Post by Admin on Jun 7, 2017 17:41:29 GMT
یہ تحریر عوام کے لیئے عمومی طور پر نہیں بلکہ خواص یعنی وہ لوگ جو فقہ کے طالب علم ہیں ان کے لیئے تحریر کی جارہی ہے اور ان لوگوں کے منہ پر ایک تھپڑ ہے جو کہ ملحدیت کا شکار ہوکر اسلام کے آفاقی فقہی نظام پر تہمتیں دھرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے قوانین میں اس دور کے مطابق لچک نہیں ہے۔ ہم جواب میں مختصراً یہ کہتے ہیں کہ سب کچھ موجود ہے اور ویسا ہی ہے جیسے قرون اولیٰ میں تھا۔ اسلام آسانی کے لیئے آیا ہے نا کہ تکلیف اور پریشانی کے لیئے۔ اگر مستشرقین و ملحدین اپنی گمراہیت سے ہٹ کر سمجھنے کی نیت سے سمجھنا چاہیں تو یہ تحریر ان کے ہر سوال کا مسبوط جواب ہے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الصلوٰۃ والسلام علیک یا افضل الانبیاء والمرسلین
فقہ حنفی عین قرآن و سنت سے ماخوذ ہے
شرعی احکام بدلنے کی سات بنیادیں ہیں
علامہ نظام الدین مصباحی (دامت برکاتہم العالیہ) فرماتے ہیں۔ حکم کسی دلیلِ شرعی پر مبنی ہوتا ہے۔ مگر سات چیزیں ایسی ہیں جن کے باعث سابقہ حکم میں تبدیلی آجاتی ہے۔
وہ سات (شرعی بنیادیں) یہ ہیں؛
۱؛ ضرورت
۲؛ حاجت
۳؛ عمومِ بلویٰ
۴؛ عرف
۵؛ تعامل
۶؛ دینی ضروری مصلحت کی تحصیل
۷؛ ازالہٗ فساد
یہ فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول ہیں جو ہردور میں اسلامی احکام میں آسانی و نرمی فراہم کرتے ہیں
مجدد اسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمٰن نے اپنے ایک جامع لفظ کے ذریعے انھیں چھ میں منحصر فرما دیا ہے۔ آپ کے کلمات یہ ہیں؛
چھ باتیں ہیں جن کے سبب قولِ امام بدل جاتا ہے۔ لہٰذا قول ظاہر کے خلاف عمل ہوتا ہے وہ چھ باتیں یہ ہیں؛ ۱؛ ضرورت، ۲؛ دفع حرج، ۳: عرف، ۴؛ تعامل، ۵؛ دینی ضروری مصلحت کی تحصیل، ۶؛ کسی فساد موجود یا مظنون بظن غالب کا ازالہ۔ ان سب میں بھی حقیقۃً قولِ امام ہی پر عمل ہے۔
ان سات شرعی بنیادوں پر اگر فقہا حکم سابق سے عدول کرتے ہیں تو وہ بھی فی الواقع صاحبِ شرع اور صاحبِ مذہب کے ارشاد و مذہب پر ہی عمل مانا جاتا ہے۔ کیونکہ ان بنیادوں کے بدلنے کے وقت اگر صاحبِ شرع یا صاحبِ مذہب موجود ہوتے تو وہ بھی یہی فرماتے جو اب آپ کے وارثین و نائبین فقہا کہہ رہے ہیں۔
اور اگر کوئی فقیہ ان بنیادوں سے صرف نظر کرکے صاحبِ مذہب کے قولِ قوی و راجح سے عدول کرتا ہے تو وہ (اختلاف) کرتا ہے اور صاحبِ مذہب سے مقلد کا اختلاف غیرمقبول و نامعتبر ہے۔ یہی حکم مذہب کے اصحابِ ترجیح و تخریج سے اختلاف کا بھی ہے۔
حالات کے اثر سے احکام میں تبدیلی کے مناظر
اب ہم کچھ فقہی احکام نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں جو حالات کے بدلنے سے بدل گئے۔
یہ فقہی احکام کئی انواع کے ہیں؛
پہلی نوع؛ عہد رسالت اور عہدِ صحابہ کے احکام جو بعد کے ادوار میں بدل گئے
دوسری نوع: فقہ حنفی کے احکام جو بعد میں آنے والے مشائخ حنفیہ کے عہد میں کبھی تبدیل ہوئے۔
تیسری نوع؛ مذہب حنفی کے بدلے ہوئے مسائل جن کے مطابق فقیہ بے مثال امام احمد رضا قدس سرہ نے فتویٰ دیا، یا آپ کے فتوے سے حکم سابق میں تبدیلی ہوئی
چوتھی نوع؛ فتاویٰ رضویہ کے وہ مسائل جو بعد کے فقہائے اہلسنت کے نئے فتاویٰ اور فیصلوں کے ذریعے بدلے
اب ہر نوع کے کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیں تاکہ آپ کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ فقہ حنفی میں کسی بھی دور میں جمود و تعطل کی گنجائش نہیں رہی ہے اور اس نے ہرزمانے میں مذکورہ بالا ساتوں اصولوں کی بنیاد پرامتِ مسلمہ کی رہنمائی کی ہے۔
پہلی نوع؛ عہدِ رسالت و عہد صحابہ کے بدلے ہوئے احکام
۱؛ اب شبہات سے بچنے کا حکم بدل گیا۔
صدرِ اول میں شبہات سے بھی بچنے کا حکم تھا مگر احوالِ ناس کے پیش نظر فقہا نے اس میں چھوٹ اور رعایت کی روش اپنائی۔ یہ بات فتاویٰ رضویہ کے نیچے دیئے ہوئے اقتباس سے عیاں ہوتی ہے۔
ہمارا زمانہ اِتِقائے شبہات (شبہات سے بچنے) کا نہیں ہے، بلکہ آدمی آنکھوں دیکھے حرام سے بچے:
فی فتاوی الامام قاضی خان؛ قالوا: لیس زماننا زمان اجتناب الشبھات وانما علی المسلم ان یتقی الحرام المغاین۔ ۱ھ
وفی تجنیس الامام برھان الدین عن ابی بکر بن ابراھیم؛ لیس ھذا زمان الشبھات، ان الحرام اغنانا یعنی ان اجتنبتَ الحرام کفاک ۔ اھ ملخصاً
فتاویٰ قاضٰ خان میں ہے کہ فقہا فرماتے ہیں کہ ہمارا زمانہ شبہات سے بچنے کا زمانہ نہیں ہے، اب مسلمان پر بس یہ فرض ہے کہ کھلے حرام سے بچے۔ اور تجنیس ِ امام برہان الدین میں شیخ ابوبکر بن ابراہیم کے حوالے سے ہے کہ یہ شبہات سے بچنے کا زمانہ نہیں ، ہمارے لیئے حرام سے بچنا کافی ہے۔ )۔
سبحان اللہ! جب چھٹی صدی بلکہ اس سے پہلے سے ائمہ دین یوں ارشاد فرماتے آئے تو ہم پسماندوں کو اس چودھویں صدی میں کیا امید ہے۔ فانا للہ و انا الیہ راجعون۔
ایسی ہی وجوہ ہیں کہ حدیث میں آیا؛
انکم فی زمان مَن ترک منکم عُشر ما اُمِر بہ ھلک ثم یاتی زمانً مَن عمل منھم یعشر ما امر بہ نجا۔ اخرجہ الترمذی وغیرہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عن النبی ﷺ۔
تم لوگ ایسے اخیار و صالحین کے زمانے میں ہو کہ تم میں سے کوئی حکم شریعت کے دسویں حصہ کو چھوڑ دے تو ہلاک ہوجائے گا، پھر اسکے بعد ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ ان میں سے کوئی حکم شریعت کے دسویں حصے پر عمل پیرا ہو تو بھی نجات پا جائے گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے آقائے کون و مکاں سید المصطفیٰ علیہ التحیہ والثناٗ سے روایت کیا۔
ہاں جو شخص بچنا چاہے ۔۔ بہتر و افضل۔ اور نہایت محمود عمل ، مگر اس کے ورع کا حکم صرف اسی کے نفس پر ہے ، نہ کہ اس کے سبب اصل شے کو ممنوع کہنے لگے یا جو مسلمان اسے استعمال کرتے ہوں ان پر طعن و اعتراض کرے، انہیں اپنی نظر میں حقیر سمجھے اس سے تو اس ورع کا ترک ہزار درجہ بہتر تھا کہ شرع پر افترا اور مسلمانوں کی تشنیع و تحقیر سے تو محفوظ رہتا۔ ۔۔۔۔ بھلا عوام بیچاروں کی کیا شکایت، آج کل بہت جہال، منتسب بنام علم و کمال یہی روش چلتے ہیں، مکروہات بلکہ مباحات بلکہ مستحبات جنہیں بزعم خود ممنوع سمجھ لیں ان سے تحذیر و تنفیر کو کیا کچھ نہیں لکھ دیتے، حتیٰ کہ نوبت تابہ اطلاقِ شرک و کفر پہنچانے میں باک نہیں رکھتے۔ پھر یہ نہیں کہ شاید ایک آدھ جگہ قلم سے نکل جائے تو دس جگہ اس کا تدارک عمل میں آئے۔ نہیں نہیں! بلکہ اسے طرح طرح سے جمائیں۔ الٹی سیدھی دلیلیں لائیں پھر جب مواخذہ کیجیئے تو ہوا خواہ بفحوائے (عذرِ گناہ بد تر از گناہ) تاویل کریں کہ بنظر تخویف و ترہیب تشدد مقصود ہے۔
فتاویٰ رضویہ ج ۲ ، ص ۱۴۱ و ۱۴۰ باب الانجاس من کتاب الطھارۃ
اپنے وارثین علم کے لیئے یہ ہدایت بھی مضمر ہے کہ اچھے زمانے کے لوگوں کے احکام کو سامنے رکھ کر خراب اور برے زمانے کے لوگوں پر احکام مت صادر کردینا۔
لہٰذا علمائے کرام کو خود صاحبِ عزیمت بننا چاہیئے لیکن جو لوگ رخصت پر عمل کررہے ہوں ان پر اعتراض و انکار نہیں کرنا چاہیئے۔ کاش کہ ہمارے دینی بھائی اس مقام پر اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے جملہ ارشادات و ہدایات کو اخلاصِ قلب کے ساتھ پڑھ کر اپنی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کی سعیِ محمود کرتے۔
روسر کی شکر سے متعلق اعلیٰ حضرت کا اپنا عمل اور دوسروں کے لیئے جواز کا فتویٰ
روسر کی شکر جس کے متعلق خبر تھی کہ اسکی صفائی ہڈیوں سے ہوتی ہے اسکی حلت و حرمت کے بارے میں مجدد ملت سے سوال ہوا، تقریباً چالیس صفحات میں بہت سی اہم تحقیقات پر مشتمل تفصیلی جواب رقم فرمایا، اس سے فی الجملہ اس شکر کی حلت ثابت ہوتی ہے۔ مگر یہ حکم دوسروں کو مشقت سے بچانے اور شریعت کی دی ہوئی آسانی پہنچانے کے لیئے تھا۔ خود اپنا حال بعد میں یہ تحریر فرماتے ہیں؛
فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ نے آج تک اس شکر کی صورت نہ دیکھی، نہ کبھی اپنے یہاں منگائی، نہ آگے منگائے جانے کا قصد۔ مگر بایں ہمہ ہرگز ممانعت نہیں مانتا۔ نہ جو مسلمان استعمال کریں انہیں آثم (گنہگار) خواہ بے باک جانتا ہے۔ نہ تورُع و احتیاط کا نام بدنام کرکے عوام مومنین پر طعن کرے۔ نہ اپنے نفسِ ذلیل، مہین رذیل کے لیئے ان پر ترفع و تعلی روا رکھے۔ وباللہ التوفیق
فتاویٰ رضویہ ج۲؛ باب الانجاس ص ۱۲۵۔ طبع اول بریلی شریف
آخری جملہ بار بار پڑھیئے۔ انکسار و تواضع کا کام نمونہ بھی ہے اور درسِ عبرت بھی۔ خصوصاً ان لوگوں کے لیئے جو رخصت تو رخصت بتصریح خویش (معصیت) پر عمل کرنے کے لیئے بھی ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں اور دوسروں کے لیئے نہ صرف عزیمت بلکہ ورع کی پابندی لازم قرار دیتے ہیں۔ حضرۃ الامام قدس سرہ کے اندازِ فکر و عمل سے کس قدر دوری پیدا ہوچکی ہے۔
۲؛ پہلے تارکِ نماز کافر تھا اور اب مسلمان ہے
عہد رسالت اور عہدِ صحابہ میں قصداً نماز ترک کرنے والا کافر شمار ہوتا تھا کیونکہ ان ادوار میں تمام مسلمان نماز پڑھتے تھے اور سوائے کافر کے قصداً کوئی نماز ترک نہیں کرتا تھا، مگر بعد کے ادوار میں مسلمانوں کا یہ شعار بدل جانے کی وجہ سے حکم کفر باقی نہ رہا، لہٰذا اب تارکِ نماز کا کافر نہیں شمار کیا جاتا۔ فتاویٰ رضویہ مین فقیہ اسلام نے متعدد مقامات پر اسکی صراحت فرمائی ہے۔ ایک فتوے کا اقتباس آپ بھی ملاحظہ فرمائیں؛
بلاشبہ صدہا صحابہ کرام و تابعین عظام ومجتہدین اعلام و ائمہ اسلام علیھم الرضوان کا بھی یہی مذہب ہے کہ قصداً تارکِ صلاۃ کافر ہے اور یہی متعدد صحٰح حدیثوں میں منصوص اور خود قرآن کریم سے مستفاد ہے ۔ و اقیموا الصلاۃ ولا تکونو من المشرکین۔ نماز قائم کرو اور کافروں سے نہ ہوجاو۔
زمانہ سلف ِ صالح خصوصاً صدر اول کے مناسب یہی حکم تھا، اس زمانہ میں ترک نماز علامتِ کفر تھا کہ واقع نہ ہوتا تھا مگر کافر سے ، جیسے اب زُنار باندھنا یا قشقشہ لگانا علامتِ کفر ہے۔ جب وہ زمانہ خیر گزر گیا اور لوگوں میں تہاون آیا وہ علامت ہونا جاتا رہا اور اصل حکم نے عود کیا کہ ترکِ نماز فی نفسہٖ کفر نہیں، جب تک اسے ہلکا یا حلال نہ جانے یا فرضیتِ نماز سے منکر ہو، یہی مذہب سیدنا امام الاعظم رضی اللہ عنہ کا ہے۔
حنفی کہ ظنی طور پر اسکے خلاف کا معتقد ہو خاطی ضرور ہے کہ اب یہ حکم خلاف تحقیق و نامنصور ہے مگر وہ اس کے سبب نہ معاذ اللہ گمراہ ٹھہرے گا نہ حنفیت سے خارج کہ مسئلہ فقہی نہیں اور اکابر صحابہ و ائمہ کے موافق ہے اور معترضین کا کہنا کہ (تم امام برحق پر فتوے لگاو، محض جہالت اور شانِ امام میں گستاخی ہے۔
فتاویٰ رضویہ ج ۲ ص ۲۴۳ و ۲۴۲ رضا اکیڈمی
فتاویٰ رضویہ کے اس اقتباس سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ؛
الف؛ حالاتِ زمانہ کے بدلنے سے حکم بدل جاتا ہے ، حکم عہدِ رسالت کا تھا جو فرمان ِ رسالت سے جاری ہوا مگر اس پر بھی حالات کا گہرا اثر پڑا اور اب کوئی فقیہ وہ حکمِ کفر جاری نہیں کرتا، مگر کسی بھی فہم میں یہ وہم نہیں آتا کہ یہ فرمانِ رسالت سے اختلاف اور مسلک صحابہ سے انحراف ہے۔
ب؛ ساتھ ہی اس فتوے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اچھے زمانے کا حکم آج کے خراب زمانے کے لوگوں پر جاری نہیں کیا جاسکتا ورنہ قصداً ترکِ نماز کی بنا پر آج بے شمار لوگوں پر حکم کفر جاری کرنا پڑے گا۔
ج؛ اسی کے ساتھ ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ (شعارِ مذہبی) بھی بدل سکتا ہے کیونکہ عہد رسالت و عہدِ صحابہ میں ترک نماز کفار کا شعارِ مذہبی تھا جیسے زنار و قشقشہ ان کا (یعنی کافروں ہندووں وغیرہ) کا شعارِ مذہبی ہے۔ مگر وہ شعار بدل گیا تو حکم بھی بدل گیا۔ لہٰذا شعارِ قومی و شعارِ مذہبی میں اس حیثیت سے فرق نہیں کرنا چاہیئے۔
د؛ اور یہ بات تو خصوصیت کے ساتھ ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کوئی حنفی عالم اگر امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے مذہب کے خلاف ظنی طور پر تارک نماز کو کافر اعتقاد کرے تو اعلیٰ حضرت کی صراحت کے مطابق وہ حنفیت سے خارج نہ ہوگا، اور اس پر یہ اعتراض کہ (تم امام برحق پر فتوے لگاو) جہالت اور شانِ امام میں گستاخی ہے۔ یہ (درسِ رضا) ہرگھڑی یاد رکھیئے اور اس سے غفلت و لاپروائی نہ کیجیئے۔
۳؛ عہدِ صحابہ میں تارکِ جماعت منافق تھا ، اب نہیں
عہد صحابہ کا عام معمول تھا کہ تمام صحابہ کرام جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے اور سوائے منافقین کے کوئی جماعت سے غیر حاضر نہ رہتا تھا الِا یہ کہ کوئی بہت زیادہ کمزور اور چلنے پھرنے سے عاجز ہو۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ
لقد رایتنا وما یتخلف عن الصلاۃ الا منافق قد علم نفاقہ او مریض، ان کان المریض لیمشی بین رجلین حتی یاتی الصلاۃ، وقال ؛ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علمنا سنن الھدیٰ وان من سنن الھدیٰ الصلاۃ فی المسجد الذی یوذنُ فیہ
ہمارا مشاہدہ ہے کہ نماز سے پیچھے نہیں رہتا مگر کھلا منافق، یا بیمار، اور بے شک بیمار کی یہ حالت ہوتی کہ دو شخصوں کے درمیاں میں چلا کر نماز کو لاتے، اور فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو سنن الہدیٰ کی تعلیم فرمائی ہے اور جس مسجد میں اذان ہوتی ہے اس میں نماز پڑھنا سنن الہدیٰ سے ہے۔
حوالہ صحیح مسلم شریف ج ۱ ص ۲۳۲ ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ وبیان التشدید فی التخلف عنھا، مجلس البرکات
یہ حدیث بہارِ شریعت میں بھی منقول ہے۔
مگر بعد کے ادوار میں کسی وقت یہ عادت تبدیل ہوگئی اور اب تو بے شمار مسلمان بغیر عذر و بیماری کے جماعت میں حاضر نہیں ہوتے، اسلیئے اب جماعت سے پیچھے رہ جانے والے کو منافق نہیں کہاجاسکتا گو کہ عہدِ صحابہ میں وہ منافق ہوا کرتا تھا۔
فتاویٰ رضویہ میں اسے (فاسق۹ کہا گیا ہے: چنانچہ ایک فتوے میں ہے؛ ترکِ جماعت اور ترکِ حاضری مسجد کا عادی فاسق ہے، اور فاسق قابلِ اتباع نہیں (فتاویٰ رضویہ ج ۳ ص ۳۸۰ سنی دارالاشاعت مبارکپور)۔
نیز اسی میں ایک دوسرا فتویٰ ہے؛
تارکِ جماعت کہ بے کسی عذر شرعی قابل قبول کے قصداً جماعت میں حاضر نہ ہو مذہبِ صحیح معتمد پر ہے اگر ایک بار بھی بالقصد ایسا کرگیا، گنہگار ہوا، تارک ِ واجب ہو والعیاذ باللہ تعالیٰ، اور اگر عادی ہو کہ بارہا حاضر نہیں ہوتا اگرچہ بارہا حاضر بھی ہوتا ہو تو بلاشبہہ فاسق و فاجر مردود الشہادۃ ہے۔ (فان الصغیرۃ بعد الاضرارِ کبیرۃ)۔ فتاویٰ رضویہ ج ۳ ص ۳۴۲ ۔ سنی دارالاشاعت
یہ حکم عہد صحابہ کا ہے جو حالات کے بدلنے سے یقیناً بدل چکا ہے اور اس سے بھی وہ امور بہت واضح طور پر ثابت ہوتے ہیں جو فتاویٰ رضویہ کے اول الذکر فتوے سے ثابت ہوتے ہیں، فرق صرف کفر و نفاق کا ہے مگر جب منافق کا نفاق (بین) اور کھلا ہوا ہو تو وہ بھی کافرِ مجاہر کی طرح ہوجاتا ہے اور اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ وہ بھی کافر ہی ہے۔
۴؛ عورتوں کی حاضری جمعہ و جماعت پر عہد بہ عہد بدلتے ہوئے احکام
نبی کریم ﷺ کے عہدِ مبارک میں خواتین کو جمعہ و جماعت میں شرکت کی اجازت تھی۔
قال صلی اللہ علیہ وسلم اذا استاذنت احدکم امراتہ الی المسجد فلا یمنعنھا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی کی عورت اس سے مسجد جانے کی اجازت لے تو وہ ہرگز اسے نہ روکے
لا تمنعوا اِمآءَ اللہِ مساجد اللہ۔ (اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو)۔
ایک صحابیہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے
امرنا ان تخرج الحیض یوم العیدین وذوات الخدور فیشھدن جماعۃ المسلمین و دعوتھم، و تعتزل الحیض عن مصلاھن قالتِ امراۃ: یارسول اللہ ! احدانا لیس لھا جلباب قال؛ لتلبسھا صاحبتھا من جلبابھا۔
نبی کریم ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ عیدین کے روز حائضہ عورتیں اور پردہ نشین دوشیزائیں بھی نکلیں مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعا میں حاضر ہوں۔ البتہ حائضہ عورتیں مصلے سے الگ رہیں۔ ایک عورت نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ ہم میں سے کسی عورت کے پاس چادر نہیں ہوتی؟ تو آپ نے فرمایا کہ ساتھ والی اسے بھی اپنی چادر اڑھا دے۔
حوالہ جات؛ فتاویٰ رضویہ ج ۱ ص ۳۸۶، رسالہ اجلی الاعلام بحوالہ احمد و بخاری و نسائی،
فتاویٰ رضویہ ج ۱ ص ۳۸۶ رسالہ اجلی الاعلام بحوالہ احمد ، مسلم ، ابوداود و بخاری کتاب الجمعہ
فتاویٰ رضویہ ج ۴ ص ۱۶۹ مطبع سنی دارالاشاعت بحوالہ صحیح بخاری شریف و صحیح مسلم شریف
پہلی دو روایتوں سے حاضری جماعت کی اجازت ، اور تیسری روایت سے حکم ثابت ہوتا ہے۔ (گو یہ حکم استحبابی ہی ہو) اور یہ تعمیم بھی کہ بلا استثنا تمام بالغ عورتیں جمعہ و جماعتِ پنجگانہ و عیدین میں حاضر ہوں البتہ حیض والی عورتیں عیدگاہوں سے دور رہیں ان کی حاضری صرف حصولِ برکت و دعا کے لیئے ہے۔
لیکن عہد فاروقی میں جب زمان برکت نشان کی سی سعادت اور سادگی باقی نہ رہی اور خلیفہ برحق سیدنا امیر المومنین غیض المنافقین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان میں کچھ فساد کے آثار محسوس فرمائے تو عورتوں کی حاضری جماعت کی ممانعت فرمادی۔
امام اکمل الدین بابرتی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں؛
لقد نھٰی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ النسآءَ عن الخروج الیٰ المساجد فشکون الٰی عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فقالت: لو علم النبی ﷺ ما علم عمر وما اذن لکن فی الخروج۔ فتاویٰ رضویہ ج ۴ ص ۱۷۰ بحوالہ عنایہ شرح ھدایہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو مسجد جانے سے روک دیا تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں شکایت کی۔ آپ نے فرمایا اگر نبی کریم ﷺ وہ حالات مشاہدہ فرماتے جو عمر مشاہدہ کررہے ہیں تو وہ تم کو مسجد جانے کی اجازت نہ عطا فرماتے۔
غور فرمائیے؛ سرکارِ دوعالم ﷺ عورتوں کی حاضری ِ جماعت کو کتنا پسند فرمارہے ہیں کہ مردوں کو منع فرما رہے ہیں کہ عورتوں کو جماعتِ مسجد کی حاضری سے نہ روکیں، اور عورتوں کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ جماعتِ عیدین میں بہرحال حاضر ہوں مگر حالات میں تھوڑا سا فرق آتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روک دیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے اس سے اتفاق فرمایا تو کیا صحابہ کرام نے عہدِ رسالت کے متفق علیہ حکم اور فرمانِ رسالت سے اختلاف کیا؟ یہ کم سے کم کوئی سنی سوچ بھی نہیں سکتا۔
۵؛ عہد تابعین میں فقہائے حنفیہ رحمتہ اللہ علیھم بالخصوص سراج الامۃ ، کاشف الغمہ، امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بوڑھی عورتوں کو عشا و فجر میں مسجد میں حاضری کی اجازت دے دی کہ اس سے فساق و فجار کھانے اور سونے میں مشغول رہتے تھے تو فساد کا امکان وہ بھی بوڑھیوں کے لیئے کم تھا۔
ویکرہ لھن حضور الجماعات ولا باس للعجوز ان تخرج فی الفجر والعشآءِ
یہ حکم بھی بلاشبہہ عہد رسالت کے حکم سے الگ ہے مگر یقیناً یہ بھی حضرت شارع علیہ الصلاۃ والسلام سے اختلاف نہیں بلکہ حالات کے بدلنے سے حکم کا بدل جانا ہے۔
۶؛ اور بعد میں لوگوں کے حالات جب آپ کے عہد سے زیادہ برے ہوگئے کہ ان کے فسق و فجور سے کوئی بھی وقت محفوظ نہ رہا، تو متاخرین فقہا نے بغیر کسی استثنا کے تمام عورتوں کے لیئے علی الاطلاق ہر نماز کی حاضری کو فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد کی طرح منع فرما دیا۔
ولما رد علیہ البحر بان ھٰذہ الفتویٰ مخالفۃ لمذھب الامام وصاحبیہ جمیعاً ، فانھما اباحا للعجائز الحضورَ مطلقا والامام فی غیر الظھر والعصر والجمعۃ۔ فالافتاء بمنع الکل فی الکل مخالف للکل فالمعتمد مذھب الامام، 1ھ بمعناہ
اجاب فی النھر قائلاً: فیہ نظر بل ھو ماخوذ من قول الامام وذٰلک انہ انما منعھا لقیام الحامل وھو فرط الشھوۃ بناءَ علیٰ ان الفسقۃ لا ینتشرون فی المغرب لانھم بالطعام مشغولون و فی الفجر والعشاء نائمون۔ فاذا فرض انتشارھم فی ھٰذہٖ الاوقات لغلبۃ فسقھم کما فی زماننا بل تحریھم ایاھا کان المنع فیھا اظھر من الظھر 1ھ
قال الشیح اسمٰعیل وھو کلام حسن الی الغایتہ 1ھ ۔ ش۔
اور صاحب بحر الرائق نے جب متاخرین پر یہ اعتراض کیا کہ ان کا یہ فتویٰ امام اعظم اور صاحبین سب کے مذہب کے خلاف ہے کیونکہ صاحبین نے بوڑھی عورتوں کے لیئے مسجد کی حاضری کو مطلقاً مباح قرار دیا ہے، اور امام اعظم نے ظہر، عصر ، اور جمعہ کے علاوہ میں اجازت دی ہے تو تمام عورتوں کو سارے اوقات میں حاضری سے روکنا سب کے خلاف ہوا۔ لہٰذا الائق اعتماد امام کا مذہب ہے۔
تو نہر الفائق میں علامہ بحر کے اس تبصرے کو قابل غور قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ متاخرین کا یہ مسلک ، امام ہی کے قول سے ماخوذ ہے کیونکہ امام نے عورتوں کو ایک علت یعنی فساق میں شہوت (پرستی) کی حد سے زیادتی کی وجہ سے اس بنا پر منع فرمایا تھا کہ یہ ناخدا ترس مغرب کے وقت میں باہر نہیں رہتے کیونکہ کھانے میں مشغول ہوتے ہیں اور فجر و عشا کے اوقات میں سوئے ہوتے ہیں مگر اب غلبہ فسق کے باعث ان اوقات میں بھی پھیلے رہتے ہیں بلکہ ایسے ہی اوقات کی جستجو میں لگے رہتے ہیں جیسا کہ ہمارے زمانے کا یہی حال ہے تو ان اوقات میں ممانعت کا حکم بدرجہ اولیٰ ہونا چاہئے۔
علامہ شیخ اسماعیل فرماتے ہیں یہ بڑی ہی اچھی بات ہے۔
یہ ہے حالات ِ زمانہ کی رعایت کہ ایک ہی مسئلے میں تین بار تبدیلی احکام کا منظر دنیا کی نگاہوں نے دیکھا۔ ایک بار تو یہ تبدیلی خود خلیفہء رسول اللہ ﷺ ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حکم سے ظہور میں آئی جو بظاہر عہد رسالت کے تعامل کے خلاف تھی، دوسری تبدیلی عہدِ تابعین میں سراج الامت امام الاعظم کے فتوے سے ہوئی اور تیسری بار تغییر کا یہ حکیمانہ کارنامہ فقہائے حنفیہ نے انجام دیا۔ مگر مصالحِ شریعت پر نظر رکھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ یہ منشائے رسالت کے مطابق ہے اس کے خلاف تو وہ کہتے اور سمجھتے ہیں جو صحابہ و تابعین سب کی پیروی سے آزاد ہیں اور وہابیت یا ملحدیت کی جہالتوں کے آسیب نے انہیں مخبوط کردیا ہے۔ اہلسنت و جماعت کو تو صحابہ و تابعین اور امام اعظم کی روش اپنانی چاہیئے۔
ایسے ہی لاتعداد دیگر امثال بھی موجود ہیں جو طوالت کے باعث چھوڑی جارہی ہیں لیکن وہ حضرات جو اپنی جہالت میں یہ بک دیتے ہیں کہ فقہ غلط ہے معاذ اللہ یا اس کو تبدیل کردیا گیا تھا وہ دراصل اپنی فطری جہالت کا اظہار کررہے ہوتے ہیں اور ایسے ہی مستشرقین یا دیگر ملحدین کا بھی یہ منہ توڑ جواب ہے جو کہتے یا سمجھتے ہیں کہ اسلام کی شریعت اس دور میں نہیں چل سکتی یا اس میں کوئی لچک نہیں ہے۔ اسلام ہی میانہ رو دین ہے اور مذاہبِ اسلام یعنی حنفی مالکی شافعی اور حنبلی ہی اسکے اصل پیروکار ہیں اور اہلسنت وجماعت ہیں باقی جو بھی نیا نام یا کام ہے وہ سب کا سب جہالت کا منبع و گڑھ ہے کیونکہ ان کو خود بھی اس طرح گہری باتوں اور مکمل فقہی انتظامات کا علم نہیں ہوتا لہٰذا وہ لوگ اپنی جہالت میں سرے سے دین کا احترام بھول جاتے ہیں اور وہ وہ بکواس کرجاتے ہیں کہ جسکی کوئی مثال پہلے زمانوں میں نہ تھی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ سب کو دین سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے نفس کی خباثت اور ابلیسیت اور اندر کے کافر کو ختم کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی یا رب العالمین۔