اپنے ہی پیر پر بت پرستی کا الزام:
سید احمد بریلوی (دیوبندی وہابی) سوکالڈ شہیدِ بالاکوٹ ، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے تصوف کی منزلیں طے کرتے رہے جب شاہ صاحب نے (تصورِ شیخ) کا فرمایا تو شید صاحب نے کہا یہ میں نہیں کرسکتا کیونکہ تصور شیخ اور بت پرستی میں جو کہ بدترین کفر و شرک ہے کوئی فرق نہیں۔ شاہ صاحب نے حافظ شیرازی کا یہ شعر پڑھا
بمے سجادہ رنگیں کن گرت پیرمغاں گوید
کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلھا
سید صاحب نے کہا آپ جیسے حکم دیں ویسے ہی کروں گا۔ لیکن شیخ کی عدم موجودگی میں تصورِ شیخ کرنا، اس سے امداد اور توجہ مانگنا بعینہ بت پرستی اور شرک صریح ہے میں ہرگز ہرگز نہیں کروں گا۔
حوالہ ۔ سید محمد علی ۔ مخزن احمدی ص 19
ترسم کہ نہ رسی بکعبہ اے اعرابی
کیں راہ کہ تومی روی بترکستان است
واضح رہے کہ یہ وہ سید صاحب بول رہے ہیں جو قرآن حکیم کی چند سورتوں کے علاوہ ناظرہ قرآن بھی نہیں پڑھ سکتے جنہوں نے کریما کا پہلا مصرع، کریما بہ بخشا برحال ما، تین روز میں یاد کیا اور پھر بھی اسے بھول جاتے۔ جنہیں تعلیم دینے سے شاہ عبدالعزیز عاجز آچکے تھے جنہیں (شیعانِ علی) کا معنی بھی نہ آتا تھا۔
آج وہ سید صاحب فرما رہے ہیں اپنے ہی پیرومرشد کو کہ تصورِ شیخ بت پرستی اور شرکِ صریح ہے اور طرہ یہ کہ بت پرستی کا الزام اپنے ہی پیر کو دے رہے ہیں ۔
چو کفر از کعبہ بر خیز و کجا ماند مسلمانی
اور اس پیر طریقت کو بت پرستی کا الزام دینا کہ جن کی بزم علم و عرفان کے چرچے ہندوستان کی سرحدوں کو عبور کیئے ہوئے تھے اور اس تصور شیخ کو بت پرستی اور شرک صریح قرار دے رہے ہیں جو صدیوں سے روئے زمین کے اہل اللہ کا معمول رہا ہے۔
یہ اس نام نہاد شہید ِ فسادِ بالاکوٹ کا جس کی آج بھی پیروی وہابی دیوبندی بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں اور ایک نامعلوم قبر کو اسکی قبر قرار دے کر وہاں پر خؤد قبر پرستی کے مرتکب ہوتے ہیں
آپ چاہیں تو کریما کی تعلیم سے بھی کورے سید صاحب کے قول کو قبول کرلیں اور شاہ عبدالعزیز سے لے کر شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ، خواجہ معین الدین اجمیری اور مجدد الف ثانی سمیت شیخ بہاؤ الدین نقشبند پر بت پرستی اور کفر صریح کے ارتکاب کا فتویٰ عائد کردیں اور اگر چاہیں تو اسے سید صاحب کی بے علمی اور خبط قرار دے لیں۔ اور یہ آخری فیصلہ زیادہ آسان ہے۔
تصورِ شیخ اور سرپرستِ دیوبند
تصورِ شیخ کے بارے میں سید صاحب کے نقطہ نظر کے بعد اب دیوبند کے سرپرست مولانا رشید گنگوہی کا بھی قول پڑھ لیں جو سید صاحب کے اخلاف سلسلہ کے ایک بزرگ ہیں تاکہ تصویر کے دونوں رخ سامنے آجائیں۔
ایک دفعہ گنگوہی (زحمتہ اللہ علیہ) جوش میں تھے اور تصور شیخ کا مسئلہ درپیش تھا۔ فرمایا کہ کہہ دوں؟ عرض کیا گیا کہ فرمائیے ۔ پھر فرمایا کہہ دوں؟۔ عرض کیا گیا فرمائیے۔ پھر فرمایا کہہ دوں عرض کیا گیا فرمائیے تو فرمایا۔
تین سال کامل حضرت امداد کا چہرہ میرے قلب میں رہا ہے اور میں نے ان سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کیا۔
پھر اور چوش آیا۔ فرمایا کہہ دوں؟۔ عرض کیا گیا حضرت ضرور فرمائیے ۔ فرمایا کہ اتنے سال حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے قلب میں رہے اور میں نے کوئی بات بغیر آپ کے پوچھے نہیں کی ۔ (حوالہ۔ اشرف علی تھانوی۔ ارواح ثلاثہ ص 290)۔
سید صاحب کی تحقیق کی رو سے مولانا گنگوہی بت پرست اور کافر ء صریح ہوئے۔
نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان
کی مشہور ضرب المثل آپ کو نہیں سنانا چاہتے صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ
چوں شمع از پے علم باید گداخت ۔ کہ بے علم نتواں خداراشناخت
ہم محاکمہ کی لیاقت تو نہیں رکھتے ۔ لیکن کریما کی تعلیم سے بھی کورے سید صاحب اور خاتم المحدثین حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کے مقام ومرتبہ میں تفریق کی تمیز و تفہیم ضرور رکھتے ہیں۔
اگر سید صاحب کا پیر طریقت سے یہ مکالمہ صحیح ہے (اور یقیناً صحیح ہے کہ راوی شاہ اسماعیل ہیں) تو سید صاحب کی خلافت کا قصہ ایک افسانہ تو ہوسکتا ہے حقیقت نہیں ہوسکتی ۔ بت تراش اور بت شکن کا کوئی جوڑ نہیں۔ آتش اور آب کا کوئی میل نہیں۔ پیر اور مرید کی راہیں الگ الگ ہیں۔ پیر (برافلاک رفت) اور مرید (بصحرا رود) سید صاحب چونکہ تعلیم سے بے بہرہ تھے ۔ اسلیئے تبلیغ کرنے اور دوسرے کو متاثر کرنے کا کوئی خاص گر نہ رکھتے تھے ۔ شیخ اکرام لکھتے ہیں۔
وعظ و تبلیغ میں سید صاحب کو وہ ملکہ حاصل نہ تھا جو شاہ اسمعیل شہید کو تھا۔ (حوالہ موج کوثر، محمد اکرم شیخ ص 17)۔