Post by zarbehaq on Jun 3, 2015 17:22:52 GMT
قسط چہارم
اگلے دس دنوں میں ہزارہا تربیت یافتہ سپاہی امارتِ مصر کی فوج میں آگئے اور اُن دس دنوں میں ناجی نے ذکوئی کو ٹریننگ دے دی کہ وہ صلاح الدین ایوبی کو کو ن کون سے طریقے سے اپنے حسن کے جال میں پھانس کر اسکی شخصیت اور اسکے کردار کو کمزور کرسکتی ہے۔ ناجی کے ہمراز دوستوں نے ذکوئی کو دیکھا تو انہوں نے بلاخوفِ تردید کہا کہ اس لڑکی کو مصر کے فرعون دیکھ لیتے تو خدائی کے دعوے سے دستبردار ہوجاتے۔ ناجی کا اپنا جاسوسی کا نظام تھا، بہت تیز اور ہوشیار۔ وہ معلوم کرچکا تھا کہ علی بن سفیان ، سلطان ایوبی کا خصوصی مشیر ہے اور عرب کا مانا ہوا سراغرساں۔ اس نے علی کے پیچھے اپنے جاسوس چھوڑ دیئے تھے اور اس نے علی کو قتل کرادینے کا منصوبہ بھی بنا لیا تھا۔
ذکوئی کو ناجی نے صلاح الدین ایوبی کو اپنے دام میں پھانسنے کے لیئے تیار کیا، لیکن وہ محسوس نہ کرسکا کہ مراکش کی رہنے والی یہ لڑکی اسکے اپنے اعصاب پر سوار ہوگئی ہے۔ وہ صرف شکل و صورت کی ہی دلکش نہیں تھی، اسکی باتوں میں ایسا جادو تھا کہ ناجی اسے اپنے پاس بٹھا کر اسکے ساتھ باتیں ہی کرتا رہتا تھا۔ اس نے اُن دو ناچنے گانے والی لڑکیوں سے نگاہیں پھیر لی تھیں جو اس کی منظور نظر تھیں۔ تین چار راتوں سے اس نے ان لڑکیوں کو اپنے کمرے میں نہیں بلایا تھا۔ ناجی سونے کی انڈے دینے والی مرغی تھی جو ان کے قبضے سے نکل کر ذکوئی کی آغوش میں انڈے دینے لگی تھی۔ انہوں نے ذکوئی کو اپنے راستے سے ہٹانے کی ترکیبیں سوچنی شروع کردیں ۔ وہ آخر اس نتیجہ پر پہنچیںکہ اُسے قتل کرا دیا جائے، مگر اسے قتل کرانا ممکن نہیں نظر آتا تھا، کیونکہ ناجی نے اسے جو کمرہ دے رکھا تھا اس پر دو محافظوں کا پہرہ رہتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ دونوں لڑکیاں اس مکان سے بلااجازت باہر نہیں جاسکتی تھیں جو ناجی نے انہیں دے رکھا تھا۔ انہوں نے حرم کی خادمہ عورتوں میں سے ایک کو اعتماد میں لینا شروع کردیا۔ وہ اسکے ہاتھوں ذکوئی کو زہر دینا چاہتی تھیں۔
علی بن سفیان نے ایوبی کا محافظ دستہ بدل دیا تھا۔ یہ سب امیرِ مصر (وائسرائے) کے پرانے محافظ تھے۔ ان کی جگہ اس نے ان سپاہیوں میں سے باڈی گارڈز کا دستہ تیار کردیا جو نئی بھرتی میں آئے تھے۔ یہ جانبازوں کا منتخب دستہ تھا جو سپاہ گری میں بھی تاک تھا اور جذبے کے لحاظ سے اس کا ہرسپاہی مردِ حُر تھا۔ ناجی کو یہ تبدیلی بالکل پسند نہیں آئی تھی لیکن اس نے ایوبی کے سامنے اس تبدیلی کی بے حد تعریف کی اور اسکے ساتھ ہی درخواست کی کہ صلاح الدین ایوبی اسکی دعوت کو قبول کرلے۔ ایوبی نے اسے جواب دیا کہ وہ ایک آدھ دن میں اُسے بتائے گا کہ وہ کب دعوت قبول کرسکے گا۔ اسکے جانے کے بعد ایوبی نے علی سے مشورہ لیا کہ وہ دعوت پر کب جائے۔ علی نے اسے مشورہ دیا کہ اب وہ کسی بھی روز دعوت قبول کرلے۔
دوسرے ہی دن سلطان نے ناجی کو بتایا کہ وہ کسی بھی رات دعوت پر آسکتا ہے۔ ناجی نے تین روز بعد کی دعوت دی اور بتایا کہ یہ دعوت کم اور جشن زیادہ ہوگا۔ اور یہ جشن شہر سے دور صحرا میں مشعلوں کی روشنی میں منایا جائے گا۔ ناچ گانے کا انتظام ہوگا۔ باڈی گارڈز کے گھڑسوار اپنے کرتب دکھائیں گے۔ شمشیر زنی اور بغیر ہتھیاروں کی لڑائی کے مقابلے ہوں گے اور صلاح الدین کو رات وہیں قیام کرایا جائے گا۔ رہائش کے لیئے خیمے نصب ہوں گے۔۔۔۔۔ ایوبی پروگرام کی تفصیل سنتا رہا۔ اس نے ناچ گانے پر بھی اعتراض نہ کیا۔ ناجی نے ڈرتے جھجکتے کہا ۔۔۔۔۔۔"فوج کے بیشتر سپاہی جو مسلمان نہیں یا جو ابھی نیم مسلمان ہیں کبھی کبھی شراب پیتے ہیں۔ وہ شراب کے عادی نہیں۔ وہ اجازت چاہتے ہیں کہ جشن میں انہیں شراب پینے کی اجازت دی جائے"۔
"آپ ان کے کمانڈر ہیں" ۔ ایوبی نے کہا۔۔۔۔"آپ چاہیں تو انہیں اجازت دے دیں، نہ دینا چاہیں تو میں آپ پر اپنا حکم نہیں چلاؤں گا"۔
"امیر مصر کا اقبال بلند ہو۔۔۔۔" ناجی نے غلاموں کی طرح کہا۔۔۔۔۔۔"میں کون ہوتا ہوں ، اس کام کی اجازت دینے والاجس کو آپ سخت ناپسند کرتے ہیں"۔
"انہیں اجازت دے دیں کہ جشن کی رات ہنگامہ آرائی اور بدکاری کے سوا سب کچھ کرسکتے ہیں"۔ صلاح الدین ایوبی نے کہا۔۔۔"اگر شراب پی کر کسی نے ہلہ گلہ کیا تو اسے سخت سزا دی جائے گی۔"
یہ خبر ایوبی کے سٹاف تک پہنچی کہ ناجی ، ایوبی کے اعزاز میں جو جشن منعقد کررہا ہے اس میں ناچ گانا اور شراب بھی پی جائے گی، اور ایوبی نے اس جشن کی دعوت ان خرافات کے باوجود قبول کرلی ہے، تو سب حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ کسی نے کہا، ناجی جھوٹ بولتا ہے، وہ دوسروں پر اپنا رعب ڈالنا چاہتا ہے، اور کسی کی رائے تھی کہ ناجی کا جادو ایوبی پربھی چل گیا ہے۔ یہ رائے ان سربراہوں کو پسند آئی جو ناجی کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے۔ صلاح الدین ایوبی نے چارج لیتے ہی ان کے لیئے عیش و عشرت، شراب نوشی، اور بدکاری جرم قرارد ے دی تھی۔ اس نے ایسا سخت ڈسپلن رائج کردیا تھا کہ کسی کو پہلے کی طرح فرائض سے کوتاہی کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ وہ اس پر خوش تھے کہ آج نئے امیرِ مصر نے کسی دعوت میں شراب اور رقص کی اجازت دے دی ہے تو کل پرسوں وہ خود بھی ان رنگینیوں کا رسیا ہوجائے گا۔
صرف علی بن سفیان کو معلوم تھا کہ ایوبی نے ان خرافات کی اجازت کیوں دی ہے۔
جشن کی شام آگئی۔ ایک تو چاندنی رات تھی ۔ صحرا کی چاندنی اتنی شفاف ہوتی ہے کہ ریت کے ذرے بھی نظر آجاتے ہیں۔ دوسرے ہزار مشعلوں نے وہاں صحرا کو دن بنادیا تھا۔ محافظوں کا ہجوم تھا، جو ایک وسیع میدان کے گرد دیواروں کی طرح کھڑا تھا۔ ایک طرف ایوبی کے بیٹھنے کے لیئے جو مسند رکھی گئی تھی وہ کسی بہت بڑے بادشاہ کا تخت معلوم ہوتی تھی۔ اس کے دائیں بائیں بڑے رتبوں کے مہمانوں کی نشستیں تھیں۔ اس وسیع وعریض تماشہ گاہ سے تھوڑی دور مہمانوں کے لئے نہایت خوبصورت خیمے نصب تھے۔ ان سے ہٹ کر ایک بڑا خیمہ سلطان کے لیئے نصب کیا گیا تھا۔ جہاں اُسے رات بسر کرنی تھی۔ علی بن سفیان نے سورج غروب ہونے سے پہلے وہاں جاکراس خیمے کے اردگرد محافظ کھڑے کردیئے تھے۔
جب علی بن سفیان وہاں محافظ کھڑے کررہا تھا، ناجی ،ذکوئی کو آخری ہدایات دے رہا تھا۔ اس شام ذکوئی کا حسن کچھ زیادہ ہی نکھرآیا تھا۔ اس کے جسم سے ایسے عطر کی بھینی بھینی بُو اٹھ رہی تھی جس میں سحر کا تاثر تھا۔ اس نے بال عریاں کندھوں پر پھیلا دیئے تھے۔الغرض وہ تمام ہتھیاروں سے پوری طرح مسلح تھی۔
ناجی نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا۔۔۔۔۔"صلاح الدین ایوبی پر تمہارے جسمانی حسن کا شاید اثر نہ ہو، اپنی زبان استعمال کرنا۔ وہ سبق بھولنا نہیں جو میں اتنے دنوں سے تمہیں پڑھا رہا ہوں اور یہ بھی مت بھولنا کہ اس کے پاس جا کر اسکی لونڈی نہ بن جانا۔ انجیر کاوہ پھول بن جانا جو درخت کی چوٹی پر نظر آتا ہے، مگر درخت پر چڑھ کر دیکھو تو غائب ہوجاتا ہے۔ اسے اپنے قدموں میں بٹھا لینا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم اس پتھر کو پانی میں تبدیل کرلوگی۔ اسی سرزمین میں قلوپطرہ نے سیزر جیسے مردِ آہن کو اپنے حسن وجوانی سے پگھلا کر مصر کی ریت میں بہا دیا تھا۔ قلوپطرہ تم سے زیادہ خوبصورت نہیں تھی۔ میں نے تمہیں جو سبق دیئے ہیں وہ قلوپطرہ کی چالیں ہیں۔ عورت کی یہ چالیں کبھی ناکام نہیں ہوسکتیں"۔
ذکوئی مسکرا رہی تھی اور بڑے غور سے سن رہی تھی ۔ مصر کی ریت نے ایک اور قلوپطرہ کو حسین ناگن کی طرح جنم دیا تھا۔ مصر کی تاریخ اپنے آپ کو دہرانے والی تھی۔
سورج غروب ہوگیاتو مشعلیں جل اٹھیں ۔ سلطان ایوبی گھوڑے پر سوار آگیا۔ اس کے دائیں بائیں، آگے پیچھے اس کے ان محافظوں کے گھوڑے تھے جو علی بن سفیان نے منتخب کیئے تھے۔ اسی دستے میں اس نے دس محافظ شام سے پہلے ہی یہاں لاکر صلاح الدین کے خیمے کے گرد کھڑے کردیئے تھے۔ سازندوں نے دف کی آواز پر استقبالیہ دھن بجائی اور صحرا "امیر صلاح الدین زندہ باد" کے نعروں سے گونجنے لگا۔ ناجی نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور کہا۔۔۔۔۔"آپ کے جاں نثار، عظمت اسلام کے پاسبان آپ کو بسروچشم خوش آمدید کہتے ہیں۔ان کی بے تابیاں اور بے قراریاں دیکھیئے ۔ آپ کے اشارے پر کٹ مریں گے"۔۔۔۔۔اور خوشامد کے لیئے اسے جتنے الفاظ یاد آئے اس نے کہہ ڈالے۔
نوٹ: غور کیجئے کہ کیا یہی رویہ ہمارے حکمرانوں کا آج بھی نہیں ہے؟ یہ ہر قوت والے کے سامنے اسی طرح اس کو قوم وملت کا پاسبان بتاتے ہیں اور ان کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ملک و قوم وفوج کے ساتھ ہیں لیکن درپردہ بالکل اسی طرح ان کے تانے بانے دشمنی پر مبنی ہیں اور دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں۔
جونہی ایوبی اپنی شاہانہ نشست پر بیٹھا ۔ سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑوں کی ٹاپوؤں کی آوازیں سنائی دیں۔ گھوڑے جب مشعلوں کی روشنی میں آئے تو سب نے دیکھا کہ چار گھوڑے دائیں سے اور چار گھوڑے بائیں سے دوڑتے آ رہے تھے۔ ہر ایک پر ایک ایک سوار تھا، ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے۔ وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آرہے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ ٹکرا جائیں گے ۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیا کریں گے۔ وہ ایک دوسرے کے قریب آئے تو دونوںفریقوں کے سوار رکابوں میں پاؤں جما کر کھڑے ہوگئے۔ پھر انہوں نے لگامیں ایک ایک ہاتھ میں کرلیں اور دوسرے بازو پھیلا دیئے۔ دونوں طرف کے گھوڑے بالکل آمنے سامنے آگئے اور سواروں کی دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سے الجھ گئیں۔ سواروں نے ایک دوسرے کو پکڑنے اور گھوڑے سے گرانے کی کوشش کی۔ جب گھوڑے آگے نکل گئے تو دو سوار جو گھوڑوں سے گر پڑے تھے، ریت پر قلابازیاں کھارہے تھے۔ ایک طرف کے ایک سوار نے دوسری طرف کے ایک سوار کو ایک بازو میں جکڑ کر اسے گھوڑے سے اٹھا لیا تھا۔ اور اسے اپنے گھوڑے پر ڈال کر لے جارہا تھا۔ ہجوم میں اسقدر شور بپا ہوا کہ اپنی آواز کسی کو سنائی نہیں پڑتی تھی۔
یہ سوار اندھیرے میں غائب ہوئے تو دونوں طرف سے چار چار اور گھوڑے آئے اور اسی طرح مقابلہ ہوا۔ اس طرح کے آٹھ مقابلے ہوئے اور اسکے بعد شتر سوار آئے۔ پھر گھڑسواروں نے سواری کے متعدد کرتب دکھائے۔ اس کے بعد تیغ زنی اور بغیر ہتھیاروں کی لڑائی کے مظاہرے ہوئے جن میں کئی ایک سپاہی زخمی ہوگئے۔ ایوبی شجاعت اور بے خوفی کے ان مظاہروں اور مقابلوں میں جذب ہوکے رہ گیا تھا۔ اسے ایسی ہی بہادر فوج کی ضرورت تھی۔ اس نے علی بن سفیان کے کان میں کہا۔ ۔۔۔۔ "اگر اس فوج میں اسلامی جذبہ بھی ہو تو میں صرف اسی فوج سے صلیبیوں کو گھٹنوں میں بٹھا سکتا ہوں"۔
علی بن سفیان نے وہی مشورہ دیا جو وہ پہلے بھی دے چکا تھا۔ اس نے کہا۔۔۔۔۔۔۔"اگر ناجی سے کمان لے لی جائے تو جذبہ بھی پیدا ہوجائے گا"۔۔۔۔۔ مگر ایوبی ناجی جیسے ذہین اور تجربہ کار سالار کو سبکدوش کرنے کی بجائے سدھارکر راہِ حق پر لانا چاہتا تھا۔ وہ اس جشن میں اپنی آنکھوں سے یہی دیکھنے آیا تھا کہ یہ فوج کردار کے لحاظ سے کیسی ہے ۔ اسے ناجی کی اس درخواست سے ہی مایوسی ہوگئی تھی کہ اسکے سپاہی اور کماندار شراب پینا چاہتے ہیں اور ناچ گانا بھی ہوگا۔ ایوبی نے اس درخواست کو اس وجہ سے منظور کرلیا تھا کہ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ لشکر کس حد تک عیش و عشرت میں ڈوبا ہوا ہے۔
بہادری، شاہسواری اور تیغ زنی وغیرہ کے مظاہروں اور مقابلوں میں تو یہ فوج عسکری اور جنگی معیار پر پوری اترتی تھی مگر کھانے کا وقت آیا تو یہ فوج بدتمیزوں ، بلانوشوں اور ہنگامہ پرور لوگوں کے بے قابو ہجوم بن گئی۔ کھانے کا انتظام وسیع وعریض میدان میں کیا گیا تھا۔ ایک طرف فوج کے کم و بیش دوہزار آدمیوں کے لیئے کھانا چنا گیا تھا اور ان سے ذرا دور ایوبی اور دیگر بڑے مہمانوں کے کھانے کا انتظام تھا۔ سینکڑوں سالم دنبے اور بکرے، اونٹوں کی سالم رانیں اور ہزاروں مرغ روسٹ کیئے گئے تھے۔ دیگر لوازمات کا کوئی شمار نہ تھا۔ اور سپاہیوں کے سامنے شراب کے چھوٹے چھوٹے مشکیزے اور صراحیاں رکھ دی گئی تھیں۔ سپاہی کھانے اور شراب پر ٹوٹ پڑے۔ غٹا غٹ شراب چڑھانے لگے اورمعرکہ آررائی ہونے لگی۔ ایوبی یہ منظر دیکھ رہا تھا اور خاموش تھا۔ اس کے چہرے پر کوئی ایسا تاثر نہیں تھا جو یہ ظاہر کرتاکہ وہ کیا سوچ رہا ہے ۔ اس نے ناجی سے صرف اتنا پوچھا۔۔۔۔۔۔"پچاس ہزار فوج میں سے آپ نے یہ سپاہی دعوت کے لیئے کس طرح منتخب کیئے تھے؟ کیا یہ آپ کے بدترین سپاہی ہیں؟"
"نہیں امیر مصر!" ۔۔۔۔ ناجی نے غلامانہ لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔۔۔"یہ دوہزار عسکری میرے بہترین آدمی ہیں، آپ ان کے مظاہرے دیکھ چکے ہیں۔ ان کی بہادری دیکھی ہے۔ میدان ِ جنگ میں یہ جس جانبازی کا مظاہرہ کریں گے وہ آپ کو حیران کردے گا۔ آپ ان کی بدتمیزی کو نہ دیکھیں ۔ یہ آپ کے اشارے پر جانیں قربان کردیں گے۔ میں انہیں کبھی کبھی کھلی چھٹی دے دیا کرتا ہوں تاکہ مرنے سے پہلے دنیائے رنگ و بو سے پورا پورا لطف اٹھالیں۔"
ایوبی نے اس استدلال کے جواب میں کچھ بھی نہ کہا۔ ناجی جب دوسرے مہمانوں کی طرف متوجہ ہوا تو ایوبی نے علی بن سفیان سے کہا۔ ۔۔۔۔۔"میں جو دیکھنا چاہتا تھا، وہ دیکھ لیا ہے۔ یہ سوڈانی عسکری شراب اور ہنگامہ آرائی کے عادی ہیں۔ تم کہتے ہو کہ ان میں جذبہ نہیں ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ان میں کردار بھی نہیں۔ اس فوج کو اگر تم میدان جنگ میں لے گئے تویہ لڑنے کی بجائے اپنی جان بچانے کی فکر کرے گی اور مال غنیمت لوٹے گی اور مفتوح کی عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرے گی"۔
"اس کا علاج یہ ہے" ۔۔۔۔۔ علی بن سفیان نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔"کہ آپ نے مختلف خطوں سے جو فوج تیار کی ہے، انہیں ناجی کے اس پچاس ہزار سوڈانی لشکر میں مدغم کردیا جائے۔ برے سپاہی اچھے سپاہیوں کے ساتھ مل جل کر اپنی عادتیں بدل دیا کرتے ہیں"۔
صلاح الدین ایوبی مسکرایا اور علی سے کہا۔۔۔۔۔۔ "تم یقیناً میرے دل کا راز جانتے ہو۔ میرا منصوبہ یہی ہے جو میں ابھی تمہیں نہیں بتانا چاہتا تھا۔ کسی سے اسکا ذکر نہیں کرنا"۔
علی بن سفیان میں یہی وصف تھا کہ دوسروں کے دلوں کا راز جان لیتا تھا، اور غیر معمولی طور پر ذہین تھا۔ وہ کچھ اور کہنے ہی والا تھا کہ ان کے سامنے کئی مشعلیں روشن ہوگئیں ۔ زمیں پر بیش قیمت قالین بچھے ہوئے تھے۔ شہنائی اور سارنگ کا ایسا میٹھا اور پرسوز نغمہ ابھرا کہ مہمانوں پر سناٹا طاری ہوگیا۔ ایک طرف ناچنے والیوں کی قطار نمودار ہوئی۔ بیس لڑکیاں ایسے باریک لباس میں ملبوس چلی آرہی تھیں جس میں انکے جسم نمایاں تھے۔ وہ دل لبھا لینے کے ہر ہتھیار سے مزین تھیں۔ وہ نیم دائرے میں ہو کر رک گئیں۔ اور سلطان کی طرف منہ کرکے تعظیم کے لیئے جھکیں۔دو سیاہ فام ، دیوہیکل حبشی جن کی کمر کے گرد چیتے کی کھالیں تھیں۔ ایک بڑا سا ٹوکرا اٹھائے تیز تیز قدم چلتے نظر آرہے تھے اور ٹوکرا لڑکیوں کے نیم دائرے کے سامنے رکھ دیا۔ ساز سپیروں کی بین کی دھن بجانے لگا۔ حبشی مست سانڈوں کی طرح پھنکارتے غائب ہوگئے۔ ٹوکرے میں سے ایک بہت بڑی کلی اوپر کو اٹھی اور پھول کی طرح کھل گئی۔ اس پھول میں سے ایک لڑکی کا چہرہ نمودار ہوا اور پھر وہ اوپر کو اٹھنے لگی۔ یوں لگتا تھا جیسے سرخ بادلوں میں سے چاند نکل رہا ہو۔ یہ لڑکی اس دنیا کی معلوم نہیں ہوتی تھی اسکی مسکراہٹ بھی ارضی نہیں تھی۔ اس کے بالوں کی چمک بھی مصر کی کسی لڑکی کی چمک نہیں لگتی تھی اور جب لڑکی نے پھول کی چوڑی پتیوں میں سے باہر قدم رکھا تو اسکی اداؤں نےتماشائیوں کو مسحور کردیا۔
علی بن سفیان نے ایوبی کی طرف دیکھا۔ اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ایوبی نے مسکرا کر اسکے کان میں کہا۔۔۔۔۔۔۔"مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ اتنی خوبصورت ہوگی"۔
ناجی نے ایوبی کے پاس آکر کہا۔۔۔۔۔۔"امیر مصر کا اقبال بلند ہو۔ اس لڑکی کا نام ذکوئی ہے۔ اسے میں نے آپ کی خاطر اسکندریہ سے بلایا ہے۔ یہ پیشہ ور رقاصہ نہیں اور یہ عصمت فروش بھی نہیں۔ رقص سے اسے پیار ہے ۔ شوقیہ ناچتی ہے ، کسی محفل میں نہیں جاتی ۔ میں اسکے باپ کو جانتا ہوں۔ ساحل پر مچھلیوں کا کاروبار کرتا ہے۔ یہ لڑکی آپ کی عقیدتمند ہے ۔ آپ کو پیغمبر مانتی ہے۔ میں اتفاق سے اسکے گھر اسکے باپ سے ملنے گیا تو اس لڑکی نے استدعا کی کہ سنا ہے کہ ایوبی امیر مصر بن کے آئے ہیں۔ خدا کے نام پر مجھے ان سے ملوادو۔ میرے پاس اپنی جان اور رقص کے سوااور کچھ بھی نہیں جو میں اس عظیم ہستی کے قدموں میں پیش کروں۔۔۔۔۔۔۔"قابل صد احترام امیر! میں نے آپ سے رقص و سرور کی اجازت اسی لیئے مانگی تھی کہ اس لڑکی کو میں آپ کے حضور پیش کرنا چاہتا تھا۔"
"آپ نے اسے بتایا تھا کہ میں اپنے سامنے کسی لڑکی کو رقص اور عریانی کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا؟"۔۔۔۔۔۔۔ صلاح الدین ایوبی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"یہ لڑکیاں جنہیں آپ ملبوس لائے ہیں، بالکل ننگی ہیں"۔
"عالی مقام" ناجی نے کھسیانہ ہوکر جواب دیا۔ "میں نےبتایا تھا کہ امیر مصر کو رقص ناپسند ہے۔ لیکن یہ کہتی ہے کہ وہ میرا رقص پسند کریں گے، کیونکہ میرے رقص میں دعوتِ گناہ نہیں۔ ایک باعصمت لڑکی کا رقص ہوگا۔ میں ایوبی کے حضور اپنا جسم نہیں، اپنا فن پیش کروں گی۔ اگر میں مرد ہوتی تو ایوبی کی جان کی حفاظت کے لیئے اسکے محافظ دستے میںشامل ہوجاتی"۔
"آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟" سلطان نے پوچھا۔۔۔۔۔"اس لڑکی کو اپنے پاس بلا کر اسے خراجِ تحسین پیش کروں کہ تم اپنے جسم کو ہزاروں مردوں کے سامنے عریاں کرکے بہت اچھا ناچتی ہو؟ اسے اس پر شاباش کہوں کہ اس نے مردوں کے جنسی جذبات بھڑکانے میں خوب مہارت حاصل کی ہے؟"۔
"نہیں امیر مصر!" ناجی نے کہا۔۔۔"میں اسے اس وعدے پر یہاں لایا ہوں کہ آپ سے شرفِ باریابی بخشیں گے ۔ یہ بڑی دور سے اسی امید پر آئی ہے۔ ذرا دیکھیئے اسے۔ اسکے رقص میں پیشہ ورانہ تاثر نہیں ، خود سپردگی ہے۔ دیکھیئے وہ آپ کو کیسی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ بے شک عبادت صرف اللہ کی، کی جاتی ہے ، لیکن یہ رقص کی اداؤں سے، عقیدت سے ، مخمور نگاہوں سے آپ کی عبادت کررہی ہے۔ آپ اسے اپنے خیمے میں آنے کی اجازت دے دیں۔ تھوڑی سی دیر کے لیئے ، اسے مستقبل کی وہ ماں سمجھیں جس کی کوکھ سے اسلام کی پاسبانی کے لیئے جانباز جنم لیں گے۔ یہ اپنے بچوں کو بڑے فخر سے بتایا کرے گی کہ میں نے صلاح الدین سے تنہائی میں باتیں کرنے کا شرف حاصل کیا تھا"۔
نوٹ: غور کیجئے کہ منافق اور غدار کتنا کم ظرف اور کمینہ ہوتا ہے کہ وہ جس عہدے پر بھی ہو، امراء کو ماں بہنیں پیش کرتا ہے، اور خیالات یہ بتاتا ہے کہ جیسے یہ ناچ گانا اور سب کچھ عقیدت کی آڑ میں روا ہوجائے گا۔گلاب سے ہمیشہ گلاب اگتا ہے، اور گندگی سے ہمیشہ گندگی جنم لیتی ہے ۔ یہی وہ کلیہ ہے جس کا مکار، عیار، غداروں اور ضمیر فروشوں چاہے ماضی کے ہوں یا حال کے ، کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔اور وہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔
ناجی نے نہایت پراثر الفاظ اور جذباتی لب ولہجے میں ایوبی سے منوا لیا کہ یہ لڑکی جسے اس نے ایک برد ہ فروش سے خریدا تھا، ایک شریف باپ کی باعصمت بیٹی ہے۔ اس نے صلاح الدین سے کہلوایا کہ "اچھا ، اسے میرے خیمے میں بھیج دینا"۔
ذکوئی نہایت آہستہ آہستہ جسم کو بل دیتی اور بار بار صلاح الدین ایوبی کی طرف دیکھ کر مسکراتی تھی۔ باقی لڑکیاںاسکے گرد تتلیوں کی طرح جیسے اُڑ رہی ہوں۔ یہ اچھل کود جیسا رقص نہ تھا۔ مشعلوں کی روشنی میں کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے ہلکے نیلے شفاف پانی میں جل پریاں تیر رہی ہوں۔ چاندنی کا اپنا ایک تاثر تھا۔ ایوبی کے متعلق کوئی نہیں بتا سکتا کہ وہ گم صم بیٹھا کیا سوچ رہا تھا۔ ناجی کے سپاہی جو شراب پی کر ہنگامہ بپا کررہے تھے۔ وہ بھی جیسے مرگئے تھے۔ زمین و آسمان پر وجد طاری تھا۔ ناجی اپنی کامیابی پر بے حد مسرور تھا اور رات گزرتی جارہی تھی۔
قسط پانچ:
نصف شب کے بعد ایوبی اس خوشنما خیمے میں داخل ہوا جو ناجی نے اسکے لیئے نصب کرایا تھا۔ اندر اس نے قالین بچھا دیئے تھے۔ پلنگ پر چیتے کی کھال کی مانند پلنگ پوش تھا، فانوس جو رکھوایا تھا، اسکی ہلکی نیلی روشنی صحرا کی شفاف چاندنی کی مانند تھی،ا ور اندر کی فضا عطر بیز تھی، خیمے کے اندر ریشمی پردے آویزاں تھے۔ ناجی صلاح الدین کے ساتھ خیمے میں گیا اور پوچھا۔۔۔۔۔"اسے ذرا سی دیر کے لیئے بھیج دوں؟ میں وعدہ خلافی سے بہت ڈرتا ہوں"۔
"بھیج دو" ۔ ایوبی نے کہا۔ اور ناجی ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا خیمے سے نکل گیا۔
تھوڑا ہی وقت گزرا ہوگا کہ ایوبی کے محافظوں نے ایک رقاصہ کو اس کے خیمے کی طرف آتے دیکھا۔ خیمے کے ہرطرف مشعلیں روشن تھیں۔ روشنی کا یہ انتظام علی بن سفیان نے کرایا تھا تاکہ رات کے وقت محافظ گردوپیش کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ رقاصہ قریب آئی تو انہوں نے پہچان لیا ۔ انہوں نے اسے رقص میں دیکھا تھا۔ یہ وہی لڑکی تھی جو ٹوکرے سے نکلی تھی۔ وہ ذکوئی تھی۔ وہ رقص کے لباس میں تھی۔ یہ لباس توبہ شکن تھا۔ اس میں وہ عریاں تھی۔ محافظوں کے کمانڈر نے اسے روک لیا۔ ذکوئی نے جب اسے بتایا کہ اسے امیر ِ مصر نے بلایا ہے ۔ کمانڈر نے اسے بتایا کہ یہ اُن امیروں میں سے نہیں جو تم جیسی فاحشہ لڑکیوں کے ساتھ راتیں گزارتے ہیں۔
"آپ ان سے پوچھ لیں"۔ ذکوئی نے کہا۔۔۔"میں بن بلائے آنے کی جرات نہیں کرسکتی"۔
"ان کا بلاوا تمہیں کس طرح ملا؟" کمانڈر نے پوچھا۔
"سالار ناجی نے کہا ہے کہ تمہیں امیر ِ مصر بلاتے ہیں"۔ ذکوئی نے کہا۔ "آپ کہتے ہیں تو میں واپس چلی جاتی ہوں۔ امیر نے جواب طلبی کی تو خود بھگت لینا"۔
کمانڈر تسلیم نہیں کرسکتا تھا کہ ایوبی نے اپنی خوابگاہ میں ایک رقاصہ کو بلایا ہے۔ وہ ایوبی کے کردار سے واقف تھا۔ اس کے اس حکم سے بھی واقف تھا کہ ناچنے گانے والیوںسے تعلق رکھنے والے کو ایک سو درے لگائے جائیں گے۔ کمانڈر شش و پنج میں پڑگیا۔ سوچ سوچ کر اس نے جرات کی اور ایوبی کے خیمے کے اندر چلا گیا ۔ ایوبی ٹہل رہا تھا۔ کمانڈر نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ باہر ایک رقاصہ کھڑی ہے ۔ کہتی ہے کہ حضور نے اسے بلایا ہے۔ ایوبی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔"اسے اندر بھیج دو"۔
کمانڈر باہر نکلا اور ذکوئی کو اندر بھیج دیا۔ محافظوں کی توقع تھی کہ ان کا امیر اور سالار اعظم اس لڑکی کو باہر نکال دے گا۔ وہ سب اسکی گرجدار آواز سننے کے لیئے تیار ہوگئے۔ مگر انہیں ایسی کوئی آواز نہ سنائی دی۔ رات گزرتی جارہی تھی۔ اندر سے دھیمی دھیمی باتوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ محافظ دستے کا کمانڈر بے قراری کے عالم میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ ایک محافظ نے اسے کہا۔ ۔۔۔۔۔"کیا یہ حکم صرف ہمارے لیئے ہے کہ کسی فاحشہ کے ساتھ تعلق رکھنا جرم ہے؟"
"ہاں " اس نے جواب دیا۔ "حکم صرف ماتحتوں کے لیئے اور قانون صرف رعایا کے لیے ہوتے ہیں۔"
"امیر مصر کو درے نہیں لگائے جاسکتے؟"
"بادشاہوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا"۔ کمانڈر نے جل کر کہا۔"صلاح الدین شراب بھی پیتا ہوگا۔ ہم پر جھوٹی پارسائی کا رعب جمایا جاتا ہے۔"
ان کی نگاہوں میں سلطان کا جو بت تھا وہ ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اس بت میں سے ایک عربی شہزادہ نکلا جو عیاش اور بدکار تھا۔ پارسائی کے پردے میں گناہ کا مرتکب ہورہا تھا۔
ناجی بہت خوش تھا۔ ایوبی کی خوشنودی کے لیئے اس نے شراب سونگھی بھی نہیں تھی۔ وہ اپنے خیمے میں بیٹھا مسرت سے جھوم رہا تھا۔ اس کے سامنے اس کانائب سالار ادروش بیٹھا تھا۔ اس نے ناجی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔"اسے گئے بہت وقت گزر گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے ہمارا تیر صلاح الدین کے دل میں اتر گیا ہے"۔
"میرا تیر خطا کب گیا تھا؟" ناجی نے قہقہہ لگاکر کہا۔۔۔۔۔۔۔"اگر یہ تیر خطا جاتا تو فوراً یہیں لوٹ کر ہمارے پاس آجاتا"۔
"تم ٹھیک کہتے تھے"۔ ادروش نے کہا۔۔۔۔۔۔۔"ذکوئی انسان کے روپ میں طلسم ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکی حشیشین کے ساتھ رہی ہے ، ورنہ ایوبی جیسا بت کبھی نہ توڑ سکتی"۔
"میں نے اسے جو سبق دیئے تھے وہ حشیشین کے بھی وہم وگمان میں نہ آئے ہوں گے"۔ ناجی نے کہا۔
"اب صلاح الدین ایوبی کے حلق سے شراب اتارنی رہ گئی ہے۔" ناجی کو باہر قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ دوڑ کر باہر گیا۔ وہ ذکوئی نہیں تھی، کوئی سپاہی جارہا تھا۔ ناجی نے دور سے ایوبی کے خیمے کی طرف دیکھا۔پردے گرے ہوئے تھے اور باہر محافظ کھڑے تھے، اس نے اندر جا کرادروش سے کہا۔۔۔۔۔۔"اب میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوںکہ میری ذکوئی نے بت توڑ ڈالا ہے"۔
قسط چھ:
رات کا آخری پہر تھا جب ذکوئی صلاح الدین ایوبی کے خیمے سے نکلی ۔ ناجی کے خیمے میں جانے کی بجائے وہ دوسری طرف چلی گئی۔ راستے میں ایک آدمی کھڑا تھا، جس کا جسم سر سے پاؤں تک ایک ہی لبادے میں ڈھکا ہوا تھا۔ اس نے دھیمی آواز میں ذکوئی کو پکارا۔ وہ آدمی کے پاس چلی گئی۔ وہ آدمی اسے ایک خیمے میں لے گیا۔ بہت دیر بعد وہ اس خیمے سے نکلی اور ناجی کے خیمے کارخ کرلیا۔ ناجی اس وقت تک جاگ رہا تھااور کئی بار نکل کر صلاح الدین کے خیمے کو دیکھ چکا تھا، کہ ذکوئی نے ایوبی کو پھانس لیا ہے اور اسے آسمان کی بلندیوں سے گھسیٹ کر ناجی کی ذہنیت کی پستیوں میں لے آئی ہے۔
"ادروش!" اس نے کہا۔۔۔۔۔"رات تو گزر گئی ہے۔ وہ ابھی تک نہیں آئی"۔
"وہ اب آئے گی بھی نہیں"۔ ادروش نے کہا۔۔۔۔۔"امیر مصر اسے اپنے ساتھ لے جائے گا۔ ایسے ہیرے کوئی شہزادہ واپس نہیں کیا کرتا۔۔۔۔۔تم نے اس پر بھی غور کیا ہے؟"۔
"نہیں " ۔ ناجی نے کہا"میں نے اپنی چال کا یہ پہلو تو سوچا ہی نہیں تھا"۔
"کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ امیر مصر ذکوئی کے ساتھ باقاعدہ شادی کرلے؟" ادروش نے پوچھا۔۔۔۔اس صورت میں یہ خطرہ ہے کہ لڑکی ہمارے کام کی نہیں رہے گی"۔
"وہ ہے تو ہوشیار"۔ ناجی نے کہا۔"مگر رقاصہ کا کیا بھروسہ؟" وہ رقاصہ کی بیٹی ہے اور تجربہ کار پیشہ ور ہے، دھوکہ دے سکتی ہے۔
وہ گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا کہ ذکوئی اس کے خیمے میں داخل ہوئی۔ اس نے ہنس کر کہا۔"اپنے امیر کے جسم کا وزن کراؤ اور لاؤ اتنا سونا۔ آپ نے میرا یہی انعام مقرر کیا تھا نا؟"
"پہلے بتاؤ ہوا کیا؟" ناجی نے بے تابی سے پوچھا۔
"جو آپ چاہتے تھے"۔ ذکوئی نے جواب دیا۔"آپ کو یہ کس نے بتایا تھا کہ ایوبی پتھر ہے، فولاد ہے اور وہ مسلمانوں کے اللہ کا سایہ ہے؟" اس نے زمین پر پاؤں کا ٹھڈ مارکرکہا۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس ریت سے زیادہ بے بس ہے جسے ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے اُڑاتے پھرتے ہیں"۔
"تمہارے حسن کے جادو اور زبان کے طلسم نے اسے ریت بنایا ہے"۔ ادروش نے کہا۔۔۔۔۔۔۔"ورنہ یہ کمبخت چٹان تھا"۔
"ہاں چٹان تھا" ۔ ذکوئی نے کہا۔"اب رتیلا ٹیلا بھی نہیں "۔
"میرے متعلق کوئی بات ہوئی تھی؟" ناجی نے پوچھا
"ہاں"۔ ذکوئی نے جواب دیا۔ "پوچھتا تھا کہ ناجی کیسا آدمی ہے، میں نے جواب دیا کہ مصر میں اگر کسی پر آپ کو اعتماد کرنا چاہئے تو وہ صرف ناجی ہے۔ اس نے پوچھا کہ تم کسی طرح اسے جانتی ہو؟۔ میں نے کہا وہ میرے باپ کے گہرے دوست ہیں۔ ہمارے گھر گئے تھے اور میرے باپ سے کہتے تھے کہ میں ایوبی کا غلام ہوں۔ مجھے سمندر میں کودنے کا حکم دیں گے تو کود جاؤں گا۔۔۔۔۔۔پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم باعصمت لڑکی ہو۔ میں نے کہا کہ میں آپ کی لونڈی ہوں۔ آپ کا ہرحکم سرآنکھوں پر ۔ کہنے لگا کہ کچھ دیر میرے پاس بیٹھو۔ میں اسکے پاس بیٹھ گئی۔ پھر وہ اگر پتھر تھا تو موم ہوگیا اور میں نے موم کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔اس سے رخصت ہونے لگی تو اس نے مجھ سے معافی مانگی ۔ کہنے لگا کہ میں نے زندگی میں پہلا گناہ کیا ہے۔ میں نے کہا ۔ یہ گناہ نہیں، آپ نے میرے ساتھ دھوکہ نہیں کیا، زبردستی نہیں کی، مجھے بادشاہوں کی طرح حکم دے کر نہیں بلایا۔ میں خود آئی تھی، پھر بھی آؤں گی"۔
لڑکی نے ہرایک بات کو اسطرح کھل کر سنایا کہ ناجی نے جوش مسرت میں اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ ادروش ذکوئی کو خراج تحسین اور ناجی کو مبارکباد پیش کرکے خیمے سے نکل گیا۔
قسط سات:
صحرا کی اس پراسرار رات کی کوکھ سے جس صبح نے جنم لیا ، وہ کسی بھی صحرائی صبح سے مختلف تو نہیں تھی مگر اس صبح کے اجالے نے اپنے تاریک سینے میں ایک راز چھپا لیا تھا۔ جس کی قیمت اس سلطنت اسلامیہ جتنی تھی، جس کے قیام اور استحکام کا خواب ایوبی نے دیکھا اور اسکی تعبیر کا عزم لے کر جوان ہوا تھا۔ گزشتہ رات اس صحرا میں جوواقعہ ہوا اس کے دو پہلو تھے ۔ ایک پہلو سے صرف ناجی اور ادروش واقف تھے۔ دوسرے پہلو سے صلاح الدین ایوبی کا محافظ دستہ واقف تھا، اور ایوبی ، اس کا سراغرساں اور جاسوس علی بن سفیان اور ذکوئی۔ تین ایسے افراد تھے جو اس واقعہ کے دونوں پہلوؤں سے واقف تھے۔
ایوبی اور اسکے سٹاف کو ناجی نے نہایت شان و شوکت اور عقیدتمندی سے رخصت کیا۔ سوڈانی فوج دورویہ کھڑی "صلاح الدین زندہ باد" کے نعرے لگا رہی تھی۔ ایوبی نے نعروں کے جواب میں بازو لہرائے، مسکرانے اور دیگر تکلفات کی پرواہ نہ کی۔ ناجی سے ہاتھ ملایا۔ اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ اس کے پیچھے اس کے محافظوں اور دیگر سٹاف کو بھی گھوڑے دوڑانے پڑے ۔ اپنے مزکزی دفتر پہنچ کر وہ علی بن سفیان اور اپنے ایک نائب کو اندر لے گیا اور دروازہ بند کرلیا۔ وہ سارا دن کمرے میں بند رہا۔ سورج غروب ہوا، رات تاریک ہوگئی، کمرے کے اندر کھانا تو درکنار پانی بھی نہیں گیا۔ رات خاصی گزر چکی تھی، جب تینوں باہر نکلے اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔
علی بن سفیان ان سے الگ ہوا تو محافظوں کے دستے کے کمانڈر نے اسے روک لیا اور کہا۔۔۔۔۔۔۔۔"محترم! ہمارا فرض ہے کہ حکم مانیں اور زبانیں بند رکھیں، لیکن میرے دستے میں ایک مایوسی اور بے اطمنانی پیدا ہوگئی ہے۔ خود میں بھی اس کا شکار ہورہا ہوں۔"
"کیسی مایوسی؟"
"محافظ کہتے ہیں کہ ایک فوج کو شراب پینے کی اجازت ہے تو ہمیں کیوں منع کیا گیا ہے؟" کمانڈر نے کہا۔۔۔۔۔۔ "اگر آ پ میری شکایت کو گستاخی سمجھیں تو سزا دے دیں لیکن میری شکایت سن لیں۔ ہم اپنے امیر کو خدا کا برگزیدہ انسان سمجھتے تھے اور اس پر دل و جان سے فدا تھے ، مگر رات۔۔۔۔۔۔۔"۔
"اس کے خیمے میں ای رقاصہ گئی تھی"۔ علی بن سفیان نے اسکی بات پوری کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔"تم نے کوئی گستاخی نہیں کی۔ گناہ امیر کرے یا غلام، سزا میں کوئی فرق نہیں۔ گناہ بہرحال گناہ ہے۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ رقاصہ اور امیر مصر کی خفیہ ملاقات کے ساتھ کوئی گناہ کا تعلق نہیں تھا۔ یہ کیا تھا؟ ابھی نہیں بتاؤں گا۔ آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تم سب کو معلوم ہوجائے گا کہ رات کیا ہوا تھا"۔ اس نے کمانڈر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"میری بات غور سے سنو عامر بن صالح! تم پرانے عسکری ہو۔ اچھی طرح جانتے ہو کہ فوج اور فوج کے سربراہوں کے کچھ راز ہوتے ہیں جن کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے۔ رقاصہ کا امیر مصر کے خیمے میں جانا بھی ایک راز ہے ۔ اپنے جانبازوں کو کسی شک میں نہ پڑنے دواور کسی سے ذکر تک نہ ہو کہ رات کیا ہو ا تھا"۔
علی بن سفیان کی قابلیت اور کارناموں سے یہ کمانڈر آگاہ تھا۔ مطمئن ہوگیا اور اس نے اپنے دستے کے شکوک رفع کردیئے۔
اگلے روز ایوبی دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ ناجی ملنے آیا ہے ۔ ایوبی کھانے سے فارغ ہوکر ناجی سے ملا۔ ناجی کا چہرہ بتا رہا تھا کہ گھبرایا ہوا ہے اور غصے میں بھی ہے ۔ اس نے ہکلانے کےلہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔"قابل صد احترام امیر! کیا یہ حکم آپ نے جاری کیا ہے کہ سوڈانی محافظ فوج کی پچاس ہزار نفری مصر کی اس فوج میں مدغم کردی جائے جو حال ہی میں تیار ہوئی ہے؟"
"ہاں ناجی" ایوبی نے تحمل سے جواب دیا ۔"میں نے کل سارا دن اور رات کا کچھ حصہ صرف کرکے اور بڑی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ تحریر کیا ہے کہ جس فوج کے تم سالار ہو اسے مصر کی فوج میں اسطرح مدغم کردیا جائے کہ ہردستے میں سوڈانیوں کی نفری صرف دس فیصد ہو اورتمہیں یہ حکم بھی مل چکا ہوگا کہ تم اب اس فوج کے سالار نہیں ہوگے۔ تم فوج کے مرکزی دفتر میں آجاؤ گے۔"
"عالی مقام!" ناجی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔"مجھے کس جر م کی سزا دی جارہی ہے؟"
"اگر تمہیں یہ فیصلہ پسند نہیں تو فوج سے الگ ہوجاؤ"۔ ایوبی نے کہا۔
"معلوم ہوتا ہے ، میرے خلاف سازش کی گئی ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناجی نے کہا۔ " آپ کے بلند دماغ اور گہری نظر کو چھان بین کرلینی چاہیئے ۔ مرکز میں میرے بہت سے دشمن ہیں"۔
"میرے دوست" ایوبی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔"میں نے یہ فیصلہ صرف اسلیئے کیا ہے کہ میری انتظامیہ اور فوج سے سازشوں کا خطرہ ہمیشہ کے لیئے نکل جائے اور میں نے یہ فیصلہ اس لیئے کیا ہے کہ فوج میں کسی کا عہدہ کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو اور کوئی کتنا ہی ادنیٰ کیوں نہ ہووہ شراب نہ پیے ، ہلڑ بازی نہ کرے، اور فوجی جشنوں میں ناچ گانے نہ ہوں"۔
"لیکن عالی جاہ!" ۔۔۔۔۔۔ میں نے حضور کی اجازت لی تھی۔
"اور میں نے شراب اور ناچ گانے کی اجازت صرف اسلیئے دی تھی کہ اس فوج کو اسکی اصل حالت میں دیکھ سکوں، جسے تم ملت اسلامیہ کی فوج کہتے ہو۔ میں پچاس ہزار نفری کو برطرف نہیں کرسکتا۔ مصری فوج میں اسے مدغم کرکے اسکے کردار کو سدھار دوں گا، اور یہ بھی سن لو کہ ہم میں کوئی مصری، سوڈانی، شامی ، اور عجمی نہیں ہے۔ ہم مسلمان ہیں ہمارا جھنڈا اور مذہب ایک ہے"۔
"امیر عالی مرتبت نے یہ تو سوچا ہوتا کہ میری حیثیت کیا رہ جائے گی؟"
"جس کے تم اہل ہو"۔ ایوبی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اپنے ماضی پر خود نگاہ ڈالو۔۔ضروری نہیں کہ اپنی کارستانیوں کی داستان مجھ سے سنو۔۔۔۔۔۔۔۔فوراً کاغذات تیار کرکے میرے نائب کے حوالے کردو۔ سات دن کے اندر اندر میرے حکم کی تعمیل مکمل ہوجائے"۔
ناجی کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن ایوبی ملاقات کے کمرے سے باہر نکل گیا۔
قسط آٹھ:
یہ بات ناجی کے خفیہ حرم میں بھی پہنچ گئی تھی کہ ذکوئی کو امیر مصر نے رات بھر کا شرف باریابی بخشا ہے۔ ذکوئی کے خلاف حسد کی آگ پہلے ہی پھیلی ہوئی تھی۔ اسے آئے ابھی بہت تھوڑا عرصہ گزرا تھا لیکن ناجی پہلے روز سے ہی اسے اپنے ساتھ رکھنے لگا تھا۔ اسے ذرا سی دیر کے لیئے بھی اپنے اس حرم میں نہیں جانے دیا جاتا تھا جہاں اسکی دلپسند ناچنے والی جوان لڑکیاں رہتی تھیں۔ ذکوئی کو اس نے الگ کمرہ دیا تھا۔ انہیں یہ تو معلوم نہ تھا کہ ناجی اسے ایوبی کو موم کرنے کی ٹریننگ دے رہا ہے، اور وہ کسی بہت بڑے تخریبی منصوبے پر کام کررہی ہے۔ یہ رقاصائیں یہ دیکھ کر جل بھن گئی تھیں کہ ذکوئی نے ناجی پر قبضہ کرلیا ہے اور اسکے دل میں انکے خلاف نفرت پیدا کردی ہے۔ حرم میں دولڑکیاں ذکوئی کو ٹھکانے لگانے کی سوچتی رہتی تھیں۔ اب انہوں نے دیکھا کہ ذکوئی کو امیر مصر نے بھی اتنا پسند کیا ہے کہ اسے رات بھر اپنے خیمے میں رکھا ہے تو وہ پاگل سی ہوگئیں ، اسے ٹھکانے لگانے کا واحد راستہ طریقہ قتل تھا۔ قتل کے دو ہی طریقے ہوسکتے تھے۔ زہر یا کرائے کا قاتل جو اسے سوتے میں قتل کرآئے۔ دونوں طریقے ممکن نہیں تھے کیونکہ ذکوئی باہر نہیں نکلتی تھی اور زہر دینے کے لیئے اس تک رسائی نہیںہوسکتی تھی۔
ان دونوں نے حرم کی سب سے چالاک ملازمہ کو اعتماد میں لے رکھا تھا۔ اسے انعام و اکرام دیتی رہتی تھیں، جب حسد کی انتہاء نے ان کی آنکھوں میں خون اتار دیا تو انہوں نے اس ملازمہ کو منہ مانگے انعام کا لالچ دے کر اپنا مدعا بیان کردیا۔ یہ ملازمہ بڑی خرانٹ اور منجھی ہوئی عورت تھی۔ اس نے کہا کہ سالار کی رہائش گاہ میں جاکر ذکوئی کو زہر دینا ممکن نہیں ۔ موقع محل دیکھ کراسے خنجر سے قتل کیا جاسکتا ہے۔ اسکے لیئے وقت چاہیئے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ ذکوئی کی نقل و حرکت پر نظر رکھے گی۔ ہوسکتا ہے کوئی موقع جلدی نکل آئے۔ اس جرائم پیشہ عورت نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی موقعہ نہ نکلا تو حشیشین کی مدد حاصل کی جائے گی مگر وہ معاوضہ بہت زیادہ لیتے ہیں۔ دونو ں لڑکیوں نے اسے یقین دلایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ دینے کو تیار ہیں۔
قسط 9
ناجی بے حد غصے کے عالم میں اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا ۔ ذکوئی اسے ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کرچکی تھی، لیکن اس کا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔
"آپ مجھے اس کے پاس جانے دیں" ذکوئی نے چوتھی بار کہا۔"میں اسے شیشے میں اتارلوں گی"۔
"بے کار ہے "۔ ناجی نے گرج کر کہا۔۔۔۔۔۔۔"وہ کمبخت حکم نامہ جاری کرچکا ہے، جس پر عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ مجھے اس نے کہیں کا نہیں رہنے دیا۔ اس پر تمہارا جادو نہیں چل سکا۔ مجھے معلوم ہے میرے خلاف یہ سازش کرنے والے لوگ کون ہیں۔ وہ میری ابھرتی ہوئی حیثیت سے حسد کرتے ہیں۔ میں امیر مصر بننے والاتھا۔ میں نے یہاں کےحکمرانوں پر حکومت کی ہے ، حالانکہ میں معمولی سا سالار تھا۔ اب میں سالار نہیںبھی نہیں رہا"۔ اس نے دربان کو اندر بلایا اور کہا کہ ادروش کو بلا لائے۔
اس کا ہمراز اور نائب ادروش آیا تو ناجی نے اس کے ساتھ بھی اس موضوع پر بات کی، اسے وہ کوئی نئی خبر نہیں سنا رہا تھا ۔ ادروش کے ساتھ وہ ایوبی کے نئے حکم نامے پر تفصیلی تبادلہ ء خیالات کرچکا تھا مگر دونوں اسکے خلاف کاروائی کا سوچ نہیں سکے تھے۔ اب اس کے دماغ میں ایک کاروائی آگئی تھی۔ اس نے ادروش سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔"میں نے جوابی کاروائی سوچ لی ہے"۔
"کیا؟"
"بغاوت" ۔ ناجی نے کہا ۔ ادروش چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ ناجی نے کہا ۔ "تم حیران ہوگئے ہو؟ کیا تمہیں شک ہے کہ یہ پچاس ہزار سوڈانی فوج ہماری وفادار نہیں ؟ کیا یہ ایوبی کی نسبت مجھے اور تمہیں اپنا حاکم اور بہی خواہ نہیں سمجھتی ؟ کیا تم فوج کو یہ کہہ کر بغاوت پر آمادہ نہیں کرسکتے کہ تمہیں مصریوں کا غلام بنایا جارہا ہے اور مصر تمہارا ہے؟"
ادروش نے گہری سانس لے کر کہا۔۔۔۔۔۔"میں نے اس اقدام پر غور نہیں کیا تھا۔ بغاوت کا انتظام ایک اشارے پر ہوسکتا ہے۔ لیکن مصر کی نئی فوج بغاوت کو دبا سکتی ہے، اور اس فوج کو کمک بھی مل سکتی ہے۔ حکومت سے ٹکر لینے سے پہلے ہمیں ہر پہلو پر غور کرلینا چاہیئے"۔
"میں غور کرچکا ہوں"۔ ناجی نے جواب دیا۔ "میں عیسائی بادشاہوں کو مدد کے لیئے بلا رہا ہوں۔ تم دو پیامبر تیار کرو۔ انہیں بہت دور جانا ہے۔ آؤ میری باتیں غور سے سن لو۔ ذکوئی تم اپنے کمرے میں چلی جاؤ"۔
ذکوئی اپنے کمرے میں چلی گئی اور وہ دونوں ساری رات اپنے کمرے میں بیٹھے رہے۔
قسط دہم:
ایوبی نے دونوں فوجوں کو مدغم کرنے کا وقت سات روز مقرر کیا تھا۔ کاغذی کاروائی تو ہوتی رہی۔ ناجی پوری طرح تعاون کرتا رہا۔ چارروز گزر چکے تھے۔ اس دوران ناجی ایک بار پھر سلطان سے ملا، لیکن اس نے کوئی شکایت نہیں کی۔ تفصیلی رپورٹ دے کر ایوبی کو مطمئن کردیا کہ ساتویں روز دونوں فوجیں ایک ہوجائیں گی۔ ایوبی کے نائبین نے بھی اسے یقین دلایا کہ ناجی دیانت داری سے تعاون کررہا ہے، مگر علی بن سفیان کی رپورٹ کسی حد تک پریشان کن تھی ۔ اس کی انٹیلی جنس سروس نے رپورٹ دی تھی کہ سوڈانی فوج کے سپاہیوں میں بے اطمنانی اور ابتری سے پائی جاتی ہے۔ وہ مصری فوج میں مدغم ہونے پر خوش نہیں ۔ ان کے درمیان یہ افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ مصری فوج میں مدغم ہوکر ان کی حیثیت غلاموں کی سی ہوجائے گی۔ انہیں مال غنیمت بھی نہیں ملے گا اور ان سے باربرداری کا کام لیا جائے گا۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہیں شراب نوشی کی اجازت نہیں ہوگی۔ علی بن سفیان نے یہ رپورٹیں ایوبی تک پہنچا دیں۔ ایوبی نے کہا۔ کہ یہ لوگ طویل مدت سے عیش کررہے ہیں۔ انہیں نئی تبدیلی یقیناً پسند نہیں آئے گی۔ مجھے امید ہے کہ وہ نئے حالات اور ماحول کے عادی ہوجائیں گے۔
"اس لڑکی سے ملاقات ہوئی یا نہیں ؟" ایوبی نے پوچھا۔
"نہیں"۔ علی نے جواب دیا۔ "اس سے ملاقات ممکن نظر نہیں آتی ، میرے آدمی ناکام ہوچکے ہیں۔ ناجی نے اسے قید کررکھا ہے"۔
اس سے اگلی رات کا واقعہ ہے ۔ رات ابھی ابھی بھیگی تھی ، ذکوئی اپنے کمرے میں تھی، ناجی ادروش کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔ اسے گھوڑے کے قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے پردہ ہٹا کر باہر دیکھا ۔ باہر کے چراغوں کی روشنی میں اسے دو گھوڑسوار گھوڑوں سے اترتے دکھائی دیئے۔ لباس سے وہ تاجر معلوم ہوتے تھے ، لیکن وہ گھوڑوں سے اتر کر ناجی کے کمرے کی طرف چلے تو ان کی چال بتاتی تھی کہ یہ تاجر نہیں ۔ اتنے میں ادروش باہر نکلا، دونوں سوار اسے دیکھ کر رک گئےاور ادروش کو سپاہیوں کے انداز میں سلام کیا۔ ادروش نے ان کے گرد گھوم کر ان کے لباس کا جائزہ لیا۔ پھر انہیں کہا کہ ہتھیار دکھاؤ۔ دونوں نے پھرتی سے چغے کھولے اور ہتھیار دکھائے۔ ان کے پاس چھوٹی تلواریں اورایک خنجر تھا۔ ادروش انہیں اندر لے گیا۔ دربان ایک طرف کھڑا تھا۔
ذکوئی گہری سوچ میں کھو گئی ۔ وہ کمرے سےنکلی اور ناجی کے کمرے کا رخ کیا مگر دربان نے اسے دروازے پر روک لیا کہ اسے حکم ملا ہے کہ کسی کو اندر نہ جانے دوں۔ ذکوئی کو وہاں ایسی حیثیت حاصل ہوگئی تھی کہ وہ کمانڈروں پر بھی حکم چلانے لگی تھی۔ دربان کے روکنے سے وہ سمجھ گئی کہ کوئی خاص بات ہے۔ اسے یاد آیا کہ دو راتیں پہلے ناجی نے اسکی موجودگی میں ادروش سے کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔"میں عیسائی بادشاہوں کو مدد کے لیئے بلا رہا ہوں۔ تم دو پیامبر تیار کرو۔ انہیں بہت دور جانا ہے"۔۔۔۔۔اور پھر اس نے ذکوئی کو اپنے کمرے میں جانے کو کہا تھا، اور اس نے بغاوت کی باتیں بھی کی تھیں۔
یہ سب کچھ سوچ کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ اس کے اور ناجی کے خاص کمرے کے درمیان ایک دروازہ تھا جو دوسرے طرف سے بند تھا ۔ اس نے اس دروازے کے ساتھ کان لگا دیئے۔ ادھر کی آوازیں دھیمی تھیں۔ اسے کوئی بات سمجھ نہ آسکی ، کچھ دیر بعد اسے ناجی کی بڑی صاف آواز سنائی دی۔ اس نے کہا۔ "آبادیوں سے دور رہنا، اگر کوئی شک میں پکڑنے کی کوشش کرے تو سب سے پہلے یہ پیغام غائب کرنا، جان پر کھیل جانا ، جو بھی راستے میں حائل ہو ، اسے ختم کردینا۔ تمہارا سفر چاردنوں کا ہے، تین دنوں میں پہنچنے کی کوشش کرنا۔ سمت یاد کرلو، شمال مشرق"۔
دونوں آدمی باہر نکلے ۔ ذکوئی بھی باہر آگئی ۔ اس نے دیکھا کہ وہ دونوں گھوڑوں پر سوار ہورہے تھے۔ ناجی اور ادروش بھی باہر کھڑے تھے۔ سواروں کو الوداع کہنے نکلے ہوں گے۔ سوار بہت تیزی سے روانہ ہوگئے۔ ناجی نے ذکوئی کو دیکھا تو اسے بلاکر کہا۔۔۔۔۔۔"میں باہر جارہا ہوں ، کام بہت ہے، تم آرام کرو، اگر اکیلے دل نہ لگے تو حرم میں گھوم پھر آنا"۔
"ہاں" ذکوئی نے کہا۔"جب سے آئی ہوں باہر نہیں نکلی"۔
ناجی اور ادروش چلے گئے۔ ذکوئی نے چغہ پہنا ۔ کمر بند میں خنجر اڑسا اور حرم کی طرف چل پڑی۔ وہ جگہ چند سو گز دور تھی۔ وہ ناجی پر یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ وہ حرم میں گئی تھی۔ دربان کو بھی اس نے یہی بتایا۔ حرم میں داخل ہوئی تو وہاں کی رہنے والیوں نے اسے حیران ہوکے دیکھا۔ وہ پہلی دفعہ وہاں گئی تھی۔ سب نے اسکا استقبال ، احترام اور پیار سےکیا۔ ان دولڑکیوں نے بھی اسے خوش آمدید کہا جو اسے قتل کرانا چاہتی تھیں۔ ذکوئی سب سے ملی۔ ہر ایک کے ساتھ باتیں کیں اور واپس چل پڑی۔ وہ خرانٹ ملازمہ بھی وہیں تھی جسے اسکے قتل کے لیئے کہا گیا تھا۔ اس نے ذکوئی کو بڑے غور سے دیکھا۔ ذکوئی باہر نکل گئی۔
حرم والے مکان اور ناجی کی رہائش گاہ کا درمیانی علاقہ اونچا نیچا تھا اور ویران۔ ذکوئی حرم سے نکلی تو ناجی کی رہائش گاہ کی طرف جانے کی بجائے بہت تیز تیز دوسری سمت چل پڑی ۔ ادھر ایک پگڈنڈی بھی تھی لیکن ذکوئی اس سے ذرا دور ہٹ کر جارہی تھی۔ اس سے پندرہ بیس قدم پیچھے ایک سیاہ سایہ چلا جارہا تھا۔ وہ کوئی انسان ہوسکتا تھا مگر سر سے پاؤں تک ایک لبادے میں لپٹا ہونے کی وجہ سے سیاہ بھوت لگتا تھا۔ ذکوئی کی رفتار تیز ہوئی تو اس بھوت نے اپنی رفتار اس سے بھی تیز کردی۔ آگے گھنی جھاڑیاں تھیں۔ ذکوئی ان میں روپوش ہوگئی۔ سیاہ بھوت بھی غاروں میں غائب ہوگیا۔ وہاں سے کوئی اڑھائی تین سو گز آگے ایوبی کی رہائش گاہ تھی۔ جس کے اردگرد فوج کے اعلیٰ رتبوں کے افراد رہتے تھے۔
ذکوئی کا رخ ادھر ہی تھا۔ وہ گھنی جھاڑیوں میں سے نکلی ہی تھی کہ بائیں طرف سے سیاہ بھوت اٹھا ۔ چاندنی بڑی صاف تھی۔ پھر بھی اسکا چہرہ نظر نہیں آتاتھا۔ اس کے پاؤں کی آہٹ بھی نہیں تھی۔ بھوت کا ہاتھ اوپر کو اٹھا۔ چاندنی میں خنجر چمکا اور بجلی کی سی تیزی سے خنجر ذکوئی کے بائیں کندھے اور گردن کے درمیان اتر گیا۔ ذکوئی کی چیخ نہیں نکلی ۔ خنجر اس کے کندھے سے نکل گیا۔ ذکوئی نے اتنا گہرا زخم کھا کربھی نہایت تیزی کے ساتھ اپنے کمربند سے خنجر نکالا۔ بھوت نے اس پر دوسرا وار کیا تو ذکوئی نے اس کے خنجر والے بازوکو اپنے بازو سے روک کر اپنا خنجر بھوت کے سینے میں گھونپ دیا۔ اسے چیخ سنائی دی جو کسی عورت کی تھی۔ ذکوئی نے اپنا خنجر کھینچ کر دوسرا وار کیا جو بھوت کے پیٹ میں اتر گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے اپنے پہلو میں خنجر لگا۔ لیکن زیادہ گہرا نہیں اترا۔ بھوت چکرا کر گرا۔
ذکوئی نے یہ نہیں دیکھا کہ اس پر حملہ کرنے والاکون تھا۔ اسکے جسم سے بہت تیزی سے خون بہہ رہا تھا۔ ایوبی کا مکان اسے چاندنی میں نظر آنے لگا۔ آدھا فاصلہ طے کرکے اسے چکر آنے لگے۔ اسکی رفتار سست ہونے لگی۔ اس نے چلانا شروع کریا۔ ۔۔۔۔۔۔"علی ، ایوبی،علی ایوبی" ۔ اس کے کپڑے لال سرخ ہوگئے تھےاور وہ بڑی مشکل سے قدم گھسیٹ رہی تھی۔ اس کی منزل تھوڑی ہی دور رہ گئی تھی جہاں تک پہنچنا اسکے لیئے ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ وہ مسلسل ایوبی اور علی کو پکارے جارہی تھی۔ قریب ہی کہیں ایک پہرے دار سنتری نے اس کی آوازیں سنیں تو وہ دوڑ کر پہنچا۔ ذکوئی اس پر گر پڑی۔ اور کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مجھے امیر مصر تک پہنچا دو۔ بہت جلدی ، بہت جلدی"۔ سنتری نے اس کا خون دیکھا تو اسے پیٹھ پر لاد کر دوڑ پڑا۔
صلاح الدین اپنے کمرے میں بیٹھا علی سفیان سے رپورٹ لے رہا تھا۔ اس کے دو نائب بھی موجود تھے۔ یہ رپورٹیں کچھ اچھی نہیں تھیں۔ علی بن سفیان نے بغاوت کے خدشے کا اظہار کیا تھا جس پر غور ہورہا تھا۔ دربان گھبراہٹ کے عالم میں اندر آیا اور بتایا کہ ایک سپاہی ایک زخمی لڑکی کو اٹھائے باہر کھڑا ہے۔ کہتا ہے یہ لڑکی امیر مصر سے ملنا چاہتی ہے۔ یہ سنتے ہی علی بن سفیان کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح کمرے سے نکل گیا۔ اسکے پیچھے ایوبی دوڑا۔ اتنے میں لڑکی کو اندر لے آئے۔ ایوبی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"طبیب اور جراح کو فوراً بلاؤ"۔ لڑکی کو ایوبی نے اپنے پلنگ پر لٹا دیا۔ ذرا سی دیر میں پلنگ پوش خون سے لال ہونے لگا۔
"کسی کو نہ بلاؤ"۔ لڑکی نے نحیف آواز میں کہا۔ "میں اپنا فرض ادا کرچکی ہوں"۔
"تمہیں کس نے زخمی کیا ذکوئی؟" علی نے پوچھا۔
"پہلے ضروری باتیں سن لو"۔ ذکوئی نے کہا ۔ "شمال مشرق کی طرف سوار دوڑا دو۔ دو سوار جاتے نظر آئیں گے۔ دونوں کے چغے بادامی رنگ کے ہیں ۔ ایک کا گھوڑا بادامی اور دوسرے کا سیاہ ہے۔ وہ تاجر لگتے ہیں، ان کے پاس سالار ناجی کا تحریری پیغام ہے جو عیسائی بادشاہ فرینک کو بھیجا گیا ہے۔ ناجی کی یہ سوڈانی فوج بغاوت کرے گی۔ مجھے اور کچھ بھی معلوم نہیں۔ تمہاری سلطنت سخت خطرے میں ہے۔ ان دوسواروں کو راستے میں پکڑ لو۔ تفصیل ان کے پاس ہے"۔ بولتے بولتے ذکوئی کو غشی آنے لگی ۔
دو طبیب آگئے۔ انہوں نے ذکوئی کا خون بند کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس کے منہ میں دوائیاں ڈالیں جن کے اثر سے وہ بولنے کے قابل ہوگئی۔ وہ ضروری پیغام دے چکی تھی۔ اسکے بعد اس نے دوسری ساری باتیں سنائیں۔ مثلاً ناجی نے ادروش کے ساتھ کیا باتیں کی تھیں۔ اسے کس طرح اپنے کمرے میں بھیج دیا گیا تھا۔ ناجی کا غصہ اور بھاگ دوڑ ۔ دوسواروں کا آنا وغیرہ ۔ پھر اس نے بتایا کہ اسے کچھ علم نہیں کہ اس پر حملہ کرنے والاکون تھا۔ وہ موقعہ موزوں دیکھ کر ادھر ہی رپورٹ دینے کے لیئے آرہی تھی کہ پیچھے سے کسی نے اسے خنجر گھونپ دیا۔ اس نے اپنا خنجر نکال کر حملہ آور پر حملہ کیا۔ حملہ آور کی چیخ بتاتی تھی کہ وہ کوئی عورت ہے۔ اس نے حملہ کی جگہ بتائی۔ اس وقت اس جگہ آدمی دوڑا دیئے گئے۔ ذکوئی نے کہا تھا کہ وہ زندہ نہیں ہوسکتی۔ اس کے خنجر اسکے سینے اور پیٹ میں لگے تھے۔
خون رک نہیں رہا تھا۔ زیاہ تر خون تو پہلے ہی بہہ گیا تھا۔ ذکوئی نے ایوبی کا ہاتھ پکڑا اور چوم کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔"اللہ آپ کو اور آپ کی سلطنت کو سلامت رکھے۔ آپ شکست نہیں کھاسکتے ۔ مجھ سے زیادہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ ایوبی کا ایمان کتنا پختہ ہے"۔ پھر اس نے علی بن سفیان سے کہا۔"میں نے کوتاہی تو نہیں کی؟ آپ نے جو فرض مجھے سونپا تھا، وہ میں نے پورا کردیا ہے"۔
"تم نے اس سے زیادہ پورا کیا ہے"۔ علی نے اسے کہا۔ "میرے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ناجی اس حد تک خطرناک کاروائی کرے گااور تمہیں اپنی جان کی قربانی دینی پڑے گی"۔ میں نے تمہیں صرف مخبری کے لیئے وہاں بھیجا تھا۔"۔
"کاش میں مسلمان ہوتی" ۔ ذکوئی نے کہا ۔ اس کے آنسو نکل آئے ۔ اس نے کہا ۔ "میرے اس کام کا جو بھی معاوضہ دینا ہے ، وہ میرے اندھے باپ اور سدا بیمار ماں کو دے دینا، ان کی معذوریوں نے مجھے بارہ سال کی عمر میں رقاصہ بنا دیا تھا"۔
ذکوئی کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ آنکھیں آدھی کھلی رہیں اور ہونٹ اس طرح نیم وا تھے جیسے مسکرا رہی ہو۔ طبیب نے نبض پر ہاتھ رکھا، اور ایوبی کی طرف دیکھ کر سرہلایا۔ ذکوئی کی روح اسکے زخمی جس سے آزاد ہوگئی تھی۔
سلطان ایوبی نے کہا۔۔۔۔۔۔"یہ کسی بھی مذہب کی تھی" اسے پورے احترام کے ساتھ دفن کرو۔ اس نے اسلام کے لیئے جان قربان کی ہے ۔ یہ ہمیں دھوکہ بھی دے سکتی تھی "۔
دربان نے بتایا کہ باہر ایک عورت کی لاش آئی ہے۔ جاکر دیکھا تو وہ ایک ادھیڑ عمر عورت کی لاش تھی۔ جائے وقوعہ سے دوخنجر ملے تھے۔ اس عورت کو کوئی نہیں پہچانتا تھا۔ یہ ناجی کے حرم کی ملازمہ تھی جس نے انعام کی لالچ میں ذکوئی پر قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ رات کو ہی ذکوئی کو فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کردیا گیا، اور ملازمہ کی لاش گڑھا کھود کر دفنا دی گئی۔ دونوں کو خفیہ طریقے سے دفنایا گیا۔ انہیں جب دفنایا جارہا تھا ، صلاح الدین نے نہایت اعلیٰ نسل کے آٹھ جوان گھوڑے منگوائے اور آٹھ سوار منتخب کرکے انہیں علی بن سفیان کی کمان میں ناجی کے ان دونوں آدمیوں کے پیچھے دوڑا دیا جو ناجی کا پیغام لے کے جارہے تھے۔
وہ ذکوئی جس کو ناجی نے سلطان کو گمراہ کرنے کی خاطر استعمال کیا تھا وہ خود سلطان کے اعلی ٰ کردار کی معترف ہوکر اسکے لیئے یہ سب کچھ کرگئی، اس کے مرنے سے کچھ عرصہ بعد اس مراکشی رقاصہ سے جو معاوضہ علی سفیان نے طے کیا تھا، ایوبی کی طرف سے انعام سمیت وہ رقم اس کے معذور والدین کو ادا کردی۔
موت کی اس رات کے ستارے ٹوٹ گئے ، اور صبح طلوع ہوئی تو علی سفیان آٹھ سواروں کے ساتھ انتہائی تیز رفتاری سے شمال مشرق کی طرف جارہا تھا۔ آبادیاں پیچھے رہ گئی تھیں۔ اسے معلوم تھا کہ فرینک کے ہیڈ کوارٹر تک پہنچے کا راستہ کونسا ہے۔ رات انہوں نے گھوڑوں کو تھوڑی دیر آرام دیا تھا۔ یہ عربی گھوڑے تھکے ہوئے بھی تازہ دم لگتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ دور افق پر کھجور کے چند ایک درختوں میں علی کو دوگھوڑے جاتے نظر آئے۔ اس نے اپنی پارٹی کو رستہ بدلنے اور اوٹ میں ہونے کے لیئے ٹیلوں کے ساتھ ساتھ ہوجانے کو کہا۔ وہ صحرا کا رازدان تھا۔بھٹکنے کا اندیشہ نہ تھا۔ اس نے رفتار اور تیز کردی۔ اگلے دو سواروں میں اور اس کی پارٹی میں کم وبیش چار میل کا فاصلہ تھا۔ یہ فاصلہ طے ہوگیا مگر گھوڑے تھک گئے۔ وہ جب کھجوروں کے درختوں تک پہنچے تو دوسوار کوئی دو میل دور مٹی کی ایک پہاڑی کے ساتھ ساتھ جارہے تھے ان کے گھوڑے بھی شاید تھک گئے تھے۔ دونوں سوار اترے اور نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
"وہ پہاری کی اوٹ میں بیٹھ گئے ہیں"۔ علی بن سفیان نے کہا اور راستہ بدل دیا۔
فاصلہ کم ہوتا گیا اور جب فاصلہ چند سو گز رہ گیا تو دونوں سوار اوٹ سے سامنے آئے۔ انہوں نے گھوڑوں کےسرپٹ دوڑنے کا شور سن لیا تھا۔ وہ دوڑ کر غائب ہوگئے۔ علی بن سفیان نے گھوڑے کو ایڑ لگائی ۔ تھکے ہوئے گھوڑے نے وفاداری کا ثبوت دیا اور رفتار تیز کردی۔ باقی گھوڑے بھی تیز ہوگئے۔ پہاڑی کے اندر گئے تو دونوں سوار وہاں سے جاچکے تھے ، مگر دور نہیں گئے تھے۔ وہ شاید گھبرا بھی گئے تھے۔ آگے ریتیلی چٹانیں تھیں۔ انہیں راستہ نہیں مل رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتے کبھی بائیںَ علی نے اپنے گھوڑے ایک صف میں پھیلا دیئے اور بھاگنے والوں سے ایکسوگز دور جاپہنچا۔
ایک تیر انداز نے دوڑتے گھوڑے سے تیر چلایا جو ایک گھوڑے کی اگلی ٹانگ میں لگا۔ گھوڑا بے قابو ہوگیا۔ تھوڑی سی اور بھاگ دوڑ کے بعد وہ دونوں گھیرے میں آگئے اور انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ انہوں نے جھوٹ بولا۔ اپنے آپ کو تاجر کہا، لیکن تلاشی لی تو پیغام مل گیا جو ناجی نے انہیں دیا تھا۔ دونوں کو حراست میں لے لیا گیا ۔ گھوڑوں کو آرام کا وقت دیا گیا اور یہ پارٹی واپس ہوئی۔
ایوبی بے تابی سے انتظار کررہا تھا۔ دن گزر گیا۔ رات بھی گزرتی جارہی تھی۔ آدھی رات گزر گئی۔ایوبی لیٹ گیا اور اسکی آنکھ لگ گئی۔ سحر کے وقت دروازے پر ہلکی سے دستک سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ دوڑ کر دروازہ کھولا، علی بن سفیان کھڑا تھا۔ اس کے پیچھے اس کے آٹھ سوار اور دو قیدی کھڑے تھے۔ علی اور قیدیوں کو ایوبی نے سونے کے کمرے میں ہی بلا لیا اور علی سے ناجی کا پیغام لے کر پڑھنے لگا۔ پہلے تو اس کے چہرے کا رنگ پیلا پڑگیا، پھر جیسے یکلخت خون جوش مارکر اسکے چہرے اور آنکھوںمیں چڑھ گیا ہو۔
ناجی کا پیغام خاصا طویل تھا، اس نے صلیبیوں کے ایک بادشاہ فرینک کو لکھا تھا کہ وہ فلاں دن فلاں وقت یونانیوں، رومیوں، اور دیگر صلیبیوں کی بحریہ سے بحیرہ روم کی طرف سے مصر میں فوجیں اتار کر حملہ کردے۔ حملے کی اطلاع ملتے ہی پچاس ہزار سوڈانی فوج امیر مصر کے خلاف بغاوت کردے گی۔ مصر کی نئی فوج حملے اور بغاوت کا بیک وقت مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے عوض ناجی نے تمام تر مصر یا مصر کے بڑے حصے کی حکمرانی کی شرط پیش کی تھی۔
ایوبی نے پیغام لے جانے والے دونوں سواروں کو قید میں ڈلوا دیا اور اسی وقت اپنی نئی فوج کا دستہ بھیج کر ناجی اور اسکے تین نائبوں کو ان کے مکانوں میں نظر بند کرکے پہرہ لگادیا۔ ناجی کے حرم کی تمام عورتیں آزاد کردی گئیں۔ اس کے ذاتی خزانے کو سرکاری خزانے میں ڈال دیا گیا۔ اور ساری کاروائی خفیہ رکھی گئی۔ صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان کی مدد سے ناجی کے اس خط میں جو پکڑ لیا گیا تھا، حملے کی تاریخ کو مٹا کر اگلی تاریخ لکھ دی۔ دو ذہین آدمیوں کو یہ پیغام دے کر شاہ فرینک کی طرف روانہ کردیا گیا۔ ان آدمیوں کو یہ ظاہر کرنا تھا کہ وہ ناجی کے پیامبر ہیں۔ انہیں روانہ کرکے اس سوڈانی فوج کو مصری فوج میں مدغم کرنے کا حکم روک لیا۔
آٹھویں روز پیامبر واپس آگئے۔ وہ ناجی کا پیغام دے آئے اور فرینک کا جواب (ناجی کے نام) لے آئے تھے۔ فرینک نے لکھا تھا کہ حملے کی تاریخ سےدودن پہلے سوڈانی فوج بغاوت کردے تاکہ صلاح الدین ایوبی کو صلیبیوں کا حملہ روکنے کی ہوش نہ رہے۔ علی نے ایوبی کی اجازت سے ان دو پیامبروں کو نظر بند کردیا۔ یہ باعزت نظر بندی تھی جس میں ان دونوں کے آرام اور بہترین خوراک وغیرہ کا خصوصی انتظام کیا تھا تھا۔ یہ ایک احتیاطی تدبیر تھی۔
صلاح الدین نے بحیرہ روم کے ساحل پر ان مقاما ت پر اپنی فوج کو چھپا دیا جہاں صلیبیوں کی بحریہ کو لنگر انداز ہونا تھا اور فوجیں اتارنی تھیں۔ اس نے ان مقامات سے دور اپنی بحریہ بھی چھپا دی۔ حملے میں ابھی کچھ دن باقی تھی۔ ایک مؤرخ سراج الدیین نے لکھا ہے کہ سوڈانی فوج نے صلیبیوں کے حملے سے پہلے ہی بغاوت کردی جو ایوبی نے طاقت سے نہیں بلکہ ڈپلومیسی اور حسن سلوک سے دبالی۔ بغاوت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ باغیوں کو اپنا سالار ناجی کہیں نظر نہیں آیا تھا۔ اور اس کا کوئی نائب بھی سامنے نہ آیا۔ وہ سب قید میں تھے ، مگر ایک مؤرخ ہیتاچی لکھتا ہے کہ سوڈانی فوج نے حملے کے بہت بعد بغاوت کی تھی۔ تاہم یہ مؤرخ باقی واقعات پر متفق نظر آتا ہے۔ دونوں نے لکھا ہے کہ ایوبی نے ناجی اور اسکے نائبین کو قیدمیں سزائے موت دے کر رات کے وقت گمنام قبروں میں دفن کرا دیا تھا۔
ان دونوں مؤرخوں اور تیسرے مؤرخ لین پول نے بھی صلیبیوں کی بحریہ کے اعداد و شمار ایک ہی جیسے لکھے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ خط میں دی گئی تاریخ کے عین مطابق صلیبیوں کی بحریہ جس میں فرینکی، یونانی، رومی، اور سسلی کی بحریہ شامل تھی، متحدہ کمان میں بحریہ روم میں نمودار ہوئی۔ مؤرخوں کے اعداد وشمار کے مطابق جنگی جہازوں کی تعداد ایکسو پچاس تھی۔ اسکے علاوہ بارہ جنگی جہاز بہت بڑے تھے۔ ان میں مصر میں اتارنے کے لیئے فوج تھی۔ اس فوج کا صلیبی کمانڈر ایملرک تھا۔ جن بادبانی کشتیوں میں رسد تھی، ان کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ جہاز دوقطاروں میں آرہے تھے۔
ایوبی نے دفاع کی کمان اپنے پاس رکھی۔ اس نے صلیبیوں کی بحریہ کو ساحل کے قریب آنے دیا۔ سب سے پہلے بڑے جہاز لنگر انداز ہوئے۔ اچانک ان پر آگ برسنے لگی۔ یہ منجنیقوں سے پھینکی ہوئی مشعلیں تھیں اور آگ کے گولے اور ایسے تیر بھی تھے جن کے پچھلے حصے جلتی ہوئی مشعلوں کی مانند تھے۔ مسلمانوں کی برسائی ہوئی اس آگ نے جہازوں اور کشتیوں کے بادبانو ں کو آگ لگا دی ۔ جہاز لکڑی کے بنے ہوئے تھے فوراً جل اٹھے۔ ادھر سے مسلمانوں کے چھپے ہوئے جہاز آگئے۔ انہوں نے بھی آگ ہی برسائی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے بحیرہ روم جل رہا ہو۔ صلیبیوں کےجہاز رخ موڑ کر ایک دوسرے سے ٹکرانے ، جلانے لگے۔ ان میں سے صلیبی فوج سمند ر میں کود گئی ۔ ان میں سے جو سپاہی ساحل کی طرف آئے، وہ سلطان ایوبی کے تیراندازوں کا نشانہ بنے۔
ادھر نورالدین زنگی نے شاہ فرینک کی سلطنت پر حملہ کردیا۔ فرینک نے اپنی فوج کو مصر میں داخل کرنے کے لیئے خشکی کے ذریعے روانہ کردیا تھا۔ فرینک صلیبیوں کی بحریہ کے ساتھ تھا۔ اسے اپنے ملک پر حملے کی اطلاع ملی تو بڑی مشکل سے جان بچا کر اپنے ملک پہنچا ، مگر وہاں کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔
بحیرہ روم میں صلیبیوں کا متحدہ بیڑہ نذرِ آتش ہوگیا اور فوج جل ڈوب کر ختم ہوگئی۔ صلیبیوں کا ایک کمانڈر ایملرک بچ گیا ۔ اس نے ہتھیار ڈال کر صلح کی درخواست کی جو بہت بڑی رقم کے عوض منظور کرلی گئی۔ یونانیوں اور سسلی والوں کے کچھ جہاز بچ گئے تھے۔ ایوبی نے انہیں اپنے جہاز واپس لے جانے کی اجازت دے دی مگر راستے میں ایسا طوفان آیا کہ تمام تر بچے کھچے جہاز غرق ہوگئے۔
۱۹ دسمبر ۱۱۶۹ ء کے روز صلیبیوں نے اپنی شکست پر دستخط کیئے اور صلاح الدین ایوبی کو تاوان ادا کیا۔
بیشتر مؤرخین اور ماہرین حرب و ضرب نے ایوبی کی اس فتح کا سہرا اسکی انٹیلی جنس سروس کے سر باندھا۔ رقاصہ ذکوئی کا ذکر اس دور کے ایک مراکشی وقائع نگار اسد الاسدی نے کیا ہے، اور علی بن سفیان کا تعارف بھی اسی وقائع نگار کی تحریر سے ہوا ہے۔
اختتام:
ماضی ہمیں ہمیشہ حال اور مستقبل کے بارے میں آگاہی دیتا ہے ،کیونکہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے ، ہاں شکلیں اور کردار بدل جاتے ہیں ۔ قوموں کی تاریخ کا علم اسی لیئے ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماضی میں جھانک کر اپنے آنے والے کل اور نسلوں کے لیئے مستقبل میں کچھ کرسکیں۔ بدقسمتی سے آج بھی ہمارے حکمران (ناجی ) ہی ہیں اور ان (ناجیوں) نے کہیں (ایان علی) توکہیں (گلنار بیگم) پال رکھی ہیں۔ یہ ان کے اسی گھناؤنے کردار کے وہ روپ ہیں جو تاریخ سے لاعلم شخص کے لیئے ایک عام سی بات آجکل کے دور میں ہوگی۔ مگر جو مذہب اور قوم کو سمجھتے ہیں ان کے لیئے اس میں بہت کچھ ہے حاصل کرنے کے لیئے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ مزید ایسے ہی واقعات کو اس انداز میں بیان کیا جاسکے۔
(مکاشفہ ایڈمن ٹیم)۔