Post by zarbehaq on Apr 21, 2016 13:40:41 GMT
درود شریف کے فضائل، مقامات، وسیلہ معنی شفاعت ، معنی اور آذان سے قبل و بعد درود شریف کی (اچھی بدعت) بقولِ سلف
ترجمہ امام نبہانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
ترجمہ امام نبہانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
نبی علیہ السلام پر درود و سلام بھیجنے کے لیئے جمعرات اور پیر کو جمع ہونا، اور جیسا کہ (مصر کی) جامعہ الازھر (الازھر یونیورسٹی جسے کہا جاتا ہے) میں ہوتا ہے۔ بآوازِ بلند درود وسلام پڑھنا جائز ہے، کیونکہ رات دن کے ساتھ ملی ہوتی ہے، اور الاعمال میں لام جنسی ہے ، لہٰذا ذکر، نبی علیہ السلام پر درودوسلام اور دعا سب کو شامل ہے بالخصوص پیر کی رات کو، کہ اس کی تاکید ہے، ابن مرزوق نے تو یہاں تک کہا ہے کہ (یہ رات لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے) الخ۔۔ اور الجمل نے حاشیۃ المنہج میں (اس پر بحث کرتے ہوئے کہا) جب جمعرات کو عید ہوجائے تو کیا درود وسلام اور سورہ کہف کی تلاوت کو چھوڑ کر عید کی علامت، تکبیر (وتلبیہ) میں مصروف ہوجائے ؟ یا (2) درود وسلام اور سورہ کہف کی تلاوت کی رعائیت کرے؟ یا (3) عید الفطر میں تو تکبیرات کی رعایت کرے اور عید قربان میں درود و سلام کی؟ اسلئے کہ عید الفطر کی تکبیرات نص قرآنی سے ثابت ہیں، اور درود و سلام کی فضیلت جمعرات کو، حدیث نبوی سے، رہ گئی عیدِ قربان تو اسکی تکبیرات قرآن سے نہیں، قیاس سے ثابت ہیں۔ یہ تین احتمال ہیں، میرے خیال میں تیسری صورت زیادہ بہتر ہے، اگرچہ دوسری بھی حق سے دور نہیں، وجہ یہ ہے کہ درود و سلام ، اس رات کی اصلی اور ذاتی علامت ہے، رہ گئی تکبیر تو وہ عارضٰ اور (اتفاقی) ہے ، لہٰذا عارضی ذاتی کی رعایت کرنا بہتر ہے، ثانیاً یہ کہ جمعہ کی رات ، عید کی رات سے افضل ہے، لہٰذا اس کی علامت کی رعایت کرنا افضل ہےاور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمعہ کی رات لیلۃ القدر سے بھی افضل ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبی علیہ السلام پر درود بھیجنا کبھی نہ کبھی تو واجب ہے ہیِ لہٰذا ان مواقع کی رعایت کرنا بہتر ہے۔
پھر ایک لمبی تفصیل ہے اور پھر
اگلے صفحے پر علامہ نبھانی رحمتہ اللہ علیہ اپنا تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛۔
میں کہتا ہوں اسی قبیل سے عارف باللہ سیدی شیخ نورالدین الشونی اور شیخ امام شعرانی کی وہ مجلس جو رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود شریف کے سلسلہ میں (مصر کی) جامع الازہر میں منعقد ہوتی ہے۔ اور وہاں سے اکثر شہروں میں پھیل چکی ہے، اور ان کی وفات کے بعد بھی طویل مدت سے جاری ہے، یہ مجلس جمعرات اور پیر کی رات مغرب سے لیکر نمازِ فجر تک اور جمعہ کے دن ، نمازِ جمعہ تک رہتی ہے، پیر کی رات کو اسلیئے خاص کیا گیا کہ یہ سرکار کی ولادتِ باسعادت کی رات ہے اسی قبیل سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کی محفل جو منگل کی رات کو منعقد ہوتی تھی ، ابوموسیٰ المدینی نے اس سلسلہ میں حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) کی روایت سے ایک مرفوع حدیث بیان کی ہے لیکن اس کی سند میں ایسے راوی ہیں جن پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا گیا ہے، کہ جو شخص منگل کے دن نمازِ عشاء کے بعد وتر پڑھنے سے پہلے چار رکعت نماز نفل اسطرح پڑہے کہ ہر رکعت میں الحمد ایک مرتبہ، قل ہواللہ احد تین مرتبہ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس ، ایک ایک مرتبہ ، جب فارغ ہو تو پچاس مرتبہ استغفار اور اتنی ہی مرتبہ نبی علیہ السلام پر درود وسلام بھیجے، اللہ نعالیٰ اس کو قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کا چہرہ نور سے جگمگاتا ہوگا اور بہت ثواب کا ذکر فرمایا، انہی درود پڑھنے کے اوقات میں یہ بھی ہے کہ دن کے دونوں کناروں (صبح و شام) پر درود و سلام پڑہے کیونکہ حدیث میں ہے جو کوئی مجھ پر شام کو درود بھیجے ، صبح سے پہلے اسکی مغفرت ہوجائے گی اور جو کوئی مجھ پر صبح کے وقت درود بھیجے ، شام سے پہلے اسکی مغفرت ہوجائے گی اسلیئے ہی مشائخ و صوفیاء علیہ الرحمۃ اپنے اوراد و وظائف صبح شام مقرر کرتے ہیں
پھر صفحہ 170 کے آخر میں توسیل (وسیلہ) (جسکو کچھ جہلاء نے غیراللہ سے مدد کا نام دے رکھا ہے) کے بارے میں لکھتے ہیں؛۔
وسیلہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر گذر چکی ہے ، کہ جنت میں بلند ترین درجہ ہے، ویسے لغت میں وسیلہ کا مطلب ہے جس کے ذریعے بڑی ہستی کا قرب حاصل کیا جائے فرمان باری تعالیٰ ہے (وابتغوا الیہ الوسیلۃ) (اللہ کی طرف وسیلہ طلب کرو، ایک جماعت نے کہا یہاں وسیلہ کا معنیٰ قرب ہے، دوسروں نے کہا وسیلہ کا مطلب ہے ہروہ چیز جس کے ذریعہ قرب حاصل کیا جائے اور مقصود تک پہنچا جائے مثلاً اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے نبی کا وسیلہ اختیار کرنا ۔
یعنی سلف الصالحین کے مطابق وسیلہ عین دین ہے جسکو (آجکل کے پیداوار کچھ جاہل لوگوں نے غیر اللہ سے مدد کا نام دے رکھا ہے)۔ پھر آگے شفاعت کبریٰ و صغریٰ کا تذکرہ معنی و تعریفیں دی ہیں اور معتزلیوں کا ذکر ہے کہ جو شفاعت کے منکر تھے۔ اور امام نووی کا قول لکھا ہے کہ انہوں نے فرمایا: جائز ہے کہ اس شفاعت میں حضور کے ساتھ، انبیائے کرام، علمائے عظام اور اولیاء اللہ بھی شریک ہوجائیں، (یعنی شفاعت کی اقسام کے ذکر میں یہ قول لکھا جارہا ہے)۔
پھر شفاعت کا مفہوم امام غزالی کے نقطہ نگاہ سے بیان کیا گیا ہے۔ صفحہ 171
جاننا چاہیئے کہ شفاعت اور اسکے سبب کے متعلق امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے نہایت عمدہ کلام فرمایا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ (شفاعت) ایک ایسا نور ہے جو بارگاہ الٰہی سے ، جوہرِ نبوت پر چمکتا ہے اور اس سے ہر ایسے جوہر کی طرف پھیل جاتا ہے ، جس کو جوہرِ نبوت کے ساتھ پختہ نسبت ہو اور یہ نسبت حاصل ہوتی ہے تین وجوہ سے، اول، سخت محبت، دوم سنن نبویہ پر کثرت سے ہمیشگی اور سوم درود وسلام کے ذریعہ سرکار دوعالم کا کثرت سے ذکر کرنا اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے سورج کا نور، جب پانی پر پڑے گا تو اسکا عکس سامنے والی دیوار کے ایک خاص حسے پر پڑتا ہے ساری دیوار پر نہیں پڑتا۔
اس خصوصیت کی وجہ وہ خاص نسبت ہے جو اس خاص مقام کو پانی اور سورج کی ٹکیہ کے ساتھ حاصل ہے آپ دیوار کی اس منور جگہ سے پانی کے اس مقام مخصوص تک ایک سیدھا خط کھینجیں ، دوسرا خط اسی نقطہ سے سورج کی ٹکیہ کی طرف کھیچیں، یہ دو خط ہوئے، ہر ایک زاویہ بنائے گا، بہرحال جتنے درجے کا ایک زاویہ ہوگا، اتنے ہی درجے کا دوسرا بھی بنے گا، (حادیہ، قائمہ یا منفرجہ) نہ تنگ ، نہ کشادہ اور یہ صرف اس صورت میں ہوگا ، جب خط دیوار کے مقام ِمخصوص سے کھینچا جائے تو جس طرح نور کا عکس پڑنے کے لیئے وضعی مناسبتوں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح جوہر ء معنوی کے عکس کے لیئے بھی مناسباتِ عقلیہ معنویہ کی ضرورت ہے۔
اب جس پر (نور) توحید کا غلبہ ہوجاتا ہے جنابِ الٰہی میں اسکی نسبت پختہ ہوجاتی ہے، اور اس پر براہ راست نور کی ضیا پاشی ہوتی ہے اور جس پر، سنت اور رسول اللہ کی اقتداء و محبت، اور آپ کے صحابہ کی محبت غالب ہوجائے، اور وحدانیت میں قدم مضبوط نہ ہو تو اس کی نسبت بالواسطہ مستحکم ہوسکتی ہے، پس وہ اسی طرح روشنی حاصل کرنے میں کسی واسطہ کا محتاج ہوتا ہے۔
جس طرح وہ دیوار جو سورج سے اوجھل ہو روشنی حاصل کرنے میں اس پانی کی محتاج ہوتی ہے، جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے ، دنیا میں سفارش کی یہی مثال ہے۔
پھر ایک لمبی تفصیل مزید دی ہے جس میں علم کے موتی امام غزالی نے بکھیرے ہیں۔
امام رازی اور معنی شفاعت
امام رازی نے فرمایا، شفاعت یہ ہے کہ کوئی کسی کسی کے لیئے کچھ مانگے اور اسکی حاجت براری کرے اور لغوی لحاظ سے یہ شفع سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے جفت، جوڑا ، یہ مفرد ، وتر اور طاق کی ضد ہے گویا حاجت مند انسان اکیلا ہوتا ہے، پھر سفارش کرنے والا اس کا جوڑا بن گیا اور اب وہ جوڑا ہوگئے۔ (ابن حجر کا کلام ختم ہوا)۔
امام نبھانی رحمتہ اللہ علیہ صفحہ 172 پر اذان کے آگے پیچھے درود وسلام پڑھنے کے متعلق لکھتے ہیں (نوٹ: یاد رہے کہ یہ وہ چیز ہے جس پر دیوبندیوں وہابیوں نے اپنی الگ مسجد بنا رکھی ہیں اور جو درود وسلام پڑھتے ہیں ان کو بریلوی کا نام دیا جاتا ہے یا کہہ دینا کہ جامعہ الازھر بھی بریلویوں کی ہے)۔
ترجمہ ؛۔
القول البدیع میں فرمایا کہ اذان کے بعد مؤذنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا شروع کردیا ہے، ہاں ! صبح اور جمعہ کی اذان سے پہلے پڑھتے ہیں اور مغرب کی اذان میں وقت کی تنگی کی بنا پر عام طور پر نہیں پڑھتے اور اسکی ابتداء سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب (رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ) کے دورِ حکومت میں اس کے حکم پر ہوئی تھی ، رہی اس سے پہلے کی بات تو وہ یہ ہے کہ جب حاکم بن عبدالعزیز کو قتل کیا گیا تو اس کی بہن نے حکم دیا کہ اس (حاکم بن عبدالعزیز) کے بیٹے الظاہر پر سلام بھیجا جائے تو اس پر ان الفاظ کے ساتھ سلام کہا جانے لگا۔ (السلام علی الامام الظاھر)۔ پھر اسکے بعد آنے والے خلفاء میں سلام کی رسم چل نکلی یہاں تک کہ سلطان صلاح الدین مذکور نے اسے ختم کیا اور اسکی جگہ رسول اللہ علیہ السلام پر درود و سلام کا طریقہ جاری کیا، خدا ان کو جزائے خیر عطا کرے
پھر میں نے بعض تواریخ میں دیکھا کہ اوائل ء شعبان 791ھ میں قاہر اور مصر کے مؤذنوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ہر اذان کے بعد (الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ) چند مرتبہ پڑھیں کیونکہ ایک عقیدت مند فقیر نے جمعرات کو عشاء کی اذان کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کی آواز سنی ، اسے یہ بات پسند آگئی اور اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا، کیا تم چاہتے ہو کہ ہراذان میں ایسا ہی کیا جائے ؟ انہوں نے کہا ہاں! وہ رات کو سوگیا۔ صبح اٹھ کر اس نے یہ کہا کہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ہے جنہوں نے اس سے فرمایا کہ النجم الطنبدی محتسب سے کہو کہ مؤذن کو ہر اذان کے بعد رسول اللہ علیہ السلام پر درود وسلام بھیجنے کا حکم دے، اسکی طرف چلا، اس نے خواب سن کر اظہارِ مسرت کیا اور اسکا حکم دے دیا، اس دن سے آج تک یہ سلسلہ یونہی چلا آرہا ہے۔
اگریہ حکایت صحیح ہے تو شاید سرکار نے یہ ارشاد اس تاریخ تک چھوڑے رکھا یا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ (حکم تو پہلے بھی یہی تھا لیکن) سلطان صلاح الدین نے اسکی جمعرات کو تاکید کردی ۔ واللہ اعلم
پھر صفحہ 173 پر بیان فرماتے ہیں کہ (صاحب قول بدیع نے) فرمایا اس میں اختلاف ہے کہ یہ (عمل) مستحب ہے، مکروہ ہے یا بدعت ، یا جائز۔ پہلے قول پر یہ دلیل پیش کی گئی کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے وافعلوا الخیر نیکی کرو! اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام عظیم الشان نیکی ہے، خصوصا جب کہ اس پر ترغیب کے سلسلے میں احادیث بھی وارد ہیں، اس کے ساتھ ہی آذان کے بعد کی دعا اور رات کے آخری تہائی حصہ اور فجر کے قریب دعا کرنے کی جو فضیلت آئی ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ بدعتِ حسنہ (اچھی بدعت) ہے، عمل کرنے والے کو حسنِ نیت کے مطابق اجر و ثواب ملے گا۔
یعنی ثابت ہوا کہ تمام تر سلف الصالحین کے مذہب کے مطابق یہ عمل ایک اچھی چیز ہے، نہ یہ بریلوی نے شروع کی، نہ ہی یہ برصغیر کی ایجاد ہے اور نہ ہی اسکو بقول کچھ لوگوں کے صوفیوں نے شروع کیا۔ بلکہ مجاہد اسلام نے ایک غلط چیز کو درست کرکے اسکو بھی ثواب کا ذریعہ بنا دیا جس سے کچھ عاقبت نااندیش جلتے ہیں اور اسکو (بریلویوں کی بدعت) کہہ کر دراصل اپنے خارجی ہونے کا اور صوفیوں کے اہلسنت وجماعت ہونے کا اصلی سچا کھرا ثبوت دیتے ہیں۔ کیونکہ منکرین کی اوقات نہ تو امام سیوطی جیسی ہے، نہ امام ابن حجر مکی جتنی، نا ہی امام قاضی یوسف بن اسماعیل نبھانی جتنی اور نا ہی کسی اور جتنی کہ جو اسکو (اچھی بدعت) یعنی (اچھی نئی چیز) قرار دیتے ہیں اور یہ نام نہاد سلف کے پیروکاروں نے اپنے تئیں اسکو بریلویت کی گمراہ بدعت قرار دے کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد ِ ضرار بنا رکھی ہے۔ اور ہاں ان کی اوقات سلطان صلاح الدین ایوبی کے کتے کے پیروں کی خاک جتنی بھی نہیں کیونکہ انہوں نے تو ارض مقدس آزار کروا کر اپنے ایماندار ہونے کا رہتی دنیا تک بے مثال ثبوت دے دیا ، تم لوگوں نے تو آل سعود کے ہاتھ بیچے گئے فلسطین تک کے لیئے کبھی کچھ نہیں کہا سوائے چندے بٹورنے کے۔