Post by Admin on Nov 3, 2016 15:00:22 GMT
امام الاعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ پر ارجاء کا الزام اور مخالفین کے اپنے مولانا کا ردِ الزام
باطل فرقوں میں سے ایک فرقہ مرجیہ بھی تھا جو کہ باطل اور گمراہ فرقہ ہے، وہابی حضرات کے کئی مصنفین اس خدشہ میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں کہ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کا تعلق بھی اسی فرقہ مرجیہ سے ہے (معاذاللہ)۔ وہابی دھرم کے عبدالغفور اثری نے جہاں متعدد خیانتوں کا ارتکاب کیا ہے وہیں پر اپنی ایک کتاب (اصلی اہلِ سنت ص 33) پر بعنوان (کیا امام ابوحنیفہ مرجیانہ اور جہمیانہ خیال رکھتے تھے؟) آپ کو بزعم خود مرجئی اور جہمی ثابت کرکے (کلھم فی النار) کے زمرہ میں شامل کیا ہے۔ (معاذ اللہ)۔
یہ امام صاحب پر ایسا سیاہ بہتان ہے جسکی مثال دنیا مین شاید ہی مل سکے۔ ولاحول ولاقوۃ الاباللہ۔
غیرمسلموں کو دولتِ ایمان سے مشرف کرنے والے اور مسلمانوں کو ذوق عبادت کا راز سمجھانے والے امام پر کیسا الزام سوجھا۔ جبکہ امام اعظم اس عظمت و شان کے حامل ہیں کہ جنکی بزرگی ورفعت کے خود وہابی اکابر بھی معترف و مدح سرا ہیں۔
ابراہیم میر سیالکوٹی کا وضاحتی بیان
وہابیہ کے امام العصر ابراہیم میر سیالکوٹی لکھتے ہیں؛۔
نعیم کی شخصیت ایسی نہیں کہ اس کی روایت کی بناء پر حضرت امام ابوحنیفہ جیسے بزرگ امام کے حق میں بدگوئی کریں جن کو حافظ شمس الدین ذہبی جیسے ناقد الرجال امام کے معزز لقب سے یاد کرتے ہیں اور آپ کے حق میں لکھتے ہیں: احد ائمۃ الاسلام والسادۃ الاعلام واحد ارکان العلماء واحد الائمۃ الاربعۃ اصحاب المذاھب المتبوعۃ الخ۔۔۔ نیز امام یحییٰ بن معین سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ آپ (امام الاعظم ابوحنیفہ) ثقہ تھے اہل الصدوق تھے، کذب سے متہم نہ تھے، نیز عبداللہ بن داؤد حرینی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مناسب ہے کہ اپنی نماز میں امام ابوحنیفہ کے لیئے دعا کیا کریں کیونکہ انہوں نے ان پر فقہ اور سنن (نبویہ) کو محفوظ رکھا۔ (البدایۃ والنہایہ جلد دہم 107)۔ (تاریخ اہل حدیث صفحہ 45 مطبوعہ مکتبہ رحمٰن سلفیہ سرگودھا، و تاریخ اہل حدیث مکتبہ قدوسیہ لاھور مختلف صفحات)۔
عبدالغفور اثری کے بزرگ ابراہیم میر تو امام اعظم رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ واسعاً کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، لیکن اثری صاحب امام اعظم کو جہنمی قرار دیتے نہیں شرماتے، اگر اتنے بڑے عالم اسلام اور محسن دین کے لیئے بھی بابِ جنت بند ہے تو پھر اور کس کے لیئے درِ جنت کھلے گا؟
حضرت امام اعظم پر وہابیوں (یعنی فرقہ جدیدہ) کے گھسے پٹے اورمتعدد بار تردید شدہ الزامات کی تفصیل تو کسی اور جگہ پر بیان کی جائے گی سردست یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت امام صاحب پر ارجاء کا الزام محض غلط ، بے بنیاد اور حقیقتِ حال سے کوسوں دور ہے اور یہ وضاھت اپنے اکابرین کے قلم سے نہیں بلکہ وہابی فرقے کے مایہ ناز مصنف ابراہیم میر سیالکوٹی کے قلم سے ملاحطہ ہو!
وہ لکھتے ہیں؛۔
اس موقع پر اس شبہ کا حل بھی نہایت ضروری ہے کہ بعض مصنفین نے سیدنا امام ابوحنیفہ کو بھی رجال مرجیہ میں شمار کیا ہے۔ حالانکہ آپ اہلسنت کے بزرگ امام ہیں۔ اور آپ کی زندگی اعلیٰ درجے کے تقویٰ اور تورع پر گذری۔ جس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ (بحوالہ تاریخ اہل حدیث ص 39) مزید لکھتے ہیں؛۔ آپ پر یہ بہتان ہے۔ (تاریخ اہل حدیث ص 40)۔
آپ کو مرجئی کہنا جھوٹ ہے؛۔
ابراہیم میر سیالکوٹی علامہ شہرستانی کے حوالہ سے لکھتے ہیں؛۔
اور تعجب ہے کہ غسان (مرجیوں میں فرقہ غسانیہ کا پیشوا) امام ابوحنیفہ سے بھی مثل اپنے مذہب کے نقل کیا کرتا تھا اور آپ کو مرجیوں میں شمار کرتتا تھا اور غالباً یہ جھوٹ ہے۔ (تاریخ اہلحدیث ص 40)۔
غالباً نہیں یقیناً جھوٹ ہے۔۔۔ بدبخت غسان نے اپنی شہرت کے لیئے امام صاحب کا نام استعمال کیا اور آپ کو مرجئی بتا کرآپ پر بہت شرمناک جھوٹ باندھا۔ غسان کے اس جھوٹ و بہتان کی وجہ سے کئی حضرات غلطی کا شکار ہوگئے اور تحقیق نہ کرنے کی وجہ سے امام صاحب پر مرجئی ہونے کا بے بنیاد فتویٰ جڑ دیا اور اثری صاحب جیسے ناتجربہ کار وہابی مؤلفین نےا س پہ ڈیرہ جما لیا اور تحقیق نہ کرکے بہتان طرازی کا بدنما دھبہ اپنے چہرے پر سجا لیا اور ورق ورق اسی کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنی کذب بیانی اور کج روی کا واضح ثبوت فراہم کیا اور اسطرح اپنا ایمان اور عاقبت برباد کرڈالی۔
انہیں وہابیہ کے میر صاحب نے تذکرۃ الحفاظ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ امام یحییٰ بن معین سے نقل کرکے فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: امام ابوحنیفہ میں کوئی عیب نہیں اور آپ کسی برائی سے متہم نہ تھے۔ میر صاحب اس عبارت پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛۔
امام یحییٰ بن معین جرح میں متشددین سے تھے باوجود اسکے وہ امام ابوحنیفہ پر کوئی جرح نہیں کرتے۔ (تاریخ اہلحدیث ص 41 حاشیہ)۔
حضرت امام اور تردید مرجیہ
حضرت امام صاحب نہ صرف یہ کہ فرقہ مرجیہ سے بری تھے بلکہ علی الاعلان فرقہ مرجیہ کی تردید فرمایا کرتے تھے
وہابیوں کے ہی بزرگ محدث ابراہیم میرسیالکوٹی نے لکھا ہے؛۔
اسکے بعد ہم خود امام صاحب ممدوح کے کلام فیض التیام سے ثابت کرتے ہیں کہ آپ ارجاء اور مرجیہ سے، اعتزال اور اہل اعتزال سے بالکل بیزار اور بری ہیں۔چنانچہ آپ فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: اور ہم یہ نہیں کہتے کہ مومن کو گناہ مضر نہیں ہے اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ (بالکل دوزخ میں نہیں جائے گا) اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اگرچہ وہ (عمل میں) فاسق ہو۔ بشرطیکہ وہ دنیا سے ایمان کے ساتھ گیا ہو اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری نیکیاں (ضرور) مقبول ہیں اور ہماری برائیاں (ضرور) مغفور ہیں۔ جس طرح کہ مرجیہ کہتے ہیں۔ الخ (تاریخ اہلحدیث ص 47)۔
آخری دوٹوک جواب؛۔
یہ طویل عبارت لکھنے کے بعد ابراہیم میر (تبصرہ) کا عنوان جما کر لکھتے ہیں؛
اس عبارت میں حضرت امام صاحب موصوف نے معتزلوں اور خوارج کے مسائل سے بھی اختلاف کیا ہے اور مرجیوں کا نام لے کر ان سے بے زاری ظاہر کی ہے اور واضح ہے کہ جو شخص کسی فرقہ میں داخل ہو وہ اس فرقہ کا نام لے کے اسکی تردید نہیں کرتا۔ اس عبارت میں آپ نے خالص اہلسنت کے مسائل لکھے ہیں جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور صحابہ اور خیار تابعین ان پر کاربند تھے۔ (تاریخ اہلحدیث ص 48)۔
کتنے کھلے لفظوں میں خود وہابیہ کے اکابر نے امام صاحب کی اس الزام سے براءت ثابت کردی۔ اب بھی اگر نام نہاد اثری اور سلفی جیسے علم سے کورے، عقل سے عاری اور حقائق سے ناواقف، بغض و حسد کی آگ میں بھن کر حنفیت پر یاوہ گوئی کرے تو اس کو اپنے اندر رتی بھر ایمان بھی لانا چاہیئے۔
امام صاحب کو مرجئی کہنے کی دو وجوہات
ابراہیم میر سیالکوٹی نے اس بات کے جواب میں لکھا ہے
امام صاحب کو مرجئی کہنے کی دو وجہیں ہیں
1۔ علامہ محمد بن عبدالکریم شہرستانی الملل والنحل میں مرجیوں کے فرقوں کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کو مرجیوں میں کیوں شمار کیا گیا؟ شاید اسکا سبب یہ ہو کہ چونکہ آپ یعنی امام صاحب کا قول یہ ہے کہ ایمان (اصل میں) تصدیق قلبی کا نام ہے اور وہ نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے تو اس سے لوگوں نے سمجھ لیا کہ آپ عمل کو ایمان سے مؤخر کرتے ہیں اور وہ مرد(خدا) یعنی امام ابوحنیفہ عمل میں اسقدر پرہیزگار ہوتے ہوئے ترک عمل کا فتویٰ کس طرح دے سکتے ہیں (تاریخ اہلحدیث ص 46)۔
یعنی یہ ان لوگوں کی جہالت ہے کہ جنہوں نے حضرت امام صاحب کے قول و فعل کو نہ سمجھا اور بلاوجہ فتویٰ جڑ دیا کہ حضرت امام صاحب باطل فرقہ مرجیہ کی طرح عمل کو ضروری نہیں سمجھتے حالانکہ امام صاحب رضی اللہ عنہ فعل و عمل میں اسقدر متقی و پرہیزگار تھے کہ آپ کو دیکھ کر ہمعصروں کو رشک آتا تھا۔ یہ سمجھنے والوں کی اپنی فہم و فراست اور عقل و شعور کا قصور ہے، حضرت امام تو اس سے بری الذمہ ہیں۔
دوسری وجہ؛۔
ابراہیم میر سیالکوٹی ہی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛۔
اور اسکا سبب ایک اور بھی ہے کہ آپ قدریوں اور معتزلوں کے مخالف تھے جو صدر اول میں ظاہر ہوئے اور معتزلہ لوگ ہر اس شخص کو جو تقدیر کے متعلق ان کا مخالف ہو مرجئی کہتے تھے اسی طرح خوارج میں سے “وعیدیہ” لوگ بھی۔ پس بعید نہیں کہ آپ کو یہ لقب ہر دو فریق معتزلہ و خوارج سے الزاماً ملا ہو۔ واللہ اعلم (تاریخ اہلحدیث ص 46)۔
اگر غور کیا جائے تو یہی کام موجودہ مرجیہ وغیرہ اہلسنت کے ساتھ کرتے ہیں یعنی ان کو (کافر، مشرک بدعتی) کہتے نہیں تھکتے تاکہ ان کی اپنی کاروائیاں جاری رہ سکیں۔ لہٰذا الزام باطل ہے اور اسکا جواب بھی خود الزام لگانے والوں کے فالورز کے محدث نے دے رکھا ہے۔