Post by zarbehaq on Dec 29, 2015 23:09:50 GMT
سبز چادریں ، سبز عمامہ شریف اور ایک اعتراض
مشکات شریف کے صفحہ۴۷۷ باب العلامات بین یدی الساعۃ وذکر الدجال فصل ثانی میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ کا ترجمہ اور اس پر حاشیہ آرائی کرئے ہوئے کلمہ (السیجان) بمعنی الطیلسان الاخضر کے کلمات سے اپنا مزعومہ مطلب نکالتے ہوئے سبز رنگ کی ٹوپی یا عمامہ پہننے والے کو خاکم بدہن گروہ دجال سے شمار کرکے عام مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہوئے عمامہ شریف کی پیاری سنت کو ترک کرنے پر اکساتے ہیں
جواب
جھوٹ بولنا اور حدیث کی نسبت غلط طور پر نبی کریم علیہ السلام کی طرف کرنا اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا ہے
دجال کی پیروی کرنے والے سبز عمامہ والے یا چادروں والے ہوں گے۔ حدیث مبارک کا یہ معنی کرکے جان بوجھ کر جھوٹ بولا گیا ہے یا اپنی جہالت وحماقت کا اظہار کیا گیا ہے۔
جس لباس سے نبی کریم علیہ السلام نے منع نہیں فرمایا اور اس میں حرمت و کراہت کی کوئی وجہ نہیں پائی گئی اسے حرام کہنا جرم عظیم ہے ۔ اور نبی کریم علیہ السلام کو سفید لباس کے بعد سبز رنگ کا لباس پسند تھا۔
تفصیلی جواب
بعض لوگ جو یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام نے خالص سبز رنگ کی چادر یا خالص سرخ رنگ کا لباس استعمال نہیں فرمایا بلکہ سبز اور سرخ دھاریاں لکیریں کپڑے میں ہوتی تھیں۔ کیونکہ شیخ رحمتہ اللہ علیہ نے اسکا وضاحت کرتے ہوئے فرمایا
برد سبز بردلیست کہ دراں خطوط سبز شد نہ آنکہ سبز خالص بود چنانکہ برد سرخ نیز بایں معنی است (شرح سفر السعادۃ)
ترجمہ ؛ سبز رنگ کی چادر کا یہ مطلب ہے کہ اس میں سبز لکیریں ہوتی تھیں یہ نہیں کہ وہ خالص سبز ہوتی تھیں جس طرح سرخ چادر کا ذکر ملتا ہے اس کا بھی یہ مطلب ہے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ شیخ رحمتہ اللہ علیہ نے اسکا جواب بھی خود ہی واضح کردیا کہ
وایں بیان واقع است نہ آنکہ سبز خالص پوشیدن حرام بود چنانکہ سرخ خالص ۔ زیرا کہ بہ تحقیق ثابت شدہ است کہ درست ترین رنگھا نزد آنحضرت علیہ السلام بعد از بیاض خضرت بود۔ ص ۴۳۱ شرح سفر السعادۃ ۔
ترجمہ ۔ یہ بیان واقع ہے یعنی نبی کریم علیہ السلام نے سبز دھاریوں والی چادر کا استعمال فرمایا اس کا یہ مطلب نہیں کہ خالص سبز لباس کا استعمال منع ہے جس طرح کہ سرخِ خالص۔ اس لیئے کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کو سفید رنگ کے بعد خالص سبز رنگ بہت زیادہ پسند تھا۔
غور کریں کہ (دوست ترین) اور (خضرۃ) کے الفاظ کیا کہتے ہیں
عن انس قال کان احب الثیاب الی النبی علیہ السلام ان لبسھا الحبرۃ (متفق علیہ) مشکوٰۃ کتاب اللباس ۔ ثم الحبرۃ نوع من برود الیمن بخطوط حمر وربما تکون بخضر اوزرق
ترجمہ
حبرۃ کا لفظ حدیثِ پاک میں استعمال ہوا ہے اس سے مراد یمنی چادریں ہیں، جن میں سرخ دھاریاں ہوتیں اکثر طور پر ان میں سبز دھاریاں ہوتیں یا نیلی دھاریاں ہوتیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کپڑا اس وجہ سے پسند تھا کہ یہ سوتی کپڑا تھا اور نفیس تھا۔
وقیل لکونھا خضراٗ وھی من ثیاب اھل الجنۃ وقد رود انہ کان احب الالوان الیہ الخضرۃ علی مارواہ الطبرانی فی الاوسط و ابن السنی وابو نعیم فی الطب (مرقاۃ ج ۸ ص ۲۳۴)۔
ترجمہ؛۔ اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کپڑا اسلیئے پسند تھا کہ اس میں سبز رنگ پایا جاتا تھا، چونکہ سبز رنگ کا لباس جنتی لوگوں کا لباس ہوگا یہی پسند کی وجہ تھی۔
اسی طرح مظہری نے ج ۲ ص ۳۲ پر بھی لکھا ہے۔
اب ذرا منافقین کی غلط فہمی کا جواب دے دیا جائے
عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یتبع الدجال من امتی سبعون الفاعلیھم السیجان رواہ فی شرح السنۃ ۔ مشکوٰۃ باب العلامات بین یدی الساعۃ ص ۴۷۷
میری امت میں سے ستر ہزار لوگ ہوں گے جو دجال کی اتباع کریں گے جن پر سبز رنگ کے عمامے ہوں گے۔
سیجان کا لفظ شامل ہے سبز ٹوپی سبز چادر سبز پگڑی پر
غلط ترجمہ کرنے کی وجوہ
یہ ترجمہ غلط کیا گیا ہے اور فطری خباثت کے تحت اس کو مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش کی گئی ہے ، وجہ یہ ہے کہ (السیجان) کے معنی کو سمجھنے سے منکرین قصداً جان چھڑاتے ہیں لہٰذا کذب کرتے ہیں
آئیں حدیثِ مسلم کو دیکھیں
عن انس عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال یتبع الدجال من یھود اصفھان سبعون الفا علیھم الطیالسۃ رواہ مسلم۔
مشکوٰۃ باب العلامات بین یدی الساعۃ ص ۴۷۸
ترجمہ؛ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا دجال کی تابعداری کریں گے ، ستر ہزار اصفہان کے یہودی جن پر طیالیس ہوں گی۔
تنبیہ ؛۔ طیالسہ اور سیجان کے لفظ کا دونوں حدیثوں میں ایک ہی مطلب ہے۔ جو کو لغت سے واضح کیا جارہا ہے
وضاحت ِ حدیث ؛۔
من الاتبا بتشدید الفاٗ ای یطیح ؛ یعنی ۔ لفظِ (یتبع) میں تا پر شد ہے (اتباع) سے لیا ہوا ہے جس کے معنی ہیں اطاعت کرنا
اصفہان ۔ ہمزہ پر زبر بھی اور زیر بھی ، فا پر زبر ہے فا کی جگہ با کا استعمال بھی ہے۔ شہر کا نام ہے جو عراق کے علاقہ میں ہے۔ بعض حضرات نے کہا اصفہان دوشہر ہیں۔ ایک خراسان میں ہے جو فا کی جگہ با کا استعمال کرتے ہیں۔
حدیث پاک سے ایک بات تو واضح ہوئی وہ قوم جو دجال کی تابعداری کرے گی ۔ ان کی علامت بیان کی گئی کہ ان پر طیالیس ہوں گی اور دوسری بات کہ وہ یہود ہوں گے اور تیسری بات کہ وہ اصفہان کے ہوں گے۔ ابھی دجال کا ظہور بھی نہیں کہ دجال کے متبعین تلاش کیئے جائیں۔ دجال کا جب ظہور ہوگا تو اس کے متبعین بھی ڈھکے چھپے نہیں رہیں گے ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ یہودی ہوں گے تو مسلمانوں پر اس حدیث کا اطلاق کیسے صحیح ہے؟
اگر دعوت اسلامی سے اتنی ہی تکلیف بھی ہے تو بھی جب نبی علیہ السلام نے فرما دیا کہ وہ اصفہان کے ہوں گے تو پھر پاکستان کے سنی صوفیوں پر اس حدیث کا اطلاق کرنا کونسا اسلام ہے؟
جب (طیلسان) کا ایک معین رنگ ہی نہیں بیان کیا گیا بلکہ تین رنگ بیان کیئے گئے تو پھر زور صرف سبز رنگ پر ہی کیوں؟
طیالسہ اور سیجان کی لغوی تحقیق
ایک حدیث شریف میں (طیالسہ) کا استعمال ہے اور دوسری میں (سیجان) کا دونوں کا ایک ہی مطلب و مفہوم ہے اسلیئے ان الفاظ کی لغوی حیثیت پہلے دیکھیں پھر شارحی بحث کو دیکھیں تو مطلب واضح ہوجائے گا
الطالسان ضرب من الاوشحۃ یلبس علی الکتف او یحیط بالبدن خال عن التفصیل والخیاطۃ اوھو مایعرف فی العامیۃ المصریۃ بالشال (فارسی مغرب تالستان او تالشان) ۔
حوالہ المعجم الوسیط
ترجمہ
طالسان ایک لباس ہے جو زینت کے لیئے کندھے پر استعمال کرتے ہیں یا اس سے بدن کو ڈھانپتے ہیں۔ اس میں کوئی تفصیل نہیں ہوتی (کہ یہ حصہ بازو کے لیئے ہے تو یہ پیٹ کے لیئے وغیرہ) اور اس کی سلائی بھی نہیں ہوتی (واضح ہوا کہ وہ چادر ہوتی ہے) یا یہ کہ مصر میں عام لوگ جسے شال کہتے ہیں۔ وہی طالسان ہے اصل میں یہ لفظ فارسی ہے اور اصل میں تالسان یا تالشان تھا عربی میں اسے طالسان بنالیا گیا یعنی یہ لفظ معرب ہے
الاطلس من الثیاب الوسخ او مای لونہ طلمسۃ (المعجم الوسیط)۔ یعنی۔ جس کپڑے میں میل ہو یا جس کا رنگ طلسہ (طا پر پیش ، لام ساکن) ہواسے اطلس کہا جاتا ہے۔
مزید لکھا ہے
اطلسہ الغبر۔ ۃ الی السواد ومارق من السحاب ۔ یعنی۔ منیالا رنگ جو سیاہی مائل ہو اور پتلے بادلوں کا جو رنگ ہوتا ہے اسے طلسہ کہا جاتا ہے۔
المعجم الوسیط سے کی گئی اس بحث سے یہ واضح ہوگیا کہ (طیالسہ) جمع ہے (طیلسان) یا (طالسان) کی جس کا معنی ہے چادر، شال اور اس کا رنگ خاکستری سیاہی مائل ہوتا ہے۔
السیجان تصغیر الساج، سویج ، والجمع سیجان، ابن الاعرابی السیجان الطیالسۃ السو واحدھا ساج
ترجمہ ؛۔ ساج کی تصغیر سویج ہے اور جمع سیجان ہے ابن الاعرابی نے کہا السیجان سیاہ رنگ کی چادروں کو کہا جاتا ہے اس کا واحد ساج ہے۔
وفی حدیث ابن عباس (رض) ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یلبس فی الحرب من القلانس مایکون من السیجان الخضر جمع ساج وھو الطیلسان الاخضر (لسان العرب)۔
ترجمہ؛۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ بے شک رسول اللہ علیہ السلام جنگ میں ٹوپی پہنتے تھے جو سبز سیجان سے بنی ہوئی ہوتی تھی ۔ سیجان ساج کی جمع ہے سبز رنگ کی چادر کو بھی کہا جاتا ہے۔
المعجم الوسیط میں لکھا ہے
الساج ضروب من الشجر یعظم جدا ویذھب طولا وعرضا ولہ ورق کبیر (ج) سیجان ۔
ترجمہ؛۔ سیجان جمع ہے ساج کی ساج ایک بہت بڑا درخت ہے جو طول وعرض میں پھیلا ہوا ہوتا ہے اور اس کے بڑے بڑے پتے ہوتے ہیں۔ ہماری زبان میں اسے ساگوان کہاجاتا ہے اس کی لکڑی بھی سیاہ ہوتی ہے۔
یہاں سے ایک اور بات سمجھ میں آئی کہ سیجان کا معنی ٹوپی کرنا غلط ہے کیونکہ نبی کریم علیہ السلام ٹوپی پہنتے تھے جو سیجان کی بنی ہوئی ہوتی تھی ۔ یہ نہیں کہ سیجان پہنتے تھے جس کا معنی ٹوپی ہے۔ سیجان سبز رنگ کی چادر کو بھی کہتے ہیں اور سیاہ رنگ کی چادر کو بھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ٹوپی جنگ میں استعمال کرتے تھے وہ ساگوان کی لکڑی کی چھیل سے بنتی ہو۔
بریک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک تو ہم نے منافقین منکرین کے غلط ترجمہ اور اس سے غلط مطلب لوگوں کو سمجھانے کا پول کھول دیا ہے ، اس پر انشااللہ مکمل تحریر جلد ہی پیش کردی جائے گی