Post by Admin on May 16, 2017 23:07:38 GMT
روح ۔ اور۔ چند اہم نکات
۱؛ موجودہ سائنس والے کہتے ہیں کہ روح حیات کی ترقی یافتہ شکل ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ روح جسم سے الگ ایک مستقل بالذات ہستی ہے
۲؛ وحدت الوجود کا مسلک رکھنے والے صوفیہ کا عقیدہ ہے کہ ساری دنیا ایک ہی روح کے مظاہر ہیں حالانکہ روح ہرشخص کی الگ الگ ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے (الارواح مجندۃ ) کہ روحیں ایک لشکر ہیں۔ اور ہر روح الگ ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے۔
۳؛ روح انسانی، روح ملکوتی ، روح حیوانی، روح نباتی ، روح جمادی۔ مراتب کے لحاظ سے ہر ایک میں کافی فرق ہے۔
۴؛ روح حیوانی روح انسانی کا مرکب ہے۔ فوت ہونے سے روح حیوانی ختم ہوجاتی ہے اور انسانی باقی رہتی ہے۔
۵؛ روح کی حقیقت و ماہیت سے عارف لوگ پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔
۶؛ عوام روح کے اوصاف اور اسکی خداداد قوتوں کو دیکھ کر پہچانتے ہیں۔
۷؛ روح بے شمار قوتوں کا خزانہ ہے۔ اگر اسکی صحیح طاقت کو حاصل کرلیا جائے تو اس سے بے شمار عجائب و غرائب ظاہر ہوتے ہیں، اس دنیا میں بھی اور موت کے بعد بھی۔
۸۔ حیات بعد الممات کا علم سائنس کے پاس نہیں۔ سائنس کا میدان صرف عالمِ شہادت یعنی عالمِ محسوس تک ہے۔ مابعد الطبعیات اور غیبی حقائق کا علم مذہب کے پاس ہے۔ لہٰذا اس مسئلہ میں عقل کو راہنما نہ بنایا جائے، مذہب جو ہے اسے بلاچون و جرا تسلیم کرلیا جائے۔
۹۔ موت روح انسانی کے فوت ہوجانے کا نام نہیں بلکہ موت روحِ انسانی کا جسمِ انسانی میں بذریعہ روح حیوانی تدبیر و تغذیہ کے فعل کے تعطل کا نام ہے۔
۱۰۔ مرنے کے بعد روح انسانی عالمِ برزخ میں علیین یا سجین میں رہتی ہے۔
۱۱؛ مرنے کے بعد روح باقی رہتی ہے مگر جسم عموماً گل سڑ کر مٹی میں مل جاتا ہے۔ ہاں انبیاٗ علیھم السلام کے اجسام مٹی پر حرام ہیں یا جنھیں اللہ پاک باقی رکھنا چاہے وہ مٹی میں نہیں ملتے۔
۱۲؛ قبر کا عذاب و ثواب حق ہے مگر وہ عذاب و ثواب صرف روح کو برزخ میں ہوتا ہے اس جسم کو نہیں۔ قیامت میں جب روح کو جسم میں داخل کیا جائے گا تو پھر روح اور جسم دونوں کو عذاب و ثواب لاحق ہوگا۔
۱۳؛ قبر سے مراد برزخ ہے اور برزخ آخرت کی پہلی سیڑھی ہے۔
۱۴؛ مردوں کے سننے یا سمجھنے یا علم وغیرہ سے ان کی روحیں مراد ہیں جسم نہیں جسم تو فنا ہوجاتا ہے ہاں روحیں سنتی، سمجھتی اور سلاموں کا جواب دیتی ہیں۔
۱۵؛ سوال و جواب قبر اور ضغطۃ القبر میں ظاہر حدیث سے بٹھانے اور پوچھنے اور ایک طرف کی پسلیوں کے دوسری طرف کی پسلیوں میں دھنس جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ جسم خاکی سے ہوتا ہے حالانکہ یہ معاملہ روح کے جسم مثالی سے ہوتا ہے احادیث حق ہیں البتہ وحی کے سمجھنے اور اسکی تعبیر میں بعض علمائے کرام کو غلطی واقع ہوئی۔
۱۶؛ روحوں کو اپنے ٹھکانوں پر ہونے کے باوجود بھی اپنی اپنی قبروں سے ایک گونہ تعلق رہتا ہے۔
۱۷؛ روح کے لیئے قرب و بُعد مکانی یکساں ہے خواہ وہ برزخ میں کس جگہ بھی ہو۔ آپ جب بھی قبر پر جاکر سلام کہیں یا فاتحہ پڑھیں یا اس قبر والے کو بلائیں تو وہ فوراً آپ کی طرف متوجہ ہوکر سلام کا جواب دے گی اور تمہیں پہچانے گی، یہاں تک کہ تمہاری جوتیوں کی آہٹ بھی سنے گی۔
۱۸؛ آخرت اور برزخ کی صحیح معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ انبیائے کرام علیھم السلام اور اولیائے عظام علیہ الرحمۃ ہیں۔
۱۹؛ آخرت کی معلومات کا مخزن وحی الہام ہے عقل نہیں۔
۲۰؛ روح جسم سے جدا ہونے کے بعد بھی اپنی تمام صفات وکمالات کے ساتھ قائم رہتی ہے۔
۲۱؛ برزخ میں ہرروح کا ٹھکانہ اس کے مرتبے کے مطابق ہے۔
۲۲؛ خواب میں زندوں اور مردوں کی روحوں کی ملاقات ہوجاتی ہے کیونکہ روحیں خواب میں ایک گونہ تجرد حاصل کرکے پرواز کرتی ہے اور ارواحِ مختلفہ سے ملاقات کرلیتی ہیں۔
۲۱؛ اولیائے کرام بیداری مٰن بھی روح کو جسم سے مجرد کرکے عالمِ برزخ سے رابطہ پیدا کرلیتے ہیں اور ارواح سے ملاقات کرلیتے ہیں۔
۲۲؛ روحوں کو بلایا جاسکتا ہے اور ان سے ہمکلام ہوکر ان سے روحانی استفادہ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ دعوتِ قبور اور دعوتِ ارواح کے طریقوں سے واضح ہے۔
۲۳؛ بعض اولیائے کرام جن کے لیئے عالم برزخ کلی طور پر کھلا ہوتا ہے وہ بغیر کسی دعوت کے ارواح کو دیکھتے ہیں اور ان سے بالمشافہ بات چیت کرتے ہیں۔
۲۴؛ روح کو دیکھنا ممکن ہے کیونکہ اسے ایک صورتِ مثالی میں متشکل کیا جاتا ہے۔ جب اولیائے کرام عبادت و ریاضت اور ذکر و فکر سے روح کو روشن اور قوی کرلیتے ہیں تو وہ روح کو اس مثالی صورت میں دیکھ لیتے ہیں اور روح کو بھی مجسم ہونے کی قوت حاصل ہے۔ اگر وہ روح مجسم ہوکر سامنے آجائے تو ہرشخص دیکھ سکتا ہے اور کیمرے سے اس کا فوٹو بھی لیا جاسکتا ہے۔
۲۵؛ روح کو صورتِ مثالی بعینہ جسم خاکی کی شکل و صورت میں عطا کی جاتی ہے اور مکتلف اشخاص کی روحیں اسی صورتِ مثالی سے ایک دوسرے سے متمیز اور متعارف ہوتی ہیں۔
۲۶؛ یورپ کے علماے روحانیت سپریچولسٹ روح کو بلانے کا غلط دعویٰ کرتے ہیں ان کی رسائی عالمِ ارواح تک نہیں ہوسکتی۔ ہاں عالمِ ناسوت میں اپنی روح کی قوتوں کو بیدار کرکے ہمزاد کو بلاتے ہیں۔ جسے روح سمجھ کر اس سے بات چیت کرتے ہیں روح اور ہمزاد مین ظاہری وباطنی طریقوں کی تمیز کی جاسکتی ہے البتہ اراوح خبیثہ کو بلا سکتے ہیں کیونکہ انہیں شیطان میں فنائیت کی وجہ سے شیطان کی طرح قیامت تک آزادی حاصل ہوتی ہے۔
۲۹؛ روحیں سب کی زندہ ہیں البتہ حصبِ فرقِ مراتب بعض مقید، بعض معذب، بعض مسرور، و شادماں اور بعض حیاتِ دنیوی کی طرح متصرف ومختار اور بعض جنت کی نعمتوں سے محظوظ و متلذذ ہوتی ہیں۔
۳۰؛ ارواحِ خبیثہ اگرچہ اپنے متبعین ومعتقدین کی امداد کرتی ہیں جیسے جادو ٹونہ وغیرہ یا سفلی شیطانی اعمال لیکن وہ شیاطین کی طرح حجاب میں رہتی ہیں جسطرح شیطان باوجود اسکے کہ وہ یہ سب کچھ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے منکروں کو اور اسلام کے باغیوں کو دوزخ میں ڈالا جائے گا اور دوزخ کو شیطان نے دیکھا بھی ہوا ہے پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتا۔ قدرتِ الٰہی کو دیکھنے کے باوجود اور دنیا مین قوموں کو عذاب ہوتے دیکھ کر بھی وہ ایمان نہیں لاتا اور اپنے متبعین کو غلط راستے پر ہی لگاتا رہتا ہے ایسے ہی ارواح خبیثہ کا بھی حال ہے کہ وہ باوجود اس کے کہ وہ برزخ مین سب کچھ ملاحظہ کرتی ہیں لیکن متبعین کو یہ نہیں بتاتیں کہ جس طریقے پر تم جارہے ہو یہ غلط ہے بلکہ گمراہی اور کفر پر قائم رکھنے کے لیئے ان کی ہرطرح سے غیبی امداد کرتی ہیں۔ اور چونکہ ابلیس بعدِ دورِ سلیمان علیہ السلام اپنا آخری چانس بھی خود کو معاف کروانے کا خطا کرچکا ہے اسلیئے اب اسکے تو کرنے کا وہی کام ہے جس کا اس نے اللہ کے سامنے قسم کھا کر اعلان کیا تھا۔ اور جواب میں رائندہ درگاہ ہوا۔ اسی لیئے شیطان پرستی مین (ڈیولز پیکٹ) کہا جاتا ہے جو کہ ایک ماسونی عہد اٹھاتا ہے اور اپنی روح کو شیطان کے ہاتھ گروی رکھ دیتا ہے تھوڑے وقت کے حظ اور لطف پیسے یا نام و نمود کی خاطر اور شیطان ان کو تھوڑے عرصے کا جھانسا دینے کے بعد ان کو موت سے ہمکنار کردیتا ہے تاکہ جلد از جلد ایک اور انسان مستقل جہنمی ہوجائے توبہ سے پہلے پہلے۔
۳۱؛ روح صورتِ مثالی میں متشکل ہوکر اولیائے کرام کو بیداری مین ملتی ہیں
۳۲؛ روح بیک وقت کئی صورتوں میں متشکل ہوکر مختلف مقامات پر جاسکتی ہے
۳۳؛ بعض ارواح کو ایسی قدرتِ کاملہ عطا کی گئی ہے کہ وہ اجسام میں متمثل ہوکر وہ کام کرتی ہیں جو جسموں سے وقوع میں آئے جیسے حضر و الیاس (علیھم السلام) کی ارواح۔
۳۴؛ جس طرح فرشتے مختلف صورتیں بلدنے پر قادر ہیں اور جسطرح جنات اجسام ناری کو مختلف صورتوں میں بدلتے رہتے ہیں اسی طرح نفوس انسانی مٰں بھی وہ لوگ جو مرتبہ کمال کو پہنچ گئے ہوں اس عالم میں مختلف شکلوں اور صورتوں میں متبدل ہونے کی طاقت رکھتے ہیں۔
۳۵؛ یہی نفوس قدسیہ جنھیں اس دنیا میں یہ طاقت حاصل رہتی ہے فوت ہونے کے بعد موانعاتِ بدنی اٹھ جانے سے بدلیت کی یہ قوت ان میں اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
۳۶؛ روح کی صورتِ مثالی کے وقوع کی تین صورتیں ہیں ایک یہ کہ جسدِ مثالی مشابہ جسدِ عنصری کے ہو دوسری یہ ہے کہ روح نے خود عناصر مٰن تصرف کرکے جسدِ عنصری تیار کرلیا ہو۔ تیسری صورت یہ ہے کہ دنیوی جسد کو ہی لطیف کرکے روح پر اوڑھ لیا ہو۔ چنانچہ انبیاٗ علیھم الصلوٰہ والسلام جسد عنصری دنیوی میں زندہ ہیں۔
۳۷؛ روحِ حبیبِ کبریا علیہ السلام بعض دفعہ ستر ہزار صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔
۳۸؛ بہت سے اولیا اللہ بیداری میں دیدارِ مصطفیٰ علیہ السلام سے مشرف ہوتے ہیں، اور فیوض و برکات حاصل کرتےہیں۔
۳۹؛ ارواح کبھی اپنے اختیار سے مجالس اولیائے کرام میں حاضر ہوتی ہیں اور کبھی ان کو بلایا جاتا ہے۔
۴۰؛ فوت ہونے کے بعد اولیا اللہ کی ارواح اپنے محبوں، دوستوں اور مریدوں کی امداد کرتی ہیں۔
۴۱؛ روح کو بلانے اور اس سے مدد لینے کا ثبوت قرآن و حدیث اور دیگر آسمانی کتابوں مٰن موجود ہے۔
۴۲؛ حاضراتِ ارواح کا علم قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔
۴۳؛ اولیائے اللہ کی کئی روحانی باطنی مجالس منعقد ہوتی ہیں جن مٰن زندہ اور ازجہاں رفتہ ااولیا و انبیا کی روحیں جمع ہوتی ہیں۔
۴۴؛ روحیں ازل سے ہی ایک دوسرے کو پہچانتی ہیں۔
۴۵؛ فوت ہونے کے بعد ارواح آپس میں ملاقات کرتی ہیں۔
۴۶؛ زندوں کی روحوں کی ملاقات مردوں کی روحوں سے ہوتی ہے۔
۴۷؛ ایسے کئی صوفیائے کرام ہیں جو ارواح سے ملتے ہیں اور کلام کرتے ہیں۔
۴۸؛ روح ہر معنوی چیز کا ادراک کرلتی ہے۔
۴۹؛ دعوتِ قبور اور دعوتِ ارواح میں بہت فرق ہے۔
۵۰۔ روح کو بلانے اور اس سے بات چیت کرنے اور ان سے ظاہری و باطنی فیض لینے اور روح کے کمالات و فیوض و برکات کے تمام اہلسنت وجماعت قائل ہیں۔