Post by zarbehaq on May 29, 2016 10:14:16 GMT
دجال کے بارے میں مفصل معلومات اور مودودی کے انکارِ دجال کا مکمل تفصیلی جواب و ردِ وہابیت۔
نام دجال کیوں؟
فضول نہیں اگر میں کہوں : دجال نام رکھنے کے سبب میں بہت زیادہ اختلاف ہے، کہا گیا ہے: دجل (سے دجال بنا) کا اصل معنی تغطیۃ ہے یعنی ڈھانپنا (عربی زبان میں ایک محاورہ ہے) دجل البعیر (یہ محاورہ) اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹ پر تارکول وغیرہ ملی گئی ہو۔
حافظ ابن دحیہ نے کہا: علماء نے کہا: دجال کا لفظ لغت میں دس معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
اول؛۔ دجال کا معنی ہے کذاب (بہت جھوٹا) یہ خلیل وغیرہ کا قول ہے اس کی جمع دجالون ہے۔
دوم: یہ کہ دجال دجل سے بنایا گیا ہے اس کا معنی ہے اونٹ کو تارکول لگانا، اس نام کے رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ حق کو چھپائے گا اور اس پر اپنے جادو اور جھوٹ سے پردہ ڈالے گا جیسے کوئی آدمی اپنے اونٹ کی خارش کو تارکول سے چھپاتا ہے ، جب وہ یہ کام کرے تو اس کا نام مُدِجل ہے اس کا قائل اصمعی ہے۔
سوم؛ اس کا نام یہ اسلیئے ہے کہ وہ زمین کے اطراف میں گھوم جائے گا اور انہیں طے کرلے گا، جب کوئی یہ کام کرتا ہے تو کہا جاتا ہے: دجل الرجل (آدمی نے زمین کو پھر طے کرلیا)۔
چہارم: لفظ دجال میں ڈھانپنے کا مفہوم ہے کیونکہ وہ زمین پر پوری طرح چھا جائے گا اور پوری دنیا کو اپنے شر سے ڈھانپ لے گا، اور دجل کا معنی ڈھانپنا ہے، اب درید نے کہا: کل شئی غطیتہ فقد دجلتہ (ہر وہ چیز جسے اس نے ڈھانپ لیا اس کے ساتھ میں نےدجال والا کام کیا)۔
پنجم : اس کا نام دجال اسلیئے ہے کہ وہ اس زمین کو قطع کرے گا جب وہ مکہ اور مدینہ کے علاوہ پوری زمین کو روند ڈالے گا۔
ششم : اس کا نام دجال اس لیئے رکھا گیا کہ وہ لوگوں کو اپنے شر سے دھوکہ دے گا جیسا کہ کہا جاتا ہے: لطخنی فلان بشرہ (فلاں شخص نے مجھے اپنے شر سے آلودہ کردیا) (جیسے گندگی سے کسی چیز کو آلودہ کیا جاتا ہے، معلوم ہوا کہ دجال کا شر ایک گندگی ہے جوایمان کو آلودہ کردیگی )۔
ہفتم: دجال کا معنی ہے مخِرق اور مُخَرِق یعنی دہشت زدہ کرنے والا اور بہت جھوٹ بولنے والا۔
ہشتم: دجال کا معنی ہے مموہ (ملمع سازی کرنے والا) یہ مفہوم بتانے والے ثعلب ہیں، جیسا کہ جب تلوار کو سونا چڑھا کر ملمع کیا گیا ہو تو کہا جاتا ہے سیف مدجل یعنی سونا چڑھائی ہوئی تلوار۔
نہم : دجال سونے کے اس پانی کو بھی کہا جاتا ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو ملمع سازی کی جائے کہ اسکا باطل (باہر سے) حسین ہوجائے اور اس کے اندر ٹھیکری یا عود ہو (لہٰذا دجال بھی جو اس کے دل میں ہوگا اس کے خلاف ظاہر کرے گا اسطرح اس کی طرف سے ملمع سازی ہوگی)۔
دہم : دجال فبرند السیف تلوار کا جوہر، اس کے نقش و نگار (ان معانی کو قرطبی نے التذکرۃ 2/60 میں ذکر کیا، ان معانی میں سے اکثر کو لسان العرب اور فتح الباری ج 13/97 مین دیکھا جاسکتا ہے)۔
بعض علماء نے ان میں سے اکثر معانی کا ذکر کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اپنے شیخ مجد الدین الشیرازی
فیروزآبادی سے ذکر کیا: کہ آپ نے اس کا نام دجال رکھنے کا سبب بیان کرتے ہوئے پچاس قول جمع کیئے (فتح الباری ج 13،101)۔ بحوالہ احمد مصطفیٰ قاسم الطہطاوی۔ مترجم قاری یاسین قادری ضیائی شطاری
دجال کو مسیح کہنا خطا ہے
بہت سارے لوگوں نے تالیفات مرتب کیں اسی طرح ایک سے زائد علمائے کرام نے اسکا نام مسیح دجال ذکر کیا تاکہ وہ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ااسے الگ کرسکیں حالانکہ؛ علماء نے اس کا انکار فرمایا؛۔
ابن حجر نے کہا:
ابن عربی نے مبالغہ کیا کہ کہا: قوم گمراہ ہوگئی تو انہوں نے اسے مسیح روایت کیا اور بعض نے سین کو مشدد کردیا تاکہ اس کے اور مسیح عیسٰی بن مریم علیہ السلامھا کے درمیان فرق کرسکیں اسطرح انہوں نے مسیح کی بجائے (مسیخ) کردیا اور یہ ان کا گمان ہے۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان تو فرق پہلے ہی سے ہے۔
بہترین وہ چیز ہے جسکی ہم پر اتباع واجب ہے وہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا عیسی علیہ السلام اوردجال کے درمیان فرق کرنے کے لیئے وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں فرمایا؛۔
مسیح الضلالۃ ۔ گمراہی کا سیاح یا گمراہی کا راہنما (اس کی تخریج و الفاظ کی تفصیل آگے )۔ یہ دلالت کرتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام (مسیح الھدیٰ) یعنی (ہدایت کے مسیح یا راہنما) ہیں تو ان لوگوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تعظیم کا ارادہ کیا مگر حدیث میں تحریف کردی۔
امام نووی نے ذکر کیا کہ اکثر راویوں نے اسے لفظِ مسیح سے ہی ذکر کیا بعض نے مخالفت کی کہ حاء کو خاء سے بدل دیا اور جو حاء سے ہے اسے ہی ترجیح ہے یعنی مسیح حاء پر نقطہ نہیں۔
بحوالہ فتح الباری 101،102/13 اور امام نووی کی شرح مسلم 590/2
اسے مسیح کیوں کہا گیا؟
دجال کا نام مسیح رکھنے کے سبب میں علماء کے کئی جوابات ہیں خلاصہ یہ ہے۔
اس کا نام مسیح اسلیئے رکھا گیا کہ وہ زمین کو چھو ئے ا یعنی اس پر گھوم جائے گا۔ یہ قول لغوی ابوالعباس ثعلب کا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مسیح کہا گیا کیونکہ آپ کبھی شام میں کبھی مصر میں کبھی سمندروں کے ساحلوں پر ہونگے اور اسی طرح مسیح دجال ہے ۔ دونوں کا نام مسیح ان کے زمین پر گھوم جانے کی وجہ سے ہوا
2۔ اس کا نام دجال رکھنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسکی ایک آنکھ اور ایک ابرو نہیں ہوں گے۔ ابن فارس نے کہا
والمسیح احد شقی وجھہ ممسوح لاعین لہ ولاحاجب ولِذالک سمی مسیحا
مسیح دجال کے چہرے کے دوحصوں میں سے ایک مٹا ہوا ہوگا نہ اسکی ایک آنکھ ہوگی اور نہ اس کا ایک ابرو ہوگا اسی وجہ سے اسکا نام مسیح ہے (لغت میں مسیح کا معنی کانا بھی ہے)۔
3۔ مسیح بمعنی کذاب یعنی بہت جھوٹ بولنے والا ، یہ ایسا معنی ہے کہ اس سے دجال مخصوص ہے کیونکہ وہ جھوٹ بولے گا اور کہے گا (انا اللہ) یہ انسانوں میں سے بہت بڑا جھوٹا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بدشکلی اور عار کے ساتھ خاص کیا۔
4۔ مسیح بمعنی سرکش، خبیث ، پلید اس مفہوم کا قائل ابن فارس ہے، البتہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مسیح کہنے کی وجہ دجال کی وجہ سے مختلف ہے اور علماء کے اس میں کئی اقوال ہیں جن کو ابن دحیہ نے اپنی کتاب مجمع البحرین میں جمع کردیا ان اقوال کی تعداد 23 ہے مشہور ترین درج ذیل ہیں؛۔
۱۔ آپ کا نام مسیح اسلیئے ہے کہ آپ سے بوقتِ ولادت برکت حاصل کی گئی۔
۲۔ اسلیئے بھی کہ کسی تکلیف والے کو آپ نہیں چھوتے تھے مگر وہ اچھا ہوجاتا تھا۔
۳۔ اسلیے بھی کہ آپ چہرہ کے حسین تھے اسے ابن منظور نے ذکر کیا ہے کہا جاتا ہے: مسحہ اللہ: یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسین ، برکتوں والی صورت میں پیدا کیا۔
اس بابت مزید تفصیلات اور مباحث کے لیئے قرطبی کی کتاب تذکرہ ۷۶۸،۷۶۶ ج ۲ میں، لسان العرب ابن منظور افریقی کی زیر مادہ مسح اور معجم مقابیس اللغۃ ، ابن فارس کی جلد ۵ صفحات ۳۲۳ ، ۳۲۲ دیکھی جاسکتی ہیں۔
ردِ مودودیت جس نے دجال کا انکار کیا یہ کہہ کر کہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں
جواب؛۔ قرآن میں ذکر کیوں نہیں؟
ان بہت سارے سوالات مین علماء کا اختلاف ہے جو دجال سے متعلق ہیں، خصوصاً جن میں کوئی حدیث ثابت نہیں اور یقیناً جو ان میں سے زیادہ ظاہر ہیں درج ذیل ہے؛۔
دجال کا ذکر قرآن میں صراحتاً کیوں نہیں؟
خاص کرکے اس سے جس شر کا ذکر ہے، لوگوں کے لیئے اس کا فتنہ عظیم، اور انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا مسلسل اس سے بچانے کی وضاحت ہے، اور اس سے پناہ مانگنے کا حکم ہے حتی کہ نماز میں بھی۔
علماء نے کئی جواب دیئے ہیں جن کا حاصل یہ ہے؛۔
اول؛۔ یہ کہ اس کا ذکر صراحت سے نہیں کیا گیا، لیکن اسکی طرف اشارہ کئی آیات میں ہے، ان میں سے ایک یہ ارشادِ الٰہی ہے :
یوم یاتی بعض آیات ربک لا ینفع نفساً ایمانھا۔ سورۃ الانعام آیت 158
جس دن تیرے رب کی بعض نشانیاں آئیں گی تو کسی نفس کو اس کا ایمان نفع نہ دے گا۔
اس کے معنی پر دلالت اس حدیث شریف کی ہے جو سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ
ثلاثۃ اذا خرجن لم ینفع نفساً ایمانھا، لم تکن آمنت من قبل: الدجال والدابۃ وطلوع الشمس من مغربھا۔
تین چیزیں جب نکلیں گی تو کسی جان کو جو اس سے پہلے ایمان نہ لائی ہوگی اس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا، دجال ، دابۃ الارض اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان حدیث نمبر ۲۴۹۔ ترمذی کتاب التفسیر ، ۳۰۷۳، مسند احمد ج ۲، ۴۴۵، مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الفتن ، ۳۷۵۹۶، صحیح ابوعوانہ ۱، ۱۰۷)۔
دوم ؛ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وان من اھل الکتاب الا یومنن بہ قبل موتہ (سورۃ النساٗ ۱۵۹)۔ ترجمہ۔ اور نہیں کوئی اہل کتاب مگر وہ ضرور ضرور آپ پر ایمان لائے گا اسکی موت سے پہلے۔
اس میں نزول عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے، اور یہ بات صحیح ہے کہ آپ دجال کو قتل کریں گے، تو اللہ تعالیٰ نے ضدین میں سے ایک کے ذکر پر ہی اکتفاٗ فرمایا اور اسلیئے بھی کہ اسکا لقب بھی عیسیٰ علیہ السلام کے لقب کی طرح مسیح ہے لیکن دجال گمراہی کا مسیح ہے اور عیسیٰ علیہ السلام ہدایت کے مسیح ہیں۔
۳۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
لخلق السمٰوات والارض اکبر من خلق الناس ولکن اکثر الناس لایعلمون (سورۃ غافر ۵۷)۔ ترجمہ؛۔ یقیناً آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسان کے پیدا کرنے سے بڑا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
بغوی نے تفسیر معالم التنزیل میں ذکر کیا: ان کے الفاظ یہ ہیں؛۔
اہل تفسیر نے کہا: یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی ، اسلیئے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
ان صاحبنا المسیح بن داود ۔ یعنون الدجال۔ یخرج فی آخر الزمان فیبلغ سلطانہ البر والبحر ، ویرا الملک الینا۔
بیشک ہمارا صحاب مسیح بن داود ۔ ان کی مراد دجال ہے۔ آخری زمانہ میں نکلے گا تو اسکی سلطنت بحر وبر میں ہوگی، اور وہ ملک ہمیں واپس دلادے گا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
فاستعذ باللہ ۔ اللہ کی پناہ مانگ (یعنی مسیح دجال کے فتنہ سے)۔
تفسیر بغوی، معالم التنزیل ۴، ۱۰۱ : سیوطی نے ابی عالیہ سے عبد بن حمید سے مرسلاً ذکر کیا ؛ ابن ابی حاتم نے سند صحیح کے ساتھ درمنثور میں ۵، ۶۶۱۔
حافظ ابن حجر نے اسطرف اشارہ فرمایا اور اسے مستحسن قرار دیا اور فرمایا اس جگہ الناس سے مراد دجال ہے گویا کل کو بعض پر استعمال کیا گیا ہے۔
اسکی طرف حافظ ابن حجر نے اشارہ کیا اور اسے حسن قرار دیا، اور فرمایا؛ یہاں الناس سے مراد دجال ہے تو گویا (کُل) ایسا لفظ جو کثیر کے لیئے ہو) کو بعض (ایک) پر استعمال کیا گیا ہے۔
یہ اگر ثانت ہوتو بہترین جواب ہے، اور اس میں سے ہے جس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیان سے کیا۔
بحوالہ فتح الباری ۱۳، ۹۸ ، النھایۃ فی الفتن لابن کثیر ۱، ۱۵۱،۱۵۲
بعض نے ایک چوتھا جواب زیادہ ذکر کیا تو کہا:۔
آپ نے اس کا ذکر اس کے حقیر و ذلیل ہونے کی وجہ سے چھوڑدیا، اسی طرف حافظ ابن کثیر کا میلان ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ عزوجل نے اسکا ذکر چھوڑا، اس کا ذکر قرآن میں اسکی حقارت اور امتحان کے سبب نہیں، اسلیئے کہ اس کے جھوٹا ہونے کا معاملہ اس سے واضح تر ہے کہ اس پر تنبیہ کی جائے یا اس سے ڈرایا جائے ، اور کبھی کسی شئے کا ذکر اس کے واضح ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا جاتا ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتِ وصال حالتِ مرض میں ارشاد فرمایا اور اس بات کا عزم کرلیا کہ اپنے بعد سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو لکھ دیں پھر اسے چھوڑ دیا اور فرمایا:۔
یابی اللہ والمومنون الا ابابکر
اللہ تعالیٰ اور مومن انکار کریں گے مگر ابوبکر کا (نہیں کریں گے)۔
صحیح ہے اسے ابن سعد نے طبقات الکبریٰ ۲، ۱۷۳ میں روایت کیا: حاکم نے مستدرک میں کتاب معرفتہ الصحابہ ۳، ۴۷۷ میں اور ذہبی نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔
لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بیان کر ترک فرما دیا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ کی عظمت واضح اور قدر صحابہ کرام کے نزدیک ظاہر تھی، اور آپ جانتے تھے کہ صحابہ کرام کسی کو آپ کے برابر نہیں سمجھتے، تو اسی طرح یہ مقام ہے جس میں ہم ہیں کہ دجال کی مذمت واضح اور نقص ظاہر ہے اس مقام کی وجہ سے جسکا وہ خود دعویٰ کریگا اور وہ مقام ربوبیت ہے، اللہ تعالیٰ نے اسکا ذکر ترک فرمادیا، اس نص فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مومن بندے جانیں کیونکہ اس جیسی باتیں اللہ تعالیٰ اور راس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور ان کے احکام کو تسلیم کرنے میں ہی ان کی رہنمائی کرتی ہیں اور ایمان و تسلیم کو زیادہ کرتی ہیں
بحوالہ النھایۃ فی التفن والملاحم، ابن کثیر ۱، ۱۵۲۔
ابن حجر نے اسکا تعاقب کیا جس نے کہا کہ اسکا ذکر بوجہ حقارت چھوڑا گیا ہے، اوراسکی کمزوری کو بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے یاجوج ماجوج کا ذکر کیا جبکہ ان کا فتنہ دجال کے فتنہ سے کم نہیں
(یاجوج ماجوج سے دجال کا فتنہ بڑھ کر لگتا ہے کہ وہ شرک کی دعوت دینے والا اور دعویٰ الوہیت کرنے والا ہوگا)۔
چونکہ مودودی کے نظریات یہ بھی تھے کہ قرآن کی تفسیر پرانی تفاسیر کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنے ذاتی خیال کی بنا پر کرنی چاہیئے جسکے لیئے کسی کالج کا پروفیسر کافی ہو۔ لہٰذا کچھ بعید نہیں کہ ان کی موٹی کھوپڑی میں یہ چھوٹی بات نہیں آسکی کہ اسلام کی بنیاد قرآن اور سنت پر ہے۔ سنت کا انکار (یعنی احادیث کا انکار) کرنا قرآن کا ہی انکار کرنا ہے اور قرآن کا انکار اسلام کا انکار ہے جو مودودی صاحب اپنی زندگی میں کرتے رہے اور امید ہے کہ اس جہان میں انکی اچھی ضیافت ہورہی ہوگی۔ کیونکہ ان کے بدکار خیالات اور ادھوری تعلیمات کی وجہ سے آجتک ایک طبقہ ان کی جیسی گمراہیوں کا شکار ہے۔ لیکن نام سلف کی منہاج رکھتے ہیں۔ قرآن میں جیسا کہ ہم نے کہا کہ ذکر کی طرف اشارہ ہے۔ تو اسی اشارات کی تشریح نبی علیہ السلام کی حدیثیں ہیں۔ وہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کہ جن کی وجہ سے مودودی جیسی چیز بھی اسلام سے واقف تھے یعنی جن کی ذاتِ اقدس کو قدرت نے ہمارے لیئے منتخب کیا تاکہ ہم اسکی ذات کو پہچان سکیں، یہ خوارجی طبقہ اپنی کالجانہ جہالت میں اسقدر غرقات تھے کہ انہوں نے جو اپنی مرضی سے سوچا اسکو منظور کرلیا جسکو دل چاہا اس کو رد کردیا۔ اور پھٹے منہ ہوکر اسلام سے ہی پھر گئے۔ کیونکہ جہاں قرآن انسان کی رہنمائی کے لیئے ہے وہیں پر اللہ اس سے بہتوں کو گمراہ بھی کرتا ہے اور یہی حال خوارجیوں کے برصغیری مولوی صاحب کا ہوا اور اسکی ہی وجہ سے آج تک پوری تین نسلیں برباد ہوئیں اسکے گمراہ عقیدے پر چل کر۔
دجال ۔۔۔۔۔۔۔۔ حقیقت و خیال
ایمان کی بات یہ ہے کہ دجال آخری زمانہ میں ہوگا یہ حقیقت ہے اس میں کوئی شک نہیں اس پر ایمان رکھنا واجب ہے۔
اہل علم نے اس پر ایمان کے واجب ہونے پر اتفاق کیا ہے جو دجال کے خروج اور راسکے اس فتنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائے گا، اسکی مخالفت اہل بدعت اور ٹیڑھی راہ والوں کے سوا کسی نے نہیں کی، یعنی خارجی اور معتزلہ، اہل علم کے لیئے اسکے کئی دلائل ان کے رد میں مذکور ہیں۔ کچھ ان سے ہم ذکر کرتے ہیں۔
امام قاضی عیاض مالکی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ
نے احادیثِ دجال کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:۔
ان احادیث میں دلیل ہے کہ مسلک اہلسنت حق ہے کہ دجال کا وجود صحیح ہے، وہ ایک معین شخص ہے ، اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائے گا، اسے کئی چیزوں پر قدرت ہوگی جیسے قتل کے بعد زندہ کرنا، سبزہ اور نہروں کا ظہور، جنت و دوزخ (جیسا کہ وہ ظاہر کرے گا) زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے چلنا۔۔۔۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیئت ہی سے ہوگا ، پھر اللہ تعالیٰ اسے عاجز کردے گا تو وہ کسی قتل وغیرہ پر قادر نہ رہے گا اس کا معاملہ باطل ہوجائے گا اور اسے عیسیٰ علیہ السلام قتل کریں گے۔
بعض خارجیوں، معتزلیوں اور جہمیہ نے اس میں (اہلسنت کی مخالفت کی) تو انہوں نے اس کے وجود کا انکار کردیا اور احادیثِ صحیحہ کا رد کربیٹھے (اسے ابن حجر نے فتح الباری 98/13 میں نقل کیا ہے۔
حضرت علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛۔
دجال پر ایمان رکھنا اوراس کا نکلنا حق ہے ، اور یہ ہی اہلسنت اور عام اہل فقہ وحدیث کا مذہب ہے، بخلاف معتزلہ اور خارجیوں کے جنہوں نے اسکا انکار کیا۔ (تذکرہ ، قرطبی751/2 ۔
حضرت الامام طحاوی رحمتہ اللہ علیہ نے اسکے بارے میں مشہور عقیدہ بیان فرمایا:۔
نومن باشراط الساعۃ: من خروج الدجال ونزول عیسیٰ بن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام من السمآءِ (شرح عقیدہ طحاویہ ، ابن ابی العز الحنفی 564، 565
اور ہم قیامت کی علامات پر ایمان رکھتے ہیں: جیسے دجال کا نکلنا، عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا۔۔
لہٰذا اب غور کریں کہ مودودی (جو خود کو سلف کا پیروکار کہلواتا تھا اور آج بھی جنکی سوکالڈ سلفی منہاج چل رہی ہے) کیا وہ واقعی سلف کے پیروکار ہیں؟ یا یہ ایک صریحاً دھوکہ ہے؟
مختلف لغات وغیرہ اور حوالہ جات کے عکس عنقریب اپلوڈ کردیئے جائیں گے۔ یہاں پر بھی اور انشاء اللہ تعالیٰ العزیز فورم پر بھی
Scans Folder G-Drive [Here]