Post by Admin on May 16, 2017 23:03:50 GMT
Imran A. Khan [Hanafi - Qadri]
عقل انسانی کا ادراک محسوسات کے دائرہ میں محدود ہے اسلیئے اسکا تصور اس دائرہ سے باہر قدم نہیں نکال سکتا وہ جب کسی ان دیکھی چیز کا تصور کرے گی تو لازمی امر ہے کہ وہ تصورات کو اپنے سامنے لائے گی جسے وہ دیکھتی یا سنتی ہے اور جو چیز اس کے حاسہ ذوق و لمس سے باہر نہیں ہے پھر اسکے فکر عمل کی جہاں تک رسائی ہے اسے وہ ایک طویل عرصے اور مدت میں طے کرتی ہے ابتدا مین اس کا ذہن عہد طفولیت میں تھا اسلیئے اس کے تصورات بھی اسی نوعیت کے ہوتے تھے پھر جوں جوں ارتقاء کی منازل طے کرتی گئی اس کے تصورات بھی بدلتے گئے۔ اس صورتحال کا قدرتی نتیجہ تھا کہ انسانی ذہن نے خدا کی ویسی صورت بنائی جیسی خود اس نے اور اسکے ماحول نے پیدا کرلی تھی جوں جوں اسکا معیارِ فکر بدلتا گیا وہ اپنے معبود کی شکل بھی بدلتا گیا جو صورت ذہن میں آئی وہ اسے معبود کی صورت سمجھ کر اور اسے خارج میں متشکل کرکے پوجنے لگا حالانکہ وہ معبود کی صورت نہ تھی وہ اسکے اپنے ذہن کی اختراع تھی۔ (اسکو چائنیز بھگوانوں، تبتیوں کے بدھوں اور ہندوستانی برہمنوں کے بھگوانوں میں پرکھا جاسکتا ہے)۔
اسی طرح زندگی کے دوسرے مسائل کی طرف بھی انسانی عقل نے توجہ دی مگر زمانہ ارتقا میں ہر پہلی عقل کے حل کردہ مسائل پر آنے والی عقلوں نے ایسے ایسے سخت وار کیئے جس سے وہ وہ مسئلہ مجروح ہوکر رہ گیا اور بفحوائے کلام الٰہی فوق کل ذی علم علیم ہر علم والے پر دوسرے علم والے کو فوقیت حاصل ہے۔
اسلیئے جو عقدہ کسی ایک فلسفی نے مدتوں سوچ بچار کے بعد حل کیا اور اسکی فلسفیانہ توجیہات سے ایسے عجیب و غریب نظریئے پیش کیئے جسے وہ اپنے عقیدہ میں آخری فیصلہ کن تصور سمجھتا تھا، وہ اسے احاطہ تحریر میں لاکر آنے والوں کی رہنمائی کے لیئے نشان ِ راہ چھوڑ گیا مگر زمانے کی ستم ظریفی نے اس پر ایسی شدید ضربیں لگائیں کہ اس کے تمام تار وپود بکھیر کر رکھ دیئے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے یہی طریق کار چلا آرہا ہے۔ مثلاً یونان کا مشہور فلاسفر دیمقراطیس جس نے کم وبیش آج سے تین ہزار سال پہلے مادیت کا ایک تصور پیش کیا تھا کہ تمام کائنات ذرات کا ایک مجموعہ ہے جس کے مختلف مجموعے مختلف اشیاء کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔ یہ ذرات غیرمنقسم اور بے انتہا باریک ہوتے ہیں جو تمام روحانی اور مادی مظاہر کی اصل ہیں۔ سترھویں صدی عیسوی تک مادیت کا یہ نظریہ اقتدار حاصل کیئے رہا لیکن اسی صدی کے آغاز میں اس کائناتی نظام کو رور فورڈ نے ایٹم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے خطرہ میں ڈال دیا اور یہ مادیت منقلب ہوکر سائنسی مادیت میں بدل گئی جو کہ آج بھی سائنسی تجربات کی اساس بنی ہوئی ہے۔
اسی طرح یونان کے بعد علم و فلسفہ کا مرکز اسکندریہ تھا، بلطیموس اسکندریہ کا فلسفی تھا جس نے تیسری صدی عیسوی میں مرکزیت ارض کے نظریئے کو مدون کیا یہ نظریہ یہ تھا کہ زمین اس کائنات کا مرکز ہے اور ساکن ہے اور باقی سات ستارے یعنی قمر، عطارد، زہرہ، شمس، مریخ، مشتری اور زحل کے اسکے گرد گھومتے ہیں زمین کے بالکل قریب کرہ نار ہے اس کے بعد پہلا فلک ہے جو قمر کا ہے قمر کے بعد عطارد، زہرہ، شمس، مریخ ، مشتری، اور زحل کے افلاک ہیں۔ سب سے آخر میں فلک الافلاک ہے جس میں ثوابت ہیں یہ تمام افلاک بسیط ہیں مرکب نہیں ہیں۔ ان میں خرق والتیام محال ہے یعنی یہ نہ پھٹ سکتتے ہیں نہ جڑ سکتے ہیں یہ تمام سیارے ان افلاک میں جڑے ہوئے ہیں خود یہ ستارے بھی نوری ہیں اور انکی ماہیت ہماری زمین سے بالکل مختلف ہے اسلیئے کہ زمین خاکی ہے اور یہ نوری ہیں ہرفلک کی ایک اپنی روح ہے جو اسے حرکت مین لاتی ہے یہ تھا بلطیموس کا وہ نظریہ جسے تیسری صدی سے لے کر سولھویں صدی تک دنیا مانتی رہی اگر کسی نے اسکے خلاف آواز اٹھائی بھی تو وہ صدا الصحرا ثابت ہوئی۔ 16 ویں صدی میں کوپرنیکس نے اس خیال کی تردید کی اور زمین کے بجائے سورج کے مرکز ہونے کا دعویٰ پیش کیا کوپرنیکس کی حمایت کپلر نے بھی کی مگر اسکی حمایت کا سبب اسکا سورج پرست ہونا تھا اسی لیئے کائنات کی مرکزیت کا فخر زمین کی بجائے سورج کو دینے میں اسے خوشی محسوس ہوئی اور اس نے اسکی تائید کی۔ لیکن یہ نظریہ عام مقبولیت حاصل نہ کرسکا۔ اس کی دو وجہیں تھیں ایک تو ہمارے حواس کی گواہی تھی جو زمین کو ساکن اور سورج کو متحرک دیکھتے تھے اور دوسرے یہ واضح تجربہ کہ سطح ارض سے فضا میں پھینکا جانے والا ہرجسم ٹھیک اسی جگہ گرتا ہے جہاں سے پھینکا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین متحرک نہیں ساکن ہے اور متحرک صرف سورج ہی ہے۔ گلیلیو کے عہد تک صورتحال یہی رہی لیکن گلیلیو کے عہد میں صورتحال نے انقلابی رخ اختیار کیا اور ایک چھوٹے سے واقعہ سے انسانی تاریخ کا پورا بہاؤ بدل کر رہ گیا۔
گلیلیو نے تاریخ کے چند عہد ساز لمحوں میں ایک صاف اور چمکتی ہوئی رات میں اپنی دوربین کا روخ چاند کی طرف پھیرا سترھویں صدی کا یہ لائق ترین مفکر یہ دیکھ کر دہشت زدہ رہ گیا کہ چاند ایک دائرہ کی طرح نہیں بلکہ ایک گول کرہ ہے جس کے ابھرے ہوئے نقوش پہاڑوں اور غاروں کا صاف وجود پیش کررہے ہیں۔
گلیلیو نے بار بار اپنی دوربین کو گھما کر فلک قمر کا پتہ چلانا چاہا مگر یہ ذی روح ہستی فضا کی پنہائیوں میں کہیں دور دور بھی نظر نہ آئی ۔ گلیلیو کی نظروں کے سامنے ایک عظیم حادثہ ہوا تھا ہزاروں اور سینکڑوں دانشوروں کے مقدس نظریئے کی نعش اسکی دوربینی کے دہانہ پر تڑپ رہی تھی اگر چاند بھی اینٹ اور پتھر کے مجموعے کا نام ہے اگر فلک قمر محض ایک سراب کی مانند حدِ نظر تھی تو اس بات کی کوئی ضمانت نہ تھی کہ اور افلاک بھی موجود ہیں۔ کوئی ضمانت نہیں کہ دوسرے سیارے بھی ایسے ہی نہ ہوں گے ان کے افلاک بھی حدِ نظر نہ ہوں گے اگر اینٹ اور پتھر کا مجموعہ ہونے کے باوجود چاند زمین کے گرد گھوم سکتا ہے تو زمین سورج کے گرد نہیں گھوم سکتی، چنانچہ سترھویں صدی میں جب کوپرنیکس اور گلیلیو نے کائنات کو روحوں سے خالی اور نیوٹن نے قوانین حرکت سے بھر دیا تو سائنسی مادیت اپنے شباب کو پہنچ گئی۔ میرا ان واقعات کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کے مفکرین نے اسی قسم کے مختلف حقائق کے چہروں سے پردہ اٹھایا ہے جس میں کہیں تو انہوں نے صائب رائے پیش کی اور کہیں انتہائی مغالطے میں پھنس گئے۔
سب سے پہلا اور بنیادی تصور جو ہر مذہب و ملت میں پایا جاتا ہے وہ خدا کا تصور ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت چار تصورات فکر انسانی پر حکمراں تھے۔ ہندوستانی، ایرانی، یہودی، اور مسیحی۔
ہندوستانی تصور میں سب سے پہلے اپنشدوں کا فلسفہء الٰہی نمایاں ہوتا ہے اوپنشدوں کے مطالب کی نوعیت کے بارے میں زمانہ حال کے شارحوں اور نقادوں کی آراء متفق نہیں ہیں۔ تاہم ایک بات بالکل واضح ہے یعنی اپنشد مسئلہ وحدت الوجود کا سب سے قدیم سرچشمہ ہیں مسئلہ وحدت الوجود خدا کی ہستی وصفات کا جو تصور پیدا کرتی ہے اس کی نوعیت کچھ عجیب طرح کی واقع ہوئی ہے ایک طرف تو وہ ہروجود کو خدا قرار دیتا ہے کیونکہ وجود حقیقی کے سوا کوئی وجود موجود ہی نہیں ۔ دوسری طرف خدا کے لیئے کوئی محدود اور مقید تخیل بھی قائم نہیں کرتا۔ بہرحال جو کچھ بھی ہو یہ تصور اپنی نوعیت میں اس درجہ فلسفیانہ قسم کا تھا کہ کسی عہد اور ملک میں بھی عامۃ الناس کا عقیدہ نہ بن سکا۔ ہندوستان میں بھی اس کی حیثیت فلسفہ ء الٰہیات کے ایک مذہب سے زیادہ نہیں رہی بہترین تعبیر جو اس صورتِ حال کی کی گئی ہے یہ ہے کہ عوام کے لیئے اصنام پرستی قرار دی گئی تھی اور خواص کے لیئے وحدت الوجود کا اعتقاد تھا۔ اوپنشدوں کے بعد بدھ مذہب کی تعلیم نمایاں ہوتی ہے ۔ بدھ مت کا ظہور چھٹی صدی قبل مسیح میں ہوا۔ بدھ مذہب مین فنائے ذات اور استیصال ہوس خود آخری منزل ہے کیونکہ گوتم بدھ کی تعلیم میں خدا یا برہمن یا آتما کا کوئی وجود نہیں ۔ گوتم بدھ کی تعلیم یہ تھی کہ انسان کی اپنی ذاتی جدوجہد، قوتِ ارادی اور اخلاقی کشمکش کا ثمرہ ہے جو شخص اپنے نفس کی تسخیر میں کامیاب ہوجائے اس کی فتح کو خدا بھی چاہے تو شکست میں نہیں بدل سکتا۔
جہاں تک فطرت کائنات صفات کا تعلق ہے گوتم بدھ دنیا میں درد و اذیت کے سوا کچھ نہیں دیکھتا زندگی اس کے نزدیک سراسر عذاب ہے اور لعنت ہے جس سے انسان کو بچ نکل جانا چاہیئے لہٰذا ہستی کی انانیت کو فنا کرکے "نروان" حاصل کرنا چاہیئے تاکہ زندگی کے عذاب سے چھٹکارا مل جائے۔
بدھ نے سب سے پہلے یہ آواز بلند کی کہ مذہبی رسوم ادا کرنے کے لیئے کسی پنڈت یا برہمن کی ضرورت نہیں ہرشخص اپنا پنڈت آپ ہے بدھ نے اپنی تعلیمات میں رہبانیت اور ترک دنیا کو زندگی کا سب سے بلند معیار قرار دیا ہے چنانچہ بہترین انسان کی کسوٹی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ پھٹے ہوئے چیتھڑے پہنے ان میں پیوند اپنے ہاتھ سے لگائے جنگلوں میں رہے اور وہاں بھی کوئی جھونپڑی نہ بنائے بلکہ صرف درختوں کے سائے ہی پر گزارہ کرے لیٹ کر سونے کی کوشش کبھی نہ کرے اگر نیند بہت زیادہ ستائے تو کسی درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر پلک جھپکالے، کھانا دن رات میں صرف ایک بار کھائے اور کھانے کے حصول کے لیئے کوئی محنت و مشقت بالکل نہ کرے صرف بھیک مانگ کر کام چلائے (یعنی بھکشو) بدھ کی یہ تعلیم زندگی سے گریز و فرار کی تعلیم تھی جس نے اپنے پیشرؤوں کا معیارِ زندگی بہت پست کردیا۔
بدھ مت کو انسانی روح کی حقیقت سے انکار ہے ظہور قرآن کے وقت ہندوستان کا عام مذہب یہی تھا۔
ایران میں مجوسی مذہب کی بنیاد (ثنویت ) ڈیو، ایلیٹی پر ہے یعنی خیر وشر کی دو الگ الگ قوتیں تسلیم کی گئی ہیں یزداں نور اور خیر کا خدا ہے اور اہرمن تاریکی و بدی کا۔ عبادت کی بنیاد آتش پرستی اور آفتاب پرستی پر رکھی گئی کہ روشنی یزدانی صفت کی سب سے بڑی مظہر ہے۔
زرتشت بھی ایرانی نژاد تھا اور مجوسی مذہب پر پیدا ہوا تھا لیکن اس نے اختلاف رائے کیا اور کہا کہ شر کی حیثیت ثانوی ہے اور انجام کار فتح خیر کی ہوگی زرتشت نے ہندو اور ایرانی قوم کو مظاہر ِ فطرت کی پرستش سے نکال کر وحدانیت کی تعلیم دی زرتشت نے ایک معبودِ حقیقی کی طرف بلایا اس کا نام خالق اکبر ہے زرتشتی مذہب میں بعض ایسی خصوصیات تھیں جو مذہب اسلام کے مماثل تھیں یہی وجہ ہے کہ اس مذہب کے پرؤوں نے اسلامی تعلیمات کو بہ آسانی قبول کرلیا۔
مثلاً اس مذہب کے مراسم و شعائر نہایت سادہ تھے اسکا اخلاقی عنصر نہایت قوی اور اسکا رجحان عمل کی طرف تھا اس نے عملیت اور فعالیت کی حوصلہ افزائی کی اور دنیاوی کاروبار کی ترقی کو مذہبیت کے منافی نہیں سمجھا۔
تصویر کشی اور مجسمہ سازی کو بھی اس نے ممنوع قرار دیا۔ خدا ان لوگوں کا دوست ہے جو اپنے اختیارات کا صحیح طور پار استعمال کرتے ہیں، جو ناراستی اور شر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کا نام زرتشت کی اصطلاح مین دیو ہے۔ زرتشت کے نزدیک اچھے انسان موت کے بعد ایک ایسی زندگی مٰیں داخل ہوں گے جس مٰں نیک اعمال اور اچھے خیالات کا چلن ہوگا اور گنہگاروں کو آئندہ زندگی میں سزا بھگتی پڑے گی سب سے اہم سزا آگ کی ہے جو بدکرداروں پر اوپر سے برسائی جائے گی راست باز لوگ اس آگ سے اسطرح گزریں گے جیسے دودھ کی نہر میں سے لیکن بداعمال لوگ اس میں بھسم ہوجائیں گے اس سے بھی زیادہ اہم تصور ایک پل کا ہے جو کوہِ ابرز کے اوپر بنا ہوا ہے اور جس کے نیچے دوزخ کی آگ پھیلی ہوئی ہے جب نیک کردار لوگ اس پُل پر سے گزریں گے تو یہ نہایت وسیع ہوجائے گا لیکن بداعمالوں کے گزرتے ہی یہ بال سے زیادہ باریک ہوجائے گا۔
زرتشت کے عقیدہ میں ہرانسان کی روح ابد سے موجود ہے اور مرنے کے بعد یہ روح باقی رہتی ہے۔
یہودیوں کا تصورِ تجسیم اور تنزہ کے بین بین تھا اور صفاتِ الٰہی میں غالب عنصر قہر و غضب کا تھا۔ خدا کا گاہ گاہ متشکل ہوکر نمودار ہونا مخاطیات الالٰہیہ کا سراسر انسانی صفات و جذبات پر مبنی ہونا قہر و انتقام کی شدت اور ادنیٰ درجہ کا تمثیلی اسلوب تورات کے صفحات کا عام تصور ہے۔
مسیحی قوم رحم و محبت کا پیام تھا۔ اور خدا کے لیئے باپ کی محبت و شفقت کا تصور پیدا کرنا چاہتا تھا تجسم و تنزہ کے لحاظ سے اس نے کوئی قدم آگے نہ بڑھایا گویا اس کی سطح وہیں تک رہی جہاں تک توریت کا تصور پہنچ چکا تھا لیکن جب حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد جب مسیحی عقائد کا رومی اصنام پرستی کے تخیلات سے امتزاج ہوا تو اقانیم ثلاثہ، کفارہ اور مریم پرستی کے عقئائد پیدا ہوگئے۔ نزولِ قرآن کے وقت بہ حیثیت مجموعی مسیحی تصور ترحم و محبت کے ساتھ کفارہ تجسم اور مریم پرستی کا مخلوط تصور تھا۔
ان تصورات کے علاوہ ایک تصور فلاسفہ یونان کا بھی تھا جو اگرچہ مذہب کے تصورات کی طرح قوموں کا تصور نہ ہوسکا تاہم اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تقریباً پانچ سو برس قبل از مسیح یونان مین توحید اور تنزیہہ کا اعتقاد نشوونما پانے لگا تھا ان کی سب سے بڑی معلم شخصیت سقراط کی حکمت میں نمایاں ہوئی سقراط کا تصور الٰہی کا جب ہم سراغ لگاتے ہیں تو ہمیں افلاطون کی شہرہ آفاق کتاب "جمہوریت" میں حسب ذیل مکالمہ ملتا ہے۔
اڈمنٹس ؛ شعراء کی الوہیت کا ذکر کرتے ہوئے کیا پیرایہ بیان اختیار کرنا چاہیئے؟
سقراط؛ ہرحال میں خدا کی ایسی توصیف ہونی چاہیئے جیسی کہ وہ اپنی ذات میں ہے خواہ وہ شعری ہو یا غنائی۔ علاوہ بریں اس میں شبہ نہیں کہ خدا کی ذات صالح ہے پس ضروری ہے کہ اسکی صفاتِ صالح اور حق پر مبنی ہوں۔
اڈمنٹس ؛ یہ درست ہے
سقراط:۔۔۔۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو وجود صالح ہوگا اس سے کوئی بات مضر صادر نہیں ہوسکتی اور جو ہستی غیر مضر ہوگی وہ کبھی شر کی صانع نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جو بات صالح ہو ضروری ہے کہ نافع بھی ہو پس معلوم ہوا کہ خدا صرف خیر کی علت ہے شر کی علت نہیں ہوسکتا۔
اڈمنٹس: درست ہے؛
سقراط؛۔۔۔۔ اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ خدا کا تمام حوادث و افعال کی علت ہونا ممکن نہیں جیسا کہ عام طور پر مشہور ہے بلکہ وہ انسانی حالات کے بہت ہی تھوڑے حصہ کی علت ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ہماری برائیاں بھلائیوں سے کہیں زیادہ ہیں اور برائیوں کی علت خدا کی صالح اور نافع ہستی نہیں ہوسکتی۔ پس چاہیئے کہ صرف اچھائی ہی کو اسکی طرف نسبت دین اور برائی کی علت کسی دوسری جگہ ڈھونڈیں۔
اڈمنٹس؛ میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ امر بالکل واضح ہے۔
حکماء یونان کے تصور الٰہی کی یہ سب سے بہتر شبیہ ہے جو افلاطون کے قلم سے نکلی ہے یہ خدا کے متشکل ہونے سے انکار کرتی ہے اور صفات ردیہ و خسیسہ سے بھی متنزہ تخیل پیش کرتی ہے، لیکن بہ حیثیت مجموعی صفاتِ حسنہ کا کوئی ارفع و اعلیٰ تصور نہیں رکھتی اور خیر وشر کی گھی سلجھانے سے یک قلم عاجز ہے اسے مجبوراً یہ اعتقاد پیدا کرنا پڑا کہ حوادتِ عالم اور افعال انسانی کا غالب حصہ خدا کے دائرہ تصرف سے باہر ہے کیونکہ دنیا میں غلبہ شر کو ہے نہ خیر کو اور خدا شر کا صانع نہیں ہوسکتا۔
روح کے متعلق بھی ان کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ روح ازلی و ابدی ہے اور مرنے کے بعد بھی یہ باقی رہتی ہے۔ بہرحال چھٹی صدی مسیحی میں دنیا میں خداپرستانہ زندگی کے تصورات اس حد تک پہنچے تھے کہ قرآن کا نزول ہوا۔
اور قرآن پاک نے جو تصور الٰہی پیش کیا ہے وہ سب سے الگ اور سب سے بلند تر ہے۔ اسکے لیئے ایک الگ سے آرٹیکل کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ ہیں وہ تمام مذاہب یا تصورات جو اسلام کی آمد سے قبل بھی موجود تھے اور آج بھی موجود تھے موجودہ دیسی دھریت خود اپنی چمڑی بچانے کے لیئے ان قدیم فاسد نظریات یا مسکڈ نظریات کا چربہ بنا کر پیش کرتی ہے جو کہ مکمل جہالت کی علامت ہے۔ اگلے حصہ میں مذہب اور ارواح کے بارے میں ابتدائی تصورات پیش کیئے جائیں گے۔