|
Post by zarbehaq on Jun 21, 2016 18:50:40 GMT
Scans Library Update: 21-June-2016
|
|
|
Post by zarbehaq on Jul 3, 2016 18:13:42 GMT
Scans Library Updated: Sun-July-3 -2016:
|
|
|
Post by zarbehaq on Jul 22, 2016 12:16:13 GMT
Scans Library Update: 22nd July - Friday- 2016
صحابہ کرام کا ایکدوسرے سے (توسل،مدد، استعانت) مانگنا بارش کے لیئے۔ یعنی غیراللہ سے مدد کوئی کفر شرک بدعت نہیں۔ ایک بار پھر حدیثِ استسقا کے ثبوت۔ سیدنا عمر ؓ کا سیدنا عباسؓ سے توسل، اور حضرت معاویہؓ کا حضرت یزید بن الاسودؓ کا وسیلہ پیش کرنا۔
بحوالہ۔ خلاصۃ البدرالمنیرفی تخریج الاحادیث والآثار الواقعۃ ۔ت۔امام الشیخ الکبیر ابی القاسم الرافعیؒ۔تالیف۔ حافظ سرالدین عمر بن علی بن الملقن۔تحقیق۔ حمدی عبدالمجید بن اسماعیل السلفی۔جز۱۔ ص۲۵۲ رقم الاحادیث۔ ۸۷۲،۸۷۳۔مکتبۃ الرشد ریاض
|
|
|
Post by zarbehaq on Jul 25, 2016 9:54:10 GMT
Tawasul (Intercession) of Prophet Sal Allaho Alehi Wasalam is Hukm Of Quran
.
Surah al Nisa Verse 64 Under the Meaning of Wastaghfirlahumul Rasool, (and the Prophet ALSO INTERCEDE FOR them), Pp 206, Marah-ul-Labayd Likashf Maani al Quran al Majeed Vol 1, Allama Sheikh Muhammad bin Umar Nowvi al Jawi. DarulKutub al Ilmiya
رکھتا ہے۔ نیز یہ مخلوق کے احوال پر نامزد ہوتے ہیں اپنے زمانہ کے سب سے اکمل ترین انسان ۔احوالِ خلق پر واقف ہوتے ہیں۔ نیز ان کے متعدد درجات پر امام ابن عابدینؒ نے احادیث کے مطابق دلائل بیان فرمائے ہیں۔ اجابۃ الغوث ببیانِ حال۔ مکتبۃ القاھرہ دمشق
صفحات ۲۹ و ۳۰
خوارج کے ایک بھونڈے اعتراض کا جوابِ اہلسنت
ہم اکثر امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی ایک مشہور حدیثِ عباس رضی اللہ عنہ پیش کیا کرتے ہیں کہ جس میں وہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ پیش کرتے ہیں حدیث کے الفاظ یہ ہیں (سکینز پرانی پوسٹس یا مکاشفہ سکینز لائبریری) سے دیکھے جاسکتے ہین۔
انا کنا نتوسل الیک بنبینا۔۔۔۔۔۔۔۔ الیٰ فیسقر
ترجمہ؛۔ الٰہی ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے بارش مانگتے تھے تو بارش بھیجتا تھا اور اب ان کے چچا کے وسیلے سے بارش مانگ رہےہیں ۔ بارش بھیج، پس بارش آتی تھی۔
صحیح بخاری حدیث الاستسقا باب سوال الناس الامام الاستسقا اذاقحطوا ۔ج ۱ ص ۳۴۲ رقم الحدیث ۹۶۳ مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت
اعتراضِ خوارج ۔ معلوم ہوا کہ وفات یافتہ بزرگوں کا وسیلہ پکڑنا منع ہے زندوں کا وسیلہ پکڑنا جائز۔ دیکھو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ پکڑا۔ حضور علیہ السلام کا وسیلہ جھوڑ دیا۔
نوٹ؛ یہ ان خوارج کا بیان ہوتا ہے جو زندہ بزرگوں کے وسیلے کے قائل ہیں یعنی جیسے دیوبندی بھی۔ لیکن وفات یافتہ کے وسیلہ کے منکر ہیں۔ نیز ایک مسلمہ بہن نے بھی ان کی طرف سے اس حدیث پر یہ اعتراض کیا تھا جسکا ان کوجواب بتا دیا گیا تھا ۔ آج تفصیل کے ساتھ یہاں پر ذکر کیا جارہا ہے تاکہ سب اس کو نوٹ کرلیں اپنے پاس۔
جواباتِ اہلسنت وجماعت؛۔
اسکے دو جواب ہیں ایک الزامی اور ایک تحقیقی
الزامی جواب تو یہ ہے کہ اگر وفات یافتہ بزرگوں کا وسیلہ پکڑنا منع ہے تو چاہیئے کہ حضور کی وفات کے بعد کلمہ شریف میں سے نبی کا اسم شریف علحدہ کردیا جاتا۔ صرف لا الٰہ الا اللہ رکھتا جاتا۔ اور التحیات میں حضور علیہ السلام کو سلام بند کردیا جاتا۔ درود شریف ختم کردیا جاتا۔ کیونکہ یہ سب نبی کریم علیہ السلام سے وسیلہ ہی تو ہیں۔ حالانکہ یہ سارے کام باقی رہ گئے۔ معلوم ہوا کہ وسیلہ مصطفٰی علیہ التحیہ والثنا بعدِ وفات بھی ویسے ہی ہے۔ اور ہم پہلے بھی ہہ واضح کرچکے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان ، حضور اقدس علیہ السلام کے بال شریف ، اور لباس مبارک دھو کر بیماروں کو پلاتے اور صحت ہوتی۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بارش کے لیئے روضہ اطہر کی چھت میں کھڑکی بھی کروائی اور کھلوائی۔ قبر شریف کھول دی اور بارش آئی ۔ قرآن پاک فرماتا رہا ہے کہ نبی سے پہلے والی امتیں نبی علیہ السلام کے اسم شریف کے وسیلہ سے دعائیں مانگتی تھیں واکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا۔ قرآن معظم فرماتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کی نعلیں شریف (جوتیاں مبارکہ)، ٹوپی مبارکہ کی طفیل فتح حاصل کی جاتی تھی۔ فیہ بقیۃ مما نرک ال موسی وال ھرون تحملہ الملٰئکۃ
موسی علیہ السلام نے اپنی وفات کے بعد مسلمانوں کی امداد فرمائی کہ پچاس نمازوں کی پانچ کرادیں بتاو یہ وفات یافتہ بزرگوں کا وسیلہ ہے کہ نہیں؟
نیز جب نبی علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ان کے اسم مبارک کے وسیلے سے دعائیں مقبول ہوتی تھیں تو کیا اب ان کے اسم شریف کی تاثیر بدل گئی ہے؟ ہرگز نہیں
دوسرا تحقیقی جواب یہ ہے کہ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا فرمان یہ بتا رہا ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کے صدقہ سے ان کے اولیا کا بھی وسیلہ جائز ہے۔ یعنی وسیلہ نبی سے خاص نہیں ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نبی نہ تھے ولی تھے۔ نیز معلوم ہورہا ہے کہ جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہوجائے اس کا بھی وسیلہ جائز ہے کیونکہ وہ فرماتے ہیں
وانا نتوسل الیک بعم نبینا
یعنی ہم اپنے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا کے وسیلہ سے بارش مانگتے ہیں
کسی سلف نے وہ معنی نہیں نکالے جو فرقہ جہالت نے نکالے ہیں اگر کسی نے اس حدیث کی یہ اعتراض والی تشریح کی ہو تو بمع سکین ثبوت پیش کیا جائے۔
اسی حدیث کی شرح میں امام قسطلانی شرح بخاری میں فرماتے ہیں ای بوسلیۃ الرحیم التی بینہ وبین النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یعنی ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے اسلیئے دعا کی کہ ان کو نبی علیہ السلام سے قربت تھی۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی حدیث سے وسیلہ اولیاٗ ثابت کیا ہے۔ چنانچہ وہ شرح حصن حصین میں آداب الدعا وسلیہ اولیا کے تحت فرماتے ہیں
قصہ استسقا عمر ابن الخطاب العباس ابن عبدالمطلب ازیں باب است۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے بارش مانگنا اسی وسیلہ اولیا سے ہے
اسی حصن حصین کی شرح میں اسی مقام پر امام ملا علی قاری الھروی المکی الحنفی رحمتہ اللہ الباری فرماتے ہیں
وھو من المندوبات وفی صحیح البخاری فی الستسقاء حدیث عمر انا کنا نتوسل الیک نبینا صلی اللہ علیہ وسلم وانا نتوسل الیک بعم نبیک فاسقنا فلیسقو والحدیث عثمان بن حنیف فی شان الاعمیٰ۔
ترجمہ؛۔ یعنی دعا میں انبیاء و اولیاء کا وسیلہ پکڑنا مستحب ہے بخاری کی اس روایت کی وجہ سے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بوسیلہ عباس رضی اللہ عنہ کی اور حضرت عثمان بن حُنیف رضی اللہ عنہ کی روایت کی وجہ سے نابینا کی دعا میں۔
ہاں اگر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ یہ فرماتے کہ مولا اب تک ہم تیرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے اب ان کی وفات کے بعد ان کا وسیلہ چھوڑ دیا۔ اب حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے طفیل دعا کرتے ہیں تب خؤارج کی دلیل درست ہوتی مگر نفی کا ذکر کہیں بھی نہیں ۔ لہٰذا خوارج کا اعتراض باطل ٹھہرتا ہے۔ اور انبیاء واولیاء کا وسیلہ عین شریعتِ اسلام وسنت ِ رسول و سنتِ صحابہ وہ تابعین و اسلاف سلف وخلف ہے۔ اور خوارج اسی لیئے اسلام سے باہر ہیں کیونکہ وہ صحیح حدیث، نصِ قرآنی کے منکر ہیں ، نیز اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور تمام صالح بندگانِ خدا۔ اور شہداء وغیرہ تو سب کے سب زندہ ہیں یہی قرآنی حکم اور سلف کا ایمان ہے۔ پھر توسل پر چٰیں بہ چیں ہونا فقط جہالت ہے
مزید جوابات از ایڈمن احمرخان
قرآن مجید میں جن آیات سے وسیلہ جائز ہے ان میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ وفات کے بعد وسیلہ ناجائز ہے۔ بلکہ تمام علماء کرام جن آیات سے حیات ظاہری میں توسل اور وسیلہ ثابت کرتے ہیں ان سے بعض از وصال بھی وسیلہ جائز ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر 64 کے تحت حیات ظاہر اور بعد از وصال دونوں طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو وسیلہ بنانا جائز اور مستحسن ہے۔
امام ابن کثیر جو کہ مستند اور معتبر امام گزرے ہیں اور وہ حدیث پاک اور قرآن مجید سے بھی استدلال کرتے تھے۔ وہ سورۃ النساء
کی آیت نمبر 64 کے تحت فرماتے ہیں۔
يرشد تعالیٰ العصاة والمذنبين اذا وقع منهم الخطاء والعصيان ان ياتوا الی الرسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فيستغفروا الله عنده ويسالوه ان يغفرلهم فانهم اذا فعلوا ذالک تاب الله عليهم و رحمهم وغفرلهم.
(ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، ج : 1، ص : 520)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ عاصیوں اور خطا کاروں کو ارشاد فرما رہا ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ سرزد ہو جائیں تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر (یعنی انکی قبر انور کے پاس) اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لیے دعا کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔
پھر فرماتے ہیں :
وقد ذکر جماعة منهم الشيخ ابو منصور الصباغ فی کتابه الشامل الحکاية المشهورة عن العتبی : قال کنت جالسا علی قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم فجاء اعرابی، فقال : السلام عليک يارسول الله سمعت الله يقول وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاo (النسآء ، 4 : 64) وقد جئتک مستغفرا لذنبی مستشفعابک الی ربي.
فرماتے ہیں ابو منصور صباغ اپنی کتاب الشامل میں حکایت مشہورہ ذکر کرتے ہیں کہ عتبی بیان کرتے ہیں کہ میں قبر انور کے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا کہ السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے سنا کہ کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
(اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo) میں آپ کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوں اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتا ہوا حاضر ہوا ہوں۔ عتبی کا بیان ہے کہ پھر وہ اعرابی چلا گیا اور مجھے نیند آ گئی میں نے خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے فرمایا عتبی جاؤ اس اعرابی دیہاتی کو خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ معاف فرما دیے ہیں۔
یہ واقعہ درج ذیل کتب میں مذکور ہے۔
بيهقی شعيب الايمان، ج : 3، ص : 495
ابن قدامه، المغنی، ج : 3، ص : 557
نووي، کتاب الاذکار، ج : 3، ص : 92
امام سبکی، شفا الستقام فی زيارة خير الانام، ص : 47. 46
اس کے علاوہ تمام مذاہب کے بڑے بڑے علما نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔
حدیث میں آتا ہے
قحط اهل المدينه قحطاً شديداً فشکوا الی عائشة، فقالت انظر قبر النبی صلی الله عليه وآله وسلم فاجعلوا منه کووا الی السماء حتی لا يکون بينه و بين السماء سقف ققال ففعلو فمطروا مطراً حتی نبت العشب، و سمنت الابل حتی تفتقت من الشهم فسمی عام الفتق.
(دارمی، السنن، ج : 1، ص : 43، الرقم : 93)
ایک مرتبہ مدینہ پاک میں سخت قحط پڑ گیا انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی آپ نے فرمایا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر کے پاس جاؤ اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ روای کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ محسوس ہوتا تھا جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہذا اس سال کا نام ہی عام الفتق رکھا دیا گیا۔
اختتام پوائنٹس ایڈمن۔
مزیدثبوت اسی باب میں از (ضربِ حق)۔
امیر المومنین غیض المنافقین ،سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مشہور (حدیثِ ساریہ) کہ جس سے نہ صرف آپکی کرامت پتہ چلتی ہے کہ حضرت ساریہ جو کہ مقام نہاوند (عجم) میں واقعہ تھا، آپ نے مسلم افواج کو بچایا ، صدا دے کر مدد کی، اور جواب میں گواہی ٗ صحابہ کہ جو اس جہاد میں تھے انہوں نے باقاعدہ آپ کی آواز سنی بھی اور جواب بھی دیا۔ نیز یہ بھی کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ (یعنی ایک غیراللہ کی دوسرے غیراللہ کی مدد) (کفر شرک بدعت نہیں ) بلکہ عین اسلام ہے اور یہ اللہ ہی کی عطا سے ہے۔ ثبوت از۔الصواعق المحرقۃ علی اھل الرفض الضلال والزندقۃ۔ امام ابی العباس احمد بن محمد بن علی ابن حجر الھیثمی (متوفیٰ ۹۷۳ھ)۔جز۱۔ باب الکرامات۔فصل السابع۔ص۲۹۳ اور ۲۹۴دارالوطن۔ریاض
اس روایت سے متعلق محدثین کی آراء .
أنَّ عمرَ وجَّهَ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يقال له : ( ساريةُ ) ، قال : فبينما عمرُ يخطبُ ، فجعل يُنادي : يا ساريةُ الجبلَ ، يا ساريةُ الجبلَ ( ثلاثًا ) ، ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ ؟ فقال : يا أميرَ المؤمنين ! هُزِمْنَا ، فبينما نحنُ كذلك إذ سمعنا مناديًا : يا ساريةُ الجبلَ ( ثلاثًا ) ، فأسنَدْنا ظُهورنا بالجبلِ ، فهزمَهُمُ اللهُ . قال : فقيل لعمرَ : إنك كنتَ تصيحُ بذلكَ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: الآيات البينات - الصفحة أو الرقم: 93
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد حسن
فجعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدِم رسولُ الجيشِ فسأله عمرُ فقال : يا أميرَ المؤمنين هُزِمْنا فبينما نحن كذلك إذ سمعْنا مناديًا يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندْنا ظهورَنا بالجبلِ فهزمَهم اللهُ قال : فقيل لعمرَ : إنك كنت تصيحُ بذلك
الراوي: - المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 3/101
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد حسن
عن ابنِ عمرَ قال وجَّهَ عمرُ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يُدعى ساريةَ فبينا عمرُ يخطبُ جعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ فقال يا أميرَ المؤمنين هُزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتًا يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندنا ظهْرَنا إلى الجبلِ فهزمَهُمُ اللهُ تعالَى قال قيل لعمرَ إنك كنتَ تصيحُ بذلك
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: الإصابة - الصفحة أو الرقم: 2/3
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
وجَّهَ عُمَرُ جَيشًا , وولَّى عليهِمْ رجُلًا يُدعَى سارِيةَ و فَبَينا عُمرُ يَخطُبُ جَعلَ يُنادي يا سارِيَةُ الجبَلَ ثلاثًا ثُمَّ قدِمَ رسولُ الجيشِ فسألَهُ عُمرُ , فقال يا أميرَ المؤمنينَ هُزِمنا فبينا نَحنُ كذلِكَ إذ سمِعنا صوتًا ينادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا , فأسنَدنا ظَهرَنا إلى الجبَلِ فهزَمَهُم اللَّهُ , قال فقيلَ لعُمَرَ إنَّكَ كنتَ تَصيحُ هكَذا
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: العجلوني - المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 2/515
خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
أنَّ عُمرَ وجَّهَ جيشًا ورَأَّسَ عليهِمْ رَجلًا يقالُ لهُ سارِيةُ قال فبينما عُمَرُ يخطُبُ فجعَلَ ينادي يا سارِيَ الجبلَ يا سارِيَ الجبلَ ثلاثًا ثمَّ قَدِمَ رسولُ الجيشِ فسأَلهُ عُمرُ فقال يا أميرَ المؤمنينَ هُزِمنا فبينما نحنُ كذلِكَ إذ سَمِعنا مُنادِيًا يا سارِيةَ الجبَلَ ثلاثًا فأسندنَا ظُهورَنا بالجبَلِ فهزَمَهُمُ اللَّهُ قال فقيل لِعُمَرَ إنَّكَ كُنتَ تَصيحُ بِذلِكَ
الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 7/135
خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد حسن
عن عمرَ أنه قالَ في خطبتِه يومَ الجمعةِ : يا ساريةَ الجبلَ الجبلَ . فالتفتَ الناسُ بعضُهم لبعضٍ فلم يفهموا مرادَه ، فلما قضى الصلاةَ ، قال له عليٌّ : ما هذا الذي قلتَه ؟ قال : وسمعتُه ؟ قال : نعم وكلُّ أهلِ المسجدِ ، قالَ : وقعَ في خلدي أن المشركين هزموا إخوانَنا وركبوا أكتافَهم وهم يمرون بجبلٍ فإن عدلوا إليه قاتلوا من وجدوا وظفروا وإن جازوا هلكوا فخرجَ مني هذا الكلامُ . فجاءَ البشيرُ بعد شهرٍ فذكرَ أنهم سمعوا في ذلك اليومِ وتلك الساعةِ حين جاوزوا الجبلَ صوتًا يشبهُ صوتَ عمرَ ، قالَ : فعدلْنا إليه ففتحَ اللهُ
الراوي: - المحدث: ابن الملقن - المصدر: الإعلام - الصفحة أو الرقم: 1/144
خلاصة حكم المحدث: إسناده كل رواته ثقات
|
|
|
Post by zarbehaq on Jul 26, 2016 13:00:26 GMT
Scans Library Updated & Hanafi.Sunni Page update:
Read (Urdu/Pashto/English) with References Here
Narrated by Syaduna Ali (Rd) :“The Abdal are in Syria, and they are 40 men. Whenever one of them dies, Allah substitutes another in his place. By means of them, Allah brings down the rain, gives victory over enemies, and diverts punishment from the people of Syria". Ahadith Muallata Pp 308 DarulAathaar LilNashr wa Tawzee. Hadith 333
حضرت سیدنا امیرالمومنین علی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ابدال شام میں ہیں، اور وہ ۴۰ (کی تعداد) میں ہیں۔جب ان میں سے کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اللہ اسکی جگہ دوسرا نافذ فرمادیتا ہے ۔ صرف انہیں کی وجہ (توسل، برکت، مدد) سے اللہ بارش برساتا ہے، دشمنوں پر فتح عطا فرماتا ہے، اور اہل شام پر سے عذاب ہٹاتا ہے۔ (احادیث معلۃ، صفحہ ۳۰۸ رقم الحدیث، ۳۳۳۔ دارالآثار للنشر والتوزیع)
حضرت علي رضي الله عنه نه روايت کيږې چه ابدال په ملک شام کښ دې او هغو تعداد ۴۰ دي.چه کله هغو ترمنږه يو وفات شې ڼو الله ده هغي متبادل نافذ کړې (هغي په ځائ) ، ده دې (ابدال) ترمخه (يعني توسل مدد او وسيلے سره) الله پاک بارانونه ورئي او په دښمن باندې فتح ورکوې، او دې اهل شام نه عذاب لري کوې. حواله؛.احاديث معلته،پانړه ۳۰۸ دارالآثارللنشر والتوزيع.حديث درجه صحيح
Further References: This Authentic Hadith is narrated by many other narrations here are few:
Musnad Ahmed 1: 112 #854 and Fadhail e Sahaba Hadith 1675
Diya al Maqdisi in al Mukhtara (2:110)
Ibne Asaakir in Tarikh-e-Damishq (1:289/296)
Hakim Tirdhmi in Nawadir-al-Usul (Asl H_222)
Muhammad Ibne Haadi in Fada'il al Sham Pg 43 H 15
Shurayh narrated from Miqdad, who is older than Ali (Rd).
Imam Munawi in his Fayd al Qadir
Imam Haythami (10:62 / H 16671)
Sakhawi al Imam- in his - Maqasid (H 8)
Imam Suyuti Jamyus Saghir Hadith 3035 and said its Hasan and it has over ten routes of transmission from Ali (Rd) as stated by Imam Manawi.
Narration narrated by Anas (Rd). is similar to this hadith, with a saying of Qatada who said: We do not doubt that Hasan al-Basri is one of them. Tabrani in Mujam al Awsat (4: 247 Hadith 101) and al-Kabir (10:224 Hadith 10390) also Imam Suyuti in Hawi lil Fatawi (2:247). Imam Abu Nuaym (marifatas Sahaba Number 4013) , Imam Ibne Hibban in his Tarikh from Abu Huraiyra, and Ibne Asakir (1:298), Imam ad-Dinawari in his al-Mujalasa from Qatada. See Majma-z-zawaid (10/63 H 16675) of haythami. Hadith-e-Hasan
Same like hadith with words of 30 Abdals are been recorded in these books.
Imam Ahmed (5/322 H 21689)
Tabrani (M.Kabir), Ibne Asakir in his tarikh (1:292)
Hakim at Tirmizi In his Nawadir (Asl 51)
Ibne Kathir (Tafsir of Quran 2: 251)
Imam Daylami (Firdaws, 5: 232 Hadith 7714)
Abu Nuaym in his Akhbaar Asbahan (1:180)
al Khallal in his Karamat-al-Awliya
Imam Haythami in His Majma-uz-zawaid 10-64/ hadith 16672
Suyuti in His Jamyus Saghir hadith 3032/3033.
Imam Munawi and other said it is Sahih
امام بدرالدین عینی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ۔حدیثِ استسقا کے باب کی شرح میں لکھتے ہیں کہ قحط سالی وغیرہ میں امام کے ساتھ ضعفا، مقتدا، اور صاحبانِ ورع وتقویٰ و زہد کے وسیلے سے بارش کی دعا مانگتے ہیں کیونکہ ان کی اس صفتِ دعا کی قبولیت کی زیادہ اجابت ہوتی ہے۔شرح سنن ابی داود للعینی۔ جلد۴ ص ۲۲ مکتبۃ الرشد ریاض۔
لوگوں کو آج تک جھوٹی تبلیغ بیچ کر دکانداری کرنے والے خوارج اور ان کے اندھے پیروکار متوجہ ہوں۔ آج تک تبلیغیوں وہابیوں کے منہ سے سادہ لوح مسلمان کو یہی سننے کو ملتا رہا کہ (اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیئے لفظ (یا) ) کا استعمال کیا تو تم یا تو کفرمشرک ہوجاتے ہو اور یا پھر بدعتی بریلوی وغیرہ۔
حالانکہ یہ صحیح حدیث وہ بھی صحائح ستہ سے ان کے منہ پر ایک ایسا تھپڑ ہے کہ جس کی گونج میں ان کے تبلیغی مندروں کی گھنٹی کی آوازیں دب جاتی ہیں اور اسلام کھل کران کے بے دینیت کا اظہار کردیتا ہے۔ ملاحظہ کریں ایک اور مشہور حدیث اور اس پر سلف کی شرح۔ و ثبوت ان کی اپنی چھاپی کتاب سے
نابینا صحابی حضرت سیدنا عثمان بن حُنیفؓ کی مشہور حدیثِ توسل کہ جس میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اپنا اسمِ گرامی باقاعدہ (یا) کے ساتھ (یامحمد) کہہ کر اللہ سے اپنے توسل ، مدد استعانت کی تعلیم ارشاد فرمائی، اور اسکی شرح میں سلف کا قول کہ یہ جواز ہے (یا کہہ کر پکارنے کا)۔ امام ابو اسحٰق کے قول کے مطابق یہ حدیثِ صحیح ہے۔
نوٹ: کسی سلف یا خلف نے تاریخ ء اسلام میں اس پر (کفر شرک بدعت) کے فتوے نہیں چھاپے سوائے تیمیہ ، ابن عبدالوہاب نجدی، قادیانی، چکڑالوی، نیچری، مودودی، دیوبندیوں، اسماعیل گنگوہیوں کے چاہنے والوں کے۔ جبکہ ابن تیمیہ تک نے اس حدیث کی تصدیق کررکھی ہے۔
بحوالہ۔ شرح السندی علیٰ سنن ابن ماجہ۔ بحاشیۃ تعلیقات مصباح الزجاجۃ فی زوائد ابن ماجہ للامام البوصیری۔دارالمعرفۃ بیروت۔المعجم ۔ اقامۃ الصلاۃ۔تحفۃ الصلاۃک۳ ب ۲۲۸،۲۲۹ صفحات۔ ۱۵۶ و۱۵۷
حضرت عبدالمطلب کے مشہور اشعارِ توسل۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک چہرہ وجہِ نزول بارانِ رحمت ہے۔توسل ِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر شرح سنن ابن ماجۃ القزوینی اور امام ابی الحسن الحنفی السندی کا اس پر ثقاہت کی مہر۔ جز الاول ۔صفحہ ۳۸۵ باب الاستسقاء۔ط۔دارالجیل بیروت
|
|
|
Post by zarbehaq on Jul 27, 2016 13:32:17 GMT
Scans Library Updates: Wed- July 27-2016
امام طبرانی ، باب ۱۶۰ میں باقاعدہ ہیڈنگ کے ساتھ لکھ رہے ہیں کہ صالحین کے ساتھ استسقا مانگنے کا باب۔
اسی میں وہ مشہور احادیث پیش کی ہیں جو ہم متعدد بار بطور ریفرنس دے چکے ہیں کہ جس میں صحابہ کرام یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے توسل سے بارش کی دعا مانگی اور وہ مقبول ہوئی فوراً۔ اسی کے چند اور حوالے اس کتاب سے حاضر ہیں، نیز نیچے حدیث نمبر ۹۶۶ میں شھر بن حوشب سے حدیث روایت کی گئی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اور حدیث نمبر ۹۶۷ میں عن زھری سے روایت ہے کہ سیلمان بن داود علیہ السلام دونوں نے صالح بندگانِ خدا کے (وسیلے مدد اور استعانت) کے ذریعے دعائیں مانگیں
|
|
|
Post by zarbehaq on Jul 27, 2016 16:48:09 GMT
Scans Library Update: 27-July-2016
شانِ اویس قرنی اور عمر رضی اللہ عنہ کا بحکم نبی ان سے امت کی مغفرت و شفاعت کرانے کی دعا والی مشہور حدیث۔ کتاب الرقۃ والبکاء۔ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامۃ المقدسی ص ۲۷۱ و ۲۷۱ دارالقلم دمشق
حضرت ِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا بزمانِ قحط ، ایک صحابی حضرت یزید بن الاسود رضی اللہ عنہ کا وسیلہ پکار کر اللہ کے حضور پیش کرنا ۔ الفاظ عربی میں ملاحظہ فرمائیں۔
حوالہ؛۔ الرقۃ والبُکاٗ ۔ تالیف۔ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامۃ المقدسی ۔ صفحہ ۲۸۵۔ دارالقلم دمشق
|
|
|
Post by zarbehaq on Jul 28, 2016 19:49:10 GMT
Scans Library Update: Fri - July - 29 - 2016
Tawasul Proofs:
Tawasul (Intercession) of Moses (alehisalam) by his People during a draught.
Tawasul (Intercession) Proven from Sulaiman bin Da'woud Alehsialam.
Tawasul (Intecession) of the pious ones and elders as belief of Salaf.
Ref:
Hawi-al-Kabir Fi Fiqh Madhabil Imam al Shafie (Rd). Wa Hua Sharah Mukhtasar al Mazni
Writer: Imam Abi al Hasan Ali bin Muhammad b. Habib al Maawardi al Basari
Chapter: Salatul Istisqa Page 515/516 Darulkutub al Elmiya
Tawasul and Mukhatariyat of Prophet alehisalam's Proof:
1) Ikhtiyar -e Mustafa (alehi tahaiyya wa Tsanaa) Hadith of Hawaalaina walaa Alaina
2) Famous Stanza about Tawasul by Syaduna Ameerul Momineen Ali bin Abi Taalib (rd).
3) Another Poetry on Tawasul
4) Prophet alehisalam's Happiness and approval of that.
5) Famous Hadith of Syaduna Ameerul Momineen Umar (Rd) using Intercession of Syaduna Abbas (Rd) - Uncle of Holy Prophet alehisalam.
6) Proof by Poetry of Hasaan bin Saabit (Rd).
7) Salaf's Beleif of Tawasul
Ref:
Haawi al Kabir - Imam Maawardi Vol 2 Pages 514/515 - Salatul Istisqa Chapter. Darul Kutub al Ilmiya
امام ماوردی الشافعی۔ کتاب الحج، فصل زیارت قبر النبی علیہ السلام میں ، نبی کریم علیہ السلام سے مدد ، توسل، استعانت پر قرآن ، حدیث اور سلف کی دلیل دے رہے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں ۔ حوالہ :۔ الحاوی الکبری فی فقہ مذہب الامام شافعی وھو شرح مختصر المزنی۔ ج ۴ ص۔۲۱۴، ۲۱۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت
|
|
|
Post by Admin on Aug 5, 2016 17:44:41 GMT
Scan Library Update: 5/7/2016
|
|
|
Post by zarbehaq on Aug 6, 2016 8:25:48 GMT
Scans Library Update: Sat-Aug-6-2016 Saying Yaa Rasul Allah Madad From Authentic Mutafiq Alaih Agreed Upon Hadith from Bukhari Sharif
Arabic Text:
حَدَّثَنَا ابواليمان ْحَکَمُ بْنُ نَافِعٍ قال أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ قال حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ هُرْمُزَ الْأَعْرَجَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأْتِي الْإِبِلُ عَلَی صَاحِبِهَا عَلَی خَيْرِ مَا کَانَتْ إِذَا هُوَ لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَأْتِي الْغَنَمُ عَلَی صَاحِبِهَا عَلَی خَيْرِ مَا کَانَتْ إِذَا لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَقَالَ وَمِنْ حَقِّهَا أَنْ تُحْلَبَ عَلَی الْمَائِ قَالَ وَلَا يَأْتِي أَحَدُکُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِشَاةٍ يَحْمِلُهَا عَلَی رَقَبَتِهِ لَهَا يُعَارٌ فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ فَأَقُولُ لَا أَمْلِکُ لَکَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ وَلَا يَأْتِي بِبَعِيرٍ يَحْمِلُهُ عَلَی رَقَبَتِهِ لَهُ رُغَائٌ فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ فَأَقُولُ لَا أَمْلِکُ لَکَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ
Urdu Translation:.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خطبہ سنانے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت میں خیانت کا ذکر فرمایا اور اسے برا سخت گناہ قراردیا اور اسکے معاملہ کو بہت سنگین ظاہر کیا پھر فرمایا میں تم سے کسی شخص کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پاؤں کہ اسکی گردن پر بکری سوال ہو اور وہ ممیا رہی ہو یا اسکی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو پھر وہ شخص کہے کہ یارسول اللہ میری فریاد رسی فرمائیئے (یعنی اعثنی رسول اللہ)۔ اور میں کہہ دوں کہ میں تیرے لئے کچھ اختیار نہیں رکھتا کیونکہ مین تو تجھے اللہ کا پیغام پہنچا چکا ہوں اور یا اسکی گردن پر اونٹ بلبلا رہا ہو اور وہ شخص کہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ میں اب کوئی اختیار نہیں رکھتا میں نے تو تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یا اسکی گردن پر سونے چاندی جیسا خاموش مال ہو اور وہ شخص کہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری فریادرسی کیجئے اور میں کہہ دوں کہ میں اب کوئی اختیار نہیں رکھتا میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے اور یا اس کی گردن پر کپڑا ہو جو اسکا گلا گھونٹ رہا ہو اور وہ شخص کہے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری دادرسی فرمائیں اور میں کہہ دوں کہ اب میں کوئی اختیار نہیں رکھتا میں تو تجھے اللہ کا پیغام پہنچا چکا ہوں
Wahabi Translation Urdu and English
ابوالیمان حکم بن نافع، شعیب، ابوزناد، عبدالرحمن بن ہرمز اعراج، ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اونٹ اپنے مالک کے پاس پہلے سے زیادہ موٹے تازے ہو کر آئیں گے جب کہ اس میں اس کا حق نہ دیا ہو اور اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے اور بکریاں اپنے مالک کے پاس زیادہ موٹی ہو کر آئیں گی جب کہ ان بکریوں میں سے ان کا حق ادا نہ کیا ہو اور اس کو اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی اور فرمایا کہ اس کا حق یہ ہے کہ پانی پر بھیج کر دودھ دوھا جائے اور نہ آئے تم میں سے کوئی شخص قیامت کے دن اس حال میں بکری اس کی گردن پر ہو اور پھر پکارے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدد کیجئے اور میں کہوں کہ اب میرے اختیار میں نہیں۔ میں تو اللہ تعالیٰ کا حکم تمہیں پہنچا چکا اور نہ آئے کوئی شخص اونٹ لے کر اس حال میں کہ وہ اونٹ اس کی گردن پر سوار ہو اور چلا رہا ہو پھر وہ پکارے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدد کیجئے اور میں کہوں میرے اختیار میں کچھ نہیں میں تو اللہ کا حکم پہنچا چکا۔
English:
Narrated Abu Hurairah (RA) :
The Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, "(On the Day of Resurrection) camels will come to their owner in the best state of health they have ever had (in the world), and if he had not paid their Zakat (in the world) then they would tread him with their feet; and similarly, sheep will come to their owner in the best state of health they have ever had in the world, and if he had not paid their Zakat, then they would tread him with their hooves and would butt him with their horns." The Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) added, "One of their rights is that they should be milked while water is kept in front of them." The Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) added, "I do not want anyone of you to come to me on the Day of Resurrection, carrying over his neck a sheep that will be bleating. Such a person will (then) say, ' O Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! (please intercede for me,) I will say to him. 'I can't help you, for I conveyed Allah's Message to you.' Similarly, I do not want anyone of you to come to me carrying over his neck a camel that will be grunting. Such a person (then) will say " O Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! (please intercede for me)." I will say to him, "I can't help you for I conveyed Allah's message to you."
Exp: In Short, According to this authentic agreed upon narration, the Intercession of Prophet alehisalam and asking him for Help is NOT IN ANY CASE [Kufar-Shirk-Bidda]. And Wahhabism has Promoted Wrong Beliefs Against Authentic Traditions
یعنی معلوم پڑا کہ حدیثِ صحیح متفق علیہ اور بخاری شریف سے ثابت ہوا کہ دنیا میں (یارسول اللہ مدد) کہنے سے کوئی کافر یا بدعتی نہیں ہوجاتا بلکہ رسول اللہ کی مدد اصل میں اللہ ہی کی مدد اورانکا ہی تفویض کردہ اختیار ِ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے۔ اور اسکو نبی کریم علیہ السلام نے اس حدیث کے بقول منع نہیں فرمایا نہ ہی اسکو (غیراللہ کی مدد) قرار دیا اور نا ہی اسکو شرک کہا بلکہ یہ فرمایا کہ اب میری مدد اسلیئے نہیں حاصل ہوگی کہ دنیا میں تو میں پیغام تم تک پہنچا چکا ۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ قیامت میں لوگ آپ کی مدد کے محتاج ہوں گے اور ایسے میں آپ کا ان لوگوں کو انکار فرمانا کیا عالم رکھتا ہوگا وہ تصور سے ماؤرا ہے۔
RF:
Sahih al Bukhari Vol 1 Hadith 1342 - Agreed Upon. Mutaffiq Alaih
Sahih Bukhari Vol 3 Kitab al Zakat (Charity) Chapter 3. Hadith 1402 Darusalam Riyadh Publication
Sahih al Bukhari Vol 2- Pg 106 Chapter of Zakat Dar Tawqal-Nijat Egypt Oldest Edition.
Sahih Bukhari Vol 2 Hadith 339/ V1-H 1342.
Darusalam Editon Scan
Older Scan Dar Tawq al Nijaat
|
|
|
Post by zarbehaq on Aug 15, 2016 12:01:07 GMT
Scans Library Update: 15-Aug-2016
قبرِ انور پر حاضری (یامحمد) کا ثبوت فرشتوں کا جواب میں حاجت روائی کی بشارت دینے کی حدیث، اعرابی والی مشہور حدیث، سورہ النساء آیت ۶۴ کا حوالہ والی حدیث اور اعرابی کی دعا کی قبولیت نیز نبی کریم علیہ السلام کے روضہ انور قبر نبی علیہ السلام پر حاضری کے ساتھ ساتھ استعانت مدد، مانگنے اور دعا کی قبولیت پر مستند احادیث یعنی توسل، حیات الانبیا علیھم السلام، نبی کریم علیہ السلام سے توسل مدد استعانت سفارش کروانا، فرشتوں کا بشارت دینا وغیرہ کیا یہ سب احادیث اہلسنت و جماعت کا مذہب نہیں؟
کیا یہ احادیث کسی امام مجدد المحدث الفقیہہ احمد رضا الحنفی الماتریدی الہندی القادری البریلوی نے لکھی تھیں؟
ان پر عمل کرنا اسلام پر عمل کرنا ہے یا بریلوی ہونا؟
کتاب؛۔ القربۃ الی رب العالمین بالصلاۃ علی محمد سید المرسلین (اللہ کی قربت حاصل کرنا بذریعہ صلوٰۃ وسلام نبی کریم علیہ السلام پر)۔ تالیف۔ امام ابی القاسم خلف بن عبدالملک بن بشکوال (م ۵۷۸ھ)۔ باب ۲۱ (ماجاٗ فی زیارۃ قبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم) صفحات ۱۲۰ تا ۱۲۳۔ ط۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت
نبی المختار اور درود کی (مدد وسیلہ اور برکتوں سے) دعاؤں کا مقبول ہونا۔ یعنی توسلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سلف سے عقیدہ
المختصۃ بفضل الصلاۃ علی النبی المختار صلی اللہ علیہ وسلم
تالیف ۔ الامام الحافظ ابی العباس احمد بن معد بن عیسیٰ الاقلیشتی (متوفیٰ ۵۵۰ھ)۔
ناشر:۔ دارالمدینۃ المنورۃ۔ حجاز شریف
وسیلہ توسل مدد استعانت کا ثبوت سلف الصالحین سے
سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ والی مشہور حدیث کے دیگر طرق اور تصدیقات۔
کتاب الاعلام بفضل الصلاۃ علی النبی والسلام۔
تصنیف:۔ الامام الحافظ المحدث محمد بن عبدالرحمٰن بن علی النُمیری (م ۵۴۴ھ)
باب الصلاۃ علی النبی علیہ السلام والتوسل بہ الی اللہ تعالیٰ عند الحاجۃ من امر الدنیا والآخرۃ صفحات ۹۹ تا ۱۰۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت
باب کے نام سے توسل ِ سلف و صحابہ کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے۔ یعنی نبی ؑعلیہ السلام پر درود و سلام اور ان کا وسیلہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا اپنی حاجاتِ دنیا و آخرت کے لیئے۔
یارسول اللہ مدد کہنے کا ثبوت ۔ رسول کریم علیہ السلام سے مدد مانگنا کوئی کفر شرک بدعت یا غیراللہ سے مدد نہیں بلکہ عین اسلامی عقیدہ ہے۔
شیخ سیدی عبداللہ بن الحاج ابراھیم العلوی الشنقیطی۔ شرح روضۃ النسرین فی احکام و فضائل الصلاۃ علی النی الامین آخری صفحہ 76
Remember All these facebook page posts are been uploaded to Folder 2016 too. عقد الجواھر البھیۃ فی الصلاۃ علی خیر البریۃ ، ص ۱۸ حدیث السادس۔ تالیف العلامۃ الامام ابوالحسن البکری المصری م ۹۵۲ھ وسیلے کا ایک اور ثبوت توسل (غیراللہ کی مدد، کفرشرک وبدعت نہیں) بلکہ عین حکم ِ اسلام ہے۔ اور دو معنوں میں ہے۔ ایک جو قرآن میں ذکر ہوا اس سے مراد وسیلہ خاص یعنی منزلۃ فی الجنۃ ہے۔ (یعنی قیامت میں شفاعت فرمانا) اور دوسرا عمومی معنی ہےنبی علیہ السلام کی مدد سے اللہ کی طرف اپنی حاجتوں میں حاجت روائی چاہنا۔ اور یہ اللہ کی ان سے محبت کی وجہ سے ہے۔(یعنی افضلیت تاکہ دعائیں قبول ہوسکیں ان کی سفارش مدد وسیلے سے)۔ حوالہ۔ الصلاتُ والبشر فی الصلاۃ علیٰ خیرالبشر۔ امام الشیخ فیروزآبادی(صاحب القاموس)۔۸۱۷ھ۔ط۔ دارالباز للنشر والتوزیع۔مکۃ المکرمۃ ص ۹۱ کتاب: مواہب اللدنیۃ ۔ خلاصہء سکین شارح بخاری حضرت الامام حافظ احمد بن محمد القسطلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف میں فرماتے ہیں لا فرق فی مماتہ و حیاتہ فی مشاھدتہ لامتہ ومعرفتہ باحوالھم دنیاتھم وعزائھم وخواطرھم ذالک عندہ جلی لاخفاء بہ۔ فان قلت ھذہ الصفات مختصۃ باللہ تعالیٰ۔ فالجواب ان من انتقل الیٰ عالم البرزخ من المؤمنین یعلم احوال الاحیاء غالباً وقدوقع کثیر میں ذالک کماھو مسطور فی مظنۃ ذالک من الکتٰب وقدروی ان المبارک عن سعید بن المسیب قال لیس یوم الا وتعرض علی النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اعمال امتہ غدوۃِ وعشیۃً فیعرفھم بسیماھم واعمالھم فلذٰلک یشھد علیھم ترجمہ؛ اپنی امت کے مشاہدے اور ان کے احوال ونیتوں و عزائم وخواطر کی معرفت میں حضورکی موت و حیات یکساں ہیں۔ اور یہ آپ کے نزدیک ظاہر ہے۔ اس میں کوئی پوشیدگی نہیں، اگر اعتراض کیا جائے کہ یہ صفات تو اللہ تعالیٰ سے مختص ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ (کامل) مومنوں میں سے جو شخص عالمِ برزخ میں چلا جاتا ہے، وہ زندوں کے حالات غالباً جانتا ہے۔ ایسا بہت وقوع میں آیا ہے ۔ جیسا کہ اس کے متعلق کتابوں میں مذکور ہے حضرت عبداللہ بن مبارک نے بروایت سعید بن مسیب نقل کیا ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ صبح وشام امت کے اعمال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش نہ کیئے جاتے ہوں۔ لہٰذا آپ ان کے اعمال کو اور خود ان کو ان کے چہرے سے پہچانتے ہیں اسی واسطے آپ ان پر گواہی دیں گے۔ سکینز؛۔ حی فی قبرہ یعنی آپ علیہ السلام کا قبر مبارک میں حیات ہونا۔ امام قسطلانی نے فرمایا ہے کہ انبیاء بشمول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبروں میں حیات ہیں جیسا کہ واقعہ حرۃ (جب مدینہ پر یزیدی لشکر نے لشکر کشی کر کے نماز اور آذان روک دی تھی) ان دنوں میں سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت لکھی ہے کہ آپ علیہ الافضل الصلوٰۃ والتسلیم کے روضہ مبارکہ یعنی قبر انور سے 5 وقت آذان سنائی دیتی تھی۔ صفحہ ۶۹۴ اسی سے آگے امام صاحب نے مزید صفحات پر دلائل بھی دیئے ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ دورانِ اسراٗ کا بھی ذکر فرمایا ہے اور دلیل دی ہے کہ جب شہداٗ اپنی قبروں میں زندہ ہیں تو صالحینِ امت بھی ان سے بدرجہا بلند رتبہ ہونے کے زندہ ہیں فرق یہ ہے کہ انبیا کے اجسام زمین پر حرام کردیئے گئے ہیں جبکہ صالحین کا عالم برزخ یعنی موت کے بعد کی زندگی میں اجسام کا ہونا شرط نہیں۔ یعنی کہنے سے مراد یہ ہے کہ انبیائے کرام اپنی جسمانی حیات کے ساتھ واپس زندگی کی طرف لوٹا دیئے جاتے ہیں جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ وغیرہ کہ جس میں وہ نماز پڑھتے پائے گئے۔ امام صاحب نے یہ بھی ذکر کیا کہ نماز کا پڑھنا صفتِ جسم ہے نا کہ روح۔ نیز یہ ثبوت ہوا انبیائے کرام اور صلحائے امت کے اس بلند مقام کا کہ وہ اپنی اپنی قبروں میں حیات رکھتے ہیں جو دنیاوی حیات سے زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ پھر صفحہ ۶۹۷ پر جیسا کہ ذکر کیا کہ آپ پر امت کے احوال پیش کیئے جاتے ہیں (ویستغفرلھم) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیئے (یعنی امت کے لیئے) استغفار فرماتے ہیں (یعنی غیراللہ اپنی وفاتِ ظاہری کے بعد بھی امت کی مدد کررہے ہیں)۔ ان سب ثبوتوں کی روشنی میں اور سلف الصالحین کی لکھی کتابوں میں جو عقائد درج ہیں وہی صوفیوں کے عقائد ہیں جن کو بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے اپنی جہالت نااہلی کے سبب (کفر شرک بدعت) یا پھر (بریلویت) قرار دیا ہوا ہے اور یہ خودساختہ نام مسلمانوں پر تھوپ کر غلط عقائد پروموٹ کرکے ایک خاص ایجنڈے کے تحت اور کہیں پر جہالت کے یا بغض کے تحت دین بیچا جارہا ہے خوارج کی جانب سے۔ اللہ سب مسلمانوں کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
|
|
|
Post by Admin on Aug 15, 2016 13:06:08 GMT
New Scans 15-8-2016
More proofs of Wasilah Shifaat and Tawasul by Grave of the Prophet Sal Allaho Alaihi Wa Sallamm.
|
|
|
Post by Admin on Oct 30, 2016 14:36:47 GMT
Scans on Tavvassul (oct 2016)
These Scans will prove these things. 1) Intercession of Prophets,Saints, Sages and Pious Faithfuls are on the authority of Allah Almighty. 2) Their helping to other people is because of Allah's Gifted authority over others to them because of their piety. 3) Saying Ya Rasool Allah - Ya Ghausal Azam - Ya Ali Madad - etc Proofs 4) Proven from Authentic Tafsir, ahadith, Aqwal of Salafus Saliheen, and from the books of deniers. 5) Please wait for a moment for scans to be Appeared.
|
|
|
Post by Admin on Nov 9, 2016 13:45:26 GMT
Book: Manaqib al Aimatal Arba'a (Higher status of Aima karam)
al Imam al Qadi al-Baa'qilaani. Daral Muntakhib al Arabi-Darasat al Islamia
Hadith and Belief of Companions of the Prophet (alaihi afzalisalat wa salam wa redhwanullahi alaihom ajjmayin) Tawasul (intercession). famous hadith of Abbas (Radi Allaho Anho) and Syaduna Amirul Mu'mineen Umar bin Khatab (Radi Allaho Tala anho). Pp 397 to 399.
|
|
|
Post by Admin on Dec 29, 2016 22:26:22 GMT
سلف کے وہ (بریلوی) عقیدے جو آپ کو (سلفی) نہیں بتاتے
ترجمہ اردو؛
بحث فی التوسل ۔ توسل کے بارے میں بحث
وینبغی للزائر ان یکثر من الدعاء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الیٰ فی عرصات القیامۃ
زیارت کرنے والے کو چاہیئے کہ دعاِ زاری ، طلب مدد، طلب شفاعت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ کثرت سے اختیار کرے، پس جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت طلب کرتا ہے وہ اس لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ اسکے لیئے آپ کی شفاعت کو قبول فرمائے۔
جان لو! استغاثہ، مدد طلب کرنے کو کہتے ہیں پس مستغیث (مدد طلب کرنے والا) مستغاث بہ (جس سے مدد طلب کی جائے) سے مطالبہ کرتا ہے کہ اسے، اس سے مدد حاصل ہو پس اس میں کوئی فرق نہیں کہ لفظ استغاثہ استعمال کرے یا توسل یا تشفع یا تجوہ یا توجہ کیونکہ یہ دونوں (التجوہ اور التوجہ) جاہ اور وجاہت سے بنے ہیں اور ان کا معنی قدرومنزلت کی بلندی ہے۔
اور بعض اوقات کسی بلند مرتبہ شخص کو اس سے اعلیٰ کی طرف وسیلہ بنایا جاتا ہے پھر یہ سب کچھ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ، توسل، تشفع اور توجہ (آپ سے مدد طلب کرنا، آپ کو وسیلہ بنانا، آپ کی شفاعت اور توجہ طلب کرنا) ہرحال میں واقع ہے آپ کی تخلیق سے پہلے اور اسکے بعد آپ کی حیاتِ طیبہ میں دینا میں اور آپ کے وصال کے بعد عالم برزخ کے زمانے میں دوبارہ زندہ ہونے کے بعد میدانِ قیامت میں (ہرجگہ ثابت ہے) جس طرح "تحقیق النصرہ" اور "مصباح الظلام" میں لکھا ہے۔
اختتام ء کلام و ترجمہ (حوالہ؛المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ۔ جز الرابع ۴، للعلامۃ احمد بن محمد القسطلانی۔ ص ۵۹۳ المکتب الاسلامی بیروت)۔
اسکے بعد امام قسطلانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابواب قائم فرمائے ہیں کہ آپ کی ولادتِ باسعادت سے پہلے آدم علیہ السلام کا آپ سے مدد طلب کرنا یعنی وسیلہ پکڑنا توسل کرنا اور پھر بعد ِ ولادت توسل وغیرہ پر احادیث بیان فرمائی ہیں۔ اس سے چند باتیں معلوم ہوئیں
اول؛ وسیلہ نبی یا عباداللہ الصالحین یعنی (اولیاء و نیک اشخاص مومن) کو (غیراللہ سے مدد) کا نام صرف خوارج نے دیا ہے یعنی (وہابی سفلی نااہلحدیث دیوبندی فرقوں) نے 1300 سال بعد پیدا ہوکر توسل کو (غیر اللہ سے مدد) کا نام دیا جبکہ سلف الصالحین کے اور اسلام کے اجماعی عقیدے کے مطابق وہ توسل ہے جو کہ عین حکم قرآنی عقیدہء مسلمین ہے،
دوم: یہ بات معلوم ہوئی کہ جیسے آپ کی حیاتِ مبارکہ میں آپ کا وسیلہ پکڑنا یعنی آپ کی مدد مانگنا، آپ سے استغاثہ طلب کرنا جائز ہے، ویسے ہی بعد از حیات بھی جائز ہے
سوئم؛ سلف الصالح امام قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ کا اس کو بصورتِ باب قائم کرنا اس بات کی دلیل بھی ہے کہ یہ ان کا بیان ہی نہیں بلکہ تمام امتِ مسلمہ کا متفقہ عقیدہ بھی ہے۔ ظاہر ہے جب کسی سے مدد طلب کی جاتی ہے تو مددگار کو پکارا بھی جائے گا، بنا پکارے مدد کیسے طلب ہوسکتی ہے؟ اس لیئے یارسول اللہ مدد کہنا، یا علی مدد کہنا اور یا غوث المدد کہنا تینوں کفر شرک بدعت نہیں بلکہ عین اسلامی طریقے ہیں مدد یعنی توسل طلب کرنے کے اور اسکو (غیراللہ کی مدد) کہنا دراصل سلف الصالحین اور جملہ عالم اسلام کی توہین بھی ہے۔ تو اگر موجودہ دور کے گمراہ جاہل فرقے جنکا مشترکہ نام (خوارج) ہے کو توسل (غیراللہ سے مدد، یا کفر یا شرک یا بدعت یا بریلویت) لگتی ہے تو ان کو پہلے اپنی دو ٹکے کی حیثیت کو امام قسطلانی جیسے محدیثین کے برابر ثابت کرنی پڑے گی جو وہ کبھی نہیں کرسکتے۔ تو یا تو امام قسطلانی کو بھی (بریلوی) کا نام دے دو جیسے تمام امت کو ان گمراہوں نے (بریلوی) کا نام دیا ہے اور یا پھر اپنی خوارجیت سے توبہ کرکے سیدھا سچا کھرا اہلسنت وجماعت کا حنفی صوفی اسلام قبول کرلو۔ اللہ تمہیں ہدایت دے
امام احمد بن محمد قسطلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب المواہب اللدنیۃ جز دوم کے اب الاسماء النبی لفظ (غ) کے سکشن میں نبی کریم علیہ السلام کے اسمائے مبارکہ بیان فرمارہے ہیں جس میں (الغالب) (الغفور) (الغنی) (الغنی باللہ) کے بعد آپ علیہ السلام کو (الغوث) کے نام مبارکہ سے لکھ رہے ہیں جسکا معنی ہے (الغوث)۔وہ نصرت دینے والا جس سے سختیوں اور مصیبتوں میں استغاثہ کیا جائے۔۔ اور حادثوں اور دشواریوں میں اس سے (استعانت) مدد چاہی جائے۔
الغیث الغیاث؛۔ یہ شامی نے اضافہ کیا ہے۔ اس کا معنی ہے واسع الاخلاق اور حلیم الطبع
حوالہ؛ المواھب اللدنیہ جلد ۲ المکتب الاسلامی بیروت
یعنی ثابت ہوا کہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اسمائے گرامی میں اسے ایک لفظ (غوث) بھی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ (غوث صرف اللہ ہوتا ہے) یہ سوچنا غلط ہے۔ بلکہ یہاں (مجازی معنوں) میں ذکر فرمایا ہے جو کہ اللہ کی عطا سے مددگار ہیں اور یہی اہلسنت وجماعت کا مشترکہ عقیدہ ہے کہ جسکو دورِ حاضر کے گمراہ فرقے (بریلوی یا صوفی بدعتی) بول بول کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ضرار سے تبلیغ فرماتے ہیں جبکہ لوگوں کو کبھی (حقیقی) اور (مجازی) کا فرق نہیں سمجھاتے کہ کہیں ان کی مذہبی دکانداری نہ ختم ہوجائے۔ ایسے ہی قرآن کریم میں متعدد مقامات پر نبی کریم علیہ السلام کو (روؤف اور رحیم) (ھادی اور غنی) فرمایا گیا ہے حالانکہ یہ سب الفاظ (اللہ کے اسمائے گرامی ہیں) لیکن جب اللہ کے لیئے بولے جائیں گے تو (حقیقی) معنوں میں آئیں گے اور جب کسی غیراللہ کے لیئے بولے جائیں گے جیسے نبی کریم علیہ السلام، یا صالحینِ امت کے لیئے تو (مجازی) معنوں میں بولے جاتے ہیں اور یہ عین سلف کا عقیدہ ہے۔ یہ الفاظ صرف اللہ ہی کے لیئے مخصوص نہیں بلکہ اللہ نے اپنی عطا سے اپنے بندوں کو بھی عنایت فرمائے ہیں
فقہ حنبلی کے مشہور امام ابی اسحاق برھان الدین ابراھیم بن محمد بن عبداللہ بن محمد ابن مفلح الحنبلی (متوفیٰ ۸۸۴ہجری) اپنی کتاب المُبدع شرح المقنع جلد ۲ پر باب صلاۃ الاستسقاٗ میں فرماتے ہیں
مشائخ کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں، مستحب ہے کہ استسقاٗ کی نماز طھر کے وقت کی جائے کہ اجابت کے زیادہ قریب ہے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ (کے توسل) سے استسقا فرمایا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید بن الاسود رضی اللہ عنہ، اور ضحاک بن قیس سے (توسل) مرقوم ہے بقول مولف (یعنی امام )۔ اور سامری (صاحبِ تلخیص) نے کہا، کوئی مضائقہ نہیں استسقاٗ میں شیوخ، علماٗ اور متقین سے توسل کرنے میں، جیسا کہ (المذہب) میں کہا گیا ہے، کہ اللہ کے حضور کسی نیک بندے کو شفیع بنانے (کے بارے میں سوال کیا گیا)، تو کہا: یستحب (یعنی مستحب کام ہے) اچھا کام ہے۔
حوالہ؛ المُبدعُ شرح المِقنع، تالیف، امام ابن مفلح الحنبلی (متوفیٰ ۸۸۳ہجری) جز ۲ صفحہ ۲۰۶، کتاب الصلاۃ باب الاستسقا۔ط۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت
|
|