابن ماجه (حدیث نمبر 4320 )
حضرت ابو هریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا "دوزخ کی آگ ہزار سال بهڑکائی گئی یہاں تک کہ سُرخ ہوگئی پهر ہزار سال بهڑکائی گئی یہاں تک کہ سیاہ ہوگئی پس اب وہ "سیاہ و تاریک" ہے.
( صحیح لغیرہ )
اس روایت کی تائید امام ما لک رحمتہ اللہ علیہ کے موطا سے.
موطا امام مالک – باب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ جَهَنَّمَ (حدیث نمبر 3648 )
ابو سہیل بن مالک رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو هریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا اپنی ( دنیاوی ) آگ کی طرح تم اسے ( جہنم کو ) سُرخ سمجهتے ہو ؟؟؟ وہ قار سے زیادہ سیاہ ہے اور قار "تارکول" کو کہتے ہیں.
( اسنادہ صحیح رجّال کلهم ثقات)
گهٹا ٹوپ اندهیرے میں سایہ بننا نا ممکنات میں سے ہے.
خلاصہ کلام : صحيح ابن خزيمة کی روایت کے آخری حصے سے ثابت ہوتا ہے کی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے یہ مثال دعوت و تبلیغ کے لئے محاورتاً دیا تها.
نوٹ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افضل البشر ہونے کے ساتهہ نورانی خصائص کے بهی حامل ہیں اور سلف کا ایک طبقہ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے لئے سایہ تسلیم نہی کرتے ہیں. اور یہ ایک فضائل کے باب میں سے ایک ظنی عقیدہ ہے. یہ ضروریات دین میں سے نہی ہے اور نہ ہی اس کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے.
Courtesy: Admin Br Abu Nasar Meer