Post by Admin on Jul 1, 2016 1:24:46 GMT
Unicode for Text Copying
تاریخ ِ کتاب۔ تقویۃ الایمان از شاہ اسماعیل دہلوی ۔ اور ۔ برصغیر میں فتنہ
اگر خوارج کی گستاخیوں اور گمراہیوں کو تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو آپ اسے دور تک رشتہ بپا پائیں گے۔ یہ ہوائیں ذوالخویصرہ تمیمی سے شروع ہوکر صرف وادی ء نجد کی بہار نہیں۔ بلکہ ایسے منہ پھٹ لوگوں کے خطرات سے اسلامی تاریخ کے ابتدائی باب بھی آگاہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی نظریات کا آغاز سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی ہوچکا تھا اور یہ دریدہ دہن حضور کے سامنے بھی اپنی گستاخانہ روش کو چھپا نہیں سکتے تھے۔ ہم بنیادی موضوع پر آنے سے پہلے چند لمحات کےلیئے آپ کو وادیء بطحا میں لے جانا چاہتے ہیں، جہاں قرآن نازل ہورہا تھا اور اللہ کے حبیب انسانیت کےلیئے رحمت اور انصاف کی مجسم دلیل بنے ہوئے تھے اور یہ لوگ بھی اپنی تاریخ کا بابِ اول لکھ رہے تھے۔
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے، ایک شخص حرقوص بن زہیر جو ذوالخویصرہ مشہور تھا۔ بولا کہ یارسول اللہ ! عدل کیجیئے ؛ حضور نے فرمایا: تجھے خرابی ہو، اگر میں عدل نہ کروں گا تو اور کون کرے گا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا،اچازت ہو تو اس منافق کی گردن اڑا دوں؟۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، اس کے اور بھی ہمراہی ہیں، کہ تم ان کی نمازوں کے سامنے اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے سامنے اپنے روزوں کو حقیر دیکھو گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے مگر ان کے گلوں سے نہ اترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے۔
یہ پہلے لوگ ہیں جو نماز روزہ مکمل طور پر بجالا کربھی شانِ رسالت میں گستاخیاں کیا کرتے تھے جب سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفرِ دنیا کو ختم فرمایا تو یہ لوگ حضرت صدیقِ اکبر اور حضرت عمرِ فاروق رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے زمانہ اقدس میں ذرا دب گئے، مگر حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے وقت ان کا زور پھر ہوگیا اور انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ذاتِ والا شان میں گستاخیاں شروع کردیں اور کہا کہ آپ بدعتی ہیں (نعوذ باللہ)
چنانچہ ڈاکٹر حمید الدین ایم اے نے اپنی کتاب تاریخِ اسلام کے باب خلافتِ عثمانیہ میں لکھا ہے کہ:
جو سات الزامات خارجیوں، سبائیوں نے آپ پر لگائے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ بدعتی ہوگئے ہیں۔ پھر انہوں نے حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم پر فتویٰ صادر کردیا کہ یہ کافر، مشرک اور بدعتی ہیں اور آپ سے قتال و جدال کو جائزقرار دے دیا اور آپ سے بغاوت کرکے مقابلے میں آگئے، حتیٰ کہ عبدالرحمن بن ملجم کے ہاتھوں حضرت علی شہید ہوگئے جسکی مزید تفصیل آپ الکامل المبرد باب الخوارج میں دیکھ سکتےہیں۔
آخریہ فتنہ رفتہ رفتہ زور پکڑتا گیا، علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب درالکاملہ ص ۴۵ میں ہے کہ ۶۹۸ ھ میں ابن تیمیہ حرانی نے انبیائے کرام کے حق میں زبان درازی کی، اور ایک نیا مسئلہ نکالا کہ انبیا کسی نفع ونقصان کے مالک نہیں ہوتے۔ لہٰذا ان سے مدد و شفاعت کی امید فضول ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا کہ شفاعت کا عقیدہ شرک ہے اور روضہ اطہر کی حاضری دینے والا مشرک ہے ۔اسکے علاوہ اس نے تجسیم کا شرک بھی کیا کہ اللہ کے لیئے جسم کا قائل ہوگیا اور سب سے پہلے یہ مسائل ابن تیمیہ الحرانی نے نکال کر امتِ مسلمہ میں تفرقہ بازی کی ابتدا کی چنانچہ علامہ تقی الدین السبکی رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے مناظرہ کیا اور دلائل قاہرہ سے شکست دی۔ مگر وہ باوجود سخت شکست اور ناکامی کے توبہ کی طرف مائل نہ ہوا۔ تو جلال الدین قزوینی نے اسکو قید کردیا اور اعلان کردیا کہ جو ایسا عقیدہ رکھے کہ حضور علیہ السلام کے روضہ انور پر جانا شرک ہے اور اسکی زیارت سے روکے (حل دمہ ومالہ) اس کو قتل کردیا جائے اور اسکا مال لے لیا جائے۔ جلال الدین بادشاہ کے انتقال کے بعد ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم جوزی نے اسکے عقیدے کی اشاعت پر کمر باندھی ۔ آخر یہ فتنہ رفتہ رفتہ نجد میں آکر تمام عرب ممالک پر چھا گیا۔
اسکے نجد میں ظہور کی خبر سرور ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی فرمادی تھی۔ چنانچہ مشکوٰۃ شریف مطبوعہ مجتبائی دہلی ص ۵۸۶ میں بخاری سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ھناک الزلازل والفتن وبھا یطلع قرن الشیطٰن
وہاں سے زلزلے اور فتنے اٹھیں گے اور شیطان کا سینگ ابھرے گا۔
چنانچہ سیدِ عالم علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ۱۱۱۱ھ میں بمقام عینیہ ملک نجد میں محمد بن عبدالوھاب پیدا ہوا اور ابتدائی تعلیم شیخ محمد سلیمان کردی شافعی اور شیخ محمد حیات سندھی سے حاصل کی۔ اس کے تعلیمی دور میں یہ دونوں استاد فرمایا کرتے تھے کہ یہ لڑکا ملحد اور بے دین ہوگا۔ یہی ہوا اور اس نے بڑے ہوکر ۱۱۴۳ھ میں ابن تیمیہ اور ابن قیم جوزی کی کتابیں شائع کیں اور خود (کتاب التوحید) اور (کشف الشبہات) وغیرہ تصنیف کرکے اس دھرم کی مستقل بنیاد ڈال دی اور رضاکار بھرتی کرکے آس پاس کے علاقوں میں ڈاکہ زنی شروع کردی، آہستہ آہستہ ایک لشکر تیار کرکے حرمین طیبین پر قابض ہوگیا اور اپنی حکومت قائم کرلی اور پھر وہاں کے عوام پر بے پناہ ظلم کئے گئے علمائے ربانیین اور اولیائے عظام کو برسر بازار شہید کیا گیا۔ خاتونِ جنت فاطمۃ الزہرا و ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ و اصحابِ رسول علیہ السلام کے مزارات طیبات کو توپوں سے اڑا کر زمین کے برابر کردیا گیا۔ جیسا کہ آج کے دور میں یہی صیہونی طاقتوں کے بل پر کررہے ہیں کیا اسکے بعد بھی آپ کے دل میں خوارج کے بارے میں کچھ شک رہ جاتا ہے؟۔
علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے؛۔
کما وقع فی زماننا فی اتباع عبدالوھاب الذین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانوا ینتحلون الی الخابلۃ لکن ھم اعتقدوا انھم ھم المسلمون وان من خالف اعتقادھم مشرکون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الیٰ ،، مائتین الف۔۔۔۔
ترجمہ؛۔ ہمارے زمانہ میں عبدالوہاب کے ماننے والوں کا وقوع ہوا، کہ یہ لوگ نجد سے نکلے اور مکہ و مدینہ شریف پر غلبہ کرلیا اور اپنے آپ کو حنبلی مذہب کی طرف منسوب کرتے تھے لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ہمارے سوا تمام مسلمان مشرک ہیں اسلیئے انہوں نے اہلسنت کا قتل جائز رکھا اور بہت سے علمائے کرام کو شہید کردیا، یہاں تک کہ وہابیوں کی شوکت کو اللہ تعالیٰ نے توڑ دیا اور ان کے شہروں کو برباد کردیا اور اسلامی لشکروں کو ان پر فتح دی اور یہ واقعہ ۱۲۳۳ھ کا ہے۔
محمد علی پاشا والی مصر نے ترکوں سے مشورہ کرکے ان لوگوں پر چڑھائی کرکے ایک ایک دشمنِ رسول کو چن چن کر خٹم کیا اور تمام مسمار شدہ مزارات کو دوبارہ بنوایا اور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر پر نہایت قیمتی رشمی چادریں چڑھائیں، اگرچہ سب گستاخ ختم ہوگئے مگر چند ایک حنفی بن کر مسلمانوں میں گھسے رہے اور خفیہ خفیہ اپنے عقائد باطلہ کی تبلیغ کرتے رہے اور ابن عبدالوہاب کی (کتاب التوحید) اور (کشف الشبہات) کا پرچار کرتے رہے۔
یہی وہ کتابیں ہیں جن میں تمام مسلمانوں پر شرک و کفر وبدعت کے فتوے لگائے گئے اور تمام مسلمانوں کے قتل کو حلال کردیا۔
ملاحظہ ہو کشف الشبہات مصنفہ ابن عبدالوہاب
وعوفت ان اقرارھم بتوحید الربوبیۃ لم یدخلھم فی الاسلام وان قصدھم الملائکۃ والاوالیاء یریدون شفاعتھم والتقرب الی اللہ بذالک ھوالذی احل دمائھم واھوالھم
اس کے تمام فتاویٰ کا دارومدار صرف ان مسائل پر تھا کہ رسول اللہ علیہ السلام کے روضہ پاک پرسفر کرکےجانا شرک ہے ، حضور علیہ السلام مجبورمحض ہیں وہ کوئی نفع نہیں دے سکتے ۔ جو آپ کو ساری دنیا کا علم غیب جاننے والا کہے وہ مشرک ہے، کسی امام کی تقلید کرنا شرک ہے، وغیرہ وغیرہ
اسوقت کے حق پرست علماء نے (کتاب التوحید) کے رد میں کئی رسالے لکھے، اور ابن عبدالوہاب کا پورا پورا مقابلہ کیا، حتیٰ کہ اس کے حقیقی بھائی سلیمان بن عبدالوہاب نے بھی اپنے بھائی کی بھرپور تردید کی اور اسکے رد میں ایک معرکۃ الآراء کتاب (الصواعق الٰہیہ فی الرد علی الوہابیہ) کتاب لکھی اور اس کتاب میں وہابیت کو بے نقاب کرکے مذہب اہلسنت کی زبردست حمایت کی گئی ہے، علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ اور امام احمد صاوی المالکی رحمتہ اللہ علیہ و دیگر بڑے بڑے جلیل القدر علماء نے اس فتنہ کی پرزور تردید کی اور ابن عبدالوہاب کو خارجی اور باغی قرار دیا۔ چنانچہ ملاحظہ ہو شامی جلد ۳ ص ۳۳۹ و تفسیر صاوی ج ۳ ص ۲۵۵ مطبوعہ مصر اور آج تک تمام حنفی مالکی شافعی حنبلی علما اس کو باغی ہی لکھتے آئے ہیں ، ہاں برصغیر کے ایک دیوبندی مولوی ہیں جن کا نام نامی اسم گرامی مولوی رشید احمد گنگوہی ہے۔ انہوں نے اپنے فتاویٰ رشیدیہ جلد ۱ ص ۱۱۱ میں لکھا ہے کہ؛۔
محمد ابن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں، ان کے عقائد عمدہ تھے، مذہب ان کا حنبلی تھا۔
ان کے عقائد عمدہ تھے۔۔۔ معلوم ہوا کہ اس کے عقائد سے دیوبندیوں کو پورا اتفاق ہے مگر جب علمائے حرمین نے گرفت کی اور سوال کیا کہ آپ ابن عبدالوہاب نجدی کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ اور وہ کیسا آدمی تھا ؟ تو حیلہ سازی سے کام لے کر علمائے عرب کو جھوٹ لکھ دیا کہ اسے خارجی و باغی سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کا یہی حال ہے جو صاحبِ درمختار نے فرمایا ہے، کہ وہ باغی وخارجی ہے۔ ملاحظہ ہو دیوبندیوں کی مشہور کتاب (المہند ص ۹۱ ج ۲) یہ تمام کتاب اسی طرح جھوٹ اور فریب سے بھری پڑی ہے۔
یہ نظریات اور عقائد مکمل وہابیوں والے ہیں، مگر علمائے حرمین کو کچھ اور ہی لکھ دیئے اس کو کہتے ہیں تقیہ ، جو دیوبندیوں کے ہاں کثرت سے موجود ہے۔ اگر ان مولویوں کی تقیہ بازیوں کو تحریر میں لایا جائے تو ایک بہت بڑی کتاب بن سکتی ہے۔
بہرحال تقیہ بازی ان کے ہاں بہت زیادہ ہے آپ ذرا یہاں ہی غور کریں کہ مولوی فردوس علی نے چراغ سنت ص ۱۳۳ میں لکھا ہے کہ (اس قسم کے وہابی لوگ ہمارے نزدیک خارجیوں کی قسم سے ہیں)۔ محمد ابن عبدالوہاب نجدی کے پیرونجد سے نکلے اور حنبلی مذہب ہونے کا بہانہ کرتے تھے۔
اب بتائیے کہ یہ مولوی فردوس علی صاحب یعنی چیلا تو کہتا ہے کہ محمد ابن عبدالوہاب خارجی ہے اور قطب الاقطاب، قطب الارشاد کہتے ہیں کہ اس کے عقائد عمدہ تھے؟۔
اب بتائیں کہ قطب الاقطابِ دیوبند کی مانیں یا اصاغرینِ دیوبند کی۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل میں عقائد وہی ہیں مگر عوام کو گمراہ کرنے کے لیئے اپنے جال میں پھانسنے کےلیئے یہ سب جھوٹ بولا جارہا ہے۔ اگر یہ منظر پورا دیکھنا ہوتو ایک طرف (تقویۃ الایمان، صراط مستقیم، براہین قاطعہ، فتاویٰ رشیدیہ اور بلغۃ الحیران) وغیرہم دیکھ لیں اور دوسری طرف انکی ہی (المہند) تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی اور پھر آپ بے اختیار نعرہ لگائیں گے کہ : دیوبندی تقیہ زندہ باد، جھوٹ پائندہ باد
الغرض،۔ ابن عبدالوہاب کے عقائد پھیلتے گئے، اس کی کتاب (کتاب التوحید) کسی طرح بمبئی بھی پہنچ گئی۔ (نوٹ: تاریخی طور پر بھی ثبوت موجود ہیں کہ کون پہلی بار اسکو برصغیر میں لایا، اس سلسلے میں کسی مولوی ساکن دہلی کا نام آتا ہے اس وقت مکمل تفصیل ذہن میں نہیں آرہی)۔بہرحال۔ مولوی اسمٰعیل دہلوی نے اس کتاب کا ترجمہ (تقویۃ الایمان) کے نام سے شائع کردیا، یہی وہ کتاب ہے جس نے سرزمینِ ہند میں مذہبی تفرقہ بازی کی بنیاد ڈالی، اس کتاب میں تمام مسلمانانِ عالم کو کافر مشرک و بدعتی بنا دیا گیا۔ اور انبیائے کرام کی شان میں ایسے ایسے ناپاک جملے استعمال کیئے گئے ہیں جن کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
چنانچہ ہم نمونے کے طور پرچند عبارات درج کرتے ہیں تاکہ ثابت ہوجائے کہ جناب مولوی اسماعیل نے ہندوستان میں ابن عبدالوہاب کے ایجنٹ اور اسکے عقائد کے مبلغ اعظم کے طور پر اپنا فرض منصبی نبھایا اور ان کی کتاب تفویۃ الایمان ، کتاب التوحید کا ہی لفظی ترجمہ ہے۔
کتاب التوحید: اعلم ان الشرک قد شاع فی ھذا الزمان۔
تقویۃ الایمان: اول سننا چاہیئے کہ شرک لوگوں میں پھیل رہا ہے۔
کتاب التوحید: ان من اعتقد لنبی ولولی ھو وابوجھل فی الشرک سواء
تقویۃ الایمان: جو کوئی کسی سے یہ معاملہ کرے گو کہ اس کو اللہ کا بندہ ومخلوق ہی سمجھے سو ابوجہل اور وہ شرک میں برابر ہیں۔
کتاب التوحید: وھٰذا الاعتقادشرک سواء کان من نبی او ولی او ملکِ اوجنی اوصنم او وثن وسواء کان یعتقد حٗصولہ لہ بذاتہ اوباعلام اللہ تعالیٰ بای طریق کان یصیر مشرکاً۔
تقویۃ الایمان:۔ سو اس عقیدہ سے آدمی البتہ مشرک ہوجاتا ہے، خواہ یہ عقیدہ انبیاء و اولیاء سے رکھے، خواہ پیر وشہید سے ، خواہ امام و امام زادے سے خواہ بھوت پری سے، پھر خواہ یو سمجھے کہ یہ بات ان کو اپنی طرف سے ہے خواہ اللہ کے دینے سے۔ غرض اس عقیدے سے ہرطرح شرک ثابت ہوتا ہے۔
کتاب التوحید: فمن قال یارسول اللہ اسئلک الشفاعۃ یا محمد ادع اللہ فی قضاء حاجتی یا محمد اسئل اللہ بک واتوجہ الی اللہ بک وکل من نادہ فقد اشرک شرکاً اکبر فانہ اعتقد ان محمداً یعلم ویطلع علیٰ ندائہ من معید کما عن قریب وھل ھذا الاشرک۔
تقویۃ الایمان: جو بعضے لوگ اگلے بزرگوں کو دور دور سے پکارتے ہیں اور اتنا ہی کہتے ہیں کہ یا حضرت تم اللہ کی جانب میں دعا کرو کہ وہ اپنی قدرت سے ہماری حاجت پوری کردے اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے کوئی شرک نہیں کیا ۔ اس واسطے کہ حاجت نہیں مانگی دعا کرائی ہے، سو یہ بات غلط ہے۔ اس واسطے کہ گو اس مانگنے کی راہ سے شرک ثابت نہیں ہوتا، لیکن پکارنے کی راہ سے ، ثابت ہوجاتا ہے کہ ان کو ایسا سمجھا کہ دور اور نزدیک سے برابر سنتے ہیں۔
کتاب التوحید: افھذا الحدیث صریح فی انہ کان لا یعلم امر خاتمۃ فی حال حیاتہ فکیف یعلم حال تلک المشرکین۔
تقویۃ الایمان: جو کچھ اللہ اپنے بندوں سے معاملہ کرے گا خواہ دنیا میں خواہ آخرت میں خواہ قبر میں ہو، اسکی حقیقت کسی کو معلوم نہیں نہ نبی کو نہ ولی کو نہ اپنا حال نہ دوسرے کا۔
کتاب التوحید؛ انظرو اعتذرالنبی بمنع الموجود السجود لکونہ میتۃ فی قبرہ
تقویۃ الایمان:۔ یعنی میں بھی ایک روز مرکر مٹی میں ملنے والا ہوں تو کب سجدے کے لائق ہوں۔
کتاب التوحید:۔ ثبت بھذا الحدیث ان القیام متمثلاً بین یدی احدِِ شرک۔
تقویۃ الایمان؛ کسی کو محض تعظیم کے لیئے اس کے روبرو ادب سے کھڑا ہونا انہیں کامون سے ہے کہ اللہ نے اپنی تعظیم کے لیئے ٹھہرائے ہیں۔
کتاب التوحید:۔ فثبت بھذہ الاکیئۃ ان السفر الی قبر محمد و مشاھدہ ومساجدہ شرک اکبر
تقویۃ الایمان:۔ اور کسی کی قبر یا چلے پر یا کسی کے تھان پر دوردراز سے قصد کرنا اور سفر کی تکلیف اٹھا کر میلے کچیلے ہوکر وہاں پہنچنا یہ سب شرک کی باتیں ہیں۔
کتاب التوحید:۔ فھٰذہ الایات وامثالھا صریحۃ فی اختصاص علم الغیب باللہ ونسیہ من غیرہ فمن اثبۃ لغیرہ نبیاً کان او ولیاً ضماً اووثناً ملکاً اوجنیاً فقد اشرک بااللہ۔
تقویۃ الایمان؛۔ سو اس طرح غیب کا دریافت کرنا اپنے اختیار میں ہو کہ جب چاہے کرلیجئے یہ اللہ صاحب کی شان ہے۔ کسی ولی اور نبی کو جن و فرشتہ کو پیرو شہید کو امام و امام زادے کو، بھوت و پری کو اللہ صاحب نے یہ طاقت نہیں بخشی، پھر کہا اور جو کوئی کسی نبی وولی کو یا جن و فرشتہ کو، وغیرہ وغیرہ کو ایسا جانے اور اسکے حق میں یہ عقیدہ رکھے سو وہ مشرک ہوجاتا ہے۔
کتاب التوحید؛۔ فمن فعل بنبی او ولی لو قبرہ او اثارہ ومشاھدہ وما یطعلق بہ شیاً عن السجود والرکوع وبزل المال لہ والصلوٰۃ لہ التمثل قائماً وقصدالسفر الیموالتقبیل والرجعۃ القھقری وقت التوریع وحزب الحباء وارخاء الستارۃ والستر بالتویب والدعاء من اللہ ھٰھنا المجاورۃ والتعظیم موالیہ واعتقاد کون ذکر غیراللہ عبادۃ وتذکرہ فی الشدائد ودعائہ بنحویا محمد یا عبدالقادر یا حداد یا سمان فقد صار مشرکا۔
تقویۃ الایمان؛۔ پھر جو کوئی پیر وپیغمبر کو بھوت وپری کو یا کسی سچی قبر کو یا کسی کے تھان کو یا کسی کے چلے کو یا کسی کے مکان کو یا کسی کے تبرک کو یا نشان کو یا تابوت کو سجدہ کرے، رکوع کرے یا اس کے نام کا روزہ رکھے یا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوئے یا جانور چڑھا دے یا ایسے مکانوں میں دور دور سے قصد کرکے جاوے یا وہاں روشنی کرے، غلاف ڈالے ، چادر چڑھائے ان کے نام کی چھڑی کھڑی کرے، رخصت ہوتے وقت الٹے پاؤں چلے، ان کی قبر کو بوسہ دے مورچھل چھلے، شامیانہ کھڑا کرے ، چوکھٹ کو بوسہ دے ، ہاتھ باندھ کر التجا کرے، مراد مانگے ، مجاور بن کر بیٹھ رہے، وہاں کے گردوپیش کے جنگل کا ادب کرے اور اسی قسم کی باتیں کرے، تو اس پر شرک ثابت ہوتا ہے۔
یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کافروں کے لیئے نازل کی گئی آیات کو مسلمانوں پر لگا کر قتل و قتال مال و اموال و عزتیں لوٹنا کیسے خوارج نے جاری کی، اگرچہ ان تمام باتوں پر کئی کتب لکھی جاچکی ہیں اور بہت سے مضامین بھی آپ نے پڑھے ہوں گے لیکن یہاں مختصراً ان کا فرداً فرداً جواب عرض ہے۔
۱۔ انہوں نے کہا کہ شرک لوگوں میں بھیل رہا ہے ۔ جبکہ ان کا یہ کہنا بذاتِ خود بدعت اسطرح ہے کہ نبی پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا تھا کہ مجھے اپنی امت سے شرک کا کوئی خوف نہیں۔ لہٰذا یہ عقیدہ براہ راست توہینِ ربوبیت اور توہینِ رسالت کے ساتھ ساتھ امت کے مناقب سے انکار کا بھی ہے۔
۲۔ پھر انہوں نے کہا کہ کسی بھی انسان کو پکارنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ غیراللہ (خدا) ہوگیا (معاذاللہ) لہٰذا ابوجہل اور وہ شرک میں برابر ہیں۔ اسکا مختصر جواب یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم جب صحرا گردی میں تھی تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی نا کہ اللہ سے ، یعنی پہلی فریاد انہوں نے اپنے ایک پیغمبر جو کہ ایک غیراللہ ہے اس سے کی، اور اللہ نے پھر موسیٰ علیہ السلام کی دعا پر ان کو من و سلویٰ عطا فرمایا پانی عطا فرمایا۔ ایسے ہی سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بمع قریباً ۳۰۰۰ صحابہ کے (خارجی منافقین) سے جہادِ موتہ کے دوران کیا نعرہ لگاتے ہیں ؟ (یا محمداہ) لہٰذا یارسول اللہ مدد کا نعرہ عین اسلام ہے اور اسکی صحابہ سے سند ثابت ہے ایسے ہی لاتعداد احادیث ہیں جیسے کہ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی نابینا صحابی والی جس میں خود سرورکائنات نےاپنے صحابی کو تعلیم فرمایا کہ کیسے قضائے حاجت مین میرا نام استعمال کرنا تاکہ تمہاری حاجت کو سنا جائے۔ لہٰذا ابوجہل خود ابن عبدالوہاب اور اسماعیل ہیں۔
۳۔ پھر انہوں ںے کہا کہ بعضے لوگ اگلوں کو دور دور سے پکارتے ہیں۔۔۔۔۔ تو اسکے جواب میں یہ یاد رہے کہ دور سے پکارنا اگر شرک ہوتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (یا ساریۃ الجبل) کہہ کر نہ پکارتے جب کہ حضرت ساریہ مقام نہاوند میں عین جہاد میں مصروف تھے۔ اور حاجب پوری کرنے پر عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی حدیث ہی کافی ہے لہٰذا ان کی یہ بات کہنی بھی ایک نئی بدعت ہے اور کل بدعۃ ضلالہ
۴۔ پھر انہوں نے کہا کہ قبر میں کیا معاملہ ہوتا ہے وہ صرف اللہ کو معلوم ہے کسی نبی ولی کو نہیں۔ ۔۔۔ اب اس بیہودہ غیراسلامی عقیدہ کا آسان جواب تو یہ ہے کہ لاتعداد احادیث ِ مستندہ اور لاتعداد حکایاتِ معتبرہ سے ان کی یہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کیونکہ نبی علیہ السلام کی کئی احادیث ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ناصرف آپ کو اللہ کی عطا سے متعدد بار معلوم ہوا کہ قبر والوں پر کیا گزرتی ہے اور ان کے ساتھ کیا معاملہ ہے بلکہ یہ عین حکم قرآن بھی ہے کہ قرآن ِ پاک میں اللہ کا فرمان ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو شاھد بنا کر بھیجا۔ اور شاھد پر مکمل تفصیل مکاشفہ پر پڑھی جاسکتی ہے۔ نیز آپ علیہ السلام نہ صرف اپنی امت پر بلکہ ایک ایک فرد پر گواہ ہیں اور ان کے احوال ایمان کے درجات سے واقف ہیں اسکی راہ میں کیا روحانی مشکلات ہیں اور دیگر وہ اس سے بھی آشنا ہیں لہٰذا یہ قرآنی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر مبنی بیہودہ عقیدہ تھا جو ابن عبدالوہاب اور پھر اس کے برصغیری مولوی نے کیا۔
۵۔ پھر ابن عبدالوہاب اور اسماعیل نے یہ جھوٹ بھی لکھا کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایک دن وہ بھی مر کر مٹی ہوجائیں گے (ثم معاذاللہ)۔۔۔۔ جبکہ قرآن کریم نے انبیائے کرام کے اجسام پر زمین کو کھانا حرام کردیا ہے۔ اور موسیٰ علیہ السلام واقعہ اسراٗ میں اپنی قبر میں نماز ادا فرماتے پائے گئے جس کی گواہی خود آقائے دوجہاں نے دی۔ اس پر بھی مکمل بحث اور ان کے جاہلانہ عقائد کا رد موجود ہے۔اور اہم ترین بات یہ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جو کوئی میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے ، اور ان دونوں پر اللہ کی لعنت اسی لیئے ہے کہ انہوں نے آقائے دوجہاں پر یہ جھوٹی تہمت لگائی اور اسکو حدیث کا نام دیا جبکہ اسلام کے ذخائر میں ایسی کوئی حدیث نہیں پائی جاتی۔
۶۔ پھر تعظیم کی انہوں نے نفی کی، لیکن یہ بھول گئے کہ خود ان میں رواج ہے ایک دوسرے کی تعظیم کا جیسے عبدالوہاب نے آل سعود سے جب ہاتھ ملایا تھا تو اسکی مدد کے لیئے کھڑے ہوگئے تھے اور یہاں تک کہ اپنی بیٹی بھی آل سعود کو گفٹ کردی یعنی شادی کردی تھی۔ اسکے علاوہ ، اس بیہودہ عقیدہ کا رد ایسے بھی ہے کہ سب جانتے ہیں کہ اسلام اپنے بزرگوں بڑوں کا ادب سکھاتا ہے، حدیثِ پاک موجود ہیں کہ جس میں صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پیر چومے، اور جب آپ تشریف لاتے تو ادب کے ساتھ کھڑے ہوجاتے۔ لیکن چونکہ ذوالخویصرہ کی بدتمیز نسل کو ادب سے کوئی واسطہ نہ تھا اسلیئے قادیانی کی طرح انہوں نے اپنی نئی بدعتی شریعہ انٹروڈیوس کروائی۔ اتنا ہی ان کےلیئے کافی ہے رد میں۔
۷۔ پھر لکھا کہ قبر کی طرف سفر کا ارادہ کرنے پر سب کافر مشرک ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کرکے اپنی والدہ ٗ ماجدہ بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبر کی زیارت کی۔ ایسے ہی ابن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ جب بھی باہر سے واپس آتے تو پہلے نبی کریم کے روضہ مبارکہ پر حاضری دیتے ، امیرالمومنین ابوبکر وعمر رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کی قبور پر حاضر ہوتے، جس کو ان دونوں جاہلوں نے شرک قرار دیا ہے وہ تو صحابہ کے اعمال تھے نبی علیہ السلام کی خود کی سنت مبارکہ تھی جسکو انہوں نے شرک بنا کر امت میں اتنا بڑا فتنہ کھڑا کردیا۔ اور یہ نئے بدعتی عقائد متعارف کروائے۔
۸۔ ایسے ہی غیب کے بارے میں ان کی تمام خرافات کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کی سنت مبارکہ سے ثابت ہے اور احادیث شاھد ہیں کہ آپ علیہ السلام نے اپنے صحابہ کو اول تا آخرالزمان کی ہر ہر چیز اور واقعہ کے بارے میں غیبی خبریں دے دیں۔ اسی کو انگریزی میں پروفیسیز کہتے ہیں۔ لہٰذا اس خودساختہ مدعیانِ اسلام نے اپنی نئی شریعت میں اس عقیدہٗ قرآن ک بھی انکار کردیا کہ قرآن ِ پاک میں اللہ نے صاف فرمایا ہے کہ وہ کسی کو نہیں دیتا (غیب) مگر اپنے رسولوں میں سے جسے چن لے۔ اس پر بھی لاتعداد کتب اور احادیث موجود ہیں جو کہ ان کے انکارِ غیبِ نبی ودیگر کے خلاف ہیں۔
۹۔ جہاں تک تبرک پر انکا انکار ہے تو اسکے لیئے جواب میں اتنا ہی کافی ہے کہ حج کے دوران کتنے ہی مقامات کا قصد کرنا فرائضِ حج میں سے ہے حالانکہ بعض جگہوں پر جیسے اصناف و نائلہ کے بت پائے جاتے تھے جن کو ختم کردیا گیا تھا ، وہیں پر حاجی اپنے رکن ادا کرتے ہیں حج کے۔ دوسری بات یہ ہے کہ لاتعداد احادیث موجود ہیں کہ اسلام سے قبل بھی خانہ کعبہ کی مجاوری کی جاتی تھی، وہاں نوکری چاکری یعنی صفائی ستھرائی اور ادب وغیرہ کا لحاظ رکھا جاتا تھا اور احادیث شاھد ہیں کہ اسلام کے بعد بھی رسول ٗ کریم علیہ السلام نے کنجیاں ایک مخصوص قبیلہ کو عطا فرمائی تھی خانہ کعبہ کی، اور اس وقت سے آج تک مسجد نبوی وغیرہ و دیگر کی اسی طرح خدمت ہوتی ہے۔ تمام صحابہ نے کبھی اعتراض نہ کیا، سلف نے کبھی اسکو شرک نہ کہا، نہ اس سے وہ معنی نکالے جو یہ لوگ اپنی مرضی کی تفسیرات کرتے ہیں تو پھر ان کے ان جاہلانہ عقائد پر بھلا مزید کیا کہا جائے۔
یہ تو تھا ان کا رد۔ اب دوبارہ آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف
دوستو! جب یہ شرک شرک کا شور اٹھا تو اسوقت ہندوستان میں بڑے بڑے جید علمائے اہلسنت موجود تھے انہوں نے اس کتاب کا مکمل رد فرمایا اور اسکی تردید میں کئی کتابیں تصنیف کیں۔ جن کی فہرست ملاحظہ ہو۔
۱۔ گلزارِ ہدایت، مفتی مدراس حضرت مولانا محمد صبغت اللہ صاحب
۲۔ تحقیق الفتویٰ فی البطال الطغویٰ، حضرت مولانا فضل حق بن فضل امام فاروقی خیرآبادی
۳۔ حیات النبی ، حضرت مولانا شیخ محمد عابد سندھی مدرس مدینہ منورہ
۴۔ رسالہ تحقیق التوحید والشرک ، حضرت مولانا حافظ محمد حسن المعروف ملادراز فارسی
۵۔ سلاح المومنین فی قطع الخارجین۔ حضرت مولانا سید لطف الحق قادری صاحب حسنی
۶۔ حجۃ العمل فی ابطال الحیل۔ حضرت مولانا محمد موسیٰ دہلوی
۷۔ رسم الخیرات ۔ حضرت مولانا خلیل الرحمٰن حنفی یوسفی مصطفیٰ آبادی
۸۔ تحفہ المسکین فی جذابِ سید المرسلین۔ حضرت مولانا مولوی عبداللہ سہارنپوری
۹۔ تحلیل ما احل اللہ فی تفسیر ومااہل بہ لغیراللہ۔ حضرت مولانا خلیل الرحمٰن صاحب
۱۰۔ سبیل النجاح الی تحصیل الفلاح۔ حضرت مولانا تراب علی لکھنوی۔
۱۱۔ سفیۃ النجات۔ حضرت مولانا محمد اسلمی مدراسی۔
۱۲۔ نظام اسلام۔ حضرت مولانا محمد وحید الدین مدرس کلکتہ
۱۳۔ قوت الایمان ۔ حضرت مولانا کرامت علی جونپوری
۱۴۔ احقاق الحق، حضرت مولانا سید بدرالدین رضوی حیدرآبادی
۱۵۔ خیرالزاد لیوم المیعاد۔ حضرت مولانا ابوالعلا محمد المقلب خیرالدین مدارس
۱۶۔ نعم الانتبا لرفع الاشتباہ ۔ حضرت مولانا معلم ابراہیم خطیب مسجد بمبئی
۱۷۔ ہدایت المسلمین الی اطریق الحق الیقین۔ حضرت مولانا قاضی محمد حسین کوفی
۱۸۔ تحفہ محمدیہ در ردِ وہابیہ۔ حضرت مولانا سید عبدالفتاح مفتی قادری گلشن آبادی۔
۱۹۔ سراج الہدایت۔ حضرت مولانا گلشن آبادی
ان علمائے حقہ کےعلاوہ مولانا عنایت احمد، مولانا شاہ روف احمد، مولانا شاہ احمد سعید دہلوی، وغیرہم۔ تقویۃ الایمان کی عبارات کو غلط ثابت کرکے پرزور تردید کی اور
کوشش کی کہ یہ بدعت پھیلنے نہ پائے۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ اور شاہ اسماعیل دہلوی؛۔
ادھر اکثر سنی علماء نے حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی محدث رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں شاہ اسماعیل دہلوی کی شکایت کی تو آپ نے مولوی اسمٰعیل کو سخت الفاظ سے ڈانٹا اور فرمایا؛
میری طرف سے کہو اس لڑکے(اسماعیل) نامراد کو جو کتاب (کتاب التوحید) بمبئی سے آئی ہے میں نے بھی اسکو دیکھا ہے اسکے عقائد صحیح نہیں۔ بلکہ وہ بے ادبی و بے نصیبی سے بھری پڑی ہے۔ میں آج کل بیمار ہوں۔ اگر صحت ہوگئی تو میں اسکی تردید لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں تم ابھی نوجوان بچے ہو، ناحق شور و شربرپا نہ کرو۔
مدراس کے علماء کا تقویۃ الایمان کے متعلق فتویٰ؛۔
۱۲۵۱ھ میں مدراس کے نواب صاحب نے مدراس کے تمام علما کو جمع فرمایا ان کے سامنے کتاب تقویۃ الایمان پیش کی اور فتویٰ طلب کیا۔ ان علما کے مجمع میں تمام تقویۃ الایمان اول سے آخر تک پڑھی گئی تو تمام علما نے متفقہ طور پر یہ فتویٰ دیا کہ :۔
ہرکس کہ برمضامین کتاب تقویۃ الایمان وامثال آں کہ متضمن بتنقیص انبیا واولیا ومخالف عقائد اہلسنت وجماعت است معتقد شود بیشک کافر گرد واز دائرہ اسلام بیرون گرد۔
اس فتویٰ پر جن علما کے ستخط موجود ہیں ان کے اسمائے گرامی ملاحطہ ہوں:۔
۱۔افضل العلما مولانا محمد ارتضیٰ علی خاں بہادر قاضی القضاۃ ممالک محروسہ متعلقہ حکومتِ مدراس۔
۲۔ عمدۃ العلما بدرالدولہ مولانا محمد نواز خان صاحب مفتی شرع
۳۔مولانا سید عبدخان صاحب قاضی شرع
۴۔ مولانا سید محی الدین صاحب قادری
۵۔ مولانا محمد عرفان اللہ صاحب
۶۔ مولانا محمد عطااللہ صاحب
۷۔ مولانا محمد عبدالقادر صاحب
۸۔ مولانا میراں شاہ محی الدین قادری صاحب
۹۔ مولانا محمد عبدالودود صاحب نقوی
۱۰۔ مولانا محمد شہاب الدین صاحب
۱۱۔ مولانا محمد حسن علی صاحب
۱۲۔ مولانا محمد علی صاحب کلیمی
۱۳۔ مولانا محمد سعید صاحب اسلمی
۱۴۔ مولانا محمد یعقوب صاحب
۱۵۔ مولانا سید شاہ اسمٰعیل صاحب قادری
۱۶۔ مولانا قادر حسین خان، صاحب جنگ بہادر امیر نواز
۱۷۔ مولانا سید شاہ فضل اللہ صاحب قادری
۱۸۔ مولانا عبدالقادر حکیم صاحب
۱۹۔ مولانا سید عبدالقادر قادری صاحب
۲۰۔ مولانا محمد یوسف علی خاں صاحب
۲۱۔ مولانا سید محمود صاحب
۲۲۔ مولانا سید مرتضیٰ صاحب
۲۳۔ مولانا عبدالحمید صاحب
۲۴۔ مولانا عبدالوہاب صاحب
۲۵۔ مولانا سید احمد صاحب
۲۶۔ مولانا جمال الدین احمد صاحب
۲۷۔ مولانا سید احمد قادری
۲۸۔ مولانا ابو المعالی صاحب
۲۹۔ مولانا غلام علی صاحب
۳۰۔ مولانا محمد قادر علی صاحب
یہ وہ مقتدر علمائے کرام ہیں جنہوں نے کتاب تقویۃ الایمان کے مضامین کو سن کر یہ اعلان فرمایا؛۔
جو کوئی اس کے مضامین کا معتقد ہو وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
تقویۃ الایمان پر علمائے دہلی کا فتویٰ؛۔
مدراس کے علمائے عظام کی تائید میں دہلی کے علمائے کرام نے بھی یہی فتویٰ دیا اور دہلی کے کوچہ وبازار میں اعلان کردیا گیا کہ کوئی آدمی اس کتاب کو نہ پڑھے کیونکہ اس میں تنقیص ِ انبیا و اولیا ہے اور جس کتاب میں تنقیص ِ انبیا و اولیا ہو ، اس کا پڑھنا سننا ناجائز ہے اور اس فتویٰ پر جن علمائے کرام نے متفقہ دستخط کیئے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:۔
۱۔ حضرت مولانا محمد اسحٰق صاحب مفتی شہرِ دہلی، ۲۔ مولانا صدر الدین صاحب۔ ۳، مولانا محمد اکرام الدین صاحب۔ ۴، مولانا عبدالخالق صاحب۔ ۵، مولانا محمد حیات لاہوری۔۶۔ مولانا حسن علی صاحب۔ ۷،سراج العلما مولانا سید رحمت علی صاحب، مفتی عدالتِ سلطانیہ دہلی۔ ۸، مولانا شیر محمد صاحب۔ ۹، مولانا سید محمد صاحب۔ ۱۰، مولانا مملوک علی صاحب۔ ۱۱، مولانا احمد سعید صاحب مجددی۔ ۱۲، مولانا محمد علی صاحب۔ ۱۳،مولانا زین العابدین کاظمی صاحب۔ ۱۴، مولانا محبوب
علی صاحب
تقویۃ الایمان پر علمائے کلکتہ کا فتویٰ؛۔
جب تقویۃ الایمان کو کلکتہ کے علما نے دیکھا تو حضرت استاذالعلما مولانا محمد وجیہہ الدین صاحب مدرسِ اول مدرسہ کلکتہ نے اس کے مضامین ِ خبیثہ کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں نہایت مدلل طور پر تحریر فرمائے اور ان کو رسالہ (نظام اسلام) کے نام سے چھپوا کر تمام علمائے کرام کے سامنے پیش کیا تو کلکتہ کے جن علمائے کرام نے اس پر دستخط اور مہریں ثبت کیں ان کے یہ اسماے گرامی ہیں؛۔
۱۔ مولانا غلام سبحان صاحب ۔ قاضی القضاۃ صدر کلکتہ
۲۔ مولانا احمد کبیر صاحب امین مدرسہ کلکتہ
۳۔ مولانا وارث علی صاحب مفتی عدالت سلطنتِ کلکتہ
۴۔ مولانا محمد وجیہہ الدین صاحب مدرس اول مدرسہ کلکتہ
۵۔ مولانا بشیرالدین صاحب مدرسِ دوم کلکتہ
۶۔ مولانا نورالحق صاحب مدرس سوم کلکتہ
۷۔ مولانا محمد مرتضیٰ صاحب مدرس چہارم کلکتہ
۸۔ مولانا محمد ابراہیم صاحب معاون
۹۔ مولانا خادم حسین صاحب
۱۰۔ مولانا محمد مظہر صاحب
۱۱۔ مولانا احمد حسین صاحب
۱۲۔ مولانا محمد اکبر شاہ صاحب
۱۳۔ مولانا منصور احمد صاحب
۱۴۔ مولانا سید رمضان علی صاحب
۱۵۔ مولانا حافظ صدیق صاحب
۱۶۔ مولانا احمد صاحب
۱۷۔ مولانا خادم حسین
۱۸۔ مولانا حسن الدین مفتی اعظم بیست وچہار پرگنہ
۲۰۔ مولانا صوفی نور احمد صاحب
۲۱۔ مولانا سید عبداللہ صاحب
۲۲۔ مولانا محمد عبداللہ صاحب
ان تمام فتووں کو حضرت مولانا سید عبدالفتاح صاحب المدعو سید اشرف علی صاحب مفتی قادری گلشن آبادی رحمتہ اللہ علیہ نے تحفہ محمدیہ در ردِ وہابیہ کے نام سے جمع فرمادیا۔
ایسے ہی تقویۃ الایمان پر حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری رحمتہ اللہ علیہ کا فتویٰ بھی موجود ہے بصورتِ اشعار کے۔ جس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
نام تو مومن ہیں لیکن دشمنِ ایمان ہیں
دشمن ِ دینِ ِ نبی ہیں دشمنِ قرآن ہیں
چارمذہب سے جدا یہ سخت نافرمان ہیں
مت سن ان کی ، مذہب سنت جماعت کو سنبھال
بدعتی، مشرک ، وہابی سب کے سر پر خاک ڈال
تقویۃ الایمان پر علمائے حرمین طیبین کا فتویٰ؛۔
لا شک فی بطلان المنقول من تقویۃ الایمان یکونہ موافقا للنجدیۃ وماخوذ امن کتاب التوحید لقرن الشیطان و مولف ھذا لکتاب دجال کذاب استحق اللعنۃ من اللہ تعالیٰ وملئلتہ واولیٰ العلم وسائرالمسلمین۔
ترجمہ:۔ تقویۃ الایمان میں منقول تمام چیزیں غلط ہیں، قرن الشیطان کی کتاب التوحید کے موافق ہیں، اور اس کا مولف دجال اور جھوٹا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتوں اور عالموں اور تمام مسلمانوں کی لعنت کا مستحق ہے۔
ان الفاظ پر جن علمائے مکہ و مدینہ کے دستخط اور مہریں لگی ہوئی ہیں ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں؛۔
۱۔ عبدہ شیخ عمر
۲۔ عبدہ عبدالرحمٰن
۳۔ شیخ احمد زینی دھلان مفتی مکہ
۴۔ محمد البکی مفتی مکہ
۵۔ السید ابوسعود مفتی مدینہ عالیہ
۶۔ محمد بالی
۷۔ سید یوسف العربی
۸۔ سید ابو محمد طاہر الصدیقی
۹۔ ابوالسعادت محمد
۱۰۔ عبدالقادر تیادی
۱۱۔ مولوی محمد اشرف خراسانی ولایتی
۱۲۔ شمس الدین بن عبدالرحمٰن
بحوالہ؛۔ بھونچال برلشکر دجال ص ۶۸ مطبوعہ لاہور، انوار آفتابِ صداقت ص ۵۳۴
علمائے اہلسنت دہلی کا مولوی اسمٰعیل سے مناظرہ؛۔
اولاً حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے شاگردوں نے مولوی اسمٰعیل اور اسکے ساتھیوں کو سمجھایا کہ وہ ایسے عقائد سے باز آجائیں اور انبیا و اولیا کی تنقیص نہ کریں مگر انہوں نے کوئی اثر قبول نہ کیا تو نوبت مناظرہ تک پہنچی۔
۱۲۔ ربیع الثانی ۱۲۴۰ ھ جامع مسجد دہلی میں ایک زبردست مناظرہ ہوا، ایک طرف مولوی اسماعیل اور ان کے ساتھی مولوی عبدالحئی اور مولوی عبدالغنی مہمی وغیرہ تھے اور ان کے مقابلے میں حضرت شاہ عبدالعزیز کے شاگرد اور دوسرے جید علمائے اہلسنت تھے۔ اس مناظرہ میں مولوی اسماعیل اور اسکے ساتھیوں کو زبردست شکست ہوئی ۔ حتیٰ کہ مولوی اسماعیل سٹیج پر مولوی عبدالحئی اور مولوی عبدالغنی صاحبان کو چھوڑ کر خفیہ طور پر مفرور ہوگئے اور مولوی عبدالحئی صاحب نے تو توبہ کرلی اور توبہ نامہ لکھا گیا جس کو علمائے کرام کے دستخطوں سے ملک کے اطراف میں شائع کردیا گیا۔
اس مناظرہ میں مندرجہ ذیل مسائل کو علمائے اہلسنت نے دلائل قاہرہ سے ثابت کیا؛۔
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف منانا اور اس میں سلام و قیام کرنا امور ودالطاف ومراحم الٰہی ہے۔
۲۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بامسعود صرف بشری ہی نہیں جیسا کہ مولوی اسمٰعیل نے شور مچار رکھا ہے بلکہ گوہر نورانی ہیں اور آپ کا نور مخلوق اور خاص فیض ہے نورِ الٰہی کا۔
۳۔ مطلق علم غیب عطائی انبیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس کا منکر کافر بے دین ہے۔
۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے علم غیب کلی عطا فرمایا ہے۔ آپ تمام دنیا و مافیہا کے ذرہ ذرہ سے باخبر ہیں اور آپ کو حاضر ناظر ماننا کتاب و سنت و عقائد جمہور اہل اسلام سلف و خلف سے ثابت ہے۔
۵۔ اذان میں آپ کے نام پاک کو سن کر ناخنوں کو بوسہ دے کر آنکھوں پر لگانا باعثِ پرکت ہے اور سنت ِ اکابرینِ اسلام ہے اور آنکھوں کو بیماری سے بچاتا ہے۔
۶۔ انبیائے کرام اور اولیائے عظام کا وسیلہ پکڑنا اور ان سے غائبانہ مدد مانگنا بایں طور کہ وہ عون الٰہی کے مظہر ہیں۔ قبل از ممات و بعد از ممات ہرطرح جائز ہے۔
۷۔ مزاراتِ اولیا اللہ پر قرآن خوانی کرنا، ان کے نام کی فاتحہ ایصال ثواب کرنا، طعام پر قرآن پڑھنا ، بزرگوں کی وفات کے روز عرس کرنا، قبروں پر روشنی کرنا، بضرورتِ آرام دیہی زائرین کے یہ امور بے شک جائز ہیں۔
۸۔ وظیفہ، یارسول اللہ، یاشیخ عبدالقادر جیلانی، یا شیخ معین الدین چشتی بے شک جائز ہیں۔
مولوی اسمٰعیل اس مناظرہ میں شکست کے بعد پشاور کی طرف بھاگ گئے۔ وہاں جاکر اپنے عقائد باطلہ کی تبلیغی شروع کردی۔ (نوٹ: اس دورانیہ کے مزید کارناموں کی تفصیل ہمارے آرٹیکل (بالاکوٹ کی اصل کہانی) میں ملاحظہ فرمائیں)۔ حوالہ؛۔صمصامِ قادری ص ۹ مطبوعہ دہلی، انوار آفتاب ِ صداقت ، تحفہ محمدیہ مولانا گلشن آبادی
علمائے پشاور کا مولوی اسماعیل سے مناظرہ؛۔
جب علاقہ پشاور کے صحیح العقیدہ سنی علما کو اس کے عقائد کا پتہ چلا تو تمام علمائے کرام نے ایک جگہ جمع ہوکر مولوی اسمٰعیل کو بلایا اور ایسے عقائد باطلہ سے توبہ کی طرف توجہ دلائی ۔ مگر مولوی اسمٰعیل مناظرہ پراتر آئے۔ آخر مناظرہ میں ایسی عبرتناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ توبہ کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا تو مجبوراً اپنے عقائد سے توبہ کا اعلان کردیا۔ (حوالہ ہدایت الصالحین برحاشیہ توقیر الحق مصنفہ نواب قطب الدین دہلوی ص ۸۷)۔
جناب غلام رسول مہر لاہوری بھی سیرتِ سید احمد کے صفحہ ۲۸۸ پر لکھتے ہیں کہ جب سید احمد و اسمٰعیل وغیرہ افغانی علاقہ میں پہنچے تو وہاں کے بڑے بڑے جید اور متبحر علما نےا ن کے متعلق یہ فتویٰ دیا کہ:۔
سید صاحب اور آپ کے رفقاء الحاد وزندقہ میں مبتلا ہیں اور ان کا کوئی مذہب نہیں، یہ لوگ نفسانیت کے پیرو ہیں اور لذتِ جسمانی کے جویاں۔
دوستو! تقویۃ الایمان کی گندی عبارات اور خبیث عقائد کے متعلق تمام ہندوستان کے علمائے کرام کی تردیدیں بشمول علمائے حرمین شریفین پڑھتے پڑھتے آپ تھک ضرور گئے ہوں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ ناپاک کتاب ہے جس نے سرزمین ِ ہند میں تفرقہ بازی کی پہلی اینٹ رکھی اور آج تک یہ لعنت دور نہ ہوسکی۔ اس نازک دور میں جب کہ سیلابِ دہریت امڈا ہوا چلا آرہا ہے اور علمائے اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دن رات سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ بعض ناعاقبت اندیش کوتاہ نظر ملا وقت کی نزاکت کو پس پشت ڈال کر اس کتاب کی ناپاک عبارات کی غلط تاویلات کرکے ان کو صحیح ثابت کرنے کے درپئے ہیں۔ بلکہ دیوبندی یہاں تک اعلان کرتے ہیں کہ اگر یہ کتاب نہ ہوتی تو قریب تھا کہ تمام ہندوستان پجاریوں کا مندر بن جاتا۔
حالانکہ اگر اب دیکھا جائے موجودہ دور میں تو ہندوستان واقعی پجاریوں کا مندر بن چکا ہے جس کے تصویری ثبوت اور دارالعلوم دیوبند کے کارناموں کی تفصیلات اسی بلاگ پر دیگر پوسٹس میں شائع ہوچکی ہیں تصویروں کی اپنی ہی ایک حقانیت ہوتی ہے۔ ایسی بے سروپا لغو غیراسلامی خارجی کتاب کے بارے میں انہی دیوبند کے قطب الاقطاب رشید احمد گنگوہی نے تو یہاں تک اس شرک کے پلندے کو ڈگری دے دی کہ کتاب تقویۃ الایمان کا پڑھنا اپنے پاس رکھنا عین اسلام ہے (فتاوی رشیدیہ ج ۱ صفحہ ۲۰)۔
یعنی جس کے پاس تقویۃ الایمان نہیں ہے وہ پکا کافر، حضرات پاکستانی پچانوے فیصد آبادی کے پاس عین اسلام کتاب نہیں ہے، کیا وہ تمام کافر ہیں؟
اور مولوی غلام خاں دیوبندی کے فتویٰ کے مطابق جو ان کو کافر نہ کہے وہ بھی کافر، اس کا کوئی نکاح نہیں، اسکا جنازہ نہ پڑھا جائے۔ اور وہ جو گمان رکھتے ہیں کہ اسکی ہر ہر عبارت قرآن کے مطابق ہے تو اگر یہی بات ہے تو مدراس، کلکتہ ، دہلی، کے علمائے کرام کے فتووں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ۔ جنہوں نے تصریحاً یہ لکھا کہ جو کوئی مضامین تقویۃ الایمان پر عقیدہ رکھے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ کیا یہ سب علمائے کرام جنہوں نے آپ کی محبوب عقائد کی کتاب کی تردید میں انیس کتابیں تصنیف کیں اور جن چوراسی ۸۴ علمائے کرام نے جن مٰں مدراس، دہلی، بمبئی ، کلکتہ کے قاضی القضاۃ کے علاوہ پشاور کے علمائے کرام، مفتی مکہ معظمہ اور مفتی ٗ مدینہ منورہ بھی شامل ہیں، فتوائے کفر صادر فرمایا۔ کیا یہ سب بریلوی رضا خانی تھے؟
کیا یہ تمام علمائے کرام جاہل تھے؟ اور کیا یہ بالواسطہ نجدیت کی تبلیغ نہیں؟ تو پھر دیوبند نے حنفیت کی چادر اوڑھ کر کیوں لوگوں کو گمراہ کیا ہوا ہے؟ کتاب تقویۃ الایمان تو ابن عبدالوہاب نجدی کی کتاب (کتاب التوحید) کا ترجمہ ہے۔ جسے ہم دلائل کے ساتھ ثابت کرچکے ہیں اور یہی عباراتِ خبیثہ و عقائد باطلہ جن کی حمایت میں
آپ لوگ اتنے بڑے دعوے کرتے ہیں ابن عبدالوہاب نجدی کے ہیں، اہل اسلام کے نہیں۔
تقیہ کی اس سے عمدہ مثال کیا ہوگی کہ یہاں تو ساری دیوبندیت کا بھانڈا پھوٹ پڑا اور ثابت ہوگیا کہ وہ بالفعل ابن عبدالوہاب نجدی کے مبلغ ہیں۔ ظاہر میں اس کو خارجی کہتے رہے اور اندرونِ پردہ اپنے مرشد رشید احمد گنگوہی کی طرح ابن عبدالوہاب کے عقائد کو عمدہ جانتے ہوئے ان کی اشاعت میں مصروف ہیں۔
یاد رہے کہ دیوبندیوں کے گمراہ عقائد پر یہ مہریں اسوقت لگائی گئی تھیں جب کہ اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں قادری برکاتی رحمتہ اللہ علیہ ابھی دنیا میں پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ اعلیٰحضرت رحمتہ اللہ علیہ مجدد اہلسنت نے الکوکبۃ الشہابیہ میں جو ۱۷ سترہ وجوہِ کفر بیان کیئے ہیں اس پر یہ سیخ پا ہوگئے اور آسمان سر پر اٹھا لیا کہ ہائے اعلیٰ حضرت نے ہمیں کافر کہا، گالیاں دیں باوجودیکہ آپ نے الکوکبۃ الشہابیہ کے اخیر میں احتیاطاً یہاں تک تحریر فرمادیا کہ مولوی اسماعیل صاحب کو کافر کہنے سے زبان کو روکا جائے کیونکہ اسکی پشاور والی توبہ مشہور ہوچکی تھی، اس کے باوجود علمائے دیوبند ہیں کہ اعلیٰ حضرت جیسی مقدس شخصیت کو بدنام کرنے اور تعصب میں آئے دن خرافات بکتے رہتے ہیں تاکہ اپنے کفر شرک و بدعت کے فتووں کی بارش کے گندے کیچڑ کو خشک کیا جاسکے۔ اسی لیئے تب سے ہر وہ شخص جو ان کے عقیدے کے خلاف ہو، وہ ان کے نزدیک یا تو بریلوی ہوتا ہے اور یا پھر شیعہ یا پھر صوفی اور یا پھر کافر مشرک بدعتی۔
دیوبندیوں کی بہاولپور میں شکست؛۔
جب مولوی اسمٰعیل کو ایک یوسفزئی مسلمان پٹھان نے دوسرے جہان روانہ کردیا تو کچھ دیر کے لیئے یہ شور شرابہ ٹھنڈا پڑگیا تو انگریز بہادر کو اپنے ان ایجنٹوں کے مرنے کا سخت افسوس ہوا۔ تو دیوبندی مولویوں نے تسلی دی کہ صاحب بہادر وہ کام جو مولوی اسماعیل صاحب سرانجام دے رہے تھے پورا کرنے کے لیئے ہماری خدمات حاضر ہیں۔ انگریز بہادر خوش ہوگیا اور ان دیوبندی مولویوں کے وظائف اور تنخواہیں مقرر کردی گئیں جن کی تفصیل دیگر آرٹیکلز میں دی گئی ہے۔
پس پھر کیا تھا خاص انگریزی سکیم کے ماتحت تمام مسلمانانِ عالم پر کفر شرک و بدعت کے فتوے صادر ہونے شروع ہوگئے اور انگریز کی یہ پالیسی کہ (لڑاو اور حکومت کرو) کو عملی جامہ پہنایا جانے لگا۔ انبیائے کرام اور اولیائے عظام کی ہجو میں نہایت ناپاک کتابیں شائع ہونی شروع ہوگئیں جن کا پڑھنا سننا دیکھنا کوئی غیرتمند مسلمان گوارہ تک نہیں کرسکتا۔
اسی زمانہ میں ایک اور کتاب براہین قاطعہ مصنفہ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی دیوبندی مصدقہ مولوی رشید احمد گنگوہی منظر عام پر آئی جس میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو علم شیطان سے کم بتایا گیا اور مسئلہ امکان ِ کذب باری تعالیٰ و امکان ِ نظیر مصطفیٰ علیہ السلام اورتمام بنی آدم کا بشریت میں برابر ہونا اور آپ کے مولود شریف کی مجلس کو کنہیا کے جنم سے تشبیہہ دی گئی۔ اس کے شائع ہوتے ہی تمام ہندوستان میں شور مچ گیا۔ اور لعنت لعنت کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ مولوی خلیل کو علمائے حق نے ہرچند سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی ضد پر اڑا رہا وہ اس وقت جامع عباسیہ بہاولپور کا مدرس اول تھا۔
نوٹ کریں : ایسی ہی ہٹ دھرمی پوپلزئی، طارق جمیل، جنید جمشید، بنوری ٹاون کے مولویان، تحریک ظالمان کے حمایتی حضرات میں جاری وساری ہے۔
آخرکار ۱۳۰۶ھ میں بہاولپور کے نواب صاحب نے حضرت مولانا غلام دستگیر صاحب قصوری رحمتہ اللہ علیہ کو بلا کر مولوی خلیل احمد انبیٹھوی سے ان مسائل پر مناظرہ کرایا اور اس مناظرہ کے حکم (ثالث) شیخ المشائخ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشین چاچڑاں شریف مقرر ہوئے۔ اس تاریخی مناظرہ میں دیوبندی مولویوں کو ایسی شکستِ عظیم کا سامنا کرنا پڑا جس کی یاد آج بھی دیوبندی مولویوں کے چین کو حرام کیئے ہوئے ہے۔ اور جب کبھی کسی دیوبندی مولوی کے
سامنے اس مناظرے کا ذکر کیا جائے تو ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں جب مولوی خلیل انبیٹھوی ، مولانا غلام دستگیر رحمتہ اللہ علیہ کے سوالات کے جوابات سے عاجز آگئے تو نواب صاحب بہاولپور نے مولوی خلیل احمد کو نہایت ذلت کے ساتھ ریاست بدر کردیا اور حضرت صاحب چاچڑاں شریف نے بااتفاق دوسرے علمائے اہلسنت کے فتویٰ دیا کہ مولوی خلیل احمد اور اسکے حوارین کے عقائد اسلامی نہیں چنانچہ حج شریف کے موقعہ پر علمائے حرمین شریفین، حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی نے اپنے حضرت دستگیر رحمتہ اللہ علیہ کی عربی زبان میں روائداد جو ۱۳۰۷ھ میں تیار کی گئی تھی پر اپنے دستخط اور مہریں ثبت فرمائیں اور تصریحاً تحریر فرمادیا کہ دیوبندیوں کے عقائد اسلام کے خلاف ہیں۔ پھر حضرت مولانا نے ان تمام فتاویٰ اور مناظرہ کی مکمل روداد (تقدیس الوکیل عن توہین الرشید والخلیل) کے نام سے شائع کردی جو ۱۳۱۴ھ میں صدیقی پریس قصور میں چھپی۔
قصہ المختصر یہ کہ ہم ہزار اور حوالے اور دیگر تاریخی سچائیاں لکھ سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان کے قیام کے مخالف، دینِ اسلام کے مخالف اور اجماعی طور پر اسلام سے باہر فرقہ (وہابیہ دیوبندیہ) کو مملکتِ اسلامیہ پاکستان پر کیسے اپنے عقائد مسلط کرنے کی اجازت دی گئی؟ کس نے کیسے اور کیوں اجازت دی یہ ایک الگ تاریخی باب ہے۔ اسکی تفریق کے البتہ نتائج جو ہم بھگت رہے ہیں وہ تحریک ظالمان ، سپاہ صحابہ، جماعت اسلامی، جیسی چیزوں کے روپ میں ہم سب جھیل رہے ہیں۔ انہوں نے بالاکوٹ میں معصوم سنی حنفی صوفی مسلمانوں کو شہید کرکے تاریخ میں اپنے گمراہ ادیبوں سے یہ لکھوایا کہ یہ خود شہید ہیں۔ ان کو اجازت ملی کیسے کہ یہ ان گمراہ خیالات کو پروان چڑھا سکیں جو بالآخر فرقہ پرستی پر منتج ہوتے ہیں۔ اس تمام تفصیل سے یہ بھی بخوبی معلوم ہوگیا کہ فرقہ پرستی کی ہندوستان میں ابتداٗ کیسے ہوئی ، کون اسکے پیچھے تھا اور کس نے ان مولویوں کو کن مقاصد کے لیئے استعمال کیا۔ وہی استعماری قوتیں آج بھی ان خوارج کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کررہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ان سے اجماعی طور پر ریاست خود توبہ کروائے اور اگر توبہ نہیں کرتے تو ان کا ویسے ہی علاج کیا جائے جیسے ایک اسلامی ریاست میں باغی کے ساتھ کیا جانا چاہیئے۔ ان کی تمام کتب جو ایسے بیہودہ عقائد پر مبنی ہیں بقول ان کے شبیر عثمانی کے، چوک پر رکھ کر آگ لگادینی چاہیئے۔