|
Post by Admin on Feb 16, 2016 17:23:47 GMT
|
|
|
Post by Admin on Feb 16, 2016 17:26:15 GMT
Unicode:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسروں پر صلوٰۃ وسلام بھیجنے کا حکم
ترجمہ
امام نووی نے الاذکار میں فرمایا:۔
ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر صلوٰۃ بھیجنے پر سب کا اجماع ہے اسی طرح مستقل طور پر قابلِ ذکر ہستیوں مثلاً دوسرے انبیائے کرام اور فرشتوں پر اسکے جواز و استحباب پر اجماع ہے۔ رہا غیرانبیاء پر مستقل طور پر صلاۃ بھیجنا تو اسکو ہمارے بعض اصحاب نے حرام قرار دیا ہے اور بعض نے اسے خلافِ اولیٰ کہا ہے۔ اور صحیح مسلک جس پر علماء کی اکثریت ہے یہ مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ یہ اہل بدعت کی علامت ہے اور ہم کو ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔ ہمارے اصحاب (اہلسنت) نے فرمایا کہ اس سلسلہ میں اعتماد جس چیز پرہے وہ ہے سلف کا کردار اور زبانِ سلف پر صلوٰۃ انبیاء کے ساتھ مخصوص رہا ہے جیسے ہم کہتےہیں عزوجل اللہ کے ساتھ مخصوص ہیں تو جس طرح محمد عزوجل نہیں کہاجاتا حالانکہ حضور عزیز بھی ہیں اور جلیل بھی۔ اسی طرح ابوبکر یا علی صلے اللہ علیہ وسلم نہیں کہا جاتا اگرچہ اس کا معنی صحیح ہے۔ اس پر بھی علماء کا اتفاق ہے کہ غیرانبیاء کو صلوٰۃ میں انبیاء کے تابع کردینا جائز ہے پس یوں کہا جائے گا:۔
اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ اٰل محمد و اصحابہ وازواجہ وذریتہ واتباعہ
کیونکہ اس بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں اور تشہد میں ہمیں اسکا حکم دیا گیا ہے اور سلف نماز کے باہر بھی ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ رہا سلام تو اسکے بارے میں ہمارے اصحاب میں سے شیخ ابومحمد الجوینی نے فرمایا کہ یہ بھی صلوٰۃ کے حکم میں ہے ۔
پس غائب کے لیئے استعمال نہیں ہوگا اور انبیاء کے بغیر کسی اور پرمستقلاً نہیں ہولا جاسکتا، لہٰذا علی علیہ السلام نہیں کہاجاسکتا اس میں زندہ اور مردہ برابر ہیں، ہاں! حاضر کو سلام کے ساتھ مخاطب کیا جاسکتا ہے پس یوں کہا جاسکتا ہے سلامُُ علیک سلام علیکم السلام علیک یا علیکم اس پر سب کا اجماع ہے
فرمایا کہ صحابہ، تابعین اور بعد والے علماء ، عبادتگزار اور باقی نیک لوگوں کے لیئے رحمتہ اللہ علیہ اور رضی اللہ عنہ کہنا مستحب ہے اور بعض علماء کا رضی اللہ عنہ کو صحابہ اور رحمتہ اللہ علیہ کو دوسروں کے لیئے مخصوص کرنا ٹھیک نہیں۔ کہا کہ حضرت لقمان اور بی بی مریم نبی نہیں، پس جب ان کا ذکر ہو تو راجح یہ ہے کہ رضی اللہ عنہ کہا جائے اور بعض نے کہا کہ یہ کہنا چاہیئے: صلی اللہ علیہ الانبیاء وعلیہ یا علیہا وسلم ، اور اگر علیہ یا علیہا السلام کہا تو ظاہر یہ ہے کہ کوئی حرج نہیں الخ ملخصاً
قاضی العیاض نے شفاء شریف میں فرمایا کہ جس بات کی طرف محقیقین اور خود میرا بھی رجحان ہے وہ امام مالک اور سفیان ثوری رحمہما اللہ کا قول ہے، وہی ابنِ عباس سے مروی اور بہت سے فقہاء ومتکلمین کا مسلکِ مختار ہے کہ انبیائے کرام کا جب ذکر ہو تو اسوقت غیرانبیاء پر صلاۃ نہ بھیجے کیونکہ یہ چیز انبیائے کرام کے ساتھ مختص ہے تاکہ ان کی عظمت و توقیر معلوم ہو، جیسے اللہ تعالیٰ کے ذکر کے وقت تنزیہہ ، تقدیس اور تعظیم اسکا خاصہ بن جاتی ہے اور کوئی دوسرا اسکا شریک نہیں ہوتا اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام کو صلوۃ وسلام کے ساتھ مختص کرنا واجب ہے اور کسی اور کو اس میں شریک نہ کرے جیسے اللہ کا حکم ہے : صلی علیہ وسلمو ا تسلیماً اور آپ کے سوا دیگر آئمہ وغیرہ کا ذکر غفران ورضا کے ساتھ کیا جائے گا جیسے کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ۔ اور فرمایا: الذین اتبعوہ باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ ۔الخ
نیز یہ ایک ایسی چیز ہے جو صدر اول میں نہ تھی جیسا کہ ابو عمران نے کہا، اسکو محض رافضیوں اور شیعہ نے بعض آئمہ کے لیئے ایجاد کیا، پس ان کے ذکر کے وقت ان کو انبیاء کے ساتھ درود میں شریک کرلیا اور اس سلسلہ میں ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کردیا، نیز اہل بدعت سے تشبہ منع ہے لہٰذا جس چیز کو وہ لازمی سمجھیں اس میں ان کی مخالفت واجب ہے اور نبی کے ساتھ آل و ازواج کے لیئے صلاۃ کا ذکر بالبتع ہوگا نسبت آپ ہی کی طرف جائے گی، خاص ان کے لیئے جائز نہیں۔
فرمایا کہ حضور علیہ السلام کا کسی پر صلاۃ بھیجنا دراصل اس کے لیئے دعا فرمانا اور توجہ فرمانا ہے اس میں تعظیم وتوقیر مقصود نہیں ، فرمان باری تعالیٰ ہے:۔
لاتجعلوا دعآء الرسولِ بینکم کدعاءِ بعضکم بعضاً رسول کو آپس میں اس طرح نہ پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو
سعادۃ الدارین: باب اول، صفحات ۵۳،۵۴،۵۵ تالیف الشیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی (رحمۃ اللہ علیہ) طباعت، بدار الفکر بیروت
|
|