Post by Admin on May 16, 2017 22:57:43 GMT
مادہ پرست دھریت کہتی ہے کہ دنیا تمام ایتھر اور مادہ ہے اور جو کہ قدیم ہے اور اس میں حرکت کے باعث یہ دنیا تخلیق ہوئی۔ اس میں کسی بنانے والے کا ہاتھ نہیں
یہ جو حروفِ ابجد ہوتے ہیں 28 یا 30 یا کہیں اس سے بھی کچھ زیادہ۔ یہی محدوود اور معدود حروف تمام تقریروں اور تمام تحریروں کا اصل مادہ ہیں۔ انہیں حروف میں تغیر و تبدل اور تنوع سے دنیا کے مختلف مقالے اور مقولے (یعنی زبانیں) بن رہے ہیں۔ مادہ سب کا ایک ہے اور صوری نوعیت مختلف ہے۔ بس ایک عاقل اور دانا تو یہ سمجھتا ہے کہ حروف ہجائیہ کے یہ تمام تنوعات اور تغیرات انسان کے نفسِ ناطقہ کے ارادہ اور اختیار کے تابع ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان حروف اور الفاظ کو ترکیب دے کر کلام کرتا ہے ، اب موجودہ سائنس کے ایکسپیری منٹس اسی بنیاد کو رکھ کر خیالات کی باہم ترسیل کو بنا الفاظ بولے اور یا بول کر بھی دوسروں کو انکی اپنی زبان کے الفاظ سے ہم آہنگ کیسے کیا جائے۔ یعنی آسان الفاظ میں سائنسدان ایسی ڈیوائسیس بنا چکے ہیں یا بنا رہے ہیں کہ جو تمام لوگوں کو چاہے وہ ایک دوسرے کی لسانیات سے واقف ہوں یا نہ ہوں ، سمجھ سکیں۔ کیونکہ بقول سائنس انسانی اختلافیات کے ہونے کے باوجود انکی سوچ فکر دکھ درد کو محسوس کرنا، اور اسکے احساس کو ممیز دینا ایک سا ہی ہوتا ہے۔ خوشی میں سارے ہی انسانوں کی باچھیں کھلتی ہیں اور غم میں سب کے ہی منہ لٹکے ہوتے ہیں اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ جذبات کے اظہار کی کوئی زباں نہیں ہوتی۔ اب اگر بالفرض کوئی مادہ پرست یہ کہنے لگے کہ دنیا کی تمام قسم قسم کی تحریریں زبانیں کسی انسان کے نفسِ ناطقہ کے ارادہ و اختیار سے ظہور میں نہیں آرہی ہیں بلکہ حروفِ ہجائیہ کی حرکت قدیمہ کے بنا پر مقولوں اور مقالوں کے نتوعات اور تغیرات ظہور میں آرہے ہیں اور یہ کہے کہ ہمیں ان تقریروں اور تحریروں کے لیئے کسی بااختیار متکلم کے وجود کے ماننے کی ضرورت نہیں تمام دنیا کا سلسلہ کلام ازلی اور ابدی ہے اور مادہ کلام یعنی حروفِ ہجائیہ کی حرکت قدیمہ سے قوانین فطرت کے ماتحت یہ سلسلہ چل رہا ہے تو سائنسدان حضرات یہ بتائیں کہ اس شخص کے متعلق کیا اچھے سائیکیڑیک سے رجوع نہیں کرنا چاہیئے؟
جبکہ مادہ میں تغیر کا افسانہ صرف ڈارون جیسی خود تراشیدہ تھیوری ہے کہ جیسے اسکا زوال 20ویں صدی میں ہوچکا ویسے ہی دھریت خود شش وپنج میں مبتلا ہے کیونکہ انکی سوچ اور عقل کا دائرہ کار کنویں کے مینڈک کی طرح محدود ہے۔ یہ اتنا بھی سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے (میری مراد یہاں دیسی دہریت سے ہے) کیونکہ مغربی دھریت بہرحال سوچ رکھتی ہے اور یہاں کی نقالچو دیسی دھریت صرف اندھی پیروی جانتی ہے چاہے وہ سوچ فکر اور سائنس آگے چل کر غلط ترین ثابت ہو۔ اور تخلیق ہی سے تو خالق کی خبر ملتی ہے ۔ تخلیق کو دیکھ کر عقل لازمی سوچتی ہے کہ اس تخلیق کا خالق کون ہے۔ سائنس ہی کا اصول ہے کہ ایوری ایکشن ھیز ایقوول اینڈ آپوزٹ ریئیکشن۔ یعنی ہر عمل کے لیے رد عمل ہے۔ دوسرے الفاظ میں فعل یعنی ایکشن کے ہونے کے لیئے فاعل یعنی ایکشن کرنے والا ضروری ہے۔ جیسے ایک بلڈنگ عمارت پل تعمیر کرنے کے لیئے اسکے تعمیر کرنے پر قادر کی پہلے ضرورت پڑتی ہے، وہ انجنیئر تمام پروگرام کو ڈیزائن کرتا ہے۔ پھر دوسرے اس پر عمل کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ (فعل) یعنی (تعمیر) مکمل ہوجاتی ہے۔ مگر اب اگر مزدور یہ اعتراض کرنا شروع کردے پہلے ہی دن کہ مٹی اور گارے کو ملا کر اینٹ بنائی تو کیوں کیسے اور کسطرح بنائی اور یہ اینٹ خود بہ خود بنی ہے اسکو کسی نے بنایا نہیں ہے تو تعمیر تو گئی کھُو کھاتے۔
وہ مادہ جس کو یہ لوگ قدیم کہتے ہیں صرف ایک قصہ ایک کہانی ہے اپنی ضد کو جاری کیئے رکھنے کی اور اپنی اپنی خواہشات کو دھریت کے پردے میں چھپائے رکھنے کی اسی لیئے مغربی دھریت کو جب اسلام کا سیدھا سچا اور صاف راستہ ملتا ہے تو وہ اس (دین اسلام) کو قبول کرلیتے ہیں (دین یعنی راستہ اور اسلام یعنی امن تو امن کے راستے کو قبول کرنے والا مسلمان کہلاتا ہے)۔ جبکہ اسی خالق کا کھا کر(مذہبِ اسلام) کو ماننے والے بہت سے دھریہ بننے چلے ہیں (مذہب مطلب سوچ فکر آئیڈیالوجی)۔ اسلام مذہب نہیں دین ہے۔ اور دین میں عقل ضرور ہیں لیکن عقل دین نہیں ہے۔ نہ آپ کو اٗس سوکالڈ مادہ قیدمہ کے خواص اور آثار اور لوازم کا علم ہے نہ اسکے ایٹمز کی کوئی تفصیل ہے نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھا نہ کسی مائیکروسکوپ سے جانا، بلکہ اس مریخ کے بارے میں کہ جس پر آج تک سائنس یہ کہتی رہی ہے کہ انسان کے علاوہ اور کوئی مخلوقات نہیں پائی جاتی اس کائنات میں، ان کی نئی ناسا روؤر کی تصاویر نے ثابت کردیا کہ مریخ کے سلگتے ماحول میں بھی زندگی کی علامات موجود ہیں۔ تو جو شخص ماں کے پیٹ سے پیدا ہوکر ساٹھ ستر برس کے بعد قبر کے پیٹ میں پہنچ گیا ہو وہ ازلیت اور ابدیت کا کہاں سے مشاہدہ کرسکتا ہے؟۔ نیز کیا انسان ہی نے کمپیوٹر نہیں تخلیق کیا جس پر وہ بڑے دھڑلے سے یہ گمان کرتا ہے کہ وہ کبھی غلط رپورٹ نہیں دیتا؟ جو کہ ایک انتہائی غلط سوچ ہے۔ تو قرآن نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا۔ شیطان پرستی نے انسان کو خدا بننے کی ترغیب دی۔ اور دھریت نے اسکی پہلی سنگ بنیاد رکھی۔ اپنی اپنی ذاتی زندگیوں کی ناکامیوں کو خدا پر ڈال کر اسکا انکار کرنے والے کبھی اپنی بات کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں پیش کرسکتے۔ ان کی عقل خود عقل کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ صرف کمزور، جاہل اور یا جانتے بوجھتے ہوئے اپنی ذاتی خواہشات یا نفرتوں کی خاطر انکار کرنے والے ہی ایسا عمل کرتے ہیں۔
اگر مادہ اور ایتھر ہی قدیم ہیں تو ان کا وجود ہے کہاں؟ ۔ آپ آج بھی خدا کی ذات کے منکر کیوں ہیں جبکہ غاروں کے دور میں بھی آپ کسی نہ کسی پتھر کے ہی سہی "خدا" کو پوجتے آئے ہیں؟۔ اگر مادہ ہی قدیم ہے تو پھر آپ جیسے ذہین و فطین یا لکیر کے فقیر ماڈرن لوگ پہلے ہی کیوں نہ پیدا ہوگئے؟۔ ایولیوشن کی گمراہ اور جھوٹی حمایت آج اچانک سائنس ہی کی جدید تحقیق کی وجہ سے غلط کیوں کہی جانے لگی؟ اور اگر مادہ ہی قدیم ہے تو پھر مادہ سے ایک جیسے ہی سب آنے چاہیئے تھے یہ قسم قسم کے رنگوں کی مخلوقات کیسے؟
ہر صاحب شعور کو یہ بات معلوم ہے کہ میں ایک وقت میں معدوم تھا اور ایک طویل و عریض عدم بعد موجود ہوا ہوں اور جو چیز عدم کے بعد وجود میں آئے اسکے واسطے کوئی پیدا کرنے والا اور اسکو عدم سے وجود میں لانے والا چاہیئے۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ میرا خالق نہ تو میرا نفس ہے اور نہ میرے ماں باپ اور نہ میرے ہمجنس اسلیئے کہ وہ سب میری طرح عاجز ہیں کسی میں ایک ناخن اور بال پیدا کرنے کی بھی قدرت نہیں اور نہ آسمان اور زمین اور نہ یہ عناصر اور نہ یہ کواکب اور نہ یہ فصول میرے خالق ہیں اسلیئے کہ یہ چیزیں بے شعور اور بے ادراک ہیں اور ہروقت متغیر اور متبدل ہوتی رہتی ہیں ان میں یہ صلاحتیں کہاں کہ ایک ذی علم اور ذی فہم انسان کو پیدا کرسکیں پس معلوم ہوا کہ میرا خالق کوئی ایسا ہے کہ جو لاچارگی اور حدوث اور تغیر و تبدیل اور عیب و نقصان سے پاک ہے۔ اسی کو ہم اپنا خالق اور الٰہ کہتے ہیں۔ یاد رہے ہمیں ماں باپ نے پیدا نہیں کیا بلکہ ہم ماں باپ کے ذریعے پیدا کیئے گئے ہیں۔ اپنی اس تخلیق یعنی بنی آدم کو اللہ ہی نے چھوٹی چھوٹی تخلیقات پر قادر بھی بنایا تاکہ وہ اسکو پہچان سکے۔ اسی لیئے اس نے قرآن میں فرمایا کہ وہ احسن الخالقین ہے۔ یعنی تخلیق انسان بھی کرتا ہے لیکن اسی اللہ کی عطا سے اور یہی انسان اسی اصل خالق کا انکار کردیتا ہے کہ جسکا اپنا وجود بال سے لیکر کھال تک کسی اور کی تخلیق ہے۔
یہ جو کلوننگ کا چکر چلا ہوا ہے۔ کیا کلون میں جان ڈالی جاسکتی ہے؟ اور جو آرٹیفیشیل انٹیلی جنس مشینوں اور مادی ذرائع کے ذریعے بنائی جائے، وہ اصل تخلیق ہے یا یہ انسان کہ جو ایسی چیزوں کو تخلیق کرتا ہے لیکن خود اپنے مٹی کے وجود میں بنا کسی مادی وائیرنگ کے کام کررہا ہے؟۔ یہ جو سورج چاند وغیرہ بنا کسی سہارے کے آسمان میں اٹکے ہوئے ہیں اور صدیوں سے اٹکے ہوئے ہیں تو دھریو! اگر مادہ تغیر پذیر ہے تو یہ گرِ کیوں نہیں گئے؟ ان کو کس نے تھام رکھا ہے؟ اگر تم اس پردے اور حجاب کو سمجھنے پر قدرت نہیں رکھتے اپنی ناقص عقل کی وجہ سے تو انکار کرکے اپنا مذاق کیوں بنواتے ہو؟۔
جب کوئی بادشاہ کے محل میں جاتا ہے تو وہاں کی رنگ برنگی عجائبات دیکھ کر اسکے دل میں بادشاہ کی عظمت کا احساس پیدا ہوتا ہے لیکن اگر اسکی جگہ ایک چور بادشاہ کے محل میں نقب لگا کر گھستا ہے تو وہ اپنی اوقات اور حیثیت کے مطابق صرف چوری کرنے جاتا ہے اسکی جانے بالا بادشاہ کیا ہے اور اسکی عظمت کیا ہے۔ اسکو تو اس سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ اپنی اوقات اور مقدار کے مطابق چوری کرنے کی کوشش کرتا ہے، یا کامران ہوجاتا ہے اور یا دھر لیا جاتا ہے۔ لیکن چوری کرنے کے بعد بھی اگر وہ بیچتے وقت یا کسی اور موقع پر پکڑا جائے تو اس وقت اسے بادشاہ کی عظمت کم خوف کا احساس ہوتا ہے جب جلاد اسکی گردن پر کھڑا ہو اور اسی زندگی کے تار ایک جھٹکے کی مرہونِ منت ہوں۔ تو تم دھریوں کی مثال بھی چوروں کی ہے۔ تمہیں دل میں سب کچھ پتہ ہے معلوم ہے جانتے ہو اچھی طرح لیکن اپنی ذاتی خواہشات ، مجبوریوں اور ذاتی اغراض ومقاصد میں اسوقت تم لوگ چور بنے ہوئے ہو۔ اور یہ بھی ایک نیچرل عمل ہے کہ ہر چور ایک نہ ایک دن پکڑا جاتا ہے۔ تم نے بھی اس وقت بڑا خدا کو مان لینے کا ایمان کا اعلان کرنا ہے جب اللہ کے حضور حاضر ہوگے مگر اسوقت یا موت کے وقت تمہارے ایمان لانے کوئی فائدہ نہ دیں گے۔ کیونکہ جرم تم پر ثابت ہوچکا ہے۔ اس لیئے اللہ کے اثبات پر یقین رکھنا انسان کے اپنے فائدے میں ہے۔ جس سے ہم لڑ نہیں سکتے تو لڑنے کا سوچنا بھی غلط ہے۔ کیونکہ نہ ہماری یہ اوقات ہے نہ اختیار ہے اور نہ حیثیت ہے۔ اسلیئے چور کی بجائے بادشاہ کا مہمان بننا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے مہمان کو وہ چیز تحفتاً ہی پیش کردی جائے جو چور چرا کر حاصل کرنا چاہتا ہے اپنے عارضی فائدے کے لیئے۔
#AtheismDebunked