|
Post by Admin on Nov 27, 2016 13:36:46 GMT
حضرت سیدنا علامہ تاج الدین ابونصر عبدالوہاب بن علی السبکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے طبقات الکبریٰ میں (محسوس ظاہری) کرامت کی پچیس اقسام تفسیل کے ساتھ بیان فرمائی ہیں، یہاں ان کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے:
۱۔ مردوں کو زندہ کرنا
۲۔ مردوں سے باتیں کرنا
۳۔ دریا کا پھٹ جانا، سوکھ جانا اور پانی پر چلنا
۴۔ کسی شے کی اصل ہی کو تبدیل کردینا۔
۵۔ زمین کا لپٹ کر فاصلہ مختصر کردینا۔
۶۔ جمادات و حیوانات کا ہمکلام ہونا۔
۷۔ امراض کا دور ہونا۔
۸۔ حیوانات کا تابع فرمان ہونا۔
۹۔ زمانے اور وقت کا سکڑ جانا اور محدود ہوجانا یا
۱۰۔ ان کا پھیل جانا
۱۱۔ دعا کا شرفِ قبولیت پانا
۱۲۔ زبان کا بات کرنے سے رک جانا یا کھل جانا۔
۱۳۔ انتہائی نفرت کرنے والے دلوں کو اپنی جانب مائل کرلینا۔
۱۴۔ بعض غیوب کی خبر دے دینا یا کشف ہوجانا۔
۱۵۔ عرصہ دراز تک کھائے پیئے بغیر رہنا۔
۱۶۔ تصرف کا حاصل ہونا۔
۱۷۔ زیادہ کھانا کھانے پر قدرت ہونا۔
۱۸۔ حرام کھانے سے محفوظ رہنا۔
۱۹۔ دور دراز مقام کا مشاہدہ کرنا۔
۲۰۔ بعض اولیاٗ عظام کو ایسی ہییت و جلال عطا ہونا جسے دیکھنے سے انسان کی موت واقع ہوجائے۔
۲۱۔ اللہ عزوجل کی طرف سے کفایت وحمایت کا حاصل ہونا یوں کہ اگر کوئی اولیائے کرام سے شر کا ارادہ کرے تو اللہ جل وشانہ اسکو خیر سے تبدیل فرمادے۔
۲۲۔ مختلف شکلوں اور صورتوں کو اختیار کرلینا۔
۲۳۔ اللہ کا انہیں زمینی ذخیروں پر آگاہ فرما دینا۔
۲۴۔ قلیل وقت میں کثیر تصانیف لکھ لینا۔
۲۵۔ زہر اور ہلاکت خیز چیزوں کا اثر نہ ہونا۔
حضرت سیدنا علامہ تاج الدین سبکی علیہ الرحمتہ القوی یہ اقسام بیان فرمانے کے بعد کہتے ہیں؛۔ میرے گمان کے مطابق کرامت کی اقسام ۱۰۰ سے بھی زیادہ ہیں اور ہم نے جو ۲۵ اقسام بیان کی ہیں ان میں سے ہرایک کے تحت کثیر احادیث و واقعات اور حکایات و روایات منقول ہیں۔
ریفرینس: جامع کرامات الاولیاٗ۔ از شیخ الامام یوسف بن اسمٰعیل النبہانی علیہ الرحمۃ الرضوان۔ جز ۱۔ مقدمۃ الکتاب؛ المطلب الثانی فی انواع الکرامات۔ صفحات ۴۸ تا ۵۲ مرکز اھل سنت برکاتِ رضا فوربند گجرات ہند۔۔ فیضان کمالاتِ اولیا ص ۵۱،۵۲ المدینۃ العلمیۃ دعوت اسلامی پاکستان کراچی
|
|
|
Post by Admin on Nov 27, 2016 15:10:37 GMT
اولیائے کرام سے مدد عارف باللہ علامہ عبدالغنی نابلسی دمشقی الحنفی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے قلم سے۔ ہمارے پیشوا حضرت سیدنا شیخِ اکبر محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں؛۔
تو یہ تمام اولیائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم جو اپنی قبروں میں تشریف فرما ہیں کیا یہ سب اس پرنالہ اور سایہ سے بھی اعلیٰ نہیں؟ جن سے شیخ اکبر رحمتہ اللہ علیہ اپنی طلب صادق کی وجہ سے راہنمائی لیتے تھے۔ تو ایک عقلمند شخص کیسے کسی فوت شدہ ولی سے مدد چاہنے کا انکار کرسکتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اولیاء کرام علیہم الرحمۃ کی روحانیت قبروں میں انکے اجسام کے ساتھ متصل ہیں، اور کوئی مسلمان ان فوت شدہ اولیائے کرام سے مدد چاہنے کو کیسے بعید جان سکتا ہے، جو یقیناً اللہ تعالیٰ عزوجل کی معرفت سے غافل زندہ لوگوں سے افضل ہیں۔
اسکو بیان کرنے کے بعد امام عارف باللہ عبدالغنی بن اسمٰعیل نابلسی دمشقی الحنفی علیہ الرحمتہ الرضوان فرماتے ہیں؛۔
۔
یعنی ہم اہلسنت وجماعت سلف الصالحین کے اصلی حقیقی پیروکار و جانشین یعنی صوفیاٗ وغیرہ جو نعرہ رسالت، نعرہ حیدری، نعرہ غوثیہ وغیرہ لگاتے ہیں وہ سب کا سب عین اسلامی اظہار ہے ان تعلیمات کا جو ہمارے اسلاف نے قرآن و سنت کے ذریعے اپنا عمل بنایا اور پھر ہم تک پہنچایا۔ آج کے دور میں کچھ گمراہ لوگ پیدا ہوچکے ہیں جو اگر کوئی نعرہ رسالت لگائے تو اسکو (بدعتی یا صوفی یا بریلوی) کہتے ہیں اور اگر کوئی نعرہ حیدری لگائے تو اسکو (رافضی ، یا ، شیعہ، یا بدعتی صوفی) کہتے ہیں۔ حالانکہ اسلاف کی تعلیمات بہت سادہ انداز میں سمجھاتی ہیں کہ جب کوئی مسلمان کسی ولی کو یا کسی پیغمبر کو اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے تو اسکا معنی یہ نہیں ہوتا کہ وہ نبی یا رسول یا ولی یا پیر یا بزرگ کو (معاذ اللہ، خدائی حاصل ہوگئی یا خدا جیسے اختیارات مل گئے) بلکہ یہاں مجازی معنوں میں مدد لی جاتی ہے یعنی ان کو وسیلہ سمجھ کر جو قرآن و سنت اور خیرالقرون کے افعال و کردار سے ثابت ہے۔ ان کو اللہ کی طرف رسائی کا ذریعہ اور ہماری دعاوں کی قبولیت کی نزدیکی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اور اسی لیے وہ مددگار بھی ہیں ہمارے۔ اب اتنی سے بات کے یار لوگوں نے افسانے بنا دیئے اور امت کو شکوک میں مبتلا کردیا صرف اس لیئے کہ دین بیچ بیچ کر اپنا پیٹ بھرا جاسکے اور سروں پر دستار باندھ کر بھی دین سے غداری کی جاسکے۔ ایک اور اصولی بات یہ سمجھ لیجئے کہ اولیائے کرام سے مدد مانگنے کا بہترین ذریعہ ان سے (اگر وہ زندہ ہیں) اور خدا نے شرف ملاقات بخش دیا تو دعا کروائی جائے، اور اگر وہ (فوت ہوچکے ہیں) تو ان کے مزارات پر حاضری دے کر ان سے اللہ کے حضور اپنی حاجت روائی کے لیئے دعا کی درخواست کی جائے۔ جبکہ جسکو حقیقی مدد کہتے ہیں وہ تو فقط راہ سلوک میں ہی مانگنی چاہیئے ان مرشدوں سے تاکہ روحانی ترقی کی راہ میں جو مشکلات ہیں وہ راہ سلوک کے ان غازیوں سے معلوم کر کے اپنی عاقبت کو سنوارا جاسکے اور اپنے درجات کی بلندی حاصل کی جاسکے۔ اللہ سب کو ہدایت دے
|
|