Post by Admin on Feb 19, 2017 18:23:55 GMT
امام تقی الدین سبکی لکھتے ہیں
اس تمام بحث سے مقصود موت کے بعد سننے اور ادارک کرنے وغیرہ کو ثابت کرنا تھا۔ اب اگر کوئی کہے کہ یہ تمام چیزیں زندگی کے خواص ہیں مرنے کے بعد کیسے پائی جاسکتی ہیں؟ اسکو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم بھی مرُدوں کے لیئے یہ امور ثابت نہیں کررہے بلکہ ان میں زندگی کے واپس آجانے پر ان کے لیئے یہ ثابت کررہے ہیں یعنی ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ مرنے کے بعد ان کو زندگی حاصل ہوجاتی ہے اور وہ سنتے ہیں۔ اب یا تو صرف روح زندہ ہے اور جسم مردہ ہے یا روح اور جسم دونوں زندہ ہیں۔ انسان میں دو چیزیں ہیں۔ جسم اور روح ۔ جسم جب مرجائے اور روح اسمیں نہ لوٹے تو زندگی کے امور میں سے کوئی بھی اس میں نہیں پایا جاتا یعنی نہ وہ سنتا ہے اور نہ اس میں احساس رہتا ہے البتہ اگر اس میں روح لوٹ آئے تو وہ سنتا ہے اور زندگی کے باقی امور بھی پائے جاتے ہیں ۔ نفس انسانی مرنے کے بعد باقی رہتا ہے اور اسکو علم و احساس حاصل ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے بھی جب بدر کے کنویں کے مردوں کے سننے کا انکار کیا تواس بات کا اقرار کیا کہ ان مردوں کو علم ہوا ہے۔
نفس کے باقی رہنے کے معنی اسکا دائمی بقا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام عالم کے فنا کے وقت اس کو بھی فنا فرما دینگے پھر اس کا اعادہ کریں گے۔ مقصد یہ ہے کہ نفس جسم کی موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ پھر جب فنا ہوگا تو قیامت میں زندہ کردیا جائے گا۔ اس بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ نفس کو معقولات کا ادراک ہوتا ہے۔ محسوسات مثلاً مسموع کے ادراک کے بارے میں متکلمین میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں نفس ہی براہ راست ادراک کرتا ہے، بعض کہتے ہیں حواس ادراک کرتے ہیں اور وہ نفس تک ان محسوسات کو پہنچاتے ہیں۔ ان دونوں قوتوں کے مطابق نفس مسموع کا ادراک کرتا ہے۔ بہرحال وہ سنتا ہے۔
روح کی حقیقت؛
اس بحث کو سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ روح کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے اس میں بہت سی لمبی بحثیں ہیں اور اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ روح جسم ہے یا عرض یا دونوں کا مجموعہ وہ جوہر فرد متحیز ہے یا جوہر فرد غیرمتحیز اسکے بارے میں مختلف اقوال ہیں ۔ قرآن پاک میں وارد ہوا ہے (قل الروح من امر ربی ، بنی اسرائیل ۷۵)۔ فرمادیجیئے روح میرے رب کے امر سے ہے۔
علمائے کرام اور مفسرین نےا س میں بحث کی ہے کہ ان کا سوال روحِ انسانی سے متعلق تھا یا روح بمعنیٰ فرشتہ سے؟ صحیح قول یہ ہے کہ یہ سوال روح انسانی کے بارے میں تھا۔ پھر اگر سوال روح انسانی کے بارے میں تھا تو اسکی حقیقت کے بارے میں یا اسکے حادث ہونے کے بارے میں تھا؟ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ سوال اس کے حادث ہونے کے بارے میں تھا۔ چنانچہ قرآن کا جواب اسی کو بتاتا ہے جواب میں کہا گیا ہے۔ قل الروح من امر ربی۔ یعنی فعل اللہ ہے جو کہ حادث ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سوال روح کی حقیقت کے بارے میں تھا ان میں یہ اختلاف ہے کہ جواب میں اسکی حقیقت بتائی گئی ہے یا نہیں؟ بعض کہتے ہیں حقیقت نہیں بتائی گئی اسلیئے کہ اس کی حقیقت سمجھنا انسانی عقل سے بالاتر ہے۔ علم انسانی اسقدر قلیل ہے کہ اس کا ذہن اسکی حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں اس کی حقیقت بتائی گئی ہے اور کہہ دیا گیا ہے کہ وہ امر رب ہے یعنی وہ عالم امر کی چیز ہے۔ عالم دو مانے گئے ہیں۔ یہ عالم امر ہے اور ایک عالمِ خلق ہے۔ اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
سن لو اسی کا کام ہے بنانا اور حکم فرمانا (الاعراف ۵۲)۔
عالم امر میں وہ اشیاء داخل ہیں جو کلمہء کن سے پیدا کی گئی ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے (اس کا حکم یہی ہے جب چاہے کسی چیز کو کہے اسکو ہو وہ ہوجائے)۔ (یٰسین ۷۲)۔ عالم امر اور عالم خلق کی زیادہ تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے۔
روح امر رب میں سے ہے۔ امر رب سے مراد شرع ہے تو جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ تم شرع میں داخل ہوجاؤ، کتاب و سنت پر عمل کرو روح کی حقیقت منکشف ہوجائے گی۔ جو لوگ روح کو جوہر و جسم قرار دیتے ہیں تو ان کے نزدیک لامحالہ وہ زندگی کے ساتھ متصف ہے۔ روح کو عرض کہنا تو عقل سے بعید ہے فلاسفہ روح کو جوہر مجرہ متحیر مانتے ہیں۔