Post by Admin on May 10, 2018 18:00:45 GMT
معرفت ِ رب از قول من عرفہ نفسہ فقد عرف ربہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، صلو علی حبیبہ محمد، آلہٖ واصحابہٖ وبارک وسلم ۔۔ اما بعد
خالق کائنات نے چونکہ فکر و تدبر ِ انسانی کو بے پایاں فہم و فراست سے بھی نوازا ہے اسی لیئے اکثر وہ دماغ جو ابھی اپنے سفر کے ابتدائی لمحات میں ہوتے ہیں اسلیئے لاتعداد قسم کے افکار کی یورشیں ہوتی رہتی ہیں کہ جس کی بنا پر ان کا اپنے رب کی معرفت سے رشتہ جڑا نہ ہونے کے باعث اور مادہ پرستی کی وبا میں مبتلا ہوئے رہنے کے باعث یا بوجوہاتِ متعددہ دیگرے ان کے اذھان میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، حتی کہ انسانی ذہن جو کو “ہے ” اور “نہیں ہے” کی ازلی الجھن میں مبتلا کردینے کے ذرائع بے شمار ہوتے ہیں لہذا اذھان علم کی عمل کی اور رہنمائی کی کمی کے باعث عمومی طور پر گمراہی کی طرف روبہ زوال ہوجاتے ہیں حالانکہ اس سٹیج پر پہلی سیڑھی کا ادراک ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ایمان کو سمجھ کر تکمیل کرنے کی سخت دشوار راہ کا بھی ساتھ ہی آغاز بھی ہوجاتا ہے۔ ایسے اذھان اکثر مختلف پریشانیوں اور تفکر کی عمیق گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر اپنے اپنے نفوس کے ساتھ پہلا “معرکہ بدر” انجام دینے میں لگ جاتےہیں۔ نفوس کے حاوی ہونے کی صورت میں کہیں پر “دھریت” تو کہیں پر”غیرمطمئن” ہوکر شکوک میں مبتلا ہوجاتے ہیں، یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ شعور کی بے ساختگیوں میں جب خیالات کی رو شامل ہوتی ہے تو نفوس یا شیطانیت یا وجدانیت بھی اپنی اپنی جبلتوں کے تحت اثر ڈال کر ایک مومن کا بھی ایمان آزماتے ہیں۔ اور ہم چاہیں مانیں یا نہ مانیں کہ سب سے بڑی جنگ اور سب سے عظیم جہاد دراصل خود ہی سے ہوتا ہے۔
لیکن چونکہ آدم کی اولاد کے خصائل اور اثرات ایک دوسرے سے مختلف ہیں (مٹی کی مختلف النوع کیفیتوں کی وجہ سے) لہٰذا ہر ایک کا اپنا اپنا مدار ہے اور اس مدار کے ہی ازلی دائرے میں وہ اپنی اپنی کہانی جسے ہم (زندگی) کا نام دیتے ہیں اس میں گھومتا رہتا ہے، چونکہ یہ مختصر وقت ہوتا ہے اور اس مختصر زندگی میں ہرچیز کا جواب پالینا ہرگز بھی ممکن نہیں لہذا کچھ اذھان علم کی تحقیق اور حقیقت سے دوری کے باعث اس مرحلے کو “کراس” نہیں کرپاتے اور ایسے مرحلے میں ان کا وجدان انہیں یا انکار کی طرف لیجاتا ہے اور یا اقرار و سکینۃ القلوب کی طرف مائل کردیتا ہے۔
ان سوالات کے جوابات صرف بھرپور عمل اور گداذ قلب ہی سے پیدا ہوسکتے ہیں جو کہ روح اسلام یعنی تصوف سکھاتی ہے۔ روحانی بالیدگی کی یہ مختصر زندگی یا لمحے اگر اساتذہ کرام کی نگرانی میں یعنی ایکسپرٹ کی نگرانی میں طے ہوجائیں تو کم وقت اور زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے اور اگر بدیں طور بنا استاد کے انسان لگا رہے تو کافی مشکل ہوتا ہے۔ جہاں تک مادے کی اس دنیا کا تعلق ہے تو یہ قابل غور نقطہ ہے کہ مادہ بذاتِ خود بھی عدم سے وجود میں لایا گیا ہے۔ ایسے مواقع جہاں پر ایک ایمان والا اپنی شعوراور پہلی سیڑھی کے احکامات پر ایمانداری سے حتی الامکان گامزن ہوتا ہے اس کو شدید مصائب میں یہ جوابات جو اسکا ذہن کثیف و لطیف خیالات کی صورت میں ہرلمحہ سوالات کی شکل میں پیش کرتا ہے، اسکے لیئے کافی ہوجاتےہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ درحقیقت خود کو فنا کر کے جوابات حاصل کیئے جائیں۔ یہی اسلام کی راہ پر چلنے والوں کی اس عارضی لمحاتی وقفے میں شمولیت اور اپنا اپنا “پارٹ آف دی گیم” میں حصہ ڈالنے کا مطلب ہے۔ کہانیاں جدا جدا ، چہرے جدا جدا لیکن اصل سب کی ایک۔ تصوف کو سمجھنے سے دراصل اُن باطل خیالات کا قلع قمع ہوجاتا ہے کہ جو باطنی طور پر تکالیف ، پریشانیوں، مصیبتوں، راحتوں ، خوشیوں، تنہائیوں، محفلوں میں اچھے یا برے ردعمل کے ساتھ اذھان پر ابھر کر ان پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی فرعون بنتا ہے تو کسی کو معرفت حاصل ہوکر (انا الحق) کی صدا بن کر اسکی کلفتوں کا خاتمہ کردیتا ہے۔ ذیل میں ایک ایسے ہی انداز میں چند اہم سوالات کی طرف اشارۃ جواب پیش کیا جارہا ہے تمام تر حوالوں کے ساتھ کہ جس سے بہت سے اچھے برے ابھرنے والے خیالات کے جوابات میسر آسکتے ہیں لیکن شرط وہی ہے کہ ہمہ جہت، ہمہ قلب ویقین، صدائے یزداں در گوش ء ہمت آفریں۔
تصوف کی اصطلاح میں اکثر ایک جملہ سننے کو ملتا ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ تو یہ جملہ اپنے اندر کیا کیا وسعتیں رکھتا ہے آئیں اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یہ یاد رہے کہ یہ صرف ان حضرات کی ہی سمجھ میں آئے گا جو حقیقتاً سمجھنا چاہتے ہیں۔اور اسی لیئے اکثر علمائے تصوف ایسے استعاروں میں بیان کیا کرتے تھے کہ جس سے ہر شخص استطاعتِ خودش کے تحت اپنے اپنے درجے پر بات کو آسانی سے سمجھ لے۔
علامہ اسماعیل حقی (رح) نے اپنی معرکۃ الاۤرا تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت علی (رض) نے فرمایا
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
از روح البیان ج 6 ص 419 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت:
عرف عام میں یہ ققول بطور حدیث کے مشہور ہے آیا یہ حدیث ہے یا نہیں؟
علامہ شمس الدین سخاوی (رح) اس قول کے متعلق لکھتے ہیں
یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہے۔ یہ یحییٰ بن معاذ الرازی کا قول ہے، علامہ نووی نے کہا یہ ثابت نہیں ہے اس کی تاویل میں یہ کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے نفس کے حادث ہونے کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کے قدیم ہونے کو پہچان لیا اور جس نے اپنے نفس کے فانی ہونے کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کے باقی ہونے کو پہچان لیا۔
از؛ مقاصد حسنہ ص 416 رقم الحدیث 1149، دارالکتب العلمیۃ لبنان
حافظ جلال الدین سیوطی (رح) اس کے متعلق فرماتے ہیں۔
علامہ نووی (رح) نے کہا یہ غیر ثابت ہے ، ابن السمعانی نے کہا یہ یحییٰ بن معاذ الرازی کے کلام سے ہے۔
از۔ الدرر المنتشرہ۔ ص 285، ح، 420 دارالفکر بیروت
مخطوط نمبر 2
علامہ محمد طاہر بن علی پٹنی لکھتے ہیں؛
علامہ نووی نے کہا ہے کہ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ثابت نہیں ہے، ابن تیمیہ نے کہا یہ موضوع ہے، اور یہ اسی طرح ہے جس طرح اس نے کہا ہے، مقاصد میں مذکور ہے یہ حدیث مرفوع نہیں ہے، یہ یحییٰ بن معاذ کا قول ہے۔
از۔ تذکرۃ الموضوعات ص 11، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی
ملا علی بن سلطان محمد القاری الحنفی (رح) فرماتے ہیں؛
ابن تیمیہ نے کہا یہ موضوع ہے ، السمعانی نے کہا یہ حدیث مرفوع نہیں ہے، اس کے متعلق حکایت کی جاتی ہے کہ یہ یحییٰ بن معاذ رازی کا قول ہے۔ علامہ نوویؒ نے کہا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، ورنہ اس کا معنی ثابت ہے ، اس کا معنی یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کے جہل کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کے علم کو پہچان لیا، اور جس نے اپنے نفس کی فنا کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی بقا کو پہچان لیا، اور جس نے اپنے نفس کے ضعف اور عجز کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی قوت اور قدرت کو پہچان لیا۔
از۔ الاسرار المرفوعۃ ص 238۔ ح 937 دارالباز مکہ مکرمہ
علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی (رح) فرماتے ہیں؛
ابنن تیمیہ نے کہا یہ موضوع ہے اور اس سے پہلے علامہ نووی (رح) نے کہا یہ ثابت نہیں ہے، ابوالمظفر بن السمعانی نے القواطع میں ہا یہ حدیث مرفوع نہیں ہے، اس قول کو یحییٰ بن معاذ الرازی سے نقل کیا جاتا ہے، ابن الفرس نے علامہ نووی کا قول نقل کرنے کے بعد لکھا لیکن صوفیہ کی کتابیں اس قول سے بھری ہوئی ہیں وہ اس کو بہ طور حدیث لکھتے ہیں جیسے شیخ محی الدین بن عربی (رح) وغیرہ اور ہمارے شیخ حجازی جو الجامع الصغیر کے شارح ہیں، انہوں نے کہا شیخ محی الدین بن عربی کا بھی حفاظ میں شمار کیا جاتا ہے، اور بعض اصحاب نے ذکر کیا ہے کہ شیخ محی الدین ابن عربی نے کہا ہے کہ یہ حدیث ہرچند کہ بہ طریق روایت ثابت نہیں ہے لیکن ہمارے نزدیک بہ طریق کشف یہ حدیث صحیح ہے، علامہ سیوطی نے اس پر ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام القول الاشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ اور علامہ ماوردی کی کتاب اد ب الدین والدنیا میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنے رب کو پہچاننے والا کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ اپنے نفس کو پہچاننے والا ہے۔
از۔ کشف الخفا ومزیل الالباس ج 2 ص 262 حدیث 2532 مکتبۃ الغزالی دمشق
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کے معنی اور محامل
علامہ العجلونی نے حافظ سیوطی کے جس رسالہ کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے:۔
علامہ نووی اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کے ضعف اور اللہ کی طرف محتاج ہونے کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی قوت، ربوبیت، کمال مطلق اور صفات علیہ کو پہچان لیا۔ شیخ تاج الدین نے لطائف المنن میں کہا کہ شیخ ابوالعباس المرسی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں دو تاویلیں ہیں (1) جس شخص نے اپنے نفس کی ذلت، عجز اور افتقار کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی عزت، قدرت اور غنا کو پہچان لیا پس پہلے اپنے نفس کی معرفت ہوگی پھر اپنے رب کی معرفت ہوگی۔ (2) جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا تو یہ اسکی دلیل ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچان چکا ہے، پس پہلا سالکین کا حال ہے اور دوسرا مجذوبین کا حال ہے۔ ابوطالب مکی نے قوت القلوب میں کہا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جب تم نے مخلوق کے ساتھ معاملات میں اپنے نفس کی صفات کو پہچان لیا کہ تم اس کو ناپسند کرتے ہو کہ تمہارے افعال پر اعتراض کیا جائے اور تمہارے کاموں کی مذمت کی جائے تو تم بھی اللہ کی قضا اور قدر پر اعتراض نہ کرو اور تقدیرپر راضی ہوجاؤ اور اللہ کے ساتھ وہی معاملہ کرو جس کو تم اپنے لیئے پسند کرتے ہو۔
شیخ عزالدین نے کہا مجھ پر اس حدیث کا راز ظاہر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ نے اس روح لطیف کو اس جسم لطیف میں رکھا ہے، اور اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی ربانیت پر کئی وجہ سے دلائل ہیں؛
۱۔ یہ ہیکل انسانی ایک مدبر اور محرک کا محتاج ہے اور اس کا مدبر اور محرک اس کی روح ہے، اس سے ہم نے جان لیا کہ اس جہان کا بھی مدبر اور محرک ہونا ضروری ہے۔
۲۔ جب اس ہیکل انسانی کا مدبر واحد ہے اور وہ اس کی روح ہے تو ہم نے جان لیا کہ اس جہان کا مدبر بھی واحد ہے: جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔
لوٌکان فیھما اٰلھۃ الا اللہ لفسدتا۔ (الانبیا ۲۲)
اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا عبادت کے مستحق ہوتے تو آسمان اور زمین کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔
کل لو کان معہ اٰلھۃ کما یقولون اذًا لا بتغوا الیٰ ذی العرش سبیلاً (بنی اسرائیل ۴۲)۔
آپ کہیئے اگر اللہ کے ساتھ اور بھی عبادت کے مستحق ہوتے جیسا کہ یہ کہتےہیں تو وہ اب تک ضرور مالک عرش کی راہ ڈھونڈ چکے ہوتے۔
المومنون : ۹۱ میں فرمایا (ترجمہ)؛
اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا، نہ اس کے ساتھ کوئی اور عبادت کا مستحق ہے، ورنہ ہرمعبود اپنی مخلوق کو الگ کرلیتا اور ہرمعبود دوسرے پر غالب ہونے کی کوشش کرتا اللہ ان اوصاف سے پاک ہے جو یہ اس کے لیئے بیان کرتے ہیں۔
۳۔ جبکہ یہ جسم صرف روح کے ارادہ اور اسکی تحریک سے حرکت کرتا ہے تو ہم نے جان لیا کہ اس جہان کا بھی کوئی محرک ہے جس کے ارادہ اور اس کی قضا اور اس کی تقدیر سے اس جہان کا نظام چل رہا ہے۔
۴۔ جبکہ اس جسم کی کوئی چیز روح کے علم اور اسکے شعور کے بغیر حرکت نہیں کرتی تو ہم نے جان لیا کہ اس جہان کی ہرحرکت کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اور کوئی چیز اس کے علم
سے باہر نہیں ہے خواہ وہ چیز زمین میں ہو یا آسمان میں۔
سے باہر نہیں ہے خواہ وہ چیز زمین میں ہو یا آسمان میں۔
۵۔ جبکہ روح جسم کے سب سے زیادہ قریب ہے تو ہم نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ بھی اس جہان کے سب سے زیادہ قریب ہے۔
۶۔ روح اس جسم کے موجود ہونے سے پہلے تھی اور اس جسم کے معدوم ہونے کے بعد بھی رہے گی تو ہم نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ اس جہان کو پیدا کرنے سے پہلے بھی تھا اور اس
جہان کے فنا ہونے کے بعد بھی رہے گا
جہان کے فنا ہونے کے بعد بھی رہے گا
۷۔ رح اس جسم میں کس کیفیت میں ہے اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کیفیت سے پاک اور برتر اور منزہ ہے۔
۸۔ روح جسم میں ہرجگہ موجود ہے ، لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ جسم میں کس جگہ ہے اور کس کیفیت میں ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اس جہان میں ہرجگہ موجود ہے لیکن وہ زمان و مکان اور کیفیت سے منزہ ہے۔
۹۔ جس طرح روح جسم میں ہے لیکن وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی اور نہ اس کی کوئی مثال اور صورت ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ اس جہان میں ہے لیکن آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور نہ اسکی کوئی مثال اور صورت ہے۔
۱۰۔ جبکہ جسم میں روح ہے لیکن اس کا حواس خمسہ سے ادراک نہیں ہوتا اسی طرح اللہ تعالیٰ اس جہان میں ہے لیکن اس کا حواس خمسہ سے ادراک نہیں ہوتا۔
یہی معنی اس حدیث کا ہے جس نے اپنے نفس کو ان وجوہ سے پہچان لیا اس نے ان وجوہ سے اپنے رب کو پہچان لیا۔
اس حدیث کی تفسیر ایک اور طریقہ سے بھی ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کی صفات کو پہچان لیا تو وہ جان لے گا کہ اس کے رب کی صفات اس کی صفات کے برعکس ہیں، مثلاً جس نے جان لیا کہ اس کا نفس فانی ہے تو وہ جان لے گا کہ اس کا رب باقی ہے، اور جس نے جان لیا کہ اس کا نفس جفا کرنے والا اور خطا کرنے ولا ہے تو وہ جان لے گا کہ اس کا رب وفا کرنے والا اور عطا کرنے والا ہے، اور جس طرح کوئی شخص اپنے نفس (روح) کی حقیقت کو نہیں جان سکتا اسی طرح وہ اپنے رب کی حقیقت کو نہیں جان سکتا گویا اس حدیث میں ایک محال کو دوسرے محال پر معلق کیا ہے پس وہ روح جو تمہارے جسم کے اندر ہے جب تم اس کی حقیقت کو نہیں جان سکتے تو اپنے رب کی حقیقت کو کیسے جان سکتے ہو۔
علامہ قونوی نے شرح التعرف میں اس کو مزید وضاحت سے لکھا ہے کہ اس حدیث میں محال کو محال پر معلق کیا ہے کیونکہ روح کی حقیقت کی معرفت محال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے قل الروح من امر ربی (بنی اسرائیل ۸۵) آپ کہیئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے۔ علما نے روح کی تعریف میں ستر سے زیادہ اقوال ذکر کیئے ہیں اور کسی ایک تعریف پر ان کا اتفاق نہیں ہے تو اس حدیث میں اس پر تنبیہہ کی ہے کہ جب تم روح کی حقیقت کا ادراک کرنے سے عاجز ہو جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور وہ تمہارے سب سے زیادہ قریب ہے تو پھر تم خالق کی حقیقت کا ادراک کیسے کرسکتے ہو، سو اسلیئے فرمایا جس نے اپنے نفس کی حقیقت کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی حقیقت کو پہچان لیا۔ یعنی جس طرح اپنے نفس کی حقیقت کو پہچاننا محال ہے اسی طرح اپنے رب کی حقیقت کو پہچاننا محال ہے۔