Post by Admin on Mar 20, 2019 17:08:50 GMT
مادی اور غیرمادی قوتیں اور دین
اگر دیکھا جائے تو انسانی بدن ایک ایسا ٹراسمیٹر نما آلہ ہے جو کہ کائنات میں موجود مختلف شعاعوں / الٹراوائیولیٹ ریزاور بیمز کو ہروقت مسلسل جذب کرتا اور پھر سے ایک ریدیو ویو کی طرح پروڈیوس کرتا ہے۔ اس انسانی بدن کی اپنی بھی ایک ارتعاش/طاقت یا شعاع مسلسل کام میں آرہی ہے۔ یہ ارتعاشات گھٹتے اور بڑھتے رہتے ہیں۔ مختلف اقسام کی کائناتی قوتوں کی دخل مداخلت اس سے ہر وقت کسی نہ کسی صورت میں ہورہی ہے۔ اگر ہم بنظر غائر جائزہ لیں تو اندازہ کیجئے کہ جب ایک مخصوص سٹیٹک انرجی کے کاغذ کو بچے بالوں یا بدن سے رگڑ کر اس سے چپکانے جیسی معمولی نوعیت کی ارتعاش پیدا کرتے ہیں تو یہ اشارہ ہے ہمارے مادی وجود کے بہ قسم ٹرانسمیٹر ہونے کا کہ جس میں متعدد سٹیٹیک انرجیز ہمہ وقت کام کرتی رہتی ہیں۔ وہ لوگ جو کسی غیرمادی وجود کا انکار کرتے رہتے ہیں دراصل ان کے دماغ کا وہ خلیہ اپنا کام مختلف وجوہات کی بناء پر ترک یا محصور کردیتے ہیں جو کہ ان کو کسی خالق کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ دین حق بتاتا ہے کہ "غیرمادی و غیرمرئی" مخلوق کو بھی اسی نےپیدا کیا ہے اور وہ بنا دھوئیں کے بنائئی گئی آگ سے پیدا کیئے گئے ہیں، نیوٹرونز، پروتونز،آئینونز وغیرہ بھی چند اقسام ہیں جو کہ تخلیق کی گئیں ہیں اور آج کی دنیا کا انسان ان سے بھی بخوبی واقف ہے۔ اس طاقت کا اصل منبع اور اسکی ایک مثال سورج ہے جہاں ہمہ گیر پیمانے پر ہروقت مختلف قوتوں اور طاقتوں کے تباہ کاریوں کے دھماکے ہوتے رہتے ہیں اور آج تک مادی انسان اس امر پر حاوی نہیں ہوسکا کہ سورج پر ہیومن لینڈنگ کرکے دکھائے۔ بہرحال، ہم اگر ان اسلامی اشارات کو آج کے سائنسی دور پر منطبق کرکے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ یہ اشارے ہر "مادی ترقی یافتہ دور" پر پوری طرح اطلاق پذیر ہوتا ہے۔ دیکھیئے کہ ہم حضرت انسان نے ایک چیز بنائی جو ہر ایک کے پاس تقریباً موجود ہے یعنی سیل فون،جسکی ابتداء مائیکرو ویوز اور ریڈیو سگنلز سے ہوتی ہوتی آج اینڈرائیڈ سیٹس اور گھڑیوں کی صورت میں ہمارے زیر استعمال ہے۔ بظاہر یہ ترقی کا سفر کہا جارہا ہے لیکن اگر غور کریں تو وہ ریز یا الٹراوائیلٹ ریز جو ان گیجٹس کو ہم تک کارآمد دکھا کر بیچی جاتی رہی ہیں سہولیات کے نام پر یا کمیونیکیشن کے ذرائع کے نام پر، ان سب میں کہیں وائی وائی، کہیں 3جی یا 4جی اور کہیں 5جی کی ایک کائناتی اندیکھی ریز قوت پر منحصر ہیں جنکو ہم عام زبان میں سگنلز کہتے ہیں جو ایک ایسی پروگرامڈ ریز کو ہر ڈیوائیس تک پہنچا رہی ہیں جو کہ معلومات /ڈیٹا سے پُر ہے۔ ہماری بصری آنکھیں اسکو دیکھنے سے قاصر ہیں لیکن ہماری ہی بنائی سیل فون اسکو دیکھ سن اور محصوص کررہی ہے جس میں یہ تمام حسیات بیٹری کے بل پر چل رہے ہیں جسے آپ ان گیجٹس کی روح کہہ سکتے ہیں۔ اسلام یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ بنا دھوئیں والی آگ سے بنائی گئی مخلوق جس کو عرف عام میں جنات/شیاطین وغیرہ کہا جاتا ہے انسانی بدن میں موجود خون میں گردش کرتی ہیں۔ (نوٹ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ان قوتوں سے مراد صرف نیوٹرون پروٹون وغیرہ جیسے زندہ جانی مانی طاقتیں نہیں بلکہ ایک عمومی اور کُلی انداز میں ذکر کیا جارہا ہے، کچھ سمجھانےکی غرض سے اور یہ قوتیں مختلف ہیں کہیں جنات، کہیں نیوترونز پروٹونز جیسی اشیاء جو کہ بنا دھوئیں والی آگ سے تخلیق ہوئی ہیں)۔ اور یہ سب اس طرح ہے کہ یہ وائی فائیز یہ الٹرا وائیولیٹ ریز جو موبائل سروسز سے لیکر میزائل گائڈنگ انسٹرکشنز تک کو کنٹرول کرتی ہیں سیٹیلائیٹ ریز کے ذریعے تک پہنچتی ہیں۔ یہ مادی اشیاء سے پار ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اور جیسے جیسے ٹیکنالوجی کا یہ نام نہاد ماسونی کلچر فروغ پا رہا ہے ویسے ویسے یہ اشیاء انسانی بدن سے مزید انٹریکشن کررہی ہیں، انسانی بدن کی اپنی بیٹری یعنی روح سے کام نہ لینا ہمارے بدنوں کی اپنی ارتعاشی قوت کو کمزور کررہی ہیں جبکہ یہ اشیاء جب انسانی بدن سے اٹریکشن کرتی ہیں تو ہمارا حصار کمزور ہوتا ہے اور یہ ریز ہمارے اپنے بدن کی ریز پر برا تابکاری اثر چھوڑتی ہیں جو کہ سائنس بھی پروف کرچکی ہے۔ یہ تابکاری اثرات مختلف قسم کے کینسرز کی شکل میں یا نفسیات پر مختلف النوع اثرات کی شکل میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ایسے ہی معاشرے کے معاشروں کو ایک مخصوص طرزِ زندگی میں ماسونی علوم کے ذریعے غیرشعوری طور پر دھکیلا جارہا ہے۔
اگر ہم ان وائی فائیز یا سیل فونز کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ کچھ انتہائی چالاک اور کرمنلی ذہین افراد نے ان کو کنٹرول کرنے کا پورا نظام بھی بنا رکھا ہے، آپ کے ساتھ شاید کبھی ایسا ہوا ہو کہ اگر آپ کا اینڈرائیڈ آپ کو کسی ایپ کی اپڈیٹ شو کررہا ہے مثال کے طور پر اسی فیس بک وغیرہ کی اور اگر آپ اسکو اپڈیٹ کرنے دیتے ہیں تو یہ چھوٹی گیجٹس یعنی ایپس مسلسل اپڈیٹ ہورہی ہوتی ہیں، اصل میں یہ اپڈیٹ کر نہیں رہی ہوتیں بلکہ ہماری معلومات کسی اور کو مسلسل فراہم کررہی ہوتی ہیں جسکو ریکارڈ کہا جاتا ہے، ایس ایم ایس، کالز وغیرہ تو ایک طرف جب آپ نے بظاہر ان کو بند بھی کیا ہو تو اسی بنا دھوئیں کے آگ والی ریز کی ایک قسم یعنی "سیلیولر ڈیٹا/ سروس پرووائیڈنگ سگنلز" مسلسل آن ہوتے ہیں اور ایسی ٹیکنالوجی بنائی جاچکی ہے کہ بنا آپ کے کیمرہ سسٹم کو آن کیئے بنا انٹرنیٹ کے اگر آپ کے پاس اینڈرائیڈ ہے تو مسلسل آپ کی آڈیو ویڈیو ٹریپنگ اور ریکارڈنگ کسی بھی جگہ سے آپریٹ کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کا گوگل پلے آپ کو فیس بک اپڈیٹ بتا رہا ہے تو مثال کے طور پر اسکے 46 اشاریہ کچھ ایم بی سائز دکھایا جاتا ہے، اگر آپ اپنی سکرین کو آف نہ ہونے دیں اور جب سکرین ڈم ہوجائے تو ٹچ کرکے دوبارہ ڈوؤنلوڈ کو مسلسل دیکھتے رہیں تو آپ نوٹ کریں گے کہ یہ سوشل میڈیا کی ایپ 46 کی بجائے 55 سے بھی اوپر چلی جاتی ہے اور پھر اچانک اگر سکرین سیونگ موڈ میں چلا جائے تو پھر سے 0زیرو سے شروع کردیتی ہے اپڈیٹ، اب بظاہر یہ نیٹورک کا بھی فرق ہوسکتا ہے جیسا کہ ٹیکنالوجسٹ کہتے ہیں لیکن اگر نیٹورک کام صحیح کررہا ہے اور ایپ ایسا کررہی ہے تو یقیناً یہ آپ کا اپنا ڈیٹا دراصل فیسبک کے میکرز کو پہنچا رہا ہے۔ اور اسی ڈیٹاز کو مانیٹر کرکے مختلف حکومتیں اپنے لوگوں کو پکڑتی ہیں۔
یعنی کس قدر غیرمادی، دکھائی نہ دینے والی چیزوں میں رہتے ہوئے بعض مادہ پرستوں کا ذہن ایسا غلام ہوتا ہے کہ وہ ان حقائق کو جانے بغیر پوری کائنات کی تخلیق کردہ قوت کا انکار کردیتے ہیں۔ ہمارے اندر باہر یہ شیطانی چیزیں گردش کررہی ہیں، مادی جسم سے گزرتے ہوئے بظاہر یہ آپ کو "سہولیات" فراہم کرتی ہیں کہ آپ دنیا کے کسی بھی گوشے سے بیٹھ کر دیگر مادی اجسام سے بات چیت یعنی کمیونیکیشن کرسکتے ہیں لیکن درحقیقت یہ انسانی بدن کو اسکی اپنی بیٹری یعنی روح کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا اور جو انسانی جسم کی اپنی قوت و حصار ہے اسکو مسلسل توڑ رہا ہے۔ وہی بات نہ ہوئی کہ سر پر فتنے بارش کے قطروں کی طرح برس رہے ہوں؟
یہ مادہ پرست دنیا کے چند عیار لوگ جنہوں نے مادے پر غیرمادی اشیاء کے بل پر راج کرکے اپنا دھندا چلا رکھا ہے ان کو ہی ماسونی کہا جاتا ہے، سائنس اور ترقی کے نام پر جو بیہودگی پھیلائی جاتی ہے اور جن مقاصد کے تحت پھیلائی جاتی ہے ان سب پر اجارہ داری انہی لوگوں کی ہے۔ اگر ہم ان شعاعوں، ارتعاشات کو فرض کریں کہ کوئی "شکل" یا "روپ" یا جسم دے دیں تو ایک اور ہی ڈائیمنشن ہمیں دکھائی دیگی، یعنی جو ان ریز، قوتوں کی مختلف اشکال اچھی یا بری سے بھری ہوگی، اگر ہم فرض کریں اور تصور کریں کہ ہمارے اسوقت اس تحریر کے پڑھے جاتے وقت بیک وقت اسی "ٹیکنالوجی" کا ایک مختصر استعمال ہم سے بھی ہورہا ہے ، مطلب یہ تحریر لکھا بھی انہیں قوتوں کی کنٹرولڈ بیمز کیو جہ سے آُپ پڑھ بھی رہے ہیں اور پہنچ بھی رہا ہے۔ تو اگر وائی فائی وغیرہ کو جسم دے دیا جائے تو ایک عجیب و غریب شکل کی قوت نظر آئیگی جسکو کہیں اور سے کنٹرول کیا جارہا ہے اور یہ جسم، ہمارے انسانی جسم سے آرپار گزر رہا ہے کیونکہ ٹیکنالوجیز کے یہ سگنلز جہاں ہمیں یہ پڑھنے کا موقع دے رہے ہیں وہیں پر کسی اور کے ہاتھوں مانیٹر بھی ہورہے ہیں۔ یہ قوتوں کی مختلف شکلیں ہیں تو جب یہ سب یعنی وائی فائی بنا دکھائی دینے کے دن رات موجود ہے، اگر آپ کے پاس نہیں تو آپ کے گھر میں ہے، گھر میں نہیں تو گلی محلے میں ہے، سٹریٹس میں نہیں تو شہر میں موجود ہے۔ الغرض اس دوسری ڈائیمنشن (جسکو ہرطرح مانیٹر اور کھوج کیا جاسکتا ہے)کے فریب میں مبتلا ہیں۔ ہم سب ان کو ٹیکنالوجیز سمجھتے ہیں لیکن ہمیں سہولیات کی بجائے جتنا نقصان یہ دے رہے ہیں وہ بیان سے باہر ہے کیونکہ یہ عمل ہمہ وقت ہمیں اس غیرمادی چیز کے ذریعے اپنے آپ سے بے شعور کیئے ہوئے ہے۔ یہ ایک ٹرانس کی کیفیت ہے جس میں پوری دنیا کو مبتلا کردیا گیا ہے اور اسکو ایک ایسی ضرورت بنا کر پیش کردیا گیا ہے جس سے چند مادی انسانوں کے کاروبار چمکنے کے ساتھ ساتھ ان کا اختیار بھی بڑھتا جارہا ہے۔ پرائیویسی نام کی کوئی چیز کہیں وجود نہیں رکھتی۔ انسانی قوتِ روحانی کو ختم کردیا گیا ہے اور انسانی بدن کے اپنے ارتعاشات کی قوت اور اسکو استعمال میں لانے کے روحانی علوم ناپید ہوچکے ہیں۔ یہی الٹراوائیولٹ ریز جو کائنات میں کائناتی توانائی کے مختلف اشکال اور قوتوں کے ساتھ ہروقت موجود ہیں یہی دراصل ہمیں روح سے انٹریکشن سے روک کر خالق کی طرف سے غفلت میں مبتلا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ پہلے خطوط لکھے جاتے تھے تو محبتیں بھی تھیں، اب ہر وقت ایک بٹن کی کلک پر رابطے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مدتوں نہیں ملا جاتا۔
کیا اب بھی دیسی مادہ پرست عقل کے ناخن لینے کو تیار نہیں کہ یہ سب ہمارے ساتھ دن رات ہورہا ہے لیکن ہم اپنی محدود سوچ کے حصار میں انہیں قوتوں اور پھر ان کے ذریعے سمبلزم کے ماتحت لاشعوری غلامی کا شکار ہیں؟غور فرمائیں کہ پہلے بلیک اینڈ وائٹ فلمز کا دور نکلا جس میں عکس تصاویر کو بغیر آواز دکھایا جاتا پھر ترقی کرتا کرتا آج ایچ ڈی کے دور میں لایا گیا۔ اس تمام تر وقفے میں ماسونیت کے علمبرداروں نے لاتعداد فلمز بنائیں جس میں دنیا کی بربادی کو شو کیا گیا، جیسے اینڈ آف دی ارتھ جیسی فلمز، یا والکینو کے یعنی آتش فشاںوں کے پھٹ نکلنے یا زلزلوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پوسٹ ایٹامک وارز سے ریلیٹڈ مختلف فلمیں یقیناً آپ دیکھ چکے ہونگے۔ دراصل یہی سائنس ایک دن خود انسانوں کی ایک وسیع آبادی کو فنا کردیگی ایٹامک وارز کی صورت میں، یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں اسلام نے صدیوں پہلی بزبان رسالت یہ پیشنگوئی فرما دی تھی کہ ملحمۃ الکبری ہوگی۔ اور یہ سب ٹیکنالوجیز انسانوں کو ہی فنا کردیں گی اور مختلف ممالک اس میں شریک ہونگے۔ لہٰذا آخرت کے ہونے والے واقعات کے بارے میں اتنے صریح بیانات کو آپ اور ہماری سوچ کی کمی نہیں سوچ سکتی ورنہ سائنس تو خود وہی بیان کررہی ہے جو مختلف اور آسان زبان میں اسلام صدیوں پہلے بیان کرچکا۔ اگر مسلمان تحقیق نہ چھوڑتا اور دشمن اسکو سانس لینے دیتے تو سائنس انسانیت کی بھلائی کا فریضہ انجام دیتی جیسے کہ مسلمانوں نے سائنس کی بنیاد رکھی، لیکن دشمنان اسلام نے مواقع سے فائدہ اٹھا کرجو سائنس انسان کو دی وہ صرف مادہ پرست، انسانی اغراض اور لالچ و کنٹرول کی جبلت کی وجہ سے دی جو بالآخر انسان کو برباد کردیگی۔ یہی دجال کی آمد سے قبل کا دجالی نظام ہے جس کے لاتعداد شعبے ہیں جس پر وقتاً فوقتاً آپ ایسی تحاریر پڑھتے رہتے ہیں، ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں اسکو جھٹلانے کی، اگر آپ نیند سے جاگنے کو تیار نہیں تو یہ آپ کی اپنی کمی اور آپ پر اس نظام کی گرفت کا بین ثبوت ہے۔ ان سب فلمز میں اکثر و بیشتر یا تو مذاہب کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے تاکہ مذاہب سے متنفر کرکے انسان کو پوائنٹ زیرو کی طرف لاکر الحاد میں پھانس دیا جائے اور یا پھر نسل پرستی کی تعلیمات دی جاتی رہی ہیں۔ دیگر مذاہب ہارتے گئے اس کھیل کے سامنے کیونکہ ان کے ادیان کامل نہ تھے۔ اسلام جو آخر تک باقی رہنا ہے اسلیئے یہ نظام اب کھل کر اذہان کو اسلام سے متنفر کرنے میں جٹا ہے،اگر آپ ان باتوں پر غور کریں تو یقیناً چند عیار انسانوں کی اس پھیلائی عالمی غلامی سے باہر نکل سکیں گے۔
تفقہ فی الدین