Post by Admin on Oct 31, 2017 20:41:05 GMT
امام یافعیؒ ابن تیمیہ کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ترجمہ: ابن تیمیہ نے کچھ عجیب و غریب مسائل بیان کیئے۔ جن پر نکیر کی گئی ہے (یہ مسائل جمہورعلمائے اہل سنت کے خلاف ہیں) اور ان مسائل میں مذہب اہلسنت وجماعت کی مخالفت کی وجہ سے ابن تیمیہ کو قید کیا گیا۔ ان مسائل میں سب سے قبیح بات یہ تھی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے روضہ مبارکہ کی زیارت سے منع کیا، حجۃ الاسلام امام غزالی، امام ابوالقاسم قشیری، شیخ ابوالحسن شاذلی جیسے اولیائے عظام و صوفیہ کرام پر طعن و تشنیع کی، اسی طرح فقہی مسائل طلاق وغیرہ اور عقیدے کے مسائل باری تعالیٰ کے لیئے جہت وغیرہ کے اثبات میں ابن تیمیہ سے اقوالِ باطلہ منقول ہیں، جو اس کے مذہب میں معروف ہیں۔
(مراۃ الجنان وَعبرۃ الیقضان ۔الامام ابی محمد عبداللہ بن اسعد بن علی بن سلیمان الیٰافعی الیمنی المکیؒ۔ ج۴ص۲۰۹ السنۃ ۷۲۸۔دارالکتب العلمیۃ بیروت)
علامہ امام ابن حجر لکھتے ہیں
ترجمہ: ابن تیمیہ سے جو کچھ سرزد ہوا ہے وہ ایسی لغزش ہے جو قابلِ معافی نہیں اور ایسی مصیبت ہے کہ جس کی نحوست اس پر ہمیشگی رہے گی، اس خطا کا صادر ہونا عجیب تر نہیں ہے۔ اسلیئے کہ ہوائے نفسانی اور شیطان نے اسکو گمراہ کردیا، اس نے ائمہ مجتہدین کے ساتھ جرات و جسات کی اور کیسا دھوکہ دیا کہ نہایت قبیح عیوب لیکر آیا کہ جب اس نے بہت سے مسائل میں ان کے اجماع کی مخالفت کی اور کمزور اعتراضات کے ذریعے ائمہ مجتہدین بالخصوص خلفائے راشدین کی اصلاح کرنے کا دعویٰ کیا اور ان خرافات کے راستے سے ایسی ایسی چیزیں لیکر آیا جن کو کان سننا گوارا نہ کریں اور ان سے طبیعتیں متنفر ہوں، یہاں تک کہ بارگاہِ الٰہی تک تجاوز کرگیا، وہ ذات جو نقص و عیب سے پاک ہے اور تمام کمالات کی مستحق ہے اسکی جانب (ابن تیمیہ) نے بڑی بڑی باتیں منسوب کردیں اور اس کے پردہ عظمت و کبریائی میں شگاف ڈالنا چاہا، ان باتوں کے ذریعے جو اس نے برسرمنبر عوام کے سامنے ظاہر کیں مثلاً اللہ تعالیٰ کے لیئے جہت اور جسم کا دعویٰ کرنا وغیرہ اور متقدمین و متاخرین میں سے جو شخص اس کا (یعنی اللہ تعالیٰ کے لیئے جہت و جسمیت کا اعتقاد نہ رکھتا ہو اس کو گمراہ قراردیا۔ یہاں تک کہ اسی کے زمانے کے علماء اس کےمقابلے کے لیئے اٹھ کھڑے ہوئے اور بادشاہ کو مجبور کردیا کہ ابن تیمیہ کو قتل کروائے یا قید کروائے تو بادشاہ نے اس کو قید کروا دیا، یہاں تک کہ (قیدخانے ہی میں) اسکی موت واقع ہوگئی۔ اس طرح بدعت (کی یہ آگ) ٹھنڈی پڑی اور یہ تاریکی دور ہوئی۔ پھر اس کے بعد اس کے بعض پیروکاروں نے اسکی حمایت و نصرت شروع کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا سربلند نہیں ہونے دیا اور انکی عظمت و طاقت ظاہر نہ ہوسکی، بلکہ ان کے اوپر ذلت و رسوائی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہوئے یہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا بدلہ ہے۔
الجوھر المنظم فی ذیارۃ القبرالشریف النبوی المکرمﷺ۔ امام سیدی احمد بن حجر الھیثمیؒ صفحات ۲۹۔۳۰دارجوامع الکلم قاہرہ مصر
امام ابن حجر ؒالھیثمی ابن تیمیہ کی بابت لکھتے ہیں:
ترجمہ: اگرآپ کہیں کہ آپ نے کیسے کہہ دیا کہ زیارت اور اسکے سفر وغیرہ کے جواز پر اجماع ہے حالانکہ متاخرین حنابلہ میں سے ابن تیمیہ ان تمام چیزوں کے جواز کے منکر ہیں۔ جیسا کہ خود امام سبکی نے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیکھا ہے اور ابن تیمیہ نے اس امر پر دلیل میں بڑا طویل کلام کیا ہے، جو سماعت پر گراں اور طبیعت کو متنفر کرنے والا ہے، بلکہ ابن تیمیہ نے یہ گمان کیا کہ سفرِزیارت اجماعی طور پر حرام ہے اور سفر زیارت پر جانے والا اس سفر کے دوران نمازِ قصر نہیں کرتے گا(کیونکہ یہ سفرِ معصیت ہے) اور (ابن تیمیہ نے یہ بھی کہا کہ) اس سلسلے میں جتنی احادیث وارد ہیں سب موضوع ہیں، ان کے بعد آنے والے ان کے اہل مذہب نے (اس معاملے میں ان کی اتباع کی)۔
اسکے جواب میں مَیں کہوں گا کہ ابن تیمیہ کون ہے؟ کہ اسکی طرف التفات کیا جائے؟ اور دین کے معاملے میں اس پر اعتماد کیا جائے؟ (جیسا کہ ائمہ کی ایک جماعت نے فرمایا جس نے ابن تیمیہ کے فاسد اقوال اور کمزور دلیلوں کا تعاقب کیایہاں تک کہ اس کے عیوب اور اسکے اوہام اور غلطیوں کی قباحتوں کو ظاہرکردیا۔ مثلا عز بن جماعۃ وغیرہ) کہ ابن تیمیہ ایسا شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اسکو ذلت اور رسوائی کا لباس پہنا دیا ہے، کذب و افترا اس کے لیئے مقدر کردیا ہے جس ے بعد اہانت اس کا نصیب ہے اور محرومی کو اس کے اوپر مسلط کردیا ہے۔ شیخ الاسلام عالم انام جنکی جلالت شان مرتبہء اجتہاد اور صلاح و امامت پر اجماع ہے یعنی امام تقی الدین سبکیؒ انہوں نے ایک مستقل کتاب لکھ کر ابن تیمیہ کا رد فرمایا جس میں بہترین افادہ اور حق و صواب کو ظاہرکیا اور اپنی روشن دلیلوں سے حق وصواب کا راستہ واضح کردیا، اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کی جزا عطا فرمائے اور ان پر اپنی رحمتوں کا سایہ فرمائے
الجوھر المنظم فی ذیارۃ القبرالشریف النبوی المکرمﷺ۔ امام سیدی احمد بن حجر الھیثمیؒ صفحات ۲۷،۲۸دارجوامع الکلم قاہرہ مصر
قولِ امام برجہالتِ تیمیہ
محمد بن اسعد جلال الدین المعروف امام محقق دوانی نے شرح عقائد میں لکھا ہے:
ابو العباس احمد بن ابن تیمیہ اور انکے اصحاب (باری تعالیٰ کے لیئے) جہت کو ثابت کرنے میں زیادہ میلان رکھتے ہیں، نفی جہت کے تعلق سے انہوں نے جرح و قدح میں مبالغے سے کام لیا ہے، مَیں نے ابن تیمیہ کی بعض تصانیف میں دیکھا کہ (ابن تیمیہ نے لکھا) بدیہی طور پر ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں کہ یہ کہاجائے کہ اللہ معدوم ہے یا یہ کہاجائے کہ مَیں نے اسے ہرجگہ تلاش کیا لیکن اسے نہیں پایا۔ ابن تیمیہ نے جہت کی نفی کرنے والوں کو گمراہ قرار دیا حالانکہ وہ علوم عقلیہ و نقلیہ میں بڑا مرتبہ رکھتا تھا۔
بحوالہ۔ شرح العقائد العضدية للدواني صفحہ ۱۶۳ ج ۲ دارسعادت استنبول۔ و مخطوط عقائد العضدیۃ۔
ملا عبدالعلی فرنگی محلی (ارکان اربعہ) میں لکھتے ہیں؛
جاننا چاہیئے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر انور کی زیارت ہمارے مشائخ کرام شافعی، مالکی اور جمہور حنابلہ کے نزدیک متفقہ طور پر اعظم مندوبات اور منبع برکات میں سے ہے، شرح مختار میں ہے کہ جو شخص زیارت کی استطاعت رکھتا ہو اس کے لیئے تو یہ قریب الواجب ہے۔ اس بات کی تصدیق کے بعد کہ آپ ﷺ رسولوں میں سب سے افضل ہیں اس (زیارت قبر انور) کے حکم میں مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں ہے۔ جس نے بھی اس کا انکار کیا جیسا کہ ابن تیمیہ اور ان کے متبعین کی طرف سے منقول ہے تو اس نے سفاہت سے کام لیا اور واضح اسلامی احکام کا انکار کیا، عظیم برکتوں کے حصول کے راستے کو بند کردیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر انور کی زیارت فرائض کے بعد ان امور میں سب سے عظیم ہے جن کے ذریعے تقرب الی اللہ حاصل کیا جاتا ہے، یہ کہنا کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں، یہ بڑی جہالت اور ایک بڑی خیر سے محرومی ہے اور یہ اس شخص کا قول ہوسکتا ہے کہ جسکے پاس نہ عقل ہے نہ ادب، اس قسم کے اقوال اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کا تصور کیا جائے چہ جائیکہ ان کو زبان سے ادا کیا جائے (زیارت قبر رسول کی حرمت پر) حدیث لاتشد الرحال سے اس کا دلیل لانا یہ خود دلیل دینے والے کی جہالت کی دلیل ہے، اس لیئے کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ نماز پڑھنے کے ارادے سے ان تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کے سفر کا قصد نہ کیا جائے
رسائل الارکان ص ۲۷۸ مطبع الیوسفی لکھنؤ ہند
Jari hy
علامہ امام ابن حجر لکھتے ہیں
ترجمہ: ابن تیمیہ سے جو کچھ سرزد ہوا ہے وہ ایسی لغزش ہے جو قابلِ معافی نہیں اور ایسی مصیبت ہے کہ جس کی نحوست اس پر ہمیشگی رہے گی، اس خطا کا صادر ہونا عجیب تر نہیں ہے۔ اسلیئے کہ ہوائے نفسانی اور شیطان نے اسکو گمراہ کردیا، اس نے ائمہ مجتہدین کے ساتھ جرات و جسات کی اور کیسا دھوکہ دیا کہ نہایت قبیح عیوب لیکر آیا کہ جب اس نے بہت سے مسائل میں ان کے اجماع کی مخالفت کی اور کمزور اعتراضات کے ذریعے ائمہ مجتہدین بالخصوص خلفائے راشدین کی اصلاح کرنے کا دعویٰ کیا اور ان خرافات کے راستے سے ایسی ایسی چیزیں لیکر آیا جن کو کان سننا گوارا نہ کریں اور ان سے طبیعتیں متنفر ہوں، یہاں تک کہ بارگاہِ الٰہی تک تجاوز کرگیا، وہ ذات جو نقص و عیب سے پاک ہے اور تمام کمالات کی مستحق ہے اسکی جانب (ابن تیمیہ) نے بڑی بڑی باتیں منسوب کردیں اور اس کے پردہ عظمت و کبریائی میں شگاف ڈالنا چاہا، ان باتوں کے ذریعے جو اس نے برسرمنبر عوام کے سامنے ظاہر کیں مثلاً اللہ تعالیٰ کے لیئے جہت اور جسم کا دعویٰ کرنا وغیرہ اور متقدمین و متاخرین میں سے جو شخص اس کا (یعنی اللہ تعالیٰ کے لیئے جہت و جسمیت کا اعتقاد نہ رکھتا ہو اس کو گمراہ قراردیا۔ یہاں تک کہ اسی کے زمانے کے علماء اس کےمقابلے کے لیئے اٹھ کھڑے ہوئے اور بادشاہ کو مجبور کردیا کہ ابن تیمیہ کو قتل کروائے یا قید کروائے تو بادشاہ نے اس کو قید کروا دیا، یہاں تک کہ (قیدخانے ہی میں) اسکی موت واقع ہوگئی۔ اس طرح بدعت (کی یہ آگ) ٹھنڈی پڑی اور یہ تاریکی دور ہوئی۔ پھر اس کے بعد اس کے بعض پیروکاروں نے اسکی حمایت و نصرت شروع کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا سربلند نہیں ہونے دیا اور انکی عظمت و طاقت ظاہر نہ ہوسکی، بلکہ ان کے اوپر ذلت و رسوائی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہوئے یہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کا بدلہ ہے۔
الجوھر المنظم فی ذیارۃ القبرالشریف النبوی المکرمﷺ۔ امام سیدی احمد بن حجر الھیثمیؒ صفحات ۲۹۔۳۰دارجوامع الکلم قاہرہ مصر
امام ابن حجر ؒالھیثمی ابن تیمیہ کی بابت لکھتے ہیں:
ترجمہ: اگرآپ کہیں کہ آپ نے کیسے کہہ دیا کہ زیارت اور اسکے سفر وغیرہ کے جواز پر اجماع ہے حالانکہ متاخرین حنابلہ میں سے ابن تیمیہ ان تمام چیزوں کے جواز کے منکر ہیں۔ جیسا کہ خود امام سبکی نے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیکھا ہے اور ابن تیمیہ نے اس امر پر دلیل میں بڑا طویل کلام کیا ہے، جو سماعت پر گراں اور طبیعت کو متنفر کرنے والا ہے، بلکہ ابن تیمیہ نے یہ گمان کیا کہ سفرِزیارت اجماعی طور پر حرام ہے اور سفر زیارت پر جانے والا اس سفر کے دوران نمازِ قصر نہیں کرتے گا(کیونکہ یہ سفرِ معصیت ہے) اور (ابن تیمیہ نے یہ بھی کہا کہ) اس سلسلے میں جتنی احادیث وارد ہیں سب موضوع ہیں، ان کے بعد آنے والے ان کے اہل مذہب نے (اس معاملے میں ان کی اتباع کی)۔
اسکے جواب میں مَیں کہوں گا کہ ابن تیمیہ کون ہے؟ کہ اسکی طرف التفات کیا جائے؟ اور دین کے معاملے میں اس پر اعتماد کیا جائے؟ (جیسا کہ ائمہ کی ایک جماعت نے فرمایا جس نے ابن تیمیہ کے فاسد اقوال اور کمزور دلیلوں کا تعاقب کیایہاں تک کہ اس کے عیوب اور اسکے اوہام اور غلطیوں کی قباحتوں کو ظاہرکردیا۔ مثلا عز بن جماعۃ وغیرہ) کہ ابن تیمیہ ایسا شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اسکو ذلت اور رسوائی کا لباس پہنا دیا ہے، کذب و افترا اس کے لیئے مقدر کردیا ہے جس ے بعد اہانت اس کا نصیب ہے اور محرومی کو اس کے اوپر مسلط کردیا ہے۔ شیخ الاسلام عالم انام جنکی جلالت شان مرتبہء اجتہاد اور صلاح و امامت پر اجماع ہے یعنی امام تقی الدین سبکیؒ انہوں نے ایک مستقل کتاب لکھ کر ابن تیمیہ کا رد فرمایا جس میں بہترین افادہ اور حق و صواب کو ظاہرکیا اور اپنی روشن دلیلوں سے حق وصواب کا راستہ واضح کردیا، اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کی جزا عطا فرمائے اور ان پر اپنی رحمتوں کا سایہ فرمائے
الجوھر المنظم فی ذیارۃ القبرالشریف النبوی المکرمﷺ۔ امام سیدی احمد بن حجر الھیثمیؒ صفحات ۲۷،۲۸دارجوامع الکلم قاہرہ مصر
قولِ امام برجہالتِ تیمیہ
محمد بن اسعد جلال الدین المعروف امام محقق دوانی نے شرح عقائد میں لکھا ہے:
ابو العباس احمد بن ابن تیمیہ اور انکے اصحاب (باری تعالیٰ کے لیئے) جہت کو ثابت کرنے میں زیادہ میلان رکھتے ہیں، نفی جہت کے تعلق سے انہوں نے جرح و قدح میں مبالغے سے کام لیا ہے، مَیں نے ابن تیمیہ کی بعض تصانیف میں دیکھا کہ (ابن تیمیہ نے لکھا) بدیہی طور پر ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں کہ یہ کہاجائے کہ اللہ معدوم ہے یا یہ کہاجائے کہ مَیں نے اسے ہرجگہ تلاش کیا لیکن اسے نہیں پایا۔ ابن تیمیہ نے جہت کی نفی کرنے والوں کو گمراہ قرار دیا حالانکہ وہ علوم عقلیہ و نقلیہ میں بڑا مرتبہ رکھتا تھا۔
بحوالہ۔ شرح العقائد العضدية للدواني صفحہ ۱۶۳ ج ۲ دارسعادت استنبول۔ و مخطوط عقائد العضدیۃ۔
ملا عبدالعلی فرنگی محلی (ارکان اربعہ) میں لکھتے ہیں؛
جاننا چاہیئے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر انور کی زیارت ہمارے مشائخ کرام شافعی، مالکی اور جمہور حنابلہ کے نزدیک متفقہ طور پر اعظم مندوبات اور منبع برکات میں سے ہے، شرح مختار میں ہے کہ جو شخص زیارت کی استطاعت رکھتا ہو اس کے لیئے تو یہ قریب الواجب ہے۔ اس بات کی تصدیق کے بعد کہ آپ ﷺ رسولوں میں سب سے افضل ہیں اس (زیارت قبر انور) کے حکم میں مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں ہے۔ جس نے بھی اس کا انکار کیا جیسا کہ ابن تیمیہ اور ان کے متبعین کی طرف سے منقول ہے تو اس نے سفاہت سے کام لیا اور واضح اسلامی احکام کا انکار کیا، عظیم برکتوں کے حصول کے راستے کو بند کردیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر انور کی زیارت فرائض کے بعد ان امور میں سب سے عظیم ہے جن کے ذریعے تقرب الی اللہ حاصل کیا جاتا ہے، یہ کہنا کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں، یہ بڑی جہالت اور ایک بڑی خیر سے محرومی ہے اور یہ اس شخص کا قول ہوسکتا ہے کہ جسکے پاس نہ عقل ہے نہ ادب، اس قسم کے اقوال اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کا تصور کیا جائے چہ جائیکہ ان کو زبان سے ادا کیا جائے (زیارت قبر رسول کی حرمت پر) حدیث لاتشد الرحال سے اس کا دلیل لانا یہ خود دلیل دینے والے کی جہالت کی دلیل ہے، اس لیئے کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ نماز پڑھنے کے ارادے سے ان تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کے سفر کا قصد نہ کیا جائے
رسائل الارکان ص ۲۷۸ مطبع الیوسفی لکھنؤ ہند
Jari hy