|
Post by zarbehaq on Jan 21, 2016 14:54:51 GMT
Important Note Lineage of Al-e-Saud & Ibn Abdul Wahhab Najadi
As our readers probably read that famous Hadith from Sahihayn like Muslim Sharif. In Which Imam Muslim (rta) has presented an authentic hadith regarding Horn of Devil (Qarn al Shaytan) as well as Hadith which says that, Ahl-e-Najd (People of Najd) belongs to Banu Mudir and Banu Rabeea. Those both Tribes were harsh and arrogant about whom Prophet alehisalam mentions. Now these both Tribes resides in (Najad) (Not in IRAQ) but (SAUDI ARAB). Now According to their Own published Book Tarikh Balad al Arabiatal Saudiya- Vol 1, Pp 176/177, Their own researcher Dr Munir al-Ujluni who has presented the lineage of their founding father Muhammad Ibn Abdul Wahab al-Najadi al-Tamimi. And He Belongs to One Qarn i.e. You may call it One Horn of Devil from Banu Mudir or MUZIR. And Al-e-Saud's Lineage is been shown on Page 67, where he shows that, al-e-Saud belongs to another Horn i.e. Banu Rabeea.
Now Qarn has another meaning of Era (Time Period) Too, So this nexus of Al-e-Sheikh <--- i.e. Ibn Abdul Wahhab Najdi belongs to One Horn and Al-e-Saud Who promote their new religion is another Horn
i.e. Ibn Abdul Wahhab Najdi = Banu Muzir
i.e, Al-e-Saud = Banu Rabee'a
Both From Najd = Cursed Land by Prophet alehisalam who said the Horn of the Devil will appear from there. So their Period of Ruling Occupied Hijaz from Sunni Majority could also be an explanation to the Qarn al Shaytan (Horn of the Devil) or (Time Period of the Devil or Fitna)
مسلم شریف میں (اہل نجد) کی جن خصوصیات کا ذکر ہوا ہے اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ وہ دو عرب قبائل ہیں (۱) بنو ربیعہ اور (۲) بنو مضر۔ یہ رہا آلِ سعود کا شجرہ جو ان کے بقول ہے اس میں ربیعہ سے ان کا اختلاط صاف لکھا ہوا پڑھا جاسکتا ہے۔ اب ذرا ذہن میں قرن الشیطان اور نجد کا تصور لائیں کہ شیطان کے ایک سینگ ان کا آلِ سعود ہے اور دوسرا آلِ شیخ یعنی محمد بن عبدالوہاب نجدی جو بنو مضر سے ہے، قرن کا ایک معنی دور یا وقت کا بھی ہوسکتا ہے ، اور غالباً اس سے مراد یہی ہے کہ ان دونوں سینگوں کے اتحاد کا (خوارجی دور انیہ ء حکومت) ۔ شجرہ حوالہ از۔تاریخ البلاد العربیۃ السعودیۃ،جز۱،ص ۶۷،استاذ منیر العجلانی
Scan
مسلم شریف میں (اہل نجد) کی جن خصوصیات کا ذکر ہوا ہے اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ وہ دو عرب قبائل ہیں (۱) بنو ربیعہ اور (۲) بنو مضر۔ یہ رہا خوارج کے امیر محمد بن عبدالوہاب نجدی کا شجرہ جو بنو تمیم سے بھی ہے جس سے مسیلمہ کذاب ہوا تھا اور بنو مضر سے بھی ہے یعنی مکمل ثبوت کہ قرن الشیطان والی حدیث آل سعود اور آل ابن عبدالوہاب پر بیٹھتی ہے، ایک حکومت کرتا ہے دوسرا مذہبی حکومت کررہا ہے، قرن کا ایک معنی دور یا وقت کا بھی ہوسکتا ہے ، اور غالباً اس سے مراد یہی ہے کہ ان دونوں سینگوں کے اتحاد کا (خوارجی دور انیہ ء حکومت) ۔ شجرہ حوالہ از۔تاریخ البلاد العربیۃ السعودیۃ،جز۱،ص ۱۷۶.۱۷۷
also uploaded to [Folder 2016]
|
|
|
Post by zarbehaq on May 14, 2016 11:00:44 GMT
خوارج کے پیشوا مولوی اسماعیل دہلوی اپنے پیرومرشد کو نسبتِ چشتیہ کے حصول کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛۔
ہمارے حضرت (یعنی سید احمد بریلوی وہابی) ایک روز خواجہ خواجگان خواجہ بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں جاکر مراقبہ فرمایا۔ پس ہمارے حضرت اور خواجہ صاحب کی روح پرفتوح کے درمیان ملاقات ہوئی۔ خواجہ صاحب نے ہمارے حضرت کی طرف توجہ قوی فرمائی، جسکے سبب آپ کو نسبتِ چشتیہ حاصل ہوگئی۔ صراط مستقیم (فارسی) مکتبۃ السلفیہ ص 166
اے خوارج! یہ تو بتاؤ کہ سید احمد صاحب کسی حاجت کے تحت خواجہ خواجگان بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار شریف پر گئے تھے یا آوارہ گردی کرتے ہوئے وہاں گئے تھے؟ اگر مزارات ء اولیاء سے عقیدت اور محبت اور صاحبِ قبر سے طلبِ حاجت سراسر کفر ہے تو سید احمد اور اسماعیل دہلوی کے متعلق کیا فیصلہ دو گے؟
دَ تبليغيانو او وهابيانو مشترکه پيرومرشد اسماعيل دهلوې خپل د پير صاحب ترځقله او ده هغو دَ چشتې صوفې نسبت ترمخه لوستونکئ دے چه زموږ حضرت (يعني سيد احمد بريلوي وهابي) يو ورځ خواجه خواجګان بختيار کاکې رځمته الله عليه قبر له تشريف يوړو او آلے مراقبه ګزار شو. پس زموږ حضرت او خواجه صاحب ارواح ترمنزه ملاقات وشو . خواجه صاحب زموږ حضرت اړخته متوجه شو، نو دې دَ لاسه ستاسو ته چشتيه نسبت عطا شو
بحواله ، صراط المستقيم فارسي پانړه ۱۶۶ مکتبۀ السلفيه لاهور
سوال؛. تبليغيانو ، وهابيانو دا راته وايه چه ستاسو سيد احمد بريلوي وهابې کم حاجت لره خواجه صاحب مزار شريف ته ورغلے وو؟ او که تش آواره ګردئ له پاره تللے وو؟ که ده زيارتو نه او اوليائے کرام سره مينه محبت او عقيدت ساتلے وې او که صاحب قبر نه طلبِ حاجت کول سراسر کفر دئ نو ده سيد احمد او اسماعيل دهلوې ترحقله به څه فيصله کوئ؟ آيا دا کفر وو، شرک وو، او که بدعت ؟
|
|
|
Post by zarbehaq on May 22, 2016 20:32:44 GMT
|
|
|
Post by zarbehaq on Jul 18, 2016 13:07:16 GMT
Facebook Page Daily Updates: Also Added to 2016 Folder on Main page of Scans [www.facebook.com/hanafi.sunnis] for daily updates
and
and
and
|
|
|
Post by zarbehaq on Jul 19, 2016 19:54:21 GMT
|
|
|
Post by zarbehaq on Jul 25, 2016 10:00:00 GMT
Scans Library 2016 Folder Update / FB Posts andAnd
|
|
|
Post by Admin on Aug 5, 2016 17:47:43 GMT
Scans Library Updated: 5/7/2016
|
|
|
Post by Admin on Nov 9, 2016 13:43:38 GMT
New Scans 2016 Nov
|
|
|
Post by Admin on Nov 27, 2016 9:02:42 GMT
Dawat of Islam to Dewvbandi Tablighi jamat
Here is the proof of authentication of Mazarat-e-Anbiya wa Auliya (Shrines of the Prophets and Saints) by Salaf e Hanafiya i.e. Al-Imam Sakhawi al-Hanafi (rahmatullahitala alaih). Because Devband say that they are followers of Imam-al-Azam's Hanafi School, now they are bond to accept their Imam's verdict. IF not, it will be proof of their negligence and in-authenticity of their beliefs. And for sure they do not belong to Ahlu Sunnah Wa Jamat.
دیوبند کو دعویٰ ہے کہ وہ (حنفی) ہیں جبکہ ان کے عقائد مکمل طور پر حنفیت کے خلاف ہیں اور غیرمقلدیت کے پروردہ ہیں۔ یہ کتاب جس کا نام تحفۃ الاحباب ہے، یہ امام ِ حنفیت علامہ الکبیر، الامام، المورخ و محدث وفقیہہ ابی الحسن نورالدین علی بن احمد بن عمر بن خلف بن محمود السخاوی الحنفی رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیفِ لطیف ہے جو کہ مزاراتِ اولیاء و انبیاء کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ اور جس میں مسلم تاریخ میں مزارات (شعائراللہ) کی حیثیت پر تفصیلی بحث کی گئی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام سخاوی جیسے سلف الصالح سمیت تمام اہلسنت و جماعت نہ صرف مزارات کو مانتے ہیں بلکہ ان کو بناتے رہے اور اس پر سوائے ابن تیمیہ اور بعد میں میم بن عبدالوہاب نجدی کے کسی نے اعتراض نہ کیا۔ اب دیوبند کو پھر سے اصلی اسلام کی دعوت دی جاتی ہے، بجائے اہلسنت کو بریلوی کہنے کے ان کو چاہیئے کہ اپنے حنفی ہونے کا اب ثبوت دیں اور مانیں وہ تمام تعلیمات جو سلف الحنفیہ نے ہم کو عطا کیں اگر یہ خود کو حنفی سمجھتے ہیں تو اپنے امام کی بات کو ماننا ان پر بھی فرض ہے۔ یا پھر یہ مان لیں کہ امام سخاوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی (بریلوی) تھے؟ کیا دیوبند نے کبھی اپنے پیروکاروں کو جہالت کی جگہ ان کتب کے بارے میں بتایا؟
|
|
|
Post by Admin on Dec 13, 2016 16:29:40 GMT
خاص ایکسکلوزیو اپڈیٹ
مولانا ابوالحسن علی ندوی کی ایک انتہائی پرانی کتاب ، پرانی کتب کی ایک شاپ سے اتفاقاً ہاتھ لگی ہے۔ جو کہ عربی میں ہے۔ یہ پانچویں جلد ہے ان کی سیرۃ الرسول پر۔ اور نام ہے قصص النبیین ۔ سیرۃ الخاتم النبیین ، قصص النبیین جز الخامس، مجلس نشریات اسلام ناظم آباد مینشن نمبر 1 کراچی کی چھاپی ہے۔ ہماری ریسرچ بمع ثبوت پیش خدمت ہے۔ اس کتاب میں ان چیزوں کے حوالے موجود ہیں تصدیق کے طور پر سکینز دیکھیئے
اول؛۔ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مستند تاریخ خود وہابیہ کے مولانا نے ۱۲ ربیع الاول شریف ہی بتائی ہے۔صفحہ ۲۷
۲ جب آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے جارہے تھے تو خود الفاظ میں (عید) کا لفظ سکین میں دیکھا جاسکتا ہے جو کہ لکھا ہے کہ آپ کی آمدِ مبارکہ پر لوگ ایسے منتظر تھے جیسے عید کے چاند کا انتظار ہو۔ نیز یہ بھی لکھا ہے کہ بچے، عورتیں بوڑھے سب ہی جوق درجوق شریک تھے (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد مبارک پر خوشیاں منانا سنتِ مدینہ ٹھہرا) یہ بھی لکھا ہے کہ بچے اور عورتیں بوڑھے سب خوشیوں کا اظہار اشعار کی بھی صورت میں کررہے تھے اور پھر طلع البدر علینا کے مشہور اشعار بھی دیئے ہیں یعنی نعتِ رسالت اور آمدِ مصطفیٰ پر خوشیاں ثابت ہوگئیں صفحہ ۱۱۹ ،۱۲۰ و ۱۲۱
۳ صفحات ۳۵۴و ۳۵۶ پر خبر عیان لابیان کے عنوان کے تحت مشہور حدیث بھی ذکر کی گئی ہے کہ آپ علیہ السلام مدینہ شریف میں بیٹھ کر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فتوحات اور کون کون شہید ہوگیا اور کون کون کیا کررہا ہے بیان کی گئی ہے۔ یعنی علم غیبِ رسول علیہ السلام کی شہادت اور غزوہ خیبر کے باب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لواء محمد دیئے جانے اور خیبر کی فتح کی غیبی پیشنگوئی کا بھی ذکر ہے۔
۴ صفحہ ۲۵۹ پر (الاستغاثۃ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہیڈنگ ٹائٹل کے ساتھ نیچے حدیثِ عمرو بن سالم الخزاعی کا ذکر ہے کہ جس میں وہ آپ سے مدد مانگتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کے لیئے پکارتے ہیں اور اسکی مدد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، یہ فتح مکہ کے باب میں بیان کیا گیا ہے۔
قصہ المختصر وہابیہ کے مشہور جید مستند مولانا صاحب کی اپنی لکھی کتاب سے میلادِ نبوی، اس پر فرحت و مسرت کا اظہار، اس دن کو عید کے دن کی طرح منانے کا ثبوت، استغاثہ، علم الغیب اور لاتعداد دیگر ثبوت موجود ہیں۔
These exclusive scans are only available with us and was never been uploaded to any of the site on internet.
further scans click below.
Scans Folder Link Click -----> (Here)
|
|
|
Post by Admin on Apr 6, 2017 18:07:54 GMT
|
|
|
Post by Admin on Jun 22, 2017 10:53:21 GMT
اعلیٰ حضرت فاضل محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک شعر پر (خوارجِ وہابیہ دیوبندریہ) کو کیڑا لڑتا ہے کہ یہ شعر خلافِ شریعت ہے حالانکہ فرق یہ ہے کہ یہ لوگ خود اسقدر جہلاء ہیں کہ ان کی اوقات نہیں ان کی عظیم شاعری کو سمجھنے کی۔ ذیل میں شعر پیش خدمت ہے اور پھر اس کا تفصیلی جواب ازروئے قرآن و سنت و سلف۔
منافق کا جاہلانہ اعتراض یہ رہا:
اس چیز پر بھی ان جہلاء کو اعتراض ہے جس میں اعتراض کی کوئی تُک بنتی ہی نہیں یہ رہے جوابات
خانہ کعبہ اولیاء اللہ کی زیارت کو جاتا ہے
خانہ کعبہ شریف کا اولیاء کی زیارت کو جانا کرامت کے طور پر جائز ہے۔ فقہاء نے بھی اسکی تائید کی ہے۔ چنانچہ امام حصکفی رحمتہ اللہ علیہ متوفیٰ 1088ھ در مختار مین فرماتے ہیں کہ مفتی جن و نس امام نسفی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ سنا ہے خانہ کعبہ اولیاء اللہ کی زیارت کو جاتا ہے، کیا یہ کہنا شرعاً جائز ہے؟
امام نسفی علیہ الرحمہ نے فرمایا (خرق العادۃ علی سبیل الکرامۃ لا ھل الولایۃ جائز عند اھل السنۃ) یعنی۔ خرق عادت کرامت کے طور پر اولیاء اللہ کے لیئے اہلسنت کے نزدیک جائز ہے۔
یہی بات علامہ سید محمود آلسوی البغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں سورہ یٰسین کی آیت نمبر 38 کے تحت لکھی ہے
امام احمد رضا قادری کا شعر تھا۔ سارے اقطابِ جہاں کرتے ہیں کعبے کا طواف۔۔۔۔ کعبہ کرتا ہے طواف درِ والا تیرا۔ یعنی شان غوث الاعظم میں منقبت لکھی۔ جس پر جاہل دیوبندر وہابڑے اعتراض کرتے پائے گئے۔ لہٰذا ان کے لیئے ان کے ہی شیخ الوہابیت و دیابنیت کا قول بھی پیش خدمت ہے ملاحظہ ہو
2
3
4
چند مزید سکینز جو ہمارے فیس بک پیج پر اپلوڈ کیئے گئے ہیں اور اگرچہ مکاشفہ سکینز لائبریری میں پہلے سے موجود ہیں لیکن کمبائن ان کو ون پوسٹ کی صورت میں دیا جارہا ہے۔ آسانی کی خاطر
سکین بابت: دیوبندی جہالت کہ نبی کریم ﷺ نے مدرسہ دیوگند سے اردو سیکھی:۔ اس تہمت کا ثبوت یہ رہا
2 دیو مہاراج کی بندیوں کے اپنے گھر کی گواہی کہ اندرا گاندھی ان کی بیٹی ہے۔ تو اس حساب سے دیوبند مودی کے سالے ہوئے
مزارات اور گنبد پر خوارج کا رد
مشائخ کرام اور اولیائے عظام کے مزارات کے اردگرد یا اس کے قریب کوئی عمارت بنانا جائز ہے۔ اس کا ثبوت قرآن کریم اور صحابہ کرام و عامۃ المسلمین کے عمل اور علماء کے اقوال سے ہے۔ قرآن کریم نے اصحاب کہف کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہا۔ قال الذین غلبو علی امرھم لتخذن علیھم مسجدًا وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے کہ ہم تو ان اصحاب کہف پر مسجد بنائیں گے۔ (پارہ 15 سورہ کہف آیت 21) روح البیان مین اس آیت میں بنیاناً کی تفسیر میں فرمایا۔ دیوارے کہ از چشم مردم پوشیدہ سومذ یعنی لایعلم احد تربتھم وتکون محفوظتۃ من تطرق الناس کما حفظت تربت رسول اللہ بالحظیرۃ۔ (تفسیر روح البیان ج 5 ص 274 و 275 داراحیاء التراث العربی ۔ یعنی انہوں نے کہا کہ اصحاب کہف پر ایسی دیوار بناؤ جو ان کی قبر کو گھیرے اور ان کے مزارات لوگوں کے جانے سے محفوظ ہوجائیں۔ جیسے کہ حضور ﷺ کی قبر شریف چاردیواری سے گھیر دی گئی ہے۔ مگر یہ بات نامنظور ہوئی تب مسجد بنائی گئی۔ مسجداً کی تفسیر روح البیان میں ہے یصلی فیہ المسلمون و یتبرکون بمکانھم لوگ اس میں نماز پڑھیں اور ان سے برکت لیں۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کی باتوں کا ذکر فرمایا ایک تو اصحاب کہف کے گرد قبہ و مقبرہ بنانے کا مشورہ کرنا اور دوسرے ان کے قریب مسجد بنانا اور کسی باب کا انکار نہ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دونوں فعل جب بھی جائز تھے اور اب بھی جائیز ہیں جیسا کہ کتب اصول سے ثابت ہے کہ شرائع قبلنا یلزمنا ۔ حضور ﷺ کو حضرت صدیقہ کے حجرے میں دفن کیا گیا ۔ اگر یہ ناجائز تھا تو پہلے صحابہ کرام اس کو گرا دیتے پھر دفن کرتے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کے گرد کچی اینٹوں کی گول دیوار کھچا دی۔ پھر ولید ابن عبدالملک کے زمانہ میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام کی موجودگی میں اس عمارت کو نہایت مضبوط بنایا اور اس میں پتھر لگوائے۔ چنانچہ خلاصۃ الوفا باخبار دارالمصطفیٰ مصنفہ سید سمہودی دسویں فصل ۔ فیما یتعلق بلحجرہ المنیفتہ 196 میں ہے۔
عن عمر ابن دینار و عبیداللہ ابن ابی زید قالا لم یکن علی عھد النبی ﷺ حائط فکان اول من بنی علیہ جدارا عمر ابن الخطاب۔ قال عبیداللہ ابن ابی زید کان جدار قصیرا ثم بناہ عبداللہ ابن الزبیر الخ وقال الحسن بصری کنت ادخل بیوت رسول اللہ ﷺ وانا غلام مراھق اذا نال السقف بیدی وکان لکل بیت حجرۃ وکانت حجرہ من العکستہ من سعیر مربوطتہ فی حشب عرعرۃ۔
ترجمہ وہی جو اوپر بیان ہوچکا۔
خلاصۃ الوفا باخبار دار المصطفیٰ دسویں فصل فیما یتعلق بالحجرہ المنیفۃ ص 196
بخاری جلد اول کتاب الجنائز اور مشکوۃ باب البکا علی المیت میں ہے کہ حضرت حسن ابن حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا
حدیث: ضربت امراتہ القبۃ علی قبرہ سنۃ۔
تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک قبہ ڈالے رکھا
صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الجرید علی القبر ج 1 ص 442 ابن کثیر بیروت و فی نسخہ ج 1 ص 177 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی
یہ بھی صحابہ کرام کے دور میں ہوا ان سب کی موجودگی میں ہوا ۔ کسی نے انکار نہ کیا۔ نیز ان کی بیوی ایک سال تک وہاں رہیں۔ پھر گھر واپس آئیں۔ جیسا کہ اسی حدیث میں ہے ۔ اس سے بزرگوں کی قبروں پر مجاوروں کا بیٹھنا بھی ثابت ہوتا ہے۔
روح البیان جلد 3 پارہ از زیر آیت (پارہ 10 سورہ 9 آیت 18) انما یعمر مسجد اللہ من امن باللہ میں ہے
فبناء قباب علی قبور العلماء والاولیاء والصلحاء امر جائز اذان کان القصد بذلک التعظیم فی این العآمۃ حتی لا یحتقروا صاحب ھذا القبر۔
یعنی؛ علماء اور اولیاء صالحین کی قبروں پر عمارت بنانا جائز کام ہے جبکہ اس سے مقصود ہو لوگوں کی نگاہوں میں عظمت پیدا کرنا تاکہ لوگ اس قبر والے کو حقیر نہ جانیں
تفسیر روح البیان ج 3 ص 510 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی
یعنی پارہ 15 سورہ کہف آیت نمبر 21 کی تصدیق میں صحیح حدیث بھی پیش کردی اور سلف کا قول اور عمل بھی اور صحابہ کے دور یعنی خیر القرون سے ثبوت بھی۔
خوارج اکثر عوام کو ایک حدیث کے ذریعے مغالطے میں مبتلا کرتے ہیں کہ دیکھو نبی کریم علیہ السلام نے فلاں صحابی کو قبروں کو ہموار کرنے کا حکم دیا تھا۔ یعنی توڑنے کا۔ تو اس میں دہ اہم باتیں ہیں وہ یہ کہ وہ کفار اور مشرکین کی ان قبور کا حکم تھا جو اس زمانے میں مدینہ کی اولین اسلامی ریاست کے حدود میں تھیں اور دوسرا یہ کہ یہ جو تصاویر میں جیسے بت بنائے گئے ہیں اس طرح کی قبور کے بارے میں حکم ہے نا کہ مسلمانوں کے قبرستان کی یا اولیائے کرام کی قبور پر گنبدوں کا ذکر ۔
تاریخ مدینۃ الدمشق ابن عساکر، ، تاریخ ابن خلدون اور تمام تر کتب اسلامی میں باقاعدہ احادیث کے مطابق اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہی مزارات جو شعارِ اسلام ہیں بنائے گئے۔
خوارج اپنی گمراہی میں عوام کودھوکہ دینے پر معافی نہیں مانگتے لیکن کافروں کے لیئے نازل کیئے گئے احکامات کو مسلمانوں پر لگا کر ان کے قتال کو جائز کرتے ہیں یہی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مفہوم تھا اور ہے۔
ایک اور اعتراض اور اسکا مدلل جواب۔
نماز، جمعہ و عیدین گاؤں میں نہیں ہوتی
مسئلہ شرعی یہ ہے کہ نمازِ جمعہ و عیدین گاؤں میں نہیں ہوتی۔ ان تینوں نمازوں کے لیئے شہر یا شہر کی ملحقہ جگہ ہونا شرط ہے نہ گاؤں والوں پر جمعہ و عیدین لازم ہے اور نہ وہاں گاؤں میں یہ نمازیں جائز ہیں۔ ہاں اگر گاؤں والے شہر آکر یہ نمازیں پڑھیں تو ثواب پائیں گے مگر غیرمقلد وہابی کہتے ہیں کہ جمعہ و عیدین ہرجگہ جائز ہے نمازِ ظہر کی طرح ہرگاؤں میں ہوسکتی ہے۔
ضروری خیال رہے کہ شہر وہ بستی ہے جہاں کوچے و بازار ہوں ۔ ضروریات کی چیزیں مل جاتی ہوں۔ اور وہاں کوئی حاکم بھی رہتا ہو جہاں یہ نہ ہو وہ گاؤں ہے۔
نمازِ جمعہ و عیدین کے لیئے دوسری شرائط جماعت، خطبہ وغیرہ کی طرح شہر یا قضاء شہر بھی شرط ہے کہ یہ نمازیں صرف شہر میں ہوں گی گاؤں میں نہیں ہوسکتیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۭ
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کی اذان ہوجائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور تجارتیں چھوڑ دو۔ پارہ 28 سورہ 62 آیت 9۔
اس آیت کریمہ میں رب تعالیٰ نے مسلمانوں کو اذانِ جمعہ ہوجانے پر دو حکم دیئے جمعہ کے لیئے حاضر ہونا دوسرے تجارتی کاروبار چھوڑ دینا جس سے اشارتاً معلوم ہوا کہ جمعہ وہاں ہی ہوگا۔ جہاں تجارتی کاروبار ہوں اور ظاہر ہے کہ تجارتی کاروبار بازاروں منڈیوں میں ہی ہوتی ہیں اور بازار و منڈیاں شہروں ہی میں ہوتی ہیں۔
حدیث: امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں ابوعبید نے غریب میں مروزی نے کتاب الجمعہ میں امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔
قال لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع۔
ترجمہ؛ آپ نے فرمایا کہ جمعہ اور تکبیر تشریق نہیں ہوسکتے مگر بڑے شہر میں۔
مصنف عبدالرزاق ج ۳ ص ۱۶۸ رقم الحدیث ۵۱۷۷ مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت
ابن ابی شیبہ نے ان ہی امیر المومنین سے روایت کی۔
قال لا جمعۃ ولا تشریق ولا صلوۃ فطر ولا اضحی الا فی مصر جامع او مدینۃ عظیمۃ
ترجمہ؛ آپ نے فرمایا کہ نہ تو جمعہ ہوتا ہے نہ تکبیر تشریق نہ عید بقر عید کی نماز مگر بڑے شہر میں۔
مصنف ابن ابی شیبہ۔ ج ۱ ص ۴۳۹ رقم الحدیث ۵۰۵۹ مطبوعہ مکتبۃ الرشد ریاض
ایسی ہی روایت متعدد کتبِ حدیث میں وارد ہوئی ہے۔امام بیہقی نے عرفہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ہی اپنی سنن الکبریٰ للبیہقی ج ۳ ص ۱۷۹ ح ۵۴۰۵ مطبوعہ دارالباز مکۃ المکرمۃ میں بھی درج کیا ہے۔ اور فتح الباری میں شرح بخاری جلد ۲ صفحہ ۱۱۶ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی
قال لیس علی اھل القری جمعۃ انما الجمعۃ علی اھل الامصار مثل المدائن
آپ نے فرمایا گاوں والوں پر نمازِ جمعہ فرض نہیں جمعہ مدائن جیسے شہر والوں پر فرض ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج۱ ص ۴۳۹ ھ ۵۰۶۰ مکتبۃ الرشد ریاض
مسلم ، بخاری ، ابوداود میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی
کان الناس یتابون الجمعۃ من منازلھم والعوالی فیاتون فی الغبار والعرق الخ۔
ترجمہ؛ لوگ نماز جمعہ کے لیئے اپنی منزلوں اور گاوں سے مدینہ منورہ آتے تھے انہیں غبار لگ جاتا تھا اور پسینہ آجاتا تھا۔
صحیح بخاری کتاب الجمعۃ ج ۱ ص ۱۲۳ قدیمی کتبخانہ کراچی، صحیح مسلم ج ۲ ص ۵۸۱ رقم الحدیث ۸۴۷ داراحیاٗ التراث العربی بیروت۔ سنن اابوداود ج ۱ ص ۲۷۸ ح ۱۰۵۵ دارالفکر بیروت، مسند احمد ج ۶ ص ۶۳ موسسۃ قرطبہ بیروت۔ سنن الکبریٰ للبیہقی ج ۳ ص ۱۸۹ رقم الحدیث ۵۴۵۵ مکتبۃ دارالباز مکہ شریف
|
|
|
Post by Admin on Jun 29, 2017 15:22:12 GMT
Facebook Page Updates
قبر پر قبہ بنانے کا امام الاعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے ثبوت۔ قبر باندے قبه (ګنبد) جوړولو دَ امام الاعظم ابوحنيفه رضي الله عنه تري ثبوت
کتاب المیزان میں امام عبدالوہاب شعرانی (رحمتہ اللہ علیہ) قبہ کی بحث میں مختلف وجوہات اور ان کے متعلق آئمہ کے ارشادات کے اصل معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے امام الاعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے قبہ وغیرہ کا ثبوت دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں
کتاب الميزان کښې امام عبدالوهاب الشعراني (مشهور ولي الله) دَ قبه ترحقله بحث کښې مختلف وجوهات اوبيا هغه باندے دَ ائمه کرامو ارشاداتو اصل معني او مفهومات بيان کولو ترمخه دَ سراج الامت حضرت الامام الاعظم ابوحنيفه رضي الله عنه نا دَ قبه (يعني ګنبدونو) جوړولو اجازه او ثبوت ترمخه لوستونکے دے
کتاب المیزان الکبریٰ میں امام عبدالوہاب الشعرانی (رح) فرماتے ہیں؛
کتاب الميزان الکبري کښې امام عبدالوهاب الشعراني (رح) فرمائيلې
ومن ذلک قول الائمۃ ان القبر لا یبنی ولا یحصص مع قول ابی حنیفۃ بجواز ذلک فالاول مشدد والثانی مخفف
ترجمہ: اسی سے ہے دیگر اماموں کا یہ کہنا کہ قبر پر عمارت نہ بنائی جائے اور نہ اسکو گچ کیا جائے باوجودیکہ امام ابوحنیفہ(رض) کا یہ قول ہے کہ یہ سب جائز ہے پس پہلے قول میں سختی ہے اور دوسرے میں آسانی ہے
ترجمه پښتو: هم دې نا ده چي ديګر امامانو دا وئيل چه په قبر عمارت جوړ نه کړي شي او نه ورته ګچک ولګولي شې باوجود دَ دي چه امام ابوحنيفه (رض) دا قول دي چه دا ټول (کارونه) جائز دې. اولنمي قول کښې سختي ده او په دوئيمه کې آسانتيه ده
حوالہ؛ کتاب المیزان للامام عبدالوھاب الشعرانی (رحمتہ اللہ علیہ) ج ۲ ص ۲۲۶ عالم الکتب
په زيارتونو باندي ګنبد جوړولو دَ ځنفي امامانو تري ثبوت. امام ابن عابدين شامي (رح) لوستونکي دي چه که مړي دَ مشائخ، علماؤ او دَ ساداتِ کرام (اهلبيت) وې نو دَ هغو په قبر باندي عمارت سازول (يعني ګنبد جوړول) مکروه نه دې . حاشيۀ ردالمحتار باب الجنائز دفن الميت پ ۲۳۷ جز ۲ دارالفکر بيروت ايډېشن
مزيد تفصيلات په اردو کښې
مرقات شرح مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب دفن المیت میں ہے
قد اباح السلف البناء علی قبور المشائخ والعلمآء لیرورھم الناس ویستریحوا بالجلوس
ترجمہ؛ پہلے علماء نے مشائخ اور علماء کی قبروں پر عمارات بنانا جائز فرمایا ہے تاکہ ان کی لوگ زیارت کریں اور وہاں بیٹھ کر آرام پائیں
مرقات شرح مشکوٰہ باب دفن المیت ج ۴ ص ۶۰
شامی باب دفن المیت میں ہے
وقیل لایکرہ البناء اذا کان المیتمن المشائخ والعلماء والسادات
ترجمہ؛ کہ اگر میت مشائخ اور علماء اور ساداتِ کرام میں سے ہو تو اسکی قبر پر عمارت بنانا مکروہ نہیں ہے
حاشیۃ رد االمحتار امام ابن عابدین الشامی الحنفی جز ۲ باب دفن المیت ص ۲۳۷
درمختار میں اسی باب الدفن میں ہے۔ لا یرفع علیہ بناء وقیل لا باس بہ وھو المختار۔ قبر پر عمارت نہ بنائی جائے اورکہا گیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں اور یہی قول پسندیدہ ہے
رد المحتار کتاب الجنائز مطلب فی دفن المیت ج ۱ ص ۶۶۲ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ
بعض لوگ کہتے ہیں کہ چونکی شامی اور در مختار نے عمارت کے جواز کو قیل سے بیان کیا ہے۔ اسلیئے یہ قول ضعیف ہے لیکن یہ صحیح نہیں فقہ میں قیل علامتِ ضعف نہیں۔ اور بعض جگہ ایک مسئلہ میں دو قول بیان کرتے ہیں اور دونوں قیل سے۔ ہاں منطق میں قیل علامت ضعف ہے
تفسیر الثعالبی المعروف بالجواھر الحسان فی تفسیر القرآن۔ للامام عبدالرحمٰن بن محمد بن مخلوف ابی زیر الثعالبی المالکی (رح) جز ۲صفحات ۲۵۴و ۲۵۵ زیر تحت سورہ النسا آیت ۵۹، اولی الامر سے مراد علما ہیں اور اس پر اجماع امت ہے یعنی تقلید کا نصِ قرآنی و سلف سے مستند ثبوت۔ دار احیا التراث العربی بیروت
سورہ النساء زیر تحت آیت ۶۴ وسیلے کا اور نبی کریم ﷺ سے فریاد و استعانت و مدد کا قرآنی حکم اور اسکے ساتھ اعرابی والی مستند حدیث، تمام ریڈ لائنز اس پر سلف کا قول اور اسکی تصدیقات ہیں، کسی نے اسکو غیراللہ کی مدد کہہ کر کفر شرک بدعت قرار نہیں دیا۔ تفسیر الثعالبی ، امام عبدالرحمٰن بن محمد بن مخلوف الثعالبی المالکی (رح) جز ۲ ص ۲۵۷ داراحیاٗ التراث العربی و موسسۃ التاریخ العربی بیروت ایڈیشن
نصِ قرآنی بر تقلیدِ شرعی
تفسیرالملا علی قاری المسمیٰ انوار القرآن و اسرار العرفان۔ امام المحدث الفقیہہ امام نورالدین علی بن سلطان المعروف ملا علی قاری الحنفی الھروی المکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ج ۱ص ۴۳۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ تقلید کا شرعی حکم اور سلف کا فرمان
</font></b>تفسیر بحر المحیط زیر تحت تفسیر (اولیٰ الامر) ۔ اولیٰ الامر سے مراد علماء ہیں
All scans are also updated to 2017 folder (link on page 1)
|
|
|
Post by Waqas Raza on Jul 11, 2017 9:17:54 GMT
Salam, Is main bohat sare link kaam nahi kar rahe
|
|
|
Post by Admin on Jul 14, 2017 22:53:00 GMT
Salam, Is main bohat sare link kaam nahi kar rahe Walaikumusalam: Bhai Sub sy uper jo links diye hain wahan sy ap entire Scans Library dekh sakte hain. Links google ki changes ki waja se change ho chuke hain main page 1 par sub sy uper likh diya gaya hy wahan sy access ap kar sakte hain. For easy access to entire Library Kindly Click this link (is link pr click kar ke puri library check ki ja sakti hy) Library Link New Fresh
|
|