آیت:
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِه لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ
ترجمہ: (کنزالایمان شریف) ۔ پاکی ہے اسے (ف۲) جو اپنے بندے (ف۳) کو، راتوں رات لے گیا (ف٤) مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک (ف۵) جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی (ف٦) کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے،
مختصر تفسیر:
(ف1) سورہ بنی اسرائیل اس کا نام سورہ اسراء اور سورہ سبحان بھی ہے یہ سورت مکّیہ ہے مگر آٹھ آیتیں ( وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهٗ ڰ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا 73) 17- الإسراء:73) سے نَصِیْراً تک ۔ یہ قول قتادہ کا ہے ۔ بیضاوی نے جزم کیا ہے کہ یہ سورت تمام کی تمام مکیہ ہے ، اس سورت میں بارہ ۱۲ رکوع اور ایک سو دس آیتیں بصری ہیں اور کوفی ایک سو گیارہ ۱۱۱ اور پانچ سو تینتس ۵۳۳ کلمے اور تین ہزار چار سو ساٹھ ۳٤٦۰ حرف ہیں ۔
(ف2) منزّہ ہے اس کی ذات ہر عیب و نقص سے ۔
(ف3) محبوب محمد مصطفٰے ۔
(ف4) شب معراج ۔
(ف5) جس کا فاصلہ چالیس منزل یعنی سوا مہینہ سے زیادہ کی راہ ہے ۔
شان نزول : جب سید عالم ﷺ شب معراج درجات عالیہ و مراتبِ رفیعہ پر فائز ہوئے تو رب عزّوجلَّ نے خطاب فرمایا اے محمد ( ﷺ ) یہ فضیلت و شرف میں نے تمہیں کیوں عطا فرمایا ؟ حضور نے عرض کیا اس لئے کہ تو نے مجھے عبدیّت کے ساتھ اپنی طرف منسوب فرمایا ۔ اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔ (خازن)
(ف6) دینی بھی دنیوی بھی کہ وہ سرزمین پاک وحی کی جائے نزول اور انبیاء کی عبادت گاہ اور ان کا جائے قیام و قبلہ عبادت ہے اور کثرت انہار و اشجار سے وہ زمین سرسبز و شاداب اور میووں اور پھلوں کی کثرت سے بہترین عیش و راحت کا مقام ہے ۔ معراج شریف نبیٔ کریم ﷺ کا ایک جلیل معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور اس سے حضور کا وہ کمال قرب ظاہر ہوتا ہے جو مخلوقِ الٰہی میں آپ کے سوا کسی کو میسر نہیں ۔ نبوت کے بارہویں سال سید عالم ﷺ معراج سے نوازے گئے مہینہ میں اختلاف ہے مگر اشہر یہ ہے کہ ستائیسویں رجب کو معراج ہوئی مکہ مکرمہ سے حضور پُرنور ﷺ کا بیت المقدس تک شب کے چھوٹے حصّہ میں تشریف لے جانا نصِّ قرآنی سے ثابت ہے اس کا منکر کافر ہے اور آسمانوں کی سیر اور منازلِ قرب میں پہنچنا احادیث صحیحہ معتمدہ مشہورہ سے ثابت ہے جو حدِّ تواتر کے قریب پہنچ گئی ہیں اس کا منکر گمراہ ہے ، معراج شریف بحالت بیداری جسم و روح دونوں کے ساتھ واقع ہوئی یہی جمہور اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور اصحاب رسول ﷺ کی کثیر جماعتیں اور حضور کے اجلّہ اصحاب اسی کے معتقد ہیں ۔ نصوص آیات و احادیث سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے ، تِیرہ دماغان فلسفہ کے اوہامِ فاسدہ محض باطل ہیں قدرت الٰہی کے معتقد کے سامنے وہ تمام شبہات محض بےحقیقت ہیں ۔ حضرت جبریل کا براق لے کر حاضر ہونا ، سید عالم ﷺ کو غایت اکرام و احترام کے ساتھ سوار کر کے لے جانا ، بیت المقدس میں سید عالم ﷺ کا انبیاء کی امامت فرمانا پھر وہاں سے سیرِ سمٰوٰت کی طرف متوجہ ہونا ، جبریلِ امین کا ہر ہر آسمان کے دروازہ کو کھلوانا ، ہر ہر آسمان پر وہاں کے صاحب مقام انبیاء علیہم السلام کا شرف زیارت سے مشرف ہونا اور حضور کی تکریم کرنا ، احترام بجا لانا ، تشریف آوری کی مبارک بادیں دینا ، حضور کا ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف سیر فرمانا ، وہاں کے عجائب دیکھنا اور تمام مقرّبین کی نہایتِ منازل سِدرۃ المنتہٰی کو پہنچنا ، جہاں سے آگے بڑھنے کی کسی مَلَکِ مقرّب کو بھی مجال نہیں ہے ، جبریلِ امین کا وہاں معذرت کر کے رہ جانا ، پھر مقامِ قربِ خاص میں حضور کا ترقیاں فرمانا اور اس قربِ اعلٰی میں پہنچنا کہ جس کے تصوّر تک خَلق کے اوہام و افکار بھی پرواز سے عاجز ہیں ، وہاں موردِ رحمت و کرم ہونا اور انعامات الٰہیہ اور خصائصِ نِعَم سے سرفراز فرمایا جانا اور ملکوتِ سمٰوٰت و ارض اور ان سے افضل و برتر علوم پانا اور امّت کے لئے نمازیں فرض ہونا ، حضور کا شفاعت فرمانا ، جنت و دوزخ کی سیریں اور پھر اپنی جگہ واپس تشریف لانا اور اس واقعہ کی خبریں دینا ، کفار کا اس پر شورشیں مچانا اور بیت المقدس کی عمارت کا حال اور ملک شام جانے والے قافلوں کی کیفیّتیں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے دریافت کرنا ، حضور کا سب کچھ بتانا ، اور قافلوں کے جو احوال حضور نے بتائے قافلوں کے آنے پر ان کی تصدیق ہونا ، یہ تمام صحاح کی معتبر احادیث سے ثابت ہے اور بکثرت احادیث ان تمام امور کے بیان اور ان کی تفاصیل سے مملو ہیں ۔
مکمل تفسیر:
اسریٰ کا معنی:
اسریٰ کا لفظ سری سے بنا ہے ، اس کا معنی ہے رات کو جانا، اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:
فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ سورہ الھود آیت اکیاسی، ترجمہ ؛ آپ رات میں اپنے اہل کو لے جائیں۔
نیز فرمایا: (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِه لَيْلًا ) ۔ یعنی۔ سبحان ہے وہ جو اپنے بندے کو رات کے ایک لمحے میں لے گیا (الاسراء ؛1)۔
حوالہ؛ المفردات ج 2 ص تین سو پانچ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ۔
خواب میں معراج ہونے کی روایات
بعض روایات میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج خواب کا واقعہ ہے اور بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف آپ کی روح کو معراج ہوئی تھی آپ کے جسم کو معراج نہیں ہوئی تھی، ہم ان روایات کو ذکر کرکے پھر ان کے جوابات کا تذکرہ کریں گے انشاء اللہ۔
امام ابوجعفر محمد بن جریر الطبری رحمتہ اللہ علیہ متوفی تین سو دس ہجری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں؛
عتبہ بن مغیرہ بن الاخنس بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا یہ اللہ کی طرف سے سچا خواب تھا۔
جامع البیان رقم الحدیث سولہ ہزار چھ سو اٹھائیس ، الدرالمنثور ج 5 ص دوسو ستائیس مطبوعہ دارالفکر بیروت
محمد بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے بعض آل ابی بکر نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم گم نہیں ہوا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح کو سیر کرائی تھی۔
جامع البیان حدیث سولہ ہزار چھ سو تیس ، الدرالمنثور ج 5 ص دوسو ستائیس مطبوعہ دارالفکر بیروت
آیت بنی اسرائیل ساٹھ۔ ترجمہ؛ اور وہ جلوہ جو ہم نے آپ کو (شب معراج) دکھایا تھا ہم نے اس کو لوگوں کےلیئے محض آزمائش بنا دیا۔
امام ابن سحاق کا استدلال اس سے ہے کہ رویا کا معنی خواب ہے یعنی شب معراج آپ کو جو خواب دکھایا تھا اس کی وجہ سے لوگ فتنہ میں پڑگئے بعض اس کی تصدیق کرکے اپنے ایمان پر قائم رہے اور بعض اس کا انکار کرکے مرتد ہوگئے، (ہمیں مرتد ہونے والوں کے ناموں کی تصریح نہیں ملی) اور حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے سے کہا۔
يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى سورۃ الصافات آیت ایک سو دو
ترجمہ؛ اے میرے بیٹے ! بے شک میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں تو اب غور کرو تمہاری کیا رائے ہے۔
پھر حضرت ابراہیم نے اپنے خواب پر عمل کیا، اس سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے پاس خواب اور بیداری دونوں حالتوں میں وحی نازل ہوتی تھی اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل جاگتا رہتا ہے اور اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ واقعہ معراج آپ کو نیند میں دکھایا گیا تھا یا بیداری میں، اور یہ واقعہ جس حالت میں بھی پیش آیا تھا وہ حق اور صادق ہے۔ از۔ جامع البیان رقم الحدیث سولہ ہزار 6سو تیس مطبوعہ دارالفکر بیروت۔
خواب میں معراج کی روایات کے جوابات:
امام ابوجعفر طبری لکھتے ہیں:
“ہمارے نزدیک صحیح اور برحق قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رات میں مسجد حرام سےمسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی جیسا کہ احادیث میں ہے ، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ علیہ السلام کو براق پر سوار کرایا اور آپ نے مسجد اقصیٰ میں انبیاء و رسل کو نماز پڑھائی ، اور آپ کو بہت سی نشانیاں دکھائیں، اور جس شخص نے یہ کہا کہ صرف آپ کی روح کو معراج کرائی گئی تھی اور یہ معراج جسمانی معراج نہیں تھی تو یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ واقعہ آپ کی نبوت پر دلیل نہ ہوتا، اور نہ اس کی حقیقت کا منکرین انکار کرتے ، اور اگر یہ صرف خواب کا واقعہ ہوتا تو مشرکین اس کا رد نہ کرتے، کیونکہ خواب میں کسی عجیب و غریب چیز کو دیکھنےپر کسی کو حیرت نہیں ہوتی اور نہ کوئی اس کا انکار کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اسری ٰ بعبدہ یہ نہیں فرمایا کہ اسریٰ بروح عبدہ ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا براق پر سوار ہونا بھی اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ معراج جسمانی معراج تھی کیونکہ کسی سواری پر سوار ہونا جسم کا تقاضا ہے نہ کہ روح کا۔ از جامع البیان۔
علامہ محمد بن احمد مالکی قرطبی لکھتے ہیں؛
اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا توا للہ تعالیٰ فرماتا (بروح عبدہ ) اور بعبدہ نہ فرماتا، نیز اللہ نے فرمایا:
مازاغ البصر وما طغیٰ (النجم ، سترہ) یعنی، نہ نظر ایک طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی۔
سورہ النجم کی یہ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ بیداری کا واقعہ تھا، نیز اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نشانی اور معجزہ نہ ہوتا، اور آپ سے حضرت ام ہانی یہ نہ کہتیں کہ آپ لوگوں سے یہ واقعہ بیان نہ کریں وہ آپ کی تکذیب کریں گے ، اور نہ حضرت ابوبکر کی تصدیق کرنے میں کوئی فضیلت ہوتی، اور نہ قریش کے طعن وتشنیع اور تکذیب کی کوئی وجہ ہوتی ، حالانکہ جب آپ نے معراج کی خبر دی تو قریش نے آپ کی تکذیب کی اور کئی مسلمان مرتد ہوگئے، اور اگر یہ خواب ہوتا تو اس کا انکار نہ کیا جاتا، اور نیند میں جو واقعہ ہو اس کے لیئے اسریٰ نہیں کہا جاتا۔ از۔ جامع لاحکام القرآن للقرطبی۔