Post by zarbehaq on Nov 25, 2015 12:19:48 GMT
استعانت (غیراللہ سے مدد) کا صحیح تصور
ایاک نستعین کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
دریں جاباید فہمید کہ استعانت از غیر بوجہے کہ اعتماد برآں غیرباشددادرا مظہرعون الٰہی نداند حرام است واگر التفات محض بجانب حق است و اُورایکے از مظاہر عون دانستہ ونظر بکارخانہءاسباب وحکمت اوتعالیٰ دراں نمود بغیر استعانت ظاہر نمائد ورازعرفاں نخواہد بودودرشرع نیز جائزوروااست وانبیاء واولیاء ایں نوع استعانت بغیر کردہ اند ودرحقیقت ایں نوع استعانت بغیر نیست بلکہ استعانت بحضرت حق است لاغیر
حوالہ ؛۔ تفسیر عزیزی جلد اول دہلی مطبع مجتبائی ص 8
ترجمہ؛۔
اس جگہ یہ سمجھنا چاہیئے کہ غیر سے اس طرح استعانت حرام ہے کہ اعتماد اس غیر پر پو اور اسے اللہ تعالیٰ کی امداد کا مظہر نہ جانے، اور اگر توجہ محض اللہ تعالیٰ کی طرف ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کی امداد کا مظہر جانے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت اور کارخانہ اسباب پر نظر کرتے ہوئے اس غیر سے ظاہری استعانت کرے تو یہ راہِ معرفت سے دور نہ ہوگا اور شریعت میں جائز اور روا ہے، اس قسم کی استعانت انبیاء و اولیاء نے غیر سے کی ہے، درحقیقت استعانت کی یہ قسم غیر سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی سے ہے۔
سورہ عبس پارہ ۳۰ کی تفسیر میں لکھتے ہیں؛۔
از اولیائے مدفونین و دیگر صلحائے مومنین انتفاع واستفادہ جاری است وآنہارا افادہ و اعانت نیز مقصود۔
ترجمہ؛۔ یعنی مدفون اولیائے کرام اور دیگر نیک مانین سے نفع اٹھانے اور فائدہ حاصل کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ان کو فائدہ پہنچانے کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔
اسی تفسیر عزیزی میں تیسری جگہ سورہ انشقت پارہ 30 کی تفسیر میں فرماتے ہیں؛۔
بعضے از خواص اولیاء اللہ را کہ آلہ جارحہ تکمیل وارشاد بنی نوع دیگر خود گردانیدہ اند دریں حالت ہم تصرف دردنیا دادہ واستغراق آنہا بہ جہت کمال وسعت تدارک آنہا مانع توجہ بایں سمت نمے گرودواویسیاں تحصیل کمالات باطنی آنہامے نمائندہ و ارباب حاجات ومطالب حل ومشکلات خوداز آنہامے طلبند ومی پابند وزبان حال دراں وقت ہم مترنم بایں مقالات است (من آیم بجاں گرتوآئی بہ تن)
ترجمہ؛۔
بعض اولیائے اللہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے بندوں کی ہدایت وارشاد کے لیے پیدا کیا، ان کو اس حالت میں بھی اس عالم کے تصرف کا حکم ہوا ہے اور اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، ان کا استغراق بوجہ کمال وسعت تدارک انہیں روکتا ہے ، اور اویسی سلسلہ کے لوگ باطنی کمالات انہی سے حاصل کرتے ہیں، حاجتمند اوراہل غرض لوگ اپنی مشکلات کا حل انہی سے چاہتے ہیں اور جو چاہتے ہیں وہ پاتے بھی ہیں اور زبانِ حال سے یہ ترنم سے پڑھتے ہیں (اگر تم میری طرف بدن سے آوگے تو میں تمہاری جان سے آؤں گا)۔
الحمدللہ یہی مسلک حق اہلسنت وجماعت کا عقیدہ ہے، آیت ایاک نعبد وایاک نستعین کے تفسیر میں ترجمہ (کنزالایمان شریف) کا حاشیہ (تفسیر خزائن العرفان) مطالعہ کیا جائے ۔ لیکن یہی عقائد رکھنے پر (دیوبند) نے سارے مسلمانوں کو (بریلوی) بنا رکھا ہے یا ڈکلیئر کررکھا ہے لیکن خود ان کا اپنا عقیدہ اسکے بالکل خلاف ہے اور پورا پورا غیرمقلدین کے مذہب پر ہے اور ان کا موجودہ عقیدہ اپنے اکابرین سے الٹ ہوکر اب یہ ہے کہ استعانت یعنی توسل یعنی غیراللہ سے مدد کو یہ لوگ کفر شرک بدعت قرار دینے لگ گئے ہیں۔
اھل قبور سے استمداد
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں؛۔
اہل قبور میں سے بعض بزرگ کمال میں مشہور ہیں اور ان کا کمال متواتر طور پر ثابت ہے، ان بزرگوں سے استمداد کا طریقہ یہ ہے کہ اس بزرگ کی قبر کے سرہانیکی جانب قبر پر انگلی رکھے اور شروع میں سورہ بقرہ سے مفلحون تک پڑھے، پھر قبر کے پائنتیوں کی طرف سے جاوے اور (امن الرسول) آخر سورۃ تک پڑھے اور زبان سے کہے کہ اے میرے حضرت فلاں کام کے لیئے درگاہِ الٰہی میں دعا و التجاء کرتا ہوں، آپ بھی دعا کریں، پھر قبلہ کی طرف منہ کرکے اپنی حاجت کے لیئے اللہ تعالیٰ سے دعا و التجا کرے
حوالہ؛۔ کمالاتِ عزیزی مرتبہ، ظہیر الدین دہلوی، کراچی ایچ ایم سعید اینڈ کمپنی ص 48، 1982 ط
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کو دھاندلی سے اپنا بزرگ بتانے والے (یعنی موجودہ دیوبندی دھرم) کیا اہل قبور سے اس طرح مدد کے قائل ہیں؟
اگر نہیں تو اس طریقہ مدد کو بتانے والے حضرت شاہ صاحب پر کیا فتویٰ ہے؟
وسیلہ عظمیٰ
طبرانی نے معجم الصغیر اور حاکم اور نعیم و بیہقی نے حضرت امیرالمؤمنین عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت علیہ السلام نے فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام سے لغزش سرزد ہوئی اور ان پر عتاب الٰہی نازل ہوا ، توبہ قبول ہونے میں حیران تھے کہ اتنے میں ان کو یاد آیا کہ مجھ کو جس وقت خداتعالیٰ نے پ یدا کیا تھا اور روح میرے اندر پھونکی تھی، اس وقت میں نے اپنے سر کو عرش کی طرف اٹھایا تھا، اس جگہ لکھا دیکھا تھا (لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ) ، یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ قدر کسی شخص کی اللہ کے نزدیک برابرقدراس شخص کے نہیں، کہ نام اس کا اپنے نام کے ساتھ برابر رکھا ہے، تدبیر یہ ہے کہ میں بحق اسی شخص کے سوال مغفرت کروں، پس دعا میں کہا، اسئلک بحق محمد ان تغفرلی۔۔۔۔۔ حق تعالیٰ نے ان کی بخشش کی اور وحی بھیجی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کہاں جانا تونےِ ، انہوں نے تمام ماجرا عرض کیا ، حکم ہوا کہ اے آدم! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سب پیغمبروں سے پچھلا پیغمبر ہے اور تیری اولاد میں سے ہے، اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھ کو پیدا نہ کرتا۔ (حوالہ تفسیر عزیزی)
پاک وہند کے غیرمقلدین ، سعودی وہابیوں کی تقلید میں اعمال صالحہ کے وسیلہ کے تو قائل ہیں مگر ذوات کے وسیلہ کا انکار کرتے ہیں کہ کسی بھی بزرگ نیک صالح شخص کی ذات کو وسیلہ ماننا شرک ہے، جو لوگ حج پر جاتے ہیں انہیں حرم پاک میں وعظ کے ذریعے اور لٹریچر کے زریعے یہی تبلیغ کی جاتی ہے، ان تمام غیرمقلدین کے سند فراغت میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا نام لکھا ہوتا ہے، شاہ عبدالعزیز نے حضور علیہ السلام کی ذاتِ اقدس کے وسیلہ کی تائید میں مذکورہ بالا حدیث نقل فرمائی ہے، اور انہوں نے اسکی تردید نہیں کی، کیا غیرمقلدین کا اپنے استاذ الاساتذہ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کے متعلق شرک کا فتویٰ ہے یا آنکھیں، کان منہ بند اور قلم کی حرکت بند؟ یا آیا حضرت شاہ صاحبان بھی بریلوی تھے؟
مسئلہ حاضر و ناظر اور اکابرین کا عقیدہ ء بریلویت
شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی تفسیرءعزیزی میں (ویکون الرسول علیکم شہیدا) کے تحت فرماتے ہیں
یعنی وباشد رسول شما برشماگواہ زیرا کہ او مطلع است بنور نبوت بررتبہ ہرمتدین بدین طور کہ درکدام درجہ از دین من رسیدہ و حقیقت ایمان اوچیست وحجابے کہ بداں از ترقی محجوب ماندہ است کدام است پس اومے شناسد گناہاں شماراودرجات ایمان شماراواخلاص ونفاق شماراولہٰذا شہادت او دردنیا وآخرت بہ حکم شرع درحقیقت امت مقبول وواجب العمل است
ترجمہ
یعنی تمہارے رسول تم پر گواہ ہیں کیونکہ حضورعلیہ السلام نور نبوت سے ہردیندار کے اس رتبہ پر مطلع ہہیں کہ جس تک وہ پہنچا ہوا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے، اور اس حجاب سے بھی واقف ہیں کہ جس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، تو حضور علیہ السلام تمہارے گناہوں کو اور تمہارے درجات ء ایمان کو اور تمہارے نیک وبداعمال کو اور تمہارے اخلاص ونفاق کو جانتے اور پہچانتے ہیں، اسی لیئے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شہادت دنیا وآخرت میں بحکم شرع امت کے حق میں مقبول اور واجب العمل ہے۔
دنیا کے تمام وہابیوں، نجدیوں، تبلیغیوں سے سوال ہے کہ شاہ عبدالعزیز دہلوی رح نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جس عقیدہ کا اظہار کیا ہے، کیا ایسا عقیدہ رکھنا ایمان ہے یا شرک؟
شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی تفسیرءعزیزی میں (ویکون الرسول علیکم شہیدا) کے تحت فرماتے ہیں
یعنی وباشد رسول شما برشماگواہ زیرا کہ او مطلع است بنور نبوت بررتبہ ہرمتدین بدین طور کہ درکدام درجہ از دین من رسیدہ و حقیقت ایمان اوچیست وحجابے کہ بداں از ترقی محجوب ماندہ است کدام است پس اومے شناسد گناہاں شماراودرجات ایمان شماراواخلاص ونفاق شماراولہٰذا شہادت او دردنیا وآخرت بہ حکم شرع درحقیقت امت مقبول وواجب العمل است
ترجمہ
یعنی تمہارے رسول تم پر گواہ ہیں کیونکہ حضورعلیہ السلام نور نبوت سے ہردیندار کے اس رتبہ پر مطلع ہہیں کہ جس تک وہ پہنچا ہوا ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے، اور اس حجاب سے بھی واقف ہیں کہ جس کی وجہ سے رکا ہوا ہے، تو حضور علیہ السلام تمہارے گناہوں کو اور تمہارے درجات ء ایمان کو اور تمہارے نیک وبداعمال کو اور تمہارے اخلاص ونفاق کو جانتے اور پہچانتے ہیں، اسی لیئے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شہادت دنیا وآخرت میں بحکم شرع امت کے حق میں مقبول اور واجب العمل ہے۔
دنیا کے تمام وہابیوں، نجدیوں، تبلیغیوں سے سوال ہے کہ شاہ عبدالعزیز دہلوی رح نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جس عقیدہ کا اظہار کیا ہے، کیا ایسا عقیدہ رکھنا ایمان ہے یا شرک؟
علم غیب اور حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کا بریلوی عقیدہ!۔
سورہ جن پارہ 29 کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں؛۔
مطلع نمی کند برغیب خاص خود ہیچ کس را کہ رفع تلبس واشتباہ وخطائے کلی برآں اطلاع باشد مگر کسے کہ پسند مکیند وآں کس رسول باشد خواہ از جنس ملک و خواہ از جنس بشر مثل حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام اورا اظہار برغیوب خاصہ می فرمائید۔
ترجمہ
اللہ تعالیٰ اپنے غیوب خاص پر کسی کو اسطرح مطلع نہیں فرماتا کہ بغیر کسی شک وشبہ وخطاء کے یقینی اطلاع اسے ہوجائے مگر وہ شخص جسے اللہ پسند فرمائے اور رسول ہو، خواہ ملائکہ میں سے ہو، خواہ انسانوں میں سے جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، اس رسول کو اپنے خاص غیبوں پر مطلع فرما دیتا ہے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی کے زبردستی کے جانشینوں یعنی (وہابی ، دیوبندی) سے سوال ہے کہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب حضور علیہ السلام کو اللہ کے خاص غیبوں پر مطلع ہونا لکھ رہے ہیں، تو یہی عقیدہ ہم صوفیوں کا بھی ہے، تو ایسا عقیدہ ہم رکھیں تو ہم کافر مشرک بدعتی یا پھر بریلوی فرقہ؟ اور اگر شاہ صاحب ہوں تو؟
عدم سایہ ء رسول (یعنی نبی علیہ السلام کا سایہ مبارکہ نہ تھا کا عقیدہ) اور شاہ صاحب کی بریلویت؟
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛۔
وسایہ ایشاں برزمین نمی افتاد ۔ حوالہ تفسیر فتح العزیز پارہ 30 مطبوعہ مجتبائی دہلی ص 219
ترجمہ ؛
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہ پڑتا تھا۔
تمام وہابیہ سے سوال ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے حضور علیہ السلام کا تاریک سایہ نہ مان کر مسلک حق اہلسنت یعنی بریلوی کی تائید کی ہے یا تردید؟
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا عقیدہ ء نذر و نیاز اور (غیرمقلد و نیم غیرمقلد کےمنہ پر تھپڑ)۔
حضرت شاہ صاحب نے لکھا ہے؛۔
حضرت امیر وذریت وراتمام امت برمثال پیران ومرشدان می پرستند وامور تکوینیہ رابایشاں وابستہ می دانند وفاتحہ ودرود وصدقات ونذر ومنت بنام ایشاں،،،،رائج ومعمول گردیدہ چنانچہ باجمیع اولیاء اللہ ہمیں معاملہ است۔
ترجمہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولادِ پاک کو تمام افرادِ امت پیروں اور مرشدوں کی طرح مانتےہیں، امور تکوینیہ کو ان کے ساتھ وابستہ جانتے ہیں، اور فاتحہ درود و صدقات اور نذرنیاز ان کے نام کی ہمیشہ کرتے ہیں جیسا کہ تمام اولیاء کا یہی طریقہ و معمول ہے
حوالہ ؛ تحفہ اثناء عشریہ لاہور، سہیل اکیڈمی ص 214 اشاعت 1975
یاد رہے مشہوردیوبندی ناشر نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی نے تحفہ اثناء عشریہ کا جو اردو ترجمہ شائع کیا ہے اس میں اس عبارت کا ترجمہ غائب کردیا گیا۔
دیوبندیوں ، وہابیوں ، تبلیغیوں سے سوال ہے کہ حضرت شاہ عبدالعزیز دہولی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نذر نیاز کے بارے میں تمام امت مسلمہ کے جس عقیدے کا ذکر کیا ہے اور شرک کا کوئی فتویٰ نہیں لگایا ، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ ۔۔۔۔۔ کیا حضرت شاہ صاحب بریلوی تھے؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
حضرت شاہ صاحب نے لکھا ہے؛۔
حضرت امیر وذریت وراتمام امت برمثال پیران ومرشدان می پرستند وامور تکوینیہ رابایشاں وابستہ می دانند وفاتحہ ودرود وصدقات ونذر ومنت بنام ایشاں،،،،رائج ومعمول گردیدہ چنانچہ باجمیع اولیاء اللہ ہمیں معاملہ است۔
ترجمہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولادِ پاک کو تمام افرادِ امت پیروں اور مرشدوں کی طرح مانتےہیں، امور تکوینیہ کو ان کے ساتھ وابستہ جانتے ہیں، اور فاتحہ درود و صدقات اور نذرنیاز ان کے نام کی ہمیشہ کرتے ہیں جیسا کہ تمام اولیاء کا یہی طریقہ و معمول ہے
حوالہ ؛ تحفہ اثناء عشریہ لاہور، سہیل اکیڈمی ص 214 اشاعت 1975
یاد رہے مشہوردیوبندی ناشر نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی نے تحفہ اثناء عشریہ کا جو اردو ترجمہ شائع کیا ہے اس میں اس عبارت کا ترجمہ غائب کردیا گیا۔
دیوبندیوں ، وہابیوں ، تبلیغیوں سے سوال ہے کہ حضرت شاہ عبدالعزیز دہولی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نذر نیاز کے بارے میں تمام امت مسلمہ کے جس عقیدے کا ذکر کیا ہے اور شرک کا کوئی فتویٰ نہیں لگایا ، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ ۔۔۔۔۔ کیا حضرت شاہ صاحب بریلوی تھے؟
موجودہ دیوبندی دھرم (جو کہ اسماعیل دہلوی کی وہابیت پر عمل پیرا ہیں) اور جن کا عقیدہ ہے کہ (کسی رسول ولی وغیرہ کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا) وہ ذرا اس کو پڑھیں
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ (بستان المحدثین) میں شیخ قاضی حسین بن اسماعیل بن محمد طیبی محاملی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ متوفی 330ھ کے متعلق لکھ رہےہیں؛۔
محمد بن الحسین کہ یکے از بزرگان آن عہد بود گفتہ است کہ من بخواب دیدم کہ گویا گویندمی گوید حق تعالیٰ از اہل بغداد ببرکت محاملی بلا رادفع می کنند
ترجمہ؛۔
محمد بن حسین نے جو اس عہد کے بزرگ شخص ہیں، بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے کہ حق تعالیٰ اہل بغداد پرسے حضرت محاملی علیہ الرحمہ کے طفیل اور ان کی برکت سے بلا کو دفع کرتا ہے۔
وہابی دیوبندیہ سے سوال ہے کہ حضرت شاہ صاحب جن کو (اپنا بڑا) ماننے کا دعویٰ ء غلط وہابی دیوبندی بھی کرتے ہیں نے ایک مسلمان بزرگ کو بلاؤں و آفات کے دفع ہونے کا سبب لکھا ہے، کیا ایسا عقیدہ لکھنا شرک کی تائید کرنا ہے یا نہیں؟ حضرت شاہ صاحب نے ایسی بات کیوں لکھ دی؟
اب شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی بات مانیں یا اوپر دیا ہوا اسماعیلی دہلوی دیوبندیت کے عقیدہ کو مانیں؟
نیم مقلد اور غیرمقلد متوجہ ہوں ۔ دیوبندی وہابی دھرم کے مطابق ، نبی تک کو کچھ علم نہیں ہوتا (معاذ اللہ) بلکہ نبی کو تو دیوار کے پیچھے تک کا علم نہیں (معاذ اللہ) بلکہ یہ بھی عقیدہ ء دیوبند ہے کہ شیطان کا علم اور ملک الموت کا علم بھی نبی کے علم سے زیادہ ہے اور یہ بھی کہ ہر پاگل زید صبی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان تمام عقائد جو آج دیوبند میں رائج ہیں ان کا حاصل وصول یہ ہے کہ انبیاء و اولیاء کو کچھ علم نہیں ہوتا۔ اب وہی لوگ ذرا یہ پڑھیں
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (بستان المحدثین) میں لکھتے ہیں؛۔
علامہ محدث ابن حجر عسقلانی شافعی مصری (شارح صحیح بخاری) رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 852ھ) کے والد کی اولاد نہ رہتی تھی۔ وہ ایک دن شکستہ خاطر اور رنجیدہ ہوکر مشہور صاحبِ کرامت ولی اللہ حضرت صناقبری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے تو شیخ نے فرمایا ! تیری پشت سے ایک فرزند پیدا ہوگا جو اپنے علم سے دنیا کو مالامال کردے گا
وہابیہ دیوبندیہ سے سوال ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے محدث ابن حجر علیہ الرحمتہ کے والد ماجد کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ دعا کے لیئے ایک بزرگ کے پاس گئے ، کیا اللہ تعالیٰ ان کی نہیں سنتا تھا؟ پھر ان بزرگ کو کیا پتا کہ پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی؟ امید ہے کہ منکرینِ علم الاولیاء اس بارے میں وضاحت کریں گے کہ ہم اسماعیل دہلوی کی مانیں یا شاہ صاحب عبدالعزیز کی؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔