Post by Admin on May 31, 2017 20:26:13 GMT
یہ تحریر صرف ان دھریوں کے لیئے ہے جو دیسی دھریہ کہلاتے ہیں لیکن جو سمجھتے ہیں کہ ان کے دھریت کے ہونے کا جواز جائز ہےاور جو بعض سوالات کے جوابات جاننا چاہتے ہیں۔ اس تحریر کی ابتداء تو ہم دنیا کی حقیقت سے کریں گے اور اسی کے آخر میں چند وہ باتیں بیان کریں گے جو ہم میں سے اکثر حتیٰ کہ اچھے خاصے مسلمان کے بھی اذھان میں آجاتی ہیں کیونکہ شیطان ہر کسی کے ساتھ لگا ہے۔ اسلیے اس کو صاحبانِ غوروفکر ہی پڑھیں اور انتہائی انہماک سے سوچ سمجھ کر اپنے دل میں اتاریں ۔ امید ہے کہ دلوں پر پڑی گرد سچائی کے الفاظ سے مٹ جائے گی اور گھٹن میں تازہ ہوا کے چند جھونکے نصیب ہوجائیں گے
اے عزیز! جان کہ حضور نبی کریم رحمتہ للعالمین ایک روز ایک مردہ بکری کے قریب سے گزرے فرمایا دیکھو یہ مردار کس درجہ ذلیل و خوار ہے کوئی اسکی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اور فرمایا قسم ہے اس خد کی جس کے قبضہ ء قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے کہ اللہ تعالےٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی ذلیل و خوار ہے۔ اگر دنیا کا درجہ حق تعالےٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پر جیسا بھی ہوتا تو کوئی کافر ایک چلو پان تک نہ پیتا اور فرمایا دنیا اور جوکچھ اس مین ہے ملعون ہے۔ سوائے اسکے جو اللہ تعالیٰ کے لیئے ہو اور فرمایادنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے اور فرمایا جو شخص دنیا سے محبت کرتا ہے وہ آخرت کا نقصان کرتا ہے اور جو شخص آخرت کو دوست رکھتا ہے وہ دنیا کا نقصان برداشت کرتا ہے۔
پس تم ناپائیدار کو چھوڑ کر پائیدار کو اختیار کرو۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن امیرالمومنین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس میں بیٹھا ہواتھا۔آپ کے پاس ایسا پانی لایا گیا جس میں شہد پڑا ہوا تھاجب آپ اس کو اپنے منہ کے قریب لے گئے تاکہ پئیں لیکن آپ نے اس کو نہیں پیا اور آپ رونے لگے، حاضرین بھی رونے لگے کچھ دیر کے بعد آپ پھر روئے اور کسی شخص کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ آپ سے رونے کا سبب دریافت کرے، جب آپ نے آنکھوں سے آنسو صاف کئے تب حاضرین میں سے بعض اصحاب نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کے رونے کا کیا سبب تھا؟۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بار حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، میں نے دیکھا کہ آپ اپنے دستِ مبارک سے کسی چیز کو دفع فرمارہے ہیں اور کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی! میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا چیز ہے جس کو آپ دستِ مبارک سے ہٹا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا! یہ دنیا ہے جو میرے پاس آنا چاہتی ہے، میں نے اس کو دفع کردیا تھا وہ پھر آئی اور کہا کہ اگر آپ نے مجھ کو چھوڑ دیا ہے تو کیا ہوا آپ کے بعد ایسے لوگ آئیں گے کہ وہ مجھ کو نہیں چھوڑیں گے! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسوقت مجھے خوف آیا کہ میں کہیں اسکے ہاتھ میں نہ پڑجاؤں۔
دنیا کیا ہے؟
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ (دنیا، حق تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے اور جب سے دنیا کو پیدا فرمایا ہے کبھی اس پر نظر نہیں کی ہے)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے دنیا خانہ بدوشوں کا گھر ہے اور مفلسوں کا مال ہے، دنیا وہ جمع کرے جس کو عقل نہ ہو اور اسکی طلب میں کسی سے دشمنی وہ رکھے جو بے علم ہو اور دنیا پر حسد وہ کرے جو فقہ سے بے خبر ہو اور دنیا طلبی وہ شخص کرے جس کو یقین کا علم حاصل نہ ہوا ہو!
ایک اور ارشاد گرامی ہے، جو کوئی صبح کو اٹھے اور اسکا مقصود زیادہ تر دنیا ہو تو وہ مردانِ الٰہی سے نہیں ہے کیونکہ اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور یہ چار چیزیں ہمیشہ اس کے دل میں رہیں گی۔ ایسا غم جو کبھی دور نہ ہوسکے، ایسی مصروفیت جو کبھی ختم نہ ہو اور ایسی مفلسی جو کبھی تونگری کا منہ نہ دیکھے اور ایسی امید جس کو ہرگز ثبات نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تم چاہتے ہو کہ میں دنیا کا راز تم کو بتلادو! تب آپ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک مرتبہ (گھوری) پر لے گئے جس پر لوگوں کے سروں بکریوں کے سروں کی ہڈیاں پڑی تھیں اور غلاظت کے ڈھیر تھے، آپ نے ارشاد فرمایا: ابوہریرہ! یہ سر جو تم دیکھ رہے ہومیرے اور تمہارے سروں کی مانند تھے اور آج ان کی صرف ہڈیاں باقی ہیں اور یہ ہڈیاں عنقریب گل کر مٹی ہوجائیں گی اور یہ غلاظت و نجاست رنگ برنگ کے کھانے ہیں جو بڑی تگ و دو سے حاصل کیئے گئے تھے ان کا یہ انجام ہوا کہ سب لوگ ان سے کراہیت کررہے ہیں اور کپڑوں کی دھجیاں ان شاندار کپڑوں کی ہیں جن کو ہوا اڑاتی تھی اور یہ ہڈیاں ان چارپایوں کی ہیں جن کی پشت پر سوار ہوکر لوگ دنیا کی سیر کرتے تھے۔ دنیا کی حقیقت بس یہی ہے، جو کوئی چاہتا ہے کہ دنیا پر روئے اس کو رونے دو کہ رونے کا ہی مقام ہے۔ پس جتنے لوگ اس وقت موجود تھے وہ رونے لگے۔
تخلیق دنیا:
حجۃ الاسلام امام غزالی (رحمتہ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب سے دنیا کو پیدا کیا گیا ہے آسمان اور زمین کے درمیان لٹکی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر نظر نہیں فرمائی ہے قیامت میں وہ عرض کریگی ، الٰہی مجھے اپنے کسی کمترین بندے کے حوالے فرمادے۔ حق تعالےٰ ارشار فرمائے گا اے ناچیز خاموش ہوجا! جب میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ تو دنیا میں کسی کی ملک ہو تو کیا آج میں اس بات کو پسند کروں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے: چند لوگ قیامت میں ایسے آئیں گے جنکے اعمال تھایہ کے پہاڑوں کی مانند ہوں گےان سب کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ لوگ نماز پڑھنے والے ہوں گے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ نماز پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے اور رات کو بیدار رہتے تھے لیکن دنیا کے مال و متاع پر فریفتہ تھے۔
بینا اور نابینا کون؟
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاشانہ نبوت سے باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام سے خطاب فرمایا کہ تم میں سے ایسا کون ہےجو اندھا ہے اور حق تعالیٰ اس کو بینا فرمادے۔ معلوم ہونا چاہیئے کہ جو کوئی دنیا کی طرف رغبت کرے اور طول آمل سے کام لے حق تعالےٰ اس کے دل کو اسی کے بقدر اندھا کردیتا ہے اور جو کوئی دنیا میں زاہد ہو اور طول آمل سے کام نہ لے (طول آمل سے محفوظ رہے) حق تعالےٰ اس کو علم عطا فرمائے گا بغیر اس کے کہ وہ کسی سے سیکھے اور بغیر راہبر کے اسکی راہنمائی فرمائے گا۔
ہلاکت کا سبب؛
ایکدن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد نبوی میں تشریف لائے تو حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے بحرین سے جو مال بھیجا تھا، انصار کو اسکی خبر ہوگئی، صبح کی نماز کے وقت ان حضرات کا ہجوم ہوگیا جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو سب لوگ آپ کے روبرو کھڑے رہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اور دریافت کیا کہ شاید تم نے سن لیا ہے کہ کچھ رقم آئی ہے! لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ایسا ہی ہے ! آپ نے فرمایا تم کو بشارت ہو تم کو آئندہ ایسے معاملات پیش آئیں گے جن سے تم کو مسرت اور خوشی ہو اور تمہارے معاملہ میں فقر اور تنگدستی سے نہیں ڈرتا ہوں۔ مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ تم کو بھی دنیا کا مال کثرت سے دیا جائے جسطرح تم سے پہلے لوگوں کو دیا گیا اور تم اس پر اسطرح فخر کرنے لگو جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے کیا تھا اور تم اسی طرح ہلاک ہوجاؤ جیسے پہلے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دل کو کسی طرح بھی دنیا کی یاد سے نہ لگاؤ۔
اے عزیز پڑھنے والے غور کر کہ کیا عربوں کے پاس اربوں نہیں؟ ان کے اربوں کے ہی باعث عرب تباہ نہیں ہوگئے؟ کیا یہ آقائے رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ علم غیب نہیں جو ان کو اللہ کی جانب سے عطا ہوا اور جسکا گاہے بگاہے وہ کہیں واضح تو کہیں اشارتاً ذکر فرما گئے؟
اکل حلال کا کمال
شیخ ابوحازم رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ میں دنیا کو دوست رکھتا ہوں کیا تدبیر کروں کہ اس کی دوستی میرے دل سے نکل جائے۔ انہوں نے کہا کہ کسبِ حلال میں مشغول ہوجاپھر اس مال کو ہرجگہ صرف کر۔ ایسی دنیا دوستی سے تجھے نقصان نہیں پہنچے گا۔ فی الواقع انہوں نے یہ بات اس وجہ سے کہی کہ انہوں نےس مجھا کہ جب ایسا کرے گا تو دنیا کی محبت اس کے دل میں نہیں رہے گی۔ شیخ یحییٰ بن معاذ نے کہا ہے کہ دنیا شیطان کی دکان ہے، اسکی دکان سے کچھ مت چرا اور نہ کچھ لے اگر کچھ لے گا تو بے شک وہ تجھ کو پکڑ لے گی۔ شیخ فضیل رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر دنیا سونے کی ہوتی مگر فانی اور آخرت مٹی کی ہوتی اور باقی تو عقل کا یہی تقاضہ تھا کہ تم اس باقی مٹی کو اس فانی سونے سے زیادہ عزیز رکھو! لیکن ہوتا یہ ہے کہ انسان باقی رہنے والے سونے کو چھوڑکر فنا ہونے والی مٹی کو دوست رکھتا ہے۔ شیخ ابوحازم کا ارشاد ہے کہ دنیا سے حذر کروکیونکہ میں نے سنا ہے کہ جس نے دنیا کوبزرگ جانا قیامت میں اسکو کھڑا کیا جائے گااور منادی کردی جائے گی کہ یہ وہ شخص ہے کہ جس چیز کو حق تعالیٰ نے حقیر کیا تھا اس کو جس نے بزرگ سمجھا! حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہےکہ ۔۔جو دنیا میں آیا ہے وہ مہمان ہے اور جو چیز اس کے پاس ہے وہ عاریۃً ہے پس مہمان کا جانا اور عارتاً دی ہوئی چیز کا واپس لے لینا ضروری ہے۔
حضرت لقمان کا فرمان؛
حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے کہا کہ اے بیٹے! دنیا کو بیچ کر آخرت خرید لو تاکہ دوہرا منافع حاصل ہو۔ آخرت کو بیچ کر دنیا مت خریدو اس میں دوہرا دین کا نقصان ہے۔ حضرت ابوامامہ باہلی نے کہا ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ابلیس کے لشکری اس کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ایسے نبی کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے ۔ اب ہم کیا کریں! ابلیس نے دریافت کیا کہ آیا وہ لوگ دنیا کو دوست رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! تب اس نے جواب دیا کہ کچھ اندیشہ مت کرو اگر وہ بت پرستی نہیں کرتے تو کیا ہے میں دنیا پرستی پر سے ان لوگوں کو اس بات پر لے آؤں گا کہ وہ جوکچھ بھی لیں ناحق لیں اور جو کچھ بھی دیں ناحق دیں اور جو کچھ چھوڑیں وہ ناحق چھوڑیں، تمام خرابیاں اور برائیاں انہی تین باتوں سے پیدا ہوتی ہیں۔
دنیا کی حقیقی مثال
حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر ساری دنیا مجھے بے ملال اور بے حساب دیں تب بھی میں اس سے ننگ روا رکھوں گا۔ اسی طرح جیسے تم مردار سے ننگ وعار رکھتے ہو۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے عامل تھے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے گئے تو ان کے مکان میں کچھ ساز وسامان نہ تھا ایک ڈھال ایک تلوار اور ایک کجاوہ موجود تھا تب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا اگر آپ نے گھر میں مال کوٹھری بھی نہ بنوالی! انہوں نے جواب دیا کہ مجھے جہاں جانا ہے، وہاں کے لیئے بس یہ کافی ہے۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ وہ روز آیا سمجھئے کہ بازپسیں جس کی اجل آنی تھی وہ مرگیا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ تم وہ دن آیا سمجھو کہ کبھی دنیا ہرگز موجود نہیں ہے اور آخرت لدام ہے۔ کسی صحابی کا ارشاد ہے کہ جو شخص جانتا ہے کہ موت برحق ہے اس کا مسرور شادمان ہونا بڑے تعجب کی بات ہے اور جو شخص چاہتا ہے کہ تقدیر حق ہے اور روزی کی فکر میں اسکا دل مشغول رہے عجیب بات ہے۔
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتےہیں کہ حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان توبہ اور طاعت کو ہر روز پیچھے ڈال دیتا ہے اور راست گوئی کو بیکار کردیتا ہے یہاں تک کہ اسکا فائدہ دوسرے کو حاصل ہوتا ہے۔ شیخ ابوحازم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر تو شاد ہو اور نہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے تو غمگین ہو، غم کے بغیر دنیا میں خوشی نہیں ہے، حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ موت کے وقت آدمی کے دل میں یہ تین حسرتیں رہتی ہیں ایک یہ کہ جو جمع کیا تھااس سے سیر نہ ہوا اور دل کی جو آرزو تھی وہ حاصل نہیں ہوئی اور آخرت کا کام جیسا کرنا چاہیئے تھا ویسا نہیں کیا۔
دنیا ویران گھر ہے؛
جناب محمد بن المنکدر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص تمام عمر دن کے روزے رکھے اور رات کو نماز پڑھے، حج اور جہاد کرے اورتمام محرمات سے بچے لیکن دنیا اسکے پاس بہت زیادہ ہو تو قیامت میں اسکی نسبت کہا جائے گا کہ یہ وہ شخص ہے جو حق تعالےٰ کی حقیر کی ہوئی چیز کو دنیا میں بزرگ اور عظیم سمجھتا تھا۔ پس اے عزیز ایسے شخص کا بھی حال کیا ہوگا اور ہم میں کون ایسا ہے جو اسکا مصداق نہ ہو، ہم بہت گنہگار ہیں اور فرائض کی بجا آوری میں تقصیر کرتے ہیں اور علماء نے فرمایا ہے کہ دنیا ویران گھر ہے اور اس سے زیادہ ویران اس شخص کا دل ہے جو دنیا طلبی کرتا ہے، جنت ایک آباد گھر ہے اور اس سے زیادہ آباد اس شخص کا دل ہے جو جنت کی طلب کرتا ہے اور اسکو ڈھونڈتا ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ خواب میں تم کو ایک درم ملے وہ اچھا ہے یا بیدار میں ملنا اچھا ہے، وہ بولے کہ اگر بیداری میں ملے تو زیادہ اچھا ہے اور مجھے پسند ہے۔ شیخ یحییٰ بن معاذ رازی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ عاقل وہ ہے جو یہ تین کام کرے۔ دنیا کو ترک کردے، قبل اسکے کہ دنیا اسکو چھوڑے اور وہ قبر کو آباد کرے۔ قبر میں جانے سے پہلے اور حق تعالیٰ کے دیدار سے پہلے اسکو خوشنود اور راضی کرے۔ ان کا ہی یہ قول بھی ہے کہ دنیا کی شامت اتنی ہے کہ اس کا شوق آدمی کو حق تعالیٰ سے روگرداں کردیتا ہے اور اگر یہ مل جائے تو پھروہ کیا کچھ نہ کرے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان تمام باتوں کا دیسی دھریت سے کیا تعلق ہے۔ تو گزارش ہے کہ پہلے مکمل طور پر یہ پڑھیں اور جو جو لکھا ہے اس کو اپنی اپنی لائف پر ایمپلیمنٹ کریں اور سوچیں اپنے ساتھ تنہا بیٹھ کر کہ اس میں کونسی کونسی باتیں ہیں جو ہم میں پائی جاتی ہیں اور پھر ایک مقام پر مزید بیان ہوگا کہ وہ عوامل کہ جس کی وجہ سے لوگ اللہ کی ذات سے منکر ہوجاتے ہیں حالانکہ ان کے آباؤ اجداد دین اسلام کے پیرو ہی رہے ہوں مگر وہ وجوہات جو بسا اوقات بالکل جائز لگتی ہیں لیکن جس کی تہہ میں عمیق گہرائی چھپی ہے اور وہ گہرائی جب تک آپ کے سامنے واضح نہیں ہوتی اس وقت تک آپ کے اندر کے سوالات کے تسلی بخش جوابات نہیں مل سکتے۔ دنیا کی بے ثباتی کا بیان اس لیئے ضروری ہے کہ دورِ جدید میں کچھ ایسے ناقص ذہن ہیں جو شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں اور یہ شکوک و خیالات ان کے دلوں دماغوں میں وہی ابلیس ڈالتا ہے جو ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ اسی لیئے پہلے دنیا کا بیان ضروری تھا کہ پتہ چل سکے کہ اسلام کیا کہتا ہے دنیا کی بے ثبات زندگی کے بارے میں غور فرمائیں میرے دوستو
حضرت بکر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی چاہتا ہے کہ دنیا میں خود کو دنیا سے بے نیاز بنا دے تو وہ اس شخص کے مانند ہوگا جو کہ آگ بجھانا چاہتا ہے لیکن سوکھی لکڑیاں آگ میں ڈالتا جارہا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے دنیا چھ چیزوں سے عبارت ہے، کھانا پینا، پہننا، سونگھنا سواری اور نکاح! اور سب ماکولات میں بہترین چیز شہد ہے اور وہ مکھی کا لعاب ہے۔ اور سب سے اچھا کپڑا حریر ہے اور وہ کیڑوں سے پیدا ہوتا ہے۔ سونگھنے کی چیزوں میں سب سے بہتر چیز مشک ہے تو وہ ہرن کا خون ہےاور پینے کی سب چیزوں میں پانی بہتر ہے لیکن دنیا کے تمام لوگ اس سے نفع اندوزی میں برابر ہیں، سواریوں میں سب سے بہتر گھوڑا ہے، لوگ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر دوسروں کو قتل کرتے ہیں اور سب شہوتوں میں عظیم تر عورت سے محبت کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک پیشاب دان دوسرے پیشاب دان میں پہنچتا ہے اور بس اور جو عورت نیک ہے۔ اس کو اپنے بدن سے سنوارتی ہے اور تو اس سے جو بدتر ہے (فرج) چاہتا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ اے لوگو! تم ایک کام کے واسطے پیدا کیئے گئے ہو۔ اگر اس پر ایمان نہ لائیں تو کافر ہوجائیں اور اگر ایمان لائیں تو پھر اسکو آسان سمجھتے ہو لیکن تم احمق اور نادان ہو کہ ہمیشہ رہنے کے واسطے تم کو پیدا کیا ہے لیکن ایک گھر سے نکال کر دوسرے گھر میں لے جائیں گے۔
دنیائے مذموم کی حقیقت
اس مقام پر صرف یہ سمجھنا چاہیئے کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب کا سب ملعون ہے۔ اب یہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ کیا ہے جو خدا کے لیئے ہے اور ملعون نہیں ہے۔ اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے ملعون ہے۔ اورا سکی دوستی تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ پس جاننا چاہیئے کہ دنیا میں جو کچھ ہے اس سب کی تین اقسام ہیں
ایک چیز تو وہ ہے کہ اس کا ظاہر و باطن سب دنیا ہی سے ہے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسی شے خدا کے لیئے ہو۔ اور وہ سب گناہ ہے۔ نیت اور قصد سے خدا کے لیئے نہیں ہوجاتی۔ اور مباح اشیاء میں عیش و عشرت اسی میں ہے کیونکہ وہ محض دنیا ہے۔ اور غفلت و تکبر کا تخم اور تمام گناہوں کا سرمایہ
دوسری قسم یہ ہے کہ وہ عمل بظاہر خدا کے واسطے ہو پھر ممکن ہے کہ نیت کے باعث وہ دنیا داری میں داخل ہوجائے اور یہ تین چیزیں ہیں ، فکر و ذکر مخالفت، شہوت ۔ کیونکہ اگر ان تینوں چیزوں سے آدمی کا مطلب آخرت اور رحمت ِ الٰہی کا حصول ہے تو اگرچہ دنیا میں کرے لیکن وہ خدا کے واسطے ہوں گی، ہاں اگر فکر سے غرض طلب علم ہو تاکہ اس سے مرتبہ جاہ حاصل کرے اور ذکر الٰہی سے غرض یہ ہو کہ لوگ اس کو پارسا سمجھیں اور ترک دنیا سے مطلب یہ ہو کہ لوگ اس کو زاہد خیال کریں تو دنیا میں یہ عمل دنیا کے لیئے ہوئے اور لعنت کے قابل ہیں اگرچہ بظاہر ایسا نظر آتا ہو کہ خدا کے واسطے ہیں۔
تیسری قسم یہ ہے کہ ظاہر میں حظ نفسانی کے لیئے یہ عمل نظر آتا ہو لیکن نیت کی بدولت وہ عمل خدا کے لیئے مخصوص ہوجائے اور دنیا سے علاقہ نہ رہے جیسے کھانا کھانا کہ اس سے آدمی کی غرض یہ ہو کہ عبادت کے لیئے طاقت اور قوت اس میں پیدا ہو اور نکاح سے مقصود یہ ہو کہ اولاد پیدا ہو تھوڑا مال کمانے (کسب) سے مقصود ہو یہ کہ طمانیتِ قلب حاصل ہو اور مخلوق سے بے نیاز رہے۔
حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے بڑائی اور فخر کی خاطر دنیا طلب کی حق تعالیٰ اسی پر ناخوش ہوگا اور اگر وہ خلق سے بے نیاز ہے کہ بقدرِ ضرورت طلب کرے تو قیامت کے دن اسکا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند روشن ہوگا۔ پس دنیاداری عبارت اس سے ہے کہ آدمی حظوظِ نفسانی میں گھر جائے کیونکہ آخرت کے لیئے اسکی حاجت نہیں ہےاور وہ چیز جس کی آخرت میں حاجت ہے وہ آخرت سے علاقہ رکھتی ہے دنیا سے اسکا تعلق نہیں ہے جیسا کہ جانور کا دانہ یا چارا جو حج کے راستے میں اسکو دیا جاتا ہے یہ زادِ حج میں داخل ہے اور یہ چیز دنیا کی ہے اسکو حق تعالیٰ نے (ھَوَا) فرمایا ہے اور ارشاد کیا ہے۔
ونھی النفس عن الھوٰی فان الجنۃ ھی الماوٰی۔ اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنت ہی ٹھکانہ ہے
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا
وزین للناس حب الشھوات من النساء والمال والبُنون والقناطیر المقنطرۃ۔ ۔۔۔ جان کہ دنیا کی زندگی تو یہی کھیل کود ہے اور آرائش اور تمہارا آپس میں بڑائی جتانا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا۔
یعنی دنیا داری عبارت ہے پانچ چیزوں سے کھیل اور خوش فعلی اپنے تئیں سنوارنا، اور مال و اولاد کی زیادتی کا خواہاں ہونا اور دوسروں پر تفاخر اور باہم جھگڑنا ۔ اس ایک ارشاد میں ان پانچ چیزوں کواسطرح جمع فرمایا ہے۔
یعنی خلائق کے دل میں زن، فرزند، مال و زر، گھوڑے اونٹ گائے بیل وغیرہ کی محبت اور الفت سنوار دی گئی ہے ذٰلک متاع الحیٰوۃ الدنیا ۔۔۔ دنیا کی زندگانی کی پونجی بس یہی ہے۔ پس معلوم ہونا چاہیئے کہ ان تمام چیزوں سے ہروہ چیز جو کارِ آخرت کے لیئے ہے وہ زادِ آخرت میں داخل ہے اور جو نازونعم اور قدرِ حیات سے زیادہ ہے وہ آخرت کے لیئے نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کے تین درجے ہیں ایک تو بقدر ضرورت کھانا پینا اور رہنا۔ اور اس مقدار سے زیادہ کا شمار زینت میں ہے اور تجمل کی زیادتی ہے اوراسکا تعلق آخرت سے نہیں۔ اور نہ ہی اسکی کوئی انتہا ہے۔ اور جس شخص نے بقدر ضرورت پر قناعت کرلی۔ وہ جنتی ہےاور جو تجمل کے درجہ تک پہنچا اسکا مقام ادویہ دوزخ ہے کہ اسکی کچھ انتہاء نہیں ۔ اور جس شخص نے بقدر حاجت پر قناعت کرلی وہ خطرہ سے خالی نہیں کیونکہ حاجت کی دو طرفیں ہیں ۔ ایک تو ضرورت کے نزدیک ہے اور دوسرا عیش و عشرت کے نزدیک۔
اور ان کے درمیان کا جو درجہ ہے وہ کمال اجتہاد کے ذریعہ سے پہنچانا جاسکتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ کسی شے جو کہ اسکی حاجت سے زیادہ ہو حاجت میں شمار کرلے اور حساب کے خطرہ میں مبتلا ہو۔ اور یہی وجہ تھی کہ بزرگانِ دین نے بقدرِ ضرورت پر قناعت کی۔ اور اس سلسلے میں سب کے امام حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت اویس قرنی دنیا سے اس طرح دست بردار ہوگئے تھے کہ لوگ ان کو دیوانہ سمجھنے لگے تھے۔ کبھی سال دوسال تک ان کی صورت نظرنہیں آتی تھی ، کبھی ایسا ہوتا کہ علی الصبح اذان کے وقت باہر چلے جاتے اور عشاء کی نماز کے بعد پلٹ کر آتے کھجور کی گٹھلیاں جو راستے میں پڑی ہوئی مل جاتیں ان کو کھا کر گزارہ کرلیتے اور اگر کبھی کبھار خرمے مل جاتے تو ان کی گٹھلیاں خیرات کردیتے یا ان سے اتنے خرمے مول لے لیتے کہ روزہ کھولنے کے وقت کام آجائیں، گھورے پر جو چھیتڑے پڑے ہوئے مل جاتے ان کو پہنتے، بچے دیوانہ سمجھ کر ان کو پتھروں سے مارتے تو ان سے فرماتے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے مجھے مارو تاکہ میری طہارت اور نماز میں خلل نہ پڑے، یہی وہ شرف تھا کہ باوجودیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا لیکن آپ کی بہت تعریف فرمائی اور حضرت عمر کو آپ کے بارے میں وصیت کی تھی۔
اے راہ گم کردہ دھریوں بلکہ دیسی دھریت کے شکار دوستو!
اس امر سے آگاہ ہو کہ دنیا بہت سی شاخوں پر منقسم ہے۔ منجملہ ان سب کے ایک شاخ مال و نعمت کی ہے۔ اور ایک شاخ جاہ و حشمت کی۔ اور اسی طرح دوسری شاخیں ہیں ۔ لیکن مال کا جو فتنہ ہے وہ تمام فتنوں سے بڑھا ہوا ہے۔ اور حق تعالیٰ نے اسے عقبیٰ کے نام سے یاد کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فلقتحم العقبۃ وما ادرٰک مالعقبۃ فک رقبتہِِ اواطعٰم فی یوم ذی مسغبۃ۔ کیونکہ آدمی کو سوائے مال کے چارہ نہیں ہے کیونکہ یہ عیش و عشرت کا ذریعہ بھی ہے اور زادِ آخرت بھی ہے۔ اسلیئے کہ آدمی کے لیئے کھانا ۔ لباس ، رہائش ضروری اشیاء ہیں ۔ اور یہ سب چیزیں مال ہی سے میسر ہوتی ہیں۔ اور ان کے لیئے نہ ہونے کی صورت میں صبر نہیں ہوسکتا اورحصول میں سلامتی نہیں ہے اور اگر یہ نہ ہو تو محتاجی کا سامنا ہے اور کفر کا اندیشہ ہے۔ اور اگر مل جائے تو آدمی توانگر ہے ۔اور اس میں غرور وتکبر کا خوف ہے۔ فقیر کے لیئے دو حالتیں ہیں ۔ ایک حرص دوسری قناعت۔ قناعت اچھی صفت ہے اور حرص کے لیئے بھی دو حالتیں ہیں۔ ایک یہ کہ دوسرے لوگوں سے مال کی طمع رکھے اور دوسری حالت یہ ہے کہ اپنے زورِ بازو سے کمائے (کسب کرے) اور یہ حالت بہت ہی خوب ہے۔ جس طرح فقیر کی دوحالتیں ہیں اسی طرح توانگر کی بھی دو حالتیں ہیں ایک حال تو اس کا بخل اور مال کو خرچ کرنے سے روکنا ہے اور یہ بہت ہی برا کام ہے اور دوسری حالت داد ودہش (خوب خرچ کرنا اور دوسروں کودینا) ۔ اس داد و دہش کی بھی دو حالتیں ہیں ۔ ایک تو اسراف (فضول خرچی) ہے اور دوسری حالت میانہ روی (خرچ میں اعتدال) اور ان دونوں میں ایک بری حالت ہے اور دوسری اچھی لیکن یہ دونوں ایکدوسرے سے بہت ملتی جلتی ہیں اس لیئے اسکی شناخت بھی ضروری ہے
بہرحال مال فائدے اور مضرت سے خالی نہیں ہے اور ان دونوں کا پہچاننا اورانکی معرفت فرض ہے تاکہ انسان مال کی آفت سے بچے اور فائدے کے موافق اسکی جستجو یعنی حصول کی کوشش کرے۔
مال کی دوستی کی کراہت؛
ارشاد باری تعالی ہے۔
اے ایمان والو! جس شخص کو مال اور اولاد حق تعالےٰ کی یاد سے غافل کردے وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔
ارشادِ نبوی ہے کہ مال و جاہ کی محبت انسان کے دل میں نفاق کو اسطرح اگاتی ہے جسطرح پانی سبزے کو اور فرمایا۔ دو بھوکے بھیڑیئے بکریوں کے گلہ میں ایسی تباہی نہیں پیدا کرتے جس طرح جاہ و مال کی محبت ایک مسلمان کے دل میں پیدا کردیتی ہے۔لوگوں نے بارگاہ نبوی سے دریافت کیا۔ یارسول اللہ! آپ کی امت میں سے سب سے بدتر لوگ کون ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔ وہ لوگ جو مال دار ہیں۔ اور فرمایا میرے بعد ایک قوم پیدا ہوگی جس کے افراد طرح طرح کے مزیدار طعام کھائیں گےاور طرح طرح کے کپڑے پہنیں گے۔ خوبصورت عورتیں اور قیمتی گھوڑے رکھیں گے ان کاپیٹ تھوڑے سے سیر نہ ہوگااور وہ بہت زیادہ مال پر بھی قناعت نہیں کریں گے۔ ان کا ہرایک عمل دنیا کے واسطے ہوگا! میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تم کو حکم دیتا ہوں (تم اپنی اولاد تک یہ بات پہنچانا) کہ جوکوئی تمہاری اولاد میں ان کو دیکھے، اس کو چاہیئے کہ ان کو سلام نہ کرے، بیمار ہوں تو انکی عیادت نہ کرے اور اگر کوئی (اسکے خلاف) کرے گا وہ اسلام کو ویران اور برباد کرنے میں ان کا مددگار ہوگا۔ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ دنیا کو اہل دنیا کے پاس چھوڑ دوکہ جو کوئی اس کو اپنی حاجت سے زیادہ لے گا وہ اسکی ہلاکت کا باعث بنے گااور وہ اس سے واقف نہ ہوگا (اسکو خبر ہی نہ ہوگی) ۔ حضور علیہ التحیہ والثنا فرماتے ہیں کہ انسان ہمیشہ یہی کہتا ہے میرا مال! میرا مال اور یہ مال سوائے اس کے تیرا مال کیا ہے کہ اسکو کھائے اور نابود کرے (کپڑے کو) پہنے اور پرانا کردے یا اسکو خیرات کردے اور خداوند تعالیٰ کے پاس ذخیرہ کردے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے آپ کے حواریوں نے پوچھا کہ آپ پانی پر چل سکتے ہیں لیکن ہم نہیں چل سکتے (ہم میں یہ طاقت و قدرت نہیں ہے) اس کا کیا سبب ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ مال و زر تمہاری نظر میں کیسا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میری نظر میں خاک و زر دونوں برابر ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے پانی پر چلنے کی قدرت و قوت عطا فرمائی ہے۔
اب میں اپنے اس دیسی دھریہ کو مخاطب ہوں کہ جو سمجھنا اور سیکھنا چاہتا ہے یا کم سے کم اپنے سوالات کے کچھ جوابات چاہتا ہے وہ یہاں سے بغور مطالعہ فرمائے
مال کی دو اقسام
اے عزیز جاننا چاہیئے کہ اگرچہ مال کو کئی وجہ سے برا کہا گیا ہے مگر ایک وجہ سے یہ اچھا بھی ہے۔ کیونکہ مال خیر و شر دونوں کا حامل ہے اس لیئے اللہ تعالےٰ نے اسے خیر بھی ارشاد فرمایا ہے۔ (ان ترک خیرن الوصیۃ (الآیۃ)) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (نعم المال الصالح للرجل الصالح) یعنی اچھا مال بہتر چیز ہے اچھے شخص کے حق میں ۔ آپ نے مزید فرمایا (کاد الفقران یکون کفوًا) یعنی قریب ہے کہ افلاس اور فقر کفر کا سبب بن جائے۔
اور اسکا سبب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص خود کو (نعمتوں کے حصول کے سلسلے میں ) عاجز پاتا ہے، نان شبینہ کو محتاج ہوتا ہے تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔ اپنے اہل وعیال کو فقر و تنگدستی کی وجہ سے غمگین دیکھتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کی نعمتوں میں کوئی کمی نہیں تو اسوقت شیطان اس کو بہکاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کیسا عدل و انصاف ہے جو خدا نے کیا ہے اور یہ کیسی ناروا تقسیم ہے جو اس نے تیرے حق میں کی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں جس مشال خان کو قتل کیا گیا تھا اسکی ایک پوسٹ کچھ اسی طرح تھی کہ موصوف نے لکھا تھا کہ میں نے فلاں جگہ پر اتنی غریبی دیکھی کہ میرا دل ٹوٹ گیا یہ کیسا خدا کا انصاف ہے۔ یعنی آج کے دور میں بھی 800 سال پرانی بات کے لکھے کی صداقت عیاں ہے۔ انسان یہ بھی سوچتا ہے شیطان کے بہکاوے میں آکر کہ فاسق اور ظالم کو تو اسقدر مال دیا ہے کہ اسکو اپنی دولت کا اندازہ اور مال کا شمار ہی نہیں اور ایک لاچار اور بےبس بھوکوں مررہا ہے۔ اسکو ایک درہم بھی میسر نہیں ! اگر وہ تیری حاجت اور ضرورت سے آگاہ نہیں تو اس طرح اسکا علم ناقص ہے اور اگر وہ ضرورت سے واقف ہے اور مال دے نہیں سکتا تو اسکی قدرت میں خلل ہے اور اگر علم و قدرت کے باوجود نہیں دیتا توا سکی بخشش ورحمت میں خلل ہے۔ اور اگر وہ اس واسطے تجھے مال نہیں دیتا کہ دنیا کے بجائے آخرت میں تجھے ثواب ملے تو وہ اس پر بھی قادر ہے کہ فقر و فاقہ کی مصیبت کے بغیر بھی ثواب عطا فرما سکتا ہے۔ پھر وہ مال کیوں نہیں دیتا؟
اے میرے عزیز دیسی دھریت کے شکار ، ذرا شیطان کے اس بہکاوے کو غور سے پڑھ پھر اسکا علاج بھی بتاتے ہیں تم کو تاکہ تمہارے دل پر جو زنگ لگا ہے اس کا کوئی مداوا ہوسکے۔
وہ سوچتا ہے کہ پھر فقر وفاقہ دور کیوں نہیں ہوتا۔ اگر ثواب اسطرح نہیں دے سکتا تو اسکی قدرت کامل نہیں ہے۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ وہ رحیم جواد اور کریم بھی ہے تو اس کی ان صفات پر اس صورت میں کس طرح یقین کیا جائے کہ وہ جواد کریم ہوتے ہوئے بھی بندوں کو تکلیف میں رکھتا ہے۔ اور اسکا خزانہ نعمتوں سے معمور ہے اور وہ نہیں دیتا۔ اس طرح شیطان دل میں وسوسے پیدا کرکے قضا و قدر کے مسئلہ کو جس کا راز ہر کسی کو معلوم نہیں ہے اسکے سامنے پیش کرتا ہے اور شبہات میں مبتلا کرکے اس کو طیش و غضب میں لاتا ہے تاکہ وہ غصہ میں زمانے کو برا کہے اور گالیاں دے اور کہنے لگے کہ آسمان سخت احمق ہے اور زمانہ میرے خلاف ہوگیا ہے کہ ساری نعمتیں غیرمستحق لوگوں کو دیتا ہے، اسکی اس ناراضی پر جب اسکو سمجھایا جائے کہ آسمان اور زمانہ تو اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہیں اب اگر وہ کہدے کہ اللہ تعالیٰ کے مسخر اور اسکے دستِ قدرت میں نہیں ہے تو کافر ہوجائے گا اور اگر کہتا ہے کہ مسخر ہیں تو پھر جو کچھ اس نے برا کہا ہے اور گالیاں بکی ہیں تو ہو گالیاں حق تعالےٰ کی طرف عائد ہوں گی اور یہ بھی کفر ہے اسی وجہ سے سچے بادشاہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
لاتسبوالدھر فان اللہ ھوالدھر۔ زمانہ کو برا نہ کہو زمانہ خدا ہے۔
اسکا مطلب یہ ہے کہ تم جس چیز کو اپنے کاموں کا کفیل سمجھتے ہو اور تم نے اسکا نام زمانہ رکھا ہے وہ ذاتِ باری تعالیٰ کی ہے پس اسی طرح غریبی اور ناداری سے کفر کی بو آتی ہے۔ مگر اس شخص کی مفلسی کفر کا موجب نہیں بنتی جس کا ایمان مضبوط ہو۔ اور غالب ہو۔ اور جو افلاس میں بھی حق تعالیٰ سے رضامندی کا اظہار کرے۔ اور مفلسی میں بھی اپنی بہتری خیال کرے لیکن عام طور پر لوگ اس مرتبہ کے نہیں ہوتے تو مال کا بقدر کفایت ہونا بہتر ہے۔ تو اس لحاظ سے مال اچھی شے ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ تمام بزرگوں کا مقصود و مطلوب آخرت کی سعادت ہے اور اس سعادت کا حصول تین طرح کی نعمتوں سے ممکن ہے ایک نعمت تو دل میں ہے جیسے علم اور اخلاقِ حسنہ اور دوسری نعمت جسمانی ہے یعنی جسم کی صحت، سلامتی اور تیسری نعمت جسم کے باہر سے متعلق ہے یعنی دنیاداری لیکن صرف ضرورت کے لائق۔
بزرگانِ دین نے مال کو سب سے کم تردرجہ کی نعمت میں شمار کیا ہے اور مال میں سب سے کم مرتبہ سیم و زر (نقدی) ہے اور اس میں سوا اس کے اور کچھ منفعت نہیں ہے کہ مال کو غذا اور لباس کی فراہمی پر صرف کیا جائے ، کیونکہ کھانا اور کپڑا جسم کی سلامتی کے لیئے ہے اور جسم حواس کی نگہداشت کے لیئے ہے اور حواس حصولِ عقل کا ذریعہ ہیں اور عقل دل کا چراغ ہے اور نور ہے تاکہ اس نور کے واسطے سے بارگاہِ الٰہی کا مشاہدہ کرے اور اسکی معرفت حاصل کرے اور معرفتِ الٰہی سعادت کا تخم ہے (اس کے ذریعے سعادتِ اخروی جو مقصود ہے حاصل ہوسکتی ہے)۔ پس مقصود ان باتوں کا حق تعالیٰ ہے ۔ اول و آخر وہ ہے اورتمام موجودات کی ہستی اسکی ذات سے ہے (ہمہ ازوست) ۔ جو یہ بات سمجھ لے گا وہ دنیا کے مال سے صرف اتنا ہی لے گا جو دین کے راستے میں کام آئے اور باقی مال کو وہ اپنے لیئے زہر قاتل سمجھے گا۔ اسی وجہ سے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے پروردگار آلِ محمد کو بقدر کفایت روزی عطا فرما۔
اسی لیئے کہ آقائے دوجہاں جانتے تھے کہ حاجت سے زائد میں ہلاکت و گمراہی ہے ۔ اور بقدر حاجت میں نہیں۔ اس میں کفر کی لُو پائی جاتی ہے اور یہ بھی ہلاکت کا سبب ہے۔
مال کے فوائد اور آفات کا بیان
اے عزیز تجھے معلوم ہو کہ مال سانپ کی طرح ہے۔ اس میں زہر بھی ہے اور تریاق بھی۔ اور جب تک تریاق کو زہر سے علیحدہ نہیں کیا جاتا تب تک اس کے اسرار ظاہر نہ ہوں گے۔ اسی لیئے ہم مال کے فوائد اور نقصانات کو ایک ایک کرکے بیان کررہے ہیں
مال کے اقسام میں ایک دنیوی ہے دوسری دینی۔ دنیوی کے بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں کیونکہ تمام لوگ اس سے آگاہ ہیں۔ البتہ دین بیان کرتے ہیں اور اسکی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم تو یہ ہے کہ انسان اس مال کو اپنی عبادت یا ضروریاتِ عبادت میں صرف کرے جیسے حج اور جہاد میں مال کا صرف کرنا۔ یہ خرچ کرنا گویا عین عبادت میں خرچ کرنا ہے، سامان اور ضروریاتِ عبادت سے مقصد یہ ہے کہ مال کو کھانے (غذا) لباس اور ایسی ہی دوسری ضرورتوں میں صرف کیا کیونکہ اس سے عبادت میں تقویت اور اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ (جس کے بغیر عبادت، عبادت نہیں رہتی) پس وہ چیز جس کے واسطے سے عبادت ہوسکے وہ بھی عین عبادت ہے۔ کیونکہ جس کے پاس مال بقدر حاجت نہیں ہے تمام دن اسکا جسم اور اسکا دل اسکی طلب اور حصول میں مشغول رہے گا اور عبادت سے جس کا خلاصہ ذکر و فکر ہے، محروم رہے گا۔ اور بقدر ضرورت مال ہونے کی صورت میں اس طلب کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ پس جب عبادت کے لیئے مال بقدر ضرورت صرف ہو تو یہ بھی عین عبادت ہے۔ اور فوائد دینی میں داخل ہے۔ اور منجملہ دنیاداری نہیں ہے (اس کو دنیا داری نہیں کہا جائے گا) ۔ لیکن اس کا مدار نیت پر ہےکہ اگر دل کا ارادہ اس مال سے راہِ آخرت کی فراغت کا حصول اور دلجمعی ہے تو اس صورت میں مال جو بقدر حاجت ہے توشہ ء آخرت اور عین آخرت ہوگا۔
یہاں اسلام رزقِ حلال کی افضلیت بتاتا ہے؛
شیخ ابوالقاسم گرگانی رحمتہ اللہ علیہ کی ملکیت میں ایک قطعہء زمین تھا جس سے وہ حلال روزی حاصل کرتے تھے ایک دن اس زمیں سے اناج آیا۔ خواجہ ابو علی فارمدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس اناج سے ایک مٹھی اناج لے لیا اور کہا کہ میرے اس اناج کو اگر دنیا بھر کے متوکلین اپنے توکل کے بدلے میں لینا چاہیں تو میں نہیں دوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اور یہ رمز وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس کا دل مراقبہ میں مشغول ہو کیونکہ اس کو علم ہے کہ معاش کی طرف سے خاطر جمع ہونا راہ آخرت کے طے کرنے میں بڑی مددگار ہوتی ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ مال لوگوں کو عطا کرے، یہ بذل مال چار طریقوں پر ہوتا ہے۔ پہلا طریقہ تو صدقہ ہے، صدقہ کا ثواب دین و دنیا دونوں میں بہت ہے۔ کہ فقیروں کی دعا کی برکت اور ان کی خوشنودی کا اثر بہت ہوتا ہے۔ جس کے پاس مال نہیں ہے وہ صدقہ و خیرات کرہی نہیں سکتا۔ دوسرا طریق بطور مروت مال کا خرچ کرنا ہے۔ مثلاً دوسروں کو اپنا مہمان بنائے (میزبانی کے فرائض انجام دے) اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ احسان کرے خواہ وہ مالدار ہوں، ان کو ہدیہ دے اور مال سے ان کی غمخواری کرے لوگوں کے حقوق ادا کرے اور دوسرے جائز رسوم بجا لائے۔ یہ عمل اگر توانگروں کے ساتھ بھی کیا جائے تو پسندیدہ ہے۔ اس سے سخاوت کی صفت پیدا ہوتی ہے اور معلوم ہے کہ سخاوت بہت ہی عظیم خلق ہے۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ مال کو اپنی آبرو کے تحفظ کے لیئے صرف کرے۔ مثلاً کسی شاعر کو انعام کے طور پر دینا یا کسی حریص اور لالچی پر خرچ کرنا تاکہ ان لوگوں پر اگر خرچ نہیں کرے گا تو شاعر تو ہجو کرے گا اور حریص غیبت کرے گا اور گالیاں دے گا۔ اسی لیئے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم ن ے ارشاد فرمایا۔ وہ چیز جس کے ذریعہ لوگوں سے اپنی آبرو کا تحفظ کیا جائے صدقہ ہے چونکہ مال بدگوئی اور غیبت کا راستہ مخلوق پر بند کرتا ہے اور تشویش اور پریشانی کی آفتوں کو دور کرتا ہے اگر ان لوگوں پر مال خرچ نہ کیا جائے اور وہ ہجو اور غیبت کریں تو صاحبِ مال کے دل میں بھی بدلہ لینے کی خواہش پیدا ہو، اس طرح عداوت اور دشمنی کا سلسلہ جاری ہوجائے گا۔ پس مال ہی اس کام کو کرسکتا ہے۔
چوتھا طریقہ یہ ہے کہ مال ایسے لوگوں کو دے جو اسکی خدمت کرتے ہیں کیونکہ جو شخص اپنے تمام کام اپنے آپ ہی انجام دے گا، جیسے دھونا، جھاڑنا، پونچھنا، خریدنا اور پکانا وغیرہ توان کاموں میں اس کا تمام وقت ضائع ہوجائے گا اور ہر شخص پر ذکر و فکر فرضِ عین ہے اور اسکا یہ کام کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا پس اسکے جو کام دوسرے انجام دے سکتے ہیں اس میں اپنے وقت کو ضائع کرنا افسوس کی بات ہے اسلیئے کہ انسان کی عمر کم ہے موت اس کے قریب ہے، آخرت کا راستہ بہت طویل ہے، اس کے لیئے بہت سے توشہ کی ضرورت ہے۔ پس ہر ایک سانس کو غنیمت شمار کرے اور ایسے کاموں میں جس کو دوسرا شخص اس کے لیئے انجام دے سکتا ہے خود مصروف ومشغول ہونا مناسب نہیں ہے اور یہ معاملہ بھی مال کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔ مال پاس ہوگا تو خدمت گاروں کو دے سکے گا اور وہ خدمت گار اسکو کاموں کی محنت سے بچائیں گے اگرچہ سب کام اپنے ہاتھ سے کرنا بھی ثواب کا موجب ہے لیکن یہ معاملہ اس شخص کا ہے جو جسم سے بندگی میں مشغول ہوتا ہے دل سے نہیں، لیکن جو شخص ذکر و فکر میں مشغول رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کے لیئے ضروری ہے کہ دوسرے لوگ اسکے لیے کام کریں تاکہ اس کو اطمینان قلب میسر ہو اور اس کام کے انجام دینے میں اسکو دلجمعی میسر آسکے جو جسم کی طاعت و بندگی سے بزرگ تر اور عظیم ہے۔
انشاء اللہ اگلی قسط میں مال کی آفات پر بیان ہوگا اور اے میرے عزیز مجھے مکمل یقین ہے کہ تو نے اگر اس تحریر کو غور و فکر اور سوالات کے جوابات جاننے کے لیئے بہ طریق احسن پڑھا ہے تو یقیناً مال کی آفات کے بارے میں بھی جاننا پسند کرے گا۔ وہ میرے دوست جن کے دل میں اللہ کی طرف سے بدگمانی آجاتی ہے وہ اگر شیطان کی طرح مایوس نہ ہو اور اپنا ایمان سلامت رکھے تو یقیناً اللہ عزوجل اس کو مخلوق سے بے نیاز فرمادے گا۔ اے دوست غور کر آخر ابراہیم بن ادھم جیسے شہنشاہ کو کیا پڑی تھی کہ سب کچھ چھوڑ کر فقیری اختیار کی، کیا ان کے پاس دنیا تیرے اور میرے سے زیادہ نہ تھی؟ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ حد سے زیادہ مال بھی انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے (مثال ، میاں منشاء) اور حد سے زیادہ غریبی یا ہوسِ مال بھی انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے (مثال ان لوگوں کی جو غریبی کی وجہ سے کفریہ عقائد اختیارکرلیتے ہیں) یا دوسرے الفاظ میں دھریہ بن جاتے ہیں۔ اس لیئے یہ طویل بیان بہت ضروری تھا کہ مال اور دنیا کی بابت اسلام کی روح جو سکھاتی ہے وہی حق اور سچ ہے۔ دیکھو میرے بھائی تم چاہے اسکا انکار کرو لیکن حقیقت یہ ہے کہ تم یا کوئی بھی اس سے لڑ نہیں سکتا تو پھر ضد اور اہنکار کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا عقل کا شیوہ یہ نہیں ہے کہ جس سے لڑا نہ جاسکے اس کو دوست بنا لیا جائے؟ یہ شیطان دنیا کی تعیشات کو تمہاری آنکھوں میں حسین و جمیل بنا کر ہی تو تم کو دھریت کی طرف لاتا ہے۔
انسان کے ساتھ انسان کے کیئے ہوئے مظالم کا یہ ابلیس لعین خدا پر تھوپتا ہے اور چونکہ خود اللہ کی بارگاہ سے ملعون ہوچکا ہے اسی لیئے چاہتا ہے کہ دیگر مخلوق بھی اسی کی طرح مایوس ہوجائے۔ امتحان چاہے کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو اے میرے دوست ایمان اتنا سستا مت کرو تمہارا مقصود نظر یہ دو دن کی زندگی ہے جبکہ ہوسکتا ہے تمہارے تکالیف کے اندر ہی تمہارے لیئے بھلائی ہو۔
دیکھو میرے بھائی اگر لوہے کو تپا تپا کر جلایا نہ جائے تو وہ کبھی بھی وہ مضبوطی حاصل نہیں کرسکتا جو پتھروں کو کاٹ دینے کی قوت رکھے۔ کیا ریت مٹی کو جلا جلا کر صاف شیشہ نہیں بنایا جاتا؟ اب اگر لوہا یا شیشہ جلتے وقت یہ کہے کہ میرے ساتھ میرے بنانے والے نے زیادتی کی ہے اسلیئے میں اسکی کسی قدرت و کمال کو نہیں مانتا تو کیا کہا جائے گا؟ اس انکار کے بعد بھی اسکو جلنا تو پڑے گا ہی، عقل کی ایک سٹیج وہاں آتی ہے جب اپنی زندگی دنیا کے رشتوں سے دور ہوجاتی ہے اور انسان اپنے باطن میں جھانکنے پر کسی حد تک قادر ہوجاتا ہے۔ تب نفس ء امارہ اور شیطان اسکو بہکا کر اپنی طرح مایوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یاد رہے۔
لا تقنطو من رحمۃ اللہ ۔ یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس ہرگز مت ہو۔ یہی امتحانِ دنیا ہے اور یہی پر ایمان کی جانچ ہوتی ہے۔ انسان کو بڑے مقصد کے لیئے بہت ساری تکلیفات کو جھیلنا پڑتا ہے۔ مسلم کے لیئے تو ویسے بھی یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ کسی کا امتحان کیسے اور کسی کا کیسے۔ یعنی کوئی سائنس میں دے رہا ہے امتحان تو کوئی آرٹس میں کسی کو کیمسٹری نے الجھا رکھا ہے تو کسی کو باٹنی نے گھما رکھا ہے۔ یہ سب چیزیں روح کو سمجھنے سے تمہیں دور کرتی ہیں۔ یہی تعیشات ہمیں اس رب کے انکار کی طرف لے جاتے ہیں جہاں پر ممکن ہے ہمارے اس امتحان کے بدلے میں بہتریں ذریعہ ہو لیکن ہم اپنے شیطانیت کا شکار ہوکر انکار کرکے اس سے بھی محروم ہوجائیں۔ اسلیئے زن ، زر ، زمین یہ تین چیزیں شیطان کی دکان ہیں اور جو ان تین چیزوں کو سمجھ گیا وہی فلاح پا سکتا ہے۔
وآخرالدعوانہ ۔ اللہ سب کے ایمان کو جِلا بخشے اور ہمیں تکالیف میں ایمان کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی یا رب العالمین
اے عزیز! جان کہ حضور نبی کریم رحمتہ للعالمین ایک روز ایک مردہ بکری کے قریب سے گزرے فرمایا دیکھو یہ مردار کس درجہ ذلیل و خوار ہے کوئی اسکی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اور فرمایا قسم ہے اس خد کی جس کے قبضہ ء قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے کہ اللہ تعالےٰ کے نزدیک دنیا اس سے بھی ذلیل و خوار ہے۔ اگر دنیا کا درجہ حق تعالےٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پر جیسا بھی ہوتا تو کوئی کافر ایک چلو پان تک نہ پیتا اور فرمایا دنیا اور جوکچھ اس مین ہے ملعون ہے۔ سوائے اسکے جو اللہ تعالیٰ کے لیئے ہو اور فرمایادنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے اور فرمایا جو شخص دنیا سے محبت کرتا ہے وہ آخرت کا نقصان کرتا ہے اور جو شخص آخرت کو دوست رکھتا ہے وہ دنیا کا نقصان برداشت کرتا ہے۔
پس تم ناپائیدار کو چھوڑ کر پائیدار کو اختیار کرو۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن امیرالمومنین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس میں بیٹھا ہواتھا۔آپ کے پاس ایسا پانی لایا گیا جس میں شہد پڑا ہوا تھاجب آپ اس کو اپنے منہ کے قریب لے گئے تاکہ پئیں لیکن آپ نے اس کو نہیں پیا اور آپ رونے لگے، حاضرین بھی رونے لگے کچھ دیر کے بعد آپ پھر روئے اور کسی شخص کو یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ آپ سے رونے کا سبب دریافت کرے، جب آپ نے آنکھوں سے آنسو صاف کئے تب حاضرین میں سے بعض اصحاب نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کے رونے کا کیا سبب تھا؟۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بار حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، میں نے دیکھا کہ آپ اپنے دستِ مبارک سے کسی چیز کو دفع فرمارہے ہیں اور کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی! میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا چیز ہے جس کو آپ دستِ مبارک سے ہٹا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا! یہ دنیا ہے جو میرے پاس آنا چاہتی ہے، میں نے اس کو دفع کردیا تھا وہ پھر آئی اور کہا کہ اگر آپ نے مجھ کو چھوڑ دیا ہے تو کیا ہوا آپ کے بعد ایسے لوگ آئیں گے کہ وہ مجھ کو نہیں چھوڑیں گے! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسوقت مجھے خوف آیا کہ میں کہیں اسکے ہاتھ میں نہ پڑجاؤں۔
دنیا کیا ہے؟
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ (دنیا، حق تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے اور جب سے دنیا کو پیدا فرمایا ہے کبھی اس پر نظر نہیں کی ہے)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے دنیا خانہ بدوشوں کا گھر ہے اور مفلسوں کا مال ہے، دنیا وہ جمع کرے جس کو عقل نہ ہو اور اسکی طلب میں کسی سے دشمنی وہ رکھے جو بے علم ہو اور دنیا پر حسد وہ کرے جو فقہ سے بے خبر ہو اور دنیا طلبی وہ شخص کرے جس کو یقین کا علم حاصل نہ ہوا ہو!
ایک اور ارشاد گرامی ہے، جو کوئی صبح کو اٹھے اور اسکا مقصود زیادہ تر دنیا ہو تو وہ مردانِ الٰہی سے نہیں ہے کیونکہ اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور یہ چار چیزیں ہمیشہ اس کے دل میں رہیں گی۔ ایسا غم جو کبھی دور نہ ہوسکے، ایسی مصروفیت جو کبھی ختم نہ ہو اور ایسی مفلسی جو کبھی تونگری کا منہ نہ دیکھے اور ایسی امید جس کو ہرگز ثبات نہ ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تم چاہتے ہو کہ میں دنیا کا راز تم کو بتلادو! تب آپ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ایک مرتبہ (گھوری) پر لے گئے جس پر لوگوں کے سروں بکریوں کے سروں کی ہڈیاں پڑی تھیں اور غلاظت کے ڈھیر تھے، آپ نے ارشاد فرمایا: ابوہریرہ! یہ سر جو تم دیکھ رہے ہومیرے اور تمہارے سروں کی مانند تھے اور آج ان کی صرف ہڈیاں باقی ہیں اور یہ ہڈیاں عنقریب گل کر مٹی ہوجائیں گی اور یہ غلاظت و نجاست رنگ برنگ کے کھانے ہیں جو بڑی تگ و دو سے حاصل کیئے گئے تھے ان کا یہ انجام ہوا کہ سب لوگ ان سے کراہیت کررہے ہیں اور کپڑوں کی دھجیاں ان شاندار کپڑوں کی ہیں جن کو ہوا اڑاتی تھی اور یہ ہڈیاں ان چارپایوں کی ہیں جن کی پشت پر سوار ہوکر لوگ دنیا کی سیر کرتے تھے۔ دنیا کی حقیقت بس یہی ہے، جو کوئی چاہتا ہے کہ دنیا پر روئے اس کو رونے دو کہ رونے کا ہی مقام ہے۔ پس جتنے لوگ اس وقت موجود تھے وہ رونے لگے۔
تخلیق دنیا:
حجۃ الاسلام امام غزالی (رحمتہ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب سے دنیا کو پیدا کیا گیا ہے آسمان اور زمین کے درمیان لٹکی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر نظر نہیں فرمائی ہے قیامت میں وہ عرض کریگی ، الٰہی مجھے اپنے کسی کمترین بندے کے حوالے فرمادے۔ حق تعالےٰ ارشار فرمائے گا اے ناچیز خاموش ہوجا! جب میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ تو دنیا میں کسی کی ملک ہو تو کیا آج میں اس بات کو پسند کروں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے: چند لوگ قیامت میں ایسے آئیں گے جنکے اعمال تھایہ کے پہاڑوں کی مانند ہوں گےان سب کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ لوگ نماز پڑھنے والے ہوں گے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ نماز پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے اور رات کو بیدار رہتے تھے لیکن دنیا کے مال و متاع پر فریفتہ تھے۔
بینا اور نابینا کون؟
ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاشانہ نبوت سے باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام سے خطاب فرمایا کہ تم میں سے ایسا کون ہےجو اندھا ہے اور حق تعالیٰ اس کو بینا فرمادے۔ معلوم ہونا چاہیئے کہ جو کوئی دنیا کی طرف رغبت کرے اور طول آمل سے کام لے حق تعالےٰ اس کے دل کو اسی کے بقدر اندھا کردیتا ہے اور جو کوئی دنیا میں زاہد ہو اور طول آمل سے کام نہ لے (طول آمل سے محفوظ رہے) حق تعالےٰ اس کو علم عطا فرمائے گا بغیر اس کے کہ وہ کسی سے سیکھے اور بغیر راہبر کے اسکی راہنمائی فرمائے گا۔
ہلاکت کا سبب؛
ایکدن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد نبوی میں تشریف لائے تو حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے بحرین سے جو مال بھیجا تھا، انصار کو اسکی خبر ہوگئی، صبح کی نماز کے وقت ان حضرات کا ہجوم ہوگیا جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو سب لوگ آپ کے روبرو کھڑے رہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اور دریافت کیا کہ شاید تم نے سن لیا ہے کہ کچھ رقم آئی ہے! لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ایسا ہی ہے ! آپ نے فرمایا تم کو بشارت ہو تم کو آئندہ ایسے معاملات پیش آئیں گے جن سے تم کو مسرت اور خوشی ہو اور تمہارے معاملہ میں فقر اور تنگدستی سے نہیں ڈرتا ہوں۔ مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ تم کو بھی دنیا کا مال کثرت سے دیا جائے جسطرح تم سے پہلے لوگوں کو دیا گیا اور تم اس پر اسطرح فخر کرنے لگو جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے کیا تھا اور تم اسی طرح ہلاک ہوجاؤ جیسے پہلے لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دل کو کسی طرح بھی دنیا کی یاد سے نہ لگاؤ۔
اے عزیز پڑھنے والے غور کر کہ کیا عربوں کے پاس اربوں نہیں؟ ان کے اربوں کے ہی باعث عرب تباہ نہیں ہوگئے؟ کیا یہ آقائے رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ علم غیب نہیں جو ان کو اللہ کی جانب سے عطا ہوا اور جسکا گاہے بگاہے وہ کہیں واضح تو کہیں اشارتاً ذکر فرما گئے؟
اکل حلال کا کمال
شیخ ابوحازم رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ میں دنیا کو دوست رکھتا ہوں کیا تدبیر کروں کہ اس کی دوستی میرے دل سے نکل جائے۔ انہوں نے کہا کہ کسبِ حلال میں مشغول ہوجاپھر اس مال کو ہرجگہ صرف کر۔ ایسی دنیا دوستی سے تجھے نقصان نہیں پہنچے گا۔ فی الواقع انہوں نے یہ بات اس وجہ سے کہی کہ انہوں نےس مجھا کہ جب ایسا کرے گا تو دنیا کی محبت اس کے دل میں نہیں رہے گی۔ شیخ یحییٰ بن معاذ نے کہا ہے کہ دنیا شیطان کی دکان ہے، اسکی دکان سے کچھ مت چرا اور نہ کچھ لے اگر کچھ لے گا تو بے شک وہ تجھ کو پکڑ لے گی۔ شیخ فضیل رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر دنیا سونے کی ہوتی مگر فانی اور آخرت مٹی کی ہوتی اور باقی تو عقل کا یہی تقاضہ تھا کہ تم اس باقی مٹی کو اس فانی سونے سے زیادہ عزیز رکھو! لیکن ہوتا یہ ہے کہ انسان باقی رہنے والے سونے کو چھوڑکر فنا ہونے والی مٹی کو دوست رکھتا ہے۔ شیخ ابوحازم کا ارشاد ہے کہ دنیا سے حذر کروکیونکہ میں نے سنا ہے کہ جس نے دنیا کوبزرگ جانا قیامت میں اسکو کھڑا کیا جائے گااور منادی کردی جائے گی کہ یہ وہ شخص ہے کہ جس چیز کو حق تعالیٰ نے حقیر کیا تھا اس کو جس نے بزرگ سمجھا! حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہےکہ ۔۔جو دنیا میں آیا ہے وہ مہمان ہے اور جو چیز اس کے پاس ہے وہ عاریۃً ہے پس مہمان کا جانا اور عارتاً دی ہوئی چیز کا واپس لے لینا ضروری ہے۔
حضرت لقمان کا فرمان؛
حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے کہا کہ اے بیٹے! دنیا کو بیچ کر آخرت خرید لو تاکہ دوہرا منافع حاصل ہو۔ آخرت کو بیچ کر دنیا مت خریدو اس میں دوہرا دین کا نقصان ہے۔ حضرت ابوامامہ باہلی نے کہا ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ابلیس کے لشکری اس کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ایسے نبی کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے ۔ اب ہم کیا کریں! ابلیس نے دریافت کیا کہ آیا وہ لوگ دنیا کو دوست رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! تب اس نے جواب دیا کہ کچھ اندیشہ مت کرو اگر وہ بت پرستی نہیں کرتے تو کیا ہے میں دنیا پرستی پر سے ان لوگوں کو اس بات پر لے آؤں گا کہ وہ جوکچھ بھی لیں ناحق لیں اور جو کچھ بھی دیں ناحق دیں اور جو کچھ چھوڑیں وہ ناحق چھوڑیں، تمام خرابیاں اور برائیاں انہی تین باتوں سے پیدا ہوتی ہیں۔
دنیا کی حقیقی مثال
حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر ساری دنیا مجھے بے ملال اور بے حساب دیں تب بھی میں اس سے ننگ روا رکھوں گا۔ اسی طرح جیسے تم مردار سے ننگ وعار رکھتے ہو۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے عامل تھے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے گئے تو ان کے مکان میں کچھ ساز وسامان نہ تھا ایک ڈھال ایک تلوار اور ایک کجاوہ موجود تھا تب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا اگر آپ نے گھر میں مال کوٹھری بھی نہ بنوالی! انہوں نے جواب دیا کہ مجھے جہاں جانا ہے، وہاں کے لیئے بس یہ کافی ہے۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ وہ روز آیا سمجھئے کہ بازپسیں جس کی اجل آنی تھی وہ مرگیا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ تم وہ دن آیا سمجھو کہ کبھی دنیا ہرگز موجود نہیں ہے اور آخرت لدام ہے۔ کسی صحابی کا ارشاد ہے کہ جو شخص جانتا ہے کہ موت برحق ہے اس کا مسرور شادمان ہونا بڑے تعجب کی بات ہے اور جو شخص چاہتا ہے کہ تقدیر حق ہے اور روزی کی فکر میں اسکا دل مشغول رہے عجیب بات ہے۔
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتےہیں کہ حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان توبہ اور طاعت کو ہر روز پیچھے ڈال دیتا ہے اور راست گوئی کو بیکار کردیتا ہے یہاں تک کہ اسکا فائدہ دوسرے کو حاصل ہوتا ہے۔ شیخ ابوحازم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر تو شاد ہو اور نہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے تو غمگین ہو، غم کے بغیر دنیا میں خوشی نہیں ہے، حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ موت کے وقت آدمی کے دل میں یہ تین حسرتیں رہتی ہیں ایک یہ کہ جو جمع کیا تھااس سے سیر نہ ہوا اور دل کی جو آرزو تھی وہ حاصل نہیں ہوئی اور آخرت کا کام جیسا کرنا چاہیئے تھا ویسا نہیں کیا۔
دنیا ویران گھر ہے؛
جناب محمد بن المنکدر رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص تمام عمر دن کے روزے رکھے اور رات کو نماز پڑھے، حج اور جہاد کرے اورتمام محرمات سے بچے لیکن دنیا اسکے پاس بہت زیادہ ہو تو قیامت میں اسکی نسبت کہا جائے گا کہ یہ وہ شخص ہے جو حق تعالےٰ کی حقیر کی ہوئی چیز کو دنیا میں بزرگ اور عظیم سمجھتا تھا۔ پس اے عزیز ایسے شخص کا بھی حال کیا ہوگا اور ہم میں کون ایسا ہے جو اسکا مصداق نہ ہو، ہم بہت گنہگار ہیں اور فرائض کی بجا آوری میں تقصیر کرتے ہیں اور علماء نے فرمایا ہے کہ دنیا ویران گھر ہے اور اس سے زیادہ ویران اس شخص کا دل ہے جو دنیا طلبی کرتا ہے، جنت ایک آباد گھر ہے اور اس سے زیادہ آباد اس شخص کا دل ہے جو جنت کی طلب کرتا ہے اور اسکو ڈھونڈتا ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ خواب میں تم کو ایک درم ملے وہ اچھا ہے یا بیدار میں ملنا اچھا ہے، وہ بولے کہ اگر بیداری میں ملے تو زیادہ اچھا ہے اور مجھے پسند ہے۔ شیخ یحییٰ بن معاذ رازی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ عاقل وہ ہے جو یہ تین کام کرے۔ دنیا کو ترک کردے، قبل اسکے کہ دنیا اسکو چھوڑے اور وہ قبر کو آباد کرے۔ قبر میں جانے سے پہلے اور حق تعالیٰ کے دیدار سے پہلے اسکو خوشنود اور راضی کرے۔ ان کا ہی یہ قول بھی ہے کہ دنیا کی شامت اتنی ہے کہ اس کا شوق آدمی کو حق تعالیٰ سے روگرداں کردیتا ہے اور اگر یہ مل جائے تو پھروہ کیا کچھ نہ کرے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان تمام باتوں کا دیسی دھریت سے کیا تعلق ہے۔ تو گزارش ہے کہ پہلے مکمل طور پر یہ پڑھیں اور جو جو لکھا ہے اس کو اپنی اپنی لائف پر ایمپلیمنٹ کریں اور سوچیں اپنے ساتھ تنہا بیٹھ کر کہ اس میں کونسی کونسی باتیں ہیں جو ہم میں پائی جاتی ہیں اور پھر ایک مقام پر مزید بیان ہوگا کہ وہ عوامل کہ جس کی وجہ سے لوگ اللہ کی ذات سے منکر ہوجاتے ہیں حالانکہ ان کے آباؤ اجداد دین اسلام کے پیرو ہی رہے ہوں مگر وہ وجوہات جو بسا اوقات بالکل جائز لگتی ہیں لیکن جس کی تہہ میں عمیق گہرائی چھپی ہے اور وہ گہرائی جب تک آپ کے سامنے واضح نہیں ہوتی اس وقت تک آپ کے اندر کے سوالات کے تسلی بخش جوابات نہیں مل سکتے۔ دنیا کی بے ثباتی کا بیان اس لیئے ضروری ہے کہ دورِ جدید میں کچھ ایسے ناقص ذہن ہیں جو شکوک و شبہات کا شکار ہوتے ہیں اور یہ شکوک و خیالات ان کے دلوں دماغوں میں وہی ابلیس ڈالتا ہے جو ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ اسی لیئے پہلے دنیا کا بیان ضروری تھا کہ پتہ چل سکے کہ اسلام کیا کہتا ہے دنیا کی بے ثبات زندگی کے بارے میں غور فرمائیں میرے دوستو
حضرت بکر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی چاہتا ہے کہ دنیا میں خود کو دنیا سے بے نیاز بنا دے تو وہ اس شخص کے مانند ہوگا جو کہ آگ بجھانا چاہتا ہے لیکن سوکھی لکڑیاں آگ میں ڈالتا جارہا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے دنیا چھ چیزوں سے عبارت ہے، کھانا پینا، پہننا، سونگھنا سواری اور نکاح! اور سب ماکولات میں بہترین چیز شہد ہے اور وہ مکھی کا لعاب ہے۔ اور سب سے اچھا کپڑا حریر ہے اور وہ کیڑوں سے پیدا ہوتا ہے۔ سونگھنے کی چیزوں میں سب سے بہتر چیز مشک ہے تو وہ ہرن کا خون ہےاور پینے کی سب چیزوں میں پانی بہتر ہے لیکن دنیا کے تمام لوگ اس سے نفع اندوزی میں برابر ہیں، سواریوں میں سب سے بہتر گھوڑا ہے، لوگ اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر دوسروں کو قتل کرتے ہیں اور سب شہوتوں میں عظیم تر عورت سے محبت کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک پیشاب دان دوسرے پیشاب دان میں پہنچتا ہے اور بس اور جو عورت نیک ہے۔ اس کو اپنے بدن سے سنوارتی ہے اور تو اس سے جو بدتر ہے (فرج) چاہتا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ اے لوگو! تم ایک کام کے واسطے پیدا کیئے گئے ہو۔ اگر اس پر ایمان نہ لائیں تو کافر ہوجائیں اور اگر ایمان لائیں تو پھر اسکو آسان سمجھتے ہو لیکن تم احمق اور نادان ہو کہ ہمیشہ رہنے کے واسطے تم کو پیدا کیا ہے لیکن ایک گھر سے نکال کر دوسرے گھر میں لے جائیں گے۔
دنیائے مذموم کی حقیقت
اس مقام پر صرف یہ سمجھنا چاہیئے کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب کا سب ملعون ہے۔ اب یہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ کیا ہے جو خدا کے لیئے ہے اور ملعون نہیں ہے۔ اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے ملعون ہے۔ اورا سکی دوستی تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ پس جاننا چاہیئے کہ دنیا میں جو کچھ ہے اس سب کی تین اقسام ہیں
ایک چیز تو وہ ہے کہ اس کا ظاہر و باطن سب دنیا ہی سے ہے اور یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسی شے خدا کے لیئے ہو۔ اور وہ سب گناہ ہے۔ نیت اور قصد سے خدا کے لیئے نہیں ہوجاتی۔ اور مباح اشیاء میں عیش و عشرت اسی میں ہے کیونکہ وہ محض دنیا ہے۔ اور غفلت و تکبر کا تخم اور تمام گناہوں کا سرمایہ
دوسری قسم یہ ہے کہ وہ عمل بظاہر خدا کے واسطے ہو پھر ممکن ہے کہ نیت کے باعث وہ دنیا داری میں داخل ہوجائے اور یہ تین چیزیں ہیں ، فکر و ذکر مخالفت، شہوت ۔ کیونکہ اگر ان تینوں چیزوں سے آدمی کا مطلب آخرت اور رحمت ِ الٰہی کا حصول ہے تو اگرچہ دنیا میں کرے لیکن وہ خدا کے واسطے ہوں گی، ہاں اگر فکر سے غرض طلب علم ہو تاکہ اس سے مرتبہ جاہ حاصل کرے اور ذکر الٰہی سے غرض یہ ہو کہ لوگ اس کو پارسا سمجھیں اور ترک دنیا سے مطلب یہ ہو کہ لوگ اس کو زاہد خیال کریں تو دنیا میں یہ عمل دنیا کے لیئے ہوئے اور لعنت کے قابل ہیں اگرچہ بظاہر ایسا نظر آتا ہو کہ خدا کے واسطے ہیں۔
تیسری قسم یہ ہے کہ ظاہر میں حظ نفسانی کے لیئے یہ عمل نظر آتا ہو لیکن نیت کی بدولت وہ عمل خدا کے لیئے مخصوص ہوجائے اور دنیا سے علاقہ نہ رہے جیسے کھانا کھانا کہ اس سے آدمی کی غرض یہ ہو کہ عبادت کے لیئے طاقت اور قوت اس میں پیدا ہو اور نکاح سے مقصود یہ ہو کہ اولاد پیدا ہو تھوڑا مال کمانے (کسب) سے مقصود ہو یہ کہ طمانیتِ قلب حاصل ہو اور مخلوق سے بے نیاز رہے۔
حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے بڑائی اور فخر کی خاطر دنیا طلب کی حق تعالیٰ اسی پر ناخوش ہوگا اور اگر وہ خلق سے بے نیاز ہے کہ بقدرِ ضرورت طلب کرے تو قیامت کے دن اسکا چہرہ چودھویں کے چاند کی مانند روشن ہوگا۔ پس دنیاداری عبارت اس سے ہے کہ آدمی حظوظِ نفسانی میں گھر جائے کیونکہ آخرت کے لیئے اسکی حاجت نہیں ہےاور وہ چیز جس کی آخرت میں حاجت ہے وہ آخرت سے علاقہ رکھتی ہے دنیا سے اسکا تعلق نہیں ہے جیسا کہ جانور کا دانہ یا چارا جو حج کے راستے میں اسکو دیا جاتا ہے یہ زادِ حج میں داخل ہے اور یہ چیز دنیا کی ہے اسکو حق تعالیٰ نے (ھَوَا) فرمایا ہے اور ارشاد کیا ہے۔
ونھی النفس عن الھوٰی فان الجنۃ ھی الماوٰی۔ اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنت ہی ٹھکانہ ہے
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا
وزین للناس حب الشھوات من النساء والمال والبُنون والقناطیر المقنطرۃ۔ ۔۔۔ جان کہ دنیا کی زندگی تو یہی کھیل کود ہے اور آرائش اور تمہارا آپس میں بڑائی جتانا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا۔
یعنی دنیا داری عبارت ہے پانچ چیزوں سے کھیل اور خوش فعلی اپنے تئیں سنوارنا، اور مال و اولاد کی زیادتی کا خواہاں ہونا اور دوسروں پر تفاخر اور باہم جھگڑنا ۔ اس ایک ارشاد میں ان پانچ چیزوں کواسطرح جمع فرمایا ہے۔
یعنی خلائق کے دل میں زن، فرزند، مال و زر، گھوڑے اونٹ گائے بیل وغیرہ کی محبت اور الفت سنوار دی گئی ہے ذٰلک متاع الحیٰوۃ الدنیا ۔۔۔ دنیا کی زندگانی کی پونجی بس یہی ہے۔ پس معلوم ہونا چاہیئے کہ ان تمام چیزوں سے ہروہ چیز جو کارِ آخرت کے لیئے ہے وہ زادِ آخرت میں داخل ہے اور جو نازونعم اور قدرِ حیات سے زیادہ ہے وہ آخرت کے لیئے نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کے تین درجے ہیں ایک تو بقدر ضرورت کھانا پینا اور رہنا۔ اور اس مقدار سے زیادہ کا شمار زینت میں ہے اور تجمل کی زیادتی ہے اوراسکا تعلق آخرت سے نہیں۔ اور نہ ہی اسکی کوئی انتہا ہے۔ اور جس شخص نے بقدر ضرورت پر قناعت کرلی۔ وہ جنتی ہےاور جو تجمل کے درجہ تک پہنچا اسکا مقام ادویہ دوزخ ہے کہ اسکی کچھ انتہاء نہیں ۔ اور جس شخص نے بقدر حاجت پر قناعت کرلی وہ خطرہ سے خالی نہیں کیونکہ حاجت کی دو طرفیں ہیں ۔ ایک تو ضرورت کے نزدیک ہے اور دوسرا عیش و عشرت کے نزدیک۔
اور ان کے درمیان کا جو درجہ ہے وہ کمال اجتہاد کے ذریعہ سے پہنچانا جاسکتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ کسی شے جو کہ اسکی حاجت سے زیادہ ہو حاجت میں شمار کرلے اور حساب کے خطرہ میں مبتلا ہو۔ اور یہی وجہ تھی کہ بزرگانِ دین نے بقدرِ ضرورت پر قناعت کی۔ اور اس سلسلے میں سب کے امام حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حضرت اویس قرنی دنیا سے اس طرح دست بردار ہوگئے تھے کہ لوگ ان کو دیوانہ سمجھنے لگے تھے۔ کبھی سال دوسال تک ان کی صورت نظرنہیں آتی تھی ، کبھی ایسا ہوتا کہ علی الصبح اذان کے وقت باہر چلے جاتے اور عشاء کی نماز کے بعد پلٹ کر آتے کھجور کی گٹھلیاں جو راستے میں پڑی ہوئی مل جاتیں ان کو کھا کر گزارہ کرلیتے اور اگر کبھی کبھار خرمے مل جاتے تو ان کی گٹھلیاں خیرات کردیتے یا ان سے اتنے خرمے مول لے لیتے کہ روزہ کھولنے کے وقت کام آجائیں، گھورے پر جو چھیتڑے پڑے ہوئے مل جاتے ان کو پہنتے، بچے دیوانہ سمجھ کر ان کو پتھروں سے مارتے تو ان سے فرماتے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے مجھے مارو تاکہ میری طہارت اور نماز میں خلل نہ پڑے، یہی وہ شرف تھا کہ باوجودیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا لیکن آپ کی بہت تعریف فرمائی اور حضرت عمر کو آپ کے بارے میں وصیت کی تھی۔
اے راہ گم کردہ دھریوں بلکہ دیسی دھریت کے شکار دوستو!
اس امر سے آگاہ ہو کہ دنیا بہت سی شاخوں پر منقسم ہے۔ منجملہ ان سب کے ایک شاخ مال و نعمت کی ہے۔ اور ایک شاخ جاہ و حشمت کی۔ اور اسی طرح دوسری شاخیں ہیں ۔ لیکن مال کا جو فتنہ ہے وہ تمام فتنوں سے بڑھا ہوا ہے۔ اور حق تعالیٰ نے اسے عقبیٰ کے نام سے یاد کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فلقتحم العقبۃ وما ادرٰک مالعقبۃ فک رقبتہِِ اواطعٰم فی یوم ذی مسغبۃ۔ کیونکہ آدمی کو سوائے مال کے چارہ نہیں ہے کیونکہ یہ عیش و عشرت کا ذریعہ بھی ہے اور زادِ آخرت بھی ہے۔ اسلیئے کہ آدمی کے لیئے کھانا ۔ لباس ، رہائش ضروری اشیاء ہیں ۔ اور یہ سب چیزیں مال ہی سے میسر ہوتی ہیں۔ اور ان کے لیئے نہ ہونے کی صورت میں صبر نہیں ہوسکتا اورحصول میں سلامتی نہیں ہے اور اگر یہ نہ ہو تو محتاجی کا سامنا ہے اور کفر کا اندیشہ ہے۔ اور اگر مل جائے تو آدمی توانگر ہے ۔اور اس میں غرور وتکبر کا خوف ہے۔ فقیر کے لیئے دو حالتیں ہیں ۔ ایک حرص دوسری قناعت۔ قناعت اچھی صفت ہے اور حرص کے لیئے بھی دو حالتیں ہیں۔ ایک یہ کہ دوسرے لوگوں سے مال کی طمع رکھے اور دوسری حالت یہ ہے کہ اپنے زورِ بازو سے کمائے (کسب کرے) اور یہ حالت بہت ہی خوب ہے۔ جس طرح فقیر کی دوحالتیں ہیں اسی طرح توانگر کی بھی دو حالتیں ہیں ایک حال تو اس کا بخل اور مال کو خرچ کرنے سے روکنا ہے اور یہ بہت ہی برا کام ہے اور دوسری حالت داد ودہش (خوب خرچ کرنا اور دوسروں کودینا) ۔ اس داد و دہش کی بھی دو حالتیں ہیں ۔ ایک تو اسراف (فضول خرچی) ہے اور دوسری حالت میانہ روی (خرچ میں اعتدال) اور ان دونوں میں ایک بری حالت ہے اور دوسری اچھی لیکن یہ دونوں ایکدوسرے سے بہت ملتی جلتی ہیں اس لیئے اسکی شناخت بھی ضروری ہے
بہرحال مال فائدے اور مضرت سے خالی نہیں ہے اور ان دونوں کا پہچاننا اورانکی معرفت فرض ہے تاکہ انسان مال کی آفت سے بچے اور فائدے کے موافق اسکی جستجو یعنی حصول کی کوشش کرے۔
مال کی دوستی کی کراہت؛
ارشاد باری تعالی ہے۔
اے ایمان والو! جس شخص کو مال اور اولاد حق تعالےٰ کی یاد سے غافل کردے وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔
ارشادِ نبوی ہے کہ مال و جاہ کی محبت انسان کے دل میں نفاق کو اسطرح اگاتی ہے جسطرح پانی سبزے کو اور فرمایا۔ دو بھوکے بھیڑیئے بکریوں کے گلہ میں ایسی تباہی نہیں پیدا کرتے جس طرح جاہ و مال کی محبت ایک مسلمان کے دل میں پیدا کردیتی ہے۔لوگوں نے بارگاہ نبوی سے دریافت کیا۔ یارسول اللہ! آپ کی امت میں سے سب سے بدتر لوگ کون ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔ وہ لوگ جو مال دار ہیں۔ اور فرمایا میرے بعد ایک قوم پیدا ہوگی جس کے افراد طرح طرح کے مزیدار طعام کھائیں گےاور طرح طرح کے کپڑے پہنیں گے۔ خوبصورت عورتیں اور قیمتی گھوڑے رکھیں گے ان کاپیٹ تھوڑے سے سیر نہ ہوگااور وہ بہت زیادہ مال پر بھی قناعت نہیں کریں گے۔ ان کا ہرایک عمل دنیا کے واسطے ہوگا! میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تم کو حکم دیتا ہوں (تم اپنی اولاد تک یہ بات پہنچانا) کہ جوکوئی تمہاری اولاد میں ان کو دیکھے، اس کو چاہیئے کہ ان کو سلام نہ کرے، بیمار ہوں تو انکی عیادت نہ کرے اور اگر کوئی (اسکے خلاف) کرے گا وہ اسلام کو ویران اور برباد کرنے میں ان کا مددگار ہوگا۔ حضور صل اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ دنیا کو اہل دنیا کے پاس چھوڑ دوکہ جو کوئی اس کو اپنی حاجت سے زیادہ لے گا وہ اسکی ہلاکت کا باعث بنے گااور وہ اس سے واقف نہ ہوگا (اسکو خبر ہی نہ ہوگی) ۔ حضور علیہ التحیہ والثنا فرماتے ہیں کہ انسان ہمیشہ یہی کہتا ہے میرا مال! میرا مال اور یہ مال سوائے اس کے تیرا مال کیا ہے کہ اسکو کھائے اور نابود کرے (کپڑے کو) پہنے اور پرانا کردے یا اسکو خیرات کردے اور خداوند تعالیٰ کے پاس ذخیرہ کردے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے آپ کے حواریوں نے پوچھا کہ آپ پانی پر چل سکتے ہیں لیکن ہم نہیں چل سکتے (ہم میں یہ طاقت و قدرت نہیں ہے) اس کا کیا سبب ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ مال و زر تمہاری نظر میں کیسا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میری نظر میں خاک و زر دونوں برابر ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے پانی پر چلنے کی قدرت و قوت عطا فرمائی ہے۔
اب میں اپنے اس دیسی دھریہ کو مخاطب ہوں کہ جو سمجھنا اور سیکھنا چاہتا ہے یا کم سے کم اپنے سوالات کے کچھ جوابات چاہتا ہے وہ یہاں سے بغور مطالعہ فرمائے
مال کی دو اقسام
اے عزیز جاننا چاہیئے کہ اگرچہ مال کو کئی وجہ سے برا کہا گیا ہے مگر ایک وجہ سے یہ اچھا بھی ہے۔ کیونکہ مال خیر و شر دونوں کا حامل ہے اس لیئے اللہ تعالےٰ نے اسے خیر بھی ارشاد فرمایا ہے۔ (ان ترک خیرن الوصیۃ (الآیۃ)) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (نعم المال الصالح للرجل الصالح) یعنی اچھا مال بہتر چیز ہے اچھے شخص کے حق میں ۔ آپ نے مزید فرمایا (کاد الفقران یکون کفوًا) یعنی قریب ہے کہ افلاس اور فقر کفر کا سبب بن جائے۔
اور اسکا سبب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص خود کو (نعمتوں کے حصول کے سلسلے میں ) عاجز پاتا ہے، نان شبینہ کو محتاج ہوتا ہے تکلیفیں اور صعوبتیں برداشت کرتا ہے۔ اپنے اہل وعیال کو فقر و تنگدستی کی وجہ سے غمگین دیکھتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ دنیا کی نعمتوں میں کوئی کمی نہیں تو اسوقت شیطان اس کو بہکاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کیسا عدل و انصاف ہے جو خدا نے کیا ہے اور یہ کیسی ناروا تقسیم ہے جو اس نے تیرے حق میں کی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں جس مشال خان کو قتل کیا گیا تھا اسکی ایک پوسٹ کچھ اسی طرح تھی کہ موصوف نے لکھا تھا کہ میں نے فلاں جگہ پر اتنی غریبی دیکھی کہ میرا دل ٹوٹ گیا یہ کیسا خدا کا انصاف ہے۔ یعنی آج کے دور میں بھی 800 سال پرانی بات کے لکھے کی صداقت عیاں ہے۔ انسان یہ بھی سوچتا ہے شیطان کے بہکاوے میں آکر کہ فاسق اور ظالم کو تو اسقدر مال دیا ہے کہ اسکو اپنی دولت کا اندازہ اور مال کا شمار ہی نہیں اور ایک لاچار اور بےبس بھوکوں مررہا ہے۔ اسکو ایک درہم بھی میسر نہیں ! اگر وہ تیری حاجت اور ضرورت سے آگاہ نہیں تو اس طرح اسکا علم ناقص ہے اور اگر وہ ضرورت سے واقف ہے اور مال دے نہیں سکتا تو اسکی قدرت میں خلل ہے اور اگر علم و قدرت کے باوجود نہیں دیتا توا سکی بخشش ورحمت میں خلل ہے۔ اور اگر وہ اس واسطے تجھے مال نہیں دیتا کہ دنیا کے بجائے آخرت میں تجھے ثواب ملے تو وہ اس پر بھی قادر ہے کہ فقر و فاقہ کی مصیبت کے بغیر بھی ثواب عطا فرما سکتا ہے۔ پھر وہ مال کیوں نہیں دیتا؟
اے میرے عزیز دیسی دھریت کے شکار ، ذرا شیطان کے اس بہکاوے کو غور سے پڑھ پھر اسکا علاج بھی بتاتے ہیں تم کو تاکہ تمہارے دل پر جو زنگ لگا ہے اس کا کوئی مداوا ہوسکے۔
وہ سوچتا ہے کہ پھر فقر وفاقہ دور کیوں نہیں ہوتا۔ اگر ثواب اسطرح نہیں دے سکتا تو اسکی قدرت کامل نہیں ہے۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ وہ رحیم جواد اور کریم بھی ہے تو اس کی ان صفات پر اس صورت میں کس طرح یقین کیا جائے کہ وہ جواد کریم ہوتے ہوئے بھی بندوں کو تکلیف میں رکھتا ہے۔ اور اسکا خزانہ نعمتوں سے معمور ہے اور وہ نہیں دیتا۔ اس طرح شیطان دل میں وسوسے پیدا کرکے قضا و قدر کے مسئلہ کو جس کا راز ہر کسی کو معلوم نہیں ہے اسکے سامنے پیش کرتا ہے اور شبہات میں مبتلا کرکے اس کو طیش و غضب میں لاتا ہے تاکہ وہ غصہ میں زمانے کو برا کہے اور گالیاں دے اور کہنے لگے کہ آسمان سخت احمق ہے اور زمانہ میرے خلاف ہوگیا ہے کہ ساری نعمتیں غیرمستحق لوگوں کو دیتا ہے، اسکی اس ناراضی پر جب اسکو سمجھایا جائے کہ آسمان اور زمانہ تو اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہیں اب اگر وہ کہدے کہ اللہ تعالیٰ کے مسخر اور اسکے دستِ قدرت میں نہیں ہے تو کافر ہوجائے گا اور اگر کہتا ہے کہ مسخر ہیں تو پھر جو کچھ اس نے برا کہا ہے اور گالیاں بکی ہیں تو ہو گالیاں حق تعالےٰ کی طرف عائد ہوں گی اور یہ بھی کفر ہے اسی وجہ سے سچے بادشاہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
لاتسبوالدھر فان اللہ ھوالدھر۔ زمانہ کو برا نہ کہو زمانہ خدا ہے۔
اسکا مطلب یہ ہے کہ تم جس چیز کو اپنے کاموں کا کفیل سمجھتے ہو اور تم نے اسکا نام زمانہ رکھا ہے وہ ذاتِ باری تعالیٰ کی ہے پس اسی طرح غریبی اور ناداری سے کفر کی بو آتی ہے۔ مگر اس شخص کی مفلسی کفر کا موجب نہیں بنتی جس کا ایمان مضبوط ہو۔ اور غالب ہو۔ اور جو افلاس میں بھی حق تعالیٰ سے رضامندی کا اظہار کرے۔ اور مفلسی میں بھی اپنی بہتری خیال کرے لیکن عام طور پر لوگ اس مرتبہ کے نہیں ہوتے تو مال کا بقدر کفایت ہونا بہتر ہے۔ تو اس لحاظ سے مال اچھی شے ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ تمام بزرگوں کا مقصود و مطلوب آخرت کی سعادت ہے اور اس سعادت کا حصول تین طرح کی نعمتوں سے ممکن ہے ایک نعمت تو دل میں ہے جیسے علم اور اخلاقِ حسنہ اور دوسری نعمت جسمانی ہے یعنی جسم کی صحت، سلامتی اور تیسری نعمت جسم کے باہر سے متعلق ہے یعنی دنیاداری لیکن صرف ضرورت کے لائق۔
بزرگانِ دین نے مال کو سب سے کم تردرجہ کی نعمت میں شمار کیا ہے اور مال میں سب سے کم مرتبہ سیم و زر (نقدی) ہے اور اس میں سوا اس کے اور کچھ منفعت نہیں ہے کہ مال کو غذا اور لباس کی فراہمی پر صرف کیا جائے ، کیونکہ کھانا اور کپڑا جسم کی سلامتی کے لیئے ہے اور جسم حواس کی نگہداشت کے لیئے ہے اور حواس حصولِ عقل کا ذریعہ ہیں اور عقل دل کا چراغ ہے اور نور ہے تاکہ اس نور کے واسطے سے بارگاہِ الٰہی کا مشاہدہ کرے اور اسکی معرفت حاصل کرے اور معرفتِ الٰہی سعادت کا تخم ہے (اس کے ذریعے سعادتِ اخروی جو مقصود ہے حاصل ہوسکتی ہے)۔ پس مقصود ان باتوں کا حق تعالیٰ ہے ۔ اول و آخر وہ ہے اورتمام موجودات کی ہستی اسکی ذات سے ہے (ہمہ ازوست) ۔ جو یہ بات سمجھ لے گا وہ دنیا کے مال سے صرف اتنا ہی لے گا جو دین کے راستے میں کام آئے اور باقی مال کو وہ اپنے لیئے زہر قاتل سمجھے گا۔ اسی وجہ سے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے پروردگار آلِ محمد کو بقدر کفایت روزی عطا فرما۔
اسی لیئے کہ آقائے دوجہاں جانتے تھے کہ حاجت سے زائد میں ہلاکت و گمراہی ہے ۔ اور بقدر حاجت میں نہیں۔ اس میں کفر کی لُو پائی جاتی ہے اور یہ بھی ہلاکت کا سبب ہے۔
مال کے فوائد اور آفات کا بیان
اے عزیز تجھے معلوم ہو کہ مال سانپ کی طرح ہے۔ اس میں زہر بھی ہے اور تریاق بھی۔ اور جب تک تریاق کو زہر سے علیحدہ نہیں کیا جاتا تب تک اس کے اسرار ظاہر نہ ہوں گے۔ اسی لیئے ہم مال کے فوائد اور نقصانات کو ایک ایک کرکے بیان کررہے ہیں
مال کے اقسام میں ایک دنیوی ہے دوسری دینی۔ دنیوی کے بیان کرنے کی چنداں حاجت نہیں کیونکہ تمام لوگ اس سے آگاہ ہیں۔ البتہ دین بیان کرتے ہیں اور اسکی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم تو یہ ہے کہ انسان اس مال کو اپنی عبادت یا ضروریاتِ عبادت میں صرف کرے جیسے حج اور جہاد میں مال کا صرف کرنا۔ یہ خرچ کرنا گویا عین عبادت میں خرچ کرنا ہے، سامان اور ضروریاتِ عبادت سے مقصد یہ ہے کہ مال کو کھانے (غذا) لباس اور ایسی ہی دوسری ضرورتوں میں صرف کیا کیونکہ اس سے عبادت میں تقویت اور اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ (جس کے بغیر عبادت، عبادت نہیں رہتی) پس وہ چیز جس کے واسطے سے عبادت ہوسکے وہ بھی عین عبادت ہے۔ کیونکہ جس کے پاس مال بقدر حاجت نہیں ہے تمام دن اسکا جسم اور اسکا دل اسکی طلب اور حصول میں مشغول رہے گا اور عبادت سے جس کا خلاصہ ذکر و فکر ہے، محروم رہے گا۔ اور بقدر ضرورت مال ہونے کی صورت میں اس طلب کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ پس جب عبادت کے لیئے مال بقدر ضرورت صرف ہو تو یہ بھی عین عبادت ہے۔ اور فوائد دینی میں داخل ہے۔ اور منجملہ دنیاداری نہیں ہے (اس کو دنیا داری نہیں کہا جائے گا) ۔ لیکن اس کا مدار نیت پر ہےکہ اگر دل کا ارادہ اس مال سے راہِ آخرت کی فراغت کا حصول اور دلجمعی ہے تو اس صورت میں مال جو بقدر حاجت ہے توشہ ء آخرت اور عین آخرت ہوگا۔
یہاں اسلام رزقِ حلال کی افضلیت بتاتا ہے؛
شیخ ابوالقاسم گرگانی رحمتہ اللہ علیہ کی ملکیت میں ایک قطعہء زمین تھا جس سے وہ حلال روزی حاصل کرتے تھے ایک دن اس زمیں سے اناج آیا۔ خواجہ ابو علی فارمدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس اناج سے ایک مٹھی اناج لے لیا اور کہا کہ میرے اس اناج کو اگر دنیا بھر کے متوکلین اپنے توکل کے بدلے میں لینا چاہیں تو میں نہیں دوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اور یہ رمز وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس کا دل مراقبہ میں مشغول ہو کیونکہ اس کو علم ہے کہ معاش کی طرف سے خاطر جمع ہونا راہ آخرت کے طے کرنے میں بڑی مددگار ہوتی ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ مال لوگوں کو عطا کرے، یہ بذل مال چار طریقوں پر ہوتا ہے۔ پہلا طریقہ تو صدقہ ہے، صدقہ کا ثواب دین و دنیا دونوں میں بہت ہے۔ کہ فقیروں کی دعا کی برکت اور ان کی خوشنودی کا اثر بہت ہوتا ہے۔ جس کے پاس مال نہیں ہے وہ صدقہ و خیرات کرہی نہیں سکتا۔ دوسرا طریق بطور مروت مال کا خرچ کرنا ہے۔ مثلاً دوسروں کو اپنا مہمان بنائے (میزبانی کے فرائض انجام دے) اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ احسان کرے خواہ وہ مالدار ہوں، ان کو ہدیہ دے اور مال سے ان کی غمخواری کرے لوگوں کے حقوق ادا کرے اور دوسرے جائز رسوم بجا لائے۔ یہ عمل اگر توانگروں کے ساتھ بھی کیا جائے تو پسندیدہ ہے۔ اس سے سخاوت کی صفت پیدا ہوتی ہے اور معلوم ہے کہ سخاوت بہت ہی عظیم خلق ہے۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ مال کو اپنی آبرو کے تحفظ کے لیئے صرف کرے۔ مثلاً کسی شاعر کو انعام کے طور پر دینا یا کسی حریص اور لالچی پر خرچ کرنا تاکہ ان لوگوں پر اگر خرچ نہیں کرے گا تو شاعر تو ہجو کرے گا اور حریص غیبت کرے گا اور گالیاں دے گا۔ اسی لیئے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم ن ے ارشاد فرمایا۔ وہ چیز جس کے ذریعہ لوگوں سے اپنی آبرو کا تحفظ کیا جائے صدقہ ہے چونکہ مال بدگوئی اور غیبت کا راستہ مخلوق پر بند کرتا ہے اور تشویش اور پریشانی کی آفتوں کو دور کرتا ہے اگر ان لوگوں پر مال خرچ نہ کیا جائے اور وہ ہجو اور غیبت کریں تو صاحبِ مال کے دل میں بھی بدلہ لینے کی خواہش پیدا ہو، اس طرح عداوت اور دشمنی کا سلسلہ جاری ہوجائے گا۔ پس مال ہی اس کام کو کرسکتا ہے۔
چوتھا طریقہ یہ ہے کہ مال ایسے لوگوں کو دے جو اسکی خدمت کرتے ہیں کیونکہ جو شخص اپنے تمام کام اپنے آپ ہی انجام دے گا، جیسے دھونا، جھاڑنا، پونچھنا، خریدنا اور پکانا وغیرہ توان کاموں میں اس کا تمام وقت ضائع ہوجائے گا اور ہر شخص پر ذکر و فکر فرضِ عین ہے اور اسکا یہ کام کوئی دوسرا شخص نہیں کرسکتا پس اسکے جو کام دوسرے انجام دے سکتے ہیں اس میں اپنے وقت کو ضائع کرنا افسوس کی بات ہے اسلیئے کہ انسان کی عمر کم ہے موت اس کے قریب ہے، آخرت کا راستہ بہت طویل ہے، اس کے لیئے بہت سے توشہ کی ضرورت ہے۔ پس ہر ایک سانس کو غنیمت شمار کرے اور ایسے کاموں میں جس کو دوسرا شخص اس کے لیئے انجام دے سکتا ہے خود مصروف ومشغول ہونا مناسب نہیں ہے اور یہ معاملہ بھی مال کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔ مال پاس ہوگا تو خدمت گاروں کو دے سکے گا اور وہ خدمت گار اسکو کاموں کی محنت سے بچائیں گے اگرچہ سب کام اپنے ہاتھ سے کرنا بھی ثواب کا موجب ہے لیکن یہ معاملہ اس شخص کا ہے جو جسم سے بندگی میں مشغول ہوتا ہے دل سے نہیں، لیکن جو شخص ذکر و فکر میں مشغول رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کے لیئے ضروری ہے کہ دوسرے لوگ اسکے لیے کام کریں تاکہ اس کو اطمینان قلب میسر ہو اور اس کام کے انجام دینے میں اسکو دلجمعی میسر آسکے جو جسم کی طاعت و بندگی سے بزرگ تر اور عظیم ہے۔
انشاء اللہ اگلی قسط میں مال کی آفات پر بیان ہوگا اور اے میرے عزیز مجھے مکمل یقین ہے کہ تو نے اگر اس تحریر کو غور و فکر اور سوالات کے جوابات جاننے کے لیئے بہ طریق احسن پڑھا ہے تو یقیناً مال کی آفات کے بارے میں بھی جاننا پسند کرے گا۔ وہ میرے دوست جن کے دل میں اللہ کی طرف سے بدگمانی آجاتی ہے وہ اگر شیطان کی طرح مایوس نہ ہو اور اپنا ایمان سلامت رکھے تو یقیناً اللہ عزوجل اس کو مخلوق سے بے نیاز فرمادے گا۔ اے دوست غور کر آخر ابراہیم بن ادھم جیسے شہنشاہ کو کیا پڑی تھی کہ سب کچھ چھوڑ کر فقیری اختیار کی، کیا ان کے پاس دنیا تیرے اور میرے سے زیادہ نہ تھی؟ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ حد سے زیادہ مال بھی انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے (مثال ، میاں منشاء) اور حد سے زیادہ غریبی یا ہوسِ مال بھی انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے (مثال ان لوگوں کی جو غریبی کی وجہ سے کفریہ عقائد اختیارکرلیتے ہیں) یا دوسرے الفاظ میں دھریہ بن جاتے ہیں۔ اس لیئے یہ طویل بیان بہت ضروری تھا کہ مال اور دنیا کی بابت اسلام کی روح جو سکھاتی ہے وہی حق اور سچ ہے۔ دیکھو میرے بھائی تم چاہے اسکا انکار کرو لیکن حقیقت یہ ہے کہ تم یا کوئی بھی اس سے لڑ نہیں سکتا تو پھر ضد اور اہنکار کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا عقل کا شیوہ یہ نہیں ہے کہ جس سے لڑا نہ جاسکے اس کو دوست بنا لیا جائے؟ یہ شیطان دنیا کی تعیشات کو تمہاری آنکھوں میں حسین و جمیل بنا کر ہی تو تم کو دھریت کی طرف لاتا ہے۔
انسان کے ساتھ انسان کے کیئے ہوئے مظالم کا یہ ابلیس لعین خدا پر تھوپتا ہے اور چونکہ خود اللہ کی بارگاہ سے ملعون ہوچکا ہے اسی لیئے چاہتا ہے کہ دیگر مخلوق بھی اسی کی طرح مایوس ہوجائے۔ امتحان چاہے کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو اے میرے دوست ایمان اتنا سستا مت کرو تمہارا مقصود نظر یہ دو دن کی زندگی ہے جبکہ ہوسکتا ہے تمہارے تکالیف کے اندر ہی تمہارے لیئے بھلائی ہو۔
دیکھو میرے بھائی اگر لوہے کو تپا تپا کر جلایا نہ جائے تو وہ کبھی بھی وہ مضبوطی حاصل نہیں کرسکتا جو پتھروں کو کاٹ دینے کی قوت رکھے۔ کیا ریت مٹی کو جلا جلا کر صاف شیشہ نہیں بنایا جاتا؟ اب اگر لوہا یا شیشہ جلتے وقت یہ کہے کہ میرے ساتھ میرے بنانے والے نے زیادتی کی ہے اسلیئے میں اسکی کسی قدرت و کمال کو نہیں مانتا تو کیا کہا جائے گا؟ اس انکار کے بعد بھی اسکو جلنا تو پڑے گا ہی، عقل کی ایک سٹیج وہاں آتی ہے جب اپنی زندگی دنیا کے رشتوں سے دور ہوجاتی ہے اور انسان اپنے باطن میں جھانکنے پر کسی حد تک قادر ہوجاتا ہے۔ تب نفس ء امارہ اور شیطان اسکو بہکا کر اپنی طرح مایوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یاد رہے۔
لا تقنطو من رحمۃ اللہ ۔ یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس ہرگز مت ہو۔ یہی امتحانِ دنیا ہے اور یہی پر ایمان کی جانچ ہوتی ہے۔ انسان کو بڑے مقصد کے لیئے بہت ساری تکلیفات کو جھیلنا پڑتا ہے۔ مسلم کے لیئے تو ویسے بھی یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ کسی کا امتحان کیسے اور کسی کا کیسے۔ یعنی کوئی سائنس میں دے رہا ہے امتحان تو کوئی آرٹس میں کسی کو کیمسٹری نے الجھا رکھا ہے تو کسی کو باٹنی نے گھما رکھا ہے۔ یہ سب چیزیں روح کو سمجھنے سے تمہیں دور کرتی ہیں۔ یہی تعیشات ہمیں اس رب کے انکار کی طرف لے جاتے ہیں جہاں پر ممکن ہے ہمارے اس امتحان کے بدلے میں بہتریں ذریعہ ہو لیکن ہم اپنے شیطانیت کا شکار ہوکر انکار کرکے اس سے بھی محروم ہوجائیں۔ اسلیئے زن ، زر ، زمین یہ تین چیزیں شیطان کی دکان ہیں اور جو ان تین چیزوں کو سمجھ گیا وہی فلاح پا سکتا ہے۔
وآخرالدعوانہ ۔ اللہ سب کے ایمان کو جِلا بخشے اور ہمیں تکالیف میں ایمان کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی یا رب العالمین