Post by zarbehaq on Jun 19, 2016 12:00:25 GMT
Taken from FB NOTES MAKASHFA 29 Sept 2014!
غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب کی احادیث پر اعتراض کا جواب:
کسی معترض نے ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ کی تاریخ کے حوالے سے کہا :
(عبدالقادر بن ابوصالح ابو محمد جیلی بغداد آئے، حدیث کا درس لیا اور اس میں مشغول رہے یہاں تک کہ اس میں ماہر ہوگئے)۔
ابن کثیر نے حضرت غوث الاعظم
رحمتہ اللہ علیہ
کے حوالے سے مزید کہا:
(آپ لوگوں کے سامنے وعظ فرماتے، آپ کے کثیر احوال اور مکاشفات ہیں آپ نے (غنیۃ الطالبین) اور (فتوح الغیب) تصنیف فرمائیں، اور ان دونوں میں اچھی معلومات ہیں، لیکن آپ نے ان دونوں کتابوں میں بہت سی موضوع احادیث بھی ذکر کی ہیں)۔
جواب: معترض کا مقصد ابن کثیر کا سہارا لے کر (غنیۃ الطالبین) اور (فتوح الغیب) میں موجود بہت سی موضوع احادیث کی نشاندہی کرنا تھا، اور اس مغالطے کا جواب یہ ہے کہ اس تاریخ میں مذکور سب کچھ درست اور قابلِ قبول تو نہیں، حاجی خلیفہ نے (کشف الظنون) میں تاریخ ابن کثیر کے بارے میں کہا ہے:
(اس کتاب میں حوادث اور وفیات جمع کی گئی ہیں، اور اس میں سب سے بہترین بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہے)۔
پھر موضوع حدیث کو اُس کے گھڑنے والے کے اعتراف یا ان قرائن سے پہچانا جاتا ہے جن کا ادراک صرف وہی لوگ کرپاتے ہیں جنہیں حدیث میں انتہائی رسوخ اور وسیع مطالعہ حاصل ہو، اصولِ حدیث کی کتابوں میں اس بات کی صراحت ملتی ہے، اور ابن کثیر نے حضرت غوث الاعظم کے بارے میں خود لکھا ہے کہ حدیث پڑھنے اور پڑھانے میں اسقدر مشغول ہوئے کہ اس علم کے ماہر ہوگئے اور ابن کثیرنے حضرت غوث اعظم کی فنِ حدیث میں مہارت کے ساتھ ساتھ آپ کے تقویٰ اور پرہیزگاری کی بھی گواہی دی ہے۔
معترض نے سیدی کے بارے میں النجار کا یہ قول نقل کیا تھا:
(وہ مسلمانوں کے اُن آئمہ میں سے ہیں جو اپنے علم پر عمل پیرا بھی ہیں۔)
یعنی اعتراض کرنے والے معترض کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ علم حدیث میں ماہر غوثِ الاعظم ؒ جیسے امام کی نظروں سے موضوع حدیث کیسے اوجھل رہ سکتی ہے؟ اور کم فہم انسان نے حضرت سیدی کی کتب میں موضوع حدیث کے حوالے سے اعتراض کیسے کرلیا؟
امام ابن حجر ہیتمی سے ایک خطیب کے طرز عمل کے بارے میں سوال کیا گیا جو احادیث کو سند کے بغیر بیان کرتا تھا، تو آپ نے جواب دیا:
(اگر مذکورہ خطیب نے اپنے خطبے میں احادیث کو راویوں کی جانچ پرکھ اور اُن احادیث کو روایت کرنے والے مشائخ کا ذکر کیئے بغیر ذکر کردیا تو جائز ہے بشرطیکہ یہ خطیب علم الحدیث جانتا ہو یا حدیث کو ایسی کتاب سے نقل کرے جس کا مصنف اس علم حدیث کا ماہر ہو، اور جس کتاب کا مصنف اِس معیار کا نہ ہو اُس کتاب میں مذکور احادیث کو جانچ پرکھ کے بغیر بیان کرنا درست نہیں، اور جو ایسا کرے گا وہ گنہگار ہوگا۔)
شیخ المحققین شیخ علی عدوی الفیۃ الحدیث کی شرح میں فرماتے ہیں؛
(اس بات پر اُمت مسلمہ کے عظیم لوگوں کا اجماع ہے کہ امام جیلانی اس اُمت کے اُن جلیل القدر علماء میں سے ہیں جو شریعت اور طریقت کا حسین امتزاج ہیں۔)
کسی حدیث کے بارے میں اگر حافظ ابن کثیر کو یہ محسوس ہوا کہ وہ موضوع ہے تو وہی حدیث کسی دوسری سند کے ساتھ صحیح بھی ہوسکتی ہے جیسے کہ علم حدیث کے ماہرین نے فرمایا ہے ، محدثین میں امام سبکی کے ساتھ ایسی ہی ایک غلطی ابن جوزی سے سرزد ہوئی، انہوں نے دو جلدوں پر مشتمل موضوع احادیث کا مجموعہ ترتیب دیا، لیکن اُس میں ایسی ضعیف احادیث بھی ذکر کردیں جن کا وضع حدیث کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، یہی نہیں بلکہ ابن جوزی نےبعض حسن اور صحیح احادیث بھی اُس میں شامل کردیں اور یہ بات ابن صلاح نے کہی ہے، شیخ الاسلام زکریا انصاری ، ابن جوزی کی اس غلطی کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(اُس سے یہ غلطی اس وجہ سے سرزد ہوئی کہ حدیث کی ایک سند میں ایسا راوی پایا گیا جس پر جھوٹ کا الزام لگایا گیا، جبکہ اُسی حدیث کی ایک دوسری بے عیب سند بھی تھی جس کی طرف ابن جوزی کی توجہ نہیں ہوئی۔)
اسی حوالے سے امام سیوطی فرماتے ہیں؛
وفی کتاب ولد الجوزی ما ۔ لیس من الموضوع حتی وھما
من الصحیح والضعیف والحسن۔ضمتہ کتابی القول الحسن
ومن غریب ما تراہ فاعلم۔ فیہ حدیث من صحیح مسلم
1، ابن جوزی کی کتاب میں ایسی احادیث بھی ہیں جو موضوع نہیں ہیں۔
2۔ صحیح ، ضعیف اور حسن احادیث کو بھی موضوع سمجھا گیا میں نے ایسی احادیث اپنی کتاب (القول الحسن) میں جمع کی ہیں۔
3، اور اس میں عجیب بات جو تمہیں نظر آئے گی وہ یہ ہے کہ اس میں صحیح مسلم کی بعض احادیث بھی ہیں۔
سیدی عبدالوہاب شعرانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا؛
(جس نے یہ کہا کہ فرشتہ فقط نبی پر اترتا ہے جبکہ ولی کو الہام ہوتا ہے تو اس نے غلط کہا، اور صحیح بات یہ ہے کہ ولی پر بھی فرشتہ اترتا ہے لیکن اُس ولی کے نبی کی اتباع میں اترتا ہے ، اور اُس ولی کو اُس کے نبی کی وہ بات سمجھاتا ہے جسے وہ ولی اپنے علم کے ذریعے نہیں سمجھ سکا تھا۔اس بات کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ کسی حدیث کو ماہرین علوم ِ حدیث نے ضعیف قرار دیا لیکن فرشتہ کسی ولی کو خبر دیتا ہے کہ وہ حدیث صحیح ہے، اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ حاتمی کے ہاں ایسی بہت سی مثالیں ہیں، انہوں نے باطنی قوت سے بہت سی احادیث کو صحیح قرار دیا اور اس وجہ سے وہ اپنے دور کے علماء کے ہاتھوں آزمائش کا شکار بھی ہوئے)۔
امام عبدالوہاب شعرانی کے اس قول کی روشنی میں ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ حضرت غوث الاعظم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیفات میں اگر ایسی احادیث لکھ بھی دی ہیں تو ہم پر انہیں موضوع قرار دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیئے ۔
فحارب الاکفاء والاُقرانا فالمرء لایحارب السلطان
اپنے برابر اور ہم پلہ لوگوں سے لڑو جھگڑو، ایک عام انسان بادشاہ سے نہیں الجھتا۔
السیف الربانی فی علق المعترض علی الغوث الجیلانی، مخطوطہ، مصنف علامہ سید محمد مکی بن سیدی مصطفیٰ عزور۔محدثِ تیونس۔
Unicode for copying:
غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب کی احادیث پر اعتراض کا جواب:
کسی معترض نے ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ کی تاریخ کے حوالے سے کہا :
(عبدالقادر بن ابوصالح ابو محمد جیلی بغداد آئے، حدیث کا درس لیا اور اس میں مشغول رہے یہاں تک کہ اس میں ماہر ہوگئے)۔
ابن کثیر نے حضرت غوث الاعظم
رحمتہ اللہ علیہ
کے حوالے سے مزید کہا:
(آپ لوگوں کے سامنے وعظ فرماتے، آپ کے کثیر احوال اور مکاشفات ہیں آپ نے (غنیۃ الطالبین) اور (فتوح الغیب) تصنیف فرمائیں، اور ان دونوں میں اچھی معلومات ہیں، لیکن آپ نے ان دونوں کتابوں میں بہت سی موضوع احادیث بھی ذکر کی ہیں)۔
جواب: معترض کا مقصد ابن کثیر کا سہارا لے کر (غنیۃ الطالبین) اور (فتوح الغیب) میں موجود بہت سی موضوع احادیث کی نشاندہی کرنا تھا، اور اس مغالطے کا جواب یہ ہے کہ اس تاریخ میں مذکور سب کچھ درست اور قابلِ قبول تو نہیں، حاجی خلیفہ نے (کشف الظنون) میں تاریخ ابن کثیر کے بارے میں کہا ہے:
(اس کتاب میں حوادث اور وفیات جمع کی گئی ہیں، اور اس میں سب سے بہترین بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہے)۔
پھر موضوع حدیث کو اُس کے گھڑنے والے کے اعتراف یا ان قرائن سے پہچانا جاتا ہے جن کا ادراک صرف وہی لوگ کرپاتے ہیں جنہیں حدیث میں انتہائی رسوخ اور وسیع مطالعہ حاصل ہو، اصولِ حدیث کی کتابوں میں اس بات کی صراحت ملتی ہے، اور ابن کثیر نے حضرت غوث الاعظم کے بارے میں خود لکھا ہے کہ حدیث پڑھنے اور پڑھانے میں اسقدر مشغول ہوئے کہ اس علم کے ماہر ہوگئے اور ابن کثیرنے حضرت غوث اعظم کی فنِ حدیث میں مہارت کے ساتھ ساتھ آپ کے تقویٰ اور پرہیزگاری کی بھی گواہی دی ہے۔
معترض نے سیدی کے بارے میں النجار کا یہ قول نقل کیا تھا:
(وہ مسلمانوں کے اُن آئمہ میں سے ہیں جو اپنے علم پر عمل پیرا بھی ہیں۔)
یعنی اعتراض کرنے والے معترض کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ علم حدیث میں ماہر غوثِ الاعظم ؒ جیسے امام کی نظروں سے موضوع حدیث کیسے اوجھل رہ سکتی ہے؟ اور کم فہم انسان نے حضرت سیدی کی کتب میں موضوع حدیث کے حوالے سے اعتراض کیسے کرلیا؟
امام ابن حجر ہیتمی سے ایک خطیب کے طرز عمل کے بارے میں سوال کیا گیا جو احادیث کو سند کے بغیر بیان کرتا تھا، تو آپ نے جواب دیا:
(اگر مذکورہ خطیب نے اپنے خطبے میں احادیث کو راویوں کی جانچ پرکھ اور اُن احادیث کو روایت کرنے والے مشائخ کا ذکر کیئے بغیر ذکر کردیا تو جائز ہے بشرطیکہ یہ خطیب علم الحدیث جانتا ہو یا حدیث کو ایسی کتاب سے نقل کرے جس کا مصنف اس علم حدیث کا ماہر ہو، اور جس کتاب کا مصنف اِس معیار کا نہ ہو اُس کتاب میں مذکور احادیث کو جانچ پرکھ کے بغیر بیان کرنا درست نہیں، اور جو ایسا کرے گا وہ گنہگار ہوگا۔)
شیخ المحققین شیخ علی عدوی الفیۃ الحدیث کی شرح میں فرماتے ہیں؛
(اس بات پر اُمت مسلمہ کے عظیم لوگوں کا اجماع ہے کہ امام جیلانی اس اُمت کے اُن جلیل القدر علماء میں سے ہیں جو شریعت اور طریقت کا حسین امتزاج ہیں۔)
کسی حدیث کے بارے میں اگر حافظ ابن کثیر کو یہ محسوس ہوا کہ وہ موضوع ہے تو وہی حدیث کسی دوسری سند کے ساتھ صحیح بھی ہوسکتی ہے جیسے کہ علم حدیث کے ماہرین نے فرمایا ہے ، محدثین میں امام سبکی کے ساتھ ایسی ہی ایک غلطی ابن جوزی سے سرزد ہوئی، انہوں نے دو جلدوں پر مشتمل موضوع احادیث کا مجموعہ ترتیب دیا، لیکن اُس میں ایسی ضعیف احادیث بھی ذکر کردیں جن کا وضع حدیث کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، یہی نہیں بلکہ ابن جوزی نےبعض حسن اور صحیح احادیث بھی اُس میں شامل کردیں اور یہ بات ابن صلاح نے کہی ہے، شیخ الاسلام زکریا انصاری ، ابن جوزی کی اس غلطی کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(اُس سے یہ غلطی اس وجہ سے سرزد ہوئی کہ حدیث کی ایک سند میں ایسا راوی پایا گیا جس پر جھوٹ کا الزام لگایا گیا، جبکہ اُسی حدیث کی ایک دوسری بے عیب سند بھی تھی جس کی طرف ابن جوزی کی توجہ نہیں ہوئی۔)
اسی حوالے سے امام سیوطی فرماتے ہیں؛
وفی کتاب ولد الجوزی ما ۔ لیس من الموضوع حتی وھما
من الصحیح والضعیف والحسن۔ضمتہ کتابی القول الحسن
ومن غریب ما تراہ فاعلم۔ فیہ حدیث من صحیح مسلم
1، ابن جوزی کی کتاب میں ایسی احادیث بھی ہیں جو موضوع نہیں ہیں۔
2۔ صحیح ، ضعیف اور حسن احادیث کو بھی موضوع سمجھا گیا میں نے ایسی احادیث اپنی کتاب (القول الحسن) میں جمع کی ہیں۔
3، اور اس میں عجیب بات جو تمہیں نظر آئے گی وہ یہ ہے کہ اس میں صحیح مسلم کی بعض احادیث بھی ہیں۔
سیدی عبدالوہاب شعرانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا؛
(جس نے یہ کہا کہ فرشتہ فقط نبی پر اترتا ہے جبکہ ولی کو الہام ہوتا ہے تو اس نے غلط کہا، اور صحیح بات یہ ہے کہ ولی پر بھی فرشتہ اترتا ہے لیکن اُس ولی کے نبی کی اتباع میں اترتا ہے ، اور اُس ولی کو اُس کے نبی کی وہ بات سمجھاتا ہے جسے وہ ولی اپنے علم کے ذریعے نہیں سمجھ سکا تھا۔اس بات کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ کسی حدیث کو ماہرین علوم ِ حدیث نے ضعیف قرار دیا لیکن فرشتہ کسی ولی کو خبر دیتا ہے کہ وہ حدیث صحیح ہے، اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ حاتمی کے ہاں ایسی بہت سی مثالیں ہیں، انہوں نے باطنی قوت سے بہت سی احادیث کو صحیح قرار دیا اور اس وجہ سے وہ اپنے دور کے علماء کے ہاتھوں آزمائش کا شکار بھی ہوئے)۔
امام عبدالوہاب شعرانی کے اس قول کی روشنی میں ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ حضرت غوث الاعظم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیفات میں اگر ایسی احادیث لکھ بھی دی ہیں تو ہم پر انہیں موضوع قرار دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیئے ۔
فحارب الاکفاء والاُقرانا فالمرء لایحارب السلطان
اپنے برابر اور ہم پلہ لوگوں سے لڑو جھگڑو، ایک عام انسان بادشاہ سے نہیں الجھتا۔
السیف الربانی فی علق المعترض علی الغوث الجیلانی، مخطوطہ، مصنف علامہ سید محمد مکی بن سیدی مصطفیٰ عزور۔محدثِ تیونس۔