Post by zarbehaq on Jun 3, 2015 17:16:41 GMT
Makashfa Team presents. True untold Stories of the era of Sultan Salahudin Ayoubi (rta), A Mirror to see past and keep an eye on Future. This whole series has been taken from different books, specially from Altamsh’s history and Shadaad historians. Some western historian’s works are also presented in it. This is first series.
The aim of this series is to check that those enemies of the past still exists in this world with new names but the same goals.
The aim of this series is to check that those enemies of the past still exists in this world with new names but the same goals.
For Reading in Proper Inpage Format: Kindly visit (makashfa.wordpress.com/2015/06/03/stories-of-saladin-part-1/)
Notes are our additions.
Notes are our additions.
جب ذکوئی سلطان ایوبی کے خیمے میں گئی:
"تم پرندوں ے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اُس آدمی کے لیے ایک خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو"۔
یہ الفاظ اپریل گیارہ سو پچھتر سنہ میں صلاح الدین ایوبی نے اپنے چچازاد بھائی الصالح کے ایک امیر سیف الدین کو لکھے تھے۔ ان دونوں نے صلیبیوں کو درپردہ مدد اور زروجواہرات کا لالچ دیا اور صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کی ایک سازش کی تھی۔ صلیبی یہی چاہتے تھے۔ انہوں نے حملہ کیا۔ الصالح اور سیف الدین نے ان کی مدد کی، صلاح الدین ایوبی نے ان سب کو شکست دی۔ امیر سیف الدین اپنا مال و متاع چھوڑ کر بھاگا۔ اس کی ذاتی خیمہ گاہ سے رنگ برنگ پرندے، حسین اور جوان رقاصائیں اور گانے والیاں، ساز و سازندے اور شراب کے مٹکے برآمد ہوئے۔ صلاح الدین ایوبی نے پرندوں کو ،ناچنے گانے والیوں اور ان کے سازندوں کو رہا کردیا اور امیر سیف الدین کو اس مضمون کا خط لکھا:
"تم دونوں نے کفار کی پشت پناہی کرکے ان کے ہاتھوں میرا نام ونشان مٹانے کی ناپاک کوشش کی، مگر یہ نہ سوچا کہ تمہاری یہ سازش عالمِ اسلام کا بھی نام ونشان مٹاسکتی ہے۔ تم اگر مجھ سے حسد کرتے تھے تو مجھے قتل کروادیا ہوتا، تم مجھ پر دو قاتلانہ حملے کرا چکے ہو۔ دونوں ناکام رہے۔ اب ایک اور کوشش کرکے دیکھو۔ ہوسکتا ہے کامیاب ہوجاؤ، اگر تم مجھے یہ یقین دلا دو کہ میرا سر تن سے جدا ہوجائے تو اسلام اور زیادہ سربلند ہوگا تو ربِ کعبہ کی قسم، میں تمہاری تلوار سے اپنا سر کٹواؤں گا اور تمہارے قدموں میں رکھ دینے کی وصیت کروں گا۔ میں تمہیں صر یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ کوئی غیرمسلم مسلمان کا دوست نہیں ہوسکتا۔ تاریخ تمہارے سامنے ہے۔ اپنا ماضی دیکھو، شاہ فرینک اور ریمانڈ جیسے اسلام دشمن صلیبی تمہارے دوست صرف اسلیئے بنے کہ تم نے انہیں مسلمانوں کے خلاف میدان میں اترنے کی شہہ اور مدد دی تھی، اگر وہ کامیاب ہوجاتے تو اُن کا اگلا شکار تم ہوتے اور اسکے بعد اُن کا یہ خواب بھی پورا ہوجاتا کہ اسلام صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔
تم جنگجو قوم کے فرد ہو، فن سپہ گری تمہارا قومی پیشہ ہے ۔ ہر مسلمان اللہ کا سپاہی ہے مگر ایمان اور کردار بنیادی شرط ہے۔ تم پرندوں سے ہی دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اُس آدمی کے لیئے ایک خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ہو۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ تعاون کرو اور میرے ساتھ جہاد میں شریک ہوجاؤ ، اگر یہ نہ کرسکو تو میری مخالفت سے باز آجاؤ۔ میں تمہیں کوئی سزا نہیں دوں گا۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کرے ۔ آمین"۔(صلاح الدین ایوبی)
ایک یورپی مؤرخ لین پول لکھتا ہے۔۔۔۔۔۔"صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ جو مال غنیمت لگا اسکا کوئی حساب نہیں تھا۔ جنگی قیدی بھی بے انداز تھے۔ صلاح الدین ایوبی نے تمام تر مالِ غنیمت تین حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصہ جنگی قیدیوں میں تقسیم کرکے انہیں رہا کردیا۔ دوسرا حصہ اپنی سپاہ اور غریبوں میں تقسیم کیا، اور تیسرا حصہ مدرسہ نظام الملک کو دے دیا۔ اس نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ نہ خود کچھ رکھا نہ اپنے جرنیل کو کچھ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگی قیدی جن میں بہت سے مسلمان تھے اور باقی غیرمسلم ، رہا ہوکر صلاح الدین ایوبی کے کیمپ میں جمع ہوگئے اور اسکی اطاعت قبول کرکے اپنی خدمات اُس کی فوج کے لیئے پیش کردیں۔ ایوبی کی کشادہ ظرفی اور عظمت دور دور تک مشہور ہوگئی۔"
اس سے پہلے حسن بن صباح کے پراسرار فرقے، فدائی ، جنہیں یورپی مؤرخوں نے قاتلوں کا گروہ (حشیشین، جس پر مکاشفہ پر مزید تفصیلات تاریخ کے سیکشن میں موجود ہیں) سلطانِ معظم پر دوبارقاتلانہ حملے کرچکے تھے، لیکن خدائے ذوالجلال کو اپنے اس عظیم مرد مجاہد سے بہت کام لینا تھا۔ دونوں بار ایک معجزہ ہوا کہ اسلام کا یہ محافظ بال بال بچ گیا۔ اس پر تیسرا قاتلانہ حملہ اس وقت ہوا جب وہ اپنے مسلمان بھائیوں اور صلیبیوں کی سازش کی چٹان کو شمشیر سے ریزہ ریزہ کرچکا تھا۔ امیر سیف الدین میدان سے بھاگ گیا تھا، مگر وہ صلاح الدین کے خلاف حسد اور کینے سے باز نہ آیا۔ اس نے حسن بن صباح کے قاتل فرقے کی مدد حاصل کرلی۔ یہ فرقہ ایک مدت سے اسلام کی آستین میں سانپ کی طرح پل رہا تھا۔ اس کا تفصیلی تعارف بہت ہی طویل ہے۔ مختصر یہ کہ جس طرح زمین سورج سے الگ ہوکر گناہوں کا گہوارہ بن گئی ہے، اسی طرح حسن بن صباح نام کے ایک آدمی نے اسلام سے الگ ہوکر نبیوں اور پیغمبروں والی عظمت حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلاتا رہا اور ایسا گروہ بنالیا جو طلسماتی طریقوں سے لوگوں کو اپنا پیروکار بناتا تھا۔اس مقصد کے لیے اس گروہ نے نہایت حسین لڑکیاں، نشہ آور جڑی بوٹیاں، ہپناٹزم اور چرب زبانی جیسے طریقے اختیار کیئے۔ بہشت بنائی جس میں جاکر پتھر بھی موم ہوجاتے تھے۔ اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیئے قاتلوں کا ایک گروہ تیار کیا۔ قتل کے طریقے خفیہ اور پراسرار ہوتے تھے۔ اس فرقے کے افراد اسقدر چالاک، ذہین اور نڈر تھے کہ بھیس اور زبان بدل کر بڑے بڑے جرنیلوں کے باڈی گارڈ تک بن جاتے تھے اور جب کوئی پراسرار طریقے سے قتل ہوجاتا تھا تو قاتلوں کا سراغ ہی نہیں ملتا تھا۔ کچھ عرصے بعد یہ فرقہ "قاتلوں کا گروہ" کے نام سے مشہور ہوگیا۔ یہ لوگ سیاسی قتل کے ماہر تھے۔زہر بھی استعمال کرتے تھے جو حسین لڑکیوں کے ہاتھوں شراب میں دیا جاتا تھا۔ بہت مدت تک یہ فرقہ اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ اسکے پیروکار "فدائی" کہلاتے تھے۔
سلطان ایوبی کو نہ حسین لڑکیوں سے دھوکا دیا جاسکتا تھا اور نہ شراب سے۔ وہ ان دونوں سے نفرت کرتا تھا۔ اسے قتل کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا کہ اس پر قاتلانہ حملہ کیا جائے۔ اسکے محافظوں کی موجودگی میں اس پر حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دوحملے ناکام ہوچکے تھے ۔ اب صلاح الدین ایوبی کو یہ توقع تھی کہ اسکا چچازاد بھائی الصالح اور امیر سیف الدین شکست کھا کر توبہ کرچکے ہوں گے، انہوں نے انتقام کی ایک اور خفیہ کوشش کی۔ سلطان نےا س فتح کا جشن منانے کی بجائے حملے جاری رکھے اور تین قصبوں کو قبضے میں لے لیا۔ ان میں غازہ کا مشہور قصبہ بھی تھا۔ اسی قصبے کے گردو نواح میں ایک روز صلاح الدین ایوبی ، امیر جاواالاسدی کے خیمے میں دوپہر کے وقت غنودگی کے عالم میں سستا رہا تھا۔ اس نے اپنی وہ پگڑی نہیں اتاری تھی جو میدان جنگ میں اس کے سر کو صحرا کے سورج اور دشمن کی تلوار سے محفوظ رکھتی تھی۔ خیمے کے باہر اس کے محافظوں کا دستہ موجود اور چوکس تھا۔
باڈی گارڈز کے اس دستے کا کمانڈر ذرا سی دیر کے لیئے وہاں سے چلاگیا۔ ایک محافظ نے سلطان ایوبی کے خیمے کے گرے ہوئے پردوں میں سے جھانکا۔ اسلام کی عظمت کے پاسبان کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا۔ اس کے محافظ نے باڈی گارڈ کی طرف دیکھا ۔ محافظ نے اپنی آنکھیں بند کرکے کھولیں۔ تین چار محافظ اٹھے اور دوسروں کو باتوں میں لگا لیا۔محافظ خیمے کے اندر چلا گیا۔ کمر بند سے خنجر نکالا۔ دبے پاؤں چلا اور پھر چیتے کی طرح سوئے ہوئے سلطان پر جست لگائی۔ خنجر والا ہاتھ اوپر اٹھا۔عین اس وقت صلاح الدین نے کروٹ بدل لی۔ یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ محافظ خنجر کہاں مارنا چاہتا تھا۔ دل میں یا سینے میں ۔ مگر ہوا یوں کہ خنجر صلاح الدین ایوبی کی پگڑی کے بالائی حصے میں اتر گیا اور سرسے بال برابر دوررہا۔پگڑی سرسے اتر گئی۔
صلاح الدین ایوبی بجلی کی سی تیزی سے اٹھا۔ اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہ سب کیا ہے۔ اس پر اس سے پہلے ایسے دوحملے ہوچکے تھے۔ اس نے اس پر بھی حیرت کا اظہار نہ کیا کہ حملہ آور اسکے اپنے باڈی گارڈز کے لباس میں تھا، جسے اس نے خود اپنے محافظ کے طور منتخب کیا تھا۔ اس نے ایک سانس جتنا عرصہ بھی ضائع نہ کیا۔ حملہ آور اسکی پگڑی سے خنجر کھینچ رہا تھا۔ ایوبی سرسے ننگا تھا۔ اس نے حملہ آور کی ٹھوڑی پر پوری طاقت سے گھونسہ مارا۔ ہڈی ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ حملہ آور کا جبڑا ٹوٹ گیاتھا۔ وہ پیچھے کو گرا اور اسکے منہ سے ہیبت ناک چیخ نکلی ۔ اسکا خنجر مجاہدِ اسلام کی پگڑی میں رہ گیا تھا۔ ایوبی نے اپنا خنجر نکال لیا۔ اتنے میں دو محافظ دوڑتے ہوئے اندر آئے ۔ ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ صلاح الدین نے انہیں کہا کہ اسے زندہ پکڑ لو، مگر یہ دونوں ایوبی پر ٹوٹ پڑے۔ صلاح الدین ایوبی نے ایک خنجر سے دوتلواروں کا مقابلہ کیا۔ یہ مقابلہ ایک دومنٹ کا تھا، کیونکہ تمام محافظ اندر آگئےتھے۔ ایوبی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اسکے محافظ دوحصوں میں منقسم ہوکر ایک دوسرے کو لہولہان کررہے تھے۔ اسے چونکہ معلوم نہ تھا کہ ان میں سے اس کا دشمن کون اور دوست کون ہے، وہ اس معرکے میں شریک نہ ہوسکا۔
کچھ دیر بعد جب باڈی گارڈ میں سے چند ایک مارے گئے ، کچھ بھاگ گئے اور بعض زخمی ہوکر بے حال ہوگئے تو انکشاف ہوا کہ اس دستے میں جو صلاح الدین ایوبی کی حفاظت پر معمور تھا، سات "فدائی" تھے جو صلاح الدین کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نےا س کام کے لیئے صرف ایک "فدائی" خیمے میں بھیجا تھا۔ اندر صورتحال بدل گئی، چنانچہ باقی بھی اندر چلے گئے۔ اصل محافظ بھی اندرگئے، وہ صورتحال سمجھ گئے اور سلطان ایوبی بچ گیا۔ اس نے اپنے پہلے حملہ آور کی شہہ رگ پر تلوار کی نوک رکھ کر پوچھا کہ وہ کون ہے، اور اسے کس نے بھیجا ہے؟۔ سچ بولنے کے بدلے صلاح الدین نے اسے جان بخشی کا وعدہ دیا۔ اس نے بتا دیا کہ وہ "فدائی " ہے اور اسے کیمشتکن (جسے بعض مؤرخوں نے کمشگین بھی لکھا ہے) نے اس کام کے لیئے بھیجا تھا۔ کمشتکن الصالح کے ایک قلعے کا گورنر تھا۔
اصل کہانی سنانے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان واقعات کے پہلے کے دور کو دیکھا جائے۔ ایوبی کے نام، اسکی عظمت اور تاریخ اسلام میں اسکے مقام اور کارناموں سے کون واقف نہیں؟ ملت اسلامیہ تو اسے بھول ہی نہیں سکتی ، مسیحی دنیا بھی اسے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ لہٰذا یہ ضروری معلوم نہیں ہوتا کہ ایوبی کا شجرہ نسب تفصیل سے بیان کیا جائے ، ہم جو کہانی سنانے لگے ہیں وہ اس نوعیت کی ہے جس کی وسعت کے لیئے تاریخ کا دامن تنگ ہوتا ہے۔ یہ تفصیلات وقائع نگاروں ، قلم کاروں کی ریکارڈ کی ہوئی ہوتی ہیں۔ کچھ سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک پہنچتی ہیں۔ تاریخ کے دامن میں سلطان محترم کے صرف کارنامے محفوظ کیئے گئے ہیں۔ ان سازشوں کا ذکر بہت کم آیا ہے جو اپنوں نے اس کے خلاف کی اور اسکی بڑھتی ہوئی شہرت اور عظمت کو داغدار کرنے کے لیئے اسے ایسی لڑکیوں کے جال میں پھانسنے کی بار بار کوشش کی گئی جن کے حسن میں طلسماتی اثرتھا۔
تاریخ اسلام کا یہ حقیقی ڈرامہ ۲۳ مارچ ۱۱۶۹ ء کے روز شروع ہوتا ہے۔ جب صلاح الدین ایوبی کو مصر کا وائسرائے اور فوج کا کمانڈر انچیف بنایا گیا۔ اسے اتنا بڑا رتبہ ایک تو اسلیئے دیا گیا کہ وہ حکمران خاندان کا نونہال تھا اور دوسرے اسلیئے کہ اوائل عمر میں ہی وہ فنِ حرب وضرب کا ماہر ہوگیا تھا۔ سپاہ گری ورثے میں پائی تھی۔ اس کے ذہن میں حکمرانی کے معنی بادشاہی نہیں، بلکہ اسلام کی پاسبانی اور قوم کی عظمت وفلاح و بہبود تھی۔ اسکا جب شعور بیدا ر ہوا تو پہلی خلس یہ محسوس کی کہ مسلمان حکمرانوں میں نہ صرف اتحاد نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کی مدد سے بھی گریز کرتے تھے۔ وہ عیاش ہوگئے تھے۔ شراب اور عورت نے جہاں ان کی زندگی رنگین بنارکھی تھی، وہاں عالمِ اسلام اور خدا کے اس عظیم مذہب کا مستقبل تاریک ہوگیا تھا۔ ان امیروں، اُن کے وزیروں اور مشیروں کے حرم غیر مسلم لڑکیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ زیادہ ترلڑکیا یہودی اور عیسائی تھیں، جنہیں خاص تربیت دے کر ان حرموں میں داخل کیا گیا تھا۔ غیرمعمولی حسن اور اداکاری میں کما ل رکھنے والی یہ لڑکیاں مسلمان حکمرانوں اور سربراہوں کے کردار اور قومی جذبے کو دیمک کی طرح کھارہی تھیں۔
نوٹ: ماضی کو ذہن میں رکھ کر موجود حالات پر توجہ کریں اور دیکھیں کہ تاریخ کیسے اپنے اپنے کو دہراتی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ تھا کہ صلیبی جن میں فرینک (فرنگی) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، مسلمانوں کی سلطنتوں کے ٹکڑے ہڑپ کرتے چلے جارہے تھے اور بعض مسلم حکمران شاہ فرینک کو سالانہ ٹیکس یا جزیہ ادا کررہے تھے، جس کی حیثیت غنڈہ ٹیکس کی سی تھی۔ صلیبی اپنی جنکی قوت کے رعب سے اور چھوٹے موٹے حملوں سے حکمرانوں کو ڈراتے رہتے ، کچھ علاقے پر قبضہ کرلیتے ، تاوان اور ٹیکس وصول کرتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آہستہ آہستہ دنیائے اسلام کو ہڑپ کرلیا جائے ۔ مسلمان حکمران اپنی رعایا کا خون چوس کر ٹیکس دیتے رہتے تھے ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ انہیں عیش و عشرت میں پریشان نہ کیا جائے۔
نوٹ: فرینک اس زمانے میں تھے، اب ان کی جدید نسل نے تمام دنیا کو عالمی بینک کے نام سے ہڑپ کرنے کا پروگرام بنایا ہے، جس میں موجودہ دور کے حکمران ویسے ہی کام کررہے ہیں جیسے کہ سلطان ایوبی کے دور میں تھے۔ آپ کو لمحہ لمحہ لفظ بہ لفظ اس داستان کو جو کہ تلخ حقیقت ہے پڑھنا پڑے گا اور جدید دور میں یہ تاریخ کیسے دہرائی جارہی ہے اور کس مقام پر کھڑی ہے وہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہیئے تاکہ دیکھ سکیں کہ ہماری بات میں کس حد تک سچائی ہے۔
فرقہ پرستی کے بیج بھی بو دیئے گئے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ خطرناک فرقہ حسن بن صباح کا تھا۔ جو صلاح الدین ایوبی کی جوانی سے ایک صدی پہلے معرض وجود میں آیاتھا۔ یہ مفاد پرستوں کا فرقہ تھا، بے حد خطرناک اور پراسرار۔ یہ لوگ اپنے آپ کو"فدائی " کہتے تھے (نوٹ؛ جیسے آجکل طالبان یا داعش) جو بعد میں حشیشین کے نام سے مشہور ہوئے۔کیونکہ وہ حشیش نام کی ایک نشہ آور شے سے دوسرے کو اپنے جال میں پھانستے تھے۔
صلاح الدین نے مدرسہ نظام الملک میں تعلیم حاصل کی۔ یاد رہے کہ نظام الملک دنیائے اسلام کی ایک سلطنت کے وزیر تھے۔ یہ مدرسہ انہوں نے قائم کیا تھا۔ جس میں اسلامی تعلیم دی جاتی اور بچوں کو اسلامی نظریات اور تاریخ سے بہرہ ور کیا جاتا تھا۔ ایک مؤرخ ابن الاطہر کے مطابق نظام الملک ، حسن بن صباح کے "فدائیوں" کا پہلا شکار ہوئے تھے، کیونکہ وہ رومیوں کی توسیع پسندی کی راہ میں چٹان بنے ہوئے تھے۔ رومیوں نے ۱۰۹۱ء میں انہیں "فدائیوں" کے ہاتھوں قتل کرا دیا ۔ ان کا مدرسہ قائم رہا۔ سلطان محترم نے وہیں تعلیم حاصل کی۔ اسی عمر میں اس نے سپاہ گری کی تربیت اپنے بزرگوں سے لی۔ نورالدین زنگی جیسے مجاہدِ اسلام نے اسے جنگی چالیں سکھائیں، ملک کے انتظامات کے سبق دیئے اور ڈپلومیسی میں مہارت دی۔ اس تعلیم وتربیت نے اس کے اندر وہ جذبہ پیدا کردیا جس نے آگے چل کر اسے صلیبیوں کے لیئے بجلی بنا دیا۔ اوائل جوانی میں ہی اس نے وہ ذہانت اور اہلیت حاصل کرلی تھی جو ایک سالارِ اعظم کے لیئے ضروری ہوتی ہے۔
صلاح الدین نے فن حرب وضرب میں جاسوسی (انٹیلی جنس) کمانڈو اور گوریلا آپریشن کو خصوصی اہمیت دی۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ صلیبی جاسوسی کے میدان میں آگے نکل گئے ہیں، اور وہ مسلمانوں کے نظریات پر نہایت کارگر حملے کررہے ہیں۔ ایوبی نظریات کے محاذ پر لڑنا چاہتا تھا ، جس میں تلواراستعمال نہیں ہوتی ۔ اس کہانی میں آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ اسکی تلوار کا وار تو گہرا ہوتا ہی تھا ، اسکی محبت کا وار اس سے کہیں زیادہ مار کرتا تھا۔ اس کے لیئے تحمل اور بردباری کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس نے اوائل عمر میں ہی اپنے آپ میں پیدا کرلی تھی۔
اُسے جب مصر کا وائسرائے اور کمانڈرانچیف بنا کر مصر بھیجا گیا تو ان سینئر افسروں نے ہنگامہ برپا کردیا، جو اس عہدے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ ان کی نگاہ میں ایوبی ابھی طفلِ مکتب تھا مگر اس طفلِ مکتب نے جب اُن کا سامنا کیا، اس کی باتیں سنیں تو ان کا احتجاج سرد پڑگیا۔ مؤرخ لین پول کے مطابق ایوبی ڈسپلن کا بڑا ہی سخت ثابت ہوا، اس نے تفریح ، عیاشی اور آرام کو اپنے لیئے اور اپنی افواج کے لیئے حرام قرار دے دیا۔ اس نے اپنی دماغی اور جسمانی قوتوں کو صرف اس مقصد پر مرکوز کردیا کہ سلطنت اسلامیہ کو مستحکم کرنا ہے، اور صلیبیوں کو اس سرزمین سے نکالنا ہے۔ فلسطین پر وہ ہرقمیت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے یہی مقاصد اپنی فوج کو دیئے۔ مصر کا وائسرائے بن کر اس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔"خدا نے مجھے مصر کی سرزمین دی ہے۔ اسکی ذاتِ باری مجھے فلسطین بھی ضرور عطاکرے گی"۔۔۔۔۔مگر مصر پہنچ کر اس پر انکشاف ہوا کہ اسکا مقابلہ صرف صلیبیوں سے نہیں بلکہ اپنے مسلمان بھائیوں نے اس کی راہ میں بڑے بڑے حسین جال بچھا رکھے ہیں جو صلیبیوں کے عزائم اور جنگی قوت سے زیادہ خطرناک ہیں۔
مصر میں صلاح الدین ایوبی کا استقبال جن زعما نے کیا ان میں ناجی نام کا ایک سالار خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ ایوبی نے سب کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور زبان پر پیارومحبت کی چاشنی تھی۔ بعض پرانے افسروں نے اسے ایسی نگاہوں سے دیکھا جن میں طنز تھی اور تمسخر بھی تھا۔ وہ ایوبی کے صرف نام سے واقف تھے یا اسکے متعلق یہ جانتے تھے کہ وہ حکمران خاندان کا فرد اور اپنے چچا کا جانشین ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ سلطان نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ اسکا کیا رشتہ ہے۔ ان کی نگاہوں میں ایوبی کی اہمیت بس اسکے خاندان کی بدولت تھی یا اسوجہ سے انہوں نے اسے اہمیت دی کہ وہ مصر کا فوجی وائسرائے بن کے آیا تھا۔ اسکے سوا انہوں نے ایوبی کو کوئی وقعت نہ دی۔ ای بوڑھے افسر نے اپنے ساتھ کھڑے افسر کے کام میں کہا۔
"بچہ ہے ۔ اسے ہم پال لیں گے"
مؤرخ اور اسوقت کے وقائع نگار یہ نہیں بتا سکتے کہ ایوبی نے ان لوگوں کی نظریں بھانپ لی یا نہیں، وہ استقبال کرنے والے اس ہجوم میں بچہ لگ رہا تھا۔ البتہ جب وہ ناجی کے سامنے مصافحہ کے لیئے رکا تو ایوبی کے چہرے پر تبدیلی سی آگئی تھی۔ وہ ناجی سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا لیکن ناجی جو اسکے باپ کی عمر کا تھا ۔ سب سے پہلے درباری خوشامدیوں کی طرح سرجھکایا۔ پھر ایوبی سے بغل گیر ہوگیا۔ اس نے ایوبی کی پیشانی چوم کر کہا۔۔۔۔۔۔"میرے خون کا آخری قطرہ بھی تمہاری جان کی حفاظت کے لیئے بہےگا۔ تم میرے پاس زنگی اور شیرکوہ کی امانت ہو"۔
"میری جان عظمت ِ اسلام سے زیادہ قیمتی نہیں"۔ ایوبی نے ناجی کا ہاتھ چوم کر کہا۔۔
"محترم اپنے خون کا ایک ایک قطرہ سنبھال کررکھیئے ۔ صلیبی سیاہ گھٹاؤں کی مانند چھارہے ہیں۔"
ناجی جواب میں صرف مسکرایا جیسے صلاح الدین نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔
ایوبی اس تجربہ کار مسکراہٹ کو غالباً نہیں سمجھ سکا۔ ناجی فاطمی خلافت کا پروردہ سالار تھا۔ وہ مصر میں باڈی گارڈز کا کمانڈر تھا۔ جس کی نفری پچاس ہزار تھی اور ساری کی ساری نفری سوڈانی تھی۔ یہ فوج اُس دور کے جدید ہتھیاروں سے مسلح تھی اور یہ فوج ناجی کا ہتھیار بن گئی تھی، جس کے زور پر وہ بے تاج بادشاہ بنا بیٹھا تھا۔ وہ سازشوں اور مفادپرستی کا دور تھا۔ اسلامی دنیا کی مرکزیت ختم ہوچکی تھی۔ صلیبیوں کی بھی نہایت دل کش تخریب کاریاں شروع ہوچکی تھیں۔ زرپرستی اور تعیش کا دور دورہ تھا۔ جس کے پاس ذرا سی بھی طاقت تھی ، اسے وہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیئے اور دولت سمیٹنے کے لیئے استعمال کرتا تھا۔ (نوٹ؛ کیا آج یہ سب نہیں ہورہا؟)۔
سوڈانی باڈی گارڈز فوج کا کمانڈر مصر میں حکمرانوں اور دیگر سربراہوں کے لیئے دہشت بنا ہوا تھا۔ خدا نے اسے سازشی دماغ دیا تھا۔ اسے اُس دور کا بادشاہ ساز کہاجاتا تھا۔ بنانے اور بگاڑنے کی خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ اس نے ایوبی کو دیکھا توا سکے چہرے پر بالکل اسی طرح مسکراہٹ آگئی جس طرح کمزور سی بھیڑ کو دیکھ کر بھیڑیئے کے دانت نکل آتے ہیں۔ ایوبی اس زہر خند کو نہیں سمجھ سکا۔ اس کے لیئے سب سے زیادہ اہم آدمی ناجی ہی تھا کیونکہ وہ پچاس ہزار کا کمانڈر تھا اور ایوبی کو اس فوج کی ضرورت تھی۔
ایوبی سے کہا گیا کہ حضور لمبی مسافت سے تشریف لائے ہیں، پہلے آرام کرلیں تو اس نے کہا۔۔۔۔۔"میرے سر پر جو دستار رکھ دی گئی ہے، میں اسکا اہل نہ تھا۔ اس دستار نے میرا آرام اور میری نیند ختم کردی ہے۔ کیا آپ حضرات مجھے اُس چھت کے نیچے نہیں لے چلیں گے جہاں میرے فرائض میرا انتظار کررہے ہیں؟"
"کیا حضور کام سے پہلے طعام پسند نہیں فرمائیں گے؟"۔۔۔ اسکے نائب نے پوچھا۔
ایوبی نے کچھ سوچا اور انکے ساتھ چل پڑا۔ قوی ہیکل محافظ اس عمارت کے سامنے دورویہ کھڑے تھے جس میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ ایوبی نے ان گارڈز کے قد بت اور ہتھیار دیکھے تو اسکے چہرے پر رونق آگئی مگر یہ رونق دروازے میں قدم رکھتے ہی غائب ہوگئی، وہاں چار نوجوان لڑکیا جن کا حسن لاجواب تھا، ہاتھوں میں پھولوں کی پتیوں سے بھری ہوئی خوشنما ٹوکریاں اٹھائے کھڑی تھیں۔ انہوں نے ایوبی کے راستے میں پتیاں بکھیرنی شروع کردیں اوراسکے ساتھ دف کی تال پر طاؤس ورباب اور شہنائیوں کا مسحورکن نغمہ ابھرا۔ ایوبی نے راستے میں پھولوں کی پتیاں دیکھ کر قدم پیچھے کرلیئے۔ ناجی اور اسکا نائب اسکے دائیں بائیں تھے، وہ دونوں جھک گئے اور اسے آگے چلنے کی دعوت دی۔ یہ وہ انداز تھا جسے مغل بادشاہوں نے ہندوستان میں رائج کیا تھا۔
"صلاح الدین ایوبی پھولوں کی پتیاں مسلنے نہیں آیا"۔ ایوبی نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جو اُن لوگوں ے پہلے کم ہی کبھی کسی کے ہونٹوں پر دیکھی تھی۔
"ہم حضور کے راستے میں آسمان سے تارے بھی نوچ کر بچھا سکتے ہیں"۔ ناجی نے کہا۔
"اگر میری راہ میں کچھ بچھانا ہی چاہتے ہو تو وہ ایک چیز ہے جو میرے دل کو بھاتی ہے"۔ ایوبی نے کہا۔
"آپ حکم دیں "۔ نائب نے کہا۔ "وہ کون سی چیز ہے جو حضور کے دل کو بھاتی ہے"۔
"صلیبیوں کی لاشیں "۔ ایوبی نے مسکرا کر کہا مگر فوراً ہی اسکی مسکراہٹ غائب ہوگئی ۔ اسکی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔ اس نے دھیمی آواز میں جس میں قہر وعتاب چھپا ہواتھا، کہا،،،،،،،"مسلمانوں کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے ۔ جانتے نہیں ہو صلیبی اسلامی سلطنت کو چوہوں کی طرح کھارہے ہیں؟ اور جانے ہو وہ کیوں کامیاب ہورہے ہیں؟ صرف اسلیئے کہ ہم نے پھولوں کہ پتیوں پر چلنا شروع کردیا ہے۔ ہم نے اپنی بچیوں کو ننگا کرکے ان کی عصمتیں روند ڈالی ہیں۔ میری نظریں فلسطین پر لگی ہوئی ہیں، تم میری راہ میں پھول بچھا کر مصر سے بھی اسلام کا پرچم اتروا دینا چاہتے ہو؟" ۔۔۔۔۔اس نے سب کو ایک نظر دیکھا اور دبدبے سے کہا۔۔۔۔۔"اٹھا لو یہ پھول میرے راستے سے، میں نے ان پر قدم رکھا تو میری روح کانٹوں سے چھلنی ہوجائے گی۔ ہٹا دو لڑکیوں کو میرے راستے سے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میری تلوار انکے اتنے دلکش سنہرے بالوں میں الجھ کر بیکار ہوجائے"۔
"حضور کی جاہ و حشمت۔۔۔۔۔۔۔"
"مجھے حضور نہ کہو" ۔ ایوبی نے بولنے والے کو یوں ٹوک دیا جیسے تلوار سے کسی کافر کی گردن کاٹ دی ہو۔ اسنے کہا۔ "حضور وہ تھے جن کا تم کلمہ پڑھتے ہو اور جن کا میں غلامِ بے دام ہوں۔ میری جان فدا ہو اُس حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کے مقدس پیغام کو میں نے سینے پر کندہ کررکھا ہے۔ میں یہی پیغام لے کر مصر آیا ہوں۔ صلیبی مجھ سے یہ پیغام چھین کر بحیرہ روم میں ڈبو دینا چاہتے ہیں۔شراب میں غرق کردینا چاہتے ہیں ۔ میں بادشاہ بن کر نہیں آیا۔"
لڑکیاں کسی کے اشارے پر پھولوں کی پتیاں سمیٹ کر وہاں سے ہٹ گئی تھیں۔ ایوبی تیزی سے دروازے کے اندر چلا گیا۔ ایک وسیع کمرہ تھا۔ اس میں ایک لمبی میز رکھی ہوئی تھی جس پر رنگارنگ پھول بکھرے ہوئے تھے اور ان کے درمیان روسٹ کیئے ہوئے بکروں کے بڑے بڑے ٹکڑے ، سالم مرغ اور جانے کیسے کیسے کھانے سجے ہوئے تھے۔ ایوبی رُک گیا، اور اپنے نائب سے پوچھا۔۔۔۔۔"کیا مصر کا ہر ایک باشندہ اسی قسم کا کھانا کھاتا ہے؟"
"نہیں حضور!" نائب نے جواب دیا۔ ۔۔۔۔۔ "غریب لوگ تو ایسے کھانے کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔"
"تم سب کس قوم کے فرد ہو؟" ایوبی نے پوچھا۔۔۔۔۔۔"کیا ان لوگوں کی قوم الگ ہے جو ایسے کھانوں کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے؟" کسی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اسنے کہا۔۔۔۔۔۔"اس جگہ جس قدر ملازم ہیں اور یہاں جتنے سپاہی ڈیوٹی پر ہیں ان سب کو اندر بلاؤ۔ یہ کھانا انہیں کھلادو"۔۔۔۔۔اس نے لپک کر ایک روٹی اٹھائی ۔ اس پر دو تین بوٹیاں رکھیں اور کھڑے کھڑے کھانے لگا۔ نہایت تیزی سے پوری روٹی کھا کر پانی پیا اور محافظوں کے کمانڈر ناجی کو ساتھ لے کر اس کمرے میں چلا گیا جو وائسرائے کا دفتر تھا۔
دو گھنٹے بعد ناجی باہر نکلا۔ دوڑ کر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا۔ ایڑ لگائی اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
رات ناجی کے خاص کمرے میں اسکے دو کمانڈر جو اسکے معتمد اور ہمزارتھے، اسکے پاس بیٹھے شراب پی رہے تھے۔ ناجی نے کہا۔۔۔۔۔"جوانی کا جوش ہے۔ تھوڑے دنوں میں ٹھنڈا کردوں گا۔ کم بخت جو بھی بات کرتا ہے، کہتا ہے ۔ رب کعبہ کی قسم صلیبیوں کو سلطنت اسلامیہ سے باہر نکال کر دم لوں گا"۔
"صلاح الدین ایوبی "۔ ایک کمانڈر نے طنزیہ انداز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔"اتنا بھی نہیں جانتا کہ سلطنت اسلامیہ کا دم نکل چکا ہے ۔ اب سوڈانی حکومت کریں گے۔"
"کیا آپ نے اسے بتایا نہیں کہ یہ پچاس ہزار کا لشکر سوڈانی ہے؟" دوسرے کمانڈر نے ناجی سے پوچھا۔۔۔۔"اور یہ لشکر جسے وہ اپنی فوج سمجھتا ہے ، صلیبیوں کے خلاف نہیں لڑے گا؟"
"تمہارا دماغ ٹھکانے ہے ادروش؟" ۔۔۔۔ناجی نے کہا۔۔۔۔"میں اُسے یہ یقین دلا آیا ہوں کہ یہ پچاس ہزار سوڈانی شیر اسکے اشارے پر صلیبیوں کے پرخچے اڑا دیں گے ۔ لیکن۔۔۔۔" ناجی چپ ہوکر سوچ میں پڑگیا۔
"لیکن کیا؟"
"اس نے مجھے حکم دیا کہ مصر کے باشندوں کی ایک فوج تیار کرو"۔ ناجی نے کہا۔۔۔۔۔"اس نے کہا ہے کہ ایک ہی ملک کی فوج مناسب نہیں ہوتی ۔ وہ مصر کے لوگوں کو بھرتی کرکے ہماری فوج میں شامل کرنا چاہتا ہے"۔
"تو آپ نے کیا جواب دیا؟"
میں نے کہا کہ آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی۔۔۔۔ ناجی نے جواب دیا۔ ۔۔۔۔"مگر میں ایسے حکم کی تعمیل نہیں کروں گا"۔
"مزاج کا کیسا ہے؟" ادروش نے پوچھا۔
"ضد کا پکا معلوم ہوتا ہے"۔ ناجی نے جواب دیا۔
"آپ کی دانش اور تجربے کے سامنے تو وہ کچھ بھی نہیں لگتا" دوسرے کمانڈر نے کہا۔ "نیا نیا امیرِ مصر بن کے آیا ہے ، کچھ روز یہ نشہ طاری رہے گا"۔
"میں یہ نشہ اترنے نہیں دوں گا"۔ ناجی نے کہا۔ "اسے اسی نشے میں بدمست کرکے ماروں گا"۔
بہت دیر تک یہ تینوں صلاح الدین ایوبی کے خلاف باتیں کرتے رہے اور اس مسئلے پر غور کرتے رہے کہ اگر صلاح الدین نے ناجی کی بے تاج بادشاہی کے لیئے خطرہ پیدا کردیا تو وہ کیا کاروائی کریں گے۔ ادھر ایوبی اپنے نائبین کو سامنے بٹھائے ، یہ ذہن نشین کروا رہا تھا کہ وہ حکومت کرنے نہیں آیا اور نہ کسی کو حکومت کرنے دے گا۔ اس نے کہا کہ اسے جنگی طاقت کی ضرورت ہے اور اس نے یہ بھی کہا کہ اسے یہاں کا فوجی ڈھانچہ بالکل پسند نہیں۔ پچاس ہزار باڈی گارڈز سوڈانی ہیں۔ ہمیں ہر خطے کے باشندوں کو یہ حق دینا ہے کہ وہ ہماری فوج میں آئیں۔ اپنے جوہر دکھائیں اور مال غنیمت میں سے اپنا حصہ وصول کریں۔ یہاں کے عوام کا معیار زندگی اسی طرح بلند ہوسکتا ہے۔ ایوبی نے انہیں بتایا۔۔۔۔"میں نے ناجی سے کہہ دیا ہے کہ وہ عام بھرتی شروع کردے"۔
"کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کے حکم کی تعمیل کرے گا؟" ایک ناظم نے اس سے پوچھا۔
"کیا وہ حکم کی تعمیل سے گریز کرے گا؟"
"وہ گریز کرسکتا ہے"۔ ناظم نے جواب دیا۔ "فوجی امور اسی کے سپرد ہیں، وہ کسی سے حکم لیا نہیں کرتا، اپنی منوایا کرتا ہے"۔
صلاح الدین ایوبی خاموش رہا جیسے اس پر کچھ اثر ہی نہ ہوا ہو۔ اس نے سب کو رخصت کردیا اور صرف علی بن سفیان کو اپنے ساتھ رکھا۔ علی بن سفیان جاسوسی اور جوابی جاسوسی کا ماہر تھا۔ اسے ایوبی بغداد سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ وہ اُدھیڑ عمر آدمی تھا۔ اداکاری، چرب زبانی، اور بھیس بدلنے میں مہارت رکھتا تھا۔ جنگوں میں اس نے جاسوسی کی بھی تھی اور جاسوسوں کو پکڑوایا بھی تھا۔ اسکا اپنا گروہ تھا جو آسمان سے تارے بھی توڑ لاتا تھا۔۔۔۔ایوبی کو جاسوسی کی اہمیت سے واقفیت تھی۔ فنی مہارت کے علاوہ علی میں وہی جذبہ تھا جو سلطان ایوبی میں تھا۔
"تم نے سنا علی!" صلاح الدین ایوبی نے کہا۔ "یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ناجی کسی سے حکم لیا نہیں کرتا، اپنی منوایا کرتا ہے"۔
"ہاں "۔ علی نے جواب دیا۔ "میں نے سن لیا ہے، اگر میں چہرے پہچاننے میں غلطی نہیں کرتا تو میری رائے میں باڈی گارڈز کا یہ کمانڈر جس کا نام ناجی ہے ، ناپاک ذہنیت کا انسان ہے۔ اس کے متعلق میں پہلے سے بھی کچھ جانتا ہوں۔یہ فوج جو ہمارے خزانے سے تنخواہ لیتی ہے ، دراصل ناجی کی ذاتی فوج ہے۔ اس نے حکومتی حلقوں میں ایسی ایسی سازشیں کی ہیں ، جنہوں نے انتظامی ڈھانچے کو بے حد کمزور کردیا ہے۔ آپ کا یہ فیصلہ بالکل بجا ہے کہ فوج میں یہاں کے ہرخطے کے سپاہی ہونے چاہیئیں۔ میں آپ کو تفصیلی معلومات فراہم کروں گا۔ مجھے شک ہے کہ سوڈانی فوج ناجی کی وفادار ہے، ہماری نہیں۔ آپ کو اس فوج کی تربیت اور تنظیم بدلنی پڑے گی یا ناجی کو سبکدوش کرنا پڑے گا"۔
"میں اپنی صفوں میں ہی اپنے دشمن پیدا نہیں کرنا چاہتا"۔ ایوبی نے کہا۔۔۔۔"ناجی گھر کا بھیدی ہے۔ اسے سبکدوش کرکے اپنا دشمن بنالینا دانشمندی نہیں ۔ ہماری تلوار غیروں کے لیئے ہے، اپنوں کا خون بہانے کے لیئے نہیں۔ میں ناجی کی ذہنیت کو پیار اور محبت سے بدل سکتا ہوں۔ تم اس فوج کی ذہنیت معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ مجھے صحیح اطلاع دو کہ فوج کہاں تک ہماری وفادار ہے۔"
مگر ناجی اتنا کچا آدمی نہیں تھا ۔ اسکی ذہنیت پیارومحبت کے بکھیڑوں سے آزاد تھی۔ اُسے اگر پیار تھا تو اپنے اقتدار اور شیطانیت سے تھا۔ اس لحاظ سے وہ پتھر تھا مگر جسے اپنے جال میں پھانسنا چاہتا تھا اسکے سامنے موم ہوجاتا تھا۔ اس نے صلاح الدین کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا۔ اسکے سامنے وہ بیٹھتا ہی نہیں تھا۔ ہاں میں ہاں ملاتا چلا جاتا تھا۔ اس نے مصر کے مختلف خطوں سے ایوبی کے حکم کے مطابق فوج کے لیئے بھرتی شروع کردی تھی، حالانکہ یہ کام اسکی مرضی کے خلاف تھا۔ دن گزرتے جارہے تھے۔ ایوبی اسے کچھ کچھ پسند کرنے لگا تھا۔ ناجی نے اُسے یقین دلایا تھا کہ سوڈانی باڈی گارڈز کی فوج حکم کی منتظر ہے۔ اور یہ قوم کی توقعات پر پوری اترے گی۔ ناجی ایوبی کو دو تین مرتبہ کہہ چکا تھا کہ وہ باڈی گارڈز کی طرف سے اسے دعوت دینا چاہتا ہے اور فوج اس کے اعزاز میں جشن منانے کے لیئے بے تاب ہے ، لیکن ایوبی مصروفیت کی وجہ سے یہ دعوت قبول نہیں کرسکا تھا۔
قسط دوئم:
رات کا وقت تھا۔ ناجی اپنے کمرے میں اپنے دو معتمد جونیئر کمانڈروں کے ساتھ بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ دو ناچنے والیاں سازوں کی ہلکی ہلکی موسیقی سے مستی میں آئی ہوئی ناگنوں کی طرح رقص کررہی تھیں۔ جسموں پر برائے نام کپڑے تھے اور اس رقص میں خمار کا تاثر تھا۔
دربان اندر آیا اور ناجی کے کان میں کچھ کہا۔ ناجی جب شراب اور رقص میں محو ہوتا تھا تو کوئی مخل ہونے کی جرات نہیں کرسکتا تھا۔ صرف دربان کو معلوم تھا کہ وہ کونسا ضروری کام ہے جس کی خاطر ناجی عیش و عشرت کی محفل سے اٹھا کرتا ہے، ورنہ وہ اندر آنے کی جرات نہیں کرتا۔ اس کی بات سنتے ہی ناجی باہر نکل گیااور دربان اُسے دوسرے کمرے میں لے گیا، وہاں سوڈانی لباس میں ملبوس ایک اُدھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا۔ اسکے ساتھ ایک جوان لڑکی تھی۔ ناجی کو دیکھ کر وہ اٹھی ۔ ناجی اسکے چہرے اور قدوکاٹھ کی دلکشی دیکھ کر ٹھٹھک گیا ۔ وہ عورتوں کا شکاری تھا۔ اسے عورتیں صرف اپنی عیاشی کے لیئے درکار نہیں ہوتی تھیں ۔ ان سے وہ اور بھی کئی کام لیا کرتا تھا جن میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ وہ انہیں امیروں وزیروں کو بلیک میل کرنے کے لیئے استعمال کرتا تھا اوران سے وہ جاسوسی بھی کراتا تھا۔ (نوٹ: کیا موجودہ دور کی امراء کی محفلوں میں یہی سب نہیں ہورہا؟ اور ہمارے بعض حکمران کیا عورتوں کو پیسے کی کھپت کے ساتھ ساتھ عیاشی میں استعمال نہیں کررہے؟)۔
جس طرح قصاب جانور کو دیکھ کر بتا دیتا ہے کہ اس کا گوشت کتنا ہے، اسی طرح ناجی لڑکی کو دیکھ کر اندازہ کرلیا کرتا تھا کہ یہ کس کام کے لیئے موزوں ہے۔ لڑکیوں کے بیوپاری اور بردہ فروش اکثر ناجی کے پاس مال لاتے رہتے تھے۔
یہ آدمی بھی ایسا ہی بیوپاریوں میں سے کوئی لگتا تھا۔ لڑکی کے متعلق اس نے بتایا کہ تجربہ کار ہے ۔ ناچ بھی سکتی ہے اور پتھر کو زبان کے میٹھے زہر سے پانی میں تبدیل کرسکتی ہے۔ ناجی نے اس کا انٹرویو لیا۔ وہ اس فن کا ماہر تھا۔ اس کے مطابق اس نے لڑکی کا امتحان لیا۔ اور اس نے یہ رائے قائم کی جس کا م کے لیئے وہ ایک اور لڑکی کو تیار کررہا تھا، اسکے لیے یہ لڑکی تھوڑی ٹریننگ کے بعد موزوں ہوسکتی تھی۔ سودا طے ہوگیا۔ بیوپاری قیمت لے کر چلا گیا۔ ناجی لڑکی کو اُس کمرے میں لے گیا جہاں اسکے دو ساتھی رقص اور شراب سے دل بہلا رہے تھے۔ اس نے لڑکی کو ناچنے کے لیئے کہا۔ لڑکی نےجب دو ہی بل دکھائے تو ناجی اور اسکے ساتھی تڑپ اٹھے۔ پہلی دونوں ناچنے والیوں کے رنگ پیلے پڑگئے۔ اس نئی لڑکی کے سامنے ان کی قدروقیمت کم ہوگئی تھی۔
ناجی نے اسی وقت محفل برخاست کردی اور اس لڑکی کو اپنے پاس بٹھا کر سب کو باہر نکال دیا۔ لڑکی سے نام پوچھا تو اس نے ذکوئی بتایا۔ ناجی نے اس سے کہا۔۔۔۔۔"ذکوئی! تمہیں یہاں لانے والے نے بتایا تھا کہ تم پتھر کو پانی میں تبدیل کرسکتی ہو۔ میں تمہارا یہ کمال دیکھنا چاہتا ہوں"۔
"وہ پتھر کون ہے؟" ذکوئی نے پوچھا۔
"نیا امیرِ مصر" ۔ ناجی نے جواب دیا۔ "وہ سالارِ اعظم بھی ہے"۔
"صلاح الدین ایوبی؟" ذکوئی نے پوچھا
"ہاں، صلاح الدین ایوبی"۔ ناجی نے کہا۔ "تم اگر اسے پانی میں تبدیل کردو تو میں اس کے وزن جتنا سونا تمہارے قدموں میں رکھ دوں گا"۔
"وہ شراب تو پیتا ہوگا؟"۔
"نہیں "۔ ناجی نے جواب دیا۔ "شراب، عورت، ناچ ، گانے اور تفریح سے اتنی ہی نفرت کرتا ہے جتنی ہرمسلمان خنزیر سے کرتا ہے"۔
"میں نے سنا تھا کہ آپ کے پاس لڑکیوں کا ایسا طلسم ہے جو نیل کی روانی کو روک لیتا ہے۔" ذکوئی نے کہا۔۔۔۔۔۔"کیا وہ طلسم بیکار ہوگیا ہے؟"
"میں نے ابھی آزمایا نہیں "۔ ناجی نے کہا۔" یہ کام تم کرسکتی ہو، میں ایوبی کی عادتوں کے متعلق تمہیں بہت کچھ بتاؤں گا"۔
"کیا آپ اُسے زہر دینا چاہتے ہیں؟" ذکوئی نے پوچھا۔
"ابھی نہیں"۔ ناجی نے جواب دیا۔ "میر اس کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ وہ ایک بار کسی تم جیسی لڑکی کے جال میں پھنس جائے، پھر میں اسے اپنے پاس بٹھا کر شراب پلاؤں، اگر اسے قتل کرنا مقصود ہوتا تو میں یہ کام حشیشین سے نہایت آسانی سے کراسکتا تھا"۔
"یعنی آپ اسکے ساتھ دشمنی نہیں دوستی کرنا چاہتے ہیں"۔ ذکوئی نے کہا۔
اتنا برجستہ جملہ سن کر ناجی چند لمحے لڑکی کو دیکھتا رہا۔ وہ اسکی توقع سے کہیں زیادہ ذہین تھی۔
"ہاں ذکوئی" ناجی نے اسکے بالوں پر ہاتھ پھیر کر کہا۔"میں اس کے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہوں۔ ایسی دوستی کہ وہ میرا ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن جائے۔ آگے میں جانتا ہوں کہ مجھے اس سے کیا کام لینا ہے"۔۔۔۔۔۔ناجی نے کہا اور ذرا سوچ کر بولا۔ "لیکن میں تمہیں یہ بھی بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک جادو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ میں بھی ہے۔ اگر تمہارے حسن اور نازوانداز پر اُس کا جادو چل گیا تو میں تمہیں زندہ نہیں رہنے دوں گا، اگر تم نے مجھے دھوکا دیا تو تم ایک دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکوگی۔ ایوبی تمہیں موت سے نہیں بچا سکے گا۔ تمہاری زندگی اور موت میرے ہاتھ میں ہے۔ تم مجھے دھوکہ نہیں دے سکو گی۔ اسی لیئے میں نے تمہارے ساتھ کھل کر باتیں کی ہیں، ورنہ میرے رتبے اور حیثیت کا آدمی ایک پیشہ ور لڑکی کے ساتھ پہلی ملاقات میں ہی ایسی باتیں کبھی نہ کرتا"۔
"یہ آپ کو آنے والا وقت بتائے گا کہ کون کس کو دھوکہ دیتا ہے"۔۔۔۔۔ذکوئی نے کہا۔"مجھے یہ بتائیے کہ ایوبی تک میری رسائی کس طرح ہوگی"۔
"میں اسے ایک جشن میں بلا رہا ہوں"۔ ناجی نے کہا۔۔۔۔"اُسے رات اپنے ہاں رکھوں گا اور تمہیں اسکی خواب گاہ میں داخل کردوں گا۔ میں نے تمہیں اسی مقصد کے لیئے بلایا ہے"۔
آگے میں سنبھال لوں گی۔
قسط سوئم:
وہ رات گزر گئی ، پھر اور کئی راتیں گزر گئیں ۔ صلاح الدین ایوبی انتظامی کاموں اور نئی فوج تیار کرنے میں مصروف رہا کہ ناجی کی دعوت قبول کرنے کا وقت نہ نکال سکا۔ علی بن سفیان نے اسے ناجی کے متعلق جو رپورٹ دی ، اس سے وہ پریشان ہوگیا۔ اس نے علی سے کہا۔۔۔۔۔۔"تو اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص صلیبیوں سے زیادہ خطرناک ہے"۔
"یہ ایک سانپ ہے جسے مصر کی امارت آستین میں پال رہی ہے۔" علی بن سفیان نے ناجی کی تخریب کاری کی تفصیل سنائی کہ اس نے کس طرح کس کس بڑے آدمی کو اپنے ہاتھ میں لیا اور انتظامیہ میں من مانی کرتا رہا۔ پھر کہا" اور جس سوڈانی سپاہ کا وہ سالار ہے وہ ہماری بجائے اسکی وفادار ہے۔کیا آپ اسکا کوئی علاج سوچ سکتے ہیں؟"
"صرف سوچ ہی نہیں سکتا" ایوبی نے کہا۔ "علاج شروع کرچکا ہوں، مصر سے جو سپاہ بھرتی کی جارہی ہے، اسے میں سوڈانی محافظوں میں گڈمڈ کردوں گا۔ پھر یہ فوج سوڈانی ہوگی نہ مصری۔ ناجی کی یہ طاقت بکھر کر ہماری فوج میں جذب ہوجائے گی۔ ناجی کو میں اسکے صحیح ٹھکانے پر لے آؤں گا"۔
"اور میں یہ بھی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے صلیبیوں کے ساتھ بھی گٹھ جوڑ کررکھا ہے"۔۔۔۔۔علی بن سفیان نے کہا۔۔۔۔۔۔"آپ سلطنت اسلامیہ کو ایک مضبوط مرکز پر لاکر اسلام کو وسعت دینا چاہتے ہیں، مگر ناجی آپ کے خواب کو دیوانے کا خواب بنا رہا ہے"۔
"تم اس سلسلے میں کیا کررہے ہو؟"
"یہ مجھ پر چھوڑ دیں" علی بن سفیان نے جواب دیا۔۔۔میں جو کچھ کروں گا وہ آپ کو ساتھ ساتھ بتاتا رہوں گا۔ آپ مطمئن رہیں۔ میں نے اسکے گرد جاسوسوں کی ایسی دیوار چن دی ہے ، جس میں آنکھیں بھی ہیں ، کان بھی ہیں اور یہ دیوار متحرک ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ میں نے اسے اپنے جاسوسی کے قلعے میں قید کرلیا ہے"۔
سلطان ایوبی کو علی بن سفیان پر اسقدر اعتماد تھا کہ اس سے اسکی درپردہ کاروائی کی تفصیل نہ پوچھی۔ علی نے اس سے پوچھا۔ "معلوم ہوا ہے کہ وہ آپ کو جشن کی دعوت پر مدعو کررہا ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو اسکی دعوت اسوقت قبول کیجئے گا جب میں آپ کو بتاؤں گا"۔
ایوبی اُٹھا اور ہاتھ پیٹھ پیچھے رکھ کر ٹہلنے لگا۔ اس کی آہ نکل گئی۔ وہ رک گیااوربولا۔۔۔۔"علی بن سفیان! زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔بے مقصد زندگی سے کیا یہ بہتر نہیں کہ انسان پیدا ہوتے ہی مرجائے؟ کبھی کبھی یہ سوچ دماغ میں آجاتی ہے کہ وہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کی قومی حِس مردہ ہوتی ہے اور جن کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ بڑے مزے سے جیتے اور اپنی آئی پر مرجاتے ہیں"۔
"وہ بدنصیب ہیں امیر ِ محترم!" علی نے کہا۔
"ہاں ابن سفیان!" ایوبی نے کہا۔۔۔۔۔"میں جب انہیں خوش نصیب کہتا ہوں تو یہی بات معلوم نہیں کون میرے کان میں کہہ دیتا ہے جو تم نے کہی ہے۔مگر سوچتا ہوں کہ ہم نے تاریخ کا دھارا اس موڑ پر نہ بدلاتو ملتِ اسلامیہ بکھر کر وادیوں ، جنگلوں اور صحراؤں میں کھو جائے گی۔ ملت کی خلافت تین حصوں میں بٹ گئی ہے۔ امیر من مانی کررہے ہیں اور صلیبیوں کے آلہء کار بنتے جارہے ہیں۔ مجھے یہ ڈر بھی محسوس ہونے لگا ہے کہ مسلمان اگر زندہ رہے تو وہ ہمیشہ صلیبیوں کے غلام اور آلہ کار رہیں گے۔ وہ اسی پہ خوش رہیں گے کہ زندہ ہیں مگر قوم کی حیثیت سے وہ مردہ ہوں گے۔ذرا نقشہ دیکھو علی! آدھی صدی میں دیکھو ہماری سلطنت کا نقشہ کتنا سکڑ گیا ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خاموش ہوگیا۔ سرجھکا کر ٹہلنے لگا ۔ پھر رُک گیا اور سر کو جھٹک کرعلی بن سفیان کو دیکھا۔ اور کہنے لگا۔ "جب تباہی اپنے اندر سے اٹھے تو اسے روکتا محال ہوجاتا ہے۔ اگر ہماری خلافت اور امارتوں کا یہی حال رہا تو صلیبیوں کو ہم پر حملے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ وہ آگ جس میں ہم اپنا ایمان، کردار اور اپنی قومیت جلا رہے ہیں، اس میں صلیبی آہستہ آہستہ تیل ڈالتے رہیں گے۔ ان کی سازشیں ہمیں آپس میں لڑاتی رہیں گی۔۔۔۔۔میں شاید اپنا عزم پورا نہ کرسکوں۔ میں شاید صلیبیوں سے شکست بھی کھاجاؤں لیکن میں قوم کے نام ایک وصیت چھوڑنا چاہتا ہوں ۔ وہ یہ ہے کہ کسی غیر مسلم پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا۔ ان کے خلاف لڑنا ہے تو لڑکر مرجانا، کسی غیرمسلم کے ساتھ کبھی سمجھوتہ اور کوئی معاہدہ نہ کرنا"۔
نوٹ؛ اور آج غیرمسلموں کے ساتھ معاہدے کرکے بکاؤ حکمران سمجھتے ہیں انہوں نے اپنی قوم کے لیئے زندگی لے لی۔ کیا یہ زندگی ہے؟ کیا آئی ایم ایف سے قرضہ لینے والی قومیں کبھی زندگی میں سرخرو ہوسکی ہیں؟ یا آیا جنہوں نے اپنی امارات غیروں کے خزانوں میں رکھ دی ہیں وہ کیا غیرت اور حمیت دکھا سکتے ہیں؟
"آپ کا لہجہ بتا رہا ہے ، جیسے آپ اپنے عزم سے مایوس ہوگئے ہیں"۔ ۔۔۔۔ علی بن سفیان نے کہا۔
"مایوس نہیں "۔۔۔صلاح الدین نے کہا۔۔۔۔۔۔جذباتی ۔۔۔۔علی! میرا ایک حکم متعلقہ شعبے تک پہنچا دو۔ بھرتی تیز کردو اور کوشش کرو کہ فوج کے لیئے زیادہ سے زیادہ ایسے آدمی رکھو جو جنگ کا تجربہ حاصل کرچکے ہوں۔ ہمارے پاس اتنی لمبی تربیت کا وقت نہیں۔ بھرتی ہونے والوں کا مسلمان ہونا لازمی قرار دے دواور تم اپنے لیئے ذہن نشین کرلو کہ ایسے جاسوسوں کا ایک دستہ تیار کرو جو دشمن کے علاقے میں جاکر جاسوسی بھی کریں اورشبخون بھی ماریں۔ یہ جانبازوں کا دستہ ہوگا۔ ان کی نظریں عقاب کی طرح تیز ہوں ، ان میں صحرائی لومڑی کی مکاری ہو اور وہ دشمن پر چیتے کی طرح جھپٹنے کی مہارت، دلیری اور طاقت کے مالک ہوں۔ ان میں شراب ، حشیش وغیرہ کی عادت نہ ہو اور عورت کے لیئے وہ برف کی طرح یخ ہوں۔۔۔۔ بھرتی تیز کرادو ابن سفیان!۔۔۔۔۔ اور یاد رکھو میں ہجوم کا قائل نہیں۔ مجھے لڑنے والوں کی ضرورت ہے ، خواہ تعدا د تھوڑی ہو۔ ان میں قومی جذبہ ہو اور میرے عزم کو سمجھتے ہوں، کسی کے دل میں یہ شبہ نہ ہو کہ اُسے کیو ں لڑایا جارہا ہے۔
قسط سوئم اختتام