Post by Admin on Jul 14, 2019 7:26:03 GMT
a
دجال سیریز پارٹ 4
بعض روایات میں یہ آیا ہے کہ عراق سے مراد سرزمین فارس ہے جس میں آج عراق، ایران، آذربائیجان اور بلوچستان کے بعض علاقے مثلاً مکران وغیرہ شامل تھے۔ اس وقت کا خراسان آج کے افغانستان و ایران اور بلوچستان کے بعض حصوں پر مشتمل ہے۔، ذیل میں دیئے گئے چارٹ میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جو سرخ دائرہ دیا گیا ہے اور جو بلیو لائن نظر آرہی ہے وہ خراسان ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس بات میں اتنا فرق ہے کہ آج کے ادوار میں ایران کے کچھ علاقوں سے لیکرپورا افغانستان، آذربائیجان اور موجودہ پاکستان کے بلوچی پٹی سے لیکر سرحدی لائنز تک پورے کا پورا ماضی کا خراسان تھا۔ ایگزیکٹ کیلکولیشنز کیلئے نقشہ جات کا ایکسپرٹ چیک کرسکتا ہے۔
حضرت ہیثم بن اسود فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے پوچھا اور اس وقت وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کیا تم اس علاقہ کو پہچانتے ہو جو تمہاری طرف ہے؟ وہ بہت نمکین اور دلدلی زمین ہے جس پر کائی کی طرح کی کوئی چیز جمی ہوئی ہے، اس علاقے کا نام کوثی ہے؟ میں نے کہا: ہاں پہچانتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: دجال وہیں سے نکلے گا۔یہ حدیث نعیم ابن حماد کی الفتن کی حدیث نمبر 1504 ہے۔ ایسے صحیح مسلم جلد نمبر4 ص 2266 پر ہے کہ عن اسحاق بن عبداللہ قال سمعت انس بن مالک یقول یتبع الدجال سبعون الفاً من یہود اصبھان علیھم الطیالسۃ۔ حضرت اسحاق بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اسفہان کے سترہزار یہودی دجال کے پیروکار ہونگے جن کے جسموں پر طیالسی چادریں ہونگی۔
حضرت عمرو بن حیث حضرت ابوبکر صدیق سے روایت کرتے ہیں (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:”دجال روئے زمین کے ایک ایسے حصہ سے نکلے گا جو مشرق میں واقع ہے اور جس کو خراسان کہا جاتا ہے، اس کے ساتھ لوگوں کے کتنے ہی گروہ ہونگے اور ان (میں سے ایک گروہ کے) لوگوں کے چہرے تہہ بہ تہہ پھولی ہوئی ڈھال کی مانند ہونگے۔
اب کچھ لوگوں کے مطابق اس روایت کے مطابق دجال کے ساتھ ایک گروہ ایسا ہوگا جن کے چہرے پھولی ہوئی ڈھال کی مانند ہونگے۔ کیا واقعی ان کے چہرے ایسے ہونگے یا پھر انہوں نے اپنے چہروں پر کوئی ایسی چیز پہن رکھی ہوگی جس سے وہ اس طرح نظر آرہے ہونگے؟ اس حدیث میں خراسان کو دجال کے نکلنے کی جگہ بتایا گیا ہے، دجال کا خروج پہلی روایت میں اصفھان اور اس روایت میں خراسان سے بتایا گیا ہے۔ اس میں کوئی تعارض اسلیئے نہیں کہ اصفھان موجودہ ایران کا ایک صوبہ ہے اور ایران بھی پہلے خراسان میں شامل تھا۔
خراسان کے بارے میں جس لشکر کا بیان آیا ہے جو امام مہدی علیہ السلام کی حمایت کیلئے آئے گا۔اگر آج اس کے آثار دیکھنے کی کوشش کی جائے تو متعدد افراد کے مطابق افغانستان کے اس خطہ میں نظر آتے ہیں جنہیں دنیا پختون آبادی کی حیثیت سے جانتی ہے۔ اس کے دیگر کچھ اور عوامل بھی مدنظر رکھنے اشد ضروری ہیں جیسے مثال کے طور پر پختونوں کا ایسے الحادی ادوار میں بھی بھرپور طریقے سے اپنی اسلامی اور پختون روایات پر کاربند ہیں، اگرچہ معاشرتی زوال کا سامنا یہاں بھی ہے لیکن ان کی دین پسندی پوری دنیا میں معلوم ہے۔ آپ یہی دیکھ لیں کہ دنیا کی دو سوپر پاورز کا قبرستان آپ کے سامنے موجود ہے۔ انہیں علاقوں پر بدترین دہشتگردی کی گئی چاہے وہ امریکی ہوں یا ان کے پٹھو، یا چاہے ڈرون اٹیکس ہوں، سب کے سب ہونے کے باوجود تمام ترخرابی ہونے کے باوجود بھی یہی وہ خطہ ہے جو ابھی تک دیگر اسلامی دنیا سے زیادہ اپنی اصل بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ واحد ملک ہے اس وقت دنیا میں جہاں اسلامی نظام یعنی شریعت بطور قانون نافذ تھا جس کو منہدم کرنے کی ناپاک کافرانہ کوششوں میں اپنے پرائیوں سب کا ہاتھ ہے۔ اور یہ تباہ اس وجہ سے ہوئے کہ انہوں نے اپنی بنیاد چھوڑ دی، عقائد گمراہی کے رکھے اور اسی وجہ سے روُ بہ زوال ہے یہ علاقہ، اگر یہ چیز ان سے ختم ہوجائے اور اپنی اصلی اسلامی، حقیقی روایات پر کاربند ہوکر یہ ترقی کرگئے تو یہ پورا خطہ روشن نہ ہوجائے۔ دوسری طرف جو دوسری روایت ہے اس میں دجال کے نکلنے کا مقام اصفھان میں یہودیہ نامی جگہ کو بتایا گیا ہے۔ بختِ نصر نے جب بیت المقدس پر حملہ کیا تو بہت سے یہودی اصفھان کے اس علاقے میں آکر آباد ہوگئے تھے، چنانچہ اس علاقے کا نام یہودیہ پڑ گیا۔ یہودیوں کےا ندر اصفھانی یہودیوں کا ایک خاص مقام ہے۔ اسی لیئے دجال کے ساتھ سترہزار اصفہانی یہودیوں کا ذکر ہے۔
کئی لوگوں کو شاید معلوم نہیں کہ پرنس کریم آغا خان فیملی کا تعلق بھی اصفھان سے ہے اور اس خاندان نے برصغیر میں جو خدمات اپنی قوم کیلئے انجام دی ہیں اور دے رہے ہیں وہ اس پائے کی ہیں کہ اگر اس دور میں دجال آجائے تو یہ خاندان دجال کے بہت قریبی لوگوں میں شامل ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی شخصیات ہیں جو اصفھانی یہودی ہیں اور اس وقت عالم اسلام کے معاملات میں بہت اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ امت میں موجود تمام گمراہ فرقوں یعنی 72 فرقوں کی اصل بھی جاکر انہیں خوارج سے ملتی ہے جن کو زمین میں دھنسایا جائے گا، کی حدیث میں روایت ہوا ہے۔ نیز قادیانی فرقہ جو اس وقت بھی قادیان سمیت کئی ممالک میں اپنی صیہونی کبال کو کنٹرول کررہا ہے یہ گروہ اپنے خلافتی نظام کے تحت مکمل طور پر کبابیر اسرائیل میں بھی موجود ہے۔
ایک اور طویل حدیث کے بعض الفاظ ایسے ہیں “سنو! دجال شام و عراق کے درمیان خلہ نامی جگہ سے نکلے گا اور اپنے دائیں بائیں ملکوں میں فساد پھیلائے گا۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر ثابت قدم رہنا۔ میں تمہیں وہ حالت بتاتا ہوں جو مجھ سے پہلے کسی نے نہ بیان کی، پہلے تو وہ نبوت کا دعویٰ کریگا پھر(کچھ عرصہ کے بعد) کہے گا میں خدا ہوں (نعوذ باللہ) حالانکہ تم مرنے سے پہلے خدا کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس کے علاوہ وہ کانا ہوگا جبکہ تمہارا رب کانا بھی نہیں۔ اس کے پیشانی پر ک۔ ف۔ ر (کافر) لکھا ہوگا جسے ہرمومن پڑھالکھا خواہ ان پڑھ پڑھ لے گا۔”۔
ان الفاظ میں ڈسکرپشن چھپی ہوئی ہے۔ اس وقت ایشو یہ ہے کہ دجال کی آمد کی نشانیاں کس قدر ظاہر ہوچکی ہیں، آیا یہ درمیانی دور ہے یا ابتدائی دور یا درمیانی دور کی انتہائی ادوار اور یا آخری ادوار کی ابتدا کا دور۔ ایک عرب مسلم محقق محمد عیسیٰ الاطال المصری کے مطابق قوت کشش یا دجالی قوت میں اکثر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ شیطانی سمندر (برمیودا ٹرائینگل) اور اسکی تکون کے مابین ایسی پراسرار کشش ہے جو ہماری اس کشش ثقل سے مختلف ہے جس کو ہم جانتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ تکون نما علاقہ لوگوں کے لیئے ایک پراسرار معمہ ہے اور تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود بھی حتمی طور پر اس کے بارے میں کوئی رائے دینا ممکن نہیں رہا۔ مسلم محققین کے مطابق شیطانی سمندر اور برمودا تکون کےا ندر دجال نے خفیہ پناہگاہیں بنائی ہوئی ہیں جہاں سے وہ دنیا کے نظام کو کنٹرول کررہا ہے۔ اور میں (عیسی المصری) انہیں سے اتفاق کرتا ہوں۔
اس بارے میں تفصیل کچھ یوں ہے کہ برمودا بحر اوقیانوس (ایٹلانٹک اوشیئن) کے کل 300 جزیروں پر مشتمل علاقہ ہے۔ جن میں اکثر غیرآباد ہیں۔ صرف20 جزیروں پر انسان آباد ہیں وہ بھی بہت کم تعداد میں اور جو علاقہ خطرناک سمجھا جاتا ہے اسکو برمیودا ٹرائی اینگل (تکون) کا نام دیا گیا ہے۔ اس تکون کا کل رقبہ 1140000 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا شمالی سرا جزائر برمودا اور جنوب مشرقی سرا، پورٹوریکو اور جنوب مغربی سرا، میامی (فلوریڈا) ہے۔ اس کا تکون میامی (فلوریڈا) میں بنتا ہے اور کیا آپ جانتے ہیں کہ (فلوریڈا) کے معنی کیا ہیں؟
ماسونیوں نے امریکہ کے تمام شہر تخلیق کرتے وقت اسکا نام فلوریڈا رکھا جس کا معنی ہے (اس خدا کا شہر جس کا انتظار کیا جارہا ہے)۔ یہیں سے تمام دنیا میں یہ دجالی ماسونی “ڈیموکریسی” کا نظام پوری دنیا پر مسلط کیا گیا، ساتھ ساتھ یہودیوں نے دنیا کو سودی بینکاری کے نظام میں جکڑ کر جدید غلامی کی بیڑیں تیار کیں، ان کا پہلا اطلاق مغربی عیسائیت پر کیا، اور چرچ سے اقتدار لیکر بڑی عیاری کے ساتھ پورا نظام “اپنی تخلیق کی گئی بظاہر ایتھیئسٹ” سوچ کے ہاتھ تھما دی گئی، کیونکہ خدا والا ہونا ان ماسونیوں کے لیئے نقصان دہ ہے بجائے ملحد ہونے کے، کیونکہ ملحد کو بہ آسانی دجالی نظام میں ہر طرف موڑ کر کنٹرول کیا جاسکتا ہےا ور دجال کی ظاہری آمد کے وقت ایسے خدافراموش معاشرے کیلئے دجال کی کرتبوں سے متاثر ہوکر قبول کرلینا کوئی مشکل کام نہ رہیگا۔
اسی لیئے اسلام کے خلاف جنگیں ترویج دی گئیں تاکہ پوری دنیا میں دجال کے حقیقی مخالف اور اسکو ختم کرنے والی امت محمدی کو کمزور در کمزور کیا جاسکے اور بدقسمتی سے کیتھولک چرچ کی تعلیمات نے انہیں دھریوں اور ملحدانہ نظاموں کو ہمیشہ مدد دی۔ اسی لیئے آپ دیکھیں کہ قادیانی کو یوکے سپورٹ کرتا ہے اور یو کے کی دجالی نظام جمہوریت کی مثالیں یہاں کا قادیانی اور ملحد دیتا ہے۔
پرمیودا میں تقریباً چارسو سال سے کسی انسان نے اُن ویران جزیروں میں جاکر آباد ہونے کی کوشش نہیں کی ہے یہاں تک کہ جہاز کے کپتان تک اس علاقے سے دور ہی رہتے ہیں۔ ان میں ایک جملہ بڑا عام ہے جو وہ ایک دوسرے کو بطور نصیحت بھی کرتے ہیں؛ “وہاں پانی کی گہرائیوں میں خوف اور شیطانی راز چھپے ہیں”۔
مثلث کی حقیقت: برمیودا تکون سارا علاقہ پانی میں ہے جو کہ بحراوقیانوس ایٹلانٹک اوشیئن میں ہے۔ چنانچہ قابل غور بات ہے کہ ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں تکون کس طرح بن سکتا ہے۔ سو جاننا چاہیئے کہ تکون حقیقی نہیں بلکہ یہ ایک مخصوص علاقہ ہے جہاں ناقابل یقین حادثات ہوتے ہیں اس علاقے کو جغرافیائی بنیادوں پر تکون کا فرضی نام دے دیا گیا ہے۔ ماضی قریب میں اسکی ابتدا تب ہوئی جب 1945 میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس وقت یہ نام “تکون” استعمال کیا گیا جب اس علاقے کے اوپر سے گزرتے کچھ طیارے غائب ہوگئے۔ لیکن اس حادثے سے پہلے بھی اس علاقے کو شیطانی جزائر کا نام دیا جاتا رہا ہے۔
کولمبس جب اس علاقے سے گزرا تھا تو اس نے بھی یہاں عجیب و غریب مشاہداات کیئے مثلاً۔ آگ کے گولوں کا سمندر کے اندر داخل ہونا، اس علاقے میں پہنچ کر کمپاس (قطب نما) میں بغیر کسی ظاہری سبب کے خرابی پیدا ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔ کولمبس کے امریکی سفر کو اب پانچ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن یہ سوالات آج بھی تشنہ ہیں کہ اس علاقے میں پانی کی گہرائیوں، پانی کے اوپر نیچے اور اسکی فضاؤں میں کیا ایسی چیز پوشیدہ ہے اور کونسی پراسرار طاقت ہے جس کی تشریح عقل انسانی کی جدید سیٹلائٹس بھی نہیں کرسکتیں؟
اس کے علاوہ اڑن طشتریوں کا کانسیپٹ بھی موجود ہے وہ سب سے زیادہ اس علاقے میں دیکھی گئی ہیں۔ آگ کے بڑے بڑے گولے، سفید چمکدار بلاوجہ کے بادل کو بھی اس سمندر میں اترتے چڑھتے دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی گمنام طیارے فضاء سے اس طرح اس میں داخل ہوتے دیکھے گئے ہیں جیسے وہ سمندر میں نہیں بلکہ اپنے رن وے پر اترے ہوں۔ ان سب کی کوئی سائنسی توجیہات ابھی تک میسر نہیں ہیں لہٰذا ان کو بہت سے احباب کانسپریسی تھیوریز کہہ کر رد کردیتے ہیں۔ لیکن کوئی سائنسی توجیہہ نہیں دے پاتے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ جیسے ایرا 51 موجود ہے ویسے ہی مغربی ممالک یا کوئی “اہم” ملک وہاں پر کوئی ایسے تجربات کررہی ہوں۔ لیکن ایک بات تو تصدیق شدہ ہے کہ قدیم وقت سے یہ علاقہ بھی شیطان کے جزائر کے نام سے مشہور ہیں اور ظاہر ہے اتنے پیچھے ادوار میں تو کوئی ملک کم از کم سائنٹیفیک ریسرچ کے نام پر ایسا کوورٹ ایریاء نہیں بنا سکتنا اور نہ ہی اتنا لمبا اسکو مینٹین کیا جاسکتا ہے۔
نیز اس کے علاوہ جساسہ والی حدیث میں جس جگہ کا ذکر کیا گیا ہے جہاں جزیرے میں وہ قید تھا، تو محققین کے مطابق وہ جزیرہ کیسپئن سے ہے اور جہاں آج انگلینڈ موجود ہے