Post by zarbehaq on Nov 24, 2015 8:24:25 GMT
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الصلوٰۃ والسلام علیٰ اشرف الانبیاء والمرسلین
پیارے مدنی بھائیو اور بہنو! آپ لوگ جو گزشتہ کئی سال سے میری پوسٹس پڑھتے آئے ہیں اور میرے ریگولر ریڈرز ہیں، وہ مجھے جانتے ہیں اچھی طرح کہ میرا شیعہ سنی اتحاد کے بارے میں کیا خیالات رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ملکی سیاست کی حد تک ملک میں ہرصورت میں شیعہ سنی اتحار قائم رہنا چاہیئے بھلے ہم ایکدوسرے سے مذہبی طور پر متفق نہ ہوں۔ اور میرے عمل سے آپ نے اندازہ بھی لگا لیا ہوگا کہ میرا روئے سخن زیادہ تر اپنی سنیت کے اردگرد ہی گھومتا ہے کیونکہ میری ایسی سوچ ہے کہ چونکہ وہابی دیوبندی دونوں سنیت کا نام استعمال کرتے ہیں اسلیئے میرا پہلا کام ان کی اصلاح ہے۔ اور دوسرے یہ کہ شیعہ چونکہ اہلسنت نہیں ہیں اسلیئے میرے نزدیک وہ لوگ جو چاہیں کرتے پھریں میں نے ان کی قبر میں نہیں جانا اور نہ کسی نے میری قبر میں۔ لہٰذا اگر وہ کہیں گمراہی کی یا غلطی کی بات کرتے ہیں تو میں نے اس کا بھرپور رد بھی دیا ہے۔ لیکن کم سے کم سختی کے ساتھ اور متانت کے ساتھ۔ یہ تمہید اسلیئے باندھی ہے کہ ابھی جو آپ دیکھنے جائیں گے وہ دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ جس طرح میں نے آپ کے سامنے بہت ساری وہابی دیوبندی تحریفات اور جھوٹ پیش کیئے ہیں۔ ویسے ہی آج شیعہ لوگ بھی وہی کام کررہے ہیں۔ بلکہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ اب مختصراً بتا دوں ۔ گزشتہ رات اپنے ریسرچ ورک کے دوران مجھے اتفاقاً یہ کتاب نظر آئی جو کہ شیعہ حضرات کے علامہ فروغ کاظمی نے “حقیقت تبرا” کے نام سے لکھی ہے۔ اور سبیل سکینہ لائبریری سے آسانی سے مل سکتی ہے۔ یہ لکھنئو کی چھاپ ہے اور ادارہ تہذیب و ادب میدان ایلچ خاں لکھنئوکی چھاپی ہوئی ہے، نیزاس کتاب میں تولا اور تبرا پر مولویانِ شیعان نے بڑی شد ومد کے ساتھ اپنی رائے دی ہوئی ہے اور اس کو جائز قرار دینے کے لیئے جس بھرپور تقیہ یعنی جھوٹ فریب اور تحریف سے کام لے کر ثبوت دیا ہے کہ وہ واقعی “شیعان” ہیں وہ بے مثال ہے۔ جگہ جگہ اس میں ذاتی تاویلات، نظریات، غلط اور گمراہ بلکہ سرے سے ہی متن سے ہٹائے ہوئے حوالہ جات تحریر کردیئے۔ میں نے کسی ریسرچ کے سلسلے میں تقیہ پر کچھ ڈھونڈنا تھا تو نظر اس پر پڑگئ۔ اور جوں جوں مطالعہ شروع کیا، تو یقین کریں میں نے پاگلوں کی طرح ڈائریکٹ میں نہ مانوں ہوں کا رٹہ نہیں لگایا بلکہ چند حوالے جو انہوں نے دیئے تھے اس کا مطالعہ کیا جتنی اسوقت میرے قریب کتابیں ممکن تھیں۔ اور سب کے سب میں ان کو متن سے ہٹا ہوا اور ادھورا بلکہ کہیں کہیں تو تقیہ پرستی کی انتہاء کردی گئی کہ ترجمہ عربی کچھ بنتا ہے اصلی کتاب سے اردو میں، اور یہ حضرت مولانائے شیعہ نے کیا کیا ڈنڈیاں ماری ہیں ۔ اسلیئے یہ تمام کام مدنظر رکھتے ہوئے انشاء اللہ اس کا بھی ویسے ہی رد کرنے کی کوشش ہوگی جیسا کہ میں نے ابن تیمیہ کی غلط بیانیوں کا انہیں کی کتابوں اور حوالوں سے رد کیا تھا۔ اس سلسلے میں آپ سکین میں دیکھ سکتےہیں کہ دو نیلی لائنیں میں نے دی ہوئی ہیں۔ ایک میں امام ابن حجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کی الصواعق المحرقہ اور دوسرے میں امام آلوسی رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر سے حوالہ دے کر لکھا ہے کہ
تو صواعق محرقہ کا تو جواب یہ ہے کہ اہلبیت سے محبت رکھنا کہیں بھی یہ ثابت نہیں کرتا کہ جن اہلبیت نے صحابہ سے محبت رکھی یہاں تک کہ اپنے بچوں کے نام عمر، ابوبکر، عثمان، عائشہ ، زبیر رکھے وہ تبرا کیسے کرسکتے تھے؟ یعنی انتہائی لغو قسم کے حوالے دیئے ہیں اور اپنی طرف سے جو ایڈیشن کی ہے وہ یہ ہے کہ موصوف لکھتے ہیں (بعض نے تو حدیث ثقلین سے ۔۔۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ کیا سلوک کیا ) تک یہ موصوف نے انپی ڈنڈی ماری ہے۔ اور اس سے بھی یہ کہیں نہیں نکلتا کہ اگر یزید لعین اور اسکے “شیعوں” نے اہلبیت پر ظلم ڈھایا تھا تو اسکی وجہ سے اصحاب پر تبرا کی اجازت مل گئی۔ سبط ابن جوزی والے ریفرینس کی مجھے کتاب نہیںمل سکی، انٹرنیٹ پر اسلیئے نہیں مل سکی کہ نیٹ فی الوقت کام نہیں کررہا اور اس وقت (جب یہ تحریر کی جارہی ہے) نیٹ از آف۔ لہٰذا انشاء اللہ اگلی کسی پوسٹ میں اس کا تیمیہ کی طرح مکمل رد پیش کردیا جائے گا۔
اب آتے ہیں اصل پوائنٹ کی طرف کہ علامہ سید محمود آلوسی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی تفسیر (روح المعانی) کے جس صفحے کا حوالہ شیعہ (محقق) صاحب نے دیا ہے وہاں یہ کیا لکھ رہے ہیں ذرا وہ پہلے پڑھیں پھر اس کا مختصر جواب بمع رد پیش کردیا جائے گا۔
لکھتے ہیں؛۔
سید آلوسی نے اپنی تفسیر کی 23 ویں جلد کے صفحہ 80 پر آیت مذکورہ کے ذیل میں بہت سے اقوال نقل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ روزِ قیامت عقائد و اعمال کے بارے میں سوال ہوگا اور عقائد میں راس الرئیس “لاالٰہ الااللہ ” ہے اور بلند ترین عقیدہ ء ولایت علی کرم اللہ وجہہ ہے”۔
ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔ اور۔ لعنت اللہ علی الکاذبین ۔
اب یہ رہا رد اور جواب؛۔
آخر میں عربی میں سکین دیا جارہا ہے جس میں اصل عبارت یہ ہے جو کہ شیعہ حضرت کھا گئے ہیں کہ (وروی بعض الامامیۃ) یعنی (بعض امامیہ ، یعنی شیعہ) یہ روایت کرتے ہیں۔ اور پھر اسی لائین پر درمیان میں لکھا ہے (ورووہ ایضاً) (یعنی یہی لوگ دوبارہ روایت کرتے ہیں) ۔ یعنی یہ عبارت یا روایت یا حدیث جو شیعہ مولوی نے پیش کی ہے وہ سرے سے امام سید محمود آلوسی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہے ہی نہیں بلکہ وہ تو (تم شیعوں) کی کہی بات کو یہاں پر لکھ رہے ہیں۔ اور ان حضرت کا تقیہ دیکھیئے کہ فرما رہےہیں (بہت سے اقوال نقل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے) لعنت اللہ علی الکاذبین ۔ یعنی اپنی ہی شیعوں کی عبارت جو امام آلوسی رحمتہ اللہ علیہ نے شیعوں سے ہی بیان کی ہے وہ بھی ان موصوف نے ادھوری لکھی ہے۔ کیونکہ مولانائے شیعہ یہ بھول گئے یا اغلب گمان ہے کہ تقیہ کی عبادت میں یہ بھول گئے کہ ہم جیسے ناچیز لوگ اس عبارت کو پڑھ کر مفصل جواب بھی عنایت کرسکتے ہیں یہ شاید بھول گئے تھے۔ ادھوری حدیث اسطرح لکھی ہے کہ اپنی ہی لکھی عبارت میں یہ لکھتے ہیں کہ (اور بلند تریق عقیدہ ولایت علی کرم اللہ وجہ ہے) جبکہ پوری عربی عبارت آپ دیکھ سکتے ہیں وہ کچھ یوں لکھی ہے (ومن اجلہ ولایۃ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ وکذا ولایۃ اخوانہ الخلفاء الراشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)۔ یعنی اسکا ترجمہ یوں ہوا کہ بلندترین ولایت (یعنی بمعنی خلافت ء راشدہ) وہ علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی خلفائے راشدین (یعنی ابوبکر، عمر و عثمان) رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں۔
آپ نے نوٹ کیا؟ موصوف نے اپنے بھائیوں یعنی (چھوٹے رافضیوں) یعنی (وہابیوں، دیوبندیوں) کی ہی طرح ادھوری بنا متن کے حدیث بھی پیش کی، جس کی تصدیق بھی علامہ آلوسی پر بہتان باندھ کر خود ہی اپنی کتاب مین تقیتہً لکھ ڈالی کہ ان کا فیصلہ ہے۔ حالانکہ وہ ان شیعوں امامیوں کی روایت کا ذکر کررہے ہیں، تو یہ دلیل کیسے اور اگر ہے بھی تو ادھوری بات کیوں بتائی؟ اس سے فقط ولایت علی کا ثبوت کہاں سے مل گیا بھائی؟ اس میں تو خلفائے راشدین کا ذکر ہورہا ہے۔
اب ذرا مفصل جواب تاکہ کسی کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ شیعہ نے تو بیان نہیں کیا چھپایا اپنے دھرم کے مطابق لیکن ہم پر تو فرض ہے اس آیت پر مستند تفاسیر سے مطالب پیش کرنا۔
یہ آیت جس کی تفسیر میں آپ نے صرف ایک دو سطروں کا ایک حوالہ امامیہ کی طرف سے لکھا ، نہ اسکی تصدیق کی نہ ہی تردید۔ ظاہر ہے شیعہ حوالہ کیسے سنی مانے؟
سورہ الصافات، رکوع ۲ ايت ۲۴
وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔـوْلُوْنَ
ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ؛۔ اور ذرا ان کو ٹہراؤ کہ ابھی ان سے کچھ سوال کیا جائے گا۔
ترجمہ محمد حسین نجفی
اور انہیں ٹھہراؤ (ابھی) ان سے کچھ پوچھنا ہے۔
ترجمہ سنی ، کنزالایمان شریف؛۔ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز
اور انہیں ٹھہراؤ (ف ٢٥) ان سے پوچھنا ہے (ف ٢٦)
یاد رہے کہ اس آیت کا شان نزول قریش کی جانب ہے ، تفسیر روح القران ڈاکٹر اسلم صدیقی لکھتے ہیں؛۔
وَقِفُوْھُمْ اِنَّہُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ۔ مَالَـکُمْ لاَ تَنَاصَرُوْنَ۔ بَلْ ھُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُوْنَ۔ (الصآفات : ٢٤ تا ٤٦)
(اور ذرا انھیں روکو، بے شک ان سے کچھ پوچھا جائے گا۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔ بلکہ وہ آج اپنے آپ کو حوالے کیے دے رہے ہیں۔ )
منکرین کی تذلیل
فرشتے جب ان مجرموں کو جہنم کی طرف لے کر جارہے ہوں گے تو انھیں حکم ملے گا کہ انھیں کچھ دیر کے لیے روکو، ان سے کچھ پوچھنا ہے۔ یہ لے جائے جانے والے سب وہ لوگ ہیں جن میں ایک سے ایک بڑا باغی اور سرکش رہ چکا ہے۔ اور ان کے تکبر کا عالم یہ تھا کہ یہ اپنے پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی کسی بات کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ اور پھر یہ عام لوگ نہیں ان میں بیشتر لوگ دنیا میں بڑے سے بڑے مناصب پر فائز رہے ہیں۔ کوئی دنیوی جاہ و جلال کا دعویدار تھا اور کوئی علم و فضل میں کمالات کا، کسی کو اپنی مشیخیت پر ناز تھا اور کسی کو اپنے حسب و نسب کی برتری پر۔ لیکن آج یہ سب سر جھکائے خاموشی سے اس طرح حکم میں بندھے چلے جارہے ہوں گے کہ سب کی ہیکڑی نکل چکی ہوگی اور ہر ایک سراپا اطاعت بنا ہوا ہوگا۔ چنانچہ انھیں روک کر ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ دنیا میں تم ایک دوسرے کے معاون و مددگار تھے، تم نے ہر برائی کو فروغ دینے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیا۔ تم میں اگر ایک قائد تھا تو دوسرے لوگ اس کی قیادت کا ایندھن بنے ہوئے تھے۔ اس کے لیے نعرے لگاتے، جھنڈے اٹھاتے اور اس کی سربلندی کے لیے پسینہ بہاتے اور مال صرف کرتے تھے۔ اور قائد اپنے پیروکاروں کی خاطر کیسے کیسے دکھ برداشت کرتے تھے۔ لیکن اپنی قیادت پر حرف نہیں آنے دیتے تھے۔ لیکن آج تم سب تنہا تنہا ایک دوسرے سے بیگانہ اپنی فکر میں مگن چلے جارہے ہو، آخر تم میں یہ تبدیلی کیوں آئی؟ اور پھر دوسرے لوگ جو ان شامت زدوں کا نظارہ کررہے ہوں گے انھیں متوجہ کرکے فرمایا گیا ہے کہ ذرا انھیں دیکھو کہ یہ تو پوری طرح اپنے آپ کو سپرد کیے دے رہے ہیں۔ اپنی سرکشی کو بھول کر مکمل طور پر سپرانداز ہوچکے ہیں۔ انھیں اپنے دائیں بائیں کا کوئی ہوش نہیں۔ کل تک وہ جن کے لیے جان کھپاتے تھے آج انھیں پوچھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ہر شخص کو اپنے انجام کی فکر ہے۔ دراصل یہ نقشہ کھینچ کر قریش کو توجہ دلائی جارہی ہے کہ تم آج اپنے جن تعلقات اور علاقات پر نازاں ہو اور جن وابستگیوں سے تم نے انپے گروہ بنا رکھے ہیں قیامت کے دن ان میں سے ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ وہاں ہر ایک کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اس لیے آج سوچ لو کہ کل تمھارے ساتھ کیا گزرنے والی ہے تاکہ آج اس کی کوئی تجویز کرسکو۔
تفسیر مظہری میں لکھا ہے؛۔
مفسرین فرماتے ہیں جب مشرکوں کو دوزخ کی طرف لےجایا جارہا ہوگا تو پل صراط کے پاس انہیں روک لیا جائے گا، ارشاد ہوگا انہیں روک لو ان سے بازپرس کی جائے گی۔ انھم مسئولون کا جملہ قفوا کی علت ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مشرکوں سے ان کے افعال و اقوال سب کے متعلق بازپرس ہوگی۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ ان سے لاالٰہ الااللہ کے متعلق سوال ہوگا۔ (بحوالہ تفسیر بغوی جلد ۴ ص ۵۵۸/۵۵۹ دارالفکر بيروت) مسلم نے ابوبرزہ اسلمی سے روایت کیا ہے کہ فرماتے ہیں رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا انسان کے پاؤں پل صراط سے جدا نہ ہوں گے حتیٰ کہ چارچیزوں کے متعلق اس سے بازپرس کرلی جائے گی۔ (ا) عمر کے متعلق سوال ہوگا کہ کن مشاغل میں بسر کی۔ (2) جسم کے متعلق سوال ہوگا کہ کس کام میں اسے کمزور کیا۔ (3) علم کے متعلق سوال ہوگا کہ اس پر کتنا عمل کیا۔(4) مال کے متعلق سوال ہوگا کہ کہاں سے مال کمایا اور پھر کس مقصد میں اسے خرچ کیا۔ (بحوالہ جامع ترمذی ص 2417)۔ امام احمد نے الزھد میں ابوالدرداء سے روایت کیا ہے کہ سب سے پہلے قیامت کے روز جو سوال ہوگا وہ یہ ہوگا کہ جو تجھے علم تھا اس پر عمل کتنا کیا۔
ابن ابی حاتم نے ابقع بن عبداللہ الکلاعی سے روایت کیا ہے کہ جہنم کے سات پل ہیں، ان پر پل صراط ہے، پہلے پل کے پاس لوگوں کوروکا جائے گاارشاد ہوگا، ان کو روک لو، ان سے بازپرس کی جائے گی۔ پس پہلے نماز کے متعلق محاسبہ ہوگا، اور نماز کے متعلق پوچھا جائے گا، پس جو ہلاک ہوگا وہ ہلاک ہوجائے گااور جو نجات پائے گا وہ نجات پاجائے گا جب دوسرے پل کے قریب پہنچیں گے تو امانت کے متعلق محاسبہ ہوگا کہ کیسے اسے ادا کیا اور کیا اور کیسے اس میں خیانت کی پس جو ہلاک ہوگا وہ ہلاک ہوجائے گااور جو نجات پائے گا وہ نجات پاجائے گا۔ جب تیسرے پل پر پہنچیں گے تو رشتہ داری کے متعلق سوال ہوگا کہ رشتہ داری کو کیسے قائم رکھا اور کیسے اسے توڑا، پس ہلاک ہوگا جو ہلاک ہوگا اورنجات پائے گا جونجات پائے گا۔ اس دن رحم (رشتہ قرابت) ہوا میں معلق ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے گا اے اللہ جس نے مجھے ملائے رکھا (آج) تو بھی اسے ملا اور جس نے (دنیا میں) مجھے توڑا (آج) تو بھی اسے توڑ دے)۔
تفسیر ضیا القرآن میں پیر کرم شاہ ازھری صاحب لکھتے ہیں؛۔
١٠ ف پہلے جہنم میں پھینکنے کا حکم دیا جائے گا، لیکن ان کی رسوائی میں اضافہ کرنے کے لئے انہیں پھر ٹھہرانے کا حکم ہوگا کہ ابھی نہیں ذرا ان کا حساب ہو لینے دو تاکہ تمام اہل محشر کو ان کے کفرو شرک، ان کی حرام خوریوں اور نا شکریوں کا علم ہوجائے اور سب کو پتہ چل جائے کہ دنیا میں جن کی عظمت کے ڈنکے بجتے تھے ان کا کیا حشر ہو رہا ہے۔
اللہ ہم سب کو معاف فرمائے۔ ایسے ہی دیگر مفسرین نے بھی لکھا ہےکہ جیسے تفسیر خزائن العرفان میں علامہ نعیم الدین مرادآبادی فرماتے ہیں؛۔
(ف 25) صراط کے پاس۔
(ف 26) حدیث شریف میں ہے کہ روز قیامت بندہ جگہ سے ہل نہ سکے گا جب تک چار باتیں اس سے نہ پوچھ لی جائیں (١) ایک اس کی عمر کہ کس کام میں گزری (٢) دوسرے اس کا علم کہ اس پر کیا عمل کیا (٣) تیسرے اس کا مال کہ کہاں سے کمایا کہاں خرچ کیا (٤) چوتھے اس کا جسم کہ اس کو کس کام میں لایا۔
یعنی الغرض آپ جو بھی تفسیر اٹھا کردیکھ لیں وہاں آپ کو یہی کچھ ملے گا جبکہ اپنے مولانا موصوف آف شیعیت نے اس سے کیا قلابے نکال کر ملائے ہیں وہ آپ پڑھ ہی چکے ہیں۔ آپ سوچیں کہ یہی چیزیں جب عام لوگوں تک پہنچتی ہیں بالکل وہابی دیوبندی کی طرح وہ شیعہ لوگ بھی اپنے مولانا پر بڑا فخر کررہے ہوں گے کہ سنیوں کی کتاب سے حوالے دیئے ہیں جبکہ اصلیت آپ لوگ پڑھ بھی چکے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی چکے ہیں۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا کہ قرآن پاک (جس کو تحریف زدہ) کہنے کی ناپاک جسارت بھی شیعہ ہی کرتا ہے، تو جب وہ وہاں جھوٹ بول سکتا ہے تو ہر ہر جگہ پر ہی تہمتیں اور جھوٹ و افتراء کیوں نہیں بول سکتا۔ یہی ان موصوف نے بھی کیا ہے۔ یہ ابھی صرف ایک صفحے پر میرا رد ہے اس میں ابھی بہت کچھ مزید بھی لکھا جاسکتا ہے تردید میں جسکی چنداں ضرورت نہیں رہ جاتی۔ بس یہی کہنا تھا کہ (لعنت اللہ علی الکاذبین) جو کہ قرآن شریف تک کی تفسیرات کو اپنے پہناوے دیتے ہیں۔ اللہ ہم سب مسلمان کلمہ گو کو ان جیسے فتنوں سے بچنے ، اپنا دین سمجھے اور سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، اللہ رب العزت سے اپنے اور میرے گناہوں کی مغفرت کے لیئے دعا کی التجاء کے ساتھ فی امان اللہ۔
صواعق المحرقہ کی شیعی دلیل کا رد
امام ابن حجر مکی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی الصواعق المحرقہ میں کیا لکھا ہے ذرا وہ بھی پوری طرح بمع اوریجنل ترجمہ پڑھ لیں کہ اس کا ترجمہ کیا بنتا ہے اور اس سے شیعہ حضرت نے کیا نقطہ ء معرفت نکالا۔ اور ہاں یاد رہے یہاں مراد معاذ اللہ اہلبیت اطہار کی شان گھٹانا نہیں بلکہ جو لکھا ہے وہ پیش کرنا ہے۔
علامہ ابن حجر لکھتے ہیں؛۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وقفوھم انھم مسئولون۔ اور انہیں کھڑا کرو یہ پوچھے جائینگے۔
دیلمی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (وقفوھم انھم مسئولون) یعنی انہیں کھڑا کرو ان سے حضرت علی کی ولایت کے بارے میں پوچھا جائیگا۔ گویا یہ (الواحدی) کی مراد ہے کیونکہ اس سے وقفوھم انھم مسئولون کے متعلق مروی ہے۔ کہ وہ حضرت علی اور اہلبیت کی ولایت کے متعلق پوچھے جائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکمدیا ہے کہ وہ لوگوں کو بتادیں کہ وہ تبلیغ رسالت پر اقرباء کی محبت کے سوا کوئی اجر طلب نہ کریں گے۔ اور پوچھے جانے کا مفہوم یہ ہے کہ کیا انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق حق موالات ادا کیا ہے یا اسے ضائع کردیا ہے اور اسے ایک مہمل چیزخیال کیا ہے۔ اس کا ان سے مطالبہ ہوگا اور سزا ملے گی۔ اور “رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق کے الفاظ “میں ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس بارے میں آئی ہیں اور وہ بہت سی ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ فصل دوم میں ہوگا۔
یعنی معلوم ہوا کہ یہ حدیث باب فضیلت اہلبیت میں امام ابن حجر نے دراصل اپنی بات نہیں بلکہ واحدی کی بات بیان کیا ہے۔ جیسا کہ امام آلوسی نے امامیہ کی بات بیان کی تھی۔ نیز اس کے صحیح یا غلط ہونے پر کوئی بیان نہیں دیا۔ کیونکہ یہ فضیلت پر روایات ہیں اور اہلسنت کا معمول ہے کہ اعمال اور فضائل میں ضعیف حدیث بھی مقبول ٹھہرتی ہے۔ اس کے علاوہ امام یہاں پر جس متن اور پیرایہ میں بات کر رہے ہیں وہ ولایت پر ٹھیک اس سے چند صفحات آگے اور بعد میں شیعوں کا ہی رد بھی پیش فرمارہے ہیں ، اس کے علاوہ ایک جواب یہ بھی ہے کہ اس حدیث سے تبرا کا جائز ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟ اسی کتاب میں وہ روایت بھی تو ہے کہ جس میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا۔ کہ مجھ پر صلوٰۃ تبراء نہ بھیجا کرو۔ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ صلوٰۃ تبراء کیا ہے؟ فرمایا تم کہتے ہو اللھم صل علی محمد اور رُک جاتے ہو۔ بلکہ تم کہا کرو اللھم صل علی محمد وآل محمد۔ صحیحین میں جو آل کے لفظ کو حذف کیا گیا ہے وہ اس کے منافی نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ہم آپ پر کیسے صلوٰۃ پڑھیں۔ فرمایا کہا کرو! اللھم صلی علی محمد وعلی ازواجہ زریتہ کما صلیت ابراھیم الی آخرہ۔ اس لیئے کہ آل کا ذکر دوسری روایات سے ثابت ہے اور وہیں سے معلوم ہوتا ہے۔ اور پھر اسی متن کے حساب سے تشہد میں جو سلام بھجا جاتا ہے اس پر بیان دیا ہے۔ فقہ شافعی اور فقہ حنفی کے فروعی اختلاف کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور امام ابن حجر آگے لکھتے ہیں
ان میں سے ایک حدیث مسلم میں زید بن ارقم سے بیان ہوئی ہے کہ رسول کریم علیہ السلام ہم میں خطبہ دینے کے لیئے کھڑے ہوئے اور حمد وثنا کے بعد فرمایا؛ اے لوگو! میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ ممکن ہے میرے رب کا ایلچی میرے پاس آئے اور میں اسے جواب دوں۔ میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں۔ ان میں سے ایک تو اللہ کی کتاب ہے ۔ جس میں نور وہدایت ہے۔ پس کتاب الٰہی سے تمسک کرو اور اسے مضبوطی سے پکڑلو اور آپ نے اس کے متعلق بڑی رغبت اور ترغیب دلائی پھر فرمایا۔ دوسرے اہلبیت ہیں۔ آپ نے تین بار فرمایا میں تم کو اپنے اہلبیت کے متعلق اللہ کا حکم یاد دلاتا ہوں۔ زید سے پوچھا گیا ۔ آپ کے اہلبیت کون ہیں کیا آپ کی بیویاں اہلبیت میں سے نہیں؟ آپ نے فرمایا بےشک آپ علیہ السلام کی بیویاں اہلبیت میں سے ہیں۔ لیکن اہلبیت وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ پوچھا گیا وہ کون ہیں؟۔ فرمایا وہ آل ِ علی ، آلِ عقیل اور آلِ عباس ہیں۔ پوچھا گیا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے فرمایا ہاں۔
یعنی ثابت ہوا کہ نمبر ایک۔ یہ قول واحدی کا ہے نا کہ ابن حجر کا جس کو شیعہ حضرت نے اپنے مفاد میں جھوٹ بول کر لکھا کہ یہ ابن حجر کا قول ہے۔ نیز اس پر کوئی جرح نہیں کی جسکی وجہ بھی پہلے میں نے درج کردی۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کا فرمانا کہ اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ یعنی اللہ کی کتاب کیا؟ قرآن مجید۔ اور یہ وہی قرآن مجید ہے جس کے متعلق انہیں شیعہ حضرات کا تحریف کا دعویٰ غلط بے بنیاد اور کذب ہے۔ اور یہ عقیدہ صریحاً نبی علیہ السلام کے اس فرمان کی نافرمانی ہے۔ نیز ذرا یہ بھی سوچیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک کے مطابق آپ کی امت کی اکثریت کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی، تو پھر ظاہر ہے یہ اسی صورت میں ہوتا ہے کہ جب تعلیمات سے ہٹا نہ جائے۔ اب شیعہ حضرات تو ہٹ چکے ہیں امت سے اپنا راستہ عقائد کیوجہ سے جدا کرکے۔ کیونکہ تحریف کا عقیدہ ایک بہت گندہ عقیدہ کفر ہے۔ پھر یہ وہی اہلبیت ہیں کہ جن میں سےآل عباس کے متعلق اور آل عقیل کے متعلق بھی بعض شیعہ گروہ تبراء کرتے ہیں جیسے کہ محمد بن حنفیہ کے خلاف۔ تو حضرت ہمیں حدیث پیش کرنے کی بجائے ان احادیث پر خود بھی عمل کریں۔ اور براہ مہربانی جھوٹ بول کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے تقیہ کا فرض نبھایا اور اس سے اللہ بہت خوش ہوا ہوگا کہ بڑا اچھا کام کیا ۔
تو صواعق محرقہ کا تو جواب یہ ہے کہ اہلبیت سے محبت رکھنا کہیں بھی یہ ثابت نہیں کرتا کہ جن اہلبیت نے صحابہ سے محبت رکھی یہاں تک کہ اپنے بچوں کے نام عمر، ابوبکر، عثمان، عائشہ ، زبیر رکھے وہ تبرا کیسے کرسکتے تھے؟ یعنی انتہائی لغو قسم کے حوالے دیئے ہیں اور اپنی طرف سے جو ایڈیشن کی ہے وہ یہ ہے کہ موصوف لکھتے ہیں (بعض نے تو حدیث ثقلین سے ۔۔۔۔۔ الیٰ ۔۔۔ کیا سلوک کیا ) تک یہ موصوف نے انپی ڈنڈی ماری ہے۔ اور اس سے بھی یہ کہیں نہیں نکلتا کہ اگر یزید لعین اور اسکے “شیعوں” نے اہلبیت پر ظلم ڈھایا تھا تو اسکی وجہ سے اصحاب پر تبرا کی اجازت مل گئی۔ سبط ابن جوزی والے ریفرینس کی مجھے کتاب نہیںمل سکی، انٹرنیٹ پر اسلیئے نہیں مل سکی کہ نیٹ فی الوقت کام نہیں کررہا اور اس وقت (جب یہ تحریر کی جارہی ہے) نیٹ از آف۔ لہٰذا انشاء اللہ اگلی کسی پوسٹ میں اس کا تیمیہ کی طرح مکمل رد پیش کردیا جائے گا۔
اب آتے ہیں اصل پوائنٹ کی طرف کہ علامہ سید محمود آلوسی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی تفسیر (روح المعانی) کے جس صفحے کا حوالہ شیعہ (محقق) صاحب نے دیا ہے وہاں یہ کیا لکھ رہے ہیں ذرا وہ پہلے پڑھیں پھر اس کا مختصر جواب بمع رد پیش کردیا جائے گا۔
لکھتے ہیں؛۔
سید آلوسی نے اپنی تفسیر کی 23 ویں جلد کے صفحہ 80 پر آیت مذکورہ کے ذیل میں بہت سے اقوال نقل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ روزِ قیامت عقائد و اعمال کے بارے میں سوال ہوگا اور عقائد میں راس الرئیس “لاالٰہ الااللہ ” ہے اور بلند ترین عقیدہ ء ولایت علی کرم اللہ وجہہ ہے”۔
ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔ اور۔ لعنت اللہ علی الکاذبین ۔
اب یہ رہا رد اور جواب؛۔
آخر میں عربی میں سکین دیا جارہا ہے جس میں اصل عبارت یہ ہے جو کہ شیعہ حضرت کھا گئے ہیں کہ (وروی بعض الامامیۃ) یعنی (بعض امامیہ ، یعنی شیعہ) یہ روایت کرتے ہیں۔ اور پھر اسی لائین پر درمیان میں لکھا ہے (ورووہ ایضاً) (یعنی یہی لوگ دوبارہ روایت کرتے ہیں) ۔ یعنی یہ عبارت یا روایت یا حدیث جو شیعہ مولوی نے پیش کی ہے وہ سرے سے امام سید محمود آلوسی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہے ہی نہیں بلکہ وہ تو (تم شیعوں) کی کہی بات کو یہاں پر لکھ رہے ہیں۔ اور ان حضرت کا تقیہ دیکھیئے کہ فرما رہےہیں (بہت سے اقوال نقل کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے) لعنت اللہ علی الکاذبین ۔ یعنی اپنی ہی شیعوں کی عبارت جو امام آلوسی رحمتہ اللہ علیہ نے شیعوں سے ہی بیان کی ہے وہ بھی ان موصوف نے ادھوری لکھی ہے۔ کیونکہ مولانائے شیعہ یہ بھول گئے یا اغلب گمان ہے کہ تقیہ کی عبادت میں یہ بھول گئے کہ ہم جیسے ناچیز لوگ اس عبارت کو پڑھ کر مفصل جواب بھی عنایت کرسکتے ہیں یہ شاید بھول گئے تھے۔ ادھوری حدیث اسطرح لکھی ہے کہ اپنی ہی لکھی عبارت میں یہ لکھتے ہیں کہ (اور بلند تریق عقیدہ ولایت علی کرم اللہ وجہ ہے) جبکہ پوری عربی عبارت آپ دیکھ سکتے ہیں وہ کچھ یوں لکھی ہے (ومن اجلہ ولایۃ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ وکذا ولایۃ اخوانہ الخلفاء الراشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)۔ یعنی اسکا ترجمہ یوں ہوا کہ بلندترین ولایت (یعنی بمعنی خلافت ء راشدہ) وہ علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی خلفائے راشدین (یعنی ابوبکر، عمر و عثمان) رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں۔
آپ نے نوٹ کیا؟ موصوف نے اپنے بھائیوں یعنی (چھوٹے رافضیوں) یعنی (وہابیوں، دیوبندیوں) کی ہی طرح ادھوری بنا متن کے حدیث بھی پیش کی، جس کی تصدیق بھی علامہ آلوسی پر بہتان باندھ کر خود ہی اپنی کتاب مین تقیتہً لکھ ڈالی کہ ان کا فیصلہ ہے۔ حالانکہ وہ ان شیعوں امامیوں کی روایت کا ذکر کررہے ہیں، تو یہ دلیل کیسے اور اگر ہے بھی تو ادھوری بات کیوں بتائی؟ اس سے فقط ولایت علی کا ثبوت کہاں سے مل گیا بھائی؟ اس میں تو خلفائے راشدین کا ذکر ہورہا ہے۔
اب ذرا مفصل جواب تاکہ کسی کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ شیعہ نے تو بیان نہیں کیا چھپایا اپنے دھرم کے مطابق لیکن ہم پر تو فرض ہے اس آیت پر مستند تفاسیر سے مطالب پیش کرنا۔
یہ آیت جس کی تفسیر میں آپ نے صرف ایک دو سطروں کا ایک حوالہ امامیہ کی طرف سے لکھا ، نہ اسکی تصدیق کی نہ ہی تردید۔ ظاہر ہے شیعہ حوالہ کیسے سنی مانے؟
سورہ الصافات، رکوع ۲ ايت ۲۴
وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔـوْلُوْنَ
ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ؛۔ اور ذرا ان کو ٹہراؤ کہ ابھی ان سے کچھ سوال کیا جائے گا۔
ترجمہ محمد حسین نجفی
اور انہیں ٹھہراؤ (ابھی) ان سے کچھ پوچھنا ہے۔
ترجمہ سنی ، کنزالایمان شریف؛۔ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز
اور انہیں ٹھہراؤ (ف ٢٥) ان سے پوچھنا ہے (ف ٢٦)
یاد رہے کہ اس آیت کا شان نزول قریش کی جانب ہے ، تفسیر روح القران ڈاکٹر اسلم صدیقی لکھتے ہیں؛۔
وَقِفُوْھُمْ اِنَّہُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ۔ مَالَـکُمْ لاَ تَنَاصَرُوْنَ۔ بَلْ ھُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُوْنَ۔ (الصآفات : ٢٤ تا ٤٦)
(اور ذرا انھیں روکو، بے شک ان سے کچھ پوچھا جائے گا۔ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔ بلکہ وہ آج اپنے آپ کو حوالے کیے دے رہے ہیں۔ )
منکرین کی تذلیل
فرشتے جب ان مجرموں کو جہنم کی طرف لے کر جارہے ہوں گے تو انھیں حکم ملے گا کہ انھیں کچھ دیر کے لیے روکو، ان سے کچھ پوچھنا ہے۔ یہ لے جائے جانے والے سب وہ لوگ ہیں جن میں ایک سے ایک بڑا باغی اور سرکش رہ چکا ہے۔ اور ان کے تکبر کا عالم یہ تھا کہ یہ اپنے پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی کسی بات کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ اور پھر یہ عام لوگ نہیں ان میں بیشتر لوگ دنیا میں بڑے سے بڑے مناصب پر فائز رہے ہیں۔ کوئی دنیوی جاہ و جلال کا دعویدار تھا اور کوئی علم و فضل میں کمالات کا، کسی کو اپنی مشیخیت پر ناز تھا اور کسی کو اپنے حسب و نسب کی برتری پر۔ لیکن آج یہ سب سر جھکائے خاموشی سے اس طرح حکم میں بندھے چلے جارہے ہوں گے کہ سب کی ہیکڑی نکل چکی ہوگی اور ہر ایک سراپا اطاعت بنا ہوا ہوگا۔ چنانچہ انھیں روک کر ان سے یہ پوچھا جائے گا کہ دنیا میں تم ایک دوسرے کے معاون و مددگار تھے، تم نے ہر برائی کو فروغ دینے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیا۔ تم میں اگر ایک قائد تھا تو دوسرے لوگ اس کی قیادت کا ایندھن بنے ہوئے تھے۔ اس کے لیے نعرے لگاتے، جھنڈے اٹھاتے اور اس کی سربلندی کے لیے پسینہ بہاتے اور مال صرف کرتے تھے۔ اور قائد اپنے پیروکاروں کی خاطر کیسے کیسے دکھ برداشت کرتے تھے۔ لیکن اپنی قیادت پر حرف نہیں آنے دیتے تھے۔ لیکن آج تم سب تنہا تنہا ایک دوسرے سے بیگانہ اپنی فکر میں مگن چلے جارہے ہو، آخر تم میں یہ تبدیلی کیوں آئی؟ اور پھر دوسرے لوگ جو ان شامت زدوں کا نظارہ کررہے ہوں گے انھیں متوجہ کرکے فرمایا گیا ہے کہ ذرا انھیں دیکھو کہ یہ تو پوری طرح اپنے آپ کو سپرد کیے دے رہے ہیں۔ اپنی سرکشی کو بھول کر مکمل طور پر سپرانداز ہوچکے ہیں۔ انھیں اپنے دائیں بائیں کا کوئی ہوش نہیں۔ کل تک وہ جن کے لیے جان کھپاتے تھے آج انھیں پوچھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ہر شخص کو اپنے انجام کی فکر ہے۔ دراصل یہ نقشہ کھینچ کر قریش کو توجہ دلائی جارہی ہے کہ تم آج اپنے جن تعلقات اور علاقات پر نازاں ہو اور جن وابستگیوں سے تم نے انپے گروہ بنا رکھے ہیں قیامت کے دن ان میں سے ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ وہاں ہر ایک کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اس لیے آج سوچ لو کہ کل تمھارے ساتھ کیا گزرنے والی ہے تاکہ آج اس کی کوئی تجویز کرسکو۔
تفسیر مظہری میں لکھا ہے؛۔
مفسرین فرماتے ہیں جب مشرکوں کو دوزخ کی طرف لےجایا جارہا ہوگا تو پل صراط کے پاس انہیں روک لیا جائے گا، ارشاد ہوگا انہیں روک لو ان سے بازپرس کی جائے گی۔ انھم مسئولون کا جملہ قفوا کی علت ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مشرکوں سے ان کے افعال و اقوال سب کے متعلق بازپرس ہوگی۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ ان سے لاالٰہ الااللہ کے متعلق سوال ہوگا۔ (بحوالہ تفسیر بغوی جلد ۴ ص ۵۵۸/۵۵۹ دارالفکر بيروت) مسلم نے ابوبرزہ اسلمی سے روایت کیا ہے کہ فرماتے ہیں رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا انسان کے پاؤں پل صراط سے جدا نہ ہوں گے حتیٰ کہ چارچیزوں کے متعلق اس سے بازپرس کرلی جائے گی۔ (ا) عمر کے متعلق سوال ہوگا کہ کن مشاغل میں بسر کی۔ (2) جسم کے متعلق سوال ہوگا کہ کس کام میں اسے کمزور کیا۔ (3) علم کے متعلق سوال ہوگا کہ اس پر کتنا عمل کیا۔(4) مال کے متعلق سوال ہوگا کہ کہاں سے مال کمایا اور پھر کس مقصد میں اسے خرچ کیا۔ (بحوالہ جامع ترمذی ص 2417)۔ امام احمد نے الزھد میں ابوالدرداء سے روایت کیا ہے کہ سب سے پہلے قیامت کے روز جو سوال ہوگا وہ یہ ہوگا کہ جو تجھے علم تھا اس پر عمل کتنا کیا۔
ابن ابی حاتم نے ابقع بن عبداللہ الکلاعی سے روایت کیا ہے کہ جہنم کے سات پل ہیں، ان پر پل صراط ہے، پہلے پل کے پاس لوگوں کوروکا جائے گاارشاد ہوگا، ان کو روک لو، ان سے بازپرس کی جائے گی۔ پس پہلے نماز کے متعلق محاسبہ ہوگا، اور نماز کے متعلق پوچھا جائے گا، پس جو ہلاک ہوگا وہ ہلاک ہوجائے گااور جو نجات پائے گا وہ نجات پاجائے گا جب دوسرے پل کے قریب پہنچیں گے تو امانت کے متعلق محاسبہ ہوگا کہ کیسے اسے ادا کیا اور کیا اور کیسے اس میں خیانت کی پس جو ہلاک ہوگا وہ ہلاک ہوجائے گااور جو نجات پائے گا وہ نجات پاجائے گا۔ جب تیسرے پل پر پہنچیں گے تو رشتہ داری کے متعلق سوال ہوگا کہ رشتہ داری کو کیسے قائم رکھا اور کیسے اسے توڑا، پس ہلاک ہوگا جو ہلاک ہوگا اورنجات پائے گا جونجات پائے گا۔ اس دن رحم (رشتہ قرابت) ہوا میں معلق ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے گا اے اللہ جس نے مجھے ملائے رکھا (آج) تو بھی اسے ملا اور جس نے (دنیا میں) مجھے توڑا (آج) تو بھی اسے توڑ دے)۔
تفسیر ضیا القرآن میں پیر کرم شاہ ازھری صاحب لکھتے ہیں؛۔
١٠ ف پہلے جہنم میں پھینکنے کا حکم دیا جائے گا، لیکن ان کی رسوائی میں اضافہ کرنے کے لئے انہیں پھر ٹھہرانے کا حکم ہوگا کہ ابھی نہیں ذرا ان کا حساب ہو لینے دو تاکہ تمام اہل محشر کو ان کے کفرو شرک، ان کی حرام خوریوں اور نا شکریوں کا علم ہوجائے اور سب کو پتہ چل جائے کہ دنیا میں جن کی عظمت کے ڈنکے بجتے تھے ان کا کیا حشر ہو رہا ہے۔
اللہ ہم سب کو معاف فرمائے۔ ایسے ہی دیگر مفسرین نے بھی لکھا ہےکہ جیسے تفسیر خزائن العرفان میں علامہ نعیم الدین مرادآبادی فرماتے ہیں؛۔
(ف 25) صراط کے پاس۔
(ف 26) حدیث شریف میں ہے کہ روز قیامت بندہ جگہ سے ہل نہ سکے گا جب تک چار باتیں اس سے نہ پوچھ لی جائیں (١) ایک اس کی عمر کہ کس کام میں گزری (٢) دوسرے اس کا علم کہ اس پر کیا عمل کیا (٣) تیسرے اس کا مال کہ کہاں سے کمایا کہاں خرچ کیا (٤) چوتھے اس کا جسم کہ اس کو کس کام میں لایا۔
یعنی الغرض آپ جو بھی تفسیر اٹھا کردیکھ لیں وہاں آپ کو یہی کچھ ملے گا جبکہ اپنے مولانا موصوف آف شیعیت نے اس سے کیا قلابے نکال کر ملائے ہیں وہ آپ پڑھ ہی چکے ہیں۔ آپ سوچیں کہ یہی چیزیں جب عام لوگوں تک پہنچتی ہیں بالکل وہابی دیوبندی کی طرح وہ شیعہ لوگ بھی اپنے مولانا پر بڑا فخر کررہے ہوں گے کہ سنیوں کی کتاب سے حوالے دیئے ہیں جبکہ اصلیت آپ لوگ پڑھ بھی چکے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی چکے ہیں۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا کہ قرآن پاک (جس کو تحریف زدہ) کہنے کی ناپاک جسارت بھی شیعہ ہی کرتا ہے، تو جب وہ وہاں جھوٹ بول سکتا ہے تو ہر ہر جگہ پر ہی تہمتیں اور جھوٹ و افتراء کیوں نہیں بول سکتا۔ یہی ان موصوف نے بھی کیا ہے۔ یہ ابھی صرف ایک صفحے پر میرا رد ہے اس میں ابھی بہت کچھ مزید بھی لکھا جاسکتا ہے تردید میں جسکی چنداں ضرورت نہیں رہ جاتی۔ بس یہی کہنا تھا کہ (لعنت اللہ علی الکاذبین) جو کہ قرآن شریف تک کی تفسیرات کو اپنے پہناوے دیتے ہیں۔ اللہ ہم سب مسلمان کلمہ گو کو ان جیسے فتنوں سے بچنے ، اپنا دین سمجھے اور سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے، اللہ رب العزت سے اپنے اور میرے گناہوں کی مغفرت کے لیئے دعا کی التجاء کے ساتھ فی امان اللہ۔
صواعق المحرقہ کی شیعی دلیل کا رد
امام ابن حجر مکی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی الصواعق المحرقہ میں کیا لکھا ہے ذرا وہ بھی پوری طرح بمع اوریجنل ترجمہ پڑھ لیں کہ اس کا ترجمہ کیا بنتا ہے اور اس سے شیعہ حضرت نے کیا نقطہ ء معرفت نکالا۔ اور ہاں یاد رہے یہاں مراد معاذ اللہ اہلبیت اطہار کی شان گھٹانا نہیں بلکہ جو لکھا ہے وہ پیش کرنا ہے۔
علامہ ابن حجر لکھتے ہیں؛۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وقفوھم انھم مسئولون۔ اور انہیں کھڑا کرو یہ پوچھے جائینگے۔
دیلمی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (وقفوھم انھم مسئولون) یعنی انہیں کھڑا کرو ان سے حضرت علی کی ولایت کے بارے میں پوچھا جائیگا۔ گویا یہ (الواحدی) کی مراد ہے کیونکہ اس سے وقفوھم انھم مسئولون کے متعلق مروی ہے۔ کہ وہ حضرت علی اور اہلبیت کی ولایت کے متعلق پوچھے جائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکمدیا ہے کہ وہ لوگوں کو بتادیں کہ وہ تبلیغ رسالت پر اقرباء کی محبت کے سوا کوئی اجر طلب نہ کریں گے۔ اور پوچھے جانے کا مفہوم یہ ہے کہ کیا انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق حق موالات ادا کیا ہے یا اسے ضائع کردیا ہے اور اسے ایک مہمل چیزخیال کیا ہے۔ اس کا ان سے مطالبہ ہوگا اور سزا ملے گی۔ اور “رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق کے الفاظ “میں ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جو اس بارے میں آئی ہیں اور وہ بہت سی ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ فصل دوم میں ہوگا۔
یعنی معلوم ہوا کہ یہ حدیث باب فضیلت اہلبیت میں امام ابن حجر نے دراصل اپنی بات نہیں بلکہ واحدی کی بات بیان کیا ہے۔ جیسا کہ امام آلوسی نے امامیہ کی بات بیان کی تھی۔ نیز اس کے صحیح یا غلط ہونے پر کوئی بیان نہیں دیا۔ کیونکہ یہ فضیلت پر روایات ہیں اور اہلسنت کا معمول ہے کہ اعمال اور فضائل میں ضعیف حدیث بھی مقبول ٹھہرتی ہے۔ اس کے علاوہ امام یہاں پر جس متن اور پیرایہ میں بات کر رہے ہیں وہ ولایت پر ٹھیک اس سے چند صفحات آگے اور بعد میں شیعوں کا ہی رد بھی پیش فرمارہے ہیں ، اس کے علاوہ ایک جواب یہ بھی ہے کہ اس حدیث سے تبرا کا جائز ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟ اسی کتاب میں وہ روایت بھی تو ہے کہ جس میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا۔ کہ مجھ پر صلوٰۃ تبراء نہ بھیجا کرو۔ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ صلوٰۃ تبراء کیا ہے؟ فرمایا تم کہتے ہو اللھم صل علی محمد اور رُک جاتے ہو۔ بلکہ تم کہا کرو اللھم صل علی محمد وآل محمد۔ صحیحین میں جو آل کے لفظ کو حذف کیا گیا ہے وہ اس کے منافی نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ ہم آپ پر کیسے صلوٰۃ پڑھیں۔ فرمایا کہا کرو! اللھم صلی علی محمد وعلی ازواجہ زریتہ کما صلیت ابراھیم الی آخرہ۔ اس لیئے کہ آل کا ذکر دوسری روایات سے ثابت ہے اور وہیں سے معلوم ہوتا ہے۔ اور پھر اسی متن کے حساب سے تشہد میں جو سلام بھجا جاتا ہے اس پر بیان دیا ہے۔ فقہ شافعی اور فقہ حنفی کے فروعی اختلاف کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور امام ابن حجر آگے لکھتے ہیں
ان میں سے ایک حدیث مسلم میں زید بن ارقم سے بیان ہوئی ہے کہ رسول کریم علیہ السلام ہم میں خطبہ دینے کے لیئے کھڑے ہوئے اور حمد وثنا کے بعد فرمایا؛ اے لوگو! میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ ممکن ہے میرے رب کا ایلچی میرے پاس آئے اور میں اسے جواب دوں۔ میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں۔ ان میں سے ایک تو اللہ کی کتاب ہے ۔ جس میں نور وہدایت ہے۔ پس کتاب الٰہی سے تمسک کرو اور اسے مضبوطی سے پکڑلو اور آپ نے اس کے متعلق بڑی رغبت اور ترغیب دلائی پھر فرمایا۔ دوسرے اہلبیت ہیں۔ آپ نے تین بار فرمایا میں تم کو اپنے اہلبیت کے متعلق اللہ کا حکم یاد دلاتا ہوں۔ زید سے پوچھا گیا ۔ آپ کے اہلبیت کون ہیں کیا آپ کی بیویاں اہلبیت میں سے نہیں؟ آپ نے فرمایا بےشک آپ علیہ السلام کی بیویاں اہلبیت میں سے ہیں۔ لیکن اہلبیت وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ پوچھا گیا وہ کون ہیں؟۔ فرمایا وہ آل ِ علی ، آلِ عقیل اور آلِ عباس ہیں۔ پوچھا گیا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے فرمایا ہاں۔
یعنی ثابت ہوا کہ نمبر ایک۔ یہ قول واحدی کا ہے نا کہ ابن حجر کا جس کو شیعہ حضرت نے اپنے مفاد میں جھوٹ بول کر لکھا کہ یہ ابن حجر کا قول ہے۔ نیز اس پر کوئی جرح نہیں کی جسکی وجہ بھی پہلے میں نے درج کردی۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کا فرمانا کہ اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ یعنی اللہ کی کتاب کیا؟ قرآن مجید۔ اور یہ وہی قرآن مجید ہے جس کے متعلق انہیں شیعہ حضرات کا تحریف کا دعویٰ غلط بے بنیاد اور کذب ہے۔ اور یہ عقیدہ صریحاً نبی علیہ السلام کے اس فرمان کی نافرمانی ہے۔ نیز ذرا یہ بھی سوچیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک کے مطابق آپ کی امت کی اکثریت کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی، تو پھر ظاہر ہے یہ اسی صورت میں ہوتا ہے کہ جب تعلیمات سے ہٹا نہ جائے۔ اب شیعہ حضرات تو ہٹ چکے ہیں امت سے اپنا راستہ عقائد کیوجہ سے جدا کرکے۔ کیونکہ تحریف کا عقیدہ ایک بہت گندہ عقیدہ کفر ہے۔ پھر یہ وہی اہلبیت ہیں کہ جن میں سےآل عباس کے متعلق اور آل عقیل کے متعلق بھی بعض شیعہ گروہ تبراء کرتے ہیں جیسے کہ محمد بن حنفیہ کے خلاف۔ تو حضرت ہمیں حدیث پیش کرنے کی بجائے ان احادیث پر خود بھی عمل کریں۔ اور براہ مہربانی جھوٹ بول کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے تقیہ کا فرض نبھایا اور اس سے اللہ بہت خوش ہوا ہوگا کہ بڑا اچھا کام کیا ۔