Post by Admin on Apr 23, 2016 14:34:12 GMT
شیعہ اعتراض ۔ (یزید) اہلسنت و جماعت کا امام ہے
حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے ۔ (کہ میرے بعد 12 خلفاء خاندانِ قریش میں سے ہوں گے) اس ارشاد نبوی کے مصداق آئمہ اثنا عشرہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ یعنی حضرت علی المرتضےٰ سے امام مہدی موعود تک بارہ امام ہیں لیکن اہل سنت وجماعت نےا س ارشاد نبوی کا مصداق اپنے طور پر یوں متعین کیا کہ ان (بارہ ائمہ) میں انہوں نے (یزید بن معاویہ) کو بھی امام وخلیفہ مانا۔ جیسا کہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب (تاریخ الخلفاء) میں یوں ذکر فرمایا (پھر حوالہ،،،، تاریخ الخلفاء للسیوطی ص 11 فصل مدۃ الخلافتہ فی الاسلام مطبوعہ مصر طبع جدید)۔
ترجمہ؛۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی (میرے بعد بارہ خلفاء ہوں گے) کی وضاحت اور تفصیل کچھ یوں ہے ۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادِ پاک میں جو (اجماعِ امت) کا ذکر فرمایا۔ تو اس سے مراد ان خلفاء کی بیعت پر امت کی آمادگی ہے۔ اور جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق واقع ہوا۔ وہ یہ کہ لوگوں نے سب سے پہلے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت پر اجماع کیا۔ پھر ان کے بعد علی الترتیب حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عوام نے اطاعت کی اور ان کی بیعت کی۔ پھر جب جنگ صفین میں ثالث مقرر کرنے کا واقعہ پیش آیا ۔ تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس وقت خلافت کے نام سے نامزد کیا گیا۔ امام حسن رضی اللہ عنہ سے جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی (امر خلافت میں) صلح ہوگئی ۔ (اور امام موصوف نے خلافت سے دستبرداری فرمالی) تو لوگوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت اور اطاعت کرلی۔ پھر ان کے بیٹے یزید پر عوام کا اتفاقِ ِ اطاعت ہوا ۔ لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں معاملہ پر اجمتماع نہ ہوا تھا۔ کہ آپ کو شہید کردیا گیا۔
پھر اس کے بعد جب یزید مرگیا تو اختلاف پیدا ہوگیا۔ اور لوگ پھر سے عبدالملک بن مروان پر متفق ہوگئے یہ حضرت عبداللہ بن الزبیر کے شہید ہونے کے بعد کی بات ہے۔ پھر اسی عبدالملک بن مروان کے چاروں بیٹوں پر لوگوں کا اتفاق رہا۔ یعنی ولید، سلیمان ، یزید اور ہشام ۔ سلیمان اور یزید کے درمیان حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دورِ خلافت ہے۔ تو اس طرح خلفاء راشدین کے بعد یہ سات اشخاص یکے بعد دیگرے مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ اور بارہواں خلیفہ (ولید بن یزید بن عبدالملک) تھا کہ جس پر لوگوں نے اسوقت اتفاق کیا۔ جب اس کا چچا ہشام فوت ہوگیا۔
اختتام از تاریخ خلفاء للسیوطی
طریقہ استدلال
علامہ جلال الدین سیوطی کی ارشاد نبوی کی اس تفصیل و توضیح سے یہ بات بالکل واضح ہوئی ۔ کہ حضور علیہ السلام کی بارہ اماموں کے متعلق پیشن گوئی میں ایک امام (یزید) بھی ہے۔ اور علامہ سیوطی سنیوں کے نہایت معتبر اور مستند عالم محقق ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ ۔ اہلسنت (یزید) کو امام اور خلیفہ مانتے ہیں۔ لہٰذا جو ایسے شخص کو خلیفہ و امام مانتا ہو۔ اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا روحانی رشتہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہی وہ شخص ہے جس کے گرد کربلا کا واقعہ گھومتا ہے۔ جس میں خانوادہء اہلبیت پر ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ تو معلوم ہوا۔ یہ لوگ (محبت رسول) نہیں بلکہ (محب یزید) ہیں۔ اور یہ یقینی امر ہے کہ دنیا میں جس کی جس سے محبت ہوگی بروز حشر اسی کے ساتھ ہوگا۔
لہٰذا ان سنیوں کو کل قیامت مین یزید کی معیت حاصل ہوگی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو قریب تک نہ آنے دیں گے اور آپ کی اہلبیت کا بھی ان سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔
جوابِ اہلسنت وجماعت ناجی جنتی اکثریت؛۔
جو طعن ابھی ذکر کیا گیا۔ ہم اسکے متعلق وضاحت سے گفتگو کریں گے ۔ لیکن سردست اتنی گزارش ضرور کردیتے ہیں کہ یہ طعن مکروفریب کا ایک ایسا پلندہ ہے ۔ کہ اسے پڑھ سن کر بعض بھولے بھالے سنی حضرات بھی اس شک و وہم میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ علامہ جلال الدین السیوطی جیسے محقق شخص نے یزید کو بھی ان بارہ خلفاء میں سے ایک لکھا ہے کہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی تھی۔ ادھر شیعہ حضرات اس طعن کو اس قدر بھیانک انداز میں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ تاکہ اس طعن کے ذریعے (یزید) کا سہارا لے کر سنیوں کو قابل ملامت گردانیں۔ اور غالبا چھوٹے رافضیوں (وہابیوں) کو سنی بتاتے ہیں جو کہ شاید یزید کا اپنا امیر المومنین کہتے ہیں اور جنکا اپنا تعلق بھی اہلسنت سے نہیں بلکہ (رافضیوں) کی طرح (خوارج) سے ہے۔ اور پھر اسی تیر سے دوسرا شکار یہ کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مصداق امام السیوطی کے ذکر کردہ حضرات نہیں کیونکہ ان میں یزید بھی آتا ہے۔ بلکہ ان سے مراد وہی بارہ امام ہیں ۔ جس کے شیعہ قائل ہیں۔ اسلیے وہ کوشش کرکے یہ ثابت کرنے کے لیئے بہت ہاتھ پاؤں مارتے ہیں کہ امامت و خلافت کے حقدار صرف ائمہ اہلبیت ہی ہیں۔ اور وہ بارہ آئمہ اہلبیت ہی ہیں جن کی پیشنکوئی حضور نے فرمائی تھی۔ لیکن اس صمن میں وہ جل دینے اور دھوکہ فریب سے کام لے کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ حضرات خلفاء ثلاثہ (صدیق اکبر، فاروق اعظم، عثمان غنی) کی خلافت معہود نہ تھی بلکہ باطل تھی اور حضور کے ارشاد میں مذکور بارہ آئمہ میں سے یہ نہ تھے۔
انہیں وجوہات کی بنا پر ہم چاہتےہیں کہ اس طعن کا تفصیل سے رد لکھیں۔ تاکہ حق و باطل یوں معلوم ہوجائے جیسے سورج کی روشنی۔ اور یہ اپنے سنی بھائیوں کے علم میں بھی اضافے کا باعث بنے۔
جواب اول
بارہ امام اس حدیث کا مصداق نہیں ہوسکتے
شیعہ لوگوں نے حدیث مذکور کو جس بنا پر طعن کی بنیاد قرار دیا ۔ ان کا ایسا کرنا ہی از اول تا آخر غلط اور سراسر باطل ہے۔۔ یعنی ان کا یہ کہنا کہ (حدیث مذکور) تو ان بارہ ائمہ کے متعلق تھی جنہیں شیعہ مانتے ہیں۔ لیکن سنیوں نے اسکا مصداق کچھ اور لوگوں کو بنا لیا ہے اور ان میں سے یزید بھی ایک ایسا شخص ہے جو امام وخلیفہ ہے۔
تو آئیے دیکھتے ہیں ذرا نظر انصاف سے کہ کتب شیعہ نے جو امامت و خلافت کا معیار بیان کیا ہے۔ کیا اس معیار کے مطابق اور تمام ائمہ اہلبیت کے مطابق ان کے مقرر کردہ بارہ کے بارہ ائمہ پورے اترتے ہیں؟۔۔
وہ شرائط جوان کی کتب میں مذکورہ ہیں۔ ان کے مطابق تمام ائمہ اہلبیت حدیث کے مذکور کے مصداق ہرگز نہیں بن سکتے۔ بلکہ وہ صرف تین حضرات ہی ہیں۔ جو ان شرائط کے حامل ہیں۔ کتب شیعہ مٰں مذکورہ شرائط امامت و خلافت ملاحظہ فرمائیں۔ اور پھر خود ان شرائط کو حضرات آئمہ اہلبیت میں سے تین کو چھوڑ کر باقی پر منطبق کریں تو خود بہ خود بات واضح ہوجائے گی۔
عین الحیوٰۃ ؛ شیعوں کے اصول ِ خلافت ہی بارہ اماموں کی امامت کا رد ہیں۔
تنویر اول در بیان آں کہ ہیچ عصرے خالی از امام نمی باشدوآں امام از جانبِ خدا می باید منصوب باشد
بدانکہ امامت عبارت است از اولیٰ بتصرف و صاحب اختیار بودن دردین و دنیا امت بجانشینی حضرت رسول (ص) ودرضمن دلائل بروجودِ نبی ظاہر شد کہ صلاح ناس و ہدایت ایشاں ورفع نزاع وجدال از ایشاں بدوں قیمی ورئیسی میسر نمی شود۔ چنانچہ حضرت امام رضا (ع) در علل فضل بن شادان فرمودہ است کہ چوں خداوند عالمیان مردم را بامرے چند تکلیف فرمودہ و اندازہء چند از برائے اوامرونواہی خود مقرر ساخت وامر فرمود کہ ایشاں از حدود تعدی نکنند کے مورث فسادِ ایشاں است پس ناچار است کہ برایشاں امینے بگمارد کہ مانع ایشاں گردو تعدی کردن وارتکابِ محرمات نمودن زیرا اگرچنیں شخصے نباشد، ہیچکس لذت و منفعت خود را ازبرائے مفسدہ کہ بدیگرے عائد گرد وترک نخواہد کرد۔ چنانچہ ظاہر است از نفوسِ طبائع مردم۔ لہٰذا خدا قیمے وامامے برائے ایشاں مقرر فرمود کہ ایشاں را منع نمائد از فساد و حدودِ احکام الٰہی رادرمیان ایشاں جاری سازد۔ چنانچہ ظاہر است کہ ہیچ فرقہ از فرق و ملتے از طِل تعیش وبقائے ایشاں بدوں سرکردہ ورئیسے بنودہ۔ چوں جائز باشد کہ حکیم علیم ایں خلق راخالی گذار واز امامے کہ مصلح احوال ایشاں باشد و بادشمنانِ ایشاں محاربہ نماید۔ وغنائم و صدقات رادرمیانِ ایشاں بعدالت قسمت نماید۔ و اقامہ جمعہ و جماعت درمیانِ ایشاں بنمائید۔ و دفع شر ظالم از مظلوم بکند ایضاً اگر امامے درمیانِ مردم نباشد کہ حافظِ دین پیغمبرباشد ملت مندرس شود و دین برطرف شود و احکامِ الٰہی متغیر ومتبدل گردد۔
عین الحیوٰۃ ملا باقر مجلسی ص 69 تنویر اول مطبوعہ تہران طبع جدید۔
ترجمہ
پہلی تنویر اس بارے میں ہے کہ کوئی دور امام سے خالی نہیں ہوتا ۔ اور وہ امام اللہ کی طرف سے مقرر ہوتا ہے۔
معلوم ہونا چاہیئے کہ امامت کا مطلب ہے رسول کی جانشینی میں امت مسلمہ کے دینی اور دنیاوی امور کے متعلق سب سے زیادہ لائق تصرف اور صاحبِ اختیار ہونا۔ اور نبی کے وجود کے ضروری ہونے کے دلائل میں ظاہر ہوچکا ہے کہ لوگوں کی اصلاح وہدایت اور ان کے مابین جھگڑے اور فساد ختم کرنا وغیرہ امور کسی ناظم اور رئیس کے بغیر ناممکن ہیں۔ چنانچہ امام رضا نے فضل بن شادان کے علل میں فرمایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو چند چیزوں کامکلف بنایا اور کچھ اوامر ونواہی مقرر کئے۔ اور کچھ حدود مقرر کیں۔ کہ ان سے تجاوز ہرگز نہ کرنا۔ ورنہ تمہیں نقصان ہوگا۔ تو پھر ضروری تھا کہ ان پر ایک امین مقرر کیا جائے جو انہیں ظلم وستم کرنے اور حرام کاموں کے ارتکاب سے روکے۔ اگر ایسا شخص نہ ہو۔ تو ہر شخص مقصد برآری کے لیئے دوسرے کا نقصان کرنے سے باز نہ آئے۔ جیسا کہ انسان کی فطرت سے یہ بات ظاہر ہے! لہٰذا اللہ نےا ن پر ناظم اور امام قائم کیا ۔ جو انہیں فساد اور تعدی از حدود سے روکے ۔ احکام الٰہی ان میں جاری کرے۔ چنانچہ یہ ظاہر ہے ۔ کہ کوئی فرقہ اور کوئی گروہ ایک سرکردہ سربراہ کے بغیر نہیں ہوتا ۔ تو یہ کیسے جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ اس خلق کو ایسے امام سے خالی رکھے جس کا یہ کام ہے کہ ان کے احوال کی اصلاح کرے۔ ان کے دشمنوں سے جنگ کرے۔ مال غنیمت اور دیگر صدقات ان میں انصاف کے ساتھ تقسیم کرے جمعہ اور جماعت کا اہتمام رکھے اور مظلوم سے ظالم کے شر کو دور کرے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ہے کہ اگر لوگوں کے درمیان امام نہ ہو تو دینِ پیغمبر اور اس کی امت مٹ جائے اور احکام الٰہی تبدیل ہوکررہ جائیں۔
اختتام ،، عین الحیوٰۃ ملا باقر مجلسی
حدیقۃ الشیعہ؛۔
جب یہ بات ظاہر ہوگئی کہ نبوت کا زمانہ ختم ہوجانے کے بعد اللہ پر لازم ہے۔ کہ ایک امام قائم کرے جو خود بھی پیغمبر ہی کی مثل ہو۔ جو لوگوں کی رہنمائی کرے۔ ان تک احکام الٰہی پہنچائے اور شریعت کی حفاظت کرے۔ تو معلوم ہوگیا کہ ایسا شخص ضروری ہے کہ صفتِ عصمت وطہارت سے متصف ہو۔
حدیقۃ الشیعہ ۔ مصنف۔ احمد بن محمد المعروف مقدس اردبیلی ص 14 مطبوعہ تہران ذکر لزوم عصمت امام
خمس وصول کرنا امام وقت کی ذمہ داری ہے۔
اصل الشیعہ واصولہا؛۔ (ترجمہ)
مال غنیمت کو چھ حصوں میں بانٹا جائے گا ۔ ان میں سے تین حصے اللہ۔ اسکے رسول اور ذوالقربیٰ کے ہوں گے۔ اور یہ تینوں حصے امام کے حوالے کرنا واجب ہیں بشرطیکہ وہ ظاہر موجود ہو۔ اور غائب ہونے کی صورت میں اس کے نائب یعنی مجتہد عادل کو دیا جائے گا۔ تاکہ وہ نائب ان تینوں حصوں کی رقم کو شریعت کی حفاظت اور ملت کی مضبوطی پر صرف کرے۔ اور اہم دینی ضروریات بھی اسی سے پوری کرے۔ نیز ضعیف ومسکین لوگوں کی امداد بھی اسی سے کرے۔
اصل الشیعہ واصولہا ۔ ص 185 مطبوعہ مصر ۔ مصنف محمد حسین آل کاشف العطاء)۔
(اب چونکہ شیعوں کا امام روپوش ہے۔ لہٰذا مذکورہ تین حصے ان کے مجتہدین اور مولویوں کو دینا واجب ٹھہرا)۔
دنیا سے شر و فساد اور ظلم و ستم مٹانا امام کا فرض ہے۔
ترجمہ از حدیقۃ الشیعہ صفحہ 473 مقدس اردبیلی فصل دوازدہم 12 مطبوعہ تہران۔
ترجمہ۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا مختلف امتوں اور لوگوں کی رہائش گاہ ہے اور اولادِ آدم کے باہم جھگڑوں اور اختلافات کی جگہ ہے۔ ۔ تو پھر ایسے میں اللہ تعالیٰ کی حجتوں میں سے ایک حجت اس کائنات میں ضروری ہونی چاہیے۔ انبیائے کرام اور ان کے وصی ہی وہ شخصیات ہیں جو اللہ کی حجتیں ہیں۔ لہٰذا یہ بھی لازمی ہے کہ حضرت ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آئمہ طاہیرن میں سے کوئی ایک ضرور موجود ہو۔ چاہے وہ ظاہر اور لوگوں کے سامنے موجود ہو چاہے غائب اور نظروں سے اوجھل ہو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن) کی حفاظت اور مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی نگہداشت کرے۔ اور اللہ کی مخلوق اور اس کے بندوں کی معاشی زندگی اور اخروی زندگی ایک درست اور بہتر طریقہ سے انہیں سکھائے۔ جس طریقہ کو شریعت کہتے ہیں۔ باہم ظلم و ستم اور فسق و فساد سے لوگوں کو بچائے ۔ چونکہ یہ ریاست عامہ کا ایک بہت بڑا کام ہے۔ اسلیئے اتنا بڑا کام اسی شخصیت سے متوقع ہوسکتا ہے جو صفتِ عصمت کے ساتھ متصف ہو۔
اختتام
امام کے لیئے بہادر ہونا بھی لازمی ہے تاکہ فریضہ جہاد کی ادائیگی کرسکے۔
عین الحیوۃ (وباید کہ کمال رائے و شجاعت داشتہ باشد تا از عہدہ ء مجاہدہ با اعدائے دین بتتواند آمد)۔ ص 84 تنویر ششم تہران
ترجمہ اور امام کے لیئے ضروری ہے کہ بہادری اور شجاعت میں کامل ہو۔ تاکہ دین کے دشمنوں کے ساتھ لڑائی اور جہاد کرسکے۔(اور اس ذمہ داری سے جی نہ چرائے)۔
اختتام
حدود کا قیام، زکوٰۃ و عشر و جزیہ کی وصولی اور نظام اسلامی کا قیام امام کی ذمہ داری ہے۔ بحوالہ کشف الغمہ فی معرفۃ الآئمہ جلد 1 ص 56 فی عدد الائمہ۔ سید ہاشم شیعی مصنف
اسلامی ملک کی سرحدوں کی ذمہ داری بھی امام پر عائد ہوتی ہے۔ بحوالہ ۔ اصول کافی جلد 1 ص 200 کتاب الحجۃ باب نادر جامع فی فضل الامام وصفاتہ مطبوعہ تہران جدید۔
مختصراً
یعنی ان چند ذکرکردہ حوالہ جات و عبارات سے شیعہ لوگوں کے امام کی درج ذیل ذمہ داریاں اور شرائط ثابت ہوئیں۔
۱۔ اللہ تعالیٰ پر یہ لازم ہے کہ امام مقرر فرمائے۔ تاکہ وہ دنیا سے شروفساد کی بیخ کنی کرے۔ (عین الحیوٰۃ)
۲۔ انسانوں کی باہم ایک دوسرے پر زیادتی کا خاتمہ کرے ۔
۳۔ اسلام اور اسکے ماننے والوں سے جنگ کرنے والے سے جنگ کرے۔ (عین الحیوٰۃ ، اصول کافی)۔
۴۔ امام کے لیئے اپنے دور کا سب سے بڑا بہادر ہونا ضروری ہے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ نے اسے جس مقصد ک لیے مقرر فرمایا۔ اس کے تحفظ کا اہل ہو۔ اور مخالفین کا سرنیچا کرسکے۔
۵۔ خمس وصول کرے۔ اور اگر خود موجود نہ ہو۔ تو اس کا نائب اس فریضہ کو سرانجام دے (اصل الشیعہ)
۶۔زانی ، شرابی ، ڈاکو ار چور پر وہ حدود جاری کرے۔ جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائیں۔ تاکہ نظام قیام حدود سے فتنہ وفساد مٹ جائے۔ اور امن و آشتی کا دور دورہ ہو۔ (کشف الغمہ ، اصول کافی)۔
۷۔ مسلمانوں سے زکوٰۃ اور غیرمسلموں (ذمیوں) سے خراج وصول کرے۔ اور مالِ غنیمت کی وصولی کا اہتمام کرے تاکہ ان مدات سے وصول شدہ خرچ سے ملکی معیشت درست رہے۔ اور غربت و تنگدستی کا سدباب ہوجائے اور خوشحالی کا دور رہے۔ (کشف الغمہ)۔
۸۔ ارکانِ اسلام کی بجا آوری کی ذمہ داری اٹھائے۔ (اصول کافی)۔
۹۔ سرحدوں کی مکمل حفاظت اور مملکت اسلامیہ کی چاروں اطراف کی کڑی نگرانی کرے۔ تاکہ کسی غیرمسلم ملک اور اس کے صاحبانِ اختیار کے حملہ سے رعایا بالکل محفوظ رہے۔ (اصول کافی)۔
۱۰۔ نظام ِ عالم کا نگران و نگہبان امام ہوتا ہے۔ یعنی روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمانوں اور ان کے مفادات کا تحفظ امام کے ذمہ ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی جگہ شورش اور غیرمسلموں کی شرارت سر اٹھائے تو اسکی سرکوبی امام کے ذمہ ہوتی ہے۔
شیعوں کے نزدیک امام کے غائب رہنے کا فلسفہ اور ایک ضروری وضاحت
اوپر لکھے گئے وہ مقاصد اور ذمہ داریاں ہیں۔ جن کا حقدار بلکہ پورا کرنے کا ذمہ دار شیعہ لوگوں کے نزدیک صرف اور صرف امام ہوتا ہے۔ اہل تشیع کے مذہب میں انہیں عظیم تر مقاصد اور بقائے نسل انسانی کے عظیم امور کے سرانجام دینے کے لیئے اللہ تعالیٰ نے بارہ ٓئمہ کو مقرر فرمایا۔جنکی ابتداٗ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور امام غائب (امام مہدی) تک آئی۔
مذکورہ ذمہ داریاں کسی ایک زمانہ کے ساتھ مخصوص نہ تھیں بلکہ (حدیقۃ الشیعہ) کی عبارت کے مطابق ان ذمہ داریوں کا اہل ہردور اور ہرزمانہ میں کوئی نہ کوئی ہونا چاہیئے اسلیئے کہ فساد و نزاع کا خاتمہ، مجرموں پر نفاذِ حدود صدقات و زکوٰۃ و خراج کی وصولی اور اقامت صلوٰۃ وزکوٰۃ وغیرہ ایسے امور ہیں جن کی انجام دہی کے لیے ہردور مٰں کسی منتظم کی ضرورت لازمی ہے۔ اور تاقیامت ضرورت رہے گی۔ ان شیعہ لوگوں کے نزدیک چونکہ امامت صرف بارہ اشخاص کے لیے ہی تھی اسلیئے تیرہویں کی گنجائش نہ رہی۔ لہٰذا جب تک نسل انسانی باقی ہے ۔ اس وقت تک ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کسی نہ کسی طریقہ سے امامت کا منصب بھی باقی رکھنا تھا۔ اور وہ بھی صرف بارہ حضرات میں تو گیارہ ائمہ کی وفات کے بعد بارھویں امام کو (امام ٗ غائب) قرار دیدیا گیا۔ تاکہ قیامت تک اس کی امامت بھی رہے۔ اور تیرھویں کی ضرورت بھی نہ پڑے ذرا ان کی اپنی کتاب (حدیقۃ الشیعہ) ملاحظہ کریں۔
حدیقۃ الشیعہ ؛
البتہ امام دوازدہم راباید کہ عمردراز باشید تابقائے او باندازہ زمان تکلیف باشد وچہ ممکن نیست کہ دین قائم بماند تا بروز قیامت بوجود دوازدہ کس مگر برتقدیر مذکور۔
حدیقۃ الشیعہ ص ۴۷۳
لہٰذا یہ امر یقینی ہے کہ بارھویں امام کی عمر اتنی لمبی ہونی چاہیئے ۔ جب تک زمانہ تکلیف (یعنی احکام الٰہی پر عمل کرنے والے موجود ہوں) ہو۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ۔ مذکور وجہ کے بغیر بارہ آئمہ کے ذریعہ قیامت تک دین کا قائم رہنا ممکن ہے۔ (کیونکہ تیرھوآں آ نہیں سکتا) اور گیارہ آکر راہی بقا ہوگئے۔ لہٰذا بارھویں امام کا زمانہ تاقیامِ قیامت ہے۔ اسلیے اسکی عمر بھی اتنی ہی طویل ہونی چاہیئے۔ چونکہ اتنی طویل عمر نہ اس سے بقل کسی کی ہوئی۔ اور نہ کوئی اتنا طویل عرصہ لوگوں میں رہا۔ لہٰذا اس طویل العمری کے حصول کا صرف یہی طریقہ ہے۔ کہ اسے (غائب) کردیا جائے۔ اور اس کی آمد کی امیدیں باندھی جائیں ۔ اس طویل دور میں باہم نزاع اور فساد، ظلم و ستم ، سرحدوں کی حفاظت ، خمس و زکوٰۃ وغیرہ کی وصولی اور دیگر امور چاہے کتنے ہی بگڑ جائیں ۔ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا خود ہورہا ہو۔ اغیار دندناتے پھر رہے ہوں۔ لیکن امام چونکہ غائب ہے لہٰذا اس کی آزادی ہے۔ بلکہ (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کو بھی اپنا قانون تبدیل کرنا پڑا۔
وغیر ذاللک من الخرافات الواھیۃ والمزعومات الفاسدہ اعاذنا اللہ تعالیٰ عہنا
ہمارا سوال۔
کتب شیعہ سے ہم نے مذہب شیعہ میں امام کے فرائض اور ذمہ داریاں جو گنوائی ہیں ان کی روشنی میں اہل تشیع سے ہمارا سوال ہے۔
۱۔ کہ ان فرائض کی ادائیگی کیا ان تمام اماموں نے کی ہے جنہیں تم حضرت علی المرتضےٰ سے لے کر امام مہدی تک (بارہ امام ) مانتے ہو؟۔
۲۔ کیا یہ امر واقعی ہے کہ ہر ایک امام مجرموں پر حدودِ شرعیہ جاری کرتا رہا؟
۳۔ کیا یہ ثابت ہے کہ بارہ ائمہ میں سے ہر ایک نے صدقات وزکوٰۃ وخراج وجزیہ وصول کیا؟۔
۴۔ کیا تمام آئمہ نے اپنے اپنے دورِ امامت میں فتنہ وفساد ، ظلم و شر کو دنیا سے پاک کردیا؟۔
۵۔ کیا مملکت ِ اسلامیہ کی سرحدوں کی حفاظت اور کفار کے ساتھ ہرامام نے جہاد کے فرض کو نبھایا؟۔
۶۔ کیا امام غائب نے اپنے دورِ امامت میں پردہ اخفا میں رہ کر دنیا سے افراتفری، ظلم و تعدی اور ناانصافیوں کا خاتمہ کردیاہے۔ اور اسلامی ممالک کی سرحدیں محفوظ کردی ہیں؟۔
یہ بات بالکل واضح ہے ۔ اور ہر عقل مند جانتا ہے کہ اہل تشیع کے بارہ ائمہ میں سے صرف حضرت علی مرتضیٰ اور ان کے نورِ نظر حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما صاحبِ اقتدار تھے۔ دوسرے ۱۰ کے ۱۰ ائمہ اقتدار میں نہ آسکے۔ یا ان کو اقتدار نہ ملا۔ لیکن حدودِ الٰہیہ کا اجرا، کفار سے جہاد، سرحدوں کی حفاظت تو اقتدار ہاتھ میں ہوتے ہوئے ہی ہوسکتی ہے۔ تو جب یہ اقتدار سے محروم تھے ۔ تو ان سے ان کے فرائض کی ادائیگی کب ممکن؟۔ ہم شیعوں سے یہ دریافت کرسکتے ہیں کہ اگر واقعی رب تعالیٰ نے تمہارے اقوال کے مطابق تمہارے اماموں کو ان امور کی انجام دہی کے لیئے مقرر فرمایا ہے تو
۷۔ ان تمام آئمہ کو اقتدار و حکومت کیوں نہ دی اور ان کے سپرد کردہ فرائض کے ادا کرنے کی توفیق کیوں نہ بخشی؟
ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین۔
اب آتے ہیں بنیادی اعتراض کی طرف تو جواب یہ رہا کہ!۔
جمہور اہلسنت وجماعت کے نزدیک یزید بارہ خلفاٗ میں شامل نہیں۔
اہلسنت کے ایک عظیم عالم علامہ محدث فقیہہ الامام جلال الدین السیوطی الشافعی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ واسعاً سے مروی ایک قول جو ذکر کیا گیا ۔ جس میں (تجتمع علیہ الامہ) کی تاویل کرتے ہوئے علامہ موصوف نے یزید کو بارہ خلفا میں شمار کیا ہے۔ یہ انہوں نے اپنا مسلک اور نظریہ بیان نہیں کیا کیونکہ اسی کے ساتھ انہوں نے ایک اور قول بھی ذکر کیا ہے جسے اپنی طرف منصوب کرتے ہوئے لکھا ہے۔
تاریخ الخلفاٗ
قلت وعلیٰ ھٰذا فقد وجہ من الاثنی عشر خلیفۃ ً الخلفآءُ الاربعۃ والحسن والمعاویۃ وابن الزبیر و عمر بن عبدالعزیز ھٰئولآء ثمانیۃ ان یضم الیھم المھتدی من العباسین لانہ فیھم کعمر بن عبدالعزیز فی بنی امیۃ و کذٰلک الطاھرلما اوتیہ من العدل وبقی الاثنان المنتظر ان احد ھما المھدی لانہ من اٰل بیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
تاریخ الخلفاء للسیوطی ص 12 فصل فی مدۃ الخلافۃ فی الاسلام مطبوعہ مصر
ترجمہ ؛۔ (ذکر شدہ تاویلات کی بنا پر) میں کہتا ہوں۔ کہ بارہ خلفاء میں سے آٹھ تو یہ ہوچکے۔ ۱۔ صدیق اکبر۔ ۲۔ فاروق اعظم۔ ۳۔ عثمان غنی۔ ۴۔ علی المرتضیٰ۔ ۵۔ حسن بن علی ۔ ۶ معاویہ ۔ ۷ ابن زبیر ۔۸۔ عمر بن عبدالعزیز۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ورحمتہ اللہ علیہم اجمعین۔ ان کے ساتھ اگر عباسی خلفاٗ میں مہتدی کو گنا جائے جو خاندان امیہ کے خلفا میں سے حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرح نیک و عادل تھا۔ تو یہ (نواں ۹) خلیفہ ہوا۔ اور اسی طرح (طاہر) بھی بوجہ عادل ہونے کے دسواں (۱۰)۔خلیفہ ہوا۔ تو بارہ میں سے ایک تو امام مہدی ہیں ۔ کیونکہ وہ آل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں۔
قرۃ العینین ؛۔
ویزید بن معاویۃ خود ازیں میاں ساقط است بجہت عدم استقرار و مدت معتدبہا وسوٗ سیرت او۔
ترجمہ ان بارہ ۱۲ خلفا میں سے (کہ جن کی پیش کوئی حضور علیہ السلام نے فرمائی) یزید بن معاویۃ قابل شمار نہیں۔ کیونکہ ایک تو وہ معتد بہا مدت نہ گزار سکا اور دوسری وجہ اس کی بری سیرت تھی۔
ان تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یزید بن معاویہ ان بارہ خلفاٗ میں شمار نہیں جن کا حضور علیہ السلام نے ذکر فرمایا۔ لہٰذا ان تصریحات کے ہوتے ہوئے اہلسنت پر یہ الزام و طعن کرنا کہ (یزید اہلسنت کا امام ہے) قطعاً بے وزن اور ناقابل اعتبار ہے۔
اگر علی سبیل تنزیل یہ بات بالفرض تسلیم بھی کرلی جائے ۔ کہ امام سیوطی نے اول الذکر قول کے مطابق (یزید) کو بارہ خلفاٗ میں شامل کیا ہے تو بھی یہ قول اہلسنت پر طعن نہیں بن سکتا۔ کیونکہ علامہ سیوطی نے (تجتمع علیہ الامۃ) کی تاریخی اعتبار سے تاویل بیان کی ہے۔ اور یوں تطبیق کی راہ نکالی ہے۔ تاکہ اس جملہ سے مضمونِ حدیث پر کوئی اعتراض نہ ہوسکے۔ تو اس تاویل و تطبیق کو اہلسنت کا مذہب اور مسلک قرار دینا کسی طور پر جائز نہیں بنتا۔
اس کے علاوہ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ حدیثِ زیر نظر میں صرف تعدادِ خلفاء کی بات ہے۔ اس میں ان خلفاء کے اخلاق و سیرت کے متعلق ایک جملہ بھی درج نہیں ہوا۔ لہٰذا انہیں خلفا ء راشدین سمجھنا (اس حدیث سے) بالکل لایعنی بات ہوگی۔ صرف تعداد کے طور پر امام سیوطی نے ان 12 میں سے ایک یزید کا خلیفہ ہونا بھی لکھ دیا۔ تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ وہ خلفائے راشدین میں سے ایک تھا؟۔
بلکہ امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے واضح طور پر فرمایا دیا ہے کہ یزید کی خلافت و امامت پر اگرچہ امت کا اجماع ہوا۔ لیکن اس کی بدکرداری اور بداخلاقی اور حدودِ شرعیہ کی پامالی کی بنا پر وہ قابلِ ملامت اور باعث لعن و طعن ہے۔ اسلیئے حدیث مذکور سے اہلسنت پر کسی طور پر یہ الزام لگانا درست نہیں۔
لمحہ فکریہ
مذکور حدیث کو لے کربعض اہل تشیع نے بنیاد طعن بنایا۔ اس مین مذکور لفظ (تجتمع علیہ الامۃ) کی تاویل اور احتمال امام سیوطی نے خود ذکر فرما دیا۔ ادھر کتب ِ شیعہ کے جن میں اصول و قواعد کی کتب بھی ہیں۔ میں سے ہم نے یہ ثابت کردیا کہ صفاتِ شرائط وامامت جو مذہب شیعہ میں ایک امام کے لیئے ضروری ہوتی ہیں۔ اور بعض فرائض ِ امامت بھی ہم نے گنوائے۔ تو ان صفات و شرائط اور فرائض کے حامل نہ ہونے کی وجہ سے ائمہ اہلبیت اس حدیث کے مصداق قرار نہیں پاتے۔ اور نہ ہی یہ حدیث ان پر منطبق ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر زیرِ نظر حدیث کے ایک اور جملہ کو دیکھا جائے۔ وہ یہ کہ (ان کے زمانہ میں دین غالب رہے گا) تو بھی اس حدیث کا مصداق آئمہ اہلبیت نہیں بنتے کیونکہ اس جملہ کی روشنی میں آئمہ اہلبیت کی سیرت کا اگر ملاحظہ کیا جائے ۔ جو اہل تشیع نے اپنی کتب میں ذکر کی ہے تو بات بالکل نکھر کر سامنے آجائے گی۔ آئیے ذرا ملاحظہ فرمائیں۔
شیعہ کتب میں تقیہ کی فضیلت پر یہ حدیث دی ہے انہوں نے جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ جس نے امام غائب (امام مہدی) کے ظہور سے پہلے تقیہ کرنا چھوڑ دیا۔ وہ ہم میں سے نہیں ۔ اور امام موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ تقیہ کرنا میرا اور میرے باپ دادا کا دین ہے۔ اور مزید فرمایا کہ جس نے تقیہ نہ کیا اس کا دین ہی نہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تقیہ کا تارک ایسے ہے جیسے کہ نماز کا تارک۔ امام جعفر فرماتے ہیں جس نے کسی منافق کے پیچھے تقیہ کرکے نماز ادا کی۔ اس نے گویا امام ء وقت کے پیچھے نماز پڑھی ۔ اور امام جعفر صادق نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے ہماری کوئی بات لوگوں میں پھیلائی ۔ اس نے گویا ہمیں ہی جان بوجھ کر قتل کیا۔ اور قتلِ خطا نہ کیا۔
حوالہ۔ جامع الاخبار ۔ شیخ صدوق ص 108 فصل الثالث والاربعون فی التقیۃ مطبوعہ نجف)۔
معاذ اللہ۔ جامع الاخبار سے مذکور حدیث نے یہ ثابت کردیا ۔ کہ اہل تشیع ک ے نزدیک بقول حضرت امام جعفر (دین ائمہ اہلبیت) کو شائع اور عوام میں اسکا پرچار کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسا کرنے والے دراصل ائمہ اہلبیت کو عمداً قتل کرنے والا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی امام جعفر صادق کے بعد آنے والا امام خود اپنے آباؤ اجداد کا قاتل بننا کب گوارا کرسکتا ہے۔ اسلیئے جب وہ اس گناہ سے بچے گا۔ تو لازمی طور پر وہ ان کے دین کو چھپائےرکھے گا۔ اور پھر اس چھپانے پر اسے ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ا ور امام موصوف کی طرف سے یہ ہدایت ہے کہ امام ء غائب کے ظہور تک تمہیں تقیہ اختیار کیئے رکھنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ ہمارے دین سے نکل جاؤ گے۔
قطع نظر اس کے کہ حدیثِ موضوع میں کتنا تضاد اور کذب بیانی ہے ہر ذی عقل صرف اس کے الفاظ سے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ حضراتِ ائمہ اہلبیت نے ان کی کسی بات کے ظاہر کرنے کی سختی سے ممانعت کردی۔ تو اس ممانعت کے ہوتے ہوئے ائمہ اہلبیت کے دور میں دین کا غلبہ تو کجا اس کا ظہور ہی نہ تھا۔ حالانکہ علامہ سیوطی سے منقول حدیث میں ان کے بارہ خلفاء کے دور میں دین کا غلبہ پانا موجود ہے۔ تو اس حقیقت کے ہوتے ہوئے یہ بات کون کہہ سکتا ہے کہ اس حدیث کا مصداق آئمہ اہلبیت ہیں؟۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اس حدیث کو لے کر سیدنا امام سیوطی اور دیگر تمام اہلسنت وجماعت پر طعن بنا کر پیش کیا جائے؟
حرف آخر
یعنی ثابت ہوا کہ کتب شیعہ میں امام و خلیفہ کی جو شرائط بیان کی گئی ہیں۔ اور ان کے ساتھ ہی ان کی کتب میں جو ائمہ اہلبیت سے ایسی روایات پائی جاتی ہیں جس سے دین کے چھپائے رکھنے کو ایک عظیم کارنامہ قرار دیا گیا ہے۔ ان تمام عبارات کو دیکھ کر ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ اہلبیت کے زمانہ میں دین کا غلبہ تو کجا اس کا ظہور تک بھی نہ ہوسکا۔ لہٰذا حدیث مذکور کا مصداق بقول شیعہ آئمہ اہلبیت ہرگز نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ دین کا غلبہ اور قوت پذیر ہونا اور دین کو چھپائے رکھنا دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اور ان میں سے ایک ہی بات ہوسکتی ہے۔ تو ثابت ہوا کہ اس حدیث میں مراد آئمہ اہلبیت ہرگز نہیں اور یہ شیعہ حضرات کی اپنی اختراع ہے جو اپنے خوارجی بھائیوں کو اہلسنت کا نام دے کر اپنے تقیہ کا اظہار کرتے ہیں جبکہ یہ الزام سراسر غلط اور بے بنیاد کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔
فاعتبروا یا اولی الابصار
جواب دوم
امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کی جس عبارت کو پیش کرکے طعن کی بنیاد قرار دیا گیا۔ درحقیقت وہ ایک ایسی حدیث کی شرح میں تحریر کی گئی ہے جو مختلف طریقوں سے منقول و مروی ہے۔ ان مختلف طریقوں سے ایک طریقہ روایت ایسا ہے جو کتب اہلسنت وجماعت اور کتب اہل تشیع میں مذکور ہوا ہے۔ اس طریقہ روایت پر دونوں کتب میں الفاظ بھی برابر ملتے جلتے ہیں۔ لہٰذا جب ایک ہی روایت ایک ہی جیسے الفاظ سے دونوں کی کتب میں مذکور ہے تو پھر اسے صرف اہلسنت سے نتھی کرنا کہاں کا طریقہ ہوا؟۔
لماذا نحن شیعہ؛۔
جابر بن سمرۃ رفعہ لایزال ھٰذا الدین قائماً حتیٰ یکون علیکم اِثنا عشر خلیفۃً کلھم تجتمع علیہ الامۃ
حوالہ لماذا نحن شیعہ جلد 1 ص 174 ۔ تصنیف ۔ محمد رضی الرضوی شیعی مطبوعہ قاھرہ طبع جدید۔ و تاریخ الخلفاء للسیوطی (اہلسنت) ص 10 تذکرہ مدت الخلافۃ فی الاسلام مطبوعہ مصر)۔
ترجمہ؛۔ حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کہ یہ دین اسوقت تک تم میں مضبوطی سے قائم رہے گا جب تک تم پر بارہ خلیفہ (باری باری اپنا دورِ خلافت) گزار نہ دیں۔ ان تمام بارہ خلفاء پر امت کا اجماع ہوگا۔
مذکور حدیث جو کہ کتبِ شیعہ و اہلسنت دونوں میں ہی ایک طور پر مروی ہے۔ اس میں صاف صاف یہ بیان ہے۔ کہ حضور علیہ السلام کے بعد بارہ خلفاء ایسے آئیں گے جن کے دورِ خلافت میں دین و اسلام قائم و مضبوط رہے گا۔ اور ان کی خلافت پر تمام لوگوں کا اتفاق ہوگا۔ اور تمام لوگ ان کو اجتماعی طور پر اپنا خلیفہ تسلیم کریں گے۔
اب ذرا اس تاریخی حقیقت کو پیش نظر رکھئے اور کتب تاریخ سے ورق گردانی کرکے ذرا اس بات کو تلاش کیجئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ کون کون سے خلیفہ آئے۔ جنہیں لوگوں نے باتفاق خلیفہ مانا۔ اور دین و اسلام کا قیام باقی رہا۔ یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ وہ بارہ خلفاء وہی تھے جن کا تذکرہ علامہ جلال الدین سیوطی نے اس حدیث کی تشریح مٰں کیا ہے۔ وہ بالترتیب یہ ہیں۔
۱۔ صدیق اکبر۔ ۲۔ فاروق اعظم، ۳۔ عثمان غنی۔ ۴۔ علی المرتضیٰ، ۵۔ امیر معاویہ۔ ۶ یزید ۔ ۷۔ عبدالملک بن مروان ۔ ۸۔ ولید بن عبدالملک۔ ۹۔ سلیمان بن عبدالملک۔ ۱۰ عمر بن عبدالعزیز۔ ۱۱۔ یزید بن عبدالملک ۔ ۱۲ ہشام بن عبدالملک۔
امام جلال الدین سیوطی نے اس حدیث میں مذکور دو باتوں کو پیش نظر رکھ کر واقعات و حقائق اور تاریخ کے حوالے سے یہ بتلانا چاہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کسطرح صحیح ثابت ہوئی۔ اور وہ کون کون سے خلفاٗ ہوسکتے ہیں۔ جن کے دور خلافت میں اسلام کو استحکام اور مضبوطی حاصل رہی۔ اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ کب تک ایک ہی اسلامی جھنڈا اور ایک ہی دارالخلافہ رہا۔ اور کب تک خلیفہ پر عوام متفق رہے۔ ان حقائق کے پیشر نظر علامہ سیوطی نے بارہ خلفا کا نام ذکر کیا۔
جبکہ
یہ معاملہ کہ علامہ سیوطی نے ان بارہ خلفا میں (یزید) کو شمار کیا اور یہ بھی اس لیئے کیا کہ یزید ان کے نزدیک متقی اور پرھیزگار خلیفہ تھا اور اسکی خلافت کو علی منہاج النبوت خلافت قرار دیا ہے۔ تو ایسا کہنا دراصل امام سیوطی پر بہتان طرازی ہے اور سنگین جہالت۔ کیونکہ امام سیوطی نے اسی کتاب (تاریخ الخلفا) میں امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات کے دوران یزید اور ابن زیاد کے متعلق اپنا نظریہ کھل کر بیان فرمایا ہے چنانچہ لکھتے ہیں؛۔
لعن اللہ قاتلہ و ابن زیاد معہ ویزیدایضاً وکان قتلہ بکربلا وفی قتلہ قصۃ فیھا طول لا یتحمل القب ذکرھا فانا للہ وانا الیہ راجعون۔
ترجمہ؛۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل پر اللہ کی پھٹکار اور اس کے ساتھ یزید اور ابن زیاد پر خدا کی لعنت۔ آپ کو میدانِ کربلا میں شہید کیا گیا۔ اور اس شہادت کی طویل داستان ہے جس کے بیان کرنے سے دل جسارت نہیں کرتا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
امام سیوطی نے کتنا صاف صاف اپنا نظریہ بیان فرمادیا۔ اور یزید و ابن زیاد کو قاتلانِ امام مظلوم کے ساتھ ملعون قرار دیا۔ اسی سلسلہ میں مزید اسی کتاب میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور خلافت میں یزید کے نام لیوا کا واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے۔
پھر اسی تاریخ الخلفا میں ص ۲۰۹ تذکرہ یزید بن معاویہ میں رواہ مسلم سے احادیث بیان کیں ہیں اور اپنا فتویٰ جاری فرمایا کہ یزید پر اللہ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
لہٰذا ہم اس سے بھی لمبے جواب دے سکتے ہیں لیکن عقل والوں اور پڑھنے والوں جو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ان کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ امام سیوطی کا اس سے مقصد تطبیق تھا نا کہ عقیدہ بیان کرنا اور دوسری بات ، تاریخ سے نص نہیں نکالی جاتی ، شیعہ حضرات میں قرآن ہوتا تو ان کو پتہ ہوتا کہ نص کیا چیز ہوتی ہے جس کے گرد عقائد گھومتے ہیں۔ لہٰذا امید کی جاتی ہے کہ اس جواب سے تسلی ہوگئی ہوگی۔ اور یہ اعتراض جو بعض جہلا نے پیش کیا ہے وہ مکمل طور پر فیبریکیٹڈ اور گھڑا ہوا اور خود ساختہ تاویلات پر مبنی ہے جو کرکے شیعہ اپنے خارجی بھائیوں سے الفت جتاتے ہیں۔