Post by Admin on Aug 20, 2015 13:45:08 GMT
وحی کا لغوی اور اصطلاحی معنی
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں:۔
حدیث میں وحی کا بہ کثرت ذکر ہے، لکھنے، اشارہ کرنے، کسی کو بھیجنے، الہام اور کلامِ خفی پر وحی کا اطلاق کیا جاتا ہے۔
نہایہ ج 4 ص 163 مطبوعہ مؤسستہ مطبوعاتی ایران
علامہ مجد الدین فیروز آبادی لکھتے ہیں:۔
اشارہ، لکھنا، مکتوب،رسالۃ، الہام، کلام خفی، ہروہ چیز جس کو تم غیر کی طرف القاء کرو اسے اور آواز کو وحی کہتے ہیں۔
قاموس جلد 4 ص 579 مطبوعہ دارالاحیاء التراث العربی بیروت
علامہ زبیدی لکھتے ہیں:۔
وحی اس کلام کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کی طرف نازل فرماتا ہے۔ ابن الانباری نے کہا اس کو وحی اس لیئے کہتے ہیں کہ فرشتہ اس کلام کو لوگوں سے مخفی رکھتا ہے، اور وحی نبی کے ساتھ مخصوص ہے جس کو لوگوں کی طرف بھیجا جاتا ہے، لوگ ایک دوسرے سے جو خفیہ بات کرتے ہیں وہ وحی کا اصل معنی ہے، قرآن مجید میں ہے؛۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا
ترجمہ۔
اور اس طرح ہم نے سرکش انسانوں اور جنوں کو ہرنبی کا دشمن بنادیا جو خفیہ طور سے ملمع کی ہوئی جھوٹی بات (لوگوں کو) دھوکا دینے کے لیئے ایکدوسرے کو پہنچاتے ہیں۔ سورۃ الانعام 112
اور ابواسحٰق نے کہا ہے کہ وحی کا لغت میں معنی ہے خفیہ طریقہ سے خبر دینا، اسی وجہ سے الہام کو وحی کہتے ہیں، ازہری نے کہا ہے اسی طرح سے اشارہ کرنے اور لکھنے کو بھی وحی کہتے ہیں۔ اشارہ کے متعلق یہ آیت ہے؛۔
فَخَرَجَ عَلٰي قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓى اِلَيْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّعَشِـيًّا
ترجمہ؛۔
سو زکریا اپنی قوم کے سامنے (عبادت کے) حجرہ سے باہر نکلے، پس ان کی طرف اشارہ کیا کہ تم صبح اور شام (اللہ کی) تسبیح کیا کرو۔ سورہ مریم آیت 11
اور انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جو خفیہ طریقہ سے کلام کیا گیا اس کے متعلق ارشاد فرمایا؛۔
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَاۗءُ ۔ سورہ الشوری: 51
ترجمہ؛۔
اور کوئی بشر اس لائق نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے، مگر وحی سے یا پردے کے پیچھے سے ، یا کوئی فرشتہ بھیج دے جو اس کے حکم سے وہ پہنچائے جو اللہ چاہے۔
بشر کی طرف وحی کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بشر کو خفیہ طور سے کسی چیز کی خبر کردے، یا الہام کے ذریعہ، یا خواب کے ذریعہ، یا اس پر کوئی کتاب نازل فرمائے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کتاب نازل کی تھی، یا جس طرح سیدنا سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا، اور یہ سب اعلام (خبر دینا) ہیں، اگرچہ ان کے اسباب مختلف ہیں۔
تاج العروس ج 10 ص 385 مطبوعہ الخیریۃ
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں؛۔
وحی کا اصل معنی سرعت کے ساتھ اشارہ کرنا ہے، یہ اشارہ کبھی رمز اور تعریض کے ساتھ کلام میں ہوتا ہے، اور کبھی محض آواز سے ہوتا ہے، کبھی اعضاء اور جوارح سے ہوتا ہے اور کبھی لکھنے سے ہوتا ے، جو کلمات انبیاء اور اولیاء کی طرف القاء کیئے جاتے ہیں ان کو بھی وحی کہا جاتا ہے، یہ القاء کبھی فرشتہ کے واسطے سے ہوتا ہے، جو دکھائی دیتا ہے اور اس کا کلام سنائی دیتا ہے، جیسے حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی خاص شکل میں آتے تھے۔ اور کبھی کسی کے دکھائی بغیر کلام سنا جاتا ہے، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا، اور کبھی دل میں کوئی بات ڈال دی جاتی ہے۔ جیسے حدیث میں ہے جبریل نے میرے دل میں بات ڈال دی، اس کو نفث فی الروع کہتے ہیں اور کبھی یہ القاء اور الہام کے ذریعہ ہوتا ہے جیسے اس آیت میں ہے۔
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْهِ ۔ سورہ القصص 7
ترجمہ ؛ اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام فرمایا کہ ان کو دودھ پلاؤ۔
اور کبھی یہ القاء تسخیر ہوتا ہے جیسے اس آیت میں ہے؛۔
وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ ۔سورہ النحل 68
ترجمہ؛۔
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ ڈالا کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور ان چھپریوں میں گھر بنا جنہیں لوگ اونچا بناتے ہیں۔
اور کبھی خواب میں القاء کیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے نبوت منقطع ہوگئی ہے اور سچے خواب باقی رہ گئے ہیں۔
المفردات ص 515/516 مطبوعہ ایران
علامہ ابن منظور افریقی نے بھی وحی کا معنی بیان کرتے ہوئے کم وبیش یہی لکھا ہے۔ بحوالہ لسان العرب
علامہ بدر الدین عینی نے وحی کا اصطلاحی معنی یہ لکھا ہے؛
اللہ کے نبیوں میں سے کسی نی پر جو کلام نازل کیا جاتا ہے وہ وحی ہے۔
عمدۃ القاری ج 1 ص 14 مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر
اور علامہ تفتازانی نے الہام کا معنی یہ بیان کیا ہے؛۔
دل میں بہ طریق فیضان کسی معنی کو ڈالنا یہ الہام ہے۔
شرح عقائد نسفی
ضرورت وحی اور ثبوت وحی؛۔
انسان مدنی الطبع ہے اور مل جل کر رہتا ہے اور ہرانسان کو اپنی زندگی گزارنے کے لیئے خوراک، کپڑوں اور مکان کی ضرورت ہوتی ہے اور افزائیش نسل کے لیئے نکاح کی ضرورت ہے ۔ ان چار چیزوں کے حصول کے لیئے اگر کوئی قانون اور ضابطہ نہ ہو تو ہرزورآور اپنی ضرورت کی چیزیں طاقت کے ذریعہ کمزور سے حاصل کرلے گا۔ اس لیئے عدل و انصاف کو قائم کرنے کی غرض سے کسی قانون کی ضرورت ہے، اور یہ قانون اگر کسی انسان نے بنایا تو وہ اس قانون میں اپنے تحفظات اور اپنے مفادات شامل کرے گا، اسلیئے یہ قانون مافوق الانسان کا بنایا ہوا ہونا چاہیئے تاکہ اس میں کسی جانب داری کا شائبہ اور وہم و گمان نہ ہو، اور ایسا قانون صرف خدا کا بنایا ہوا قانون ہوسکتا ہے۔ جس کا علم خدا کے بتلانے اور اس کے خبر دینے سے ہی ہوسکتا ہے اور اسی کا نام وحی ہے۔
انسان عقل سے خدا کے وجود کو معلوم کرسکتا ہے ، عقل سے خدا کی وحدانیت کو بھی جان سکتا ہے، قیامت کے قائم ہونے، حشر ونشر اور جزا وسزا کو بھی عقل سے معلوم کرسکتا ہے۔ لیکن وہ عقل سے اللہ تعالیٰ کے مفصل احکام کو معلوم نہیں کرسکتا، وہ عقل سے یہ جان سکتا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرنا اچھی بات ہے اور ناشکری بری بات ہے لیکن وہ عقل سے یہ نہیں جان سکتا کہ اس کا شکر کس طرح ادا کیا جائے، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے خبر دینے سے ہی ہوگا اور اسی کا نام وحی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں عبث اور بے مقصد نہیں بھیجا بلکہ اسلیئے بھیجا ہے کہ وہ اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور حقوق اور فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اسکی دی ہوئی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرے۔ برے کاموں اور بری خصلتوں سے بچے اور اچھے کام اور نیک خصلتیں اپنائے، اور اللہ تعالیٰ کی عبادات کیا کیا ہیں؟ اور وہ کس طرح ادا کی جائیں۔ وہ کون سے کام ہیں جن سے بچا جائے اور وہ کون سے کام ہیں جن کو کیا جائے۔ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے بتلانے اور خبر دینے سے ہی ہوسکتا ہے اور اسی کانام وحی ہے۔
انسان کو بنیادی طور پر کھانے پینے کی اشیاء ، کپڑوں اور مکان کی حاجت ہے اور اپنی نسل بڑھانے کے لیئے ازدواج کی ضرورت ہے، لیکن اگر کسی قاعدہ اور ضابطہ کے بغیر ان چیزوں کو حاصل کیا جائے تو یہ نری حیوانیت ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقہ سے ان کو حاصل کیا جائے تو یہ محض عبادت ہے اور اس قاعدہ اور ضابطہ کا علم اللہ تعالیٰ کے بتلانے اور اسکی خبر دینے سے ہی ہوسکتا ہے اور اسی کا نام وحی ہے۔
بعض چیزوں کو ہم حواس کے ذریعہ جان لیتے ہیں جیسے رنگ، آواز اور ذائقہ کو، اور بعض چیزوں کو عقل سے جان لیتے ہیں جیسے دو اور دو کا مجموعہ چار ہے یا مصنوع کے وجود سے صانع کے وجود کو جان لیتے ہیں، لیکن کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کو حواس سے جانا جاسکتا ہے نہ عقل سے مثلاً نماز کا طریقہ کیا ہے، کتنے ایام کے روزے فرض ہیں، زکوٰۃ کی کیا مقدار ہے،اورکس چیز کا کھانا حلال ہے اور کس چیز کا کھانا حرام ہے۔ غرض عبادات اور معاملات کے کسی شعبہ کو ہم حواس ِ خمسہ اور عقل کے ذریعہ نہیں جان سکتے ، اس کو جاننے کا صرف ایک ذریعہ ہے اور وہ ہے وحی!۔
بعض اوقات حواس غلطی کرتے ہیں مثلاً ریل میں بیٹھے ہوئے شخص کو درخت دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اور بخار زدہ شخص کو میٹی چیز کڑوی معلوم ہوتی ہے اور حواس کی غلطیوں پر عقل تنبیہہ کرتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات عقل بھی غلطی کرتی ہے مثلاً عقل یہ کہتی ہے کہ کسی ضرورت مند کو مال نہ دیا جائے ، مال کو صرف اپنے مستقبل کے لیئے بچا کے رکھا جائے اور جس طرح حواس کی غلطیوں پر متنبہ کرنے کے لیئے عقل کی ضرورت ہے، اسی طرح عقل کی غلطیوں پر متنبہ کرنے کے لیئے وحی کی ضرورت ہے۔
وحی کی تعریف میں ہم نے یہ ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ،نبی کو جو چیز بتاتا ہے وہ وحی ہے، اور نبوت کا ثبوت معجزات سے ہوتا ہے، اب یہ بات بحث طلب ہے کہ وحی کے ثبوت کے لیئے نبوت کیوں ضروری ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر نبوت کے بغیر وحی کا ثبوت ممکن ہوتا تو اس دنیا کا نظام فاسد ہوجاتا، مثلاً ایک شخص کسی کو قتل کردیتا اورکہتا مجھ پر وحی اتری تھی کہ اس شخص وک قتل کردو۔ ایک شخص بہ زور کسی کا مال اپنے قبضۃ میں کرلیتا اور کہتا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی تھی کہ اس کے مال پر قبضہ کرلو، اس لیئے ہرکس و ناکس کے لیئے یہ جائز نہیں کہ وہ وحی کا دعویٰ کرے۔ وحی کا دعویٰ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے منصب نبوت پر فائز کیا ہو۔ لہٰذا وحی کا دعویٰ صرف نبی ہی کرسکتا ہے اور نبوت کا دعویٰ تب ثابت ہوگا جب وہ اس کے ثبوت میں معجزات پیش کرے گا۔
ایک سوال یہ ہے کہ جب نبی کے پاس فرشتہ وحی لے کر آتا ہے تو نبی کو کیسے یقین ہوتا ہے کہ یہ فرشتہ ہے اور یہ اللہ کا کلام لے کر آیا ہے، امام رازی نے اسکا یہ جواب دیا ہے کہ فرشتہ نبی کے سامنے اپنے فرشتہ ہونے اور حامل وحی ء الٰہی ہونے پر معجزہ پیش کرتا ہے، اور امام غزالی کی بعض عبارات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کو ایسی صفت عطا فرماتا ہے جس سے وہ جن، فرشتہ اور شیطان کو الگ الگ پہچانتا ہے جیسے ہم انسانوں، جانوروں اور نباتات وجمادات کو الگ الگ پہچانتے ہیں کیونکہ ہماری رسائی صرف عالمِ شہادت تک ہے اور نبی کی پہنچ عالم شہادت میں بھی ہے اور عالمِ غیب میں بھی ہے۔
وحی کی اقسام؛۔
بنیادی طور پر وحی کی دو قسمیں ہیں وحی متلو اور وحی غیر متلو۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر الفاظ اور معانی کا نزول ہوتو یہ وحی متلو ہے اور یہی قرآن مجید ہے، اور اگر آپ پر صرف معانی نازل کیئے جائیں اور آپ ان معانی کو اپنے الفاظ سے تعبیر کریں تو یہی وحیء غیرمتلو ہے اور اس کو حدیثِ نبوی کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی کی متعدد صورتیں ہیں جن کا احادیث ِ صحیحہ میں بیان کیا گیا ہے۔
امام بخاری روایت کرتے ہیں؛۔
حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور کہا یا رسول اللہ! آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبھی کبھی وحی گھنٹی کی آواز کی طرح (مسلسل) آتی ہے۔ اور یہ مجھ پر بہت شدید ہوتی ہے۔ یہ وحی (جب) منقطع ہوتی ہے تو میں اس کو یاد کرچکا ہوتا ہوں، اور کبھی میرے پاس فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے، وہ مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو کچھ وہ کہتا جاتا ہے میں اس کو یاد کرتا جاتا ہوں ۔ حضرت عائشہ نے کہا میں نے دیکھا کہ سخت سردی کے دنوں میں آپ پر وحی نازل ہوتی اور جس وقت وحی ختم ہوتی تھی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا تھا۔
صحیح بخاری جلد 1 ص 2 مطبوعہ کراچی
اس حدیث پر یہ سوال ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول وحی کی صرف دو صورتیں بیان کی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
علامہ بدرالدین عینی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عادتِ جاریہ یہ ہے کہ قائل اور سامع میں کوئی مناسبت ہونی چاہیئے تاکہ ان میں تعلیم اور تعلم، افادہ اور استفادہ متحقق ہوسکے اوریہ اتصاف یا تواس طرح ہوگا کہ سامع پر قائل کی صفت کا غلبہ ہو اور وہ قائل کی صفت کے ساتھ متصف ہوجائے اور صلصلۃ الجرس (گھنٹی کی آواز) سے یہی پہلی قسم مراد ہے، اور یا قائل سامع کی صفت کے ساتھ متصف ہوجائے اور یہ دوسری قسم ہے جس میں فرشتہ انسانی شکل میں متشکل ہوکر آپ سے کلام کرتا تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی پہلی قسم کی تشبیہہ گھنٹی کی آواز کے ساتھ دی ہے، جس کی آواز مسلسل سنائی دیتی ہے اور اس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا، اس میں آپ نے یہ متنبہ کیا ہے کہ جس وقت یہ وحی قلب پر نازل ہوتی ہے تو آپ کے قلب پر خطاب کی ہیبت طاری ہوتی ہے اور وہ قول آپ کو حاصل ہوجاتا ہے لیکن اس قول کے ثقل کی وجہ سے اس وقت آپ کو اس کا پتا نہیں چلتا اور جب اس کے جلال کی ہیبت زائل ہوجاتی ہے تو پھر آپ کو اس کا علم ہوتا ہے، اور وحی کی یہ قسم ایسی ہے جیسے ملائکہ پر وحی نازل ہوتی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی امر کافیصلہ کرتا ہے تو فرشتے عاجزی سے اپنے پروں کو جھڑجھڑاتے ہیں جیسے پتھر پر زنجیر ماری جائے اور جب ان کے دلوں سے وہ ہیبت زائل ہوتی ہے تو وہ آپس میں کہتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں حق فرمایا اور وہ عظیم اور کبیر ہے، اور اس حدیث میں ہم پر یہ ظاہر ہوا ہے کہ وحی کی پہلی قسم دوسری سے شدید ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت بشری سے فرشتہ کی حالت کی طرف منتقل ہوتےتھے پھر آپ پر اس طرح وحی کی جاتی تھی جس طرح فرشتوں پر وحی کی جاتی ہے، اور یہ آپ کے لیئے مشکل تھا اور دوسری قسم میں فرشتہ انسانی شکل میں آتا تھا اور یہ قسم آپ کے لیئے آسان تھی۔
عمدۃ القاری جلد 1 ص 44 ۔مطبوعہ مصر
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ گھنٹی کی آواز میں ہرچند کہ عام لوگوں کے لیئے کوئی معنی اور پیغام نہیں ہوتا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے اس آواز میں کوئی معنی اور پیغام ہوتا تھا جیسا کہ اس ترقی یافتہ دور میں ہم دیکھتے ہیں جب ٹیلی گرام دینے کا عمل کیا جاتا ہے تو ایک طرف سے صرف ٹک ٹک کی آواز ہوتی ہے اور دوسری طرف اس سے پورے پورے جملے بنالیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ ہوسکتا ہے کہ وحی کی یہ آواز بہ ظاہر صرف گھنٹی کی مسلسل ٹن ٹن کی طرح ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیئے اس میں پورے پورے فصیح وبلیغ جملے موجود ہوں۔
علامہ بدرالدین عینی نے نزول وحی کی حسبِ ذیل اقسام بیان کی ہیں؛۔
۱۔ کلام قدیم کو سننا جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا، جس کا ذکر آثار صحیحہ میں ہے۔
۲۔ فرشتہ کی رسالت کے واسطہ سے وحی کا موصول ہونا۔
۳۔ وحی کو دل میں القاء کیاجائے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، روح القدس نے میرے دل میں القاء کیا۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف اسی طرح وحی کی جاتی تھی، اور انبیاء علیہم السلام کے غیر کے لیئے جو وحی کا لفظ بولا جاتا ہے وہ الہام یا تسخیر کے معنی میں ہوتا ہے۔
علامہ سہیلی نے الروض الانف میں نزول وحی کی یہ سات سورتیں بیان کی ہیں
ا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند میں کوئی واقعہ دکھایا جائے۔
۲۔گھنٹی کی آواز کی شکل میں آپ کے پاس وحی آئے۔
۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں کوئی معنی القاء کیا جائے۔
۴۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ انسانی شکل میں آئے اور حضرت جبریل علیہ السلام آپ کے پاس حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آئیں، حضرت دحیہ کلبی کی شکل میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ حسین ترین شخص تھے، حتیٰ کہ وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈال کر چلا کرتے تھے، مبادا عورتیں ان کو دیکھ کر فتنہ میں مبتلا ہوں۔
۵۔ حضرت جبریل آپ کے پاس اپنی اصلی صورت میں آئیں اس صورت میں ان کے چھ سو پر تھے جن سے موتی اور یاقوت جھڑتے تھے۔
۶۔ اللہ تعالیٰ آپ سے یاتو بیداری میں پردہ کی اوٹ میں ہم کلام ہو جیسا کہ معراج کی شب ہوا، یا نیند میں ہم کلام ہو، جیسے جامع ترمذی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے پاس حسین صورت میں آیا اور فرمایا ملاء اعلیٰ کس چیز میں بحث کررہے ہیں۔
۷۔ اسرافیل علیہ السلام کی وحی، کیونکہ شعبی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت اسرافیل کے سپرد کیا گیا تھا اور وہ تین سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے رہے، اور وہ آپ کے پاس وحی لاتے تھے، پھر آپ کو حضرت جبریل علیہ السلام کے سپرد کردیا گیا، اور مسند احمد میں سند صحیح کے ساتھ ثعبی سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث کیا گیا اور تین سال تک آپ کی نبوت کے ساتھ حضرت اسرافیل علیہ السلام رہے اور وہ آپ کو بعض کلمات اور بعض چیزوں کی خبر دیتے تھے، اس وقت تک آپ پر قرآن مجید نازل نہیں ہوا تھا اور جب تین سال گزر گئے تو پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ کے پاس رہے پھر بیس سال آپ پر آپ کی زبان میں قرآن مجید نازل ہوا، دس سال مکہ میں اور دس سال مدینہ میں اور تریسٹھ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا۔ البتہ واقدی وغیرہ نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے علاوہ آپ کو اور کسی فرشتہ کے سپرد نہیں کیا گیا۔
عمدۃ القاری ، مصر
more scans below
Qamoos al-Faz-al Quran-al-Kareem.
al-Mukhtar min Siha'ayal-Lugha
[Scans Drive Link Click]
Qamoos al-Faz-al Quran-al-Kareem.
al-Mukhtar min Siha'ayal-Lugha
معجم مقابیس اللغۃ، امام ابی الحسین احمد بن فارس بن زکریا ، جو کہ لغات کے مشہور ترین اماموں میں سے سمجھے جاتے ہیں، نے بھی وحی کے بعینہہ وہی معنی درج کیئے ہیں جو کہ اوپر بیان ہوچکے ہیں تفصیل کے ساتھ۔
مقابیس اللغتہ ، لابی الحسین احمد بن فارس بن زکریا (متوفی ۳۹۵-۰۰۰ ج سادس ،دارالفکر بيروت ص ۹۳
مقابیس اللغتہ ، لابی الحسین احمد بن فارس بن زکریا (متوفی ۳۹۵-۰۰۰ ج سادس ،دارالفکر بيروت ص ۹۳
[Scans Drive Link Click]