Post by Admin on Jun 7, 2017 18:08:59 GMT
قرآن مجید کے محفوظ اور غیرمبدل ہونے پر مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات
قرآن کو تین مرتبہ جمع کیا کیا ہے۔
۱؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کتابت میں قرآن مجید کو جمع کیا گیا ، اور تمام سورتوں اور آیتوں کو مرتب کرکے اپنی اپنی جگہ لکھ دیا گیا، امام بخاری روایت کرتے ہیں؛ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے میری طرف پیغام بھیجا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کو لکھتے تھے، لہٰذا اب تم قرآن مجید کو جمع کرو (حوالہ؛ صحیح بخاری ج ۲ ص ۷۴۶ ط۔ نورمحمد اصح المطابع کراچی)۔
سو ہڈیوں پر، پتھروں پر اور کپڑوں کے ٹکڑوں پر قرآن مجید کو لکھا گیا لیکن یہ تمام اجزا متفرق تھے اور کسی کتابی شکل میں مجتمع اور مدون نہیں تھے۔
۲؛ حضرت ابوبکر کے عہد میں لغتِ قریش کے مطابق قرآن مجید کا ایک مجموعہ کتاب یا مصحف کی شکل میں مرتب کرلیا گیا، لیکن مسلمانوں کو اپنی لغات کے مطابق قرآن مجید پڑھنے کی اجازت تھی۔
۳؛ حضرت عثمان کے عہد میں اسی نسخہ قرآن کی نقول تیار کی گئیں جو حضرت ابوبکر کے زمانہ میں لغتِ قریش پر مرتب کیا گیا تھا، اور تمام اسلامی شہروں میں اسی کی نقول ارسال کی گئیں اور باقی تمام نسخوں کو دھلوا کر جلوا دیا گیا۔
عہد رسالت سے لیکر آج تک تمام امت مسلمہ کے پاس یہی قرآن مجید ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی کمی یا بیشی نہیں ہوئی، مستشرقین اور غیرمسلم محققین نے قرآن مجید کے محفوظ اور غیرمبدل ہونے پر کئی اعتراضات کئے ہیں جن میں سے بعض اعتراضات تو بالکل سطحی اور بے وزن ہیں جو مطلقاً لائق التفات نہیں ہیں، ہم چونکہ بلاوجہ طوالت سے اجتناب کرنا چاہتے ہیں اسلیئے ہم صرف ان اعتراضات کے جوابات لکھ رہے ہیں جن کی بہرحال کوئی نہ کوئی بنیاد ہے۔
پہلا اعتراض یہ ہے کہ پیغمبر اسلام سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قرآن مجید محفوظ نہیں تھا تو بعد والوں کو کیسے محفوظ رہے گا، اس کی سند یہ ہے:
امام بخاری روایت کرتے ہیں؛
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں ایک شخص کو قرآن مجید کی ایک سورت پڑھتے ہوئے سنا، تو آپ نے فرمایا: اللہ اس شخص پر رحمت فرمائے، اس نے مجھے فلاں فلاں آیت یاد دلادی جو مجھے فلاں فلاں سورت سے بھلا دی گئی تھی۔ (صحیح بخاری ج ۲ ص ۷۵۳)
جواب
اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنی کسی حکمت کو پیدا کرنے کے لیئے کسی چیز کی طرف سے وقتی طور پر نبی کریم ﷺ کی توجہ ہٹا دیتا ہے اور بعد میں آپ کو پھر اس کی طرف متوجہ کردیتا ہے۔ عام لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ کسی چیز کو بھول جاتے ہیں، پھر کسی سے سن کر یا کسی اور سبب سے ان کو وہ چیز یاد آجاتی ہے، اس سے قرآن مجید کے محفوظ اور غیرمبدل ہونے پر کیا زد پڑتی ہے، اس حدیث کا منشاٗ صرف اتنا ہے کہ کسی چیز سے وقتی طور پر توجہ کا ہٹ جانا منصب نبوت کے خلاف نہیں ہے، اس شخص کے حفظ کرنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیتوں کو حفظ کرلیا تھا، پھر وحی لکھنے والوں سے اس آیت کو لکھوادیا تھا، اور مسلمانوں کو اس آیت کی تبلیغ فرمادی تھی اور انہوں نے آپ سے سن کر ان آیتوں کو یاد کرلیا تھا۔
دوسرا اعتراض؛ یہ ہے کہ چند آیتوں کو حضرت عائشہ (رض) کی بکری کھا گئی تھی اسلیئے وہ ضائع ہوگئیں اس کی دلیل یہ حدیث بتائی جاتی ہے؛
امام احمد روایت کرتے ہیں؛
نبی ﷺ کی زوجہ حضرت ام المومنین عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رجم کی آیت نازل کی گئی اور بالغ آدمی کو دس چسکیاں دودھ پلانے سے رضاعت کی آیت نازل کی گئی، یہ آیتیں ایک پتے پر لکھی ہوئی تھیں جو میرے گھرمیں میرے تکیہ کے نیچے رکھا ہوا تھا، جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو ہم آپ کی تیمارداری میں مشغول ہوگئے اور ایک چوپایہ گھر میں داخل ہوا اور اس پتے کو کھا گیا۔ (مسند احمد ج ۶ ص ۲۶۹ ط۔ مکتب اسلامی بیروت)۔
جواب؛
اس کا جواب یہ ہے کہ آیت رجم اور دس چسکیوں سے رضاعت کے ثبوت کی آیت منسوخ التلاوت ہے، خود حضرت عائشہ (رض) بھی اسکے منسوخ ہونے کی قائل ہیں، نیز اس کا ثبوت محض خبر واحد ہے تواتر سے نہیں ہے اور قرآن اس مجموعہ کلام کا نام ہے جو ہم تک تواتر سے پہنچا ہے، لہٰذا ان آیتوں کے ضائع ہونے سے قرآن مجید کے محفوظ ہونے پر کوئی اشکال نہیں ہے۔
تیسرا اعتراض؛ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) معوذتین (یعنی سورہ الفلق، سورہ الناس) کو قرآن مجید کی دو سورتیں نہیں مانتے تھے، اور اسکا ثبوت ان احادیث سے ہے:
امام احمد روایت کرتے ہیں:
عبدالرحمٰن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اپنے مصاحف سے معوذتین کو کھرچ دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ دونوں اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام میں سے نہیں ہیں۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۱۲۹، ۱۳۰ مکتب اسلامی بیروت)۔
حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام احمد اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے، امام احمد کی سند صحیح ہے اور امام طبرانی کی سند ثقہ ہے۔ (مجمع الزوائد ج ۷ ص ۱۴۹ دارالکتاب العربی بیروت)۔
امام طبرانی روایت کرتے ہیں؛
عبدالرحمان بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) معوذتین کو کھرچ دیتے تھے، اور کہتے تھے کہ جو اس میں نہیں ، اس کو تم کیوں زیادہ کرتے ہو؟ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن مسعود نے کہا: انہوں نے قرآن مجید میں اس کو خلط کردیا جو اس میں نہیں ہے، تیسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن مسعود نے کہا: یہ دونوں کتاب اللہ سے نہیں ہیں، چوتھی روایت میں ہے کہ حضرت ابن مسعود نے کہا: جو قرآن میں نہیں اسکو قرآن کے ساتھ خلط نہ کرو، یہ دونوں پناہ طلب کرنے کی دعائیں ہیں اور نبی ﷺ نےا ن دعاوں کے ذریعے پناہ طلب کی ہے ۔ (المعجم الکبیر ج ۹ ص ۲۳۵ دار احیا التراث العربی بیروت)۔
جواب
جواب
اس اشکال کے جواب میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں؛
علامہ نووی نے اسکے جواب میں شرح المہذب میں لکھا ہے کہ تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ معوذتین اور سورہ فاتحہ قرآن مجید میں شامل ہیں اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کا بھی انکار کرے وہ کافر ہے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو معوذتین کے قرآن ہونے کا انکار منقول ہے وہ نقل باطل ہے اور روایت صحیح نہیں ہے۔ شیخ ابومحمد بن حزم نے بھی (محلیٰ) میں اس روایت کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ امام رازی نے بھی تفسیر کبیر میں اس نقل کو جھوٹ اور باطل قرار دیا ہے۔ حافظ عسقلانی فرماتے ہیں کہ اگر بالفرض یہ روایات صحیح ہوں تو ان کی توجیہ یہ ہے کہ ہرچند کے حضرت ابن مسعود کے نزدیک معوذتین کا قرآن ہونا ثابت تھا لیکن ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے معوذتین کا قرآن مجید میں لکھوانا ثابت نہیں تھا (اگرچہ دوسرے صحابہ کے نزدیک لکھوانا بھی ثابت تھا) اسلیئے حضرت ابن مسعود (رض) معوذتین کے لکھنے پر رد فرماتے تھے۔ امام رازی نے یہ جواب دیا ہے کہ فی نفسہ اگرچہ معوذتین کا قرآن ہونا متواتر ہے لیکن حضرت ابن مسعود (رض) کے نزدیک یہ متواتر نہیں ہے۔
فتح الباری ج ۸ ص ۴۴۲، ۴۴۳ دارنشر الکتب الاسلامیہ لاہور
علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ شرح مواقف میں ہے قرآن مجید کی بعض سورتوں میں جو بعض صحابہ کا اختلاف منقول ہے وہ اخبار آحاد سے منقول ہے اور ان سورتوں کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہے اور آحاد میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ تواتر کے مزاحم ہوسکیں اور نہ ظن ، یقین کے معارض ہوسکتا ہے۔ (بحوالہ روح المعانی ج ۳ ص ۲۷۹ داراحیا التراث العربی بیروت)
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ نے حافظ الہیثمی سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے یا ثقہ ہے، اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ نقل باطل ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ صرف سند کے صحیح ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ حدیث کی سند صحیح ہو اور اسکے متن میں کوئی علت خفیہ قادحہ ہو اور وہ حدیث معلل ہو یا اس میں شذوذ ہو اور وہ حدیث شاذ ہو اور یہ دونوں امر صحت حدیث کے منافی ہیں۔ یہ حدیثِ شاذ اسلیئے ہے کہ یہ زیادہ صحیح راویوں کی روایت کے خلاف ہے۔
امام مسلم روایت کرتے ہیں: حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آج رات مجھ پر ایسی آیات نازل کی گئی ہیں جن کی مثل نہیں دیکھی گئی (قل اعوذ برب الناس) اور (قل اعوذ برب الفلق) (بحوالہ صحیح مسلم ج ۱ ص ۲۷۲)
اس حدیث کو امام ترمذی نے بھی روایت کیا ہے بحوالہ جامع ترمذی ص ۴۸۵
اور عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث میں خفیہ علت یہ ہے کہ یہ تواتر اور اجماع مسلمین کے خلاف ہے ، لہٰذا یہ حدیثِ شاذ یا معلل ہے، اسلیئے یہ حدیث غیرصحیح اور غیر معتبر ہے اور لائقِ استدلال نہیں ہے۔
ایک اور توجیہ یہ کی گئی ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے معوذتین کے قرآن ہونے کا انکار اسوقت کیا تھا جب انہیں ان کے قرآن ہونے کا علم نہیں ہوا تھا اور جب ان کو ان کے قرآن ہونے کا علم ہوگیا اور تواتر اور اجماع سے ان کا قرآن ہونا ثابت ہوگیا تو حضرت ابن مسعود (رض) بھی معوذتین کے قرآن ہونے پر ایمان لے آئے، اور اسکی دلیل یہ ہے کہ عاصم کی قراٗت از زرعہ از ابن مسعود ہے اور اس میں سورہ فاتحہ بھی ہے اور معوذتین بھی ہیں، اور یہ چیز سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن مسعود (رض) سے ثابت ہے۔
حضرت ابن مسعود نے جسطرح معوذتین کو اپنے مصحف میں نہیں لکھا تھا اسی طرح انہوں نے سورہ فاتحہ کو بھی اپنے مصحف میں نہیں لکھا تھا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ سورہ فاتحہ کا ان کے نزدیک قرآن ہونا اسقدر جلی اور واضح تھا کہ اس کو لکھ کر محفوظ کرنے کی ان کے نزدیک ضرورت نہیں تھی، کیونکہ سورہ فاتحہ کو ہرنماز میں پڑھا جاتا ہے، سو اسطرح کی توجیہ معوذتین کے متعلق بھی کی جاسکتی ہے، تاہم قطعی اور یقینی بات یہ ہے کہ سورہ فاتحہ اور معوذتین کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہے اور حضرت ابن مسعود (رض) کا انکار خبر واحد سے ثابت ہے اور خبر واحد خبر تواتر کے مزاحم نہیں ہوسکتی۔
چوتھا اعتراض: یہ ہے کہ حضرت ابی بن کعب نے اپنے مصحف میں دعائے قنوت (اللھم انا نستعینک ونسغفرک الخ) بھی لکھی ہوئی تھی اور اسک نام سورہ خلع اور سورہ حفد رکھا تھا اور موجودہ قرآن میں یہ سورت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میں کمی بیشی ہوئی ہے۔
حافظ الہیثمی بیان کرتے ہیں کہ ہم کو امیہ بن عبداللہ بن خالد نے خراسان میں نماز پڑھائی اور دو سورتوں میں سے (انا نسعینک) پڑھا ، اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اسکے رجال صحیح ہیں۔ (حوالہ ۔ مجمع الزوائد ج ۷ ص ۱۵۷ دارالکتاب العربی)
حافظ سیوطی لکھتے ہیں؛
حضرت ابن مسعود (رض) کے مصحف میں ایک سوبارہ سورتیں تھیں کیونکہ انہوں نے معوذتین کو نہیں لکھا، اور حضرت ابی بن کعب کے مصحف میں ایکسو سولہ سورتیں ہیں کیونکہ انہوں نے قرآن مجید کے آخر میں دو سورتیں حفد اور خلع لکھی ہیں۔
امام ابوعبید نے ابن سیرین سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابی بن کعب نے اپنے مصحف میں فاتحۃ الکتاب، معوذتین اور (قنوت) لکھا۔ حضرت ابن مسعود نے ان کو ترک کردیا اور حضرت عثمان نے ان میں سے فاتحۃ الکتاب اور معوذتین کو لکھا (الاتقان ج ۱ ص ۶۵ سہیل اکیڈمی لاھور)
حافظ سیوطی نے اپنی تفسیر کے آخر میں سورۃ الخلع اور سورہ الحفد سے متعلق روایات جمع کی ہیں (الدر المنثور ج ۶ ص ۴۲۰، ۴۲۱ مکتبہ آیۃ اللہ العظمیٰ ایران)
جواب؛
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ قرآن مجید اللہ کے اس مجموعہ کلام کا نام ہے جو تواتر سے ثابت ہے اور سورہ خلع اور سورہ حفد اخبارِ آحاد سے ثابت ہیں لہٰذا یہ قرآن نہیں ہیں اور حضرت ابی بن کعب کی طرف سے توجیہ یہ ہے کہ وہ ان کو بہ طورِ قنوت اور دعا کے اپنے مصحف میں لکھتے تھے بہ اعتبارِ قرآن کے نہیں لکھتے تھے
جاری ہے
جاری ہے