Post by Admin on Jun 15, 2017 23:55:57 GMT
علمِ غیبِ نبوی ﷺ اور سیدنا امیرالمؤمنین عمر بن خطاب کی آنکھوں دیکھی گواہی۔
امام ابوداؤد کی سنن ابوداؤد میں باب امامۃ النساء رقم الحدیث ۵۹۲ باب نمبر ۶۲ میں ایک حدیث روایت فرمائی ہے۔ ملاحظہ کریں
ترجمہ : حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا بیان کرتی ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ جنگ بدر کے لیئے روانہ ہونے لگے تو میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں بھی آپ کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔ زخمیوں کی خدمت کروں گی ممکن ہے اللہ تعالیٰ مجھے وہاں شہادت نصیب فرمادیں۔ اس پر رسالت مآب ﷺ نے فرمایا: تم اپنے گھر میں رہو تمہیں اللہ تعالےٰ شہادت نصیب فرمائیں گے۔ اس کے بعد انہیں (شہیدہ) کہا جاتا تھا۔ انہوں نے قرآن پڑھ لیا تھا۔ انہوں نے حضور ﷺ سے درخواست کی مجھے ایک موذن رکھنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ جس کی آپ نے اجازت دے دی۔ راوی کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک غلام اور ایک لونڈی کو اپنی وفات پر آزاد کرنے کا عہد کررکھا تھا۔ ایک رات ان دونوں نے ان کا سانس چادر سے اسطرح بند کردیا کہ انکی موت واقع ہوگئی اور وہ دونوں بھاگ گئے۔ صبح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا۔ ان دونوں کے بارے میں جسے علم ہے وہ انہیں پکڑ لائے۔ وہ پکڑے گئے اور ان دونوں کو سولی پر چڑھایا گیا۔ سرزمین مکہ پر یہ اولین تھے جن کو سولی پر چڑھایا گیا۔
اس سے متصلاً دوسری روایت ہے:
کان رسول اللہ ﷺ یزورھا فی بیتھا وجعل لھا موذناً یوذن لھا امرھا ان تؤم اھل دارھا۔
رسول اللہ ﷺ اس خاتون کے ساتھ ملاقات کیلیئے اسکے ہاں تشریف لیجاتے۔ آپ نے اس کی خاطر ایک مؤذن مقرر فرمایا جو اذان دیتا۔ اور اس خاتون کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرے۔
راویء حدیث عبدالرحمٰن بن خلاد انصاری اس مؤذن کے بارے میں کہتےہیں:
فانا رآت مؤذنھا شیخاً کبیرًا ۔ میں نے وہ مؤذن دیکھا ہے۔ بڑی عمر کا تھا۔
امام ابن عبدالبر مالکی رحمتہ اللہ علیہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنھا کا تعارف کرواتے ہوئے مذکورہ واقعہ لکھنے کے بعد کہتے ہیں:
وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امرھا ان تؤم اھل دارھا وکان لما مؤذن وکانت تؤم اھل دارھا۔
رسول کریم ﷺ نے اس خاتون کو اپنے گھر میں امامت کا حکم دیا۔ وہاں ایک مؤذن مقرر تھا اور وہ اہل دار کی امامت کرواتی تھیں۔
اور ان کے قاتلوں کو سولی پر چڑھایا گیا اور سرزمین ِ مدینہ میں سولی چڑھنے والے اولین یہی افراد تھے۔ اس موقعہ پر امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حین کان یقول انطلقوا بنا فزور الشھیدۃ
رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا جب آپ نے ہمیں فرمایا تھا۔ میرے ساتھ ایک شھیدہ خاتون کی ملاقات کے لیئے چلو۔
نوٹ: غور فرمائیے وہ حضرات جو حقیقت میں کتاب و سنت اور سلف کی پیروی کرتے ہیں اور جو سواد الاعظم سے ہٹ کر خود کو نت نئے نام نہیں دیتے نا ہی کفر شرک بدعت کے فتوے اکثریت پر چھاپتے ہیں کہ یہاں چند باتوں کا کھل کر پتہ چلتا ہے۔
پہلی بات یہ کہ جب بھی رسول کریم ﷺ ان کے گھر تشریف لیجاتے ملاقات کی خاطر تو کسی صحابی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ یارسول اللہ ، غیب کا علم تو فقط اللہ کے لیئے خاص ہے۔ کسی نبی ولی کو غیب کا علم نہیں تو آپ کیسے ان کی موت سے قبل ہی ان کو شہیدہ فرما رہے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ تمام صحابہ کا آقائے دوجہاں کی ہر بات کو من وعن تسلیم کرلینا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حضرات جو بات بات پر دلائل مانگتے ہیں اور پھر دلائل ملنے پر یا تو بھاگ جاتے ہیں اور یا پھر لایعنی تاویلات گھڑتے ہیں ان کا عمل صحابہ کے عمل کے بالکل متضاد ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر صحابی نے ان کو بے شک و شبہ شہیدہ سمجھ لیا تھا اور یہ واقعات ایک آدھ نہیں بلکہ تاریخ بھری پڑی ہے ایسی مستند احادیث سے۔ اور صحابہ کویہ کہنے کی ضرورت کبھی نہ پڑی کہ جس طرح آجکل کے باطل فرقے کہتے ہیں کہ صحابہ نے کہاں کہا کہ آپ کو غیب کا علم عطا ہوا تھا۔ ارے صحابہ کا عمل تو آمنا و صدقنا کا تھا۔ ان کو پتہ تھا کہ جو اللہ کے بارے میں سچ بولتا ہے اور صادق و امین ہے وہ اللہ ہی کی عطا سے اسکے غیوب پر بھی آشکار ہے۔ اور یہ حدیث ہے کوئی وحی نہیں ہے۔ لہٰذا واقعہ کا پہلے سے بتا دینا اور صحابہ کا من و عن بنا چوں چراں کے بنا دلیل کے مان لینا ہی ان کے کامل ایمان کی نشانی اور سنت ہے۔
تیسری اہم بات کہ سیدنا عمر جیسے صحابی بھی اس کے گواہ ہیں اور آپ کا فرمانا کہ رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا جب آپ نے ہمیں فرمایا تھا میرے ساتھ ایک شھیدہ خاتون کی ملاقات کے لیئے چلو۔ یہ بات ازخود علم غیبِ نبوی کی طرف واضح ایمان کا اشارہ ہے۔
ایسی ہی مثال اس حدیث کی بھی ہے جس میں احد کے پہاڑ کو فرمایا کہ اے احد قرار پکڑ تجھ پر ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں (مفہومِ حدیث)۔
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب۔ امام ابن عبدالبر مالکی ، باب الواو ۔ رقم الحدیث ۷۲۲۴ صفحہ ۱۹۶۵ دارالجیل بیروت
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن و سنت میں یہ تمام دلائل بھرے پڑے ہیں اور اس پر صحابہ کا عمل، سلف کا اپنی مستند کتابوں میں روایت کرنا اور پھر ایک جگہ نہیں بلکہ بارہا جگہوں اور کتابوں پر یہ تعلیم دینا سب کچھ واضح طور پر حقانیتِ اہلسنت وجماعت کا متفقہ اصول ہے اور جو ان باتوں کو (بریلویت) کہہ کر (کفر شرک بدعت) کہتا ہے وہ خود ہی اصل میں علم دین سے نا آشنا اور کلاب النار ہے۔ اب بھی وقت ہے توبہ کا دروازہ بند ہونے سے پہلے توبہ کرلیں اور عقائد میں اختلاف کرکے امت سے الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے باہر آجائیں۔