Post by Admin on Jul 14, 2019 7:21:45 GMT
دجال سیریز پارٹ 3
گزشتہ سے پیوستہ
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
زوراء میں جنگ ہوگی
صحابہ کرام نے پوچھا:
یارسول اللہ! زوراء کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مشرق کی جانب ایک شہر ہے جو نہروں کے درمیان ہے۔ وہاں عذاب مسلط کیا جائیگا اسلحہ کا(مراد جنگیں ہیں) دھنس جانے کا، پتھروں کا اور شکلیں بگڑ جانے کا۔ جب سوڈان والے نکلیں گے اور عرب سے باہر آنےکا مطالبہ کریں گے یہاں تک کہ وہ (عرب) بیت المقدس یا اردن پہنچ جائیںگے۔ اسی دوران اچانک تین سو ساٹھ سواروں کے ساتھ سفیانی نکل آئے گا یہاں تک کہ وہ دمشق آئے گا۔ اس کا کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرے گا جس میں بنی کلب کے تیس ہزار افراد اسکے ہاتھ میں بیعت نہ کریں۔ سفیانی ایک لشکر عراق بھیجے گا جس کے نتیجے میں زوراء میں ایک لاکھ افراد قتل کیئے جائیں گے۔اس کے فوراً بعد وہ کوفہ کی جانب تیزی سے بڑھیں گے اور اس کو لوٹائیں گے۔ اسی دوران مشرق سے ایک سواری (دابہ) نکلے گی جس کو بنو تمیم کا شعیب بن صالح نامی شخص چلا رہا ہوگا۔ چنانچہ یہ (شعیب بن صالح) سفیانی کے لشکر سے کوفہ کے قیدیوں کو چھڑالے گا اور سفیانی کی فوج کو قتل کریگا۔ سفیانی کے لشکر کا ایک دستہ مدینہ کی جانب نکلے گا اور وہاں تین دن تک لوٹ مار کریگا۔ اس کے بعد یہ لشکر مکہ کی جانب چلے گا اور جب مکہ سے پہلے بیداء پہنچے گا تو اللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام کو بھیجے گا اور فرمائے گا: “اے جبریل! ان کو عذاب دو”۔ چنانچہ جبرائیل امین علیہ السلام اپنے پیر سے ایک ٹھوکر ماریں گے جس کے نتیجے مٰں اللہ تعالیٰ اس لشکر کو زمین میں دھنسا دے گا سوائے دو آدمیوں کے، ان میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔ یہ دونوں سفیانی کے پاس آئینگے اور لشکر کے دھنسنے کی خبر سنائیں گے تو وہ (یہ خبر سن کر) گھبرائے گا نہیں۔ اس کے بعد قریش قسطنطنیہ کی جانب آگے بڑھیں گے تو سفیانی رومیوں کے سردار کو یہ پیغام بھیجے گا کہ ان (مسلمانوں) کو میری طرف بڑے میدان میں بھیج دو۔ وہ (رومی سردار) ان کو سفیانی کے پاس بھیج دے گا لہٰذا سفیانی ان کو دمشق کے دروازے پر پھانسی دے دے گا۔ جب وہ (سفیانی) محراب میں بیٹھا ہوگا تو وہ عورت اس کی ران کے پاس آئیگی اور اس پر بیٹھ جائیگی چنانچہ ایک مسلمان کھڑا ہوگا اور کہے گا: “تم ہلاک ہو۔ تم ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ یہ تو جائز نہیں ہے۔” اس پر سفیانی کھڑا ہوگا اور مسجد دمشق میں ہی اس مسلمان کی گردن اڑا دےگا اور ہر اس شخص کو قتل کردیگا جو اس بات میں اس سے اختلاف کریگا۔ (یہ واقعات امام مہدی کے ظہور سے پہلے ہوں گے)۔
اس کے بعد آسمان سے ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا: “اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جابر لوگوں، منافقوں اور ان کے اتحادیوں اور ہمنواؤں کا وقت ختم کردیا ہے اور تمہارے اوپر محمد کی امت کے بہترین شخص کو امیر مقرر کیا ہے۔ لہٰذا مکہ پہنچ کر اس کے ساتھ شامل ہوجاؤ۔ وہ مہدی ہیں اور ان کا نام احمد بن عبداللہ ہے۔”
اس پر حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور پوچھا:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اس (سفیانی) کو کس طرح پہچانیں گے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وہ بنی اسرائیل کے قبیلہ کنانہ کی اولاد میں سے ہوگا، اسکے جسم پر دو قطوانی چادریں ہونگی، اسکے چہرے کا رنگ چمکدار ستارے کی مانند ہوگا، اس کے داہنے گال پر کالا تل ہوگا اور وہ چالیس سال کے درمیان ہوگا۔ (حضرت مہدی سے بیعت کیلئے) شام سے ابدال و اولیاء نکلیں گے اور مصر سے معزز افراد (دینی اعتبار سے) اور مشرق سے قبائل آئینگے یہاں تک کہ مکہ پہنچیں گے۔ اس کے بعد زمزم اور مقام ابراہیم کے درمیان ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے پھر شام کی طرف کوچ کریں گے۔ حضرت جبریل علیہ السلام ان کے ہراول دستہ پر مامور ہوں گے اور میکائیل علیہ السلام پچھلے حصے پر ہوں گے۔ زمین و آسمان والے، چرند وپرند اور سمندر میں مچھلیاں ان سے خوش ہونگی۔ ان کے دور حکومت میں پانی کی کثرت ہوجائیگی، نہریں وسیع ہوجائیں گی، زمین اپنی پیداوار دگنی کردیگی اور خزانے نکال دے گی۔ چنانچہ وہ شام آئیں گے اور سفیانی کو اس درخت کے نیچے قتل کریں گے جس کی شاخیں بحیرہ طبریہ (ٹائیبیریئس) کی طرف ہیں۔ (اس کے بعد) وہ قبیلہ کلب کو قتل کریں گے۔ جو شخص جنگ کلب کے دن غنیمت سے محروم رہا وہ نقصان میں رہا، خواہ اونٹ کی نکیل ہی کیوں نہ ملے۔”۔
امیں نے دریافت کیا:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ان (سفیانی لشکر) سے قتال کس طرح جائز ہوگا حالانکہ وہ موحد ہونگے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا:
اے حذیفہ! اس وقت وہ ارتداد کی حالت میں ہونگے۔ ان کا گمان یہ ہوگا کہ شراب حلال ہے، وہ نماز نہیں پڑھتے ہونگے۔ حضرت مہدی اپنے ہمراہ ایمان والوں کو لے کر روانہ ہونگے اور دمشق پہنچیں گے۔ پھر اللہ ان کی طرف ایک رومی کو (مع لشکر کے) بھیجے گا۔ یہ ہرقل (جو آپ علیہ السلام کے دور میں روم کا بادشاہ تھا) کی پانچویں نسل میں سے ہوگا۔ اس کا نام طبارہ ہوگا۔ (نوٹ: یعنی جینیٹیکس ریسرچ؟) وہ بڑا جنگجو ہوگا، سو تم ان سے سات سال کے لیئے صلح کروگے (لیکن رومی یہ صلح پہلے ہی توڑ دیں گے) چنانچہ تم اور وہ اپنے عقت کے دشمن سے جنگ کرو گے اور فاتح بن کر غنیمت حاصل کروگے۔(کہیں یہ اشارہ یعنی عقب کے دشمن سے مراد مغربی دنیا اور مسلمانوں کا مل کر ماسونیت سے جنگ کی طرف تو نہیں؟)
اس کے بعد تم سرسزسطح مرتفع میں آؤگے۔ اسی دوران ایک رومی اٹھے گا اور کہے گا: صلیب غالب آئی ہے۔ (یہ فتح صلیب کیو جہ سے ہوئی)” (یہ سن کر) ایک مسلمان صلیب کی طرف بڑھے گا اور صلیب کو توڑ دے گا اور کہے گا۔ “اللہ ہی غلبہ دینے والا ہے۔” اس وقت رومی دھوکہ کرینگے اور وہ دھوکے کے ہی زیادہ لائق تھے۔ تو (مسلمانوں کی) وہ جماعت شہید ہوجائیگی”۔ ان میں سے کوئی بھی نہ بچے گا۔ اس وقت وہ تمہارے خلاف جنگ کرنے کیلئے عورت کی مدت حمل کے برابر تیاری کریں گے(مطلب 9 ماہ کم و بیش) پھر تیاری مکمل کرنے بعد، وہ آٹھ جھنڈوں میں تمہارے خلاف نکلیں گے۔(مسند احمد کی روایت میں 80 جھنڈوں کا ذکر ہے، دونوں روایات میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ تمام کفار کل آٹھ جھنڈوں میں ہونگے اور پھر ان میں سے ہرایک کے تحت مزید جھنڈے ہونگے اور اسی طرح مل کر اسی جھنڈے ہونگے)۔ ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار سپاہی ہونگے۔ یہاں تک کہ وہ انطاکیہ کے قریب عمق (اعماق) نامی مقام پر پہنچ جائیں گے۔ (یاد رہے ماضی میں انطاکیہ یروشلم کے لیئے بھی استعمال ہوا ہے لفظ)۔ حیرہ اور شام کا ہرنصرانی صلیب بلند کریگا اور کہے گا: “سنو! جو کوئی بھی نصرانی زمین پر موجود ہے وہ آج نصرانیت کی مدد کرے” اب تمہارے امام مسلمانوں کو لیکر دمشق سے کوچ کرینگے اور انطاکیہ کے عمق (اعماق) علاقے میں آئیں گے، پھر تمہارے امام شام والوں کے پاس پیغام بھیجیں گے کہ میری مدد کرو۔ مشرق والوں کی جانب پیغام بھیجیں گے کہ ہمارے پاس ایسا دشمنن آیا ہے جس کے ستر امیر(کمانڈرز) ہیں ان کی روشنی آسمان تک جاتی ہے۔ اعماق کے شہداء اور دجال کے خلاف شہداء میری امت کے افضل الشہداء ہونگے۔ لوہا لوہے سے ٹکرائے گا یہاں تک کہ ایک مسلمان کافر کو لوہے کہ سیخ سے ماردے گا اوراس کو پھاڑ دے گا اور دوٹکڑے کردے گا۔ باوجود اس کے کہ اس کافر کے جسم پر زرہ ہوگی۔ تم ان کا اسطرح قتل عام کروگے کہ گھوڑے خون میں داخل ہوجائیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ان پر غضبناک ہوگا۔ چنانچہ جسم میں پار اتر جانے والے نیزے سے مارے گا اور کاٹنے والی تلوار سے ضرب لگائے گا اور فرات کے ساحل سے ان پر خراسانی کمان سے تیر برسائے گا۔ چنانچہ وہ (خراسان والے) اس دشمن سے چالیس دن سخت جنگ کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ مشرق والوں کی مدد فرمائے گا۔ چنانچہ ان (کافروں) میں سے نولاکھ نناوے ہزار قتل ہوجائینگے اور باقی کا ان کی قبروں سے پتہ لگے گا( کہ کل کتنے مردار ہوئے)۔ (دوسری جانب جو مشرق کے مسلمانوں کا محاذ ہو گا وہاں) پھر آواز لگانے والا مشرق میں آواز لگائے گا: “اے لوگو! شام میں داخل ہوجاؤ کیونکہ وہ مسلمانوں کی پناہ گاہ ہے اور تمہارے امام بھی وہیں ہیں۔” اس دن مسلمانوں کا بہترین مال وہ سواریاں ہوں گی جن پر سوار ہوکر وہ شام کی طرف جائیں گے اور وہ خچر ہونگے جن پر روانہ ہوں گے اور (وہ مسلمان حضرت امام مہدی کے پاس اعماق) شام پہنچ جائیں گے۔ تمہارے امام یمن والوں کو پیغام بھیجیں گے کہ میری مدد کرو۔ تو ستر ہزار یمنی عدن کی جوان اونٹنیوں پر سوار ہوکر اپنی بند تلواریں لٹکائے آئیں گے اور کہیں گے: ُہم اللہ کے سچے بندے ہیں۔ نہ تو انعام کے طلبگار ہیں اور نہ روزی کی تلاش میں آئے ہیں (بلکہ صرف اسلام کی سربلندی کے لیئے آئے ہیں)” یہاں تک کہ عمق انطاکیہ میں حضرت مہدی کے پاس آئیں گے (یمن والوں کو یہ پیغام جنگ شروع ہونے سے پہلے بھیجا جائیگا)۔ اور وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل کر رومیوں سے گھمسان جنگ کریں گے۔ چنانچہ تیس ہزار مسلمان شہید ہوں گے کوئی رومی اس روز یہ (آواز) نہیں سن سکے گا۔ (یہ وہ آواز ہے جو مشرق والوں میں لگائی جائیگی جس کا ذکر اوپر گزرا ہے)۔ تم قدم بقدم چلو گے تو تم اس وقت اللہ تعالیٰ کے بہترین بندوں میں سے ہوگے، اس دن نہ تم میں کوئی زانی ہوگا اور نہ مال غنیمت میں خیات کرنے والا اور نہ کوئی چور۔ روم کے علاقے میں تم جس قلعے سے بھی گزرو گے اور تکبیر کہو گے تو اسکی دیوار گرجائیگی۔ چنانچہ تم ان سے جنگ کروگے (اور جنگ جیت جاؤ گے) یہاں تک کہ تم کفر کے شہر قسطنطنیہ میں داخل ہوجاؤ گے۔ پھر تم چار تکبیریں لگاؤگے جس کے نتیجے میں اس کی دیوار گرجائیگی۔ اللہ تعالیٰ قسطنطنیہ اور روم کو ضرور تباہ کریگا، پھر تم اس میں داخل ہوجاؤ گے اور تم وہاں چارلاکھ کافروں کو قتل کروگے۔
وہاں سے سونے اور جواہرات کا بڑا خزانہ نکالو گے، تم دارالبلاط (وائیٹ ہاؤس؟) میں قیام کروگے۔” (حضرت امام مہدی کے زمانہ میں امریکہ بھی مسلمانوں کے قبضے میں آجائے گا اور حضرت امام مہدی وائٹ ہاؤس میں قیام فرمائیں گے)۔
پوچھا گیا:
یارسول اللہ! یہ دارالبلاط کیا ہے؟
آپ نے فرمایا:
بادشاہ کا محل۔
اس کے بعد تم وہاں ایک سال رہوگے، وہاں مسجدیں تعمیر کروگے، پھر وہاں سے کوچ کروگے اور ایک شہر میں آؤ گے جس کو “قددماریہ” کہا جاتا ہے (نوٹ: کہیں ساں/سینٹا مریہ/ماریا تو نہیں؟) تو ابھی تم خزانے تقسیم کررہے ہوگے کہ سنو گے کہ اعلان کرنے والا اعلان کررہا ہے کہ دجال تمہاری غیرموجودگی میں ملک شال میں تمہارے گھروں میں گھس گیا ہے، لہٰذا تم واپس آؤ گے! حالانکہ یہ خبر جھوٹ ہوگی۔ (بعض روایات میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ شیطان یہ افواہ پھیلائے گا) سو تم بیسان کی کھجوروں کی رسی سے اور لبنان کے پہاڑ کی لکڑی سے کشتیاں بناؤ گے، پھر تم ایک شہر جس کا نام “عکا” (ایکو) ہے۔ وہاں سے ایک ہزار کشتیوں میں سوار ہوگے (اس کے علاوہ) پانچ سو کشتیاں ساحل اردن سے ہونگی۔ اس دن تمہارے چار لشکر ہوں گے، ایک مشرق والوں کا، دوسرا مغرب کے مسلمانوں کا، تیسرا شام والوں کا اور چوتھا اہل حجاز کا۔ (تم اتنے متحد ہوگے) گویا کہ تم ایک ہی باپ کی اولاد ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں سے آپس کے کینہ اور بغض و عداوت کو ختم کردیگا۔ چنانچہ تم (جہازوں میں سوار ہوکر) “عکا” سے “روم” کی طرف چلو گے۔ ہوا تمہارے اسطرح تابع کردی جائیگی جیسے سلیمان علیہ السلام بن داؤد علیہ السلام کے لیئے کی گئی تھی۔ (اس طرح) تم روم پہنچ جاؤ گے، جب تم شہر روم کے باہر پڑاؤ کیئے ہوگے تو رومیوں کا ایک بڑا راہب جو صاحب کتاب بھی ہوگا (غالباً یہ ویٹی کن کا پوپ ہوگا) تمہارے پاس آئیگا اور پوچھے گا: تمہارا امیر کہاں ہے؟۔ اس کو بتایا جائیگا کہ یہ ہیں: چنانچہ وہ راہب ان کے پاس بیٹھ جائیگا اور ان سے اللہ تعالیٰ کی صفت، فرشتوں کی صفت، جنت و جہنم کی صفت اور آدم علیہ السلام اور انبیاء کی صفت کے بارے میں سوال کرتے کرتے موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام تک پہنچ جائیگا۔ (امیرالمومنین کے جواب سن کر) وہ راہب کہے گا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تمہارا مسلمانوں کا دین اللہ اور نبیوں والا دین ہے۔ وہ اللہ اس دین کے علاوہ کسی اور دین سے راضی نہیں ہے۔” وہ (راہب مزید) سوال کریگا: “کیا جنت والے کھاتے اور پیتے بھی ہیں؟” وہ (امیرالمؤمنین) جواب دیں گے: “ہاں”۔ یہ سن کر راہب کچھ دیر کیلئے سجدے میں گرجائیگا۔ اسکے بعد کہے گا۔ اس کے علاوہ میرا کوئی دین نہیں ہے اور یہی موسیٰ کا دین ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو موسیٰ اور عیسٰی پر اتارا ۔ نیز تمہارے نبی کی صفت ہمارے ہاں انجیل برقلیط میں اس طرح ہے کہ وہ نبی سرخ اونٹنی والے ہونگے۔ اورتم ہی اس شہر (روم) کے مالک ہو۔ سو مجھے اجازت دو کہ میں ان اپنے لوگوں کے پاس جاؤں اور ان کو اسلام کی دعوت دوں اسلیئے کہ (نہ ماننے کی صورت میں) عذاب ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ چنانچہ یہ راہب جائیگا اور شہر کے مرکز میں پہنچ کر زوردار آواز لگائے گا” اے روم والو! تمہارے پاس اسماعیل بن ابراہیم کی اولاد آئی ہے جن کا ذکر توریت و انجیل میں موجود ہے، ان کا نبی سرخ اونٹنی والا تھا لہٰذا ان کی دعوت پر لبیک کہو اور ان کی اطاعت کرلو”۔ (یہ سن کر شہر والے غصے میں) اس راہب کی طرف دوڑیں گے اور اسکو قتل کردیں گے۔ اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ آسمان سے ایسے آگ بھیجے گا جو لوہے کے ستون کی مانند ہوگی۔ یہاں تک کہ یہ آگ مرکز شہر تک پہنچ جائیگی، پھر امیر المومنین کھڑے ہونگے اور کہیں گے: “لوگو! راھب کو شہید کردیا گیا ہے۔” وہ راھب تنہا ہی ایک جماعت کو بھیجے گا(اپنی شہادت سے پہلے ترتیب شاید یہ ہو کہ جب وہ شہر جاکر دعوت دیگا تو ایک جماعت اس کی بات مان کر شہر سے باہر مسلمانوں کے پاس آجائیگی اور باقی اسکو شہید کردیں گے، پھر امیر المومنین جنگ کیلئے اٹھ کھڑے ہونگے)۔ پھر مسلمان چار تکبیریں لگائیں گے جس کے نتیجہ میں شہر کی دیوار گرجائیگی۔ اس شہر کا نام روم اسلیئے رکھا گیا کہ یہ لوگوں سے اس طرح بھرا ہوا ہے جیسے دانوں سے بھرا ہوا انار ہوتا ہے۔ (جب دیوار گرجائیگی مسلمان شہر میں داخل ہوجائیں گے) تو پھر چھ لاکھ کافروں کو قتل کریں گے اور وہاں سے بیت المقدس کے زیورات اور تابوت نکالیں گے۔ اس تابوت میں سکینہ (آرک آف دی کوویننٹ) ہوگا، بنی اسرائیل کا دسترخوان ہوگا، موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور (توریت کی) تختیاں ہونگی، سلیمان علیہ السلام کا ایک منبر ہوگا اور “من” کی دو بوریاں ہونگی جو بنی اسرائیل پر اترتا تھا (وہ من جو سلویٰ کے ساتھ اترتا تھا) اور یہ من دودھ سے بھی زیادہ سفید ہوگا۔”
نوٹ: اہم بات یہ ہے کہ آج بھی روم کے تہہ خانوں میں ایسے بہت سے نوادرات چھپائے گئے ہیں لیکن بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں پر انجیل کے اصلی نسخے رکھے گئے ہیں جو کہ اگر عیسائی دنیا کو پتہ چل جائیں تو عیسائیت خود اختتام پذیر ہوجائے)۔ لیکن اس حدیث کی رو سے معلوم پڑتا ہے کہ رومنوں نے یعنی مغربیوں نے کیا کیا کچھ چرا چرا کر وہاں جمع کررکھا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر آگے یہ طویل حدیث پڑھتے ہیں!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے دریافت کیا:
یارسول اللہ! یہ سب کچھ وہاں کیسے پہنچا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بنی اسرائیل نے سرکشی کی اور انبیاء کو قتل کیا، پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور فارس کے بادشاہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ بنی اسرائیل کے طرف جائے اور ان کو بخت نصر سے نجات دلائے۔ چنانچہ اسنے ان کو چھڑایا اور بیت المقدس میں واپس لاکر آباد کیا۔ اس طرح وہ بیت المقدس میں چالیس سال تک اس کی اطاعت میں زندگی گزارتے رہے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ وہی حرکت کرنے لگے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وان عدتم عدنا۔۔۔۔ اے بنی اسرائیل: اگر تم دوبارہ جرائم کروگے تو ہم بھی دوبارہ تم کو دردناک سزا دیں گے:۔ سو انہوں نے دوبارہ گناہ کئے تو اللہ تعالیٰ نےا ن پر رومی بادشاہ طیطس (ٹائیٹس) کو مسلط کردیا جس نے ان کو قیدی بنایا اور بیت المقدس کو (70 قبل مسیح میں) تباہ و برباد کرکے تابوت خزانے وغیرہ ساتھ لے گیا۔ اس طرح مسلمان وہی خزانے نکال لیں گے اور اس کو بیت المقدس میں واپس لے آئیں گے۔ اس کے بعد مسلمان کوچ کریں گے اور “قاطع” نامی شہر پہنچیں گے۔ یہ شہر اس سمندر کے کنارے ہے جس میں کشتیاں نہیں چلتی ہیں۔
کسی نے پوچھا:
یارسول اللہ! اس میں کشتیاں کیوں نہیں چلتی ہیں؟
آپ علیہ السلام نےفرمایا:
کیونکہ اس میں گہرائی نہیں ہے اور یہ جو تم سمندر میں موجیں دیکھتے ہو اللہ نے ان کو انسانوں کے لیئے نفع حاصل کرنے کا سبب بنایا ہے۔ سمندورں میں گہرائیاں اور موجیں ہوتی ہیں چنانچہ انہی گہرائیوں کیوجہ سے جہاز چلتے ہیں۔
نوٹ: تاجدارِ کائنات کی یہ حدیث شریف جو آخرالزمان کے واقعات سے متعلق ہے اور سراسر غیب کا ذکر ہے اس میں یہ بھی معلوم پڑتا ہے کہ سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو 1400 سال پہلے یہ سائنسی اصول معلوم تھے جو کہ آج اوشینالوجی جانتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یاد رہے آپ وہ صحابی ہیں جو کہ یہود کے ایک بہت بڑے عالم دین تھے)۔
اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق دیکر بھیجا ہے، توریت میں اس شہر کی تفصیل یہ ہے کہ اسکی لمبائی ہزار میل اور انجیل میں اس کا نام “فرع” یا “قرع” ہے اور اسکی لمبائی (انجیل کے مطابق) ہزار میل اور چوڑائی پانچسو میل ہے۔”
آپ علیہ السلام نے فرمایا:
اس کے تین سو ساٹھ دروازے ہیں، ہر دروازے سے ایک لاکھ جنگجو نکلیں گے، مسلمان وہاں چار تکبیریں لگائیں گے تو اسکی دیوار گرجائیگی۔ اسطرح مسلمان جو کچھ وہاں ہوگا سب غنیمت بنا لیں گے۔ پھر تم وہاں سات سال رہوگے، پھر تم وہاں سے بیت المقدس واپس آؤ گے تو تمہیں خبر ملے گی کہ اصفہان میں یہودیہ نامی جگہ میں دجال نکل آیا ہے، اسکی ایک آنکھ ایسی ہوگی جیسے اس پر خون جم گیا ہو (دوسری روایت میں اسکو پھلی کہا گیا ہے) اور دوسری اسطرح ہوگی جیسے گویا ہے ہی نہیں (جیسے ہاتھ پھیر کر پچکا دی گئی ہو) وہ ہوا میں ہی پرندوں کو (پکڑ کر) کھائے گا۔ اس کی جانب سے تین زوردار چیخیں ہونگی جس کو مغرب اور مشرق والے سب سنیں گے۔ (بائی دی وے موجودہ مغربی دانشور اور کانسپریسی تھیورسٹ اس کو بیلز یا ساؤنڈز یا ٹرائمف کہتے ہیں اور کئی نام نہاد ویڈیوز بھی یوٹیوب پر موجود ہیں جو اس کو اپنے تئیں 3 آسمانی صداؤں سے منسوب کرتے ہیں، جبکہ مسلم روایات کے مطابق یہ چیخیں دجال کی ہونگی اور اسی وقت ظہور میں آئینگی جب اللہ چاہے گا)۔۔ وہ (دجال) دم کٹے گدھے پر سوار ہوگا جس کے دونوں کانوں کے درمیان کا فاصلہ چالیس گز ہوگا۔ (ممکن ہے یہاں کسی سوپرسونک طیارے کا استعارہ دیا جارہا ہو یا ممکن ہے کوئی سپیس شٹل ٹائپ چیز ہو) اس کے دونوں کانوں کے نیچے ستر ہزار افراد آجائیں گے۔ سترہزار یہودی دجال کے پیچھے ہونگے جن کے جسموں پر تیجانی چادریں ہونگی (تیجانی بھی طیلسان کی طرح کی سبزی مائل چادروں کو کہا جاتا ہے)چنانچہ جعمہ کے دن صبح کی نماز کے وقت جب نماز کی اقامت ہوچکی ہوگی تو جیسے ہی مہدی متوجہ ہونگے تو عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو اپنے درمیان پائیں گے کہ وہ آسمان سے تشریف لائے ہیں۔ دو فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ دھرے وہ مشرقی مینار جو دمشق کی مسجد ہے پر نزول فرمائیں گے۔ ان کے جسم پر دو کپڑے ہونگے، ان کے پال اتنے چمکدار ہونگے کہ ایسا لگ رہا ہوگا کہ سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تک تو وہ واقعات ہیں جوکہ ضرور بالضرور ہونے ہی ہیں۔ اس کا ایک حصہ مزید دلچسپی کا باعث ہے اورچونکہ تحریر کچھ زیادہ لمبی ہوچکی ہے اسلیئے اس پر اختتام کرتےہیں کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
یارسول اللہ! اگر میں ان کے پاس جاؤں تو کیا ان سے گلے ملوں گا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
اے ابوہریرہ!ان کی یہ آمد پہلی آمد کی طرح نہیں ہوگی کہ جس میں وہ بہت نرم مزاج تھے بلکہ تم ان سے ہیبت کے عالم میں ملو گے جیسے موت کی ہیبت ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کو جنت میں درجات کی خوشخبری دیں گے۔ اب امیرالمومنین (مہدی) ان سے کہیں گے کہ آگے بڑھیئے اور لوگوں کو نماز پڑھائیے تو وہ فرمائیں گے کہ نماز کی اقامت آپ کے لیئے ہوئی ہے (سو آپ ہی نماز پڑھائیے) اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ وہ امت کامیاب ہوگی جس کے شروع میں میں ہوں اور آخر میں عیسیٰ ہیں۔