Post by Admin on Jul 15, 2017 23:14:55 GMT
ایک اندھے غیرمقلد مقلدِ وہابیت (ابوصفیہ) جو اپنے بزرگ البانی کے خودساختہ تحقیقات سے لے لے کر کذاب کی باتوں کو نقل کردیتے
ہیں کبھی امامیین پر تدلیس کا الزام لگا دیتے ہیں اور پھر درجہ مدلس کا ذکر تک نہیں کرتے نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاؤں سن ہونے پر (یامحمد) کہنے والی حدیث پر خودساختہ دعوے کیئے بھڑکیلے قسم کے۔ لہٰذا رفاعِ عامہ کے پیش نظر جوابی تھپڑ دیا جارہا ہے۔
پاؤں کے سن ہوجانے پر ایک مشہور حدیث ہے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ۔
اس وہابی فرقے کے اک مشہور مہاراج ناصر الدین البانی بھی گزرے ہیں۔ جن کی اہلسنت سے دشمنی اہل علم سے پوشیدہ نہیں۔ رسول دشمنی کے بغض میں اس حد تک گزر گئے کہ انہوں نے بےشمار احادیث کو من مانے اصول کے مطابق ضعیف اور موضوع قرار دیا۔ محدثین نے اصول حدیث اور اسما و رجال کے جو قواعد قائم کیئے ہیں، ان اصولوں کے برعکس بنا کسی سندیافتہ عالم کے ان خود ساختہ عالموں کے سرخیل نے اپنے من مانے اصول کے مطابق احادیث کو ضعیف و موضوع قرار دے کر ان کو احادیث کی کتابوں سے نکال دیا۔ البانی کا یہ طرز عمل کہ وہ حدیث کی کتابوں کو (صحیح) لفظ کے اضافے کے ساتھ شائع کرتا تھا۔ مثلا البانی کے نزدیک امام بخاری کی حدیث کی ایک کتاب (الادب المفرد) میں ضعیف احادیث بھی شامل ہیں ۔ اسی لیئے البانی اور البانی یافتہ لوگ ان احادیث کو نکال کر (صحیح الادب المفرد) کے نام سے شائع کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ امام بخاری علیہ الرحمۃ کے نزدیک ضعیف نہ تھیں۔ لیکن آج کے دور کے مولوی البانی کے مطابق یہ احادیث ضعیف ہیں۔ اس کی وفات ہونے کے بعد یہ مہم اس کے پیروکار جو خود کو سلفی اہلحدیث کہتے ہیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور البانی کی تحریف شدہ احادیث کی کتابیں شائع کرکے اپنی جہالت کو علم سمجھ کر پھیلاتے ہیں
البانی نے اپنی صحیح الادب المفرد میں (ہاتھ پاؤں کو بوسہ دینے والی) وہ تمام احادیث حذف کردیں جنہیں امام بخاری نے الادب المفرد میں شامل کیا تھا۔ البانی نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث بھی حذف کردی جس میں انہوں نے پاؤں سن ہوجانے پر یا محمد کہا۔
اب ہم تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ البانی کی اس جہالت کو اسکے موجودہ دور کے خوارجی تدلیس اور دیگر تاویلات کی آڑ میں چھپاتے ہیں حالانکہ اس حدیث کو ان کے ہی ایک اور مشہور پنڈت نواب قنوجی نے بھی بیان کیا ہے اور اس پر ایک وہابیہ دھرم کے خوارجی نے چکر دینے کی کوشش کی ہے ۔ اس بیان سے یہ واضح ہوجائے گا کہ کیا یہ حدیث واقعی میں ضعیف ہے یا البانی و پیرکاران خوارج نے اپنے تماشے کی خاطر اپنی ذہنیت کے مطابق صحیح حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے؟
حدیث:
حدثنا ابو نعیم قال حدثنا سفیان عن ابی اسحٰق عن عبدالرحمن بن سعد قال: خدرت رجل ابن عمر فقال لہ رجل: اذکر احب الناس الیک فقال: یا محمد
روی البخاری فی الادب المفرد وقد ذکر البخاری ھذا الحدیث تحت عنوان باب مایقول الرجل اذا خدرت رجلہ
امام بخاری نقل کرتے ہیں
ترجمہ: عبدالرحمٰن بن سعد نے فرمایا: ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں سن ہوگیا تو ایک شخص نےا ن سے کہا کہ آپ اس شخص کو یاد کیجیئے جس سے آپ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ابن عمر نے کہا: (یامحمد ﷺ)۔"۔
حوالہ ۱: الادب المفرد قلمی مخطوطہ ۔
۲؛ الادب المفرد ناشر دارالکتب العلمیہ بیروت
۳۔ الادب المفرد ص ۲۰۷ حدیث ۹۹۳ ناشر موسسۃ الکتب الثقافیہ
نوٹ: امام بخاری نے اس حدیث کو (کیا کرنا چاہیے اگر کسی شخص کا پاؤں سن ہوجائے) باب کے تحت نقل کیا ہے۔
اس سے یہ بھی بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرام کا عقیدہ و عمل تھا کہ پاؤں کے سن ہونے پر (یامحمدﷺ) کہنا جائز ہے۔ جسے امام بخاری نے نقل کرکے خود اپنے عقیدے اور عمل کا اظہار بھی کردیا ہے۔ امام بخاری نے نہ اس حدیث کو ضعیف کہا اور نہ ہی اس عمل کو شرک۔
راویوں پر مفصل بحث بعد میں پیش کی جائے گی۔
ایسے ہی
حدیث ہے
وبہ یقصد انا زھیر۔ عن ابی اسحاق عن عبدالرحمٰن بن سعد قال کنت عند عبداللہ بن عمر فخدرت رجلہ فقلت لہ یا ابا عبدالرحمن ما لرجلک قال اجتمع عصبھا من ھاھنا قلت ادع احب الناس الیک قال یا محمد فانبسط (رواہ علی ابن الجعد فی مسندہ)
ترجمہ: امام ابن جعد (م 230 ھ) نقل کرتے ہیں؛
عبدالرحمن بن سعد فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ ابن عمر کے ساتھ تھا، اور ان کا پاؤں سن ہوگیا، تو میں نے دریافت کیا یا عبدالرحمٰن آپ کے پاؤں کو کیا ہوگیا؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ سُن ہوگیا ہے تو میں نے عرض کیا، اس شخص کو یاد کیجیئے جن سے آپ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ تب انہوں نے کہا یا محمد (ﷺ) اور ان کے پاؤں کی تکلیف دور ہوگئی
حوالہ؛ مسند ابن جعد ص 329 حدیث نمبر 2539 تحقیق عامر احمد، بیروت ، سن اشاعت 1410ھ)۔
غور کریں امام ابن جعد نے نہ اس حدیث کو ضعیف کہا اور نہ ہی اس عمل کو شرک
حدیث 3
قال اخبرنا الفضل بن دکین قال حدثنا سفیان و زھیر بن معاویۃ عن ابی اسحاق عن عبدالرحمن بن سعد قال کنت عند بن عمر فخدرت رجلہ فقلت یا ابا عبدالرحمٰن مالرجلک قال اجتمع عصبھا من ھا ھنا ھذا فی حدیث زھیر وحدہ قال قلت ادع احب الناس الیک قال یا محمد فبسطھا (رواہ ابن سعد فی الطبقات)
ترجمہ: امام ابن سعد (م 230ھ) نقل فرماتے ہیں؛
عبدالرحمٰن بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں عبداللہ ابن عمر کے ساتھ تھا، اور ان کا پاؤں سن ہوگیا تو میں نے دریافت کیا یا عبدالرحمٰن آپ کے پاؤں کو کیا ہوگیا؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ سن ہوگیا ہے۔ اور اسکی نس اپنی جگہ سے ہٹ گئی ہے (یہ عبارت صرف زہیر کی روایت میں ہے) ۔ تو میں نے ان سے عرض کیا ، اس شخص کو یاد کیجیئے جن سے آپ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ تب انہوں نے (یامحمدﷺ) کہا۔ اور ان کے پاؤں کی تکلیف دور ہوگئی۔ (طبقات ابن سعد ج 4، ص 154 ناشر دار الصادر بیروت)۔
نوٹ: غور کریں مندرجہ بالا حدیث اور حدیث نمبر 2 کی اسناد مختلف ہیں۔
نوٹ: امام ابن سعد نے اس حدیث کو نہ ضعیف کہا اور نہ اس عمل کو شرک
ایسے ہی حدیث نمبر 4
حدثنا احمد بن یونس حدثنا زھیر عن ابی اسحاق عن عبدالرحمٰن بن سعد: جئت ابن عمر فخدرت رجلہ؛ فقلت: ما لرجلک ؟ قال: اجتمع عصبھا قلت : ادع احب الناس الیک قال: یا محمد فبسطھا (رواہ ابراھیم الحربی فی غریب الحدیث)
ترجمہ: امام ابراہیم الحربی (م 285ھ) نقل فرماتے ہیں؛
عبدالرحمن بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عمر سے دریافت کیا، آپ کے پاؤں میں کیا تکلیف ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا، پاؤں کی نس اپنی جگہ سے کھسک گئی ہے۔ تو میں نے ان سے کہا، اس شخص کو یاد کیجیئے جن سے آپ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں، تب انہوں نے کہا، یا محمد ﷺ۔ اور ان کے پاؤں کی تکلیف جاتی رہی۔
غریب الحدیث ج 2 ص 674 ناشر جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ
امام ابن حربی نے اس حدیث کو نہ ضعیف کہا نہ اس عمل کو شرک کہا
حدیث 5
حدثنی محمد بن ابراھیم الانماطی ، و عمرو بن الجنید بن عیسیٰ قالا: ثنا محمد بن خداش، ثنا ابوبکر بن عیاش، ثنا ابو اسحاق السبیعی عن ابی شعبۃ ، قال : کنت امشی مع ابن عمر رضی اللہ عنھما ،فخدرت رجلہ، فجلس، فقال لہ رجل: اذکر احب الناس الیک فقال: یا محمداہ فقام فمشی
رواہ ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ
ترجمہ: امام ابن السنی (م 364ھ) روایت کرتے ہیں؛
ابی شعبہ روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں سن ہوگیا ۔ میں نے ان سے کہا، اس شخص کو یاد کیجیئے جن سے آپ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا (یامحمدﷺ) اور وہ پھر چلنے کے لائق ہوگئے۔
عمل الیوم واللیلۃ ناشر مکتبہ دارالبیان طائف سعودی عرب
حدیث 6:
حدثنا محمد بن خالد بن محمد البرذعی ، ثنا حاجب بن سلمان ، ثنا محمد بن مصعب، ثنا اسرائیل، عن ابی اسحاق ، عن الھیثم بن حنش ، قال: کنا عند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ، فخدرت رجلہ ، فقال لہ رجل: اذکر احب الناس الیک فقال: یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، قال: فقام نکانما نشط من عقال
رواہ ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ
ترجمہ امام ابن السنی سے روایت ہے
ہثم بن حنش روایت کرتے ہیں؛ میں ایک دفعہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور ان کا پاؤں سن ہوگیا۔ میں نےا ن سے کہا اس شخص کو یاد کیجیئے جن سے آپ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا: یا محمد ﷺ اور دوبارہ چلنے کے لائق ہوگئے۔
حوالہ گزشتہ والا
حدیث 7؛
اخبرنی احمد بن الحسن الصوفی، حدثنا علی بن الجعد، ثنا زھیر، عن ابی اسحاق، عن عبدالرحمن بن سعد، قال: کنت عند ابن عمر فخدرت رجلہ، فقلت: یا ابا عبدالرحمن ، ما لرجلک،؟ قال : اجتمع عصبھا من ھاھنا ۔ قلت: ادع احب الناس الیک۔ فقال یا محمد فانبسطت
رواہ ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ
ترجمہ حسب سابق
نوٹ: غور فرمائیں کہ حدیث 5 ، 6 اور 7 کی اسناد مختلف ہیں اور ان تینوں اسناد میں ضعف ہے۔
حدیث 8
ن۔ 3832 : بخ عبدالرحمن بن سعد القرشی العدوی، مولی بن عمر کوفی روی عن اخیہ عبداللہ بن سعد ومولاہ عبداللہ بن عمر بخ روی عنہ حماد بن ابی سلیمان و ابو شیبۃ عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی و منصور بن المعتمر و ابو اسحاق السبیعی بخ ذکرہ بن حبان فی کتاب الثقات روی لہ البخاری فی کتاب الادب حدیثا واحدا موقوفا وقد وقع لنا عالیا عنہ اخبرنا بہ ابوالحسن بن البخاری وزینب بنت مکی قالا اخبرنا ابو حفص بن طبرزد قال اخبرنا الحافظ ابوالبرکات الانماطی قال اخبرنا ابو محمد الصریقینی قال اخبرنا ابوالقاسم بن حبابۃ قال اخبرنا عبداللہ بن محمد البغوی قال حدثنا علی بن الجعد قال اخبرنا زھیر عن ابی اسحاق عن عبدالرحمٰن بن سعد قال کنت عند عبداللہ بن عمر فخدرت رجلہ فقلت لہ یا ابا عبدالرحمٰن مالرجلک قال اجتمع عصبھا من ھاھنا قال قلت ادع احب الناس الیک فقال یا محمد فانبسطت
رواہ عن ابی نعیم عن سفیان عن ابی اسحاق مختصرا ۔ اخرج ھذا الحدیث الحافظ المزی فی تھذیب الکمال
ترجمہ: پاؤں سن ہونے پر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یامحمدﷺ کہنے والی روایت کا ذکر امام مزی رحمتہ اللہ علیہ (م 742ھ) نے عبدالرحمٰن بن سعد کی سوانح عمری کے تحت بیان کیا ہے، جو کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک آزاد کردہ غلام تھے۔
نوٹ: مذکورہ حدیث 8 کی عبارت کا ترمہ وہی ہے جو سابقہ حدیث کا ہے، اس لیئے ہم یہاں درج بالا حدیث کا مکمل ترجمہ پیش نہیں کررہے ہیں۔
امام مزی نے اس حدیث کو دو سندوں سے بیان کیا ہے۔ پہلی سند میں علی ابن جعد، زہیر اور ابواسحٰق ہیں۔ اور دوسری سند میں ابو نعیم ، سفیان اور ابواسحاق ہیں۔ جیسا کہ امام بخاری کی الادب المفرد میں پائی جاتی ہیں۔
تھذیب الکمال از امام المزی ، ۱۴۲/۱۷ رقم الحديث ۳۸۳۲ طباعت موسسۃ الرسالۃ بیروت
غور کریں امام مزی نے نہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیا نہ ہی اس عمل کو شرک کہا۔
حدیث 9؛
روینا فی کتاب ابن السنی عن الھیثم بن حنش قال: کنا عند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فخدرت رجلہ ، فقال لہ رج: اذکر احب الناس الیک، فقال: یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، فکانما نشط من عقال (النووی فی الاذکار)
امام المجتہد نووی (رح) نقل کرتے ہیں؛
ابن سنی نے ہثم بن حنش سے روایت کیا کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور ابن عمر کا پاؤں سن ہوگیا میں نےا ن سے کہا، اس شخص کو یاد کیجیئے جس سے آپ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا (یامحمد) اور ان کی پریشانی دور ہوگئی
کتاب الاذکار سکین دیکھیئے۔
نوٹ: امام نووی نےا س حدیث کو (کیا کرنا چاہیئے اگر کسی شخص کا پاؤں سن ہوجائے) کے نام کے باب کے تحت نقل کیا ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام نووی کے عقیدے کے مطابق پاؤں سن ہونے پر یا محمد ﷺ کہنا جائز ہے اور نہ کہ شرک۔
مخالفین یعنی وہابیہ کہ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں
حدیث 10:
عن الھیثم بن حنش قال کنا عند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فخدرت رجلہ فقال لہ رجل: اذکر احب الناس الیک فقال: یا محمد ﷺ فکانما نشط من عقال (ابن تیمیہ فی الکلم الطیب)۔
ترجمہ ابن تیمیہ کہتا ہے:
ہشم بن حنش بیان کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور سابقہ ترجمہ
دیگر وہابیہ کے اداروں کی اشاعت کردہ حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔
الکلمۃ الطیب ، ص 156 ام قطر، ، الکلمۃ الطیب ص 172 اور 173 ناشر مکتبۃ الاسلامی بیروت
نوٹ: ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کو اسی طرح باب باندھ کر لکھا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہابیہ کے جد امجد کا بھی یہی عقیدہ ہے جو بقول ان خوارج کے (بریلویوں) کا عقیدہ ہے۔
حدیث 11۔
عن الھیثم بن حنش قال کنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عقال (تک) آگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و عن مجاھد رحمہ اللہ قال خدرت رجل رجل عند ابن عباس رضی اللہ عنھما فقال اذکر احب الناس الیک فقال محمد فذھب خدرہ
حوالہ: ابن القیم فی الوابل الصیب من الکلم الطیب
ترجمہ: وہابیہ کے ہی ابن قیم جوزیہ نےا س حدیث کو اپنی کتاب الوابل الصیب میں الکلم الطیب میں اس حدیث کو امام مزی کی بیان کردہ اسناد کی روایت سے نقل کیا ہے، جیسا کہ حدیث نمبر 5، 6، اور 7 میں گزرا۔ واضح ہو کہ ابن قیم جوزیہ کا شمار ابن تیمیہ کے خاص شاگردوں میں ہوتا ہے۔
مکمل حوالہ: الوابل الصیب من الکلم الطیب ج 1 ص 204 ناشر دارالکتاب العربی
نوٹ: ابن قیم نے اس حدیث کو ایسے ہی باب باندھ کر نقل کیا ہے۔جس کا مطلب ہے کہ ابن قیم کا بھی یہی مذہب ہے۔
حدیث 12:
قال فی النھایۃ: ومنہ حدیث ابن عمر انھا خدرت رجلہ فقال لہ؛ ما لرجلک؟ فقال ۔ اجتمع عصبھا ، قبل اذکر احب الناس الیک؟ فقال: یا محمد فبسطھا انتھی
الشوکانی فی تحفۃ الذاکرین
ترجمہ: مذکورہ بالا حدیث کو قاضی شوکانی غیرمقلد نے بھی نقل کیا ہے ۔ تحفۃ الذاکرین میں ناشر دارالقلم بیروت
موجودہ دور کے خوارج جن کو مسلمانوں کے ہرعمل میں شرک و بدعت یا بریلویت دکھائی دیتا ہے، غور کرلیں کہ وہ علماء جن کو وہ اپنا پیشوا اور امام مانتے ہیں یعنی ابن تیمیہ اور ابن قیم الجوزیہ ، ان دونوں عالموں نے یا محمد والی حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ اپنے وقت کے امام اور حافظِ حدیث امام مِزی کے نزدیک حدیث کی سند میں نہ کوئی ضعف ہے اور نہ ہی انہوں نے اس کے متن میں کچھ خامی پائیئ ہے۔
بالفرض مذکورہ بالا تمام احادیث کی سند کو ضعیف تسلیم کربھی لیا جائے (جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے) تب بھی اصول حدیث کے مطابق یہ تمام ضعیف احادیث ایکدوسرے کو تقویت دیتی ہیں اور حدیث کا درجہ (حسن صحیح) ہوگا۔
غورفرمائیں: امام بخاری کے انتقال کے تقریباً گیارہ سو سال بعد البانی اس دنیا میں آیا۔ 1100 سال میں کسی حدیث کے امام نے اس حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا۔ چونکہ وہابیوں کے نزدیک حرفِ ندا (یا) کا استعمال شرک ہے۔ اسلیئے البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا تھا۔ البانی کے انتقال کے بعد اسکی اندھی تقلید کرنے والے نااہلیان حدیث آج خودساختہ مجتہد و محدث بننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور وہ حدیث دانی میں ایسا دعویٰ کرتے ہیں جیسے ان کا علم امام بخاری امام ابن سعد امام مزی امام نووی وغیرہ سے بھی بالا و برتر ہے۔
اب آتے ہیں اسناد کی تحقیق کی طرف
اوپر جو حدیث نمبر 1 گزری ہے۔ اب ہم اس اسناد کی تحقیق پیش کریں گے اس حدیث کو امام بخاری نےا لادب المفرد میں نقل کیا ہے
امام بخاری ،،،،،،،، ابونعیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سفیان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابواسحٰق۔۔۔۔۔۔ عبدالرحمٰن بن سعد
ابونعیم:
ان کا نام سفیان بن دکین ہے۔ یہ ثقہ ثبت تھے جیسا کہ امام ابن حجر العسقلانی نے تھذیب التھذیب میں (حدیث نمبر 5401) نقل کیا ہے۔ تھذیب التھذیب ج 8 میں تحریر فرماتے ہیں
ابونعیم نے دونوں (سفیان) یعنی سفیان بن عینیہ اور سفیان ثوری سے حدیث سماعت کی۔ مزید یہ کہ انہوں نے زہیر ابن معاویہ سے بھی سماعت کی۔
عربی عبارت چونکہ انتہائی طویل ہے اسلیئے اس کو حذف کیا جارہا ہے سب عربی کتاب پڑھ کر دیکھ لیں اس میں کیا لکھا ہے۔
سوال : ابو نعیم نے کس سفیان سے سماعت کی، سفیان ثوری یا سفیان بن عینیہ؟
جواب: دونوں ہی سفیان، یعنی سفیان بن عینیہ اور سفیان ثوری ثقہ اور حافظِ حدیث ہیں۔ جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے قریب التہذیب میں نقل کیا ہے۔ بعض لوگ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ سفیان ثوری مدلس تھے۔ (جیسا کہ اس وہابی معترض نے کیا) اور یہی بات سفیان بن عینیہ کےبارے میں کہی جاسکتی ہے چونکہ وہ ثقہ راویوں کی تدلیس کرتے تھے۔
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ اس سند میں کوئی سے بھی سفیان ہوں اور اس بات کو بھی تسلیم کیا جائے کہ دونوں تدلیس بھی کرتے تھے، پھر بھی اس سند کی تقویت ایک دوسری سند سے ملتی ہے جس میں زہیر بن معاویہ موجود ہیں۔ جیسا کہ امام سعد (مذکورہ حدیث 3 ملاحظہ ہو) نے نقل کیا ہے۔
غور کریں مذکورہ بالا سند میں فضیل بن دکین (ان کا دوسرا نام ابو نعیم ہے) نے دو راویوں سے سماعت کی۔ پہلا سفیان دوسرا زہیر بن معاویہ۔ اگر سفیان والی سند کو تھوڑی دیر کے لیئے نظر انداز بھی کیا جائے تو دوسری سند موجود ہے جس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔
یہ بھی غور فرمائیں کہ مذکورہ بالا حدیث نمبر 7 میں کوئی بھی سفیان شامل نہیں
امام ابن سنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد بن حسن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی بن جعد۔۔۔۔۔۔۔ زہیر بن معاویہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابواسحٰق۔۔۔۔۔۔۔ عبدالرحمٰن بن سعد
مذکورہ بالا دونوں سندوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ علی ابن جعد نے زہیر سے سماعت کی اور ابونعیم (فضیل بن دکین) نے نہ صرف دونوں میں سے کسی ایک سفیان سے سماعت کی بلکہ زہیر ابن معاویہ سے بھی سماعت کی۔
سوال: ابن حجر تقریب التہذیب میں تحریر فرماتے ہیں کہ زہیر ثقہ اور ثبت راوی ہیں لیکن انہوں نےا بواسحٰق سے اسوقت حدیث سماعت کی جب ابواسحٰق کا حافظہ کمزور ہوچکا تھا۔
جواب: اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں کہ زہیر نے ابواسحٰق سے جو حدیث روایت کی اس میں کچھ علت پائی جاتی ہو۔ کیونکہ سفیان (جن کا حافظہ قوی تھا) نے بھی ابواسحٰق سے حدیث روایت کی ہے، جو زہیر کی روایت کردہ حدیث کے مطابق ہے اور اسکو تقویت پہنچاتی ہے۔ وہ احادیث جن میں زہیر نے ابواسحٰق سے روایت کیا ہے صحیحین یعنی بخاری و مسلم میں ملتی ہے۔
مثال صحیح بخاری میں ہے
صحیح البخاری الجز الثانی ، 60 کتاب الجہاد والسیر 96 باب: من صف اصحابہ عند الھزیمۃ ونزل عن دابتہ واستنصر
2772۔ حدثنا عمرو بن خالد، حدثنا زھیر، حدثنا ابو اسحاق قال: سمعت البراء وسالہ رجل
اکنتم فررتم یا ابا عمارۃ یوم حنین؟ قال: لا واللہ، ماولی رسول اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی الاخر
2؛ صحیح البخاری الجزء الثانی 65۔ کتاب المناقب 22۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام رقم الحدیث 3419
صحیح مسلم سے مثال
الجز الاول 6۔ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا۔ (2) باب قصر الصلاۃ بمنی رقم 696 ۔ 2۔ حدثنا احمد بن عبداللہ بن یونس ۔ حدثنا زھیر، حدثنا ابواسحاق۔ حدثنی حارثہ بن وھب : الخزاعی قال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الی الآخر
غورطلب بات یہ ہے کہ دونوں سفیان کی روایت کو تقویت نہ صرف زہیر کی روایت سے ملتی ہے بلکہ اسرائیل ابن یونس بھی ان کی روایتوں کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ جیسا کہ گزشتہ بیان کی گئی حدیث نمبر 6 کی سند ہے۔
نوٹ: اسرائیل بن یونس، ابواسحٰق السبیعی کے پوتے ہیں اور ان کے متعلق امام ابن حجر تقریب التھذیب میں نقل فرماتے ہیں؛
401۔ اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی الھمدانی ابویوسف الکوفی ثقہ تکلم فیہ بلا حجۃ من السابعۃ مات سنۃ ستین و قیل بعدھا
یعنی اسرائیل بن یونس ایک ثقہ راوی ہیں، بعض لوگوں نے جو ان پر کلام کیا ہے اس کی کوئی دلیل اور حجت نہیں۔ ان کی روایتیں صحاح ستہ میں بھی پائی جاتی ہیں۔
اسرائیل بن یونس کی بیان کردہ وہ احادیث جو انہوں نے ابواسحٰق سے روایت کیں اسکی مثال صحیح بخاری اور مسلم میں ملتی ہے۔
مثال از صحیح بخاری ۔ غور کریں ابواسحٰق السبیعی اپنے شیخ سے عن سے روایت کرتےہیں۔
صحیح البخاری باب من ترک بعض الاختیار ، مخافۃ ان یقصر فھم بعض الناس 48۔۔۔۔۔ کتاب العلم 3۔ الجز الاول عنہ ، فیقعوا فی اشد منہ۔
126۔ حدثنا عبیداللہ بن موسی ، عن اسرائیل، عن ابی اسحاق، عن الاسود قال: قال لی ابن الزبیر کانت عائشۃ تسر الیک کثیرا، فما حدثتک فی الکعبۃ؟ قلت: قالت لی: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم (یاعائشۃ لولا قومک حدیث عھدھم قال ابن الزبیر، بکفر، لنقضت الکعبۃ ، فجعلت لعھا بابین: باب یدخل الناس وباب یخرجون) ففعلہ ابن الزبیر
حدیث نمبر 3741 اور حدیث 3352 بھی دیگر حوالے ہیں
اسکے ساتھ ساتھ صحیح مسلم سے مثال یہ رہی
صحیح مسلم جز الرابع ؛ 53، کتاب الزھد والرقائق 19۔ باب فی حدیث الھجرۃ ۔ 75۔ م رقم 2009 وحدثنیہ زھیر بن حرب ، حدثنا عثمان بن عمر۔ ح۔ و حدثناہ اسحاق بن ابراھیم، اخبرنا النضر بن شمیل ۔ کلاھما عن اسرائیل۔ عن ابی اسحاق ، عن البراء قال
اشتری ابوبکر من ابی رحلا بثلاثۃ عشر درھما۔ وساق الحدیث۔
بمعنی حدیث زھیر عن ابی اسحاق۔ وقال فی حدیثہ، من روایۃ عثمان بن عمر: فلما دنا دعا علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فساخ فرسہ فی الارض الی بطنہ۔ ووثب عنہ۔ وقل یامحمد! قد علمت ان ھذا عملک ۔ فادع اللہ ان یخلصنی مما انا فیہ۔ ولک علی لاعمین علی من ورائی ۔ وھذہ کنانتی ۔ فخذسھما منھا۔ فانک ستمر علی ابلی وغلمانی بمکان کذا و کذا فخذ منھا حاجتک قال (لا حاجۃ لی فی ابلک) فقدمنا المدینۃ لیلا ۔ فتنازعوا ایھم ینزل علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال( انزل علی بنی النجار، اخوال عبدالمطلب، اکرمھم بذلک) قصعد الرجال والنساء فوق البیوت۔ وتفرق الغلمان والخدم فی الطرق۔ ینادون: یا محمد! یارسول اللہ ! یا محمد ! یارسول اللہ
ابو اسحٰق السبیعی (جو عمرو بن عبداللہ مشہور ہیں) کے متعلق ابن حجر تھذیب جلد 8 میں فرماتے ہیں؛
100۔ ع۔ السنۃ عمرو بن عبداللہ بن عبید ویقال علی و یقال بن ابی شعیرۃ ابواسحاق السبیعی الکوفی والسبیع من ھمدان ولد لسنتین من خلافۃ عثمان قالہ شریک عنہ روی عن علی بن ابی طالب والمغیرۃ بن شعبۃ وقد رآھما وقیل لم یسمع منھما وعن سلیمان بن صرد و زید بن ارقم والبراء بن عازب وجابر بن سمرۃ وحارثۃ بن وھب الخزاعی و حبیش بن جنادۃ و ذی الجوشن و عبداللہ بن یزید الخطمی و عدی بن حاتم و عمرو بن حارث بن ابی ضرار والنعمان بن بشیر و ابی جحیفۃ السوائی والاسود بن یزید النخعی واخیہ عبدالرحمن بن یزید وابنہ عبدالرحمن بن الاسود والاعرابی مسلم ویزید بن ابی مریم والحارث الاعور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الیٰ ۔ الضحاک الخارجی الکوفۃ ۔۔ (پوری عربی عبارت عربی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے)۔
امام ابن حجر تقریب التھذیب میں ابواسحٰق کے متعلق تحریر فرماتے ہیں؛
5065
عمرو بن عبداللہ بن عبید ویقال بن ابی شعیرۃ الھمدانی ابو اسحاق السبیعی بفتح المھملۃ وکسر الموحدۃ ثقۃ مکثر عابد من الثالثۃ اختلط باخرۃ مات سنۃ تسع و عشرین ومائۃ وقیل قبل ذلک
ابن حجر کی مذکورہ بالا عبارتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابو اسحٰق ایک ثقہ راوی تھے اور ان کی روایت کردہ احادیث صحاح ستہ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ آخری عمر میں ان کے حافظے کے کمزور ہونے سے ان کی دیگر روایت کردہ احادیث کی صحت پر کوئی فرق نہیں آتا۔
تقریب التھذیب میں امام ابن حجر نے ان لوگوں کے نام تحریر فرمائے ہیں جنہوں نے ابو اسحٰق سے سماعت کی ۔ ان میں سفیان ثوری، سفیان بن عینیہ، اسرائیل بن یونس، زہیر ابن معاویہ شامل ہیں۔
جیسا کہ خوارجی ابوصفیہ کا اعتراض کہ یہ مدلس تھے اور عن سے روایت کرتے تھے اسلیئے روایت مقبول نہیں کا جواب
اس بات کی کوئی پختہ دلیل نہیں کہ ابواسحٰق کی ہروہ روایت جو انہوں نے عن سے روایت کی علت پیدا کرتی ہے۔ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ کسی محدث نے ابواسحٰق کو ان روایتوں میں مدلس قرار دیا جہاں انہوں نے عبدالرحمٰن بن سعد سے روایت کی۔ جیسا کہ امام بخاری کی الادب المفرد کی سند میں آتا ہے۔
ایسی متعدد مثالیں صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہیں جن میں ابواسحٰق نے اپنے شیخ سے عن سے روایت کی ہے۔
یہاں یہ بھی بات پر غور وخوض کیا جائے کہ امام بخاری کے نزدیک وہ احادیث مقبول ہیں جن میں دونوں میں سے کوئی بھی سفیان (عن) کے ذریعے ابو اسحٰق سے روایت کرتے ہیں۔ اور ان اسناد میں ابواسحٰق نے بھی (عن) سے روایت کی ہے۔
صحیح بخاری کی مثالیں:
باب الصلاۃ من الایمان ۲۹ کتاب الایمان ۲۔ صحیح البخاری الجز الاول رقم الحدیث ۴۰
صحیح البخاری الجزٗالثانی ۵۹۔ کتاب الوصایا ۱۔ باب الوصایا۔ و قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : وصیۃ الرجل مکتوبۃ عندہ رقم الحدیث ۲۵۸۸
ایسے ہی
صحیح البخاری جز ۲ ۔ نمبر ۶۰۔ کتاب الجھاد والسیر نمبر ۳۲۔ باب الصبر عند القتال رقم الحدیث ۲۶۷۸ و ۲۷۵۵
ایسے ہی
صحیح البخاری جز ۲۔ نمبر ۶۰۔ کتاب الجھاد والسیر نمبر ۹۷۔ باب: الدعا علی المشرکین کین بالھزیمۃ والزلزلۃ رقم الحدیث ۲۷۷۶ وغیرہ ہیں۔
صحیح مسلم سے حوالے
جہاں زہیر یا سفیان نے ابواسحٰق کی معرفت (عن) سے روایت کی اور ابواسحٰق نے بھی (عن) سے روایت کی۔
صحیح مسلم شریف ۔ جز الثانی نمبر ۱۲۔ کتاب الزکاۃ (نمبر ۶۰) باب الحث علی الصدقۃ رقم (۶۶) رقم الحدیث ۱۰۱۶ اور صحیح مسلم جز الثالث نمبر ۳۲۔ کتاب الجھاد والسیر نمبر ۴۹۔ باب عدد غزوات النبی صلی اللہ علیہ وسلم نمبر ۱۴۴۔ رقم الحدیث ۱۴۵۴ ۔ (۵) رقم الحدیث ۲۳۸۳
اور
الجز الرابع (۴) نمبر ۴۴ کتاب فضائل الصحابۃ رضی اللہ عنھم نمبر ۲۲۔ باب ۔ من فضائل عبداللہ بن مسعود و امہ رضی اللہ عنھما (۱۱۱) رقم الحدیث ۲۴۶۰
صحیح مسلم شریف ۔ جز ۴ (چار) نمبر ۴۸ کتاب الذکر والدعا ۱۸۔ باب التعوذ من شرماعمل نمبر ۷۲۔ (م) رقم الحدیث ۲۷۲۱
وغیرہ وغیرہ۔
یعنی ۔ الادب المفرد میں امام بخاری کی بیان کردہ حدیث (گزشتہ دی گئی میں سے حدیث نمبر ۱) میں آخری راوی عبدالرحمٰن بن سعد ہیں جو ابن عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ امام مزی نے تہذیب الکمال جلد ۱۷ میں ان کی سوانح عمری کے تحت زیر گفتگو حدیث کو علی ابن جعد، زہیر اور ابواسحٰق کی اسناد سے بیان کیا ہے۔ اور اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ یہ حدیث ابونعیم ، سفیان، ابواسحٰق کی سند کی اسناد سے بھی ملتی ہیں۔ جیسا کہ امام بخاری نے الادب المفرد میں نقل کیا (حدیث نمبر ۸)۔
عبدالرحمن بن سعد کا ذکر کرتے ہوئے امام ابن حجر تھذیب التھذیب میں جلد ۶ (چھ) میں تحریر فرماتے ہیں؛
نمبر (۳۷۶) ۔ بخ البخاری فی الادب المفرد عبدالرحمن بن سعد القرشی کوفی روی عن مولاہ عبداللہ بن عمر و عنہ ابواسحاق السبیعی ومنصور بن المعتمر وابوشیبۃ عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی وحماد بن ابی سلیمان ذکرہ بن حبان فی الثقات قلت وقال النسائی ثقۃ۔
عبدالرحمن بن سعد ثقہ راوی ہیں۔ جیسا کہ امام ابن حجر کی تہذیب التہذیب میں ابن حبان اور نسائی سے ثابت کیا جاچکا۔
نمبر ۳۸۷۷ عبدالرحمن بن سعد القرشی مولی بن عمر کوفی وثقہ النسائی من الثالثۃ بخ۔
حاصل جواب؛
مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام بخاری نے الادب المفرد میں جس حدیث کو نقل کیا ہے، وہ صحیح ہے (طبقات ابن سعد کی سند یکساں ہے)۔ اور اس حدیث کا متن مختلف اسناد سے روایت کی گئی احادیث کے موافق ہے (حدیث ۵، ۶، اور ۷) جیسا کہ امام سنی نے العمل الیوم میں نقل کیا ہے۔
اب ذرا تدلیس اور مدلس کی بحث پر نجدی کا آُپریشن کردیا جائے۔
غیرمقلد علما بھی (عن) سے روایت کردہ احادیث کو تسلیم کرتے ہیں۔
مشہور غیرمقلد وہابی مولوی یحییٰ گوندلوی لکھتے ہیں؛
سفیان الثوری الامام المشھور لفقیہ العابد الحافظ الکبیر وصفہ النسائی وغیر بالتدلیس وقال البخاری ما اقل تدلیسہ
ترجمہ: امام سفیان ثوری ایک مشہور فقیہ عابد اور حافظ تھے۔ امام نسائی اور دیگر لوگوں نے انہیں مدلس قرار دیا۔ اور امام بخاری ودیگر لوگوں نے کہا کہ ان کی تدلیس بہت ہی معمولی ہے۔ (حوالہ آمین بالجہر یحییٰ گوندلوی ص 25 و 26)۔
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں؛
امام ابن حجر عسقلانی نے مدلسین کے پانچ درجے بیان کیئے ہیں۔ اور امام سفیان ثوری کو دوسرے درجے میں رکھا ہے۔ دوسرے درجے کے مدلسین پر کلام کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں
الثانیۃ من احتمل الائمۃ تدلیس واخرجوا لہ فی الصحیح لامامتہ وقلۃ تدلیسہ فی جنب ماروی کالثوری اوکان لا یدلس الا عن ثقۃ کابن عینیہ۔
ترجمہ: علماء کے نزدیک دوسرے درجے کے مدلسین قبولیت کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کی احادیث کو صحیح کے درجے میں شمار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کی تدلیس بہت معمولی ہوتی ہے۔ مثلاً امام سفیان ثوری ۔ دوسرے درجے کے مدلسین ثقہ راویوں سے تدلیس کرتے ہیں مثلاً امام ابن عینیہ۔
اس اصولی گفتگو سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام سفیان ثوری مدلس تھے لیکن ان کی تدلیس معمولی تھی، جس سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
امام ابن حجر عسقلانی، امام سفیان ثوری کے متعلق امیرالمومنین فی الحدیث کا خطاب استعمال کرتے ہیں۔
امام سخاوی فرماتے ہیں؛
وما اشاء شیخاص اطلاق تخریج اصحاب الصحیح لطائفۃ منھم حیث جعل منھم قسما احتمل الائمۃ تدلیسہ وخرجوا لہ فی الصحیح لامامتہ وقلۃ تدلیسہ فی جنب ماروی کالثوری یتزل علی ھذا لا یسما وقد جعل من ھذا القسم من کان لا یدلس الا عن ثقۃ کابن عینیۃ۔
حوالہ : فتح المغیث جلد 1 صفحہ 177
ترجمہ: ابن حجر عسقلانی نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اصحاب الصحیح (صحاح ستہ کے امام) نے مدلسین کے اس طبقے سے روایت کی ہے جو علمائے حدیث کے نزدیک بہت کم تدلیس کی وجہ سے مقبول ہیں۔ اس طبقے میں امام سفیان ثوری شامل ہیں اور امام سفیان ابن عینیہ جو صرف ثقہ راویوں سے روایت کرتے تھے۔
علامہ ابن حزم تحریر کرتے ہیں (وہ مدلسین جو ثقہ راوی سے (عن) کی معرفت روایت کرتے ہیں، وہ علماء کے نزدیک مقبول ہیں
حوالہ؛ ابن حزم المحلیٰ ۔ ج ۷ ص ۴۱۹ و الاحکام ج ۶ ص ۱۳۵
اگر ان غیرمقلدوں وہابیوں کے اصول کے مطابق تمام مدلسین کو خارج کیا جانا چاہیئے تو امام مالک بھی خارج ہیں۔ جیسا کہ امام ابن حجر نے ان کو مدلسین کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ بحوالہ طبقات المدلسین از امام ابن حجر ج ۱ ص ۲۹
اگر عن سے روایت کی گئی تمام روایتوں کو خارج کیا جائے تب تو صحیح بخاری ، صحیح مسلم،ا ور موطا امام مالک کی احادیث بھی ضعیف کہلائیں گی۔
امام ابن صلاح لکھتے ہیں؛
وفی الصحیح و غیرھما من الکتب المعتمدہ من حدیث ھذا الضرب کثیر جدا کقتادہ، والاعمش، والسفیانین، وھشیم بن بشیر وغیرھم۔ وھذا التدلیس لیس کنبا انما ھو ضرب من الایھام بلفظ محتمل
ترجمہ؛ قتادہ ، اعمش، سفیان ثوری ، سفیان بن عینیہ، ہشیم بن بشیر وغیرہ نے (عن) سے بہت سی احادیث صحیحین میں روایت کی ہیں۔ تدلیس کذب نہیں بلکہ ایک قسم کا ابھام ہے۔دوسرے الفاظ میں احتمال ہے۔ جس کی تحقیق کی جانی چاہیئے (بحوالہ۔ مقدمہ ابن صلاح۔ ص ۷۵)
امام خطیب البغدادی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
فان کان تدلیسا عن ثقۃ لم یحتج ان یوقف علی شئی وقبل منہ ، ومن کان یدلس عن غیر ثقہ لم یقبل منہ الحدیث ازا ارسلہ حتی یقول حدثنی فلان اوسمت، نحن نقبل تدلیس ابن عینیہ ، و نظرائہ، لانہ یحیل علی ملئ ثقہ (الکفایۃ ص ۳۶۲)۔
تدلیس کی دو قسمیں ہیں اگر تدلیس ثقہ راویوں سے کی جائے تو قابل قبول ہے اور تحقیق کی حاجت نہیں۔ دوسری صورت میں غیرثقہ راویوں کی احادیث تب تک قابل قبول نہیں ہوں گی جب تک وہ اس بات کی وضاحت نہ کردیں کہ اس نے یہ حدیث کس راوی سے سماعت کی یا کس نے روایت کی ۔ ہم ابن عینیہ اور ان جیسے دیگر افراد کی تدلیس کو قبول کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے صرف ثقہ راویوں سے روایت کی۔
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں؛
یہ بے حد ضروری ہے کہ مدلسین کے متعلق ایک ایسا اصول وضع کیا جائے۔ جس کی بنیاد پر علم حدیث میں ان کا معیار قائم کیا جاسکے۔ صحیحین کی تمام احادیث کا سماعت سے ثابت ہونا اس پر امت کا اجماع ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اہل اجماع کا ضلالت پر متفق ہونا ثابت ہوگا۔ جو محال ہے۔ اس قسم کو دلیل سے ثابت کرنا مشکل ہے۔ اسی لیئے یہ استدلال غلط ہوگا کہ مدلسین کی روایت کردہ وہ احادیث جو صحیحین کے علاوہ دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں ، صحیح نہیں (الکنت علی کتاب ابن الصلاح صفحات ۲۳۵ و ۲۳۶)۔
ابن حجر عسقلانی یہ بھی لکھتے ہیں؛
دوسرے طبقے میں وہ مدلسین شامل کیئے گئے ہیں جن کی (عن) سے روایت کردہ احادیث کو ان کے صدق و اعلیٰ درجے مرتبے کی وجہ سے قبول کیا جاتا ہے۔ ان کی تدلیس بہت معمولی ہے اور وہ ہمیشہ ثقہ راویوں سے روایت کرتے ہیں۔ اس طبقے میں ابراہیم بن ابی یزید النخعی، و اسماعیل بن ابی خالد و بشیر بن المھاجر، الحسن بن زکوان، والحسن البصری والحکم بن عتیۃ، وحماد بن اسامۃ وزکریا بن ابی زایدۃ ، وسالم بن ابی الجعد، وسعید بن ابی عروبۃ و سفیان الثوری، و سفیان بن عینیہ و شریک القاضی، وعبداللہ بن عطا المکی و عکرمۃ بن خالد المخزومی و محمد بن خازم ابومعاویۃ الضریر ومخرمۃ بن بکیر و یونس بن عبید شامل ہے۔
غور کریں کہ مذکورہ بالا فہرست میں امام حسن بصری جیسے تابعین بھی شامل ہیں اور جید امام جیسے امام سفیان ثوری ارو سفیان بن عینیہ کا بھی ذکر ہے۔ لیکن ان سب کی تدلیس ثقہ راویوں سے قبول کی جاتی ہے۔
حاصل بحث
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے الادب المفرد میں جو حدیث روایت کی ہے وہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ کوئی شخص ان سب دلائل کے باوجود اس حدیث کو ضعیف کہتا ہے تو اسے صحیح معنوں میں علم الحدیث کا علم نہیں ہے۔ ایسے شخص سے علم الحدیث کی کوئی بات کرنا عبث ہے۔ اندھوں کے آگے رونا اپنی بھی آنکھیں کھونا ہے۔
حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائشِ مولا کی دھوم
مثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے
خاک ہوجائیں عدو جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر انکا سناتے جائیں گے
ابوصفیہ صاحب ۔ (ہُن آرام ای؟) کیسا لگا بریلویوں کا جواب؟
تحقیق و پیشکش احقرو عاجز ۔ عمران خوئیزئی