Post by Admin on Aug 4, 2016 20:27:12 GMT
Arabic Text
Urdu Translation
Manuscript Scans
(الباب السادس والعشرون في الكلام في الطب والرقى)
(قال الفقيه) رحمه اللَّه تعالى: كره بعض الناس الرقي والتداوي وأجازه عامة العلماء. فأما من كره ذلك فاحتج بما روى عن النبي صلى اللَّه عليه وسلم أنه قال “يدخل من أمتي الجنة سبعون ألفاً بغير حساب، فقام عكاشة بن محصن فقال يا رسول اللَّه ادع اللَّه لي أن يجعلني منهم، فدعا له، فقام رجل آخر فقال ادع اللَّه لي أيضاً، فقال النبي صلى اللَّه عليه وسلم سبقك بها عكاشة” قيل كان الرجل الثاني منافقاً فلذلك لم يدع له لأن النبي صلى اللَّه عليه وسلم أجلّ من أن يمتنع من الدعاء لمؤمن “فدخل رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلم المنزل فقالوا فيما بينهم من الذين يدخلون الجنة بغير حساب؟ فقال بعضهم هم الذين ولدوا في الإسلام وماتوا على ذلك ولم يذنبوا، فخرج رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلم فسألوه عن ذلك فقال: هم الذين لا يكتوون ولا يرقون ولا يسترقون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكلون” وروى عن عمران بن حصين أنه قال: كنت أرى نوراً وأسمع كلام الملائكة حتى اكتويت فانقطع ذلك عني. وروى الأعمش عن أبي ظبان عن حذيفة بن اليمان أنه دخل على رجل يعوده فوضع يده على عضيده فإذا خيط، فقال له ما هذا؟ فقال رقي لي فيه، فأخذه وقطعه وقال: لو متّ ما صليت عليك. وعن سعيد بن جبير قال: لدغتني عقرب على يدي فأقسمت على أمي أن استرقى، فأعطيت الراقي يدي التي لم تلدغ. وعن زينب امرأة عبد اللَّه قالت: جاء عبد اللَّه ذات يوم فرأى في عنقي خيطاً فقال ما هذا الخيط؟ فقلت رقى لي فيه، فأخذه وقطعه، ثم قال: إن آل عبد اللَّه لأغنياء عن الشرك. وقال الحسن البصري: يرحم اللَّه أقواماً لا يعرفون الهليلج ولا البليلج لأن ذلك ظن يظن به ولا يعرف الشفاء في ماذا يكون، ألا ترى إلى ما روى عن ابن عمر رضي اللَّه تعالى عنهما أنه قال: لا تحموا المريض عما يشتهي فلعل اللَّه يجعل شفاءه في بعض ما يشتهي.
وأما من أباح ذلك فاحتج بما روى عن ابن مسعود رضي اللَّه تعالى عنه أنه قال: إن اللَّه تعالى لم ينزل داء إلا وقد أنزل له دواء إلا السأم والهرم، فعليكم بألبان البقر فإنها تخلط
من كل شجرة. وفي خبر آخر: فإنها ترعى من كل شجرة. وروى سفيان ابن عينية عن زياد بن علاقة عن أسامة بن شريك قال “شهدت النبي صلى اللَّه عليه وسلم بمكة والأعراب يسألونه هل علينا جناح أن نتداوى؟ فقال صلى اللَّه عليه وسلم : تداووا عباد اللَّه فإن اللَّه لم يخلق داء إلا
وضع له شفاء” وعن الحجاج بن أرطاة أنه سأل عطاء عن التعويذ فقال: ما سمعنا بكراهيته إلا من قبلكم يا معشر أهل العراق، ولأن قوام العبادة بالبدن فكما وجب علينا أن نتعلم الأحكام لتصحيح العبادة فكذلك علم الطب والتداوي الذي فيه إصلاح البدن فلا بأس بأن نتعلمه أو نعمل به لنصحح به إقامة العبادة، ولأن القول في الأحكام جائزاً بأكثر الرأي إن لم يعرف بالنص واليقين، فكذلك القول في الطب إذا كان يعرف بالرأي والتجارب فيجوز استعماله إذ ليس هذا بأجل من علم الأحكام.
وأما الأخبار التي وردت في النهي فإنها منسوخة ألا ترى إلى ما روى جابر رضي اللَّه تعالى عنه “أن النبي صلى اللَّه عليه وسلم نهى عن الرقي وكان عند آل عمرو بن حزم رقية يرقون بها من العقرب، فأتوا النبي صلى اللَّه عليه وسلم وعرضوا عليه وقالوا إنك نهيت عن الرقي فقال ما أرى بها بأساً من استطاع منكم أن ينفع أخاه فليفعل” ويحتمل أن للنهي عن الذي يرى العافية في الدواء، وأما إذا عرف أن العافية من اللَّه تعالى والدواء سبب فلا بأس به. وقد جاءت الآثار في الإباحة ألا ترى أن النبي صلى اللَّه عليه وسلم لما جرح يوم أحد داوى جرحه بعظم قد بلى. وقد روى أن رجلاً من الأنصار رمى في أكحله بمشقص فأمره النبي صلى اللَّه عليه وسلم فكوى، وروى أنه صلى اللَّه عليه وسلم كان يرقى بالمعوّذتين. والآثار فيه أكثر من أن تحصى.
ترجمہ مخطوطہ ، بستان العارفین للامام السمرقندی الحنفی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ؛۔
باب۔ تویذ و دوا کا بیان؛۔
فقیہہ ابواللیث سمرقندی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛۔ بعض علماء تعویذ بنانے اور دوا کے استعمال کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ مگر اکثر علماء اس کے جواز کے قائل ہیں۔
ناجائز سمجھنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
یدخل من امتی الجنۃ سبعون الفا بغیر حساب
یعنی میری امت میں ستر ہزار بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ سن کر حضرت عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے اور عرض کیا؛
یارسول اللہ ادع اللہ ان یجعلنی منھم
یعنی یارسول اللہ! میرے لیئے دعا فرمائیے ، اللہ مجھے بھی ان میں سے کردے
چنانچہ آپ نے ان کے لیئے دعا فرمائی ۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص کھڑا ہوکر عرض کرنے لگا کہ یارسول اللہ ! میرے لیئے بھی دعا فرمائیں تو آپ نے ارشاد فرمایا:۔
سبقکم بھا عکاشہ
یعنی اس معاملے میں عکاشہ سبقت لے گیا۔ (تخریجِ حدیث؛۔ صحیح مسلم 1،488 حدیث 317۔ و صحیح بخاری ؛ج 18،حدیث 5364 ۔ ومسند احمد 40،386
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ دوسرا شخص منافق تھا۔ اسلیئے آقائے رحمت نے اس کے حق میں دعا نہ فرمائی؛ ورنہ ایسا کبھی نہ ہوا کہ کسی مومن کو آپ نےا پنی دعا سے محروم رکھا ہو۔
اس واقعے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر تشریف لے گئے اور ادھر صحابہ کرام آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ آخر وہ کون سے لوگ ہیں جو بے حساب جنت میں جائیں گے؟ ۔ پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ سے اس بارے میں تفصیل دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا؛۔
ھم الذین لا یتداؤون ولایکتوون ولایرقون ولا یتطیرون وعلی ربھم یتوکلون
یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو دوا نہیں کرتے ، داغ نہیں لگاتے ، تعویذ گنڈہ نہیں کرتے، فال بد نہیں لیتے اور صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔
تخریج حدیث؛۔ صحیح بخاری 17/473 رقم الحدیث 5270۔ صحیح مسلم 1/494 رقم الحدیث 323۔۔۔ سنن ترمذی 8/485 حدیث 2370 ۔ مسند احمد 6/333 رقم الحدیث 2800 ۔ مصنف عبدالرزاق 10/409۔
حضرت عمران بن حصین بیان فرماتے ہیں کہ میں پہلے انوار دیکھا کرتا تھا ، اور فرشتوں کا کلام سنا کرتا تھا: لیکن ایک دفعہ میں نے داغ لگوالیا تو پھر یہ بات جاتی رہی۔
حضرت اعمش، ابوظبان سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حذیفہ بن الیمان ایک شخص کی عیادت کو تشریف لے گئے، جب اس کے بازو پر ہاتھ رکھا تو ایک دھاگہ بندھا دیکھا، فرمایا۔ یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی : گنڈہ ہے۔ آپ نے اس کو توڑ کر پھینک دیا اور فرمایا؛۔
لو مت علی ھذا لما صلیت علیک
یعنی اگر تو اس حال میں مرجاتا تو میں تیری نمازِ جنازہ نہ پڑھتا
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے بچھو نے کاٹ لیا، تو میری ماں نے مجھے قسم دی کہ میں جھڑواؤں: چنانچہ میں نے اپنے اچھے ہاتھ کو جھروا لیا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبداللہ آئے اور میری گردن میں ایک دھاگہ پڑا دیکھا تو فرمایا؛ یہ دھاگہ کیسا ہے؟ میں نے کہا گنڈہ ہے۔ انہوں نے فوراً اسے توڑ ڈالا اور فرمایا؛۔
ان ال عبداللہ لاغنیاء عن الشرک۔
یعنی بے شک عبداللہ کی آل ، شرک سے بری ہے۔
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں؛۔
یرحم اللہ اقواماً لا یعرفون الھلیج ولا البلیج
یعنی اللہ ان لوگوں کے حال پر رحم کرے جو ہلیج و بلیج کو نہیں پہنچانتے
امام سمرقندی لکھتے ہیں؛۔ وجہ اسکی یہ تھی کہ یہ ایک ظنی امر ہے۔ اور معلوم نہیں کہ شفا کس میں ہے ؛ لہٰذا یہ سب کرانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
یہ دیکھیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کیا خوب بات فرمائی ہے؛۔
لا تحموا المریض عما یشتھی فلعل اللہ یجعل شفاء ہ فی بعض مایشتھی۔
یعنی بیمار کو اس چیز سے نہ روکو جس کو اس کا دل چاہے ۔ کیا پتہ کہ اللہ نے اس کے لیئے اس میں شفا رکھی ہو۔
تعویذ وعلاج کو جائز سمجھنے والوں کی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے:
ان اللہ تعالیٰ لم ینزل داء الا وقد انزلہ دواء السام والھرم، فعلیکم بالبان البقر فانھا تخلط من کل شجرۃ ۔ وفی خبر آخر۔ فانھا ترعی من کل شجرۃ۔
یعنی اللہ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا جس کی دوا نہ ہو سوائے موت اور بڑھاپے کے، لہٰذا گائے کا دودھ پیا کرو؛ اسلیئے کہ وہ ہرقسم کی گھاس چرتی ہے اور ہردرخت سے کھاتی ہے۔
حضرت سفیان بن عیینہ ، زیاد بن علاقہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت اسامہ بن شریک نے فرمایا؛۔ میں مکہ معظمہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور گنوار لوگ آپ سے سوال کررہے تھے کہ کیا دوا کرنے میں گناہ ہے؟
آپ نے ارشاد فرمایا؛۔
تداووا عبداللہ فان اللہ تعالیٰ لم یخلق داء الا وقد وضع لہ شفآء
تخریج ؛ سنن ابن ماجہ : 2/1134 رقم الحدیث 3436۔ صحیح ابن حبان 13/426 ح 6061 ۔ مسند حمیدی 2/363 ح 824۔ مستدرک الحاکم 4/399 ح 8206
ترجمہ؛۔ اے اللہ کے بندو! دوا کرو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں پیدا کی جس کی شفا نہ پیدا کی ہو۔
حضرت حجاج بن ارطاۃ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا سے تعویذ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا؛۔
ماسمعنا بکراھیتہ الا من قبلکم یا معشر اھل العراق
یعنی اے عراقیو! ہم نے تمہارے علاوہ کسی اور کو یہ کہتے نہیں سنا کہ تعویذ مکروہ یا ناجائز ہے۔
چونکہ عبادت کا قوام بدن ہے۔ تو جس طرح ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم احکام سیکھیں؛ تاکہ عبادت درست طور پر بجالائیں۔ اسی طرح علم طب اور وہ علاج جس میں بدن کی اصلاح ہو کہ اگر ہم اس پر عمل کریں یا اسکو سیکھیں ؛ تاکہ عبادت درست طور پر ادا کرسکیں تو اس میں کچھ حرج اور مضائقہ نہیں۔
مزید یہ کہ بہت سے احکام رائے سے تبدیل ہوتے ہیں اور وہاں کوئی نص نہیں ہوتی اور نہ ہی یقین ہوتا ہے۔ بالکل یہی حال طب کا ہے؛۔ کیونکہ یہ بھی رائے اور تجربہ سے حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کا استعمال جائز ہے۔ لیکن علم طب کی حیثیت وہ نہیں جو احکام دین کی ہے!۔
رہیں وہ حدیثیں جو ان کی ممانعت میں وارد ہوئی ہیں وہ سب منسوخ ہیں ۔ کیا آپ تک حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی خبر نہیں پہنچی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت جھاڑ پھونک سے منع فرمایا، اور آل عمرو بن حزم کو چونکہ جھاڑنے کا ایک طریقہ آتا تھا جس سے وہ بچھو کے کاٹے کو جھاڑتے تھے۔ تو وہ فوراً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے جھاڑنے کی داستان سنا کر عرض کی کہ سنا ہے آپ نے جھاڑنے سے ممانعت فرمادی ہے؟۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا؛۔
ما اری بھا باسا من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلیفعل
تخریج؛۔صحیح مسلم 11/198 ح 4076۔۔۔ مسند احمد 28/412 ح 13863۔۔۔ مصنف ابن ابی شیبہ : 5/437
ترجمہ: یعنی میں اس میں کچھ حرج نہیں دیکھتا جو کوئی تم میں سے اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہے تو ایسا کرے۔
ممانعت کا راز شاید یہ رہا ہو کہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ شفا دوا میں ہے۔ لیکن اگر کوئی یوں جانے کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوا محض سبب ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور اس کے جواز میں بہت سی احادیث آئی ہیں۔
آپ یقیناً باخبر ہوں گے کہ غزوہ احد میں جب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے تو آپ نے اپنے زخم کا علاج پرانی ہڈی سے کیا تھا۔
روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ ایک انصاری کے رگ اکحل میں تیر لگ گیا تھا، تو آپ کے حکم سے اسے داغ دیا گیا۔
حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ معوذتین (سورہ فلق اور سورہ الناس) سے جھاڑا کرتے تھے۔ اور اس باب میں حدیث و آثار بے شمار ہیں۔
اختتام ِ کلام حضرت عارف باللہ شیخ فقیہہ ابواللیث سمرقندی الحنفی (م 275ھ) مخطوطہ
Manuscript Scans