متقی الہندی نے یہی روایت اپنی حدیث کی کتاب "کنزالاعمال" میں یوں نقل کی ہے۔
[روایت نمبر 12521]
۱۲۵۲۱- عن أبي سعيد الخدري قال: حججنا مع عمر بن الخطاب، فلما دخل الطواف استقبل الحجر فقال: إني لأعلم أنك حجر لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلك ما قبلتك، ثم قبله، فقال علي بن أبي طالب: يا أمير المؤمنين إنه يضر وينفع، قال: بم؟ قال: بكتاب الله عز وجل قال: وأين ذلك من كتاب الله؟ قال: قال الله تعالى: { وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم} إلى قوله: بلى، خلق الله آدم ومسح على ظهره فقررهم بأنه الرب وأنهم العبيد وأخذ عهودهم ومواثيقهم وكتب ذلك في رق (في رق: والرق بالفتح: الجلد يكتب فيه والكسر لغة قليلة فيه وقرأ بها بعضهم في قوله تعالى: "في رق منشور".انتهى.(۱/۳۲۱) المصباح المنير. ب) وكان لهذا الحجر عينان ولسانان فقال: افتح فاك ففتح فاه، فألقمه ذلك الرق، فقال: اشهد لمن وافاك بالموافاة يوم القيامة وإني أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يؤتى يوم القيامة بالحجر الأسود وله لسان ذلق يشهد لمن استلمه بالتوحيد فهو يا أمير المؤمنين يضر وينفع، فقال عمر: أعوذ بالله أن أعيش في قوم لست فيهم يا أبا الحسن
ترجمہ: ابو سعید خدری کہتے ہیں:
ہم نے عمر ابن خطاب کے ساتھ حج کیا۔ چنانچہ جب وہ طواف کرنے لگے تو حجر اسود کو مخاطب کر کے کہا
“میں جانتا ہوں کہ تم صرف ایک پتھر ہو جو کہ نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اور اگر میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہیں دیکھا ہوتا، تو میں کبھی تجھے نہ چومتا۔
اسپر علی (ابن طالب) نے (عمر ابن الخطاب سے) کہا: "یہ (پتھر) نفع بھی پہنچا سکتا ہے اورنقصان بھی۔" عمر (ابن خطاب) نے پوچھا: “وہ کیسے"، اس پر علی [ابن ابی طالب] نے جواب دیا: “کتاب اللہ کی رو سے۔" عمر [ابن الخطاب] نے کہا: “پھر آپ مجھے بھی یہ بات قران میں دکھائیے۔" علی نے کہا کہ اللہ قران میں فرماتا ہے کہ جب اُس نے حضرت آدم کی صلب سے اولاد کو پیدا کیا تو انہیں اپنی جانوں پر گواہ کیا اور سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اس کے جواب میں سب نے اقرار کیا کہ تو ہمارا پیدا کرنے والا ہے اور ہمارا پروردگار ہے۔ پس اللہ نے اس اقرار کو لکھ لیا۔ اور اس پتھر کے دو لب اور دو آنکھیں تھیں، چنانچہ اللہ کے حکم سے اس نے اپنا منہ کھولا اور یہ صحیفہ اس میں رکھ دیا اور اس سے کہا کہ میرے عبادت گذاروں کو جو حج پورا کرنے آئیں، اُن کو اس بات کی گواہی دینا۔
اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:”اس کالے پتھر کو قیامت کے روز لایا جائے گا، اور اس کو زبان عطا کی جائے گی جو کہ اُن لوگوں کی شہادت دے گی جو توحید پر قائم تھے اور اپنے فرائض انجام بجا لاتے تھے۔" چنانچہ یہ پتھر نفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی۔" یہ سن کر عمر [ابن الخطاب] نے کہا۔ "اعوذ باللہ کہ مجھے ایسے لوگوں میں رہنا پڑے کہ جن میں اے ابوالحسن (علی) آپ موجود نہ ہوں۔