Post by Admin on Nov 25, 2015 13:34:01 GMT
Pointing out Wrong Interpretation and misguiding people through wrong comment and its refutation
شب براءت کی فضیلت میں وارد حدیث شریف کا جائزہ اور وہابی گمراہی اور خیانت
عن عائشہ قالت فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃً فخرجت فاذا ھو بالبقیع فقال اکنت تخافین ان یحیف اللہ علیک ورسولہ قلت یارسول اللہ انی ظننت انک اتیت بعض نسائک ۔ فقال ان اللہ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی السماء الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب
ترجمہ
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں ایک رات حضور اکرم علیہ السلام کو نہ پائی، میں نکلی اور دیکھا کہ آپ بقیع میں تشریف فرما ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں؟ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے خیال کیا کہ آپ کسی اور زوجہء مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شب براءت کو آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور بنی کلب کی بکریں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
جامع ترمذی شریف ۔ باب الصیام ۔ ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان جلد 2 ص ۱۷۹ و ۱۸۰ انگریزی دارالسلام
تفصیلات؛
سب سے پہلے کہ اس میں یعنی عکس میں جو کچھ دکھ رہا ہے اس میں بھی وہابیوں نے ڈنڈی ماری ہے۔ اور وہ ایسے ماری ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو ضعیف تو قرار دیا ہی ہے حالانکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ امام ترمذی نے اگلے ہی جملے میں فرمایا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت کی گئی ہے جو کہ صحیح حدیث ہے لیکن عیاری دیکھیں کہ کمنٹس کے نام سے لکھا ہے کہ امام سیوطی ، ابو طالب مکی، امام غزالی اور شیخ عبدالقادر جیلانی سے بہت سے ضعیف احادیث بھی مروی ہیں نصف الشعبان یا شعبان کی پندرھویں کی بابت میں۔ اور بکواس میں لکھا ہے کہ ساری بے بنیاد ہیں (یہ ان منکروں کی اپنی اختراع ہے) اب ذرا ہم اس حدیث اور پھر اسکے بعد ان کی اس بکواس کا رد مستند حوالوں سے کرتے ہیں۔
ردِ وہابیت
جامع ترمذی شریف میں وارد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیث پاک متعدد دیگر صحابہ کرام سے کئی ایک ذخائرِ حدیث، سنن وجوامع، معاجم و مسانید میں مختلف اسانید کے ساتھ مذکور ہے۔ چنانچہ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ (یہ روایت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے)۔
اب وہابی عیاری دیکھیں کہ انہوں نے بجائے اپنی بکواس کو علیحدہ لکھنے کے ڈائریکٹ حدیث کے نیچھے (سم تھنگ آن دِس ٹاپک) سے شروع کیا ہے جو کہ ہرگز ہرگز امام ترمذی کا قول نہیں بلکہ انہوں نے انگریزی میں ترجمہ کرتے وقت ڈائریکٹ اپنی ڈنڈٰ ی ماری ہے جس کو تحریف کہتے ہیں۔
اب ہم آپ کو صحیح اسانید بتاتےہیں جنکی وجہ سے اس روایت کو بھی تقویت ملتی ہے اور جائز ٹھہرتی ہے
یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جامع ترمذی کے علاوہ سنن ابن ماجہ، مسند امام احمد، مصنف ابن ابی شیبہ، بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث، امام ابن بطۃ کی الابانۃ الکبریٰ ، امام بیہقی کی شعب الایمان، مسند عبد بن حمید ، امام بغوی کی شرح السنۃ اور مسند اسحٰق راھویہ میں موجود ہے۔ یہ رہے حوالہ جات
سنن ابن ماجه ، ابواب اقامۀ الصلاۀ والسنته فيها ، باب ماجا في ليلته النصف الشعبان ، ح نمبر ۱۴۵۲/بغيته الباحث عن زوائد مسند الحارث للهيثمي ح نمبر ۳۳۵/ اخبار مکته للفاکهاني ، ذکر عمل اهل مکه حديث ۱۷۷۴ / الابانته الکبري لابن بطته، باب ذکر مناظرات حديث نمبر ۲۵۶۶ / شعب الايمان للبيهقي ، ماجا في ليلته نصف الشعبان حديث نمبر ۳۸۲۴ و ۳۶۶۵ / مسند عبد بن حميد ،مسند الصديقته العائشته حديث ۱۵۱۴ / شرح السنته للبغوي ، کتاب الصلاۀ، مسند اسځق بن راهويه ، مايروي عن عروته عن عائشته حديث نمبر ۸۵۰ و ۱۷۰۰
اسکے علاوہ
مذکورہ روایت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے امام بغوی کی شرح سنۃ ، امام فاکہانی متوفی 353ھ کی اخبار مکۃ، امام ابن بطۃ متوفی 387ھ کی الابانۃ الکبریٰ ، امام بیہقی کی شعب الایمان اور مسند البزار میں موجود ہے اور یہی روایت حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے سنن ابن ماجہ میں مذکور ہے ۔ حضرت عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے امام بیہقی کی شعب الایمان مین بھی لکھا ہے اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مسند احمد بن حنبل اور امام ہیثمی کی غایۃ المقصد فی زوائد المسند میں ہے۔ مسند احمد بن حنبل ،عبدالله بن عمرو، حديث ۶۸۰۱ ، غايته المقصد کتاب الادب باب ماجا في الهجران
حضرت معاذ بن جبل رضي الله عنه سے امام طبراني کي معجم الکبير، حديث نمبر ۳۷۸ . حلته الاوليا مکحول الشامي . شعب الايمان للبيهقي حديث نمبر ۳۶۷۸ ، و، ۶۳۵۲ . صحيح ابن حبان کتاب الحظر ،حديث نمبر ۵۷۵۷ / حضرت ابوثعلبه رضي الله عنه سے طبراني از معجم کبير، شعب الايمان للبيهقي ، السنن الصغري میں بھی مروی ہے
مزید حوالہ جات
معجم الکبير طبراني ، باب اللام الف، حديث نمبر ۵۹۳
شعب الايمان للبيهقي حديث نمبر ۳۶۷۳
سنن الصغري للبيهقي کتاب الصيام ح ۱۴۵۸
مسند البزار ، مسند عوف بن مالک الاشجعي ، ح ۲۷۵۴
معجم الاوسط للطبراني باب الميم حديث ۶۹۶۷
صحيح ابن حبان کتاب الحظر والاباحته ،ح، ۵۶۶۵
روايت از حضرت ابوسعيد خدري رضي الله عنه / شعب الايمان ح ۳۸۳۷
سيدنا علي رضي الله عنه سے سنن ابن ماجه حديث ۱۴۵۱ ، و بيهقي ۳۶۶۴
اس کے علاوہ حضرات تابعین مثلاً کثیر بن مرۃ حضرمی ، یحییٰ بن ابوکثیر، وغیرہ سے مرسل روایتیں مذکورہ کتبِ احادیث میں موجود ہیں
یہ صرف ان محدثین کی کتابوں کے حوالجات ہیں جنہوں نے اپنی روایت کردہ احادیث مبارکہ اسانید کے ساتھ جمع فرمائی ہیں، بعد ازاں تنقیح و تہذیب کرنے والے متعدد محدثین نے اسے اپنی کتابوں میں درج کیا، چنانچہ پندرھویں شعبان کی فضیلت کی یہ روایتیں مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، جامع الاحادیث ، جمع الجوامع ، جامع الاصول من احادیث الرسول ، الترغیب والترھیب ، مشکوٰۃ المصابیح ، زجاجۃ المصابیح، اور دیگر کتابِ احادیث میں منقول ہیں۔
امام ترمذی کی سند کے روای (حجاج بن ارطاۃ) کی وجہ سے حدیث ضعیف قرار دی گئی ، ویسے تو (حجاج بن ارطاۃ) کے بارے میں خود ائمہ جرح وتعدیل کے مختلف اقوال ملتے ہیں ، یحیٰ بن قطان، حماد بن زید، امام احمد، اور امام ذہبی نے ان کی تعدیل کرتے ہوئے حفاظِ حدیث میں شمار کیا ہے۔ قطع نظر اسکے دس صحابہ کرام سے کئ ایک طرق کے ساتھ محدثین کی ایک بڑی تعداد نے اسی طرح کی روایتیں ذکر کی ہیں، جس سے شب برات کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
لہٰذا وہابی خائن کا یہ کہنا بالکل غلط اور گمراہی پر مشتمل ہے ۔ علامہ سیوطی ، امام غزالی جو کہ حجتہ الاسلام ہیں اور شیخ سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہما سب کے سب ثقہ ہیں محدث ہیں اور فقیہہ و اولیاء میں شمار ہوتے ہیں، ہم آجکے وہابی دیوبندی فتنے کی بجائے سلف کی روایت پر اعتماد رکھیں گے اپنا۔
علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں امام طبرانی کی معجم کبیر و معجم اوسط سے روایت نقل کرنے کے بعد روایوں کی توثیق و تعدیل کرتے ہوئے لکھا: ورجالھما ثقات ۔ ترجمہ اور ان دونوں احادیث کے راوی معتبر وثقہ ہیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے بارے میں اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ روایت ضعیف ہے تب بھی اسے ناقابل عمل نہیں کہاجاسکتا، اس لیئے کہ اس حدیث شریف سے شب براءت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جبکہ ناقدینِ حدیث و ائمہ جرح و تعدیل کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث فضائل کے باب میں مقبول، قابلِ عمل اور لائق استدلال ہے اور اس کا ثبوت بھی ہم آپ کو ابھی دیتے ہیں
شارح بخاری، صاحب فتح الباری حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ نے المطالب العالیہ میں ایک مستقل باب ہی یہ باندھا ہے، (باب العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال) یعنی فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا بیان، اس باب کے تحت مندرجہ ذیل حدیث پاک نقل کی ؛
عن انس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من بلغہ عن اللہ تعالیٰ فضیلۃ فلم یصدق بھا لم ینلھا ۔
ترجمہ؛۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی فضیلت کی بات پہنچے اور اس نے اس کی تصدیق نہیں کی تو وہ اس فضیلت سے محروم رہے گا۔
حوالہ المطالب العالیۃ ؛ کتاب العلم حدیث نمبر ۳۱۳۳
اختتام شد
شب براءت کی فضیلت میں وارد حدیث شریف کا جائزہ اور وہابی گمراہی اور خیانت
عن عائشہ قالت فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃً فخرجت فاذا ھو بالبقیع فقال اکنت تخافین ان یحیف اللہ علیک ورسولہ قلت یارسول اللہ انی ظننت انک اتیت بعض نسائک ۔ فقال ان اللہ عزوجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی السماء الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب
ترجمہ
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں ایک رات حضور اکرم علیہ السلام کو نہ پائی، میں نکلی اور دیکھا کہ آپ بقیع میں تشریف فرما ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں اندیشہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تم پر زیادتی کریں؟ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے خیال کیا کہ آپ کسی اور زوجہء مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شب براءت کو آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے اور بنی کلب کی بکریں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
جامع ترمذی شریف ۔ باب الصیام ۔ ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان جلد 2 ص ۱۷۹ و ۱۸۰ انگریزی دارالسلام
تفصیلات؛
سب سے پہلے کہ اس میں یعنی عکس میں جو کچھ دکھ رہا ہے اس میں بھی وہابیوں نے ڈنڈی ماری ہے۔ اور وہ ایسے ماری ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو ضعیف تو قرار دیا ہی ہے حالانکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ امام ترمذی نے اگلے ہی جملے میں فرمایا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت کی گئی ہے جو کہ صحیح حدیث ہے لیکن عیاری دیکھیں کہ کمنٹس کے نام سے لکھا ہے کہ امام سیوطی ، ابو طالب مکی، امام غزالی اور شیخ عبدالقادر جیلانی سے بہت سے ضعیف احادیث بھی مروی ہیں نصف الشعبان یا شعبان کی پندرھویں کی بابت میں۔ اور بکواس میں لکھا ہے کہ ساری بے بنیاد ہیں (یہ ان منکروں کی اپنی اختراع ہے) اب ذرا ہم اس حدیث اور پھر اسکے بعد ان کی اس بکواس کا رد مستند حوالوں سے کرتے ہیں۔
ردِ وہابیت
جامع ترمذی شریف میں وارد حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیث پاک متعدد دیگر صحابہ کرام سے کئی ایک ذخائرِ حدیث، سنن وجوامع، معاجم و مسانید میں مختلف اسانید کے ساتھ مذکور ہے۔ چنانچہ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ (یہ روایت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے)۔
اب وہابی عیاری دیکھیں کہ انہوں نے بجائے اپنی بکواس کو علیحدہ لکھنے کے ڈائریکٹ حدیث کے نیچھے (سم تھنگ آن دِس ٹاپک) سے شروع کیا ہے جو کہ ہرگز ہرگز امام ترمذی کا قول نہیں بلکہ انہوں نے انگریزی میں ترجمہ کرتے وقت ڈائریکٹ اپنی ڈنڈٰ ی ماری ہے جس کو تحریف کہتے ہیں۔
اب ہم آپ کو صحیح اسانید بتاتےہیں جنکی وجہ سے اس روایت کو بھی تقویت ملتی ہے اور جائز ٹھہرتی ہے
یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جامع ترمذی کے علاوہ سنن ابن ماجہ، مسند امام احمد، مصنف ابن ابی شیبہ، بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث، امام ابن بطۃ کی الابانۃ الکبریٰ ، امام بیہقی کی شعب الایمان، مسند عبد بن حمید ، امام بغوی کی شرح السنۃ اور مسند اسحٰق راھویہ میں موجود ہے۔ یہ رہے حوالہ جات
سنن ابن ماجه ، ابواب اقامۀ الصلاۀ والسنته فيها ، باب ماجا في ليلته النصف الشعبان ، ح نمبر ۱۴۵۲/بغيته الباحث عن زوائد مسند الحارث للهيثمي ح نمبر ۳۳۵/ اخبار مکته للفاکهاني ، ذکر عمل اهل مکه حديث ۱۷۷۴ / الابانته الکبري لابن بطته، باب ذکر مناظرات حديث نمبر ۲۵۶۶ / شعب الايمان للبيهقي ، ماجا في ليلته نصف الشعبان حديث نمبر ۳۸۲۴ و ۳۶۶۵ / مسند عبد بن حميد ،مسند الصديقته العائشته حديث ۱۵۱۴ / شرح السنته للبغوي ، کتاب الصلاۀ، مسند اسځق بن راهويه ، مايروي عن عروته عن عائشته حديث نمبر ۸۵۰ و ۱۷۰۰
اسکے علاوہ
مذکورہ روایت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے امام بغوی کی شرح سنۃ ، امام فاکہانی متوفی 353ھ کی اخبار مکۃ، امام ابن بطۃ متوفی 387ھ کی الابانۃ الکبریٰ ، امام بیہقی کی شعب الایمان اور مسند البزار میں موجود ہے اور یہی روایت حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے سنن ابن ماجہ میں مذکور ہے ۔ حضرت عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ سے امام بیہقی کی شعب الایمان مین بھی لکھا ہے اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مسند احمد بن حنبل اور امام ہیثمی کی غایۃ المقصد فی زوائد المسند میں ہے۔ مسند احمد بن حنبل ،عبدالله بن عمرو، حديث ۶۸۰۱ ، غايته المقصد کتاب الادب باب ماجا في الهجران
حضرت معاذ بن جبل رضي الله عنه سے امام طبراني کي معجم الکبير، حديث نمبر ۳۷۸ . حلته الاوليا مکحول الشامي . شعب الايمان للبيهقي حديث نمبر ۳۶۷۸ ، و، ۶۳۵۲ . صحيح ابن حبان کتاب الحظر ،حديث نمبر ۵۷۵۷ / حضرت ابوثعلبه رضي الله عنه سے طبراني از معجم کبير، شعب الايمان للبيهقي ، السنن الصغري میں بھی مروی ہے
مزید حوالہ جات
معجم الکبير طبراني ، باب اللام الف، حديث نمبر ۵۹۳
شعب الايمان للبيهقي حديث نمبر ۳۶۷۳
سنن الصغري للبيهقي کتاب الصيام ح ۱۴۵۸
مسند البزار ، مسند عوف بن مالک الاشجعي ، ح ۲۷۵۴
معجم الاوسط للطبراني باب الميم حديث ۶۹۶۷
صحيح ابن حبان کتاب الحظر والاباحته ،ح، ۵۶۶۵
روايت از حضرت ابوسعيد خدري رضي الله عنه / شعب الايمان ح ۳۸۳۷
سيدنا علي رضي الله عنه سے سنن ابن ماجه حديث ۱۴۵۱ ، و بيهقي ۳۶۶۴
اس کے علاوہ حضرات تابعین مثلاً کثیر بن مرۃ حضرمی ، یحییٰ بن ابوکثیر، وغیرہ سے مرسل روایتیں مذکورہ کتبِ احادیث میں موجود ہیں
یہ صرف ان محدثین کی کتابوں کے حوالجات ہیں جنہوں نے اپنی روایت کردہ احادیث مبارکہ اسانید کے ساتھ جمع فرمائی ہیں، بعد ازاں تنقیح و تہذیب کرنے والے متعدد محدثین نے اسے اپنی کتابوں میں درج کیا، چنانچہ پندرھویں شعبان کی فضیلت کی یہ روایتیں مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، جامع الاحادیث ، جمع الجوامع ، جامع الاصول من احادیث الرسول ، الترغیب والترھیب ، مشکوٰۃ المصابیح ، زجاجۃ المصابیح، اور دیگر کتابِ احادیث میں منقول ہیں۔
امام ترمذی کی سند کے روای (حجاج بن ارطاۃ) کی وجہ سے حدیث ضعیف قرار دی گئی ، ویسے تو (حجاج بن ارطاۃ) کے بارے میں خود ائمہ جرح وتعدیل کے مختلف اقوال ملتے ہیں ، یحیٰ بن قطان، حماد بن زید، امام احمد، اور امام ذہبی نے ان کی تعدیل کرتے ہوئے حفاظِ حدیث میں شمار کیا ہے۔ قطع نظر اسکے دس صحابہ کرام سے کئ ایک طرق کے ساتھ محدثین کی ایک بڑی تعداد نے اسی طرح کی روایتیں ذکر کی ہیں، جس سے شب برات کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
لہٰذا وہابی خائن کا یہ کہنا بالکل غلط اور گمراہی پر مشتمل ہے ۔ علامہ سیوطی ، امام غزالی جو کہ حجتہ الاسلام ہیں اور شیخ سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہما سب کے سب ثقہ ہیں محدث ہیں اور فقیہہ و اولیاء میں شمار ہوتے ہیں، ہم آجکے وہابی دیوبندی فتنے کی بجائے سلف کی روایت پر اعتماد رکھیں گے اپنا۔
علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں امام طبرانی کی معجم کبیر و معجم اوسط سے روایت نقل کرنے کے بعد روایوں کی توثیق و تعدیل کرتے ہوئے لکھا: ورجالھما ثقات ۔ ترجمہ اور ان دونوں احادیث کے راوی معتبر وثقہ ہیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے بارے میں اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ روایت ضعیف ہے تب بھی اسے ناقابل عمل نہیں کہاجاسکتا، اس لیئے کہ اس حدیث شریف سے شب براءت کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جبکہ ناقدینِ حدیث و ائمہ جرح و تعدیل کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث فضائل کے باب میں مقبول، قابلِ عمل اور لائق استدلال ہے اور اس کا ثبوت بھی ہم آپ کو ابھی دیتے ہیں
شارح بخاری، صاحب فتح الباری حافظ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ عنہ نے المطالب العالیہ میں ایک مستقل باب ہی یہ باندھا ہے، (باب العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال) یعنی فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا بیان، اس باب کے تحت مندرجہ ذیل حدیث پاک نقل کی ؛
عن انس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من بلغہ عن اللہ تعالیٰ فضیلۃ فلم یصدق بھا لم ینلھا ۔
ترجمہ؛۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی فضیلت کی بات پہنچے اور اس نے اس کی تصدیق نہیں کی تو وہ اس فضیلت سے محروم رہے گا۔
حوالہ المطالب العالیۃ ؛ کتاب العلم حدیث نمبر ۳۱۳۳
اختتام شد