Post by zarbehaq on May 23, 2016 9:15:30 GMT
Name: Akhta Ibne Taymmiya by Dr Syed Mahmood Sabheeh (Prof_ Jamia al Azhar (al-Azhar University) Cairo Egypt), Takhrij & Transcript by Allama Nazim ali Rizavi Misbahi . Jamia Ashrafiya Mubarakpur, AzamGarh UP . India.
Urdu Translation of a Chapter Related to Tawasul and Refutation of Dr Mahmood (hifzullah) to Taymmiya-o-logy. [Pr - Imran .A.Khan- Scans. ZarbeHaq]
First:
Deviant Belief of Ibne Taymmiya in His Minhajus Sunnah:
Refutation to Taymmiya-ology by Dr Sabeeh Syed.
Its Urdu Translation
Urdu Translation of a Chapter Related to Tawasul and Refutation of Dr Mahmood (hifzullah) to Taymmiya-o-logy. [Pr - Imran .A.Khan- Scans. ZarbeHaq]
First:
Deviant Belief of Ibne Taymmiya in His Minhajus Sunnah:
Refutation to Taymmiya-ology by Dr Sabeeh Syed.
Its Urdu Translation
ترجمہ؛۔
ابن تیمیہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کا مطلقاً منکر ہے۔
ابن تیمیہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں بھی آپ سے سوال اور استغاثہ کا انکار کرتا ہے، جب کہ اس سے پہلے کسی نے ایسا نہ کہا۔
ابن تیمیہ کی عادت ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عام انسان کی شکل میں پیش کرتا ہے جیسا کہ وہ آپ کی خصوصیت و فضیلت اور قدرت و قوت کا انکار کرتا ہے حالانکہ آپ کے رب عزوجل نے آپ کو بےشمار اختیارات و تصرفات اور گوناگوں کمالات سے سرفراز فرمایا ہے۔
اس نےاپنی کتاب (منہاج السنۃ 4، ص 243/44) میں لکھا ہے؛۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس سے فرمایا : جب تم سوال کرو تو صرف اللہ سے سوال کرو، اور جب مدد مانگو تو اللہ ہی سے مانگو
۔(1) یہ نہ فرمایا مجھ سے مانگو (2) اور نہ یہ کہا مجھ سے مدد مانگو، (3) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
فاذا فرغت فانصب والی ربک فارغب (الشرح 94؛ 7و 8)۔
ترجمہ؛ تو جب نماز سے فارغ ہو،دعا میں محنت کرو اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کرو۔
اقول (میں کہتا ہوں ۔ یعنی ڈاکٹر محمود السید صبیح، پروفیسر الازھر یونیورسٹی قاھرہ مصر)۔ مسلمانوں کی حجت و دلیل نبی پاک کی سنت شریفہ اور آپ کا ارشاد و عمل ہے۔ ابن تیمیہ کی بکواس نہیں، امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور ان کے علاوہ دوسرے محدثین نے ربیعہ بن کعب اسلمی سے تخریج کیا آپ نے فرمایا: میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزارتا تھا، میں حضور کے وضو اور قضائے حاجت کے لیئے پانی لایا تو آپ نے فرمایا: (سل) (مانگو) اور احمد اور ابوداؤد اور نسائی اور طبرانی میں ہے فرمایا: (سلنی) مجھ سے مانگو۔ پھر میں نے عرض کیا: میں جنت میں آپ کی صحبت طلب کرتا ہوں آپ نے فرمایا: اور کچھ؟ میں نے عرض کی بس یہی، آپ نے فرمایا: تو تم اپنے اوپر کثرت سجود سے میری مدد کرو
حوالہ جات و دیگر تفصیل اس حدیث سے متعلق آخر میں ۔
اور طبرانی نے معصب اسلمی سے تخریج کی انہوں نے فرمایا: ہم میں سے ایک لڑکا نبی پاک علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کی حضور آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں فرمایا: کون سا سوال ہے؟ عرض کیا: میری خواہش ہے کہ قیامت کے دن آپ میری شفاعت فرمائیں، فرمایا: تمہیں کس نے سکھایا۔ یا تمہیں کس نے بتایا؟ عرض کیا میرے نفس کے سوا مجھے کسی نے اسکا حکم نہ دیا۔ فرمایا: میں تمہیں قیامت کے دن اپنی شفاعت کے سایہ میں لوں گا۔ (اس کی بھی تخریج آخر میں)۔
اقول (میں کہتا ہوں ؛ یعنی دکتور لکھتے ہیں)۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (سلنی) مجھ سے مانگو، یا (سل) مانگ۔ نبی پاک کا یہ ارشاد اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ابن تیمیہ کا قول ساقط الاعتبار ہے ، لائق اعتماد اور قابلِ التفات نہیں، صحابی رسول کا حضورِ اقدس سے جنت میں رفاقت کا سوال اور آپ کا اس پر سکوت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ شرک و بدعت نہیں۔
نبی پاک نے صحابی ء رسول سے یہ نہ ارشاد فرمایا کہ تم مجھ سے ایسا سوال کررہے ہو جو صرف اللہ کی قدرت میں ہے اور آپ نے یہ نہ فرمایا تم مجھ سے نہ مانگو بس اللہ عزوجل ہی سے سوال کرو، آپ نے یہ بھی نہ فرمایا کہ تم نے شرک کرڈالا اور یہ نہ کہا کہ یہ تمہاری توحید کے منافی ہے۔
حوالہ جات و تفصیلات؛۔
امام مسلم نے اپنی صحیح (۱،۳۵۳) اور ابوداود ۲، ۳۵ اور نسائی ۱، ۲۴۲ اور ابن ابوعاصم نے آحاد و مثانی (۴، ۳۵۲) میں تخریج کی ۔
اور امام احمد (۳، ۵۰۰) زیاد بن ابوزیاد مولیٰ بنی مخزوم سے راوی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خادم (مرد یا عورت) نے روایت کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خادم سے فرماتے: (کیا تمہاری کوئی حاجت ہے؟) یہاں تک کہ ایک دن خادم نے عرض کی حضور میری ایک حاجت ہے فرمایا: (کونسی حاجت ہے؟) عرض کیا یہ کہ قیامت کے دن آپ میری شفاعت فرمائیں ، تو فرمایا: (کس نے تمہیں یہ بتادیا؟) عرض کی میرے رب عزوجل نے، فرمایا: تم سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔ ھیثمی نے مجمع الزوائد (۲، ۲۴۹) میں کہا: امام احمد نے روایت کی اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔
۲۔ طبرانی نے کبیر (۲۰، ۳۶۵) میں روایت کی، ھیثمی نے مجمع الزوائد (۱۰، ۳۶۹) میں کہا: اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں اور زین عراقی نے اس کو صحیح کہا ہے اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں بحوالہ فیض القدیر، ۵، ۱۸۰۔
۳۔ حضر امام ملا علی قاری رحمۃ الباری مرقاۃ شریف میں فرماتے ہیں؛۔
یوخذ من اطلاقہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم الامر بالسوال ان اللہ تعالیٰ مکنہ من اِعطاٗ کل مااَراد من خزائن الحق۔
یعنی ؛ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مانگنے کا مطلق حکم دیا اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قدرت بخشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے جو کچھ چاہیں عطا فرمائیں۔
پھر لکھا: (وذکر ابن سبع فی خصائصہ وغیرہ ان اللہ تعالیٰ اقطعہ ارض الجنۃ یعطی منہا ما شا لمن یشاٗ)۔
امام سبع وغیرہ علما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کریمہ میں ذکر کیا ہے کہ اللہ عزوجل نے نبی کریم علیہ السلام کو جنت کی جاگیرداری کردی ہے کہ اس میں سے جو چاہیں جسے چاہیں بخش دیں۔
امام اجل سید ابن حجر مکی قدس سرہ الملکی جوہر منظم میں فرماتے ہیں؛۔
انہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم خلیفۃ اللہ الذی جعل خزائن کرمہ، وموائد نعمہ طوع یدیہ وتحت ارادتہ یعطی منھا من یشا ویمنع من یشاٗ)۔
ترجمہ؛ بے شک نبی علیہ السلام ! اللہ عزوجل کے خلیفہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم کے خزانے ، اور اپنی نعمتوں کے خوان حضور اقدس علیہ السلام کے دستِ قدرت کے فرمانبردار، اور حضور کے زیر حکم وارادہ و اختیار کردیئے ہیں کہ جسے چاہیں عطا فرماتے ہیں، اور جسے چاہتے ہیں نہیں دیتے ہیں۔
ان سب سے ظاہر ہے کہ حدیثِ پاک میں نبی کریم علیہ السلام اللہ عزوجل کے خلیفہ اعظم اور نائب مطلق ہیں اسلیئے آپ نے مطلق ارشاد فرمایا: کہ (مانگ) سوال کا اطلاق بتا رہا ہے کہ سائل حضور سے جو چاہے مانگے اسلیئے کہ آپ اللہ عزوجل کے خوان کرم کے مالک ہیں اللہ عزوجل نے آپ کو اپنے خزانوں کا مالک بنادیا ہے، اگر غیراللہ سے استمداد شرک و بدعت ہوتی تو پھر نبی کریم علیہ السلام یہ ہرگز ارشاد نہ فرماتے اور صحابی ٗ رسول آپ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش نہ فرماتے ، آپ کا یہ تصرف و اختیار صرف آپ کی ظاہری حیات ِ طیبہ ہی کے ساتھ خاص نہیں کہ حدیث میں وارد ہے:
انبیائے کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ مسلم شریف میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
اتیت موسی لیلۃ اسری بی عند الکثیب الاحمر وھو قائم یصلی فی قبرہ (مسلم کتاب الفضائل باب فضائلِ موسیٰ)۔
ترجمہ؛ میں شب اسریٰ میں موسیٰ کے پاس اس حال میں آیا کہ وہ ریت کے سرخ ٹیلہ کے پاس اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔
مسلم کے علاوہ بخاری نسائی و دیگر کتب احادیث میں یہ حدیث وارد ہے امام بیہقی نے ان حدیثوں سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا؛۔
وفی کل ذالک دلالۃ علی حیاتھم
یہ ساری حدیثیں اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ انبیائے کرام زندہ ہیں۔
خود ابن قیم نے لکھا ہے؛۔
وقد صح انہ صلی اللہ علیہ وسلم رائ موسی علیہ السلام قائما یصلی فی قبرہ لیلۃ الاسرا (کتاب الروح ص ۲۴)۔
ترجمہ: صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے شب اسرا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھتے دیکھا۔
الغرض ہزارہا احادیث موجود ہیں جو کہ حیات الانبیاٗ کے سیکشن میں پڑھی جاسکتی ہیں۔
اختا ابن تیمیہ کا ترجمہ دوبارہ:۔
بنی اسرائیل کی پیرزن کا واقعہ بھی اس کی روشن دلیل ہے۔
ابوموسیٰ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کے پاس آئے تو اس نے آپ کی تعظیم کی، پھر آپ نے ان سے فرمایا میرے پاس آنا تو وہ آپ کی خدمت میں آئے، آپ نے ان سے فرمایا اپنی حاجت کا سوال کرو انہوں نے عرض کیا: سواری کے لیئے ایک اونٹنی چاہیئے اور کچھ بکریاں جن کا دودھ میرے گھرکے لوگ حاصل کریں تو آپ نے فرمایا : کیا تم اس سے عاجز ہو کہ بنی اسرائیل کے پیرزن کی طرح ہو؟ انہوں نے عرض کی یارسول اللہ! بنی اسرائیل کے پیرزن کا کیا واقعہ ہے؟ ۔ فرمایا: موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر چلے تو وہ لوگ راستہ بھٹک گئے تو آپ نے کہا یہ کیا ہے؟ تو ان کے علما نے کہا یوسف علیہ السلام نے اپنے وصال کے وقت ہم لوگوں سے ایک پختہ پیمان (عہد) لیا تھا کہ ہم لوگ مصر سے باہر نہ نکلیں جب تک آپ وہاں سے منتقل ہونے کا حکم نہ دیں،آپ نے فرمایا : آپ کی قبر کا علم کسے ہے؟ کہا: بنی اسرائیل کی ایک پیرزن کو ، تو آپ نے انہیں بلا بھیجا، وہ پیرزن آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ نے فرمایا: مجھے یوسف کی قبر بتائیں، انہوں نے عرض کیا میں اسوقت تک نہ بتاوں گی جب تک کہ آپ میری درخواست قبول نہ فرمائیں، فرمایا تمہاری درخواست و حاجت کیا ہے؟ عرض کی میں آپ کے ساتھ جنت میں رہوں، آپ نے اسے قبول فرمانا نہ چاہا تو اللہ عزوجل نے آپ کی طرف وحی فرمائی کہ اس پیرزن کی درخواست قبول کرلیں۔ (۱) تخریج آخر میں۔
یہ اس امر کی روشن دلیل ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سے یہ فرمائیں (مجھ سے مانگو) تو اس سے آپ کی مراد یہ ہوتی ہے کہ آپ کی امت آپ سے جنت میں رفاقت و معیت کا سوال کرے، یہ ان لوگوں کا کھلا رد ہوا ہے جن کا یہ خیال ہے کہ عام انسان جس چیز کی طاقت و وسعت نہیں رکھتا اس میں نبی پاک علیہ السلام سے بھی مدد مانگنا یا استغاثہ کرنا یا آپ سے ایسی چیز طلب کرنا کفر و شرک ہے۔
ذرا غور فرمائیں یہ جلیل القدر صحابی رسول پاک علیہ السلام سے جنت میں صحبت و رفاقت کا سوال کررہے ہیں اور نبی پاک نے ان سے یہ نہ فرمایا کہ یہ صرف اللہ عزوجل ہی کی قدرت وبس میں ہے اور ان سے یہ بھی نہ فرمایا کہ تمہیں کیا معلوم کہ تم جنت میں جاو گے۔
اس مقام کو سمجھنے اور اس میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کو ان لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے سخت اجتناب کرنا چاہیئے جو لوگ کفر و شرک کی رٹ لگا کر مسلمانوں کو رسولِ پاک علیہ السلام کی بارگاہ اور آپ کے توسل و استغاثہ (مدد) سے ڈراتے ہیں۔
اس مقام پر کوئی یہ شبہ کرسکتا ہے کہ رسول اللہ نے تو یہ نہ کہا کہ: مجھ سے مدد مانگو اور ابن تیمیہ کا مقصود یہ ہے کہ دعا اور طلب کرنا ممنوع ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ صحابی نے نبی پاک علیہ السلام سے جنت طلب کی اور یہ ایک واضح معاملہ ہے جس میں کسی التباس کی کوئی گنجائش نہیں۔
کیا منکرین زیادہ جانتے ہیں یا نبی کریم علیہ السلام کا علم ارفع و اعلیٰ ہے؟ اس مقام پر ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے ابن عباس سے یہ فرمایا: (جب تم مانگو تو اللہ سے مانگو)۔
ہم اس حدیث کی صحت کے متعلق گفتگو نہ کریں گے اسلیئے کہ بعض علما نے اس حدیث کے متعلق اضطراب کا دعویٰ فرما کر کلام کیا، اگر نبی کریم علیہ السلام کی قبر شریف کی زیارت کے باب میں اضطراب کا دعویٰ ہوتا تو یہ لوگ ضرور اس کو ضعیف قرار دیتے ۔
بہرحال اس حدیث ابن عباس کا معنی واضح ہے وہ اسطرح کہ یہ حدیث (غلام کی حدیث) سے مشہور ہے نبی پاک کا مقصود یہ تھا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بچپن میں اس بات کی تعلیم فرمائیں کہ اللہ عزوجل سے اپنا تعلق قوی رکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ سبب سے رشتہ قائم کرکے مسبب کو بھول جائیں اور اسے بالکلیہ چھوڑ دیں ، جب آپ پروان چڑھے اور بڑے ہوئے تو آپ کو یہ بھی تعلیم فرمایا کہ کس طرح اسباب سے وابستگی رکھیں اور ان سے تعلق ورشتہ رکھیں اسلیئے کہ اسباب تو اللہ تعالیٰ ہی کی بارگاہ سے ہیں۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ بکری کے شانہ کا گوشت سرکار کو محبوب تھا اور لہسن اور مسور اور پیاز آپ کو ناپسند تھا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ۔ جو بندوں کا شکرگزار نہیں ہو اللہ کا شکرگزار نہیں۔ آپ کے اس ارشاد میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسباب سے وابستگی رکھیں اور ان سے رشتہ و تعلق قائم رکھیں۔
اختتام کلامِ دکتور
تخریج ٗ حدیث بنی اسرائیل والی؛۔
ابن حبان ج۲، ۵۰۰ و ۵۰۱
حاکم ج ۲ ، ۴۳۹ و ج ۲ ،۶۲۴
ابویعلیٰ جلد ۱۳ ص ۲۳۶
خطیب بغدادی تاریخ بغداد جلد ۹ ، ۳۱۲ بروایت ابوموسیٰ اشعری
طبرانی الاوسط جلد ۷، ۳۷۴، ۳۷۵
امام ھیثمی مجمع الزوائد جلد ۱۰، ۱۷۰، و ۱۷۱ امام ھیثمی نے یہ لکھا ؛ ابویعلی کے رجاج صحیح رجال ہیں اور یہ حدیث ِ صحیح ہے، ابن حبان اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح کی سند دی ہے۔