Post by Admin on Jan 24, 2016 0:55:30 GMT
Urdu Unicode Text
بخاری شریف باب فی الحوض
وقول اللہ تعالیٰ : انآ اعطینٰک الکوثر (الکوثر:1)۔
وقال عبداللہ بن زید: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصبروا حتی تلقونی علی الحوض
حوض کا بیان
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم صبر کرو حتیٰ کہ تمہاری مجھ سے حوض پر ملاقات ہو۔
اس حدیثِ بخاری کی شرح میں علامہ بدرالدین عینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں؛۔
اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کا ذکر کیا گیا ہے۔ حوض اس جگہ کو کہتے ہیں جس میں پانی جمع کیا جاتا ہے۔ اور حوض کی جمع (احواض) اور (حیاض) آتی ہے۔ اور حوض کے متعلق اسقدر زیادہ احادیث وارد ہیں کہ وہ معنی متواتر ہیں اور حوض پر ایمان رکھنا واجب ہے اور وہ کوثر ہے جو جنت کے دروازہ پر ہے، مومنین کو اس سے پانی پلایا جائے گا اور وہ حوض اب بھی پیدا کیا ہوا ہے۔
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ۶۶۸ھ نے التذکرہ میں لکھا ہے اور (صاحب القنوت) (محمد بن علی بن عطیہ المشہور بابی طالب مکی متوفی ۳۷۶ھ) وغیرہ نے لکھا ہے کہ حوض صراط کے بعد ہوگا اور دوسروں نے اسکے برعکس لکھا ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوحوض ہیں۔ ایک حوض محشر میں ہے صراط سے پہلے اور دوسرا حوض جنت کے اندر ہے اور ان میں سے ہرحوض کا نام کوثر ہے اور صحیح البخاری کے بعض نسخوں میں اس کا عنوان ہے (کتاب فی الحوض) اور اس سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی لکھی ہوئی ہے۔
باب مذکور کی پہلی تعلیق کی شرح از علامہ عینی (بحوالہ نعم الباری شرح صحیح البخاری جلد ۱۴ از علامہ غلام رسول سعیدی شیخ الحدیث دارالعلوم نعیمیہ ) مذظلہ العالی:۔
اس تعلیق میں الکوثر کا ذکر ہے یہ (فوعل) کا وزن ہے جو کثرت کا مبالغہ ہے اور عرب ہر اس چیز کو جو عدد میں کثیر ہو یا مقدار میں کثیر ہو یا مرتبہ میں عظیم ہو اسکو کوثر کہتے ہیں۔
اور سفیان بن عیینہ سے روایت ہے کہ اس بڑھیا سے کہا گیا جس کا بیٹا سفر سے واپس آیا کہ تمہارا بیٹا کس چیز کو لے کر سفر سے لوٹا؟ اس نے کہا (آب بکوثر) یعنی وہ مالِ کثیر کو لے کر لوٹا
اور کوثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کا نام ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کوثر کے ذکر میں بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ حوض ہے جس پر میری امت آئے گی اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے حوض کوثر مشہور ہے۔
لیکن امام ترمذی نے حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ہرنبی کے لیئے ایک حوض ہے اور وہ اپنے حوض پر کھڑا ہوگا اور اسکے ہاتھ میں ایک عصا ہوگا اور وہ اپنی امت میں سے جس کو پہچانے گا اس کو بلائے گا: سنو! انبیا علیہم السلام اس پر فخر کریں گے کہ کس کے پیروکار سب سے زیادہ ہیں اور مجھے امید ہے کہ میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے۔
اور امام طبرانی نے ایک اور سند کے ساتھ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے موصولاً روایت کی ہے کہ رسول اللہ علیہ السلام نے اس طرح فرمایا۔ اور اس حدیث کی سند میں ضعف ہے ۔ پس اگر یہ حدیث ثابت ہو تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو مخصوص ہے وہ کوثر ہے جس سے پانی حوض میں آرہا ہوگا۔ سو اس کی نظیر دوسروں کے لیئے نہیں ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ نے سورہ کوثر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حوضِ کوثر عطا فرمایا ہے۔
حوض کے متعلق علمائے اسلام کے مذاہب
الخوارج اور بعض معتزلہ نے حوض کا انکار کیا ہے اور جو لوگ حوض کا انکار کرتے ہیں ان میں سے عبید اللہ بن زیاد بھی ہے جو عراق کے حکام میں سے ایک تھا۔ اور یہ لوگ اس مسئلہ میں گمراہ ہیں اور انہوں نے سلف صالحین کے اجماع کی خلاف ورزی کی اور متاخرین کے مذہب سے الگ ہوگئے
حوض کے ثبوت کے متعلق احادیث کا بیان
حوض کے متعلق ۵۰ سے زیادہ صحابہ کرام سے احادیث منقول ہیں ان میں سے حضرت ابن عمر، حضرت ابوسیعد، حضرت سہل بن سعد، حضرت جندب، حضرت ام سلمہ، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت ابن مسعود، حضرت حذیفہ ، حضرت حارثہ بن وہب، حضرت المستورد، حضرت ابوزر، حضرت ثوبان، حضرت انس اور حضرت جابربن سمرہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔ پس ان صحابہ کی احادیث کی امام مسلم نے روایت کی ہے
اور حضرت ابوبکر ، حضرت زید بن ارقم، حضرت ابوامامہ، حضرت عبداللہ بن زید، حضرت سوید بن جبلہ، حضرت عبداللہ الصابحی، حضرت برا ٗ بن عازب، حضرت اسماٗ بنت ابوبکر، حضرت خولہ بنت قیس، حضرت ابن عباس ، حضرت کعب بن عجرہ، حضرت بریدہ، حضرت ابوالدردا، حضرت ابی بن کعب، حضرت اسامہ بن زید، حضرت حذیفہ بن اسید، حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، حضرت لقیط بن عامر، حضرت زید بن ثابت، حضرت حسن بن علی ، حضرت ابوبکرہ ، حضرت خولہ بنت حکیم ۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث امام احمد اور امام ابوعوانہ کے نزدیک ہے اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث امام بیہقی وغیرہ کے نزدیک ہے اور ابوامامہ کی حدیث امام ابن حبان وغیرہ کے نزدیک ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن زید کی حدیث امام بخاری کے نزدیک ہے۔ اور حضرت سوید بن جبلہ کی حدیث امام ابو زرعہ الدمشقی کی مسند میں موجود ہے اور حضرت عبداللہ السابحی کی حدیث امام ابن ماجہ کے نزدیک ہے۔
اور حضرت اسما بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کی حدیث امام بخاری کے نزدیک ہے اور حضرت خولہ بنت قیس کی حدیث امام طبرانی کے نزدیک ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث امام بخاری کے نزدیک ہے اور حضرت کعب بن عجرہ کی حدیث امام ترمذی اور امام نسائی کے نزدیک ہے۔ اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث امام ابن ابی عاصم کے نزدیک ہے۔ اور حضرت ابی بن کعب کی احادیث اور جو ان کے ساتھ مذکور ہیں خولہ بنت حکیم تک، ان سب کی حدیث امام ابن ابی عاصم کے نزدیک ہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ کی حدیث امام ابن حبان کے نزدیک ہے اور حضرت مسعود البدری اور سلمان الفارسی اور سمرہ بن جندب اور عقبہ بن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حدیث امام طبرانی کے نزدیک ہے۔ اور حضرت خباب بن الارت کی حدیث امام حاکم کے نزدیک ہے۔ اور حضرت النواس بن سمعان کی حدیث امام ابن ابی الدنیا کے نزدیک ہے۔ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی حدیث امام ابن مندہ کے نزدیک ہے اور حضرت عثمان بن معظون رضی اللہ عنہ کی حدیث امام ابن کثیر کے نزدیک ہے اور حضرت معاذ بن جبل اور حضرت لقیط بن صبرہ کی حدیث ابن القیم کے نزدیک ہے ۔ اور حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث امام احمد اور بزار کے نزدیک موجود ہیں۔
باب مذکور کی دوسری تعلیق کی شرح از علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ
اس تعلیق میں ذکر ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم صبر کرو حتیٰ کہ تمہاری مجھ سے حوض پر ملاقات ہو۔
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم المازنی پورا نام ہے اور اس تعلیق کو امام بخاری نے غزوہ حنین میں ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ۲۳ ص ۲۰۹ ۔ ۲۱۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت)۔
حدیث ٗ بخاری ۶۵۷۶
وحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْمُغِيرَةِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ وَلَيُرْفَعَنَّ مَعِي رِجَالٌ مِنْکُمْ ثُمَّ لَيُخْتَلَجُنَّ دُونِي فَأَقُولُ يَا رَبِّ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّکَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ تَابَعَهُ عَاصِمٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ وَقَالَ حُصَيْنٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ
اور مجھے عمرو بن علی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی از المغیرہ، انہوں نے کہا: میں نے ابووائل سے سنا از حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ، از نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فرمایا: میں تمہارا حوض پر پیشرو ہوں گا، اور ان میں سےکچھ مردوں کو میرے لیئے ظاہر کیا جائے گا، پھر ان کو میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا، پس میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ میرے اصحاب ہیں ۔ پس کہا جائے گا: بے شک آپ (ازخود) نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا باتیں نئی نکالیں۔
سلیمان کی متابعت عاصم نے کی ہے از ابی وائل اور حصین نے کہا از ابی وائل از حضرت حذیفہ از نبی صلی اللہ علیہ وسلم
صحیح البخاری ۶۵۷۶،۶۵۶۷،۷۰۴۹ اور صحیح مسلم : ۲۲۹۷ ، و سنن ابن ماجہ ۳۰۵۷ اور مسند احمد ۳۶۳۲)۔
صحیح بخاری کی حدیث ۶۵۷۶ کی شرح امام بدرالدین عینی رحمتہ اللہ علیہ سے؛۔
وہ ان احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں ؛۔
حدیث مذکور کی باب کے عنوان کے ساتھ مطابقت
اس باب میں تمام احادیث حوض کے ذکر میں ہیں سوا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے جس کو عطا بن یسار نے روایت کیا ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا انشا اللہ تعالیٰ ۔ پس اب ان احادیث کے ذکر کے وقت باب کے عنوان سے مطابقت کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔
حدیث مذکور کی پہلی سند کے بعض رجال کا تذکرہ
اس حدیث کی سند میں یحیٰ بن حماد کا ذکر ہے یہ الشیبانی البصری ہیں۔ نیز اس حدیث کی سند میں ابوعوانہ کا ذکر ہے، یہ الوضاح ہیں۔ اور اس حدیث کی سند میں حضرت عبداللہ کا ذکر ہے، یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔
حدیث مذکور کی دوسری سند کے بعض رجال کا تذکرہ
اس حدیث کی سند میں عمرو بن علی کا ذکر ہے، یہ ابن بحر ابوحفص الباہلی البصری الصیرفی ہیں اور یہ امام مسلم کے بھی شیخ ہیں۔ اور اس حدیث کی سند میں محمد بن جعفر کا ذکر ہے، یہ از شعبہ از المغیرہ بن مقسم الضبی از ابی وائل روایت کرتے ہیں اور ابووائل شقیق بن سلمہ ہیں اور وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتےہیں۔
حدیث مذکور کے معنی
اس حدیث میں مذکور ہے (انا فرطکم علی الحوض) یعنی ۔ میں تمہارا حوض پر پیش رو ہوں گا۔
فرط۔ اس شخص کو کہتےہیں جو لوگوں سے پہلے حوض پر پہنچ جائے تاکہ لوگوں کو پ انی پلانے کے لیئے حوض کا اور ڈول کا انتظام کرے۔ کہا جاتا ہے (فرطت القوم) جب تم قوم سے پہلے پہنچو تاکہ تم ان کے لیئے پانی کو طلب کرو اور ان کے لیئے پانی کو مہیا کرو۔
اس حدیث میں اس امت کے لیئے بشارت ہے اور ان لوگوں کو مبارک ہو کہ جن کے لیئے رسول اللہ علیہ السلام پیش رو ہوں گے
اس حدیث میں مذکور ہے (لیرفعن) یعنی ان لوگوں کو میرے لیئے ظاہر کیا جائے گا حتیٰ کہ میں ان کو دیکھوں گا۔
اس حدیث میں مذکور ہے (ثم لیختلجن دونی) یعنی ان لوگوں کو حوض سے ہٹا دیا جائے گا اور میرے پاس سے کھینچ لیا جائے گا ۔ علامہ کرمانی نے کہا ہے: یہ لوگ یا تو مرتد ہوں گے یا نافرمان ہوں گے۔
حوالہ؛۔ عمدۃ القاری جلد ۲۳ ص ۲۱۰ و ۲۱۱ بیروت
حدیث نمبر ۶۵۷۷ بخاری شریف
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَامَکُمْ حَوْضٌ کَمَا بَيْنَ جَرْبَائَ وَأَذْرُحَ
ایک اور طباعت کا حوالہ ، صحیح بخاری جلد ۳ حدیث نمبر ۱۵۲۰ مرفوع متفق علیہ متواتر
ترجمہ
امام بخاری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ہمیں مسدد نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا: ہمیں یحییٰ نے حدیث بیان کی از عبیداللہ ، انہوں نے کہا: مجھے نافع نے حدیث بیان کی از حضرت عمر رضی اللہ عنہ از نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ نے فرمایا: تمہارے آگے حوض ہے (اس کا فاصلہ ایسا ہے) جیسے جربا اور اذرح کے درمیان فاصلہ ہے۔
دیگر حوالہ جات
صحیح مسلم شریف حدیث رقم ۲۲۹۹ ، سنن ابو داود ح ر ۴۷۴۵ اور مسند احمد حدیث رقم ۴۷۰۹
اس حدیث کی شرح میں علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛۔
اس حدیث کی سند میں مذکور ہے یحییٰ ، وہ القطان ہیں۔ اور اس حدیث کی سند میں عبیداللہ کا ذکر ہے وہ ابن عمر العمری ہیں۔
حدیث مذکور کے معانی
اس حدیث میں مذکور ہے (امامکم) اس کا معنی ہے : تمارے آگے یا تمہارے سامنے
اس حدیث میں ذکر ہے (حوض) اور السرخسی کی روایت میں ہے (حوضی) یعنی میرا حوض
اس حدیث میں ذکر ہے (جربا اور ازرح) علامہ کرمانی کہتے ہیں: یہ دوجگہوں کے نام ہیں
صحیح مسلم میں ذکر ہے کہ عبیداللہ نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ شام کے دوشہر ہیں یا دو بستیاں ہیں اور ان کے درمیان ۳ راتوں کی مسافت ہے۔
علامہ عینی فرماتے ہیں؛۔ الرشاطی نے کہا ہے (الجرباء) مونث کا صیغہ ہے اور یہ الاجرب کی تانیث ہے۔ یہ شام کا ایک شہر ہے اور ابن وضاح نے کہا: (اذرح) فلسطین میں ہے۔ اور الرشاطی نے کہا کہ اسی جگہ پر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کی تھی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو دولاکھ درہم دیئے تھے۔
حوض کے طول اور عرض کے متعلق مختلف روایات
اس جگہ مفصل اور مبسوط کلام کی ضرورت ہے کیونکہ حوض کی مقدار میں بہت اختلاف ہے۔ یہاں اس حدیث میں فرمایا ہے کہ (حوض میں اتنا فاصلہ ہے جتنا جرباء اور اذرح میں فاصلہ ہے) اور یہ بیان نہیں فرمایا کہ ان دونوں مقامات کے درمیان کتنی مسافت ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا کہ میرا حوض ایک ماہ کی مسافت پر ہے۔ اور امام بخاری کے نزدیک حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میرے حوض کی مقدار اتنی ہے جیسا کہ ایلہ اور صنعاء کا فاصلہ یمن سے ہے۔ اور امام بخاری ہی کے نزدیک حارثہ بن وہب کی روایت میں ہے کہ جیسے مدینہ اور صنعاء کے درمیان فاصلہ ہے۔
اور امام مسلم نے حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حوض کے دو طرفوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ صنعاء اور ایلہ کے درمیان ہے۔ اور امام مسلم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حوض کی چوڑائی ایسی ہے جیسے ایلہ سے لے کر الجحفہ تک کا فاصلہ ہے۔ اور حضرت حذیفہ (رض) کی حدیث میں ہے جیسے عدن اور ایلہ کے درمیان فاصلہ ہے۔ اور حضرت ابوذر (رض) کی حدیث میں ہے جیسے عمان سے لے کر ایلہ تک کا فاصلہ ہے۔ اور امام ابن حبان نے حضرت ابوبردہ (رض) سے روایت کی ہے : میرے حوض کی دوطرفوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا ایلہ اور صنعاء کے درمیان فاصلہ ہے اور یہ ایک ماہ کی مسافت ہے۔ اور حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ جتنا صنعاء سے لے کر مدینہ تک کا فاصلہ ہے۔ اور حضرت ثوبان (رض) کی روایت ہے جتنا عدن سے لے کر عمان البلقاء تک کا فاصلہ ہے۔ اور امام عبدالرزاق نے حضرت ثوبان (رض) سے روایت کی ہے: جتنا مکہ اور ایلہ کے درمیان فاصلہ ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: جتنا مکہ اور عمان میں فاصلہ ہے۔
اور امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے: جتنا مکہ اور ایلاء کے درمیان بُعد ہے اور ایک روایت میں ہے: جتنا مکہ اور عمان کے درمیان بُعد ہے۔ اور حضرت حذیفہ بن اسید (رض) کی روایت ہے: جتنا فاصلہ صنعاء اور مکہ کے درمیان بعد ہے۔ اور امام ابن ابی شیبہ نے اور امام ابن ماجہ نے حضرت ابوسعید (رض) سے روایت کی ہے: جتنا فاصلہ کعبہ سے لے کر بیت المقدس تک ہے۔ اور امام طبرانی نے حضرت عتبہ بن عمرو سے روایت کی ہے: جتنا بیضاء سے بصریٰ تک کا فاصلہ ہے۔
مذکورالصدر مختلف روایات میں تطبیق
علماء نے اس اختلاف میں تطبیق دی ہے۔ قاضی عیاض مالکی (رح) نے کہا ہے: یہ اندازوں کا اختلاف ہے۔ کیونکہ کسی ایک حدیث میں یہ اختلاف مذکور نہیں ہے کہ اس کو راویوں کے اضطراب میں شمار کیا جائے۔ یہ اختلاف متعدد صحابہ کی احادیثِ مختلفہ میں ہے جو انہوں نے مختلف مقامات پر سنیں۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم حوض کی مقدار کے متعلق ہرمثال بیان فرماتے تھے اور اسکی وسعت کے متعلق بیان فرماتے تھے۔ اور بعض دوردراز کے شہر میں بھی اس طرح کی مقدار کا اختلاف ہوتا ہے اور اس سے مسافتِ متحققہ کا آپ نے ارادہ نہیں فرمایا۔ قاضی عیاض نے کہا: اس طریقہ سے یہ الفاظِ مختلفہ باعتبارِ معنی کے جمع ہوجاتے ہیں۔
علامہ عینی (رح) کا حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) سے مناقشہ؛۔
بعض شارحین (حافظ ابن حجر عسقلانی) نے کہا ہے:۔
اس تطبیق میں بحث و نظر ہے ، کیونکہ مثال کا بیان کرنا اور اندازہ کرنا متقارب چیزوں میں ہوتا ہے اور یہ اختلاف تو متباعد ہے جو کبھی زیادہ ہوکر تیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تین دن تک کا ہوتا ہے۔ (فتح الباری ج ۳ ص ۶۵۵ دارالمعرفۃ بیروت)۔
علامہ عینی حافظ ابن حجر عسقلانی کے رد میں لکھتے ہیں؛۔
میں کہتا ہوں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی نظر میں نظر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خبر دی کہ حوض کی مقدار تین دن کی مسافت ہے تو اس وقت اتنی ہی مقدار تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے حضور پر فضل فرمایا کہ بتدریج حوض کی مقدار میں اضافہ فرمایا اور جتنی حوض کی مقدار میں وسعت ہوتی گئی اتنی نبی صی اللہ علیہ وسلم اسکی مقدار کی خبر دیتے گئے۔ اور جس نے بھی حوض کی مقدار دوسروں سے مختلف بیان کی ہے وہ اس اعتبار سے ہے۔ اور اس وجہ سے اس اختلاف میں جوابِ شافی اور تطبیق ِ کافی حاصل ہوجاتی ہے اور اس کے بعد حافظ ابن حجر عسقلانی کے طویل کلام کی ضرورت نہیں رہتی جو بالکل بے فائدہ ہے۔
بحوالہ ۔ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد ۲۳ ص ۳۱۲ و ۳۱۳
حافظ ابن حجر عسقلانی کا علامہ عینی کے اعتراض کو مسترد کرنا؛۔
حافظ ابن حجر عسقلانی علامہ عینی کے جواب میں لکھتے ہیں؛۔
میں کہتا ہوں: یہ جواب بعینہ وہی ہے جو اس کلام ِ طویل میں مذکور ہے۔ اور علامہ عینی جب اس جواب سے خوش ہوئے توانہوں نے یہ وہم ڈالا کہ اس جواب کے ساتھ انہوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اور اس میں علامہ عینی کی باقی کلام سے استغناٗ ہے اور علامہ عینی پر یہ حق تھا کہ اس کلام کو اسکی طرف منسوب کرتے جس نے اس کو ظاہر کیا ہے اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ اس کلام میں کوئی فائدہ نہیں ہے حالانکہ اسی کلام سے خوش ہو کر انہوں نے اس جواب کو نقل کیا ہے
بحوالہ ؛۔ انتقاض الاعتراض فی الرد علی العینی فی شرح البخاری ج ۲ ص ۴۶۷ مکتبۃ الرشد ریاض
علامہ عینی کے پسندیدہ جواب کا فتح الباری میں ذکر۔۔
میں کہتا ہوں: علامہ قرطبی لکھتے ہیں: بعض قاصرین کا یہ گمان ہے کہ حوض کی مقدار میں اختلاف مذکور اضطراب ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، پھر انہوں نے قاضی عیاض کے کلام کو نقل کرکے اضافہ کیا کہ یہ اختلاف نہیں ہے بلکہ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر کبیر مقدار کی جوانب بہت وسیع ہیں۔ پھر انہوں نے کہا: اور شاید آپ نے حاضرین کے اعتبار سے جہاتِ مختلفہ کا ذکر کیا، پس جو شخص جس جہت کو پ ہچانتا ہے اسی جہت سے اس کو مخاطب کیا اور ہرقوم ایک جہت کی معرفت رکھتی تھی۔ اور علامہ النووی (رح) نے یہ جواب دیا کہ مسافتِ قلیلہ کے ذکر میں وہ چیز نہیں ہے جو مسافتِ کثیرہ کے خلاف ہو اور اس کو رد کرے، پس اکثر مسافت حدیثِ صحیح سے ثابت ہہے، لہٰذا اس میں کوئی معارضہ نہیں ہے۔ اور خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اس طرف اشارہ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کم مسافت کی خبر دی ، پھر آپ کو مسافتِ طویلہ کا علم دیا گیا توآپ نے اسکی خبر دی جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل فرمایا تھا حوض کی مقدار میں تدریجاً وسعت کرکے۔ پس اعتماد اس پر ہوگا جو آپ نے طویل مسافت بیان فرمائی ہے۔ الیٰ اخرہ۔ پس غور کرو کہ یہ عبارت کتنے فوائد پر مشتمل ہے جس کے متعلق اس معترض نے یہ کہا ہے کہ اس کلام میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وللہ الحمد
بحوالہ فتح الباری ج ۷ ص ۶۶۵ دارالمعرفۃ بیروت
نوٹ:اگر ہم موجودہ ذرائع آمدورفت کو دیکھیں تو فاصلہ کا سوال بالکل بے معنی ہوجاتا ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث سے مقصد یہی مراد ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ حوض کی مقدار انتہائی زیادہ اور وسیع ہوگی
حدیث میں مقاماتِ مذکورہ کے ذکر کی تفصیل
الایلہ؛ یہ ایک آباد شہر ہے اور یہ شام کی جانب سے بحر قلزم کی ایک طرف ہے اور آج کل یہاں ویرانہ ہے اور لوگ حج کرنے کے لیئے مصر سے جاتے ہیں اور مصر کے والی اس کو عقبہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جو اہل مصر میں مشہور ہے۔ ایلہ اور مدینہ نبویہ کے درمیان ایک ماہ سے کم کی مسافت ہے
صنعاٗ ؛ نام کے دو شہر ہیں۔ ایک صنعاٗ یمن کا شہر ہے اور یہ یمن کے شہروں میں سب سے بڑا شہر ہے۔ اور دوسرا صنعا دمشق کے دروازہ پر ایک بستی ہے۔ جو باب الفرادیس سے متصل ہے۔ یہ یاقوت کا قول ہے۔ اور جو صنعا پہلا ہے حدیث میں وہی مراد ہے اسلیئے حدیث میں اسکی قید ہے (صنعاٗ من الیمن)۔
الجحفہ:۔ یہ رابغ کے قریب ایک جگہ ہے اور یہ مصر اور اہل شام کا میقات ہے اور آج کل اہل شام ذوالحلیفہ سے احرام باندھتے ہیں جو اہل مدینہ کا میقات ہے۔
عدن: یہ یمن کی آخری جانب ایک شہر ہے جو بحر ہند کے ساحل پر ہے۔
عمان: اسکی بھی ۲ قسمیں ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جو البلقا کے قریب ہے ، اس لیئے اس کو عمان البلقاٗ کہا جاتا ہے۔ اور دوسری قسم جو ہے اس میں عین پر پیش ہے اور میم پر تشدید نہیں ہے یعنی یہ لفظ عؒمان ہے ، یہ بصرہ اور عدن کے درمیان سمندر کے کنارے پر واقع ہے ۔
البلقا؛ یہ فلسطین کا ایک معروف شہر ہے ۔ یہ بعض کا قول ہے۔
علامہ عینی لکھتے ہیں؛۔
البلقا کا تلفظ ممدودہ بھی ہے اور مقصورٰی بھی ہے۔ الرشاطی نے کہا ہے: البلقا دمشق کی عمل داری میں ہے
بصریٰ: اس میں با پر پیش ہے اور صاد پر جزم ہے۔ یاقوت نے کہا : یہ شام کا ایک شہر ہے اور یہ حوران کا قصبہ ہے اور دمشق کی عمل داری میں ہے۔
البیضا: یہ ربذہ کے قریب ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان معروف ہے۔ اور الرشاطی نے کہا ہے: (البیضا) ابیض کی تانیث ہے اور یہ ربذہ کے قریب ہے
حوالہ عمدۃ القاری ج ۲۳ ص ۲۱۳ بیروت
وقول اللہ تعالیٰ : انآ اعطینٰک الکوثر (الکوثر:1)۔
وقال عبداللہ بن زید: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصبروا حتی تلقونی علی الحوض
حوض کا بیان
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم صبر کرو حتیٰ کہ تمہاری مجھ سے حوض پر ملاقات ہو۔
اس حدیثِ بخاری کی شرح میں علامہ بدرالدین عینی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں؛۔
اس باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کا ذکر کیا گیا ہے۔ حوض اس جگہ کو کہتے ہیں جس میں پانی جمع کیا جاتا ہے۔ اور حوض کی جمع (احواض) اور (حیاض) آتی ہے۔ اور حوض کے متعلق اسقدر زیادہ احادیث وارد ہیں کہ وہ معنی متواتر ہیں اور حوض پر ایمان رکھنا واجب ہے اور وہ کوثر ہے جو جنت کے دروازہ پر ہے، مومنین کو اس سے پانی پلایا جائے گا اور وہ حوض اب بھی پیدا کیا ہوا ہے۔
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ۶۶۸ھ نے التذکرہ میں لکھا ہے اور (صاحب القنوت) (محمد بن علی بن عطیہ المشہور بابی طالب مکی متوفی ۳۷۶ھ) وغیرہ نے لکھا ہے کہ حوض صراط کے بعد ہوگا اور دوسروں نے اسکے برعکس لکھا ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوحوض ہیں۔ ایک حوض محشر میں ہے صراط سے پہلے اور دوسرا حوض جنت کے اندر ہے اور ان میں سے ہرحوض کا نام کوثر ہے اور صحیح البخاری کے بعض نسخوں میں اس کا عنوان ہے (کتاب فی الحوض) اور اس سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی لکھی ہوئی ہے۔
باب مذکور کی پہلی تعلیق کی شرح از علامہ عینی (بحوالہ نعم الباری شرح صحیح البخاری جلد ۱۴ از علامہ غلام رسول سعیدی شیخ الحدیث دارالعلوم نعیمیہ ) مذظلہ العالی:۔
اس تعلیق میں الکوثر کا ذکر ہے یہ (فوعل) کا وزن ہے جو کثرت کا مبالغہ ہے اور عرب ہر اس چیز کو جو عدد میں کثیر ہو یا مقدار میں کثیر ہو یا مرتبہ میں عظیم ہو اسکو کوثر کہتے ہیں۔
اور سفیان بن عیینہ سے روایت ہے کہ اس بڑھیا سے کہا گیا جس کا بیٹا سفر سے واپس آیا کہ تمہارا بیٹا کس چیز کو لے کر سفر سے لوٹا؟ اس نے کہا (آب بکوثر) یعنی وہ مالِ کثیر کو لے کر لوٹا
اور کوثر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کا نام ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کوثر کے ذکر میں بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ حوض ہے جس پر میری امت آئے گی اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے حوض کوثر مشہور ہے۔
لیکن امام ترمذی نے حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ہرنبی کے لیئے ایک حوض ہے اور وہ اپنے حوض پر کھڑا ہوگا اور اسکے ہاتھ میں ایک عصا ہوگا اور وہ اپنی امت میں سے جس کو پہچانے گا اس کو بلائے گا: سنو! انبیا علیہم السلام اس پر فخر کریں گے کہ کس کے پیروکار سب سے زیادہ ہیں اور مجھے امید ہے کہ میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے۔
اور امام طبرانی نے ایک اور سند کے ساتھ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے موصولاً روایت کی ہے کہ رسول اللہ علیہ السلام نے اس طرح فرمایا۔ اور اس حدیث کی سند میں ضعف ہے ۔ پس اگر یہ حدیث ثابت ہو تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو مخصوص ہے وہ کوثر ہے جس سے پانی حوض میں آرہا ہوگا۔ سو اس کی نظیر دوسروں کے لیئے نہیں ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ نے سورہ کوثر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حوضِ کوثر عطا فرمایا ہے۔
حوض کے متعلق علمائے اسلام کے مذاہب
الخوارج اور بعض معتزلہ نے حوض کا انکار کیا ہے اور جو لوگ حوض کا انکار کرتے ہیں ان میں سے عبید اللہ بن زیاد بھی ہے جو عراق کے حکام میں سے ایک تھا۔ اور یہ لوگ اس مسئلہ میں گمراہ ہیں اور انہوں نے سلف صالحین کے اجماع کی خلاف ورزی کی اور متاخرین کے مذہب سے الگ ہوگئے
حوض کے ثبوت کے متعلق احادیث کا بیان
حوض کے متعلق ۵۰ سے زیادہ صحابہ کرام سے احادیث منقول ہیں ان میں سے حضرت ابن عمر، حضرت ابوسیعد، حضرت سہل بن سعد، حضرت جندب، حضرت ام سلمہ، حضرت عقبہ بن عامر، حضرت ابن مسعود، حضرت حذیفہ ، حضرت حارثہ بن وہب، حضرت المستورد، حضرت ابوزر، حضرت ثوبان، حضرت انس اور حضرت جابربن سمرہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔ پس ان صحابہ کی احادیث کی امام مسلم نے روایت کی ہے
اور حضرت ابوبکر ، حضرت زید بن ارقم، حضرت ابوامامہ، حضرت عبداللہ بن زید، حضرت سوید بن جبلہ، حضرت عبداللہ الصابحی، حضرت برا ٗ بن عازب، حضرت اسماٗ بنت ابوبکر، حضرت خولہ بنت قیس، حضرت ابن عباس ، حضرت کعب بن عجرہ، حضرت بریدہ، حضرت ابوالدردا، حضرت ابی بن کعب، حضرت اسامہ بن زید، حضرت حذیفہ بن اسید، حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، حضرت لقیط بن عامر، حضرت زید بن ثابت، حضرت حسن بن علی ، حضرت ابوبکرہ ، حضرت خولہ بنت حکیم ۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث امام احمد اور امام ابوعوانہ کے نزدیک ہے اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث امام بیہقی وغیرہ کے نزدیک ہے اور ابوامامہ کی حدیث امام ابن حبان وغیرہ کے نزدیک ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن زید کی حدیث امام بخاری کے نزدیک ہے۔ اور حضرت سوید بن جبلہ کی حدیث امام ابو زرعہ الدمشقی کی مسند میں موجود ہے اور حضرت عبداللہ السابحی کی حدیث امام ابن ماجہ کے نزدیک ہے۔
اور حضرت اسما بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کی حدیث امام بخاری کے نزدیک ہے اور حضرت خولہ بنت قیس کی حدیث امام طبرانی کے نزدیک ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث امام بخاری کے نزدیک ہے اور حضرت کعب بن عجرہ کی حدیث امام ترمذی اور امام نسائی کے نزدیک ہے۔ اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث امام ابن ابی عاصم کے نزدیک ہے۔ اور حضرت ابی بن کعب کی احادیث اور جو ان کے ساتھ مذکور ہیں خولہ بنت حکیم تک، ان سب کی حدیث امام ابن ابی عاصم کے نزدیک ہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ کی حدیث امام ابن حبان کے نزدیک ہے اور حضرت مسعود البدری اور سلمان الفارسی اور سمرہ بن جندب اور عقبہ بن عمر رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حدیث امام طبرانی کے نزدیک ہے۔ اور حضرت خباب بن الارت کی حدیث امام حاکم کے نزدیک ہے۔ اور حضرت النواس بن سمعان کی حدیث امام ابن ابی الدنیا کے نزدیک ہے۔ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کی حدیث امام ابن مندہ کے نزدیک ہے اور حضرت عثمان بن معظون رضی اللہ عنہ کی حدیث امام ابن کثیر کے نزدیک ہے اور حضرت معاذ بن جبل اور حضرت لقیط بن صبرہ کی حدیث ابن القیم کے نزدیک ہے ۔ اور حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث امام احمد اور بزار کے نزدیک موجود ہیں۔
باب مذکور کی دوسری تعلیق کی شرح از علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ
اس تعلیق میں ذکر ہے کہ حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم صبر کرو حتیٰ کہ تمہاری مجھ سے حوض پر ملاقات ہو۔
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم المازنی پورا نام ہے اور اس تعلیق کو امام بخاری نے غزوہ حنین میں ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ۲۳ ص ۲۰۹ ۔ ۲۱۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت)۔
حدیث ٗ بخاری ۶۵۷۶
وحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْمُغِيرَةِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ وَلَيُرْفَعَنَّ مَعِي رِجَالٌ مِنْکُمْ ثُمَّ لَيُخْتَلَجُنَّ دُونِي فَأَقُولُ يَا رَبِّ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّکَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ تَابَعَهُ عَاصِمٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ وَقَالَ حُصَيْنٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ
اور مجھے عمرو بن علی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی از المغیرہ، انہوں نے کہا: میں نے ابووائل سے سنا از حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ، از نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فرمایا: میں تمہارا حوض پر پیشرو ہوں گا، اور ان میں سےکچھ مردوں کو میرے لیئے ظاہر کیا جائے گا، پھر ان کو میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا، پس میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ میرے اصحاب ہیں ۔ پس کہا جائے گا: بے شک آپ (ازخود) نہیں جانتے انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا باتیں نئی نکالیں۔
سلیمان کی متابعت عاصم نے کی ہے از ابی وائل اور حصین نے کہا از ابی وائل از حضرت حذیفہ از نبی صلی اللہ علیہ وسلم
صحیح البخاری ۶۵۷۶،۶۵۶۷،۷۰۴۹ اور صحیح مسلم : ۲۲۹۷ ، و سنن ابن ماجہ ۳۰۵۷ اور مسند احمد ۳۶۳۲)۔
صحیح بخاری کی حدیث ۶۵۷۶ کی شرح امام بدرالدین عینی رحمتہ اللہ علیہ سے؛۔
وہ ان احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں ؛۔
حدیث مذکور کی باب کے عنوان کے ساتھ مطابقت
اس باب میں تمام احادیث حوض کے ذکر میں ہیں سوا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے جس کو عطا بن یسار نے روایت کیا ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا انشا اللہ تعالیٰ ۔ پس اب ان احادیث کے ذکر کے وقت باب کے عنوان سے مطابقت کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے۔
حدیث مذکور کی پہلی سند کے بعض رجال کا تذکرہ
اس حدیث کی سند میں یحیٰ بن حماد کا ذکر ہے یہ الشیبانی البصری ہیں۔ نیز اس حدیث کی سند میں ابوعوانہ کا ذکر ہے، یہ الوضاح ہیں۔ اور اس حدیث کی سند میں حضرت عبداللہ کا ذکر ہے، یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔
حدیث مذکور کی دوسری سند کے بعض رجال کا تذکرہ
اس حدیث کی سند میں عمرو بن علی کا ذکر ہے، یہ ابن بحر ابوحفص الباہلی البصری الصیرفی ہیں اور یہ امام مسلم کے بھی شیخ ہیں۔ اور اس حدیث کی سند میں محمد بن جعفر کا ذکر ہے، یہ از شعبہ از المغیرہ بن مقسم الضبی از ابی وائل روایت کرتے ہیں اور ابووائل شقیق بن سلمہ ہیں اور وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتےہیں۔
حدیث مذکور کے معنی
اس حدیث میں مذکور ہے (انا فرطکم علی الحوض) یعنی ۔ میں تمہارا حوض پر پیش رو ہوں گا۔
فرط۔ اس شخص کو کہتےہیں جو لوگوں سے پہلے حوض پر پہنچ جائے تاکہ لوگوں کو پ انی پلانے کے لیئے حوض کا اور ڈول کا انتظام کرے۔ کہا جاتا ہے (فرطت القوم) جب تم قوم سے پہلے پہنچو تاکہ تم ان کے لیئے پانی کو طلب کرو اور ان کے لیئے پانی کو مہیا کرو۔
اس حدیث میں اس امت کے لیئے بشارت ہے اور ان لوگوں کو مبارک ہو کہ جن کے لیئے رسول اللہ علیہ السلام پیش رو ہوں گے
اس حدیث میں مذکور ہے (لیرفعن) یعنی ان لوگوں کو میرے لیئے ظاہر کیا جائے گا حتیٰ کہ میں ان کو دیکھوں گا۔
اس حدیث میں مذکور ہے (ثم لیختلجن دونی) یعنی ان لوگوں کو حوض سے ہٹا دیا جائے گا اور میرے پاس سے کھینچ لیا جائے گا ۔ علامہ کرمانی نے کہا ہے: یہ لوگ یا تو مرتد ہوں گے یا نافرمان ہوں گے۔
حوالہ؛۔ عمدۃ القاری جلد ۲۳ ص ۲۱۰ و ۲۱۱ بیروت
حدیث نمبر ۶۵۷۷ بخاری شریف
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَامَکُمْ حَوْضٌ کَمَا بَيْنَ جَرْبَائَ وَأَذْرُحَ
ایک اور طباعت کا حوالہ ، صحیح بخاری جلد ۳ حدیث نمبر ۱۵۲۰ مرفوع متفق علیہ متواتر
ترجمہ
امام بخاری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ہمیں مسدد نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا: ہمیں یحییٰ نے حدیث بیان کی از عبیداللہ ، انہوں نے کہا: مجھے نافع نے حدیث بیان کی از حضرت عمر رضی اللہ عنہ از نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ نے فرمایا: تمہارے آگے حوض ہے (اس کا فاصلہ ایسا ہے) جیسے جربا اور اذرح کے درمیان فاصلہ ہے۔
دیگر حوالہ جات
صحیح مسلم شریف حدیث رقم ۲۲۹۹ ، سنن ابو داود ح ر ۴۷۴۵ اور مسند احمد حدیث رقم ۴۷۰۹
اس حدیث کی شرح میں علامہ عینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛۔
اس حدیث کی سند میں مذکور ہے یحییٰ ، وہ القطان ہیں۔ اور اس حدیث کی سند میں عبیداللہ کا ذکر ہے وہ ابن عمر العمری ہیں۔
حدیث مذکور کے معانی
اس حدیث میں مذکور ہے (امامکم) اس کا معنی ہے : تمارے آگے یا تمہارے سامنے
اس حدیث میں ذکر ہے (حوض) اور السرخسی کی روایت میں ہے (حوضی) یعنی میرا حوض
اس حدیث میں ذکر ہے (جربا اور ازرح) علامہ کرمانی کہتے ہیں: یہ دوجگہوں کے نام ہیں
صحیح مسلم میں ذکر ہے کہ عبیداللہ نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ شام کے دوشہر ہیں یا دو بستیاں ہیں اور ان کے درمیان ۳ راتوں کی مسافت ہے۔
علامہ عینی فرماتے ہیں؛۔ الرشاطی نے کہا ہے (الجرباء) مونث کا صیغہ ہے اور یہ الاجرب کی تانیث ہے۔ یہ شام کا ایک شہر ہے اور ابن وضاح نے کہا: (اذرح) فلسطین میں ہے۔ اور الرشاطی نے کہا کہ اسی جگہ پر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کی تھی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو دولاکھ درہم دیئے تھے۔
حوض کے طول اور عرض کے متعلق مختلف روایات
اس جگہ مفصل اور مبسوط کلام کی ضرورت ہے کیونکہ حوض کی مقدار میں بہت اختلاف ہے۔ یہاں اس حدیث میں فرمایا ہے کہ (حوض میں اتنا فاصلہ ہے جتنا جرباء اور اذرح میں فاصلہ ہے) اور یہ بیان نہیں فرمایا کہ ان دونوں مقامات کے درمیان کتنی مسافت ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جیسا کہ عنقریب آئے گا کہ میرا حوض ایک ماہ کی مسافت پر ہے۔ اور امام بخاری کے نزدیک حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میرے حوض کی مقدار اتنی ہے جیسا کہ ایلہ اور صنعاء کا فاصلہ یمن سے ہے۔ اور امام بخاری ہی کے نزدیک حارثہ بن وہب کی روایت میں ہے کہ جیسے مدینہ اور صنعاء کے درمیان فاصلہ ہے۔
اور امام مسلم نے حضرت جابر بن سمرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حوض کے دو طرفوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ صنعاء اور ایلہ کے درمیان ہے۔ اور امام مسلم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حوض کی چوڑائی ایسی ہے جیسے ایلہ سے لے کر الجحفہ تک کا فاصلہ ہے۔ اور حضرت حذیفہ (رض) کی حدیث میں ہے جیسے عدن اور ایلہ کے درمیان فاصلہ ہے۔ اور حضرت ابوذر (رض) کی حدیث میں ہے جیسے عمان سے لے کر ایلہ تک کا فاصلہ ہے۔ اور امام ابن حبان نے حضرت ابوبردہ (رض) سے روایت کی ہے : میرے حوض کی دوطرفوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا ایلہ اور صنعاء کے درمیان فاصلہ ہے اور یہ ایک ماہ کی مسافت ہے۔ اور حضرت جابر (رض) کی روایت ہے کہ جتنا صنعاء سے لے کر مدینہ تک کا فاصلہ ہے۔ اور حضرت ثوبان (رض) کی روایت ہے جتنا عدن سے لے کر عمان البلقاء تک کا فاصلہ ہے۔ اور امام عبدالرزاق نے حضرت ثوبان (رض) سے روایت کی ہے: جتنا مکہ اور ایلہ کے درمیان فاصلہ ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: جتنا مکہ اور عمان میں فاصلہ ہے۔
اور امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے: جتنا مکہ اور ایلاء کے درمیان بُعد ہے اور ایک روایت میں ہے: جتنا مکہ اور عمان کے درمیان بُعد ہے۔ اور حضرت حذیفہ بن اسید (رض) کی روایت ہے: جتنا فاصلہ صنعاء اور مکہ کے درمیان بعد ہے۔ اور امام ابن ابی شیبہ نے اور امام ابن ماجہ نے حضرت ابوسعید (رض) سے روایت کی ہے: جتنا فاصلہ کعبہ سے لے کر بیت المقدس تک ہے۔ اور امام طبرانی نے حضرت عتبہ بن عمرو سے روایت کی ہے: جتنا بیضاء سے بصریٰ تک کا فاصلہ ہے۔
مذکورالصدر مختلف روایات میں تطبیق
علماء نے اس اختلاف میں تطبیق دی ہے۔ قاضی عیاض مالکی (رح) نے کہا ہے: یہ اندازوں کا اختلاف ہے۔ کیونکہ کسی ایک حدیث میں یہ اختلاف مذکور نہیں ہے کہ اس کو راویوں کے اضطراب میں شمار کیا جائے۔ یہ اختلاف متعدد صحابہ کی احادیثِ مختلفہ میں ہے جو انہوں نے مختلف مقامات پر سنیں۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم حوض کی مقدار کے متعلق ہرمثال بیان فرماتے تھے اور اسکی وسعت کے متعلق بیان فرماتے تھے۔ اور بعض دوردراز کے شہر میں بھی اس طرح کی مقدار کا اختلاف ہوتا ہے اور اس سے مسافتِ متحققہ کا آپ نے ارادہ نہیں فرمایا۔ قاضی عیاض نے کہا: اس طریقہ سے یہ الفاظِ مختلفہ باعتبارِ معنی کے جمع ہوجاتے ہیں۔
علامہ عینی (رح) کا حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) سے مناقشہ؛۔
بعض شارحین (حافظ ابن حجر عسقلانی) نے کہا ہے:۔
اس تطبیق میں بحث و نظر ہے ، کیونکہ مثال کا بیان کرنا اور اندازہ کرنا متقارب چیزوں میں ہوتا ہے اور یہ اختلاف تو متباعد ہے جو کبھی زیادہ ہوکر تیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تین دن تک کا ہوتا ہے۔ (فتح الباری ج ۳ ص ۶۵۵ دارالمعرفۃ بیروت)۔
علامہ عینی حافظ ابن حجر عسقلانی کے رد میں لکھتے ہیں؛۔
میں کہتا ہوں کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی نظر میں نظر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خبر دی کہ حوض کی مقدار تین دن کی مسافت ہے تو اس وقت اتنی ہی مقدار تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے حضور پر فضل فرمایا کہ بتدریج حوض کی مقدار میں اضافہ فرمایا اور جتنی حوض کی مقدار میں وسعت ہوتی گئی اتنی نبی صی اللہ علیہ وسلم اسکی مقدار کی خبر دیتے گئے۔ اور جس نے بھی حوض کی مقدار دوسروں سے مختلف بیان کی ہے وہ اس اعتبار سے ہے۔ اور اس وجہ سے اس اختلاف میں جوابِ شافی اور تطبیق ِ کافی حاصل ہوجاتی ہے اور اس کے بعد حافظ ابن حجر عسقلانی کے طویل کلام کی ضرورت نہیں رہتی جو بالکل بے فائدہ ہے۔
بحوالہ ۔ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد ۲۳ ص ۳۱۲ و ۳۱۳
حافظ ابن حجر عسقلانی کا علامہ عینی کے اعتراض کو مسترد کرنا؛۔
حافظ ابن حجر عسقلانی علامہ عینی کے جواب میں لکھتے ہیں؛۔
میں کہتا ہوں: یہ جواب بعینہ وہی ہے جو اس کلام ِ طویل میں مذکور ہے۔ اور علامہ عینی جب اس جواب سے خوش ہوئے توانہوں نے یہ وہم ڈالا کہ اس جواب کے ساتھ انہوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اور اس میں علامہ عینی کی باقی کلام سے استغناٗ ہے اور علامہ عینی پر یہ حق تھا کہ اس کلام کو اسکی طرف منسوب کرتے جس نے اس کو ظاہر کیا ہے اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ اس کلام میں کوئی فائدہ نہیں ہے حالانکہ اسی کلام سے خوش ہو کر انہوں نے اس جواب کو نقل کیا ہے
بحوالہ ؛۔ انتقاض الاعتراض فی الرد علی العینی فی شرح البخاری ج ۲ ص ۴۶۷ مکتبۃ الرشد ریاض
علامہ عینی کے پسندیدہ جواب کا فتح الباری میں ذکر۔۔
میں کہتا ہوں: علامہ قرطبی لکھتے ہیں: بعض قاصرین کا یہ گمان ہے کہ حوض کی مقدار میں اختلاف مذکور اضطراب ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، پھر انہوں نے قاضی عیاض کے کلام کو نقل کرکے اضافہ کیا کہ یہ اختلاف نہیں ہے بلکہ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر کبیر مقدار کی جوانب بہت وسیع ہیں۔ پھر انہوں نے کہا: اور شاید آپ نے حاضرین کے اعتبار سے جہاتِ مختلفہ کا ذکر کیا، پس جو شخص جس جہت کو پ ہچانتا ہے اسی جہت سے اس کو مخاطب کیا اور ہرقوم ایک جہت کی معرفت رکھتی تھی۔ اور علامہ النووی (رح) نے یہ جواب دیا کہ مسافتِ قلیلہ کے ذکر میں وہ چیز نہیں ہے جو مسافتِ کثیرہ کے خلاف ہو اور اس کو رد کرے، پس اکثر مسافت حدیثِ صحیح سے ثابت ہہے، لہٰذا اس میں کوئی معارضہ نہیں ہے۔ اور خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اس طرف اشارہ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کم مسافت کی خبر دی ، پھر آپ کو مسافتِ طویلہ کا علم دیا گیا توآپ نے اسکی خبر دی جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل فرمایا تھا حوض کی مقدار میں تدریجاً وسعت کرکے۔ پس اعتماد اس پر ہوگا جو آپ نے طویل مسافت بیان فرمائی ہے۔ الیٰ اخرہ۔ پس غور کرو کہ یہ عبارت کتنے فوائد پر مشتمل ہے جس کے متعلق اس معترض نے یہ کہا ہے کہ اس کلام میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وللہ الحمد
بحوالہ فتح الباری ج ۷ ص ۶۶۵ دارالمعرفۃ بیروت
نوٹ:اگر ہم موجودہ ذرائع آمدورفت کو دیکھیں تو فاصلہ کا سوال بالکل بے معنی ہوجاتا ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث سے مقصد یہی مراد ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ حوض کی مقدار انتہائی زیادہ اور وسیع ہوگی
حدیث میں مقاماتِ مذکورہ کے ذکر کی تفصیل
الایلہ؛ یہ ایک آباد شہر ہے اور یہ شام کی جانب سے بحر قلزم کی ایک طرف ہے اور آج کل یہاں ویرانہ ہے اور لوگ حج کرنے کے لیئے مصر سے جاتے ہیں اور مصر کے والی اس کو عقبہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جو اہل مصر میں مشہور ہے۔ ایلہ اور مدینہ نبویہ کے درمیان ایک ماہ سے کم کی مسافت ہے
صنعاٗ ؛ نام کے دو شہر ہیں۔ ایک صنعاٗ یمن کا شہر ہے اور یہ یمن کے شہروں میں سب سے بڑا شہر ہے۔ اور دوسرا صنعا دمشق کے دروازہ پر ایک بستی ہے۔ جو باب الفرادیس سے متصل ہے۔ یہ یاقوت کا قول ہے۔ اور جو صنعا پہلا ہے حدیث میں وہی مراد ہے اسلیئے حدیث میں اسکی قید ہے (صنعاٗ من الیمن)۔
الجحفہ:۔ یہ رابغ کے قریب ایک جگہ ہے اور یہ مصر اور اہل شام کا میقات ہے اور آج کل اہل شام ذوالحلیفہ سے احرام باندھتے ہیں جو اہل مدینہ کا میقات ہے۔
عدن: یہ یمن کی آخری جانب ایک شہر ہے جو بحر ہند کے ساحل پر ہے۔
عمان: اسکی بھی ۲ قسمیں ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جو البلقا کے قریب ہے ، اس لیئے اس کو عمان البلقاٗ کہا جاتا ہے۔ اور دوسری قسم جو ہے اس میں عین پر پیش ہے اور میم پر تشدید نہیں ہے یعنی یہ لفظ عؒمان ہے ، یہ بصرہ اور عدن کے درمیان سمندر کے کنارے پر واقع ہے ۔
البلقا؛ یہ فلسطین کا ایک معروف شہر ہے ۔ یہ بعض کا قول ہے۔
علامہ عینی لکھتے ہیں؛۔
البلقا کا تلفظ ممدودہ بھی ہے اور مقصورٰی بھی ہے۔ الرشاطی نے کہا ہے: البلقا دمشق کی عمل داری میں ہے
بصریٰ: اس میں با پر پیش ہے اور صاد پر جزم ہے۔ یاقوت نے کہا : یہ شام کا ایک شہر ہے اور یہ حوران کا قصبہ ہے اور دمشق کی عمل داری میں ہے۔
البیضا: یہ ربذہ کے قریب ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان معروف ہے۔ اور الرشاطی نے کہا ہے: (البیضا) ابیض کی تانیث ہے اور یہ ربذہ کے قریب ہے
حوالہ عمدۃ القاری ج ۲۳ ص ۲۱۳ بیروت