Post by Admin on Apr 17, 2015 9:53:05 GMT
This is Urdu Translation of the Arabic Book of Sheikh Sulaiman bin Abdul-Wahhab-Najadi al Tamimi al Hanbali who was Elder brother of most un-famous Muhammad Ibn Abdul-Wahhab Najdi (Founder of Wahhabism/Salafism/Ahlehadithsm etc)Refuting his own brother's un-Islamic Ways of Fitna.
URDU TARJUMA:
Unicode:
URDU TARJUMA:
Unicode:
پاکستان میں موجود (وہابی فتنہ، جو خود کو سلفی بھی کہتے ہیں) اور ساتھ ساتھ اُن کی تخلیق (یعنی دیوبند) کے لیئے اُن کے ہی گھر سے تحفہ۔یہاں جو ترجمہ پیش کیا جارہا ہے وہ شیخ سلیمان بن شیخ عبدالوہاب بن سلیمان ابن علی بن احمد بن راشد بن یزید بن مشرف النجدی الحنبلی (متوفی ، 1210ھ ) کی مشہور ِ زمانہ کتاب، جس کو وہابیوں نے بڑے عرصے عرب میں دبائے رکھا، سے پیش کیا جارہا ہے۔ اس کتاب کا نام ہے، ( الصوائق الالھیۃ فی الرد علی الوھابیۃ ) ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہورہا ہے کہ شیخ سلیمان نے یہ کتا ب اپنے ہی سگے بھائی کے باطل اور گمراہ تکفیری خیالات کے رد کے طور پر تحریر کی ۔ اسی وجہ سے ابن وہاب نجدی نے ان کو قتل بھی کروانے کی سازش کی، اور بعد میں اس میں کامیاب ہوگیا۔ وہابی لوگ، اس معاملے پر ایک ڈینگ مارتے ہیں کہ شیخ سلیمان نے وقت ِ وفات سے پہلے ابن وہاب کے عقیدے کو تسلیم کرلیا تھا۔ لیکن جب اُن کو کہیں کہ اسکا ثبوت پیش کریں۔ تو کوئی بھی مدلل ثبوت نہیں پیش کرسکتے۔ پاکستا ن میں موجود فرقہ باطلہ یعنی (وہابی/ دیوبندی/ سلفی/اہلحدیث) جتنے بھی نام ہیں۔یہ اُن کے لیئے واقعی ایک خود کے گھر سے پیش ِ خدمت تحفہ ہے۔ چلو ہم تو اہلسنت ہیں بریلوی ہیں قادری ہیں چشتی ہیں تو اس لیے ہماری بات قابلِ غور نہیں لیکن یہ تو تمہارے گھر کابھیدی ہے اور لنکا ڈھا چکا ہے۔اس کتاب میں ہرموضوع پر شیخ نے محمد بن ابن وہاب نجدی کا بھرپور الفاظ میں دلائل کے ساتھ رد کیا ہے اور مختلف فصل کی صورت میں کتاب لکھی ہے۔ ہر ہر موضوع پر۔ اس کا جواب ابن وہاب اپنی زندگی میں تو کبھی نہ دے سکا، اور آج تک یہی وطیرہ اُس کی آل واولاد کا بھی ہے۔ اس لیئے تکفیری حضرات اس تحفہ کو دل پر ہاتھ رکھ کر پڑھیں۔
(فصل،ترجمہ)
"(تکفیر ِ مسلمین پر)؛" جبکہ تم نے گزشتہ باتوں کوجان لیا ، تو اب تمہارا اُن لوگوں کو کافر کہنا جنہوں نے اسکی شہادت دی کہ اللہ واحد کے سواء کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اُسکے بندے اور رسول ہیں ، نماز قائم کرتے ، زکوٰۃ دیتے ، رمضان کے روزے رکھتے ، بیت اللہ کا حج کرتے، اور اللہ تعالیٰ اور اُسکے فرشتوں ، کتابوں اور رسولوں کے ساتھ ایمان رکھتے ہوئے اسلام کے تمام شعائر کے پابند ہیں، تم اُنکو کفار گردانتے ہو۔اور اُنکے شہروں کو دارالحرب کہتے ہو۔ تو ہم تم سے پوچھتے ہیں کہ اس میں تمہارا امام کون ہے اور کس سےتم نے اپنا یہ مذہب حاصل کیا ہے؟ اس پر اگر تم یہ کہو کہ ہم انہیں کافر کہتے ہیں اسلئے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کےساتھ شرک کیا ہے، اور انہی لوگوں میں سے ہیں جو مشرک ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک کرے کیا وہ کافر نہیں ہوتا؟ ۔ اس لیئے کہ حق سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ (ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ الآیہ) "بلاشبہ جو شرک کے اسے اللہ نہیں بخشتا۔" اور اسی معنی کی اور بھی آیات ہیں۔ اور بلاشبہ اہل علم نے مکفرات میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کو بھی شمار کیا ہے۔ تو ہم اسکے جواب میں کہیں گے کہ آیتیں بھی حق ہیں، اور اہل علم کا کلام بھی حق ہے، لیکن اہل علم (اشرک باللہ) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک گرداننے کا اعادہ بھی کرے، جسطرح مشرکین کہتے ہیں کہ (ھٰئولآءِ شرکائنا) "یہ اصنام ہمارے خدا کے شریک ہیں"۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وما تریٰ معکم شُفعآءُکم الذین زعمتم انھم فیکم شرکآءُ) "اور کیا بات ہے کہ ہم تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جنکو تم گمان کرتے تھے کہ یہ تمہارے شریک ہیں "۔ (واذا قیل لھم لآاِلہ الااللہ یستکبرون اجعلُواالاٰلِھہ اِلٰہ واحدًا)۔ "اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، تو تکبر کرتے ہیں، اور ایک خدا کے سوا بہت سے خدا بنالیتے ہیں۔" اور اسکے سوا وہ تمام باتیں قرآن کریم اور سنت نبی کریم اور اہل علم کی کتابوں میں مذکور ہیں ، لیکن یہ تفاصیل تو انکے لیئے ہیں جوتم سے جدا ہوکر ایسا کرےاور وہ شرک ہو، اور اسلام سے اپنے آپ کونکال لے۔لیکن وہ تفصیل جس کا تم استنباط کرتےہو، اور جو مفہوم تم بتاتے ہو، وہ تمہیں کہاں سے معلوم ہوئیں۔ بلاشبہ تم سے پہلے ساری اُمت میں سے کوئی ایسا نہ گزرا جس نے تمہاری استنباط کو جائز رکھا ہو۔ کیا تمہارے اس لیئے اس بارے میں اجماع کی رہنمائی ہے؟ یا ایسی کوئی تقلید ہے جسکی تقلید جائز ہو؟ ۔ اس کے باوجود کسی مقلد کے لیئے یہ جائز نہیں ہے کہ اگر اجماع اُمت نہ ملے تو اسکے متبوع کے قول پر کافر کہدے۔ لہٰذا تم واضح کرو کہ تم نے اپنا یہ مذہب کہاں سے حاصل کیاہے؟ تمہارا ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ عہد ومیثاق ہے کہ اگر تم نے ہم پر اپنا حق ہونا واضح کردیا، تو اُسکی طرف رجوع ہونا واجب ہوگا، اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم حق کا ضرور اتباع کریں گے۔ اب اگر تمہارے مفہوم کی مراد وہی ہے جو گزری، تو نہ ہمارے اور نہ تمہارے لیئے ،بلکہ یہ ہر اس شخص کے لیئے جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے جائز ہےکہ اسے اخذ کرے۔اسکے باوجود ہم اس اسلام کی جسکے لائے ہوئے پراُمت کا اجماع ہے تکفیر نہیں کرتے۔لہٰذا وہ مسلم ہے۔ اب رہی شرک کی بات! تو اُس اسلام میں خواہ شرکِ اکبر ہو، یا شرک اصغر ۔ اور اس میں کبیر ہو، یا اکبر۔ خواہ اس میں وہ ہو جس سے اسلام سے نکل جائے ، خواہ اس میں وہ نہ ہو جس سے اسلام سے نہ نکلے، یہ اسلام کل کا کُل اجماع سے ہے۔ اب رہی یہ تفصیل کہ کونسی بات اسلام سے نکالتی ہے، اور کونسی بات اسلام سے نہیں نکالتی، تو اس میں اُن ائمہ کرام اہل اسلام کے بیان کی احتیاج ہے جن میں اجتہاد کی تمام شرطیں مجتمع ہیں۔ اب اگر وہ کسی ایسے امر پر اجماع کریں، جس سے نکلنے کی کسی کو گنجائش نہ ہو، یا وہ اختلاف کریں، تو اس امر میں گنجائش ہوتی ہے۔ اب اگر تمہارے پاس اہل علم کا واضح بیان ہے، تو ہم پر واضح کرو، ہم سنیں گے،اور اطاعت کریں گے۔ورنہ ہم پر اور تم پراصل مجمع علیہ سے اخذ، اور سبیلِ مومنین کا اتباع واجب ہے۔
اور تم اللہ عزوجل کے اس ارشاد سے بھی حجت پکرتے ہو، ارشاد باری ہے:۔ترجمہ :" اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل ضائع ہوجائینگے"۔ اور انبیاء کے بارے میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (نوٹ: یہ بطور تعلیق بالمحال فرمایا گیا ہے،اسلیے کہ تمام ابنیاء علیہم السلام کا صغائر وکبائر سے معصوم ہونا اجماعی مسئلہ ہے)۔کہ"اور اگر انہوں نے شرک کیا ، تو یقیناً وہ جو عمل کرتے تھے ضائع گئے۔" اور ارشاد باری ہے کہ ،ترجمہ:"اللہ تمہیں حکم نہیں دیتا کہ فرشتوں اور نبیوں کو ارباب بناؤ"۔
جواب میں ہم کہیں گے کہ یہ سب حق ہےاور ان پر ایمان رکھنا واجب ہے، لیکن تمہارے لیئے یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ وہ مُسلمان جو (لاالٰہ الاللہ محمد رسول اللہ) کی شہادت دے، جب وہ غائب یا مردہ کو پکارے، یا اسکے نذر نیاز دے، یا غیراللہ کے لیئے ذبح کرے،یا اُسکی مٹی لے، تویہ ایسا ہی شرک اکبر ہوتا ہے، جسکے کرنے سے اُسکے عمل اکارت ہوں، اور اسکا مال ،ا ور خود بہانا حلال بنادے، اور یہ وہی مراد ہے جسے اللہ سبحانہ نے اِن آیتوں میں ، یا انکی مثال دوسری آیتوں میں یہ بیان فرمایاہے؟
اب اگر تم یہ کہو کہ کتاب وسنت سے ہم نے یہی سمجھا ہے ، تو ہم کہیں گے کہ تمہارے مفہوم کو کیا اعتبار! یہ تو نہ تمہارے لئے جائز ، اور نہ کسی مسلمان کےلیئے جائز کہ تمہارے مفہوم کو اخذ کرے۔ اس لئے کہ ساری اُمت کا اس پر اجماع ہے، جیسا کہ گزرا کہ استنباط مطلقاً اہل اجتہاد پر مرتب ہوتا ہے۔ اسکے باوجود اگر کسی شخص میں شروط اجتہاد جمع ہوبھی جائیں تب بھی کسی پر یہ واجب نہیں کہ اُسکی بات کو بغیر غوروفکر کے مان لے۔ شیخ تقی الدین (نوٹ:ابن تیمیہ) فرماتے ہیںکہ کسی شخص نے کسی امام کی ذات کو ہی واجب الاطاعت بنا لیا بغیر غور کیئے تو اس سے توبہ کرائی جائے، پھر اگر وہ توبہ کرلے، تو بہتر ، ورنہ قتل کردیا جائے۔انتہیٰ۔
اب اگر تم یہ کہو کہ یہ بات ہم نے بعض اہل علم سے لی ہے، جیسے ابن تیمیہ اور ابن قیم ، کیونکہ انہوں نے اس کا نام (شرک) رکھا ہے، تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ درایت ہے، اور ان بڑوں کے ماننے پر ہم تمہاری موافقت بھی کریں گے کہ انہوں نے اسے شرک کہا ، لیکن وہ ایسا نہیں کہتے ، جیسا کہ تم کہتے ہو۔ تم تو کہتے ہوکہ یہ ایسا شرک اکبر ہے جو اسلام سے نکال دیتا ہے، اور جن شہروں میں وہ رہتے ہیں اُن پر مرتدین کے احکام جاری ہوتے ہیں۔ بلکہ تمہارے نزدیک تو جو انکی تکفیر نہ کرے وہ بھی کافر ہے، اور اسکے اوپر مرتدین کےا حکام جاری ہوتے ہیں، لیکن تمہارے ان اکابر نے انہیں بیان کرکے کہا کہ یہ شرک ہے، اور اس پر انہوں نے (شدت) بھی کی اور اس سے باز رہنے کی ممانعت کی، لیکن جو کچھ تم کہتے ہو، اسکا دسواں حصہ بھی انہوں نے نہیں کہا۔ تم تو اُنکے قول سے وہ بات لیتے ہو، جو تمہارے سواء کسی کے لیئے بھی جائز نہیں ہے، بلکہ ان کے کلام سے صرف اتنا مترشح ہوتا ہے کہ یہ تمام افعال ایسے شرک اصغر ہیں کہ بعض تقدیروں پر بعض افراد پر انکے حال وقال اور نیت وفہم کےاعتبار سے (شرک اکبر) بھی ہوسکتا ہے۔ پھر یہ کہ خود انہوں نے ہی بعض مقامات پر اپنے کلام میں ذکر کیا ہےکہ اس سے اس وقت تک کافر نہیں ہوتا، جب تک کہ دلائل سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس کا تارک کافر ہوجاتاہے، جیسا کہ آئندہ انکے کلام میں مفصل بیان ہوگا انشاء اللہ۔ لیکن تم سے صرف اتنا ہی مطالبہ ہے کہ تم اہل علم کے کلام کی طرف رجوع ہو، اور جو حدیں اُنہوں نے مقرر فرمائی ہیں، اُن حدود پر قائم رہو، اور تجاوز نہ کرو۔بلاشبہ اہل علم نے ہرمذہب اور انکے ان اقوال وافعال کو بیان فرمایا ہے جن سے مسلمان مرتد ہوجاتاہے۔مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ جس نے غیر اللہ کی منت ونذر مانی وہ مرتد ہوگیا۔اور نہ یہ کہا کہ جس نے غیر اللہ سے مانگا وہ مرتد ہوگیا۔اور نہ یہ کہا کہ جس نے غیراللہ کے لیئے ذبح کیاوہ مرتد ہوگیا۔اور نہ یہ کہا کہ جس نے قبر کو چھوا، یا بوسہ دیا یا اُسکی مٹی لی وہ مرتد ہوگیا۔ جیسا کہ تم لوگ کہتے ہو۔اب اگر تمہارے پاس اسکی کوئی دلیل ہے تو بیان کرو۔ علم کو چھپانا جائز نہیں ہے۔ مگر تم تو اپنے خودساختہ مفہوموں پر اعتماد کررہے ہو، اور اجماع سے جدا ہوکراُمت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی سب کی تکفیریہ کہہ کر کرتے ہوکہ جس نے یہ کام کیئے بس وہ کافر ہوگیا، اور جس نے اُنکی تکفیر نہ کی وہ بھی کافر ہوگیا۔ حالانکہ ہرخاص وعام کو معلوم نہیں، اس قسم کی باتوں سے مسلمانوں کے تمام شہر بھرپور ہیں،اور ان شہروں کے اہل علم خوب جانتے ہیں کہ یہ باتیں مسلمانوںکی آبادیوں میں سات سوسال سے زیادہ سے رائج ہیں۔ بلاشبہ ان کاموں کے نہ کرنے والے اہل علم حضرات، ان کاموں کے کرنے والوں کی تکفیر نہیں کرتے۔ اور نہ اُن پر مرتدین کے احکام جاری کرتے ہیں ، بلکہ ان پر مسلمانوں ہی کے احکام نافذ کرتےہیں، بخلاف تمہارے قول کے۔تم تو مسلمانوں کے شہروں، اور انکے سواء دیگر شہروں کے مسلمانوں پر کفر وردّت کاحکم جاری کرتے ہو۔ اور مسلمانوں کے شہروں کو دارالحرب قراردیتے ہو۔ یہاں تک کہ، تم حرمین شریفین (مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ) کو بھی دارالحرب کہتے ہو۔ (الغیاذباللہ) حالانکہ احادیث صحیحہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ خبر دی ہے کہ یہ دونوں شہر (مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ) ہمیشہ اسلامی شہر(دارالسلام) رہیں گے، اور یہ کہ ان دونوں میں کبھی بُت پرستی نہ ہوگی، حتیٰ کہ دجال بھی آخر زمانہ میں تمام شہروں میں پھرے گا، مگر حرمین شریفین میں داخل نہ ہوسکے گا، جیسا کہ اسی رسالہ میں تم جان جاؤ گے لہٰذا تمہارے نزدیک یہ تمام شہر بلادِ حرب یعنی دارالحرب ہیں، اور اسکے رہنے والے کافر ہیں کیونکہ بقول تمہارے بُت پرست ہیں، اور تمہارے نزدیک یہ سب کے سب ایسے مشرک ہیں جس سے ملت اسلامیہ سے نکل جاتے ہیں۔ (فاِنا للہِ وانا الیہ راجعون)۔
خدا کی قسم! یہ اللہ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور مسلمانوں کے تمام علماء سے کھلا مجادلہ (دشمنی ، بغض) اور جنگ ہے۔ لہٰذا یہ بات کہ محض نذر وغیرہ امور کی بنا پر پوری شدت کے ساتھ ساری امت مرحومہ کو کافرگردانتے ہو۔ ہم اسے بہت بڑی جراءت وبیباکی جانتے ہیں۔ باوجود اسکے ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں نے اپنے اپنے کلاموں میں واضح تصریح کی ہے کہ یہ باتیں شرک کی اُن قسمو ں میں سے نہیں ہیں، جنکی بنا پرملت سے نکل جائیں، بلکہ اپنے کلاموں میں تصریح کی ہے کہ شرک کی ایک قسم وہ ہے جو ان سے بہت زیادہ اعظم واکبر ہے، اس اُمت میں سے جو ایسے کام کرتے ہیں، اور وہ اس میں مبتلاء ہیں،باوجود اس کے ہم اُن کی تکفیر نہیں کرتے۔ جیسا کہ اسی رسالہ میں انکے کلام کے ضمن میں انشاء اللہ آئے گا۔
(نذر کی حقیقت) اب رہی نذر ونیاز ماننے کی حقیقت! تو اس بارے میں ہم شیخ تقی الدین اور ابن قیم کا کلام بیان کرتے ہیں، کیونکہ یہی دونوں ہیں جنہوں نے اس میں شدت برتی اور اس کا نام "شرک" رکھا ہے۔ لو اب سنو!
شیخ تقی الدین کہتے ہیں کہ "قبو ر سے اور اہل قبر سے نذر ماننا (نوٹ: اس سے مراد نذرِ فقہی ہے، اور نذر عُرفی تو جائز ہے جیسا شاہ رفیع الدین کے رسالہ نذور سے واضح ہے اور حضرت شیخ نابلسی نے خدیقہء نذریہ میں جائز قرار دیا ہے)تو ایسی نذر ماننا، مثلاً ابراہیم خلیل اللہ ؑ سے، یا کسی فلاں شیخ سے نذر ماننا، تو ایسی نذر ماننا معصیت ہے۔ ا س نذر کو پورا کرنا جائز نہیں ہے، اور جتنی نذر مانی ہے اُتنا مال مستحق فقراء پر صدقہ کردینا،یا صالحین کودیدینا ، یہ اللہ کے نزدیک اسکے لئے بہتر اور زیادہ نفع دینے والی ہے"۔ انتہیٰ۔
اب اگر نذر ماننے والاانکے نزدیک کافر ہوتا، تو صدقہ دینے کا حکم نہ فرماتے،کیونکہ کافر کا صدقہ سرے سے ہی نامقبول ہے، بلکہ اسکے سوا تجدید ِ اسلام کا حکم دیتے، اور کہتے کہ تم غیراللہ سے نذر ماننے کی وجہ سے اسلام سے نکل چکے ہو۔
اور یہی شیخ بھی کہتے ہیں کہ "جس نے کنویں پر یامقبرہ پر،یاپہاڑ یادرخت پر، چراغ جلانے کی نذر مانی،یا اسکے لیئے کوئی اور نذر مانی ، یا وہاں کے رہنے والوں کےلیئے نذر مانی تو یہ جائز نہیں ہے۔ اور نہ اس نذر کا ایفاء جائز ہے۔ اور اسے ایسے کاموں کی طرف سے جس کا خدا کی طرف سے نہ ہونا معلوم ہو پھیراجائے۔" انتہیٰ ۔ اب اگر نذر ماننے والاکافرہوجاتا، تو نذر سے پھیرنے کا حکم نہ دیتے بلکہ اُسکے قتل کرنے کا حکم دیتے۔
اور یہی شیخ یہ بھی کہتے ہیں کہ :"جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ ء انور پر سونے چاندی کی قندیل آویزاں کرنے کی نذر مانی ، اُسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ لوگوں کی طرف پھیرا جائے۔" انتہیٰ ۔ انکے اس کلام پر غور کرو۔ کیا اس کے کرنے والے کو کافر کہا؟ یا جو اُسے کافر نہ کہے اُسے بھی کافر کہا؟ یا اُسے مکفرات میں شمار کیا؟۔ انہوں نے یا انکے سواء کسی اور اہل علم نے ایسا کہا؟ جیسا کہ تم لوگ کہتے ہو، اورخرقِ اجماع کرتے ہو۔ حالانکہ ابن مفلح نے "الفروع" میں اپنے استاد شیخ تقی الدین ابن تیمیہ سے نقل کیا کہ" غیر اللہ کے لیئے نذر ماننا، مثلاًکسی خاص بزرگ کے لئے نذر مانی ، یہ استدعاء و استغاثہ اپنی کسی حاجت کو پوری کرنے کے لیے کی، تو وہ گویا ایسا ہے، جیسے کسی غیراللہ کی قسم کھائی۔ اور کہا کہ غیراللہ کے لیئے نذر ماننا معصیت ہے "۔ انتہیٰ۔
اب اس شرط مذکور کی طرف غور کرو، یعنی اُس نے استغاثہ کے لیئے نذر مانی تھی، تو شیخ نے ایسی نذر کو غیراللہ کی قسم کھانے کی مانند بتایا، اور ان کے سوا دیگر اہل علم اسے نذرِ معصیت قرار دیتے ہیں۔ کیا انہوں نے ویسا ہی کہا جیسا کہ تم اس فعل کے کرنے والے کو کافر کہتےہو؟اور جو اُسے کافر نہ کہے اُسے بھی کافر کہتے ہو۔ اے خدا اس گمراہ قول سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
اسی طرح ابن قیم نے نذر بغیر لغیر اللہ کو اقسام ِ شرک کے "شرک اصغر" کی فصل میں ذکر کیا ہے، اور انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا جسے احمد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ نذر اسکی قِسم ہے، اور ان کے سوا اُن تمام بزرگوں نے جو اسے شرک کا نام دیتےہیں، اور اسی وجہ سے تکفیر کرتے ہیں، انہوں نے اس فعل کو شرک اصغر میں ہی بیان کیا۔ "
اختتامی کلمات:
قارئین آپ نے پڑھا کہ خود، وہابیت کے پیشرو ابن وہاب نجدی کے سگے بھائی شیخ سلیمان بن عبدالوہاب نجدی نے کیسے واضح اور صاف الفاظ میں ابن تیمہ وابن قیم جوزیہ، کے ساتھ ساتھ اپنے ہی سگے بھائی کا رد ِ مفصل و بلیغ کیا۔ ا س میں کلر لائینز انتہائی اہم ہیں۔ یہاں دھرمِ وہابیت کی تمام تر بنیاد کا غائبانہ نمازِ جنازہ نکل جاتا ہے جس کے وہابی بڑے قائل ہیں۔جماعت غیراسلامی کے سلفی پروپیگنڈسٹ اگر خود کو مسلمان سمجھتے ہیں تو اس سے سبق لیں۔ بصورت دیگرے، ویسے بھی آپ لوگ اسلام سے باہر ہوچکے ہو۔ اور خوارج و مفسدون فی الارض کے زمرے میں موجود ہو۔تم سب تکفیریوں پر تجدیدِ اسلام فرض ہے۔(واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ)