Post by Admin on May 16, 2017 22:53:30 GMT
موم بتی مافیہ وِ دھریت
اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض حضرات جب دھریت کے خیالات کے حامل ہوجائیں تو ان کے پاس پرانی ماسیوں کی طرح ایک ہی چیز رہ جاتی ہے کہ ہر واقعہ کو، ہر چیز کو اسلام سے نتھی کردیا جائے تاکہ ان کے ڈائیلوژنل ریجیکشن آف گاڈ کے لیئے جواز پیدا ہوسکے۔ مثال کے طور پر، اگر کہیں پر بچوں سے زیادتی ہوگئی، یا عورتوں سے زیادتی ہوگئی یا کوئی بھی غیراخلاقی فعل واقع ہوگیا۔ جو کہ عموماً مغرب میں بھی ہوتا ہے۔ تو یہاں کے دیسی لبرل ان چیزوں کو جواز بنا کر خدا اور دین کا انکار کردیتے ہیں اور اپنی جاہلانہ روش میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مبادا اسلام اسکا ذمہ دار ہے اور یا (مذاہب) اس کے ذمہ دار ہیں۔ جبکہ یہ بات انتہائی جہل بھری اسلیئے کہی جاسکتی ہے کہ ہمیشہ پھل کا اندازہ اس کے درخت کی صحت سے لگایا جاسکتا ہے۔ جڑ اصل چیز ہے اور جڑ کی جڑ بیج ہے یعنی تخم۔ ہمارے ہاں کے دیسی دھریوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان لوگوں نے مغرب جا کر یا یہاں پر ہی مغربی نظریات کا جعلی فارم اپنا کر اسلام کو مذہب سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں یا شاید نا بھی جانتے ہوں کہ اسلام مذہب نہیں ہے بلکہ دین ہے اور دین عربی کا وہ لفظ ہے جسکے اصل معنی ہیں زندگی گزارنے کا طریقہ۔ لہٰذا دھریت کی پہلی شکست تو یہ ہے کہ اسلام مذہب ہرگز نہیں ہے۔ ہاں اسلام کے اندر چار مذاہب ضرور ہیں۔ اور وہ ایک الگ ایشو ہے اس پر پھر کبھی بات کی جاسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب دھریت اپنی جہالت میں اسلام کو مذہب سمجھ کر اپنی دھریت کا اظہار کرتی ہے تو یہی اسکی گمراہی کا ثبوت ہے کیونکہ اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو دھریت تو اسوقت بھی موجود تھی جب مذاہب موجود نہ تھے۔ وہ لوگ جو بت پرست تھے ان میں ایسے بھی تو تھے جو کہ ان بتوں سے بالاتر سمجھے جاتے تھے اور بذاتِ خود اپنے آپ کو خدا قرار دلواتے تھے اور انکی خدائی آج صدیوں بعد بھی مرکھپ کر زندہ ہے یہ بتانے کے لیئے کہ ہر جھوٹے کا یہی حشر ہوتا ہے کیونکہ اسلام یعنی (زندگی گزارنے) کا طریقہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہر ذی نفس کے لیئے موت ہے۔ کیا دھریت اسکا انکار کرسکتی ہے؟
بھئی اگر ہمارا (دین) اور تمہارے نزدیک (مذہب) معاذ اللہ درست نہیں تو پھر اسکا یہ ایک پوائنٹ ہی رد کرکے دکھا دو۔ کونسی چیز ہے جو فانی نہیں ہے اس میٹیریل کی دنیا میں؟
اب انسانوں کے بنائے گئے مذاہب کو جب دیکھا جائے تو اس میں صحیح پتہ چلتا ہے کہ یہ مذاہب بعض جگہوں پر غلط ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ یہاں پر مذاہب سے مراد وہ آئیڈیالوجی ہے جسکو دیگر مذاہب کہا جاتا ہے ناکہ (تقلیدی فکر)۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اصولی طور پر پھر اسلام کے قوانین کا جائزہ لیا جانا چاہیئے کہ ہمارا وے آف لائف ہمیں کیا تعلیمات دیتا ہے۔ اور ہم کتنا اس پر عمل کرتے ہیں یا سمجھتے ہیں۔ خدا کا انکار کرنا ایک ارِ ریشنل اپروچ ہے کیونکہ یہ ایک سائکل کے پہئے کی طرح انسان کو کسی طرف لیجانے کی بجائے انسان کو بیکار کی بحث میں الجھا دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ کیونکہ دھریت خدا کے انکار کو ثابت نہیں کرسکتی اور ہمارا وے آف لائف یعنی اسلام ان کو بار بار حوالے دیتا نہیں تھک سکتا۔ مثال کے طور پر۔ یعنی مثال کے طور پر اب اگر ٹیکسٹ بتائے کہ تخلیق کنندہ ایک بہت بڑا سولر سسٹم ہے اور ایک ہزار لائیٹ سالوں کے فاصلے پر موجود ہے اور انتہائی طاقتور ہے تو اکثر لوگ اسکو ار ریشنل کہہ دیں گے بوجہ اسکے کہ وہ جو خالق ہوتا ہے وہ کبھی بھی اپنی تخلیق میں شامل یا اسکا حصہ نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ اسکا تو پھر مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس نے اپنی تخلیق کو دنیا کی تخلیق کے مدمقابل وجود دیا۔ اور دھریت کا ہی اصو ہے کہ ہر وہ چیز جو تخلیق کی گئی ہےا س دنیا میں وہ اسکی خالق نہیں کہی جاسکتی نہ ہوسکتی ہے۔
جبکہ قرآن ہمیں تخلیق کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
قل ھو اللہ احد
کہو وہ اللہ ہے جو یکتا ہے
کوئی نہ اس سے جنا ہے اور نہ ہی وہ کسی سے
اور اسکا کوئی بھی شریک نہیں
یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ یونیک ہے اور ہمیشہ سے موجود رہا ہے اور اسی لیئے ہر چیز کا خالق اور سنبھالنے والا ہے اور خود اسکو کسی چیز کی احتیاج نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی اسکی الوہیت کو شریک ہے نا ہی اسکی کوئی نسل لیجانے والا ہے تاکہ آگے چل کر اسکی شہنشاہیت کا تاج پہن سکے اور تخلیق کے وہ عوامل کام میں لاسکے جوکہ ایک خالق کے ہوتے ہیں۔ ہمارا وے آف لائف ہمیں بتاتا ہے کہ چونکہ وہ (وہ) ہے جو کہ لیس کمثل شئی ہے۔ یعنی اس کی مثل کچھ بھی نہیں۔ جس قوت کے مقابل کچھ بھی نہ ہو وہی تو خدا کی ہستی ہے۔ یہ نظام کائنات کی ہارمونی، اسکا ایکویلیبریئم ، اسکا ڈیزائن چیخ چیخ کر اپنے ایک واحد یکتا خالق ہونے کا ثبوت بھی دیتا ہے اور یہی نہیں وہ اسلام کہ جب سائنس کا وجود ہی نہ تھا ایک اور تصدیق شدہ دلیل کے طور پر سب کو صدیوں پہلے بتاتا آرہا ہے کہ وہ احسن الخالقین ہے۔ مثال کے طور پر۔ زندہ اشیاء میں کاربن کی موجودگی بھی ایک انڈیکیٹر ہے کہ یہ ایک یونیفائید فینامنا ہے جو کہ ایک واحد یکتا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسے ہی لاتعداد اسکی الوہیت کے مظاہر موجود ہیں جس سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ خالق یقیناً موجود ہے
دوسری دلیل یہ نا صرف پرانے پیگن خیالات کی رد ہے بلکہ خود آجکل کے جدید دھریوں کا بھی رد ہے اور ثبوت ہے اس بات کہ قرآن میں جیسے کہ لکھا ہے اور میں یہاں مفہوم بیان کررہا ہوں
کہو اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اگر اسکا (اللہ کا) کوئی شریک ہوتا، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تب ان (میں سے ہرایک) خدا کے عرش کا دعویدار نہ ہوتا۔ (17:42)۔
لہٰذا یہ انسانی فطرتوں کے گناہوں یا دینِ اسلام پر نا سمجھیوں کو جواز اور بہانہ بنا کر آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ تو آپ کی اپنی زندگیوں اور اعمال کا نتیجہ ہیں۔ دین اسلام میں کہیں پر تشدد نہیں بتایا گیا۔ جہاں سختی کی گئی ہے وہ یقیناً سختی کیئے جانے کے قابل ہے۔
ایک اور مثال کہ فرض کریں یہ ایک چیونٹی ہے جسکو سائنس دماغ سے عاری کہتی ہے۔ مگر وہی سائنس اپنی نیشنل جیوگرافی میں اسی چیونٹیوں کے نظامِ حیات پر حیرت انگیز ڈاکومنٹریز نشر کرکے دھریت سے کروڑوں کماتی ہے۔ اور جواب میں علم کی بجائے فقط سائنسی معلومات دیتی ہے جو کہ ناکافی چیز ہے۔ سائنس یہ تو بتاتی ہے کہ فلاں رنگ کلر کی چیونٹیاں کسی اور طرح کی زندگی گزارتی ہیں۔ کچھ گروہوں میں رہتی ہیں تو کچھ ایک دوسرے کو کھانے پر زندہ ہیں اور لاتعداد اقسام ایسی ہیں جنکا آج تک سائنس کے پاس کوئی ریشنل جواب نہیں کہ اگر کوئی خالق کوئی بنانے والا نہیں ہے توپھر انکا ایک مکمل مربوط نظام حیات خود بہ خود صدیوں سے ایک جیسا کیوں چلا آرہا ہے؟
اسلیئے ارریشنل اپروچ کو چھوڑیں اور انسانوں کی گناہوں کو جواز بنا کر اس امتحان گاہ میں چند دن کے مسافر ہوکر اور موت کو ایک دن گلے لگانے والی فانی مخلوق کا یہ حق نہیں کہ اپنی فنائیت کے بودے وقت محدود ذہنیت کو عقل کل سمجھ کر خالق کا ہی انکار کردیا جائے۔۔ آپ اپنی زندگی میں کیا جانے والا آپ پر آپ جیسے دیگر انسانوں کا ظلم دکھا کر خالق پر انگلی اسلیئے فقط اٹھا سکتے ہیں کہ وہ سب سے نزدیک آپ کو پڑتا ہے یعنی (شہہ رگ سے بھی زیادہ)۔ آپ کا اسکا انکار کرنا بھی اصل میں اسکی وحدانیت کا اقرار کرنا ہے۔ کیونکہ انکار کا مدمقابل اقرار ہوتا ہے۔ اور آپ کی ہی سائنس کہتی ہے ایوری ایکشن ہیز ایکول اینڈ آپوزیٹ ری ایکشن۔ یعنی ہر عمل کے لیئے رد عمل ہے۔ تو جب آپ کا انکار ہے تو اس انکار کا رد بھی اقرار ہے۔ اپنی پر یا دیگر پر کیئے گئے اپنے جیسے انسانوں کے جرائم کو خدا پر مت تھوپو۔ بلکہ غیرت مندوں کی طرح مانو کہ آپ کی ذہنی استعداد چیپ ہے اسلیئے آپ کو الزام دھر کر اپنی سائیکولوجی کی تسکین کرنے کے لیئے سب سے نزدیک الوہیت ہی پڑتی ہے لہٰذا بے شرمی کے ساتھ اسکا ایر ریشنل استعمال کرتے ہو بجائے اسکے کہ زندگی کے رستے یعنی اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرو۔
وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی اپنی پوری انسانی زندگی تم جیسے ہی انسانوں کی حیوانیت کا بار بار شکار رہی۔ ان پر زیادتیاں کی گئیں۔ پتھر مارے گئے، ملک بدر کیا گیا۔ مگر ان کا عمل دینِ اسلام کا وہ اصل معنوی رستہ بتاتا ہے کہ جسکو ہم اسوہ حسنہ کہتے ہیں۔ وہ تم اور ہم جیسے جہلاء کے لیئے روشنی اور رہنمائی کی حقیقی کرن ہے۔ کہ ہم کمزور انسانوں کا اس امتحان گاہ میں کیسا عمل رہنا چاہیے۔ اب وہ الگ الگ بات ہے کہ جیسے ہر پودے کے مختلف روپ ہیں ویسے ہی چونکہ انسانی مٹی بھی مختلف پرتوں سے اٹھائی گئی تھی تو ہمارے بھی مختلف روپ ہیں۔ کوئی زیادہ نیک ہے، کوئی کم نیک ہے۔ کوئی برا ہے، تو کوئی بہت ہی برا۔ کوئی ظالم ہے تو کوئی خود کی خدائی کا دعویٰ کرنے والا۔ لیکن یہ سب بک بک بڑھاپے کی دہلیز پر آکر جب موت کے دستک کی ان دھریوں کو ہی حرکت محسوس ہوجاتی ہے تو پھر توبہ کرتے پھرتے ہیں۔ کیونکہ تمہاری تمام سائنس اسکے قابل نہیں کہ تمہاری زندگی کو فانی سے لافانی کردے۔ اگر تم لافانی ہو تو پھر ریشنل اپروچ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمہیں حق ہوگا کہ تم کسی لافانی چیز پر اپنے خیالات کو فورس کرسکتے ہو۔ مگر جب تمہاری پیدائش ایک گندے پانی کے قطرے سے زیادہ نہیں اور جب تمہارا یہ مادی جسم ایک بدبودار گلی سڑی لاش سے کم نہیں تو پھر اتنی بے ثبات چیز پر اکڑنا کچھ مناسب نہیں لگتا بلکہ آپ کے ہی سائنس کے اصول کے مطابق اسکو تبخیر کا عمل کہتے ہیں۔ شکریہ
والسلام