Post by Admin on Jun 11, 2017 12:31:02 GMT
گزشتہ سے پیوستہ
نیورمبرگ کا مقدمہ (نیورمبرگ ٹرائلز) نظامِ دجل کے ہتھکنڈے جدید تناظر میں
دجالی نظام کے طریقہ واردات میں کس طرح اپنے مخالفین کو قانونی و آہنی ہتھ کنڈوں سے اپنے راستے سے ہٹایا جاتا ہے۔ اسکی ایک مثال ہم پہلے بیان کرچکے ہیں جس پر مزید تفصیلی روشنی ڈالی جارہی ہے۔ اسکی ایک مثال نیورمبرگ کا مقدمہ ہے۔ یہ ڈرامہ بہت شاطرانہ طریقہ سے رچایا گیا۔ یہ دجالی نظام کے دنیا پرچھا جانے کی تاریخ کا ایک بہت بڑا باب ہے۔ اور اس پر کروڑوں پاؤنڈ خرچ کیئے گئے۔ عزرا پاؤنڈ کی طرح ہٹلر بھی فری میسنوں کی حرکات اور ان کے افراد کو پہچانتا تھا۔ اس نے ان حرکات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیئے ایک وسیع پروپیگنڈا کا بندوبست کیا۔ اس نے دوسری جنگ عظیم کا آغاز کیا لیکن اس نے بھی عذرا پاؤنڈ کی طرح فرمیسنوں کی اصل طاقت اور کنٹرول کا صحیح اندازہ نہیں کیا۔ اس کو علم نہیں تھا کہ امریکی حکومتوں میں پچاس سال قبل ہی سے فری میسنوں کا عمل دخل شروع ہوچکا تھا، جس کو ہٹلر پہچاننے میں ناکام رہا۔
ایک حقیقت وہ یہ تھی کہ فریمیسنوں کو اسی جیسے شخص کی تلاش تھی۔ اس کے اندر عوام کو اپنے پیچھے لگانے کی صلاحیت تھی کہ وہ اس کے لییئے مرنے مارنے پر تیار ہوگئے۔ وہ طاقت کے حصول کے لیئے لالچی تھا اور اپنے مخالفین پر تشدد اور ظلم کو روا سمجھتا تھا۔ جب جنگ ختم ہوئی تو ان خامیوں کو اچھالا گیا اور اسکے نام کو استعمال کرکے دنیا کو بے وقوف بنایا گیا۔
حقیقت میں فری میسن نے ان واقعات اور حالات کو ہٹلر کی تباہی کے لیئے استعمال کیا، ساتھ ساتھ جنگ سے خوب دولت بٹوری اور پھر جنگ کے نتیجہ میں ہونے والے واقعات کے ذریعے بین الاقوامی کنٹرول میں اضافہ کیا۔
آج کے دور میں بھی ان خبثاء کی یہی خباثت چلی آرہی ہے۔ یہ ایک طرف نپولین کو پیسہ بھی دیتے تھے اور دوسری طرف انگریزوں کو اس سے لڑواتے بھی تھے اور جب جنگیں چھڑ جاتی تھیں تو اس کے اختتام پر آبادکاری کے نام پر دوبارہ پیسہ بنایا جاتا تھا۔ یہی حال موجودہ افغانستان کا ہے۔ پہلے اس کو روس کے ذریعے برباد کروایا۔ پھر فری میسنوں ہی نے افغانیوں کو مدد دی اور روس کو ختم کروایا تاکہ ان کے اشتراکی فارمولے کے راستے میں کوئی حائل نہ ہوسکے۔ اور حتی کہ ابھی کی موجودہ جنگ میں ہی دیکھ لیں کہ پھر انہیں طالبان کو ظالمان قرار دے کر وہاں پر قبضہ جمایا اپنی ایک دو ٹکے کی جھوٹی حکومت قائم کی، معدنیات سے لیکر چرس افیم گانجہ تک پر کنٹرول اور اجارہ داری اپنے مافیا کے ذریعے حاصل کی اور اب ڈیویلوپمنٹ کے نام پر دوبارہ اپنی ہی کمپنیوں کو وہاں پر متعارف کروایا جس کے ذریعے جاسوسی اور دیگر مخالف ممالک کے اندرونی حالات میں مداخلت کی جارہی ہے۔
دوسری جنگ عظیم نے تقریباً ہرملک کو وہ وجوہات مہیا کردیں جن کی وجہ سے ہر ملک اسلحہ اکٹھا کرنے کی دوڑ میں لگ گیا ۔ اس طرح فریمیسنو کے پاس ان گنت جھگڑوں سے فائدہ اٹھا کر اسلحہ بیچنے کے ذریعے مال بٹورنے کے مواقع بھی مہیا ہوگئے۔ اسلیئے کہ جب اسلحہ ہوتا ہے تو لوگ استعمال بھی کرنا چاہتے ہیں۔ جو کوئی اسلحہ استعمال کرنا چاہتا ہے اس کو فری میسنوں کی طرف سے تھپکی اور شاباش ملتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مخالفین کو بھی اسلحہ یہی لوگ مہیا کرتے ہیں۔ جیتنے والے کو البتہ اس اسلحہ کے بدلے میں مزید اسلحہ دیا جاتا ہے، سود پر قرض دے دیا جاتا ہے اور اس ملک کے قدرتی وسائل کو اپنے فائدے کے لیئے استعمال کرلیا جاتا ہے۔ چونکہ ان جھگڑوں میں دونوں فریقین کو مدد فری میسن ہی کررہے ہوتے ہیں۔ گو ان فریقین کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ کسی کے جیتنے یا ہارنے سے فریمیسنز کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی نتیجہ جو بھی ہو فائدہ ان بدذاتوں کا ہی ہوتا ہے۔
دوسری (کافر) جنگ عظیم کے خاتمے پر ہٹلر کے خیالات کو عوام کی نظروں میں گرانے کے لیئے کسی ترکیب اور تدبیر کی ضرورت تھی جیسا کہ عذرا پاؤنڈ کے خیالات کے لیئے سازش کی گئی تھی۔ اسکی ترکیب یہ نکالی گئی کہ ہٹلر کو ایک جنونی شخص قرار دیا گیا جس کی کسی بات سے حق نکالنا ممکن نہ رہا۔ ہٹلر کو اپنے لیئے منافع سے بھرپور فساد کا ذریعہ بنانے کے بعد، فریمیسنوں نے خود کو اس سے علیحدہ کرلیا۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ وہ عوام کی نظروں سے یہ حقیقت پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے کہ اس کے عروج و زوال اور جنگ کی صورت پیدا کرنے میں ان کا ہاتھ ہے بلکہ وہ ان حقائق کو بھی چھپانا چاہتے تھے جو ہٹلر کے خیالات میں ان کی سرگرمیوں کو اجاگر کررہے تھے۔ چونکہ ہٹلر خود ایک کافر تھا۔ یہ کام نسبتاً ان کے لیئے آسان رہا۔
اگرچہ ہٹلر دنیا پر فری میسنوں کے کنٹرول اور ان کی سرگرمیوں سے کسی حد تک واقف تھا ۔ اس کو اسلام کی سچائی اور وقت کے نظام کے متبادل کوئی اور نظام مہیا نہ تھا۔ دجالی نظام کے مقابلے میں واحد متبادل انبیاء کی تعلیمات پر مبنی زندگی ہے۔ بلکہ ہٹلر کے پاس تو عذرا پاؤنڈ کی طرح خیالات بھی نہ تھے۔ فری میسنوں کی طرح وہ بھی طاقت اور کنٹرول کا شیدائی تھا۔
حقیقت میں ہٹلر فریمیسنز کے فرعونی (تکونی) طاقت کے سیٹ اپ کو اپنے فرعونی سیٹ اپ سے بدلنا چاہتا تھا۔ مختصراً دوسری کافر جنگ اصل میں کافر قوتوں کے درمیان اقتدار اور طاقت کی جنگ تھی اور حق و باطل کی جنگ نہ تھی۔ یہ درست ہے کہ اس کی لپیٹ میں وہ اہل حق بھی آگئے تھے جو نہ چاہتے ہوئے اس میں شامل ہوگئے۔ یا کسی ایک فریق کو دوسرے فریق سے کم برا سمجھتے ہوئے اس کی حمایت میں لگ گئے۔ اللہ نے قرآن میں فرما دیا ہے کہ اگرچہ کافر ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن وہ جسم واحد کی طرح ہیں۔ آج امریکہ اور روس بظاہر ایک دوسرے کے مخالف ہیں مگر دیکھا جائے تو یہی ڈرامہ آج بھی رچایا جارہا ہے۔ دونوں کی آپسی چپقلش میں نقصان صرف اہل حق کا ہورہا ہے۔ لیکن بدذات بدکردار گمراہ شورہ پشت حکمرانوں اور ان کی بادشاہتوں نے اپنے مفادات کی خاطر 7 اسلامی ممالک تباہ کرواڈالے۔
چونکہ ہٹلر فریمیسنوں کے کنٹرول کی حدود سے پوری طرح واقف نہ تھا، اس نے ان سے ٹکر لینے کی حماقت کی۔ دوسری طرف فریمیسنز کو اپنی جیت کا یقین تھا۔ بلکہ انہیں ہٹلر کو اس جنگ میں ڈالنے سے بھی پہلے پتہ تھا کہ جیت انہی کی ہوگی۔ اس جنگ کا ایک مقصد ان علاقوں پر اپنا قبضہ بڑھانا تھا جو روس کے زیر اثر ہوگئے تھے۔ اسی لیئے جنگ جرمنی کے خلاف لڑی گئی۔ روس کے خلاف نہیں گو ، روس نے بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پولینڈ اور آدھے جرمنی پر قبضہ کرلیا۔ فریمیسنوں کی ایک فکر یہ تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے اصل حقائق و عزائم پر پردہ پڑا رہے اس سے انہیں دوہرے فائدے ملنے تھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سے عوام کی نظر میں ہٹلر کے خیالات کو گرانے میں آسانی ملے گی دوسرا یہ کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ اس طرح کے خیالات کے دنیا پر کتنے مہلک اثرات ہوسکتے ہیں۔ اور تیسری یہ کہ دنیا میں صیہونیت کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکے لہٰذا 60 لاکھ یہودیوں کی موت کا ڈھونگ چھوڑا گیا حالانکہ پوری دنیا میں کبھی یہ یہودی قوم 60 لاکھ کی کل تعداد تک نہیں پہنچ پائی۔ لیکن یہ دکھا کر انہوں نے فلسطین کی زمین پر قبضہ جمایا اور بڑی عیاری سے مشرق وسطیٰ میں اپنی ابلیسیت کا ایک گڑھ قائم کرلیا۔ ہٹلر کے خیالات میں خاص طور پر اسکی سود پر مذمت کو نشانہ بنایا گیا کہ یہ ایک جنونی آدمی کے خیالات ہیں ۔ اس کے اور اسکے ماننے والوں کے خیالات کو نسلی تعصب قرار دیا گیا۔ حالانکہ ہٹلر اصل میں ایک گمراہ شخص تھا جس نے اپنے غلط طریقوں سے یورپ کو فریمیسنوں سے نجات دلانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اب اسرائیل کی بیہودہ نجاست کو ہی دیکھ لیں کہ جہاں پر اپنے یہودیوں کو یہ لوگ انٹرسٹ فری پیسہ فراہم کرتے ہیں لیکن باقی پوری دنیا کو جن کو یہ لوگ (گوئم) کہتے ہیں ان کو سود کی لعنت کے ذریعے اس شیطانی طائفے نے جکڑ رکھا ہے۔ جبکہ صیہونیت نے یہودیت کے نام پر اپنے آپ کو پھیلایا ہے۔
بہت اہم بات؛
ہٹلر کے بہت سے خیالات یا تو مشہور کتاب (دہ پروٹوکولز) سے ماخوذ تھے یا انہیں اس کتاب کے حقائق سے تقویت ملی تھی۔ یہ کتاب 1905ء میں سرجیائی نائلس نے روسی زبان میں شائع کی تھی۔ کمیونسٹ دور حکومت میں اس کو شائع کرنا بلکہ اسکی ملکیت بھی ایک ایسا جرم تھا جس کی سزا موت تھی۔ اس کتاب میں تھوڑی سی لیکن قیمتی معلومات مہیا کی گئی تھیں جو فریمیسنوں کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتی تھیں۔ ان سرگرمیوں سے وہ دنیا میں ایک نئی ترتیب لانا چاہتے تھے۔
ہٹلر کے خیالات اور مشاہدات کو پروٹوکول کی مہیا شدہ معلومات سے تقویت ملی۔ ہٹلر کا مشاہدہ تھا کہ فریمیسنوں کی دنیا کی سٹاک ایکسچینج پر آمریت ہے وہ خام مال کو کنٹرول کرتے ہیں اور زمین پر ان کا اثر ہے۔
اس موقع پر فریمسنوں نے مکمل طور پر میڈیا پر اپنا قبضہ جمالیا تھا۔ سب سے پہلے تو انہوں نے پروٹوکول کو ایک جعلی دستاویز قرار دیا تھا۔ پھر یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا دی گئی کہ اس کے اندر جو کچھ لکھا ہے وہ درست نہیں ہے۔ (حالانکہ یہ پروٹوکول صیہونیت نے آرین سماج کے منو دھرم شاسترا سے ہی اخذ کیئے تھے جو ایک ہی تسلسلِ ابلیسیت ہے) ۔ اخباروں میں اس کے متعلق مضامین چھپتے رہے ۔ بلکہ آج تک چھپ رہے ہیں پروٹوکول کے متعلق جو دو کہانیاں گھڑی گئیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اصل میں میکاولی اور مونٹسیکو کے ہونے والے طنزیہ ڈائیلاگ سے لیا گیا ہے۔ اس کا اصل مقصد نپولیئن سوئم کے خلاف تھا اور یہ جرمن نامل پیارٹنر کا حصہ تھا۔ دوسری کہانی یہ تھی کہ یہ روسی سیکرٹ سروس نے پیرس میں فرانسیسی وکیل ماریس جولی کی تحریروں سے اخذ کی تھی، یہ تحریریں انیسویں صدی کے اواخر میں لکھی گئی تھیں۔
اس میڈیا تحریک کا انجام فری میسنوں کی کنٹرول شدہ کورٹ میں مقدمہ پر ہوا۔ اس مقدمے میں سویس سول کوڈ کے تحت 40 دفاعی گواہوں میں سے ایک گواہ کو شہادت کے لیئے منتخب کیا گیا اور مقدمہ کرنے والوں کے لیئے سرکاری سٹینو گرافر کی بجائے پرائیویٹ سٹینوگرافر مقرر کیا گیا۔ جس نے مقدمہ کی ساری کاروائی کو قلمبند کیا۔ اس کے بعد مقمدہ کرنے والوں کے 16 گواہوں کی گواہی قلمبند کی گئی اور اسطرح فیصلہ سنایا گیا کہ پروٹوکول ایک جعلی دستاویز تھی۔ یہ پیرس کی سیکرٹ پولیس کی مدد سے بنائی گئی تھی۔ یہ بات حیران کرنے والی نہیں تھی کہ مقدمے کی ان بنیادی بے قاعدگیوں کی وجہ سے سوس اپیل کورٹ نے اس فیصلہ کو نومبر 1937 میں غلط قرار دے دیا تھا۔
اگرچہ خازار یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ پروٹوکول ایک جعلی دستاویز ہے اور انہوں نے اسکی اشاعت روکنے کی بھرپور کوشش کی ، اب تک کے ہونے والے واقعات اس دستاویز کی تصدیق کرتے ہیں۔ جس کی نشاندہی 1921 ء میں ہینری فورڈ نے کی ہے حتیٰ کہ ابھی تک کے حالات بھی اسکی تصدیق کررہے ہیں۔ اس میں بین الاقوامی طور پر یونائیٹڈ نیشنز لیول پر پولیس سٹیشن کا وجود میں آنا، کمیونٹی کے طور پر ٹیکسوں اور سود کے ذریعے سے اقتصادیات کا کھوکھلا ہونا اور انفرادی سطح پر فرد کا پریشان ہونا اور جنسی بے راہ رویوں کا شکار ہونا ہے۔ لوگوں (جو یہودی نہیں ہیں) میں باطل سیاسی اور سوشل نظریات کا پھیلانا بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے ۔ اسکے علاوہ میڈیا کا استعمال اور کھیلوں کو عبادت کی جگہ استعمال کرنا بھی اسی تحریک کا حصہ ہے۔ جعلی اسے کہتے ہیں جو اصل کی نقل ہو یا اصل ہونے کا دعویٰ کرے۔ ایک عمدہ جعلی چیز وہ ہوتی ہےجو اصل سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہو۔ اس کا مطلب جعلی چیز بھی اصل کی ترجمانی کرسکتی ہے۔
اگر یہ بات مان لی جائے کہ پروٹوکول ایک جعلی دستاویز ہے (گو یہ بات کبھی بھی ثابت نہیں کی جاسکی) پھر بھی اس کے اندر جو کچھ کہا گیا ہے وہ بہت کچھ حقیقت پر مبنی ہے جیسا عذرا پاونڈ کی تحریروں کے ساتھ کیا گیاویسے ہی فریمیسنوں نے پروٹوکول کی تحریروں کی اشاعت کو مکمل طور پر روکنے کی کوشش کی۔
راقم کی ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر آپ نے صیہونیت یعنی خاذار یہودیت کی بنیاد کا مطالعہ فرمایا ہو تو یہ بات آشکار ہوسکتی ہے کہ یہ تمام باتیں ان کی فطرت کا ایک حصہ ہیں یہ پستی اور انسانیت کی تذلیل ناصرف یہودی پروٹوکولز میں بلکہ اسکی اصل بنیاد صدیوں پہلے کے لکھے ہوئے اسی گاؤ پرست نظام جس نے موسیٰ علیہ السلام کے احکامات سے نافرمانی کی تھی ان کی تعلیمات کا ایک حصہ ہے اور منو دھرم شاسترا اسکا ثبوت ہے۔ یوں سمجھیئے کہ اگر آپ نے پروٹوکول کا اصل بلیو پرنٹ پڑھنا ہے تو ہندوؤں کا منو سمرتی یا دھرم شاسترا کا مطالعہ کیجیئے یہی پروٹوکول زیادہ وضاحت سے آپ کو اس میں مل جائیں گے جو یہ بھی بتاتا ہے کہ ماضی میں جب ان خازار یہودیوں کو کیکاؤس کی پہاڑیوں سے بے دخل کیا گیا تو یہ مختلف خطہ ہائے ارض میں جاکر آباد ہوئے اور وہاں پھر اپنی شیطانی فطرت کے مطابق انہوں نے اپنے خیالات کو نافذ کیا جیسے قدیم ہند میں جب ان کے ناپاک قدم آئے تو یہاں پہلے ہی بت پرستی عام تھی لیکن کوئی ایک مخصوص بھگوان نہ تھا بلکہ جس کا جو جی چاہتا تھا وہ اسکی پوجا میں مشغول رہتا تھا۔ چونکہ ان خازاریوں یا آرین اقوام نے یہودیت اسی لیئے قبول کی تھی تاکہ حکومت کرنا سیکھ سکیں لہٰذا یہاں ان کے پاس بہترین چانس تھا۔ جاہل بت پرست ان پڑھ لوگوں پر انہوں نے ہندومت کو نافذ کیا اور پھر ہندو مت کی کہانیوں میں اپنی صیہونی قبالائی کہانیاں ڈال کر ہی ہندوازم کو فروغ دیا۔ اسی لیئے انہوں نے انسانیت کو چار ورنوں میں (جاتیوں) میں تقسیم کردیا۔ برہمن کو سب سے اوپر رکھا۔ یعنی خازاریوں کو سب سے اوپر رکھا تاکہ وہ سب پر فائنل کنٹرول کرسکیں۔ پھر کھشتریوں کور کھا کہ جن کے بغیر چارہ نہیں تھا کیونکہ ان کے پاس پاور اور طاقت تھی۔ یہ بزدل خازار نے چالاکی سے ان کو اپنے بعد دوسرے درجے پر رکھا اسی طرح کھیتی باڑی اور دکانداری کرنے والوں کی بھی جونکہ ان کو حاجت تھی لہٰذا ان کو گوئیم سے ایک درجہ اوپر رکھا یعنی ویش اور جو بیچارے غلام بنائے جانے کے قابل تھے تو ان کو (شودر) قرار دے دیا۔ جو آجتک جاری ہے۔ جس بچھڑے کو سامری نے موسیٰ کے دور میں تخلیق کیا تھا اسی صیہونیت کو آج کے دور کے ہندوازم میں گاؤ ماتا کے نام سے جانا جاسکتا ہے۔ جس شیفر کو اس دور میں پھونکا گیا تھا اسی شیفر کو آج سنکھ یا سانکھ یا شنکھ کے نام سے آج بھی مندروں میں پھونکا جاتا ہے۔ یہ برہمن انہیں لوگوں کی گندی نسل ہیں کہ جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے احکامات سے انحراف کیا تھا اور کسی طرح چند ایک موت سے بچ گئے تھے۔ بلکہ اگر کوئی بھی نہ بچا تھا تب بھی یہ شیطانی حرکت دوبارہ سے ابلیس نے خازاریوں آرینز میں شروع کروائی اور جس کا نتیجہ ہم آج کالے برہمنوں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح الفریڈ روزن برگ کی تحریروں کو اشاعت سے روکا گیا کیونکہ اس نے پروٹوکول پر بہت کچھ لکھا تھا اسکے علاوہ اس نے روسی انقلاب میں فریمیسنوں کے کردار کی نشاندہی کی تھی ، وہ ہٹلر کا دست راست تھا۔ ہٹلر کی تحریرکردہ دستاویزات کو بھی اشاعت سے روکا گیا کیونکہ یہ فریمیسنوں کے اصل کردار کو نمایا کرسکتی تھیں۔ سیکڑوں کتابیں اور پروگرام میڈیا کے ذریعے منظر عام پر لائے گئے تاکہ ہٹلر کے خیالات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاسکے۔ بہت کم لوگ آج اس بات سے واقف ہیں کہ ہٹلر نے کیا کہا تھا اوراسکے خیالات کیسے تھے؟۔ اس کے خیالات پر ایک جذبات کی چادر چڑھا دی گئی ہے تاکہ لوگ اس پوزیشن میں ہی نہ رہیں کہ اسکے خیالات پر ایک غیرجذباتی ناقدانہ نظر ڈال سکیں۔ ۔ بلکہ اگر آج کسی شخص سے ہٹلر کے مظالم کی داستان بیان کرنا شروع کردیں کہ وہ ایک ایسا ظالم تھا جس نے یہودیوں پر ظلم ڈھائے اور اس ظلم کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ یہودی تھے تو وہ کیا سمجھے گا۔ یہ درست ہے کہ ہٹلر کچھ یہودیوں سے نفرت کرتا تھا اور اسکی وجوہات سمجھی جاسکتی ہیں۔
جیسے موجودہ کالے صیہونی ہنودی برہمن اکثر مسلم حکمرانوں کے مظالم کا جھوٹا رونا رو کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں حالانکہ ان ننگے برہمنوں کو انسانیت ہی مسلم حکمرانوں نے سکھائی تھی۔ چلو مسلمان تو 1000 سال تم پر حاکم رہے ہیں لیکن یہ برہمن خبثاء تو ہزاروں سال سے مظالم کرتے آرہے ہیں اس کا کوئی ذکر نہیں ملے گا آپ کو۔ جہاں تک ہٹلر اور اسکے رفقاء کے عمل (نہ کہ خیالات) کا تعلق ہے وہ واضح طور پر ظالمانہ تھے اور اس بات سے فری میسنوں کو موقع مل گیا کہ وہ ان کو مزید مرچ مصالحہ لگا کر ظالمانہ ترین بنا کر پیش کریں اور انہوں نے اس کا فائدہ اٹھا کر ہٹلر اور اسکے ساتھیوں کو ایک ایسا پاگل قرار دیا جو سارے یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا تھا تاکہ آرین نسل کی حکمرانی قائم کی جاسکے۔ انہوں نے میڈیا کے جذباتی رنگ میں استعمال سے ہٹلر کو ایک نفسیاتی مریض دکھایا کہ وہ ایک ایسا شخص ہے جو ایک ایسی سازش سے ڈررہا ہے جس کا وجود تک نہیں اسطرح کو یہودی سے متعلق متعصب قرار دیا گیا۔ یقیناً اس میں کچھ حقیقت بھی تھی لیکن اسے مکمل حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا اور اسطرح حقیقت کا ایک بڑا حصہ عوام کی نظروں سے اوجھل کردیا گیا۔ آشویٹز کے گیس چیمبروں کا جھوٹا ڈھونگ بھی رچایا گیا اور تمام تر ڈرامہ بازی کی گئی جسکا نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ صیہونیوں نے خود ہی یہودیوں کو مروا کر ان کے نام پر فلسطین پر برطانیہ کے ذریعے قبضہ کروایا۔
ڈگلس ریڈ جو 1930ء میں یورپ اور بلقان کے لیئے ٹائمز کا صحافی تھا اس نے اپنی کتاب صیہونی مسئلہ میں لکھا ہے جرمنی میں یہودیوں پر مظالم کے بارے میں غیرجانبدارانہ تجزیئے نے سیاسی تصویر کشی کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور یوں حقیقت گم ہوگئی۔ یہ واقعہ تین منازل میں ظہور پذیر ہوا: پہلے اس موضوع کا نام، سیاسی مخالف اور یہودی، بعد میں اس موضوع کا نام یہودی اور سیاسی مخالف رکھا گیا اور آخر میں صحافت نے صرف ایک موضوع پر لکھا اور وہ تھا یہودیوں پر مظالم، اس طرح سیاسی مخالفوں پر ہونے والے مظالم کی داستان کو ایک گروپ تک محدود کرکے حقائق کو چھپا لیا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 1945ء میں نیورمبرگ کے مقدمے میں یہودیوں کی کہانی کو اہم موضوع بنایا گیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر مظالم میں یہودی محض ایک معمولی سی تعداد کی ترجمانی کرتے تھے۔
ڈگلس ریڈ مزید لکھتا ہے جب مظالم شروع ہوئے تو میں نے ایسے لکھا جیسے جیسے میں نے دیکھا۔ اگر میں نے ایک ہزار قیدیوں کے کیمپ کا سنا تو میں نے اسے رپورٹ کیا۔ اگر ان ایک ہزار میں تیس یا پچاس یہودی تھے تو میں نے اسے رپورٹ کیا میں نے متاثرین سے بات کی ان کی چوٹوں کا معائنہ کیا گو مجھے بتایا گیا کہ گسٹاپو میرے خلاف ہوسکتی ہے۔ زیادہ تر تعداد ان متاثرین کی تقریباً 90 فیصد جرمن تھے اور بہت تھوڑے یہودی تھے۔ یہ جرمن کی آبادی تناسب تھا اسی طرح جہاں جہاں ہٹلر کی حکومت ہوئی متاثرین میں یہودیوں کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے رہی لیکن دنیا کے پریس میں متاثرین کی اکثریت کو رپورٹ نہیں کیا بلکہ صرف یہودیوں کو رپورٹ کیا اسی طرح سویت فوجیوں نے بھی کیمپوں میں مظالم اپنے سیاسی مخالفین پر ڈھائے۔ جنگ سے پہلے انہوں نے پولینڈ اور بعد میں ایسٹ جرمن پر قبضہ کرلیا انہوں نے زیادہ تر کیمپوں پر قبضہ کیا۔ ڈگلس ریڈ نے لکھا کہ ویسٹرن عوام کو جرمن میں اتحادی قبضے میں ہونے والے واقعات کی خبر نہ تھی اور اگر ان کی خبر ہوتی تو ردعمل مختلف ہوتا۔ وہ بھی جنگ کا کیمونسٹ آئیڈیا تھا جیسے ہٹلر نے قتل کیا اور ریڈ آرمی کے مظالم کو ہونے دیا گیا۔ جب اتحادی ان شہروں میں داخل ہوئے تو سکرین میں ڈھانچوں کے انبار دکھائے گئے لوگوں نے ان ڈھانچوں کو یہودی سمجھا اور یہ بات ان کے ذہنوں میں پریس نے بٹھا دی کہ یہ سب لاشیں یہودیوں کی ہیں۔ وہ مسلسل بڑھتے رہے نازی گیس چیمبر یہودیوں کے لیئے نہ تھے۔ عوام میں سے بہت کم نے اس بات کو جاننے کی زحمت کی کہ حقیقت میں یہ لوگ کون تھے جن کی لاشیں انہیں دکھائی جارہی تھیں۔ ایک جرمن عورت جو ان کمپوں میں 5 سال رہی (ریونس برک کیمپ) اس کا کہنا ہے کہ ان مظالم کا شکار ہونے والوں میں سب سے پہلے کمزور اور بیمار لوگ تھے جو کام نہیں کرسکتے تھے پھر جو کمتر قومیں تھیں ان کی باری آئی اور ان میں چیک بالٹ اور ہنگری کے لوگ تھے۔
اسی طرح مرنے والوں کی طرف توجہ کم دی گئی اور جو لوگ ان کیمپس میں زندہ لائے گئے وہ توجہ کے مستحق ہوئے آج یہ بات محض تاریخ کا حصہ بن گئی ہے کہ وہ نازی کیمپ جو اصل میں کیمونسٹ کیمپ تھے اور ان میں یہودی ظلم کرنے والے تھے اور کمیونزم خلاف بات کرنے والوں پر اصل ظلم ڈھائے گئے یہی کیمپ بعد میں نازیوں نے استعمال کیئے۔۔
یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اکثر کالے صیہونیوں یعنی برہمنوں کی طرف سے بکواس کی جاتی ہے اور پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ جی مسلمانوں خاص کر عربوں نے باہر سے آکر ہند پر راج کیا لیکن کالے صیہونی یہ نہیں بتاتے کہ وہ خود بھی تو باہر سے آئے تھے اور انہوں نے غلامی کا بدترین صیہونی نظام ہند پر رائج کردیا تھا۔ جس میں صدیوں سے شودر بیچارے پستے چلے آرہے ہیں آجتک۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اسلام یا مسلمان تو تب ہند پر متوجہ ہوئے جب ان کے تجارتی جہازوں کو داہر راجہ کے لٹیرے باجی راؤ جیسے گھس بیٹھیئے مرہٹے لوٹنے لگ گئے۔ تو ایک عظیم سلطنت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت کرے۔ مسلمانوں کو ہند پر حملہ آور ہونے کی دعوت تو خود منحوس کالے ہندو نے دی تھی جو ننگے رہتے تھے۔ یہ ملیچھ لوگ جو فطرتاً گندے اور بت پرست تھے ان کے ان کارناموں کی وجہ سے محمد بن قاسم کو ان کی طرف بھیجا گیا ورنہ ہند سے کونسا خام تیل نکلتا تھا جو کوئی اس کی طرف متوجہ بھی ہوتا جسکا موسم تک گندہ رہتا تھا۔ سندھو ندی کے اسطرف کے کالے برہمن پھر بھی تھوڑی بہت انسانیت رکھتے تھے لیکن داہر کی نسل کے لوگوں نے بالکل صیہونیت کو اسی طرح پرچارک رکھا اور اسی وجہ سے ان پر مختلف ادوار میں ان کے مظالم کے خلاف مسلمانوں نے حملہ کیا اور بالآخر 1000سال کی شاندار فتح کا دور ان کا مقدر کردیا گیا۔ یہ لوگ اپنے مظالم کو کبھی نہیں بتاتے۔ اپنے ہندو عوام کو جاہل رکھتے ہیں اور اسی لیئے ان کا یہ حال ہے کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔
ماضی میں تشدد پسند کا لفظ عام طور پر مسلمانوں کے لیئے اور کیمونسٹ یا ان غیرمسلم لوگوں کے لیئے بنایا گیا جو موجودہ آقاؤں سے کنٹرول حاصل کرنے کی سعی کرتے تھے اور دہشتگرد ان دونوں گروہوں میں سے ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جو محض باتیں کرنے پر اکتفا نہ کرتے تھے بلکہ آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن چونکہ کمیونزم نے جمہوریت کے حق میں ہتھیار ڈال دیئے تھے، اب اس لفظ کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اب میڈیا صرف مسلمانوں کو ہی انصاف، جمہوریت، امن اور دنیا کے بنائے ہوئے سسٹم کے لیئے خطرہ سمجھتا ہے۔ کافر میڈیا سسٹم میں مسلم اور اسلام کے ساتھ ایک اور لفظ لگا کر اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں یہ تصویر کشی کی جارہی ہے کہ وہ خوامخواہ اندھادھند مرنے مارنے کے لیئے تیار ہیں۔ اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ اپنا دفاع کرنا چاہتا ہے تو اسے دہشتگردی کہہ دیا جاتا ہے۔ اگر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے تو اسے جوابی حملہ کہا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کسی سے نہیں لڑرہی۔ اسکا ذکر نہیں کیا جاتا۔ موجودہ میڈیا کا بنیا ہوا کلیہ / فارمولا یہ ہے کہ:
دہشتگردی (از ایکول ٹو) بنیاد پرست کٹر مسلمان (ایز ایکول ٹو) اسلام ۔ تمام مسلمان
یہی پراپیگنڈہ مردنی سفید مغرب اور مردنی کالے بہمن دونوں چلا رہے ہیں ۔ مسلمان کے لیئے کمیونسٹ اور سرمای دار دونوں ہی ایک جیسے ہیں۔ مسلمان اللہ اور اسکے پیغمبر ﷺ کو مانتا ہے؛ کیمونسٹ اور سرمایہ دار نہیں مانتا۔ یہ فسادی پھر الحاد کو فروغ دیتے ہیں اور یہی الحاد پھر کوشش کرتا ہے فساد بنا کر اس ملک کے وسائل کو اپنے کنٹرول میں لانے کی۔ درحقیقت پچھلی صدی کے دوران لوگوں نے دیکھ لیا کہ کیمونسٹ راتوں رات سرمایہ دار بن گئے؛ ایک جیسے پنچھی اکٹھے یہ سفر کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ ایکدوسرے سے دست و گریبان بھی تھے تو بھی ان کی لڑائی بظاہر تھی۔ انکی حقیقت ایک جیسی ہے۔ انکی بنیادیں ایک جیسی ہیں۔ دونوں کافر ہیں ۔ کافر بظاہر لڑتے ہیں لیکن کفر اصل میں ایک ہی نظام ہے۔ دونوں معاشروں میں پیرامیڈل سسٹم موجود ہے جو آپس میں مربوط ہے ، انکا زندگی کی حقیقت کا فلسفہ ایک ہی ہے، وہ ایک ہی شے کے حصول کے لیئے کوشاں ہیں اور ایک ہی قسم کے بتوں کی پرستش کرتے ہیں۔ انکے رہنما ایک جیسے زندگی کے رویئے اختیار کیئے ہوئے ہیں اور ان کے ہی کرپٹ نظام کی وجہ سے مسلم ممالک کے حکمرانوں نے بھی وہی طرز زندگی اپنا کر اپنے مسلمانوں کی زندگی حرام بنائی ہوئی ہے۔۔ دونوں کا نظریہ زندگی کافرانہ ہے۔ دجالی ہے۔ اگرچہ اصطلاحات مختلف ہیں۔ دونوں ہی کنزیومر پروڈیوسر نظام کو برقرار رکھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ نظام صرف اسی صورت میں چل سکتا ہے جب معاشرے کے کچھ افراد باقی لوگوں کو اپنے فائدے کے لیئے غلام بنا لیتے ہیں۔ اگرچہ وہ بظاہر ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ ان کے باہم آہنی پردہ پڑا نظر آتا ہے۔ وہ ایکدوسرے کے ساتھ تجارت بھی کررہے ہوتے ہیں۔ ایکدوسرے کی اقتصادیات کو سہارا بھی دے رہے ہوتے ہیں اور آج تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے۔ نئی آفاقی آزاد منڈی یعنی گلوبل مارکیٹ ایکانومی، جسے انٹرنیشنل بینکنگ اور بازارِ حصص سے پیسہ ملتا ہے، آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور اب اسکا اصل چہرہ نئے ورلڈ آرڈر کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
حال میں بھی اور ماضی میں بھی سرمایہ دار اور کیمونسٹ لوگوں کے ذہنوں کو صارف و صانع نظام میں لانے کے لیئے ایک جیسے حربے استعمال کررہے تھے۔ وہ لوگوں کو اس بات پر تیار کررہے تھے کہ اس نظام کے نتیجے میں جو دنیاوی منفعات ملتی ہیں اس پر انسان راضی ہوجائے۔ جبکہ انسان کی اصل حقیقت یہ ہے کہ صحیح اور خالص اطمینان اسکو فقط اللہ کی یاد سے مل سکتا ہے۔ یہ ذہنی مرعوبیت (انٹیلیکچؤل فیسی نیشن) اسی وقت ممکن ہے جب تعلیمی ادارے اور میڈیا کا کنٹرول کافرانہ انداز والے چند بڑے لوگوں کے ہاتھ میں مقید ہوجائے اور پھر یہ ایک سراب کی صورت میں لوگوں کو دکھا دیں کہ ان کا قانونی نظام حقیقت میں انصاف پر مبنی ہے۔ ان کا طبی نظام بہت ترقی کرچکا ہے اور ان کا تعلیمی نظام انسانوں کو علم مہیا کرتا ہے۔ اور یہ بات کہ انسان تو اسی صارف آجر نظام کے لیئے پیدا کیا گیا ہے اور اس طرز زندگی کا کوئی متبادل نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کافر سیاستدان کی محبوب دلیل ہی یہ ہے کہ جب اس کافرانہ نظامِ دجل پر تنقید کی جائے تو اسکے جواب میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ نظام پرفیکٹ نہیں لیکن یہ کم از کم طوائف الملوکی سے تو بہتر ہے۔ لفظ طوائف الملوکی سے ایک جذباتی خوف کی حالت پیدا کی جاتی ہے، انارکی تاکہ سننے والا بدامنی کے خوف میں مبتلا ہوجائے۔ اگر کافرانہ سوچ کے دوسرے خوف جیسے غربت کا خوف بھی سننے والے کو لاحق ہو تو بدامنی کا خوف انتہا کو پہنچ جاتا ہے یہ خوف زندگی کی اصل حقیقت سے ناواقف لوگوں کو لاحق رہتا ہے۔
اور یہی بنیاد بنتا ہے موجود الحاد پرستی کے رواج کا یہ وہی باتیں ہیں جو الحاد کے بیج کو شرابی پانی دیتی ہیں اور کمزور ذہنوں کو تباہ کر کے اپنی راہ پر لاڈالتی ہیں۔ انسان کو اپنی اصل ثقافت و رواجات سے ہٹا کر ایک ہی جیسے نظام کے ماتحت لانے کے لیئے ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں۔ کہیں پر سائنس کی ترقی کے جھانسے تو کہیں پر اونچے اونچے محلات کے تقاضے دکھا کر یہ انسان کو گمراہ کرتی ہیں۔ آج آپ دیکھیں کہ ہر چھوٹے بڑے شہر مین وہاں کے رہنے والوں نے اپنی اصل ثقافت کو ترک کرے ایک عالمی منظر نامے کو اوڑھ لیا ہے۔ جو شہر جتنا دنیا دار ہے وہاں آپ کو اتنی ہی پتلونیں اور جدیدیت نظر تو آئے گی۔ لیکن یہ بنیادی چیز آپ کے سامنے ہوتے ہوئے پوشیدہ ہے کہ بھئی اتنے سائنسی دعووں کے بعد انسان میں نت نئی بیماریاں کیسے پھیل رہی ہیں؟ اتنے ترقی کرنے کے بعد انسانیت کہاں گم ہورہی ہے؟ ۔ یہ کافرانہ دجالی نظام اگر اتنا ہی اچھا ہے تو معیشت کا کباڑہ کیوں ہورہا ہے؟۔ اس کاغذی فیک جھوٹی کرنسی کے نوٹوں کی زیادتی کے باوجود انسانیت کیوں سسک رہی ہے؟ تمہاری تمام تر دجالی سائنسی ترقی کے باوجود انسان اپنے اندر موجود روح سے کیوں ناآشنا ہے؟۔ قدرت کا نظام تو صدیوں سے ایک جیسا چل رہا ہے لیکن تمہارا نظام کیوں قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہا ہے؟۔ تمہاری دھریت اور الوہیت سے انکار کے باوجود تمہارے ناپاک وجود کو سکون کیوں حاصل نہیں؟۔ تمہارے ہاتھ میں شرابیں تو بہت ہیں لیکن کیا وہ شرابیں تمہیں ابدی سکون عطا کرپائی ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ دجالی نظام کی تمام تر ترقی کے باوجود ہسپتال بڑھتے جارہے ہیں نئی نئی بیماریاں نکل رہی ہیں اور نت نئے فساد ابھر رہے ہیں؟
یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ یہ دجالی نظام سر سے پیر تک کرپٹ ہے اور مسلم ممالک پر مسلط حکمران طبقہ انہیں کرپٹ لوگوں کا فیض یافتہ ہے یہ خدا کی خدائی سے محروم، انسانیت سے گرے ہوئے لوگ ہیں جن کا اصل مقصد اپنی دو دن کی کمینی زندگی کے عارضی سکون کی خاطر انسانیت کو بیچنا ہے۔ اسکا تعلیمی نظام فقط غلام پیدا کرتا ہے جو بعد میں جتنا زیادہ اس نظام مین گھستا تھا اتنا ہی ملحد ہوتا جاتا ہے۔ جہاں حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں میڈیا فقط شیطان کے ایک بازو کی طرح اپنی نحوستوں کے پر پھیلاتا ہے۔ جہاں کا قانونی نظام صرف شیطانی قوتوں کی مدد کرتا ہے جہاں بھوک افلاس کو بطور پولٹری پروان چڑھایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ غلاموں کو نسلوں سمیت اپنے قبضہ قوت کے نیچے رکھا جاسکے۔ جہان اشرافیہ کے نام سے بدمعاشیہ پوری وطن کے لیئے ایک ناسور بن جاتی ہے۔ جہاں کا خوارجی عنصر معاشرے میں تفریق اور زہر گھولنے میں کام آتا ہے۔ یہ تمام دجالی نظام ایک جسم ہے اور اس تمام شیطانی نظام کے خلاف صرف اور صرف انبیاء کرام کی تعلیمات اور اولیائے کرام کے فرمودات ہی ذوالقرنین کی آہنی دیوار ہیں۔
جاری ہے