Post by Admin on Mar 29, 2017 19:19:08 GMT
ارشد محمود کی کتاب تصورِ خدا اور سائنس میں پیش کردہ مکس معلوماتی متنجن کا آپریشن بمع حوالہ جات؛
یہود کےجھوٹے خدا:
ارشد محمود نے اپنی کتاب میں سائنسدان بن کر اسلام کے تصورِ خدا کو یا دوسرے الفاظ میں وحدانیت کے تصور کو مغربی فلاسفروں کی اندھی تقلید میں ایسا لکھا کہ جیسے یہود اور نصاریٰ سے یہ تصور اسلام میں آیا ہے حالانکہ بات ایسی نہیں ہے۔ یہ تصورِ آدم سے ہمارے ساتھ ہے۔ یوں لکھتے کہ یہود و نصاری نے درمیاں میں راہ گمر کرے
بھٹک کر دوبارہ پایا پھر آج دوبارہ بھٹکے ہوئے ہیں اور یہ رہے چند مستند تاریخی دلائل
یہود کے جھوٹے خدا؛ مسلمان یا اسلام کا وحدانیت کا مونو تھیئسٹ تصور ایسا نہیں جیسے یہود کا ہے کیونکہ۔ یہود ایسے کو خدا کہتے ہیں جو آسمان و زمین بنا کر اتنا تھکا کہ عرش پر جاکر پاؤں پر پاؤں رکھ کر چت لیٹ گیا (یا جیسے وہابیوں خوارجیوں تجسیمیوں کی طرح کرسی پر بیٹھتا ہے یا ابن تیمیہ کی طرح عرش پر سے اترتا ہے انسانوں کی طرح)۔ ایسے کو جو ان میں بعض کے نزدیک عزیر کا باپ ہے۔ ایسے کو جو ایک حکم دے ک اس کا پابند وہجاتا ہے زمانہ ومصالح کتنے ہی بدلیں اس کے بدلے دوسرا حکم نہیں بھیج سکتا۔ لہٰذا نسخ کے منکر ہیں (ارشد محمود کیا مسلمان نسخ کے منکر ہیں؟)۔ اور شریعتِ موسوی کو ابدی کہتے اور اس صریح کذب کا افتراء اپنے معبود کے سر دھرتے ہیں۔ ایسے کو جس نے آپ ہی قوم نوح پر طوفان بھیجا پھر اپنی اس حرکت پر ایسا نادم ہوا کہ اتنا رویا کہ آنکھیں دکھ آئیں، نسخ تو پچھتانا ٹھہر کر محال، حالانکہ اسے پچھتانے سے کوئی تعلق نہیں، رات کو دن کرتا ہے اور پھر دن کو رات کردیتا ہے۔ کوئی مجنوں ہی اسے پچھتانا کہے گا، جب احکام تکوینیہ میں یہ ہے احکامِ شریعیہ میں کون مانع ہے؟
خیر وہ تو پچھتانے کے خوف سے نہ بدل سکے مگر آدم کو بنا کر پچھتایا اور طوفان بھیج کر تو پچھتانے کا وہ طوفان آیا جس نے رلا رلا کر آنکھوں کا یہ دن کردکھایا۔ ایسے کو جس نے یہودی کے لیئے اسکی سگی بہن حلال کی اور توراۃ میں اسکی حرمت غلط لکھ دی۔ اسلیئے کہ شریعتِ آدم میں یقیناً حلت تھی اب حرام کرے تو منسوخی حکم سے پچھتانا ٹھہرے۔ ایسے کو جس نے خلیل و اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی دعا قبول کی اور ان سے کہا کہ میں نے اسمٰعیل اور اولادِ اسمٰعیل کو برکت دی اور تمام خیر وخوبی ان میں رکھی عنقریب تمام امتوں پر انہیں غالب کردوں گا اور ان میں انہیں سے اپنا رسول اپنے کلام کے ساتھ بھیجوں گا، پھر کیا کچھ نہیں بلکہ ان کا عکس کیا جیسا یہود بکتے ہیں۔
لہٰذا ان سب تناقصات کے ہوتے ہوئے (دیسی دھریے) کس منہ سے اسلام کے تصورِ وحدانیت کو (راہ گم کردہ بنو اسرائیل) یا نصاریٰ سے نتھی کرتے ہیں؟
نیچری کا تصورِ خدا:۔
نیچری ایسے کو خدا کہتا ہے جو نیچر کی زنجیروں میں جکڑا ہے اسکے خلاف کچھ نہیں کرسکتا اور نیچر بھی اُتنا جو نیچری کی سمجھ میں آئے جو اسکی ناقص عقل سے وراء ہے معجزہ ہو یا قدرت سب پادر ہوا ہے۔ ایسے کو جس نے (خاک بدہن ملعونان) جھوٹا دین اسلام بھیجا کہ اس میں باندی غلام حلال کیا (اگرچہ پیر نیچر کے نزدیک ابتداء ہی میں) اور وہ دین جس میں باندی غلام بنانا حلال ہوا ہو، نیچری کے نزدیک خدا کی طرف سے ہرگز نہیں ہوسکتا، ایسے کو جس نے مدتوں اسلام میں اپنی خلاف مرضی باتیں ناپاک چیزیں، اصلی ظلم، ٹھیٹ ناانصافی روا رکھی، ایسی بد باتیں بہائم کی حرکتیں کہ ایک لمحہ کے لیئے بھی یہ بات مانی نہیں جاسکتی کہ سچا مذہب جو خدا کی طرف سے اترا ہو اس میں ایسے امور جائز ہوں۔ ایسے کو جو ان سخت ظالموں، ٹھیٹ ناانصافوں جانور سے بدتر وحشیوں کو جن کاچھوٹا بڑا اول سے آج تک ان ناپاکیوں پر اجماع کیئے ہوئے ہے خیرالامم کا خطاب دیتا اور اپنے چنے ہوئے بندے کہتا ہے۔ ایسے کو جس نے کہا تو یہ کہ روشن آیتیں بھیجتا ہوں تمہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہوں اور کیا یہ کہ جو کہی کہہ مکرنی کہی تمثیلی داستاں پہیلیاں چیستاں، لفظ کچھ مراد کچھ جو لغۃً عرفاً کس طرح اسکا مفہوم نہ ہو۔ فرشتے، جن ، آسمان، شیطان، بہشت، دوزخ، حشر اجساد، معراج، معجزات سب باتیں بتائیں اور بتائیں بھی کیسی ایمانیات ٹھہرائیں اور من میں یہ کہ درحقیقت یہ کچھ نہیں یونہیں طوطا مینا کی سی کہانیاں کہہ سنائیں وغیرہ وغیرہ خرافاتِ ملعونہ ۔ تو کیا ان نیچریوں نے (خدا) کو پہنچانا؟۔۔
حوالہ و تفصیل؛ رسالہ سید احمد خاں پیرِ نیچر ابطال غلامی صفحہ 3۔ لکھتے ہیں؛ ایسی حالت صانع کی مرضی نہیں ہوسکتی صاف عیاں ہے کہ غلامی اس قادرِ مطلق کی مرضی اور قانونِ قدرت دونوں کے برخلاف ہے۔ صفحہ 20 ۔۔۔ غلامی خدا کی مرضی کے مطابق نہیں ہوسکتی کیا پاک پرودگار ہی ناپاک چیز کو انسان کے حق میں جائز کرتا۔ اصلی ظلم اور ٹھیٹ ناانصافی ہے، خدا ایسے قصور کا تقصیروار نہیں ہوسکتا (صفحہ 24) جو امور لونڈیوں اور قیدی عورتوں کے ساتھ جائز سمجھے جاتے ہیں کیا حرکاتِ بہائم سے کچھ زیادہ رتبہ رکھتے ہیں، کیا وہ کسی مذہب کے سچے اور خدا کے دئے پر دلیل ہوسکتے ہیں، خاشا وکلا ایک لمحہ کے لیئے بھی یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ سچا مذہب جو کدا کی طرف سے اترا ہو اس میں ایسے امور جائز ہوں۔ (صفحہ 25) یہودی مذہب نے غلامی کے قانون کو جائز سمجھا۔ اور عیسےٰ مسیح نے اسکی نسبت کچھ نہ کہا مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کہا اس کو کسی نے نہ سمجھا۔ صفحہ 29۔ زمانہ اسلام میں بھی غلامی کی رسم پر جب تک آیتِ حرمت نازل نہ ہوئی کچھ تھوڑا سا علمدرآمد ہوا، اس میں کچھ شک نہیں کہ قبل نزولِ آیتِ حریت جو غلام موجود تھے ان کو اسلام نے دفعۃً آزاد نہ کیا نہ ان کے تعلقات کو توڑا، ملاحظہ ہو موسوی، عیسوی محمدی تینوں دین باطل کردئے۔ موسوی تو یوں کہ اس نے غلامی کے قانون کو جائز رکھا، اور عیسوی یوں کہ عیسیٰ مسیح نے ایسی شدید بیحیائی ٹھیٹ ظلم پر کچھ نہ کہا، نبی کا کسی بات پر سکوت بھی اسے جائز کرنا ہے، اسلام یوں کہ صدراسلام میں غلامی کی رسم پر عمل درآمد رہا پھر جب اس مرتد کے زعم میں آیتِ آزادی اتری اس نے بھی اگلے حکموں کو برقرار رکھا، ان بے حیائیؤں کو معدوم نہ کیا۔ سود منع فرمایا۔ جب ت یہ حکم دیا کہ پہلے جو باقی رہا ہو وہ ابھی چھوڑ دو ورنہ اللہ و رسول سے لڑائی کو تیار ہوجاؤ، اور یہاں موجودہ ظلموں بےحیائیوں کو قائم رکھا جائز کردیا فقط آئیندہ کے لیئے اس کے زعم ملعون میں منع کیا، بہرحال تینوں دینوں میں ہمیشہ یا ایک زمانہ دراز تک رسم غلامی جائز رہی، اور خود کہہ چکا کہ ایک لمحہ کے لیے یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ سچا مذہب جو خدا کی طرف سے اترا ہو اس میں ایسے امور جائز ہوں۔ کیسا صاف صریح کہہ دیا کہ موسوی ، عیسوی، محمدی تینوں دین باطل اور پھر عجب ہے کہ اس کے پیروکار اسے نہ صرف مسلمان بلکہ اسلام کا سنوارنے والا بتاتے ہیں۔
حالانکہ نیچری پیر نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی وہ تھیوسافیکلوں دھریوں کا انگریزی دور تھا اور چونکہ انگریز کی غلامی دیکھ چکا تھا اسلیئے اسکے بھڑکیلے مغربیانہ جوابات اور سوچ اسی رنگ میں رنگی ہوئی تھی حالانکہ یہ بھونڈے اعتراضات ویسے ہی ہیں جیسے کہ کوئی یہ کہے کہ مرغی انڈہ دیتی ہے اور انڈہ چونکہ مرغی کو تکلیف دیتا ے نکلتے وقت تو نیچر اتنی بے رحم نہیں ہوسکتی کہ مرغی کو انڈے کی تکلیف دے۔ یا اگر کوئی جاہل کہے کہ بی بی حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا تھا تو جب وہ جدا ہوکر بنائی گئی تو یہ آدم کے جسم پر ظلم تھا۔ لہٰذا نیچری جہالت انہیں دو باتوں سے سب سے زیادہ آسانی سے آشکار ہوسکتی ہے
چکڑالوی کے جھوٹے خدا؛
چکڑالوی ایسے کو خددا کہتا ہے جس کے رسول کی قدر ایک ڈاکئے سے زیادہ نہیں جس نے اپنے نبی کا اتباع کچھ نہ رکھا، ایسے کو جس نے کہا تو یہ کہ میری کتاب میں ہرشئی کا روشن بیان ہے ہرچیز کی پوری تفصیل ہے ہم نے اس میں کوئی بات اٹھا نہ رکھی، اور حالت یہ کہ نماز فرض کی اور یہ بھی نہ بتایا کہ کےَ وقت کی، یہ بھی نہ بتایا کہ ہروقت میں کَے رکعتیں، یہ بھی نہ بتایا کہ اس کے پڑھنے کی ترکیب کیا ہے اس کے ارکان کیا ہیں، اگر رکوع سجود قیام قرات اسکے رُکن مانے بھی جائیں اگرچہ اس نے کہیں اس کا اظہار نہ کیا، تو ان میں آگے کیا ہو، پیچھے کیا، اس کے مفسدات کیا کیا ہیں کیونکر کی جاتی ہے، کیونکر ہوتی ہے سب سے بڑا فرض ایمان، اس میں تو یہ گول مجمل بے سود بیان جس سے کچھ پتا ہی نہ چلے اور دعوے وہ کہ جملہ اشیاء کا روشن بیان، مزہ یہ کہ متواترات کی جڑ کاٹ دی کہ سوا میری کتاب کے کچھ حجت نہیں، اپنی کتاب کیا وہ خود ہمارے ہاتھ میں دے گیا یہ بھی تو ہم کو تواتر ہی سے ملی، جب تواتر حجت نہیں یہ بھی حجت نہیں، غرض ایمان اسلام سب برباد و ناکام وغیرہ وغیرہ خرافات ملعونہ۔ تو کیا چکڑالویوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے خدا کو جانا؟
قادیانی کے جھوٹے خدا؛
قادیانی ایسے کو خدا کہتا ہے جس نے چارسو جھوٹوں کو اپنا نبی کیا اور ان سے جھوٹی پیشن گوئیاں کہلوائیں (ازالہ ص 629)۔ جس نے ایسے کو ایک عظیم الشان رسول بنایا جس کی نبوت پر اصلاً دلیل نہیں بلکہ اسکی نفی نبوت پر دلائل قائم (اعجاز احمدی ص 13)، جو (خاک بدہن ملعونان) ولد الزنا تھا (ضمیمہ انجام آتھم ص 7)۔ جس کی تین دادیاں نانیاں زناکار کسبیاں تھیں۔ ایسے کو جس (رسالہ کشتی نوح ص 16 مع نوٹ) نے ایک بڑھئی کے بیٹھ کو محض جھوٹ کہہ دیا کہ ہم نے بن باپ کے بنایا اور اس پر فخر کی جھوٹی ڈینگ ماری کہ یہ ہماری قدرت کی کیسی کھلی نشانی ہے۔ ایسے کو جس (1) نے ایک بدچلن عیاش کو اپنا نبی کیا جس نے ایک (2) یہودی فتنہ گر (3) کو اپنا رسول کرکے بھیجا جس کے پہلے ہی فتنہ نے دنیا کو تباہ کردیا۔ ایسے کو جو (4) اسے ایک بار دنیا میں لاکر ددوبارہ لانے سے عاجز ہے۔ وہ جس نے ایک (5) شعبدہ باز کی مسمریزم والی مکروہ حرکات قابلِ نفرت حرکات جھوٹی بے ثبات کو اپنی آیات بنینات بتایا، ایسے کو جس کی آیات بینات لہو لعب ہیں اتنی بے اصل کے عام لوگ ویسے عجائب کرلیتے تھے اور اب بھی کردکھاتے ہیں بلکہ آجکل کے کرشمے ان سے زیادہ بے لاگ ہیں، اہل کمال کو ایسی باتوں سے پرہیز رہا ہے۔ ایسے کو جس نے (6) اپنا سب سے پیارا بروزی خاتم النبیین دوبارہ قادیان بھیجا مگر اپنی جھوٹ فریب تمسخر ، ٹھٹھول کی چالوں سے اسکے ساتھ بھی نہ چوکا، اس سے کہہ دیا کہ تیری جورو کے اس عمل سے بیٹا ہوگا جوانبیاء کا چاند ہوگا بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت لیں گے، بروزی بیچارہ اسکے دھوکے میں آکر اسے اشتہاروں میں چھاپ بیٹھا اسے تو یوں ملک بھر میں جھوٹا بننے کی زلت و رسوائی اوڑھنے کے لیئے یہ جُل دیا اور جھٹ پٹ میں الٹی کَل پھرادی۔ بیٹی بنادی بروزی بیچارے کو اپنی غلط فہمی کا اقرار چھاپنا پڑا اور اب دوسرے پیٹ کا منتظر رہا ابکی یہ مسخرگی کی کہ بیٹا دے کر امید دلائی اور ڈھائی برس کے بچے ہی کا دم نکال دیا، نہ نبیوں کا چاند بننے دیا نہ بادشاہوں کو اس کے کپڑوں سے برکت لینے دی، غرضیکہ اپنے چہیتے بروزی کا جھوٹا کذاب ہونا خوب اچھالا اور اس پر مزہ یہ کہ عرش (7) پر بیٹھا اسکی تعریفیں گارہا ہے،اس پر بھی صبر نہ آیا بروزی کے چلتے وقت کمال بے حیائی کی ذلت و رسوائی تمام ملک میں طشت ازبام ہونے کے لیئے اُسے یوُں چاؤ دلایا کہ اپنی بہن احمدی کی بیٹی محمدی کا پیام دے، بروزی بیچارے کے منہ میں پانی بھر آیا، پیام پر پیام، لالچ پر لالچ، دھمکی پر دھمکی، ادھر احمدی کے دل میں ڈال دیا کہ ہرگز نہ پسیج، یوں لڑائی ٹھنوا کر اپنے امدادی وعدوں سے بروزی کی امید بڑھائی کہ دیکھ احمدی کا باپ اگر دوسری جگہ اسکا نکاح کردے گا تو ڈھائی برس میں وہ مرے گا، اور تین برس میں وہ شوہر، یا بالعکس ، بروزی جی تو ہمیشہ اسکی چالوں میں آجاتے تھے اسے بھی چھاپ بیٹھے یہاں تک کہ وہی جھوٹی پیشنگوئیاں رہتیں جو سدا کی تھیں۔ اب اس قادیانی کے ساختہ خدا کو اور شرارت سوجھی جھٹ بروزی کو وحی پھنٹا دی کہ (زوجنا کھا) محمدی سے ہم نے تیرا نکاح کردیا۔ اب کیا تھا بروزی جی ایمان لے آئے کہ اب محمدی کہاں جاسکتی ہے یوُں جُل دے کر بروزی کے منہ سے اسے اپنی منکوحہ چھپوا دیا تاکہ وہ حد بھر کی ذلت جو ایک چمار بھی گوارا نہ کرے اسکی جورو اور اسکے جیتے جی دوسرے کی بغل میں، یہ مرتے وقت بروزی کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہو، اور رہتی دنیا تک بیچارے کی فضیحت وخواری و بے عزتی وکذابی کا ملک میں دنکا ہو، ادھر تو عابد و معبود کی یہ وحی بازی ہوئی ادھر سلطان محمد آیا اور نہ عابد کی چلنے دی نہ اسکے خودساختہ معبود کی، بروزی جی کی آسمانی جورو سے بیاہ کرکے ساتھ لے ر یہ جا وہ جا چلتا بنا۔ ڈھائی تین برس پر موت دینے کا وعدہ تھا وہ بھی جھوٹا گیا، الٹے بروزی جی زمین کے نیچے چل بسے وغیرہ وغیرہ خرافاتِ ملعونہ ۔
یہ ہے قادیانی اور اسکا ساختہ خدا۔ تو کیا وہ خدا کو جانتا تھا یا اب اس کے پروکار جانتے ہیں تصورِ خدا؟
حوالہ جات؛
ضمیمہ مذکورہ صفحہ 7
مواہب الرحمٰن صفحہ 72
دافع البلاء ص 15
ایضاً عبارت مذکورہ و ازالہ آخر صفحہ 151 تا آخر صفحہ 162
دافع البلاء صفحہ 3 و صفحہ 9 وغیرہ
اعجازِ احمدی ص 69
رافضیوں کے جھوٹے خدا
یہ لوگ ایسے کو خدا کہتے ہیں جو حکم کرکے پچھتاتا ہے (1) ۔ جو مصلحت سے جاہل رہ کر ایک حکم کرتا ہے جب مصلحت کا علم آیا اسے بدل دیتا ہے، اس سے تو یہودی خدا غنیمت تھا کہ پچھتانے کے عیب سے بچنے کو نسخ تک نہ کرسکا۔ ایسے کو جو وعدے کا جھوٹا یا بندوں سے عاجز ہے کہ اپنا کلام اتارا اور اسکی حفاظت کا ذمہ دار بنا مگر عثمان غنی وغیرہ صحابہ رضی اللہ تعالےٰ عنھم و اہلسنت نے اسکی آیتیں اُلٹ پلٹ کردیں سورتوں کی سورتیں کتر لیں ۔ اور وہ یا تو وعدہ خلافی سے چپکا، دیکھا کیا اور کچھ نہ کہا، یا گھٹانے والوں کے آگے کچھ نہ چل سکی، دَم سادھ گیا۔ ایسے کو جس نے کہا تو یہ کہ، میں یہ دین سب پر غالب کرتا ہوں، اور کیا یہ کہ خود ہی اسے ملیامیٹ کردیا۔ اپنی کتاب ہی آپ ہی تھل بیڑا نہ رکھا، فاسقوں کی روایت بے تحقیق ماننے سے منع کیا اور اپنی کتاب کی روایت کا سلسلہ (خاک بدہن ملعونان) کافروں سے رکھا، اور کافر بھی وہ جن کا ایک گروہ ایک جتھا خیانت میں طاق، اور عداوت اہلبیت میں تحریف و اخفائے آیات پر سب کا اتفاق، کیا معلوم کہ انہوں نے کتنا بدلا، کیا کچھ چھپایا، آیتوں کی ترتیب بدل کر کہاں کا حکم کہاں لگایا، ایسے کو جو بندوں سے عاجز تر ہے وہ بندے سے نیکی چاہے اور بندہ بدی چاہے تو بندہ ہی کا چاہا ہوتا ہے اس کی ایک نہیں چلتی۔
ایسے کو کہ ہرچمار ہرکافر ہرکتا ہرسوئر خالقیت میں اسکا شریک ہے، وہ اعیان گھڑتا ہے یہ اپنی قدرت سے اپنے افعال، اور پھر اس پر یہ دعویٰ کہ ہے میرے سوا کوئی خالق۔ ایسے کو جس نے بہتیرا چاہا کہ میرے نائب کے بعد میرا شیر مسند پر بیٹھے مگر امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک نہ چلنے دی۔ آیت (یاایھا النبی بلغ ما انزل الیک من ربک ان علیا ولی المؤمنین۔۔۔ قرآن عظیم میں اتنا ٹکڑا کہ روافض زیادہ مانتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے گھٹا دیا)۔۔۔۔ آیت اتاری وہ کترلی اور سب نے اس کے کترنے پر اتفاق کیا اور آج تک ویسی ہی کتری ہوئی چلی آتی ہے۔ اسکے رسول نے تمام صحابہ کے مجمع میں اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر دکھایا اور عمامہ باندھ کر اپنا ولیعہد بنایا مگر رسول کی آنکھیں بند ہوتے ہی بالاتفاق تمام صحابہ نے وہ عہد و پیمان پاوں کے نیچے مل ڈالا اور کمیٹی کرکے ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو مسند نشین کردیا اور شیر منہ دیکھتا رہ گیا۔ نہ اسکی چلی نہ رافضی صاحبوں کے خودساختہ خدا کی۔ ایسوں کے ہاتھ میں قرآن رکھا اچھا حفاظت کا وعدہ نبھایا۔ ایسا بے اعتبار قرآن شائع کیا، اچھا دین کو غلبہ دیا اپنے نبی کی صحبت اور اسکے دین کی روایت کو چھانٹ چھانٹ کر ایسے چنے، لطف و عدل واصلح کا واجب خوب ادا کیا، ایسے کو جس کا شیر اور شیر بھی کیسا غالب شیر ہمیشہ دشمنوں کا مطیع وفرمانبردار رہا (خاک بدھن ملعونان) کافروں کے پیچھے نماز پڑھی، کیا کافروں کے جھنڈے کے نیچے لڑا کیا، بزدلی سے دو رویہ منافق ہوکر دشمنوں کی بڑی بڑی تعریفیں گاتا رہا، اہلبیت رسالت پر کرے کرے گھنونے ظلم دیکھتا، اور ڈر کے مارے دَم نہ مارتا بلکہ اپنی مدح و ستائش سے اور مدد کرتا، یہاں تک کہ کافر لوگ اسکی سگی بیٹی چھین کر لے گئے، اور بی بی بنایا اور وہ تیوری پر میل نہ لایا، ویسا ہی ان کا خادم و ہمدم بنا رہا، اور وہ کیا کرے رافضی دھرم میں رسول ہی کو یہ توفیق تھی کہ بیٹیاں لے تو کافروں منافقوں سے، اوربیٹیان دے تو کافروں منافقوں کو، اور اپنا یار و انیس وزیر وجلیس بنائے تو کافروں منافقوں کو، اور وہ بھی کیا کرے روافض کا خدا ہی ان ظالموں کافرو کے بڑے بڑے مناقب اپنے کلام میں اتارتا رہا۔ جسے لاکھ کے مجمع میں مقبول تو فقط چار چھ، باقی سب دشمن اور وہ اس بھری جماعت میں بلا تعیین عام صیغوں سے عام وصفوں سے مہاجرین و انصار و صحابہ کہہ کر تعریفیں کرتا بندوں کو دھوکہ دیتا، دو ٹوک بات نہ کہنی تھی نہ کہہ سکا، ایسے کو جس نے ان موجود حاضروں میں اپنے نیک بندوں کو مخاطب کرکے وعدہ دیا کہ ضرور ضرور تمہیں اس زمین کی خلافت دوں گا اور تمہارا دین تمہارے لیئے جمادوں گا اور تمہارا خوف امن سے بدل دوں گا، کاش وہ کسی کے لیئے ان میں سے کچھ نہ کرتا تو نرا وعدہ خلاف ہی رہتا۔ نہیں اس نے کی اور الٹی کی اپنے نیک بندوں کے بدلے (خاک بدہن ملعونان) کافروں کو زمینِ عرب کی خلافت دی اور انہیں کا دین خوب جمادیا اور نہیں کے خوف کو امن سے بدل دیا۔ رہے چار چھ نیک بندے بے بس بیچارے ترساں ہراساں خوف کے مارے انہوں نے ان کی خدمتگاری فرمانبرداری کرتے دن گزارے، جس نے روشن کردیا کہ کافر ہی اس کے نیک بندے ہیں تو وعدہ خلاف دغاباز حق کا چھپانے والا، باطل کا چمکانے والا بندوں کو دھوکا دے کر الٹی سمجھانے والا سب کچھ ہوا، ایسے کو جو خودمختار نہیں بلکہ اس پر واجب ہے کہ یہ یہ کرے اور یہ یہ نہ کرے، اور مزہ یہ کہ اس پر واجب تھا بندوں کے حق میں بہتر کرنا، یہ بندوں کے حق میں بہتر تھا کہ ان کی ہدایت کو جو کتاب اتری ظالموں کے پنجے میں رکھی جائے کہ وہ اسے کتریں بدلیں اور اصل ہدایت پہاڑ کی کھوہ میں چھپا دی جائے جسکی وہ ہوا نہ پائیں، یہ بندوں کے حق میں اصلح تھا کہ اعداء غالب محبوب مغلوب، باطل غالب حق مغلوب، اچھا واجب ادا کیا وغیرہ وغیرہ خرافاتِ ملعونہ۔
یہ ہے رافضیوں کا خدا، تو کیا خدا ایسا ہوتا ہے؟ اور کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے تصور کو جانا؟
وہابیوں کے جھوٹے خدا؛
وہابی ایسے کو خدا کہتا ہے جسے
مکان ، زمان، جہت ، ماہیت ، ترکیب عقلی سے پاک کہنا بدعت حقیقیہ کے قبیل ہے۔(1) اور صریح کفروں کے ساتھ گننے کے قابل ہے جس کا سچا ہونا کچھ ضرور نہیں جھوٹا بھی ہوسکتا ہے (2)۔ ایسے کہ جس کی بات پر اعتبار نہیں، نہ اسکی کتاب قابل استناد نہ اسکا دین لائق اعتماد، ایسے کو جس (3) میں ہرعیب ونقص کی گنجائش ہے جو اپنی مشیخت نبی رکھنے کو قصداً عیبی بننے سے بچتا ہے، چاہے تو ہرگندگی میں آلودہ ہوجائے، ایسے کو (4) جس کا علم حاصل کئے حاصل ہوتا ہے اسکا علم اس کے اختیار میں ہے چاہے تو جاہل رہے، ایسے کو (5) جس کا بہکنا، بھولنا، سونا، اونگھنا، غافل رہنا، ظالم ہونا، حتیٰ کہ مرجانا سب کچھ ممکن ہے، کھانا پینا، پیشاب کرنا، پاخانہ پھرنا، ناچنا، تھرکنا، نٹ کی طرح کلا کھیلنا، عورتوں سے جماع کرنا، لواطت جیسی خبیث بیحیائی کا مرتکب ہونا حتیٰ کہ مخنث کی طرح خود مفعول بننا، کوئی خباثت کوئی فضیحت اسکی شان(6) کے خلاف نہیں۔ وہ (7) کھانے کا منہ اور بھرنے کا پیٹ اور مردی اور زنی کی دونوں علامتیں بالفعل رکھتا ہے صمد نہیں جوف دارکہگل ہے، سبوح قدوس نہیں، خنثیٰ مشکل ہے یا کم از کم اپنے آپ کو ایسا بنا سکتا ہے اور یہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو (7) جلا بھی سکتا ہے ڈبو بھی سکتا ہے زہر کھا کر یا اپناگلا گھونٹ کر بندوق مارکر خودکشی بھی کرستا ہے اس کے ماں باپ جورو بیٹا (9) سب ممکن ہیں بلکہ ماں باپ ہی سے (10) پیدا ہوا ہے ربڑ کی طرح (11) پھیلتا سمٹتا ہے، برمھا کہ طرح (12) چومکھا ہے۔ ایسے کو جس (13) کا کلام فنا ہوسکتا ہے جو بندوں کے خوف کے باعث (14) جھوٹ سے بچتا ہے کہ کہیں وہ مجھے جھوتا نہ سمجھ لیں، بدوں سے پرا چھپا کر پیٹ بھر کر جھوٹ بک سکتا ہے۔ ایسے کو جس کو خبر (15) کچھ ہے اور علم کچھ، خبر سچی ہے تو علم جھوٹا، علم سچا ہے تو خبر جھوٹی۔ ایسے کو (16) جو سزا دینے پر مجبور ہے نہ دے تو بے غیرت ہے، معاف کرنا چاہے تو حیلے ڈھونڈتا ہے، خلق کی آڑ لیتا ہے، ایسے کو جس کی خدائی کی اتنی حقیقت کہ جو شخص ایک پیڑ کے پتے گن دے اسکا شریک ہوجائے، جس نے اپنا سب سے بڑھ کر مقرب ایسوں کو بنایا جو اسکی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہیں جو چوڑھوں چماروں سے لائق تمثیل ہیں، ایسے کو جس نے اپنے کلام میں خود شرک بولے اور جابچا بندوں کو شرک کا حکم دیا۔ قرآن عظیم تو فرمائے (اغنٰھم اللہ ورسوہ من فضلہ) نہیں اللہ و رسول نے اپنے فضل سے غنی کردیا اور مسلمانوں کو اس کہنے کی ترغیب دے کہ (حسبنا اللہ سیؤتینا اللہ من فضلہ ورسولہ) ہمیں اللہ کافی ہے اب دیتے ہیں اللہ و رسول ہمیں اپنے فضل سے۔ اور وہابیہ کا خدا اسماعیل دہلوی کے کان میں پھونک جائے کہ ایسا کہنے والا مشرک ہے۔
قرآن عظیم تو جبریل امین کو بیٹا دینے والا فرمائے کہ انہوں نے حضرت مریم سے کہا : انما انا رسول ربک لاھب لک غلٰماً زکیا۔۔۔۔۔ میں تو تیرے رب کا رسول ہوں اسلیئے کہ میں تجھے ستھرا بیٹا دوں۔ یعنی مسیح علیہ السلام رسول بخش ہیں، اور وہابیہ کا خدا ان کے کان میں ڈال جائے کہ رسول بخش کہنا شرک ہے۔
قرآن عظیم تو اس گستاخ پر جس نے کہا تھا کہ رسول غیب کیا جانے حکم کفر فرمائے کہ؛ (لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم) بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے اپنے ایمان کے بعد۔
مگر وہابیہ کا خدا اسمٰعیل دہلوی کو یہی ایمان سجھائے کہ رسول غیب کیا جانے اور وہ بھی اس تصریح کے ساتھ کہ اللہ کے دئے سے مانے جب بھی شرک ہے۔
اب کہیئے اگر رسول کو غیب کی خبر مانے تو وہابی خدا کے حکم سے مشرک، نہ مانے تو قرآن عظیم کے حکم سے کافر تو پھر مفر کہاں؟۔ یہی مانتے بنے گی کہ یہ مسلمانوں کے خدا کے احکام ہیں جس نے قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا اور وہ وہابیہ کا الگ خدا کہ جس نے تقویۃ الایمان، اسمٰعیل دہلوی پر اتاری۔ اور ہاں وہابیہ کا خدا وہ ہے جس کے سب سے اعلیٰ رسول کی شان اتنی ہے جیسے قوم کا چودھری یا گاؤں کا پدھان جس نے حکم دیا کہ رسولوں کو ہرگز نہ ماننا، رسولوں کا ماننا نرا خبط ہے وغیرہ وغیرہ خرافاتِ ملعونہ
تو یہ ہے ویابیہ میں خدا کا تصور، اس کے کام تو کیا خدا ایسا ہوتا ہے اسلام میں؟ اور کہا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہابیہ نے اللہ کو جانا؟
حوالہ جات؛
ایضاح الحق ۔ از اسمٰعیل دہلوی مطبع فاروقی 1297ھ دہلی مع ترجمہ صفحہ 35 اور 36
2؛ سبحٰن السبوح تنزیہ دوم دلیل دوم
3؛ رسالہ یکروزی اسمٰعیل دہلوی ص 145
4؛ تقویۃ الایمان، مطبع فاروقی دہلی 1293ھ ص 20
5؛ یکروزی ص 145 مع کوکبہ شہابیہ 15 و سبحٰن السبوح طبع بار سوم ص 64 تا 67 و دامان باغ سبحٰن السبوح ص 154 تا 156 و پیکان جانگداز ص 161 وغیرہ
6؛ یکروزی مردود مع مذکورہ ردود
7؛دیکھو مضمون محمود حسن دیوبندی مطبوع پرچہ نظام الملک 25 اگست 1989ء مع رسالہ الہیبۃ الجباریہ علیٰ جہالۃ الاخباریہ و پیکان جانگداز وغیرہ
8؛ یکروزی
9؛ یکروزی و مضمون محمود حسن دیوبندی مع سبحٰن السبوح صفۃ 47، 48، 66 اور دامان باغ صفحہ 158 وغیرہما اور جورو بیٹے کا امکان ایک دیوبندی اپنے رسالہ ادلہ واہیہ صفحہ 142 میں صراحۃً مان گیا دیکھو پیکان جانگداز صفحہ 176
9؛ یکروزی و مضمونِ محمود دیوبندی مع دامان باغ سبحٰن السبوح ص 157
10؛ یکروزی و محمود و پیکان ص 175
11؛ یکروزی و محمود وپیکان جانگداز ص 176
12؛ یکروزی مع سبحٰن السبوح ص 83
ایضاً ص 82
13؛ رسالہ تقدیس دیوبندی ص 36
14؛ اس حوالہ سے آگے تمام حوالے اقوال تقویۃ الایمان کے ہیں جو بہ آسانی میسر ہیں
دیوبندیوں کے جھوٹے خدا اور اسکے متعلق عقائد؛
دیوبندی ایسے کو خدا کہتے ہیں جو وہابیہ کا خدا ہے جس کا بیان ابھی اوپر گزرچکا ہے اور اتنے وصف اور رکھتا ہے کہ علم ذاتی میں اسکی توحید یقینی، دوسرے کو اپنی ذات سے بے عطاے خدا عالم بالذات کہنا قطعاً کفر نہیں، ہاں وہ جو بالفعل جھوٹا ہے (نوٹ سب حوالہ جات آخر میں)۔ جس کے لیئے وقوع کذب کے معنے درست ہوگئے جو اسے جھٹلائے مسلمان سنی صالح ہے اسے کوئی سخت کلمہ نہ کہنا چاہیئے۔ دیوبندیوں کا خدا چوری بھی کرسکتا ہے (حوالہ 4) وہ تمام جہان (5) کا تنہا مالک نہیں اس کے سوا اور بھی مالک مستقل ہیں جن کی ملک میں وہ چیزیں ہیں جو دیوبندی خدا کی مِلک میں نہیں ان پر للچائے تو چاہے ٹھگوں لٹیروں کی طرح جبراً غصب کربیٹھے کیونکہ وہ (6) ظالم بھی ہوسکتا ہے۔ اُچکوں چوروں کی طرح مالکوں کی آنکھ بچا کر لے بھاگے کیونکہ وہ چوری کرسکتا ہے۔ ہاں وہ جس کی توحید باطل ہے کہ ایک وہی خدا ہوتا ہے تو دوسرا مالک مستقل نہ ہوسکتا اور دوسرا مالک مستقل نہ ہوتا تو دیوبندی خدا چوری کیسے کرسکتا کہ اپنی ملک لینے کو چوری نہی کہہ سکتے اور اگر وہ چوری نہ کرسکتا تو دیوبندی بلکہ عام وہابی دھرم میں (علیٰ کل شئی قدیر) نہ رہتا انسان اس سے قدرت میں بڑھ جاتا کہ آدمی تو چوری کرسکتا ہے اور وہ کرنہ سکا۔ اور یہ محال ہے ، لاجرم ضرور ہے کہ دیوبندی خدا چوری کرسکے تو ضرور ہے کہ اسکے سوا اور بھی مالک مستقل ہوں تو لازم ہے کہ دیوبندی خدا کم از کم مجوسی خداؤں کی طرح دو ہوں، نہیں نہیں بلکہ قطعاً لازم کہ کروڑوں ہوں کہ آدمی کروڑوں اشخاص کی چوری کرسکتا ہے۔ دیوبندی خدا نہ کرسکے تو آدمی سے قدرت میں گھٹ رہے، لاجرم ضرور ہے کہ کروڑوں خدا ہوں جن کی چوری دیوبندی خدا کرسکے، ۔ رہا یہ کہ وہ سب کے سب اسی کی طرح چوٹے بدمعاش ہیں یا صرف یہ، اس کا فیصلہ تھانوی صاحب کے سر ہے۔
ہاں دیوبندی خدا وہ ہے کہ علم میں شیطان اسکا شریک ہے سب سے بدترمخلوق شیطان کا علم اس کے سب سے اعلیٰ رسول کے علم سے وسیع تر ہے اور ہونا ہی چاہیئے کہ رسول اسکے برابر کیسے ہوسکتا ہے جو خدا کا شریک ہے۔ اس نے جیسا علم اپنے حبیب کو دیا اور اسے اپنا بڑا فضل کہا اور اس پر اعلیٰ درجہ کا احسان جتایا اس کی حقیقت اتنی کہ ایسا تو ہرپاگل ہرچوپائے کو ہوتا ہے، ہاں دیوبندی خدا وہ ہے جسے قادر مطلق کہنا اسی دلیل سے باطل ہے کہ جمیع اشیاء پر قدرت تو عقلاً ونقلاً باطل ورنہ خود وہ بھی مقدور ہو تو ممکن ہو تو خدا نہ رہے اور اگر بعض مراد تو اس میں اسکی کیا تخصیص، ایسی قدرت تو ہرپاگل چوپائے کو ہے۔ دیوبندی خدا وہ ہے جس نے ایسے کو اپنا سب سے اعلیٰ رسول چنا جو اسکا کلام سمجھنے کی لیاقت نہ رکھتا۔ خیالاتِ عوام کے لائق اسکی سمجھ تھی، جس کی خطا اہل فہم پر روشن تھی، پھر یہ دیوبندی خدا وہ ہے کہ جس دلیل سے اسکے خاتم النبیین کے سوا چھ خاتم النبیین اور مانتا خاتم کی شان بڑھانا ہے یونہیں اسے تنہا خدا کہنا اسکی شان گھٹانا ہے اسکی بڑی بڑائی یہ ہے کہ بہت سے خداؤں کا خدا ہے کیا خدا ایسا ہوتا ہے؟
لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم
حوالہ جات؛
1؛ یہ قول رشید احمد گنگوہی کا ہے، فتاویٰ گنگوہی ج 1 ص 83 ۔۔۔ جو یہ عقیدہ ہو کہ خود بہ خود آپ کو علم تھا بدون اطلاع حق تعالےٰ کے تو اندیشہ کفر کا ہے، امام نہ بنانا چاہیئے اگرچہ کافر کہنے سے بھی زبان روکے۔ تھانوی صاحب وغیرہ علمائے وہابیہ سے استفتا ہے کہ علم ذاتی بے عطائے الٰہی کسی مخلوق کے لیئے ماننا ضروریاتِ دین کا انکار ہے یا نہیں؟۔ ہے تو ایسے کے کفر میں شک کرنا بلکہ کفر نہ ماننا صرف اندیشہ کفر جاننا کفر ہے یا نہیں؟ ہے تو جناب گنگوہی صاحب کافر ہوئے یا نہیں؟ نہیں تو کیوں؟
غیرمقلدوں کے جھوٹے خدا
غیرمقلد کا خدا یہ سب کچھ ہے جو دیوبندی وہابی کا، قال اللہ تعالیٰ بعضھم من بعض۔۔۔۔ اور وہ بعض نزاکتیں اور زیادہ رکھتا ہے۔ ایسا کہ جس کے دین میں کتا حلال (حوالہ)، سوئر کی چربی حلال، سوئر کے گردے حلال، سوئر کی تِلی حالا، سوئر کی کلیجی حلال، سوئر کی اوجھڑی حلال، وئر کی کھال کا ڈول بنا کر اس سے پانی پینا حلال، وصو حلال، گندی خبیث شراب سے نہا کر سارے کپڑے اس میں رنگ کر نماز پڑھنا حلال۔ ایک وقت میں ایک عورت متعدد مردوں پر حلال، وہ جس نے آپ ہی تو حکم دیا کہ خود نہ جانو تو جاننے والے سے پوچھو، اپنے علماء کی اطاعت کرو، اپنے نیکوں کی پیروی کرو، جب پوچھا اور اطاعت و پیروی کی تو شرک کی جھڑدی۔ وہ جس نے ائمہ دین کی تقلید حرام و شرک ٹھہرائی، اور پوربی، بنگالی پنجابی بھوپالی کے فرض۔ وہ جس نے اپنے رسولوں کے سوا کسی کی بات حجت نہ رکھی، اور بیچ میں چند محدثوں اور جارحوں معدلوں کو کھڑا کرکے ان کے قول کو کتاب وسنت کے برابر ٹھہرا کر حجیت دی۔ یعنی یہ شریک الوہیت نہیں تو شریکِ رسالت ضرور ہیں۔ نہیں نہیں بلکہ شریک الوہیت ہی ہیں کہ (اتخذوا احبارھم ورھبانھم ارباباً من دون اللہ) (انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا۔ نہ کہ (رسلا من دون النبی) نبی کے سوا رسول۔۔۔۔ ہاں وہ جس نے آپ ہی تو اتباع ظن حرام اور افادہ حق میں محض ناکام کیا پھر ان چند کی ظنی روایات طنی جرح و تعدیلات کا اتباع عین دین کردیا، تو بات کیا وہی کہ یہ مثل انبیاء معصوم ہیں، نہیں نہیں بلکہ دین غیرمقلدی کے (اربابا من دون اللہ) جھوٹے خدا ہیں، وہ جس نے چند جاہلانِ عالم نما کے سوا جو ابوحنیفہ و شافعی پر منہ آتے اور ان کے احکام پرکھنے کی اپنے میں طاقت بتاتے ہیں تمام عالم کو بے نتھا بیل کیا ہے۔ کیونکہ وہ آپ دلیل نہیں سمجھ سکتے اور دوسرے کی کہی ہوئی اگرچہ بنگالی بھوپالی دہلوی امرتسری کی مان لیں کہ دلیل سے یہ ثابت ہے۔ یہ تو وہی تقلید ہوئی جو شرک ہے لہٰذا ضرور بے نتھے بیل ہیں۔ وہ کہ عام جہاں پر جس کے لیئے کوئی حجت قائم نہیں ہوسکتی کہ حجت قائم ہو دلیل سے۔ دلیل وہ خود سمجھ نہیں سکتے اور دوسرے کی سمجھ پر اعتماد انکے تئیں شرک۔ وہ جس نے (خاک بدہن خبثا) کھلے مشرکین کو (خیرامۃ) کہا اور انکے تین قرنوں کو (خیرالقرون) کہلوایا جن کا روز اول سے آج تک یہی معمول کہ عامی کو جو مسئلہ پوچھنا ہو عالم سے پوچھا، عالم نے حکم بتادیا سائل نے مانا اور کاربند ہوا صحابہ سے آج تک کبھی دلیل بتانے اور اسے عامی کے اسقدر ذہن نشین کرنے کا وہ خود سمجھ لے کہ واقعی یہ حکم قرآن و حدیث سے ثابت بروجہ صحیح غیرمعارض و غیرمنسوخ ہے، ہرگز نہ دستور تھا نہ ہوا نہ ہے، تو پوچھنے والے بے علم دلیل تفصیلی ان کا فتویٰ مانا کئے اور یہی تقلید ہے۔ اور تقلید شرک تو عہد صحابہ سے آجتک سب عامی مشرک ہوئے اور وہ مفتی بے القائے دلیل اسی لیئے فتوے دیتے رہے کہ یہ مانیں اور عمل کریں، تو صحابہ سے آج تک مفتیان و علماء مشرک گر و شرک دوست ہوئے اور ہر مشرک گر خود مشرک اور مشرکوں سے بدتر، تو غیرمقلد کے دھرم میں صحابہ سے اب تک تمام امت مشرک، لیکن غیرمقلد کا خدا انہیں کو خیرالامۃ اور خیرالقرون کہتا کہلواتا ہے پھر اسکی کیا شکایت کہ ایسوں کو کہا جو غیرمقلدی دھرم مٰں فرقوادینھم وکانوا شیعا تھے جہنوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور جدا جدا گروہ ہوگئے۔ تو کیا ان جیسوں کا خدا اور اسلام کا تصورِ خدا ایک ہوسکتا ہے؟
2؛ فتوائے گنگوہی، 12
3؛ مضمون محمود الحسن دیوبندی پرچہ مذکورہ نظام الملک
4؛ ///// مع پیکان جانگداز ص 172
براہین قاطعہ ایمان گنگوہی صاحب ص 47
براہین قاطعہ ص 47 ب
حفظ الایمان تھانوی صاحب ص 7
تحذیر الناس قاسم نانوتوی ص 2 مع حدیث متواتر انا خاتم النبیین لانبی بعدی
تقویۃ الایمان ص 20 و تصریح صریح مضمون مذکور محمود حسن دیوبندی
تحذیر الناس نانوتوی ص 37 و 38
آیت کریمیہ قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ میں کھانے کی صرف چار چیزوں میں حرمت کی حصر ہے جن میں کتا نہیں، اور سوئر کا گوشت ہے چربی گردے تلی کلیجی کھال نہیں، اور ان کی حرمت میں کوئی صحیح صریح حدیث بھی نہیں اور ہو تو آیت کا رد نہیں کرسکتی لہٰذا غیرمقلدی دھرم میں یہ سب چیزیں حلال و شیرِ مادر ہیں
مزید حوالے ؛ غیرمقلدین سے متعلق
روضہ ندیہ صدیق حسن بھوپالی ص 12
ضمیمہ النیر الشہابی ص 34 تا 36
حرف آخر؛
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ بت پرستوں، مشرکوں سے لیکر مسلمانوں سے متصل 72 جہنمی گروہوں کے سرخیلوں کے خداؤں کے کام کیا ہیں اور ان کے متعلق اندھے پیروکاروں کے عقائد کیا ہیں۔ تو کیا ارشد محمود صاحب آپ یہودیوں، ہندوؤں، کافروں مشرکوں نصاریوں تو ایک طرف خود (خوارج) کے عقیدوں کے تناظر میں (تصور خدا) کو سائنس سے مکس کر کے اپنا یہ گمان لوگوں پر تھوپنا چاہتے ہیں کہ خدا کا تصور صرف ایک تصور ہی ہے اور جو کہ ازمنہ قدیمہ سے ایک جیسا ہی ہے معمولی ردوبدل کے ساتھ اور یہ آپ ثابت کررہے ہیں؟ حالانکہ اسلام کا ان جاہلانہ ملعونہ عقائد سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلمان بنا کسی دلیل کے خدا پر یقین رکھتا ہے اور ویسے ہی یقین رکھتا ہے جیسے انبیائے کرام سلف الصالحین نے بتا رکھا ہے۔ آپ کا تصور خدا کو سائنس جیسی بے ثابت غیرتصدیق شدہ مادی چیز کے ساتھ متصل کر کے تصورخدا کے نام پر دھریت کی جھوٹی مکس کردہ متنجن کیوں پیش کرتے ہیں جناب؟