Post by zarbehaq on Aug 17, 2016 16:03:51 GMT
گزارش: ہیمفرے کے اعترافات دنیائے کتب میں مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ شائع ہوچکے ہیں کافی پہلے سے ہی، یہاں پر اس کے پہلے ۱۵ صفحات کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے اور ہماری گزارش ہے کہ پڑھنے والے اس کو آج کے دور کے تناظر کو ذہن میں رکھ کر پڑھیں۔ نوٹ ہمارے اپنے ہیں۔
ہمفرے کے اعترافات سے ۔ ہیمفرے نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ
مدتوں حکومت برطانیہ اپنی عظیم نوآبادیوں کے بارے میں فکر مند رہی اور اسکی سلطنت کی حدود نے اتنی وسعت اختیار کی اب وہاں سورچ بھی غروب نہیں ہوتا تھا لیکن ہندوستان چین اور مشرق وسطیٰ کے ممالک اور دیگر بے شمار نوآبادیوں کے ہوتے ہوئے بھی جزیرہ برطانیہ بہت چھوٹا دکھائی دیتا تھا۔ حکومت برطانیہ کی سامراجی پالیسی بھی ہر ملک میں یکساں نوعیت کی نہیں ہے۔ بعض ممالک میں عنان حکومت ظاہراً وہاں کے لوگوں کے ہاتھ میں ہے لیکن درپردہ پورا سامراجی نظام کارفرما ہے۔ اور اب اس میں کوئی کسر باقی نہیں ہے کہ وہ ممالک اپنی ظاہری آزادی کھو کر برطانیہ کی گود میں چلے آئیں۔ اب ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے نوآبادیاتی نظام پر نظرثانی کریں اور خاص طور پر دوباتوں پر لازمی توجہ دیں۔
1۔ ایسی تدابیر اختیار کریں جو سلطنت کی نوآبادیوں میں اس کے عمل دخل اور قبضے کو مستحکم کریں۔
2۔ ایسے پروگرام مرتب کریں جن سے ان علاقوں پر ہمارا اثر و رسوخ قائم ہو جا ابھی ہماری نوآبادیاتی نظام کو شکار نہیں ہوئے ہیں۔ (نوٹ: جیسے آجکل یو ایس ایڈ پروگرام ، آئی ایم ایف وغیرہ)۔
انگلستان کی نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت نے مذکورہ پروگراموں کو رو بہ عمل لانے کے لیئے اس بات کی ضرورت محسوس کی کہ وہ نوآبادیاتی یا نیم نوآبادیاتی علاقوں میں جاسوسی اور حصولِ اطلاعات کے لیئے وفود روانہ کرے۔ میں نے نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت میں ملازمت کے شروع ہی سے حسن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر (ایسٹ انڈیا کمپنی) کے امور کی جانچ پڑتال کے سلسلے میں اچھی کارکردگی نے مجھے وزارتِ خزانہ میں ایک اچھے عہدے پر فائز کیا۔ یہ کمپنی بظاہر تجارتی نوعیت کی تھی مگر درحقیقت جاسوسی کا اڈا تھا اور اس کے قیام کا مقصد ہندوستان میں ان صورتوں یا ان راستوں کی تلاش تھی جن کے ذریعے اس سرزمین پر مکمل طور پر برطانیہ کا اثر ونفوذ قائم ہوسکے اور مشرق وسطیٰ پر اسکی گرفت مضبوط ہوسکے۔
نوٹ:۔ یعنی جیسے آجکے دور میں میڈیا پر غیرملکی کمپنیوں کے ہمارے دشمن اشتہارات دکھائے جاتے ہیں اور دیگر اداروں سے لوگ پکڑے گئے ہیں
ان دنوں انگلستان کی حکومت ہندوستان سے بڑی مطمئن اور بے فکر تھی کیونکہ قومی، قبائیلی اور ثقافتی اختلافات مشرق وسطیٰ کے رہنے والوں کو اس بات کی فرصت ہی کہاں رہنے دیتے تھے کہ وہ انگلستان کے جائزہ اثرورسوخ کے خلاف کوئی شورش برپا کرسکیں۔ یہی حال چین کی سرزمین کا بھی تھا۔ بدھ اور کنفیوشس جیسے مردہ مذاہب کے پیروکاروں کی طرف سے بھی انگریزوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا اور ہندوچین میں کثرت سے باہمی اختلافات کے پیش نظر یہ بات بعید از قیاس تھی کہ وہاں کے رہنے والوں کو اپنی آزادی اور استقلال کی فکر ہو۔
نوٹ: یعنی اگر یمفرے کے ان الفاظ کو حال پر لاگو کیا جائے تو یہی سب کچھ آج بھی ہورہا ہے صرف کردار اور جگہیں بدل گئی ہیں۔ چین نے تو سوشلسٹ ایجنڈہ لا کر اپنے لوگوں کو متحد کرلیا لیکن پاکستان کو ابھی تک اپنی بنیادوں یعنی اسلامی فلاحی نظام کے نفاذ کی توفیق نہیں ہوئی جو کہ کارآمد ترین نظامِ حکومت ہے بارہا کا تاریخ میں آزمایا ہوا۔
یہی وہ ایک موضوع تھا جو کبھی ان کے لیئے قابل توجہ نہیں رہا۔ تاہم یہ سوچنا بھی غیردانشمندی ہے کہ آئندہ کے پیش نظر انقلابات بھی ان قوموں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کریں گے۔ پس یہ بات سامنے آئی کہ ایسی تدابیر اختیار کی جائیں جن سے ان قوموں میں بیداری کی صلاحیت مفقود ہوجائے۔ یہ تدابیر طویل المعیاد پروگراموں کی صورت میں ان سرزمینوں پر جاری ہوئے جو تمام کے تمام افتراق ، جہالت، بیماری اور غربت کی بنیاد پر استوار تھے۔ ہم نے ان علاقوں کے لوگوں پر ان مصیبتوں اور بدبختیوں کو وارد کرتے ہوئے بدھ مت کی اس ضرب المثل کو اپنایا جس میں کہا گیا ہے۔
بیمار کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور پیر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دو بالآخر وہ دوا پوری کڑواہٹ کے باوجود پسند کرنے لگے گا۔
ہم نے باوجود اسکے کہ اپنے دوسرے بیمار یعنی سلطنت عثمانی سے کئی قراردادوں پر اپنے فائدہ میں دستخط کروالیئے تھے تاہم نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ایک صدی کے اندر ہی اس سلطنت کا پلہ بیٹھ سکتا ہے۔ ہم نے اسی طرح ایران کے زیر اثر سرگرم عمل رہے اور باوجود اسکے نظام کو بگاڑ کر رشوت ستانی عام کردی، بادشاہوں کے لیئے عیش و عشرت کے سامان فراہم کیئے اور اسطرح ان حکومتوں کی بنیادوں کو کسی حد تک پہلے سے زیادہ متزلزل کردیا تاہم عثمانی اور ایرانی سلطنتوں کی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے بھی ذیل میں بیان کی جانے والی بعض وجوہات کی بناء پر ہم اپنے حق میں کچھ زیادہ مطمئن نہ تھے اور وہ اہم ترین وجوہات یہ تھیں۔
اول۔ لوگوں میں اسلام کی حقیقی روح کا اثر ونفوذ جس نے انہیں بہادر، بے باک اور پرعزم بنا دیا تھا اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایک عام مسلمان، مذہبی بنیادوں پر ایک پادری کا ہم پلہ تھا۔ یہ لوگ کسی صورت میں بھی اپنے مذہب سے دستبردار نہیں ہوتے تھے۔ مسلمانوں میں شیعہ مذہب کے پیروکار جن کا تعلق ایران کی سرزمین سے ہے ، عقیدے اور ایمان کے اعتبار سے زیادہ مستحکم اور زیادہ خطرناک واقع ہوئے ہیں۔
شیعہ حضرات عیسائیوں کو نجس اور کافر مطلق سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ایک عیسائی ایسی متعفن غلاظت کی حیثیت رکھتا ہے جسے اپنے درمیان سے ہٹانا ہرمسلمان کےل یئے ضروری ہے۔ ایک دفعہ میں نے ایک شیعہ سے پوچھا:
تم لوگ نصاریٰ کو حقارت کی نگاہ سے کیوں دیکھتے ہو حالانکہ وہ لوگ خدا ، رسول اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں؟
اس نے جواب دیا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صاحب علم اور صاحب حکمت پیغمبر تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اس انداز سے کافروں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ دین اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
سیاسی میدان میں بھی جب کبھی حکومتوں کو کسی فرد یا گروہ سے کھٹکا ہوتا ہے تو وہ اپنی حریف پر سختیاں کرتی ہیں اور اسے راستے سے ہٹنے پر مجبور کرتی ہیں تاکہ بالآخر وہ اپنی مخالفتوں سے باز آجائے اور اپنا سر تسلیم خم کردے۔ عیسائیوں کے نجس اور ناپاک ہونے سے مراد ان کی ظاہری ناپاکی نہیں بلکہ باطنی ناپاکی ہے اور یہ بات صرف عیسائیوں ہی تک محدود نہیں ہے بلہ اس میں زرتشتی بھی شامل ہیں جو قومی اعتبار سے ایرانی ہیں، اسلام انہیں بھی (ناپاک) سمجھتا ہے۔
میں نے کہا: اچھا مگر عیسائی تو خدا، رسول اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں
اس نے جواب دیا:۔
ہمارے پاس انہیں کافر اور نجس گرداننے کے لیئے دو دلیلیں کافی ہیں پہلی دلیل تو یہ ہے کہ رسول اکرم علیہ السلام کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں۔ ہم بھی ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ تم لوگ ناپاک اور نجس ہو اور یہ تعلق عقل کی بنیاد پر ہے۔ کیونکہ جو تمہیں دکھ پہنچائے تم بھی اسے تکلیف دو۔
دوسرے یہ کہ عیسائی انبیاء و مرسلین پر جھوٹی تہمتیں باندھتے ہیں جو خود ایک بڑا گناہ اور ان کی بے حرمتی ہے۔ مثلاً وہ کہتےہیں؛۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام (نعوذ بااللہ) شراب پیتے تھے ، اسلیئے لعنت الٰہی میں گرفتار ہوئے اور انہیں سولی دی گئی۔
مجھے اس بات پر بڑا تاؤ آیا اور میں نے کہا:۔
عیسائی ہرگز ایسا نہیں کہتے۔
اس نے کہا:۔
تم نہیں جانتے (کتاب مقدس) میں یہ تمام تہمتیں وارد ہیں۔
اس کے بعد اس نے کچھ نہیں کہا اور مجھے یقین تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اگرچہ میں نے سنا تھا کہ بعض افراد نے بیغمبر اسلام پر جھوٹ کی نسبت کی ہے لیکن میں اس سے زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں میرا بھانڈا نہ پھوٹ جائے اور لوگ میری اصلیت سے واقف نہ ہوجائیں۔
دوم؛۔ مذہب اسلام تاریخی پس منظروں کی بنیاد پر ایک حریت پسند مذہب ہے اور اسلام کے سچے پیروکار آسانی کے ساتھ غلامی قبول نہیں کرتے۔ ان کے پورے وجود میں گزشتہ عظمتوں کا غرور سمایا ہوا ہے یہاں تک کہ اپنے اس ناتوانی اور پرفتور دور میں بھی وہ اس سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہیں۔ ہم اس بات پر قادر نہیں ہیں کہ تاریخ اسلام کی من مانی تفسیر پیش کرکے انہیں یہ بتائیں کہ تمہاری گزشتہ عظمتوں کی کامیابی ان حالات پر منحصر تھی جو اس زمانے کا تقاضا تھا مگر اب زمانہ بدل چکا ہے اور نئے تقاضوں نے ان کی جگہ لے لی ہے اور اب گزشتہ دور میں واپسی ناممکن ہے۔
نوٹ؛ غور کریں یمفرے کے الفاظ پراور موجودہ دور میں سوچیں کہ کون لوگ ہیں جو کہ اس پاک وطن میں اسلامی نظام کے مخالف ہیں کہنے کو لبرل بنتے ہیں لیکن اس سے بھی بڑی بات کہ یمفرے نے من مانی والی تفسیرات کی بات کی اور پھر تاریخ ہم بھی جانتے ہیں کہ ابن عبدالوہاب نجدی اور پھر اسکی اندھی تقلید میں اس کے پیروکاروں نے برصغیر میں وہابی اور دیوبندی فرقوں کی بنیاد رکھی تاکہ امت کو ان کی اصل تفاسیر سے ہٹا کر ان کے جذبہ حریت کو ختم کیا جاسکے اور وہابیوں دیوبندیوں نے ایسی تفاسیر گاڑھی ہیں جس میں وہ اپنی من مانی باتیں فورس کرتے ہیں جسکے ثبوت ہم مکاشفہ قرآنی تفسیرات اور فورم کے سکشن میں دے چکے ہیں۔ آگے ہیمفرے لکھتا ہے!۔
سوم:۔ ہم ایرانی اور عثمانی حکومتوں کی دوراندیشیوں اور کاروائیوں سے محفوظ نہیں تھے اور ہرآن کھٹکا رہتا تھا کہ کہیں وہ ہماری سامراجی پالیسی سے باخبر ہوکر ہمارے کئے دھرے پر پانی نہ پھیر دیں۔ یہ دونوں حکومتیں جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے بہت کمزور ہوچکی تھیں، اور ان کا اثر ورسوخ صرف اپنی سرزمین کی حد تک محدود تھا۔ وہ صرف اپنے ہی علاقے میں ہمارے خلاف اسلحہ اور پیسہ جمع کرسکتے تھے تاہم ان کی بدگمانی ہماری آئندہ کامیابیوں کے لیئے عدم اطمینان کا سبب تھی۔
چہارم؛۔ مسلمان علماء بھی ہماری تشویش کا باعث تھے۔ جامعہ الازھر کے مفتی اور ایران و عراق کے شیعہ مراجع ہمارے سامراجی مقاصد کی راہ میں ایک عظیم رکاوٹ تھے۔ یہ علماء جدید علم و تمدن اور نئے حالات سے یکسر بے خبر تھے اور ان کی تنہا توجہ اس جنت کے لیئے تھی جس کا وعدہ قرآن نے انہیں دے رکھا تھا۔ یہ لوگ اسقدر متعصب تھے کہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔
نوٹ؛ ایک منٹ ذرا توقف کریں اور ہیمفرے کی اس بکواس اور تعصب کو ملاحظہ کریں کہ وہ مسلمان جو اس وقت گرم اور ٹھنڈے حمام استعمال کرتے تھے جب یہ نصاریٰ اور یہودی گندگی اور تعفن میں بھرے رہتے تھے یہ اب ہمیں تمدن سکھانے چلے ہیں۔ حالانکہ علماء نے کبھی علم کی نفی نہیں کی بلکہ یہ جس سائنس پر اتراتے ہیں اسکی بنیادیں ہمارے ہی مسلمانوں نے رکھی تھی۔ پہلے چنگیز نے علم کو آگ لگائی پھر ان لوگوں نے اور ہمارے ہی ترجمہ کیئے کتب کو آج بھی انہوں نے مینیو سکرپٹس کے طور پر اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ یعنی ہمارے ہی علم پر خود کی سائنس کو بنا کر اس پر اتراتے ہیں۔ جبکہ ہمارے علماء کا اصل مقصد یہ تھا کہ جو سائنسی تحقیق مسلمان اپنے طور پر کرتا ہے مذہب کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے وہی تمدن اور تہذیب ہمارے لیئے کافی تھی۔ لہٰذا ایک طرف اس کو برباد کیا ان نصاریوں نے اور دوسری طرف ہمارا ہی علم چوری کرکے اس پر اتراتے پھرتے ہیں لہٰذا ہیمفرے کے اعترافات میں ایسی خرافات پر بھی گہری نظر رکھنی ضروری ہے یہ بھی پراپیگنڈہ ہے۔
آگے لکھتا ہے؛۔
بادشاہ اور امراء سمیت تمام افراد ان کے آگے چھوٹے تھے۔ اہلسنت حضرات شیعوں کی نسبت اپنے علماء سے اسقدر خوفزدہ نہیں تھی اور ہم دیکھتے ہیں کہ عثمانی سلطنت میں بادشاہ اور شیخ الاسلام کے درمیان ہمیشہ خوشگوار تعلقات برقرار رہے تھے اور علماء کا احترام کرتے تھے ۔ مذہبی علماء سے ان کا لگاؤ ایک حقیقی لگاؤ تھا لیکن حکام یا سلاطین کو وہ کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ بہرحال سلاطین اور علماء کی قدردانی سے متعلق شیعہ اور سنی نظریات کا یہ فرق نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت اور انگریزی حکومت کی شورش میں کمی کا باعث نہیں تھا
ہم نے کئی بار ان ممالک کے ساتھ آپس کی پیچیدہ دشواریوں کو دور کرنے کے سلسلے میں گفتگو کی لیکن ہمیشہ ہماری گفتگو نے بدگمانی کی صورت اختیار کی اور ہم نے اپنا راستہ بند پایا۔ ہمارے جاسوسوں اور سیاسی کارکنوں کی درخواستیں بھی سابقہ مذاکرات کی طرح بری طرح ناکام رہیں لیکن پھر بھی ہم ناامید نہیں ہوئے کیونکہ ہم ایک مضبوط اور برشکیب قلب کے مالک ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ نوآبادیاتی علاقوں کے وزیر نے لندن کے ایک مشہور پادری اور 25 دیگر مذہبی سربراہوں کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا جو پورے تین گھنٹے تک جاری رہا اور جب یہاں بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا تو پادری نے حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا:۔
آپ لوگ اپنی ہمتیں پست نہ کریں، صبر اور حوصلہ سے کام لیں ، عیسائیت تین سو سال کی زحمتوں اور دربدری کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کی شہادت کے بعد عالمگیر ہوئی۔ ممکن ہے آئندہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نظر عنایت ہم پر ہو اور ہم تین سوسال بعد کافروں کو نکالنے میں کامیاب ہوں۔ پس ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے آپ کو محکم ایمان اور پائیدار صبر سے مزین کریں۔ اور ان تمام وسائل کوبروئے کار لائیں جو مسلمان خطوں میں عیسائیت کی ترویج کا سبب ہوں۔ اور اس میں ہمیں صدیوں کا عرصہ بھی گزر جائے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، آباؤاجداد اپنی اولاد کے لیئے بیج بوتے ہیں۔
نوٹ؛ اسی بات سے ان نصاریوں کی جہالت کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کی اپنی کتاب مقدس میں لکھا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو صرف بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا تھا۔ لہٰذا ان کو اپنے رومن دھرم کو عیسائیت کے نام سے فروغ دینے کی اس خواہش کو فقط جہالت نہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے عین الٹ کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ عیسی ٰ علیہ السلام کے مطابق وہ (ہاؤس آف اسرائیل) کے لیئے بھیجے گئے تھے نا کہ (ہاؤس آف ایڈم) کے لیئے۔ یعنی اس دور کی صیہونیت اور کفر نے اسطرح تلوار اور لوگوں کو اسلام کے خلاف اکسا کر اور اسلام کو ان کا ایک خودساختہ دشمن شو کرکے بلاوجہ اسلامی ممالک پر چڑھائی کی تھی جس کو دنیا آج کروسیڈ کے نام سے جانتی ہے اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں اسلامی ممالک کی تباہی میں یہ سب فتنے ایک ہیں۔ ان کا عیسیٰ علیہ السلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں اور ان کی ہی کتابِ مقدس میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب عیسی ٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے تو وہ ان کو اپنا ماننے سے انکار کردیں گے۔
یمفرے نے آگے لکھا ہے کہ؛۔
ایک دفعہ پھر نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت میں روس، فرانس اور برطانیہ کے اعلیٰ نمائندوں پر مبنی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ کانفرنس کے شرکاء میں سیاسی وفود ، مذہبی شخصیتیں اور دیگر مشہور ہستیاں شامل تھیں۔ حسن اتفاق سے میں بھی وزیر سے قریبی تعلقات کی بنا پراس کانفرنس میں شریک تھا ۔ موضوع ء گفتگو اسلامی ممالک میں سامراجی نظام کی ترویج اور اس میں پیش آنے والی دشواریاں تھا۔
شرکاء کا غورفکر اس بات میں تھا کہ ہم کسطرح مسلم طاقتوں کو درہم برہم کرسکتے ہیں اور ان کے درمیان نفاق کا بیج بو سکتے ہیں۔ گفتگو ان کے ایمان کے تزلزل کے سلسلے میں تھی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو اسی طرح راہ راست پر لایا جاسکتا ہے جسطرح اسپین کئی صدیوں کے بعد عیسائیوں کی آغوش میں چلا آیا تھا۔ کیا یہ وہی ملک نہیں تھا جسے وحشی مسلمانوں نے فتح کیا تھا؟ کانفرنس کے نتائج زیادہ واضح نہیں تھے۔ میں نے اس کانفرنس میں پیش آنے والے تمام واقعات کو اپنی کتاب (عظیم مسیح کی سمت ایک پرواز) میں بیان کردیا ہے۔
حقیقتاً مشرق سے مغرب تک پھیلاؤ رکھنے والے عظیم اور تناور درخت کی جڑوں کو کاٹنا اتنا آسان کام نہیں۔ پھر بھی ہمیں ہر قیمت پر ان دشواریوں کا مقابلہ کرنا ہے کیونکہ عیسائی مذہب اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے۔
نوٹ: پھر سے وہی جہالت۔ کس عیسیٰ علیہ السلام نےان کو دین کا ٹھیکیدار بنایا وہابی دیوبندی کی طرح؟ روم کے سرکاری مذہب کو عیسائیت کا نام دینا بھی ان کی بدترین خباثت کا آئینہ دار ہے۔
آگے لکھتا ہے؛۔
عیسائی مذہب اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب ساری دنیا ان کے قبضہ میں آجائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے سچے پیروکاروں کو اس جہانگیری کی بشارت دی ہے۔
نوٹ: دوبارہ سے جہالت کا اظہار۔ کیونکہ جہانگیری ان کے ہاتھ کی بجائے یہودیوں کے ہاتھ میں ہے اور ان کا اپنا عیسائی معاشرہ لادین اور ملحد ہوچکا ہے۔ یمفرے لکھتا ہے؛۔
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کامیابی ان اجتماعی اور تاریخی حالات سے وابستہ تھی جو اس دور کا تقاضا تھا۔ ایران و روم سے وابستہ مشرق و مغرب کی سلطنتوں کا انحطاط دراصل بہت کم عرصے میں حضرت محمد علیہ السلام کی کامیابی کا سبب بنا۔ مسلمانوں نے ان عظیم سلطنتوں کو زیر کیا، مگر اب حالات بالکل مختلف ہوچکے ہیں اور اسلامی ممالک بڑی تیزی سے روبہ زوال ہیں اور اسکے مقابلے میں عیسائی روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ عیسائی مسلمانوں سے اپنا بدلہ چکائیں اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کریں۔ اس وقت سب سے بڑی عیسائی حکومت عظیم برطانیہ کے ہاتھ میں ہے جو دنیا کے طول و عرض میں اپنا سکہ جمائے ہوئے ہے اور اب چاہتا ہے کہ اسلامی مملکتوں سے نبرد آزمائی کا پرچم بھی اسی کے ہاتھ میں ہو۔
1710ء میں انگلستان کی نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت نے مجھے مصر، عراق، ایران، حجاز اور ان کے مراکز استنبول (آج کا استنبول اس وقت قسطنطنہ تھا) کی جاسوسی پرمامور کیا ۔ مجھے ان علاقوں میں وہ راہیں تلاش کرنی تھیں جن سے مسلمانوں کو درہم برہم کردکے مسلم ممالک میں سامراجی نظام رائج کیا جاسکے۔ میرے ساتھ نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت کے نو 9 اور بہترین تجربہ کار جاسوس اسلامی ممالک میں اس کام پر مامور تھے اور بڑی تندہی سے انگریز سامراجی نظام کے تسلط اور نوآبادیاتی علاقوں میں اپنے اثر ونفوذ کے استحکام کے لیئے سرگرم عمل تھی۔ ان وفود کو وافر مقدار میں سرمایہ فراہم کیا گیا تھا۔ یہ لوگ بڑے مرتب شدہ نقشے اور بالکل نئی اور تازہ اطلاعات سے بہرہ مند تھے۔ ان کو امراء، وزراء، حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں اور علماء و روؤسا کے ناموں کی مکمل فہرست دی گئی تھی۔ نو آبادیاتی علاقوں کے معاون وزیر نے ہمیں روانہ کرتے ہوئے خدا حافظی کے وقت جو بات کہی، وہ آج بھی مجھےا چھی طرح یاد ہے۔ اس نے کہا تھا؛۔
تمہاری کامیابی ہمارے ملک کے مستقبل کی آئینہ دار ہوگی لہٰذا اپنی تمام تر قوتوں کو بروئے کار لاؤ تاکہ کامیابی تمہارے قدم چومے۔
میں خوشی خوشی بحری جہاز کے ذریعے استنبول کے لیئے روانہ ہوا۔ میرے ذمے اب دو کام تھے۔ پہلے ترکی زبان پر عبور حاصل کرنا جو ان دنوں وہاں کی قومی زبان تھی۔ میں نے لندن میں ترکی زبان کے چند الفاظ سیکھ لیئے تھے۔ اس کے بعد مجھے عربی زبان ، قرآن ، اسکی تفسیر اور پھر فارسی سیکھنا تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کسی زبان کو سیکھنا اور ادبی قواعد، فصاحت اور مہارت کے اعتبار سے اس پر پوری دسترس رکھنا دو مختلف چیزیں ہیں ۔ مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ میں ان زبانوں میں ایسی مہارت حاصل کروں کہ مجھ میں اور وہاں کے لوگوں میں زبان کے اعتبار سے کوئی فرق محسوس نہ ہو۔ کسی زبان کو ایک دوسال میں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اس پر عبور حاصل کرنے کے لیئے برسوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔ میں اس بات پر مجبور تھا کہ ان غیرملکی زبانوں کو اسطرح سیکھوں کہ اسکے قواعد و رموز کا کوئی نقطہ فروگذاشت نہ ہو اور کوئی میرے ترک، ایرانی یا عرب ہونے پر شک نہ کرے۔
ان تمام مشکلات کے باوجود میں اپنی کامیابی کے سلسلے میں ہراساں نہیں تھا کیونکہ میں مسلمانوں کی طبیعت سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ ان کی کشادہ قلبی ، حسن ظن اور مہمان نواز طبیعت جو انہیں قرآن و سنت سے ورثے میں ملی تھی انہیں عیسائیوں کی طرح بدگمانی اور بدنیتی پر محمول نہیں کریگی اور پھر دوسری طرف سے عثمانی حکومت اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ اب اس کے پاس انگلستان اور غیرملکی جاسوسوں کی کاروائیاں معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں تھا جو حکومت کو ان نامطلوب عناصر سے باخبر رکھ سکے۔ فرمانروا اور اسکے مصاحبین پورے طور پر کمزور ہوچکے تھے۔
نوٹ؛ انہیں لائنوں کو آج کے حالات پر منطبق کرکے دیکھیں۔ اقرارِ حق دیکھ کر بھی ان کے بدباطن سدھرنے کو تیار نہیں اسی لئے فرمایا گیا کہ یہ لوگ کبھی تمہارے دوست نہیں ہوں گے۔ ان کے اندرونی تعصب اور ان کے سامراجی نظام نے ہی تو آج بھی آزاد ہوئے ممالک کو نام نہاد جمہوریت کے نام سے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ بوتل نئی ہے شراب وہی پرانی۔
کئی مہینے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد آخرکار ہم عثمانی دارالخلافہ میں پہنچے ۔ جہاز سے اترنے سے پہلے میں نے اپنے لیئے (محمد) کا نام تجویز کیا اور جب میں شہر کی جامع مسجد میں داخل ہوا تو وہاں لوگوں کے اجتماعات، نظم و ضبط اور صفائی ستھرائی دیکھ کر خوش ہوا اور دل ہی دل میں کہا: آخر کیوں ہم ان پاک دل افراد کے آزار کے درپے ہیں؟۔ اور کیوں ان سے ان کی آسائش چھیننے پر تلے ہوئے ہیں؟۔ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس قسم کے ناشائستہ امور کی تجویز دی تھی؟ لیکن فوراً ہی میں نے اس شیطانی وسوسوں اور باطل خیالات کو ذہن سے جھٹک کر استغفار کیا اور مجھے خیال آیا کہ میں تو برطانیہ عظمیٰ کی نوآبادیاتی وزارت کا ایک ملازم ہوں اور مجھے اپنے فرائض دیانتداری سے انجام دینے چاہیئں اور منہ سے لگائے ہوئے ساغر کو آخری گھونٹ تک پی جانا ہے۔
اختتام ترجمہ 15 صفحات از اعترافاتِ ہیمفرے